Sunday 17 October 2021

فتوے باز دیابنہ اور وہابیہ سے چند سوال ؟

0 comments

 فتوے باز دیابنہ اور وہابیہ سے چند سوال ؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارٸینِ کرام : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی عرض کرتا ہے کہ : لفظ بدعت جو کتابوں میں لکھا ہوتا ہے ایسا واضح ہے کہ جس نے فقہائے کرام کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا وہ ضرور اس لفظ کے صحیح مفہوم سے واقف ہوگا لیکن اس پرفتن زمانہ میں دو لفظ (1) بدعت (2) شرک ایسے ہر کسی کی زبان پر جاری ہیں کہ اس کی مثال پہلے نہیں دیکھی ۔ ان وہابیوں ، دیوبندیوں کو اس کا صحیح مطلب معلوم نہیں یا پھر یہ جان بوجھ کر بدعت اور شرک کا غلط معنی بتاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو مطلب ان دو لفظوں (بدعت اور شرک) کا اس زمانے میں وہابیوں ، دیوبندیوں نے لیا ہے وہ بالکل اس مطلب کے خلاف ہے جو فقہائے کرام وغیرہم نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔ آپ دیکھیں کہ اسلام کو چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا ہے ، تمام صحابہ کرام رضوان ﷲ علہم اجمعین اور ان کے بعد غوث قطب ابدال ہمیشہ یہ حضرات یہی فرماتے رہے کہ ﷲ عزوجل کے ذکر کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ذکر کا مرتبہ ہے اور رسول ﷲ کی تعظیم اور آپ کی محبت تمام امت پر واجب اور مدارِ ایمان ہے لیکن تیرہ سو چون (1354) سال کے بعد دیوبندی وہابی فرقوں نے بدعت اور شرک کا بہت عجیب اور نرالا مطلب نکالا ہے ۔


یہ مطلب نہ ان کانوں نے کبھی سنا تھا اور نہ ان آنکھوں نے دیکھا تھا ۔ آپ دیکھیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ذکر کا مرتبہ ﷲ کے ذکر کے بعد ہے لیکن دیوبندی وہابی اسے بدعت کہتے ہیں ۔ وہ بھی محض دو وجہ سے ، ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب کسی سنی بھائی نے اپنے ہاں میلاد کروایا (جس کو دوسرے معنوں میں ذکر رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم بھی کہتے ہیں) اور میلاد میں روشنی کی اس روشنی کی وجہ سے دیوبندیوں ، وہابیوں نے اس پر فضول خرچی ہونے کا حکم صادر کردیا اور اگر ربیع الاول کے مہینے میں کیا تو اس کو تخصیص یعنی اس مہینے میں خاص کرنے کی وجہ سے بدعت کہا۔ یہ دو وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ذکر رسول ک حرام قرار دیا گیا ۔ رہا مسئلہ قیام میلاد کا جو کہ اصل میں تعظیم رسول ہے، اس کو شرک قرار دے دیا لیکن ﷲ تعالیٰ اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والا ہے ۔


اسی لیے ﷲ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے ایک ہستی قبلہ عالم اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کو مامور فرمایا ۔ متاخرین میں ایسی ہستی دیکھنے میں نہیں آئی۔ آپ چونکہ عاشق خدا و عزوجل مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم تھے، دیوبندیوں، وہابیوں کی گستاخانہ تحریروں کو دیکھ کر چپ نہ رہ سکے۔ اس لئے آپ ہر باطل مذہب کا رد کیا لیکن دیوبندیوں کا وہابیوں کا رد ایسا لاجواب کیا کہ اعلیٰ حضرت کی زندگی میں کسی کو اس کا جواب لکھنے کی جرات نہ ہوئی۔ آپ کے وصال کے بعد دیوبندیوں، وہابیوں نے سوچا کہ اب کوئی جواب دینے والا نہیں اور اہل سنت و جماعت پر اعتراضات شروع کردیئے۔ جب حد سے زیادہ اعتراضات ہوگئے تو اس فقیر نے اس بات کا ارادہ کیا کہ جو شخص یا فرقہ حضور پرنور فخر موجودات سلطان دوسرا سرور کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی شان مبارک میں گستاخی کرے گا جب تک میری زندگی باقی ہے اس کے رد میں ان شاء ﷲ میرا قلم چلتا رہے گا اور ہر وہ مسئلہ جس میں ہمارے اور دیوبندیوں، وہابیوں کے درمیان اختلاف ہے، اس کو نہایت وضاحت سے لکھ کر مسلمانوں کے سامنے پیش کروں گا جس کو دنیا دیکھے گی کہ کون حق پر ہے۔ ان شاء ﷲ الغرض چند سوالات ہر اس شخص کو سامنے یہ فقیر پیش کرتا ہوں جوکہ دیوبندی وہابی خیالات رکھتا ہو ۔ امید ہے تسلی بخش جواب دیا جائے گا ۔


عیدین کی نماز کے بعد دعا اکابرِ دیوبند سے ثابت ہے ، اس لیے جائز ہے ۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند جلد پنجم صفحہ 178،چشتی)


دیوبند عیدین کی نماز کے بعد دعا زمانہ رسالت و صحابہ سے ثابت نہیں مگر اکابر سے ثابت ہونے کی وجہ سے جائز ہے تو پھر ہمارا سوال: جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم منانا جوکہ محدثین رحمہم اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے، اس پر بدعت کا فتویٰ کیوں ؟


سوال نمبر 1 : بدعت کس کوکہتے ہیں ؟


سوال نمبر 2 : کیا بدعت کی ایک ہی قسم ہے یا فقہا کے نزدیک اس کی چند قسمیں ہیں ؟


سوال نمبر 3 : کیا بدعت سیۂ کا کرنا ہی حرام ہے یا ہر بدعت کا یہی حکم ہے ؟


سوال نمبر 4 : کیا ہر وہ کام جس پر بدعت کا اطلاق ہوگا وہ حرام ہوگا یا نہیں ؟


سوال نمبر 5 : حدیث مبارکہ میں من سن سنۃ حسنۃ الخ (مشکوٰۃ شریف) کا کیا مطلب ہے ؟


سوال نمبر 6 : حدیث مبارکہ کل محدث بدعتہ وکل بدعتہ ضلالۃ اور سوال نمبر 5 کی ذکر کردہ حدیث میں کیا فرق ہے؟ اس احداث (نئے کام) سے کون سا احداث مراد ہے؟

ہر احداث (نیا کام) مراد ہے یا کوئی خاص احداث (نیا کام) ؟


سوال نمبر 7 : کیا ہر وہ کام جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے زمانہ اقدس میں نہ ہو آپ کے زمانہ اقدس کے بعد نکالا جائے وہ کل محدث کے تحت میں داخل ہوگا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں ؟


سوال نمبر 8 : کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے زمانہ مبارکہ میں ختم حدیث شریف کے بعد طلباء کو پگڑیاں پہنائی جاتی تھیں جیسے کہ آپ مدارس میں طلباء کو ختم حدیث شریف کے بعد پگڑیاں بندھوائیں جاتی ہیں یا نہیں ؟


سوال نمبر 9 : کیا زمانہ مبارکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں ختم حدیث کے بعد جبہ مبارک بھی دیا جاتا تھا؟ جیسا کہ آپ کے مدارس میں رواج ہے ؟


سوال نمبر 10 : کیا زمانہ اقدس میں حدیث شریف کے ختم ہونے پر سالانہ امتحان لیا جاتا تھا؟ جیسا کہ آپ کے مدارس میں نہایت اہتمام سے لیا جاتا ہے ؟


سوال نمبر 11 : اپنے مدرسہ میں ۷ دن پڑھا کہ آٹھویں دن جمعہ کی چھٹی دینا کیا یہ طریقہ زمانہ اقدس حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں بھی تھا ؟


سوال نمبر 12 : ختم حدیث شریف کے بعد آپ کے مدارس میں جو اسناد تقسیم کی جاتی ہیں، کیا یہ طریقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے زمانہ مبارک میں تھا یا نہیں ؟


سوال نمبر 13 : ہر سال شعبان کے مہینہ میں جلسہ کرنا اور علماء کو جمع کرنا، یہ طریقہ جلسے وغیرہ کا خاص سرکار مدینہ درود شریف کے زمانہ مبارک میں تھا یا نہیں ؟


سوال نمبر 14 : نکاح کے لئے خاص دن مقرر کرنا، تاریخ مقرر کرنا، اور خطوط بھیج کر لوگوں کو بلانا، کیا یہ طریقہ زمانہ نبوی درود شریف میں تھا یا نہیں؟ اور ایسی سنت جس میں بدعت شامل ہوجائے، اس کا کیا حکم ہے ؟


سوال نمبر 15 : علماء کے آنے پر بڑے بڑے اخبارات اور اشتہارات شائع کرنا اور ان میں ’’حد سے زیادہ بڑھا کر‘‘ علماء کے القاب لکھنا کیا یہ باتیں ان پابندیوں اور اہتمام سے زمانہ نبوی میں تھیں یا نہیں؟ اگر تھیں تو ثبوت دیجئے کیونکہ آپ صاحبان کا دعویٰ ہے کہ ہم وہی کام کرتے ہیں جو زمانہ مبارک میں ہوا ہو اور ہم بغیر سنت کے قدم نہیں اٹھاتے۔ اگر یہ باتیں زمانہ اقدس میں نہ تھیں اور بعد میں نکالی گئی ہیں تو فرمایئے کہ یہ طریقے آپ کے استدلال کل محدث بدعت کے تحت میں داخل ہوئے یا نہیں؟ اس دعوے سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ کے یہ جتنے کام جو اوپر بیان ہوچکے ہیں کل محدث بدعۃ کے تحت میں داخل ہیں۔ اس کے باوجود ان کو کرنا جن کی اصل کسی زمانہ میں بھی موجود نہیں تھی، بدعت ضلالۃ ہے یا نہیں اور اگر ان کاموں کا حدیث شریف میں الستثغا ہوتو وہ فرمادیجئے اور اگر بعض داخل اور بعض خارج ہیں تو پھر اہل سنت و جماعت کے ہر کام پر آپ کااس حدیث شریف کو پیش کردینا درست ہے یا نہیں ؟


سوال نمبر 16 : آپ (دیوبندی وہابی) کہتے ہیں کہ جو کام زمانہ نبوی میں جیسے تھا، ویسے ہی کرنا چاہے اس کو نئے اور مخصوص طریقے سے کرنا ناجائز ہے چنانچہ میلاد شریف اس کے باوجود کہ اس کی اصل زمانہ اقدس میں موجود تھی مگر مخصوص نہ تھی آپ نے اس کے باوجود کہ اﷲ کے ذکر کے بعد ذکر رسول کا درج ہہے بہت کم امور کی وجہ سے اس کو ناجائز کردیا جن امور کی وجہ سے اسے ناجائز کیا وہ یہ ہیں (1) وقت مخصوص کرنا (2) فرش وغیرہ بچھانا (3) ہار اور پھول لاکر مجلس میں رکھنا (4) محفل میلاد میں روشنی کرنا (5) لڑکوں کا نعتیں پڑھنا (6) یہ وہ کام ہیں جن کی وجہ سے محفل میلاد کو حرام کہا گیا حتی کہ یہاں تک بے ادبی کی کہ اس کو کنھیا (ہندو) کے جنم دن منانے کی طرح کہا حالانکہ (دیوبندی، وہابی) اس سے زیادہ کاموں کو مخصوص کرکے انجام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ علم زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سید پڑھنے یا پڑھانے کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں تھا لیکن دیوبندیوں نے اس علم کو اتنی قیدیوں میں مقید کیا کہ چار دیواریاں پکی بنوانا جس میں لاکھوں روپیہ خرچ ہوتا ہے جو بالکل سراسر فضول خرچی ہے اس کے اندر چند کمرے بنوانا اس میں قالین وغیرہ بچھانا پھر چند مولویوں کو چندہ جمع کرکے اس میں پڑھانے کے لئے مقرر کرنا پھر اس کو کسی زمانہ کے مخصوص کرنا صبح مثلا 10 بجے سے لے کر 2 بجے سے شام تک پڑھانا۔ غرض یہ ساری باتیں آپ نے اس علم کے ساتھ مخصوص کی ہیں۔ یہ زمانہ حضور اقدس میں انہیں پابندیوں اور اہتمام کے ساتھ تھیں یا نہیں؟ لہذا یہ پابندیاں اور اہتمام آپ کے نزدیک بدعت ہوئیں یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ پابندیان آپ کے قاعدے کے مطابق سخت بدعت ہوئیں اور بدعت کرنا آپ کے نزدیک حرام ہے یا نہیں ؟ تو فرمایئے کہ آپ کے مدارس بدعت ہوئے یا نہیں ؟ اگر یہ پابندیاں اور اہتمام آپ کے مدارس میں جائز ہیں تو میلاد شریف ان امور کی وجہ سے کیوں ناجائز اور حرام ہے ؟

ان دونوں میں فرق اور وجہ ترجیح تفصیل سے بیان کریں ۔


سوال نمبر 17 : جب کوئی آپ پر اعتراض کرتا ہے تو اس کے جواب میں آپ کا آخری جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم ان باتوں کو عادتاً کرتے ہیں اور تم میلاد شریف عبادتاً کرتے ہو لہذا ہمارے کام جائز اور تمہارے ناجائز ہیں لہذا آپ کے اس جواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب محض مسلمانوں کو دکھانے کے لئے گڑھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر یہ بات ثابت نہ ہو کہ دیوبندی وہابی لاجواب ہوگئے ہیں۔ تمہارے اس جواب میں چند اعتراضات لازم آتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ اس جواب سے معلوم ہوتا ہ ے کہ آپ کے نزدیک جو کام عادتاً کیا جائے اگرچہ وہ شریعت میں منع ہو تب بھی اس کا کرنا جائز ہے لہذا اگر کوئی شخص زنار (یعنی وہ دھاگا جو ہندو گلے اور بغل کے درمیان ڈالے رہتے ہیں) پہنے اور آپ سے فتویٰ طلب کرے کہ میں ان چیزوں کو عادتاً کرتا ہوں میرے لئے جائز ہے یا نہیں؟ تو آپ اس کو جائز کہیں گے؟ اگرآپ کے نزدیک یہ کام بصورت فتویٰ جائز ہوسکتے ہیں، تب تو پھر ایک اور نئی شریعت بنانی پڑے گی اور پہلے علماء کے تمام فتاویٰ جات آپ کو دریا میں پھینکنے پڑیں گے چنانچہ آپ نے ایک نئی شریعت اور نیا دین تعظیم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے خلاف کھینچ تان کر نکال ہی لیا کیونکہ جن کی تعظیم تمام انبیاء اور رسل اور ملائکہ حتی کہ تمام کائنات نے کی تھی۔ ان کی تعظیم تو آپ کے نزدیک فضول کام ہے اور جو کام شریعت میں منع ہو پھر اس کو عادتاً کرنا کیسے جائز ہے؟ اس واسطے کہ جیسے پکڑ عبادت میں ہے، ویسے ہی عادت میں بھی ہے دوسری بات یہ کہ حدیث کل محدث بدعۃ (ہر نیا کام بدعت ہے) کا مطلب عام ہے اس میں تمام نئے کام (خواہ وہ عادتاً ہوں یا عبادتاً) شامل ہیں۔ حدیث پاک جوکہ واضح ہو اس میں اپنی رائے سے پابندی لگانا باطل ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر آپ کہیں کہ اس کے برعکس عبادت اور عادت میں یہ فرق ہے کہ عبادت میں ثواب ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس عادت میں ثواب نہیں ہوتا تو مجھے بتایئے کہ اگر کوئی آدمی اپنے بچوں کے کانوں میں کوئی زیور پہنا دے اور کہے کہ میں عادتاً اس کو پہناتا ہوں تو کیا اس کا یہ کام آپ کے نزدیک جائز ہوگا ؟ چوتھی بات یہ کہ اگر آپ کی مراد عادت اور عبادت سے یہ ہے کہ ان کاموں کو ہم رسماً کرتے ہیں تو جواب دیجئے کہ آپ کے بیان سے کیا رسموں کا کرنایا ان کی پیروی کرنا جائز ہے یا ناجائز ؟ حالانکہ آپ کی کتابوں میں رسموں کاکرنا اوران کی پیروی کرنا بالکل ناجائز اور حرام ہے پھر یہاں کیوں ان رسموں کا کرنا یا ان کی پیروی جائز ہوئی ؟ اگر آپ اس کا جواب یوں دیں کہ ہمارے یہاں رسوم جاہلیت کا کرنا اور ان کی پیروی کرنا منع ہے، بزرگوں کی رسم کی پیروی کرنا ہمارے یہاں منع نہیں، ان کاموں میں ہم رسم بزرگان کی پیروی کرتے ہیں، حالانکہ کسی کام میں پابندی اور اہتمام بدعت ہے۔ اس کے باوجود رسم صالحین پابندیوں اور اہتمام کے باوجود درست ہے۔ تو بتایئے کہ میلاد شریف (جوکہ اصل میں ذکر رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہے اس سے زائد کون سا کارخیر ہے اور کون سی رسم صالحین ہوسکتی ہے جس پر تمام حرمین شریفین کے علماء اور تمام امت متفق ہے) کو کیوں حرام کردیا؟ آپکے نزدیک تلک ہندو کی برسی میں شامل ہونا(جوکہ ﷲ و رسول اور دین اسلام کا بدترین دشمن تھا) اور ہندوئوں کے لیڈروں کی دہلی کی جامع مسجد کے ممبروں پر چڑھ کر تعریفیں کرنا جائز ہے اور میلاد رسول آپ کے نزدیک ایک فضول کام ہے (نعوذ باﷲ) یہ فقیر کہتا ہے کہ جومولوی صاحبان دین فروش ہیں ایسے علماء کا مسلمانوں کو خطاب سننا اور ان کی پیروی کرنی حرام ہے، ایسے ہی ہر اس عالم کا ذکر ہے جو کسی کافر سے ملے ۔


سوال نمبر 18 : آپ (دیوبندی و وہابی) کہتے ہیں کہ یہ کام عادتاً اور عبادتاً ناجائز ہیں ۔ کسی خاص مہینے یا تاریخوں میں کوئی کام کرنا بدعت ہے چنانچہ میلادشریف کو آپ نے صرف ربیع الاول کے مہینے میں کرنے کی وجہ سے ناجائز قرار دیا اور جس شخص نے اس میں اپنی ذاتی کمائی کے ثند روپے خرچ کئے، اس پر آپ نے فضول خرچی کا حکم دے دیا لہذا یہ دوسری وجہ ہے اس کے حرام ہونے کی، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دیوبندی اس سے زیادہ پابندی اور اہتمام سے فضول خرچی کرتے ہیں مگر وہ تمام کام یا تو مستحب تصور کرتے ہیں یا فعل مسنون جن کو پابندی سے کرتے کئی سال گزر گئے ۔ یہ فقیر ان کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ ملاحظہ ہو۔ شعبان کے مہینے میں جلسہ کرنا اور طلباء کے لئے چندہ مانگا جاتا ہے اس چندے سے بڑے بڑے اشتہارات چھپوانا جس میں ہزاروں روپیہ فضول خرچ ہوتا ہے۔ ان پیسوں سے جلسہ میں کرایہ کی کرسیاں لاکر ڈالنا، بڑے بڑے شامیانے لگوانا لوگوں کو دکھانے کے لئے، اعلیٰ فرض بچھانا، بجلی کی روشنی کرانا اب آپ ہی بتایئے کہ یہ پابندیاں اور اہتمام ہیں یا نہیں ؟ اور یہ سب فضول خرچی ہیں یا نہیں ؟ اور یہ بدعات ہیں یا نہیں؟ اب ملاحظہ کریں کہ وہ چندہ جو طلباء کا حق ہے اس سے علماء کو سفر کےلیے پیسے دینا اور علماء کا س خرچ کو لینا جائز ہے یا نہیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ مانگا کسی اور کام کے لئے جائے اور خرچ کہیں کیا جائے ، کیا یہ خدا کی مخلوق کے سامنے جھوٹ بول کر لینا ہے یا نہیں ؟ بتایئے کہ دیوبندیوں، وہابیوں کے جلسوں میں ایسے ناجائز کام جمع ہیں مگر ہمیشہ ان کو نہایت اہتمام سے کیا جاتا ہے۔ ان کے جلسوں میں سب پابندیاں اور اہتمام مستحب ہیں لیکن میلاد شریف میں ایک پابندی بھی آپ کے نزدیک اس قدر حرام ہے کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے اپنے جلسوں اور محافل میلاد میں وجہ فرق بتایئے۔


سوال نمبر 19 : حدیث شریف پڑھا ذکر رسول ہے یا نہیں؟ اگر آپ کے نزدیک یہ بھی ذکر رسول ہے تو بتایئے کہ اس کے لئے اہتمام کرنا فرش بچھانا، جگہ صاف کرانا، خاص کمرے مخصوص کرنا (جن کو دارالحدیث کہتے ہیں) حرام ہے یا نہیں؟ اگر یہ اہتمامات اس اس ذکر رسول میں کرنا حرام نہیں تو فرمایئے کہ میلاد شریف آپ کے نزدیک اہتمام سے کرنا کیوں حرام ہوا، وجہ فرق بتایئے۔


سوال نمبر 20 : حدیث شریف پڑھانا ذکر رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہے یا نہیں۔ اس کو آپ صاحبان عبادتاً کرتے ہیں یا عادتاً ؟ اگر آپ نے اس کو عادتاً کیا اور اس سے آپ کو ثواب مطلوب نہیں تھا۔ تب بھی بتایئے اور اگر آپ نے اس فعل کو ثواب کی نیت سے کیا تو معلوم ہوا کہ آپ بھی ذکر رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم بغرض ثواب کرتے ہیں۔ تب تو یہ عبادت بھی شامل ہوا، پوچھنا یہ ہے کہ اگر کسی نے میلاد شریف بغرض ثواب کیا تووہ کیوں عبادت میں شامل ہوکر حرام ہوگیا اور حدیث شریف بھی ذکر رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہے۔ یہ بطور عبادت کیوں جائز کرلیا گیا ہے ؟


سوال نمبر 21 : آپ (دیوبندی، وہابی) صاحبان سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مدارس میں خرچ کیوں کرتے ہو۔ یہ فضول خرچی نہیں ہے؟ تو آپ اس کا جواب دیتے ہیں کہ یہ دین کا کام ہے۔ اس لئے نیک کام کرنے میں خرچ کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذکر رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم آپ کے نزدیک دنیا کا کام ہے اور فضول کام ہے؟ کہ جس میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا فضول خرچی ہے، اس کام کو کیا الفاظ دیئے جائیں۔


سوال نمبر 22 : سوئم کہلواتے اور چالیسویں کے کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟


کیا آپ جیسے علماء کو جو ’’صاجی بدعت‘‘ اس کا کھانا جائز ہے ؟ اور غرباء کو اس کا کھانا حرام ہے ؟ یہ سوال یوں پیدا ہوا کہ اس فقیر نے بچشم خود سوئم اور چالیسویں کا کھانا (ان کو) کھاتے دیکھا ہے جس کا کھانا اغنیاء کو بالکل حرام ہے، تفصیلی جواب دیں۔


سوال نمبر 23 : کیا تعویذ گنڈوں کے بہانے سے لوگوں سے روپیہ لینا جائز ہے یا نہیں ؟


سوال نمبر 24 : جب انبیاء علیہم السلام کو باری تعالیٰ مخلوقات پر بھیجتا ہے تو اس وقت حق تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کو کوئی صلاحیت اور قابلیت ایسی عطا فرمائی جاتی ہے جس سے وہ علوم اور حقائق بغیر فرشتوں کے دریافت کرسکتے ہیں یا نہیں؟ یا انبیاء علیہم السلام فرشتوں کے رحم پر چھوڑے جاتے ہیں کہ اگر فرشتے ان کے کان میں کچھ کہہ دیں تب تو ان کو خبر ہوجاتی ہے اور بغیر فرشتوں کے بالکل بے خبر اور ہر علم سے مبرا ہوتے ہیں جیسا کہ آپ کے عقائد سے بالکل واضح ہے ۔


سوال نمبر 25 : خاص کر شعبان کے مہینے میں جلسہ معہ اہتمام اور پگڑیاں وغیرہ بندھوانا یہ تمام افعلا آپ صاحبان کے فعل مباح ہیں یا مستحب یا واجب ؟ اگر مستحب یا واجب ہیں تو دلیل دیجئے اور اگر فعل مباح ہیں تو ان افعال کوہر سال الترام سے کرنا سنت یا واجب ہونے کا شبہ ڈالتا ہے یا نہیں ؟ لہذا ان کا چھوڑنا لازم ہے یا نہیں۔


مقلد اور غیر مقلد وہابیوں کی بدعات


علمائے اہل سنت و جماعت کے عقائد و نظریات قرآن و سنت کے عین مطابق ہیں ، کوئی بھی موضوع اٹھا کر دیکھ لیجیے ہر ہر موضوع پر علماے اہل سنت نے قرآن و سنت سے دلائل اپنی اپنی کتب و رسائل میں پیش فرما دیے ہیں ۔لیکن مخالفینِ اہل سنت نے ہمیشہ آنکھیں بند کر کے اعتراضات و الزامات کا سلسلہ جاری رکھا ،انہی سلسلوں میں ایک ’’بدعت‘‘ کا مسئلہ بھی بڑا اہم ہے ۔ بات ہو یا نہ ہو بس مخالفین کی زبان سے بدعت کا فتویٰ گولی کی طرح نکلے گا ، لیکن ان لوگوں کی اپنی حالت یہ ہے کہ خود جو مرضی ہے کریں نہ بدعت نظر آئی گی نہ قرآن و سنت کا مطالبہ ،نہ خیر القرون سے ثبوت یاد آتا ہے اور نہ ہی وہ تمام اصولِ بدعت جن کی بنیاد پر سنیوں کو بدعتی و جہنمی قرار دیا جاتا ہے ۔ [معاذ اللہ عزوجل] آج ہم آپ کے سامنے مخالفینِ اہل سنت کے اصولوں کے تحت ہی انہی کی چند بدعات و خرافات کو پیش کریں گے ، کہ وہ لوگ جو ہم سنیوں کو بدعتی بدعتی کہتے نہیں تھکتے خود کتنی بدعات کا شکارہیں ۔لیکن اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے ۔


غیر کی آنکھوں کا تنکا تجھ کو آتا ہے نظر

دیکھ اپنی آنکھ کا غافل ذرا شہتیر بھی


دیوبندیوں کے نزدیک صرف دو چار چیزیں ہی بدعت ہیں : علمائے دیوبند کے نزدیک صرف اہل سنت و جماعت [سنیوں] ہی کی دو چار چیزوں پر بدعت کے فتوے جاری ہوتے ہیں باقی وہابی خود جو مرضی ہے کریں سب جائز ہو جاتا ہے ۔


حتیٰ کہ داڑھی منڈے دیوبندی وہابی حضرات بھی ذکر رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی محافل کو بدعت بدعت کہتے دیکھائی دیں گے لیکن خود ان کو اپنا بدعتی چہرہ نظر تک نہیں آتا، داڑھی منڈانے پر ان کو بدعت و حرام کے فتوے بھول جاتے ہیں لیکن سنی ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی محافل کا انعقاد کریں تو یہ ان کو بدعت نظر آتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بڑے بڑے علمائے دیوبند کو میلاد ، فاتحہ کے علاوہ باقی کچھ بدعت نظر نہیں آتا ۔ چنانچہ خود علماء دیوبند کے حکیم اشرفعلی تھانوی کہتے ہیں کہ : میں چاہتا ہوں کہ دین اپنی اصلی حالت پر آ جائے مگر اکیلے میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔جو لوگ متبع سنت ہیں اور اپنی ہی جماعت [دیوبندی فرقے] کے ہیں اُن کے یہاں بھی بس یہی دو چار چیزیں تو بدعت ہیں جیسے مولد کا قیام۔ عرس ۔ تیجا ۔دسواں ۔اس کے علاوہ جو اور چیزیں بدعت کی ہیں اُنہیں وہ بھی بدعت نہیں سمجھتے ۔چاہیے وہ بدعت ہونے میں اُن سے بھی اشد ہوں۔مثلاََ بیعت ہی کو دیکھئے جس ہےئت اور جس عقیدہ سے آج کل لوگ اس کو ضروری سمجھتے ہیں وہ بالکل بدعت اور غلط عقیدہ ہے لیکن کسی سے کہیں تو سہی ، اپنی ہی [دیوبندی] جماعت کے لوگ مخالفت پر آمادہ ہو جائیں ۔ (الافاضات الیومیہ جلد دہم صفحہ نمبر 13۔چشتی) 


اہل دیوبند کے امام و حکیم اشرف علی تھانوی کے اس دو ٹوک اعلان سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ وہابی دیوبندی مذہب میں صرف میلاد و فاتحہ جیسے کام ہی پر بدعت بدعت کے فتوے لگائے جاتے ہیں ۔ ان کاموں کے علاوہ دیوبندی خود جو مرضی ہیں کرتے رہیں لیکن ان کو بدعت نہیں کہتے ، چاہیے وہ اصولِ وہابیہ کے مطابق بدعت ہونے میں میلاد و فاتحہ سے بھی اشد ہی کیوں نہ ہوں ۔


اسی طرح ایک غیر مقلد اہلحدیث ابو مسعود عبد الجبار سلفی نے کتاب لکھی ، جس میں انہوں نے اپنے ان وہابیوں کا رد کیا جو نمازکے بعد اجتماعی دعا کو بدعت کہتے ہیں ۔ ابو مسعود عبد الجبار سلفی کی اس کتاب کے بارے میں ان کے اپنے اہلحدیث علامہ تبصرہ کرتے ہیں کہ : انہوں [ابو مسعود عبد الجبار سلفی] نے بہت سے ایسے مسائل کی فہرست پیش کی ہے ۔جن پر تمام اہل حدیث حضرات عمل کرتے ہیں ، اور ان مسائل پر بھی استدلال کی فنی نوعیت ویسے ہی ہے جیسا فرض نما زوں کے بعد دعائے اجتماعی کی ہے ۔ مثلاََ انھوں نے دعائے اجتماعی کے منکرین اور اسے بدعت قرار دینے والوں سے یہ استفسار کیا ہے کہ وہ بتائیں کہ نما تروایح میں سیپارہ یا سوا سیپارہ متعین کرکے مسلسل ایک مہینہ تک قرآن مجید کو پڑھنے کی کیا دلیل ہے اور بالخصوص ستائیسویں شب کو جو خصوصی اہتمام پورے عالم اسلام بشمول حرمین شریفین میں کیا جاتا ہے اس کا شرعی جوازکیاہے؟ اس طرح قنوت و تر میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی شرعی نوعیت کیا ہے؟ہمارے ہاں نماز جمعہ کی جماعت میں دوسری رکعت میں ہاتھ اٹھا کر جو قنوت نالہ پڑھی جاتی ہے اس کا استشہاد کہاں سے ملتا ہے ۔ ان دنوں بہت سے بستیوں اور مقالات پر باقاعدہ اعلان کر کے شہداء کی نماز جناہ پڑھائی جاتی ہے ۔اس غائبانہ نماز جنازہ کا مستقل عمل اور رویہ ازروئے شریعت کیا مقام رکھتا ہے ؟ ہمارے ہاں مرکزی مساجد کی موجودگی میں محلوں اور بستیوں کی چھوٹی چھوٹی مساجد میں جو نماز جمعہ کا اہتمام کیااہتمام کیا جاتا ہے اس کی مشروعیت بھی محل نظر ہے ۔ فاضل مرتب [یعنی ابو مسعود عبد الجبار سلفی] نے اس ضمن میں چند مزید سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ جن پر ہر جگہ عمل ہو رہا ہے اور ان کے لئے کوئی شرعی دلیل واضح طور پر ہمارے سامنے ادلہ شرعیہ میں موجود نہیں ہے ۔ مثلاََقرآن و سنت کی تعلیم پر اجرت کا وصول کرنا کیسا ہے اور کیا صفہ کے مدرسے کے طلبہ کے لئے بھی ایسے ہی قربانی کی کھالوں اور فطرانے کا نظام اختیار کیا جاتا تھا۔کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے عہد مبارک میں ظلم و ستم کے واقعات کے نتیجے میں جمعۃ المبارک کی نماز کی دوسری رکعت میں قنوت نازلہ پڑھی جاتی تھی۔اس نوعیت کی بعض دیگر مثالیں دے کر مانعین دعا اجتماعی سے استفسار کیا گیا ہے کہ ان کے پاس مذکورہ مسائل یا اس نوعیت کے دوسرے مسائل میں جو طرز عمل انھوں نے اختیار کیا ہے اس کا شرعی جواز اور استدلا ل کیا ہے ۔ (نماز کے بعد دعائے اجتماعی ص ۱۲،۱۳۔چشتی)


دیکھیے کہ خود وہابی مولوی صاحب اپنے ہی وہابیوں کے بہت سارے کاموں کے بارے میں ان سے سوالات کر رہا ہے کہ تم خود وہابی جو کام کر رہے ہو،ان کا ثبوت کہاں ہے؟یعنی یہ بدعت کیوں نہیں؟لیکن ایسے کاموں کو وہابی بدعت نہیں کہتے بلکہ بڑی خوشی سے عمل پیرا ہیں ،ہاں بدعت کے فتوئے تو وہابیوں نے صرف سنیوں کے لئے سنبھال رکھے ہوتے ہیں ۔


بہرحال میر ے مسلمان سنی بھائیو ! علماۓ وہابیہ بدعت کی جو تعریفیں بیان کرتے ہیں اور جو خود ساختہ بدعتی اصول پیش کرتے ہیں انہی تعریفوں و اصول کے پیش نظر آج ہم آپ کے سامنے علماے وہابیہ کی چند باتوں کا ذکر کرتے ہیں جو کہ خود انہی کے قائم کردہ اصولوں اور تعریفوں کے تحت بدعت ضلالہ کے زمرے میں آتی ہیں ۔ اور ان کے اصولوں کے مطابق ان کا ثبوت قرآن و سنت ، نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ۔ خلفائے راشدین ، صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین، تابعین عظام علہیم الرضوان اجمعین ، خیر القرون سے ہرگز ہرگز نہیں ملتا ۔ یعنی علماے وہابیہ کے پیش کیے جانے والے یہ تمام کام نہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے ثابت ہیں ، نہ صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین سے ثابت ہیں اور نہ ہی تابعین علہیم الرضوان اجمعین سے ثابت ہیں لیکن علماے وہابیہ جھوم جھوم کر ان پر عمل کرتے نظر آتے ہیں ۔جیسا کہ ہم نے اس کتابچہ میں علماے وہابیہ کی متعدد بدعات کا ذکر کیا ہے جن کا ثبوت اصول وہابیہ کے مطابق ہرگز ہرگز موجود نہیں ۔


اتنی نہ بڑھا پاکٸ داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ ، ذرا بند قبا دیکھ


نوٹ : دیابنہ اور وہابیہ کو بغض صرف اہلسنت و جماعت اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے ہے خود سب کچھ کریں تو جائز اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور مسلمانان اہلسنت پر بدعت کے فتوے ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر یہ دہرا معیار و منافقت کیوں ؟ علمی جواب کا منتظر : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔