میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر شیطان رویا ، چیخا اور چلایا
محترم قارئینِ کرام : امام یوسف صالح شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرت خیر العباد جلد اول باب سوم کا ترجمہ)
امام ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 430 ہجری لکھتے ہیں :ابلیس(شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (حلیۃ الاولیاء جز ثالث صفحہ نمبر 299 عربی)
علامہ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ میں لکھتے ہیں : أَنَّ إِبْلِیسَ رَنَّ أَرْبَعَ رَنَّاتٍ حِینَ لُعِنَ، وَحِینَ أُہْبِطَ، وَحِینَ وُلِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَحِینَ أُنْزِلَتِ الْفَاتِحَۃُ ۔
ترجمہ : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (بحوالہ البدایۃ والنہایۃ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 391،چشتی)
علامہ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ میں لکھتے ہیں : أَنَّ إِبْلِیسَ رَنَّ أَرْبَعَ رَنَّاتٍ حِینَ لُعِنَ، وَحِینَ أُہْبِطَ، وَحِینَ وُلِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَحِینَ أُنْزِلَتِ الْفَاتِحَۃُ ۔
ترجمہ : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (بحوالہ البدایۃ والنہایۃ مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 723)
علامہ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ میں لکھتے ہیں : أَنَّ إِبْلِیسَ رَنَّ أَرْبَعَ رَنَّاتٍ حِینَ لُعِنَ، وَحِینَ أُہْبِطَ، وَحِینَ وُلِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَحِینَ أُنْزِلَتِ الْفَاتِحَۃُ ۔
ترجمہ : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (بحوالہ البدایۃ والنہایۃ مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 166،چشتی)
امام ابو طاہر بن یعقوب فیروز آبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :ابلیس(شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (بصائر ذوی التمیز فی لطائف کتاب العزیز جلد نمبر 1صفحہ 132)
امام ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ابلیس(شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (لطائف المعارف صفحہ نمبر 334،چشتی)
امام محمد بن عبد اللہ شبلی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (آکام المرجان فی احکام الجان صفحہ نمبر 179)
امام محدث عبد الرّحمٰن سہیلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ابلیس (شیطان) چار بار بلند آواز سے رویا ہے ، پہلی بارجب اللہ تعالیٰ نے اسے لعین ٹھہرا کراس پر لعنت فرمائی ، دوسری بار جب اسے آسمان سے زمین پر پھنکا گیا ، تیسری بار جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت ہوئی ، چوتھی بار جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ (الرّوضُ الاُنُف فی شرحالسّیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 149 عربی)
امام المفسرین و مشہور تابعی امام مجاہد المتوفی 122 ھ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد محترم مشہور صحابی رسول مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آپ نے فرمایا : بے شک ابلیس یعنی شیطان چار بار غم اور حزن کی کیفیت کی وجہ سے رویا : پہلی بار اس وقت روہا جب اس پر اللہ کی لعنت ہوئی ۔ دوسری بار اس وقت رویا جب اسے جنت سے نکالا گیا ۔ تیسری بار اس وقت رویا جب حضور خاتم النبیین والمرسلین کی ولادت ہوئی ۔ چوتھی بار اس وقت رویا جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ اس روایت کو مفسرین نے سورۃ الفاتحہ کے شان نزول میں بیان فرمایا ہے ۔ اور امام ابن کثیر نے شب ولادت کے واقعات کے باب میں ذکر فرمایا ہے (البدایہ والنھایہ لابن کثیر 9/224-225)
اس سے ملتے جلتے الفاظ اور بھی ہیں جسے بحار الانوار میں ملا باقر مجلسی نے امام جعفر صادق علیہ السلام المتوفی 148ھ سے نقل کیا ہے کہ : ابلیس یعنی شیطان چار بار غم اور حزن کی کیفیت کی وجہ سے روہا ۔ پہلی بار اس وقت روہا جب اس پر اللہ کی لعنت ہوئی ۔ دوسری بار اس وقت رویا جب اسے زمین پر اتارا گیا ۔ تیسری بار اس وقت رویا جب اللہ نے اپنے محبوب حضور خاتم النبیین والمرسلین کو مبعوث فرمایا ۔ چوتھی دفعہ اس وقت رویا جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ۔ اور مزید فرمایا کہ : ابلیس یعنی شیطان دو بار بہت زور سے چلایا ۔ پہلی بار اس وقت جب حضرت آدم علیہ السلام نے شجرہ ممنوعہ سے کھایا ۔ دوسری بار اس وقت حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا گیا (بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار عليهم السلام : 11 / 204)
شاید اسی لیے مفسر قرآن و شارح الحدیث مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے یہ شعر فرمایا :
نثار تیری چہل پہل پر ، ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں ، سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
اب جس کا دل چاہے بارہ (12) ربیع الاول کو ابلیس کے ساتھ رہ کرگزارے اور جس کا دل چاہے ، امت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محفل میلاد منعقد کرتے ہوئے اظہار مسرت کرے ۔
خاتم المرسلین رحمۃالعالمین ، شفیع المذنبین ، انیس الغریبن ، سراج السالکین ،محبوب رب العالمین ، جناب صادق و امین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم12 ربیع الاول کو صبح صادق کے وقت جہاں میں تشریف لائے اور آکر بے سہاروں ، غم کے ماروں ، دکھیاروں ۔ دل فگاروں ۔ اور دَر دَرکی ٹھوکریں کھانے والے بیچاروں کی شام غریباں کو صبح بہاراں بنادیا۔
مسلمانوں صبح بہاراںمبارک
وہ برساتے انوا رسرکار آئے
ماہِ میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آتے ہی !کیابچے ،کیا بوڑھے ،کیا جوان سب فکروعُسرت کو بھول کر جشن میں منہمک ہوجاتے ہیں۔ہرلب پرمرحبا یا مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صدائےں ہوتی ہیں ، مسجدوں میں ،گھروںمیں! کثرت عبادت،نوافل کی کثرت، قرآن کریم کی تلاوت امت مسلمہ میںامنڈآنے والی سخاوت اس ماہ کی تعظیم و تکریم کو مزید بزرگی عطا کرتی ہے ۔
قابلِ رشک بات یہ ہے کہ اس ماہ کی آمد ہوتے ہی اس کی تیاری میںعشاق مشغول ہوجاتے ہیں ، معاملات زندگی کو معمول سے قلیل کردیا جاتا ہے۔اورہر گلی ہر محلہ کو رنگ برنگے برقی قمقوں سے سجایا جاتا۔ گزرتے ماہ کے آخری دن نماز مغرب کی ادائیگی کے بعدعشاق کی نگاہ آسمان پر کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے ،کان کچھ سننے کو بیتاب ہوتے ہیں کہ یکایک طلوع ہلال کی نویدچہروں کو مزید چمکادیتی ہے ،قلب جھوم جھوم کر مرحبا ماہ نور پکارتے ہیں، ہاتھ دعا کیلئے بلند ہوجاتے ہیں ،چہرے خوشی سے کھل جاتے ہیں ۔اور ہر سمت تبریک کی فِضا چھاجاتی ہے۔
اس مہینے کو ربیع الاول،ربیع النور،ماہ نوراور ماہ جشن ولادت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جیسے ناموں سے پکارا جاتاہے کیونکہ اسی مہینے کی ١٢ تاریخ کو سرکار مکہ و مدینہ، راحت و قلب و سینہ، فیض گنجینہ، صاحب معطر پسینہ، باعث نزول سکینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ عشاق رسول اس دن کو بڑے ادب و احترام کے ساتھ مناتے ہیں اورہر طر ف جشن ولادت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا سماء ہوتا ہے ۔ میلادمصطفی ٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ آئیے اس پر تفصیلی گفتگو کرتے ہیں ۔۔۔ میلاد کیا ہے ؟ ور میلاد منانے کی شرعی حیثیت ؟
میلاد کیا ہے ؟
میلاد عرف عام میں ذکرمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام ہے خواہ دو آدمی مل کر کریں یا ہزاروں اور لاکھوں ۔ اور ذکر حبیب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میلاد کی روح رواں ہے بقیہ چیزیں لوازمات میں سے نہیں البتہ مناسبات سے ہو سکتی ہیں۔ لہذا جو اصلِ ذکر مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہی مُنکِر ہے وہ کافر ہے اور جو مخصوص ہیئت کا منکر ہے وہ جاہل یا گمراہ ۔
میلاد شریف کا جواز بکثرت آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ اگرچہ جواز کے لئے یہ دلیل بھی کافی ہے۔ کہ اس کی ممانعت شرع سے ثابت نہیں ہے۔ اور جس کام سے اللہ تعالیٰ اور رسول پاک ؐ نے منع نہیں فرمایا وہ کسی کے منع کرنے سے منع نہیں ہوسکتا ۔ اس کے علاو ہ میلاد کے جواز و استحسان پر دلائل ملاحظہ فرمائیں
ذکرِ رسول اکرم، نورمجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آیات مبارکہ سے سنیے اللہ عزوجل نے فرمایا آیت نمبر ( ا ) واذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتاب و حکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ و لتنصرنہ قال أ اقررتم واخذتم علی ذلک اصری قالوا اقررنا قال فاشھدوا وانا معکم من الشاھدین ( سورۃ آل عمران آیت نمبر ٨١ ) '' اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمھارے پاس وہ رسول کہ تمھار ی کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اسکی مدد کرنا فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا۔ سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمھارے ساتھ گواہوں میں ہوں ''
اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں۔
(١) اللہ تعالیٰ نے حضور پر نورشافع یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذکر کے لئے سب کو جمع فرمایا۔
(٢) انبیاء کے اجتماع میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماںصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کا تذکرہ فرمایا۔
(٣) انبیاء کے اجتماع میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت و شان مصدق لما معکم کے ساتھ بیان فرمائی۔
(٤) نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت وحمایت و نصرت پر انبیاء علیھم السلام سے عہد لیا۔
(٥) انبیاء کرام علیھم السلام کے اجتماع میں آمدمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور بعثت و رسالت و عظمت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی اور انبیاء کرام علیھم السلام سامعین تھے۔
اب غو رکریں اس سے بڑھ کر میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محفل اور کیا ہوگی ۔ مسلمان بھی تو اپنے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت و محبت کے اظہار کے لئے یہی کرتے ہیں۔ اگر ان پر حرمت کافتوی ہے تو مذکورہ محفل کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
آیت نمبر ٢ : لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف رحیم ۔ ( سورۃ التوبہ )
'' بے شک تمھارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمھارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمھاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمالِ مہربان مہربان ''
اس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں ۔
(١) (جاء کم) سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیآمد کا تذکرہ ہے۔
(٢) (من انفسکم) سے سرکا ردوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بشریت مبارکہ اور نسب مبارکہ کا ذکر ہے۔
(٣) (عزیز علیہ ماعنتم) سے امت پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفقت کا ذکر ہے۔
(٤) (حریص علیکم اور بالمومنین رؤوف رحیم) سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عظمت و شان کا تذکرہ ہے ۔ یہ آیت بھی شاندار طریقے سے میلاد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا طریقہ بتارہی ہے۔ کیا تلاوت قرآن کے وقت یہ آیت پڑھنا جائز اور چند لوگوں کے سامنے پڑھنا ناجائز و حرام ہے ۔؟ ہرگز نہیں بلکہ خدا عقل دے تو غور کریں کہ عین نماز میں اگر امام صاحب یہ آیت بلند آواز میں تلاوت کریں تو حالت نماز میں میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر ہوا یا نہیں ؟ اور جب جماعت موجود ہے تو اجتماع و محفل خود بخود پائی گئی ۔ لہذا اسکا انکار نہ کرے گا مگر وہ جو نماز میں تلاوت قرآن کا ہی منکر ہو۔
آیت نمبر (٣) اللہ عزوجل نے فرمایا وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین (سورۃ الانبیاء آیت ١٠٧ )'' اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے ''
آیت نمبر (٤) لقد من اﷲ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین (سورۃ آل عمران ١٦٤ )'' بے شک اللہ کا بڑا اسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اسکی آیتیں پڑھتا ہے۔ اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور لوگ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
آیت نمبر ٥ : وبشر المومنین بان لھم من ﷲ فضلا کبیرا (سورۃ الاحزاب آیت ٤٧ ) '' اور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لئے اللہ کا بڑا فضل ہے۔''
ان آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ عزوجل کا فضل و احسان اور رحمت ہیں۔ اب فضل و رحمت کے بارے میں فرمان الہی سنئے۔
آیت نمبر ٦ :قل بفضل ﷲ و برحمتہ فبذلک فلیفرحوا ھو خیر مما یجمعون (سورۃ یونس آیت ٥٨،چشتی)
'' تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے ''
اس آیت سے معلوم ہوا کہ فضل و رحمت پر خوشی کرنا چاہیے لہذا مسلمان حضور انور، شافع محشر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فضل ورحمت جان کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر کرکے خوشی مناتے ہیں۔ اور یہ حکم الہی ہے۔
آیت نمبر ٧ :مندرجہ بالا آیات کریمہ سے معلوم ہے کہ نبی کریم ؐ اللہ کی نعمت ہیں اور نعمت الہی پر حکم الہی ہے واما بنعمۃ ربک فحدث
(سورۃ والضحی آیت ١١) '' اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ''
نبی کریم ، رؤوف رحیم، حلیم کریم عظیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت ہیں اور نعمت الہی کا چرچا کرنا حکم خداوندی ہے۔ لہذا مسلمان حبیب اکرم نور مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو نعمت الہی سمجھتے ہوئے محفل میلاد کی صورت میں اسکا چرچا کرتے ہیں۔
آیت نمبر ٨ : اللہ عزوجل نے فرمایا ورفعنا لک ذکرک (سورۃ الم نشرح آیت ٤ ) '' اور ہم نے تمھارے لئے تمھارا ذکر بلند کردیا '' ۔
اللہ عزوجل نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذکر پاک کو بلند کیا۔ اور میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی اسی رفعت ذکر کا ایک طریقہ ہے۔ اور سنت خدا عزوجل ہے۔ مسلمان تو محفلوں میں اور جلسوں میں میلاد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کرکے رفعت ذکر اقدس کرتے ہیں ۔ وہابیہ کے نزدیک شاید ذکر اقدس کی آیتوں کو چھپانا مٹانا،ذکر شریف کرنے والوں کو روکنا ، گالیاں دینا، مشرک و بدعتی کہنا ، ان کے خلاف جلسے جلوس کرنا ، ذکر مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خلاف کتابیں لکھنا، تقریریں کرنا ہی رفعت ذکر ہے۔ اسی لئے دن رات اسی میں مصروف رہتے ہیں۔
وہ حبیب پیارا تو عمر بھر کرے فیض وجود ہی سر بسر
ارے تجھ کو کھائے تپ سقر تیرے دل میں کس سے بخار ہے
کریں مصطفی کی اہانتیں کھلے بندوں اس پر یہ جرأتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں
ذکر روکے فضل کاٹے نقص کا جویاں رہے
پھر کہے مردک کہ ہوں امت رسول اللہ کی ۔ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
دلیل نمبر ٩ : میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محفل حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمکی تعظیم و محبت کے لئے منعقد کی جاتی ہے۔ اور جان جہاں، جانِ ایمان ، رحمت عالمیاں، محبوب رحمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم ومحبت اصل ایمان ہے تو جو عمل اس تعظیم و محبت کے اضافہ کے لئے کیا جائے وہ یقینا محبوب و مرغوب ہے اور ایسے کام سے بغض نہ رکھے گا مگر وہ جو اصلِ ایمان کا دشمن ہے۔ او راصلِ ایمان کا دشمن نہیں مگر وہ جو تعظیم آدم علیہ السلام نہ کرنے کی وجہ سے زمین پر دھتکارا گیا، اور فاخرج فانک رجیم کے لقب سے سرفراز ہوا یا ایسے لقب والے کے پیروکار۔ اللہ عزوجل نے فرمایا ''
انا ارسلنک شاھدا و مبشراو نذیرا ۔ لتؤمنوا باﷲ و رسولہ وتعزروہ وتوقروہ'' (سورۃ الفتح آیت ٨، ٩ )
'' بے شک ہم نے تمھیں بھیجا حاضر وناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو''
نیز فرمایا قل ان کان ابائکم وابنائکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموھا وتجارۃ تخشون کسادھا ومسکن ترضونھا احب الیکم من ﷲ ورسولہ وجھاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی ﷲبامرہ ( سورۃ التوبۃ ٢٤)
'' تم فرماؤ اگرتمـھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری عورتیں اور تمھارا کنبہ اور تمھاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمھیں ڈر ہے۔ اور تمھارے پسند کا مکان یہ چیزیں اللہ اور اسکے رسول اور اسکی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے ''
ان دو آیتوں سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور محبت کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ اور ہر وہ چیز جو محبت و تعظیم پر دلالت کرے وہ اس آیت کے تحت داخل ہے۔ اور محفل میلاد مصطفیصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چونکہ اسی تعظیم و محبت کی علامت ہے لہذا مستحسن و مستحب ہے۔
دلیل نمبر ١٠ : قال عیسی ابن مریم اللھم ربنا انزل علینا مائدۃ من السماء تکون لنا عیدا لاولنا واخرنا وایۃ منہ ۔ ( سورۃ المائدۃ ١١٤ )
''عیسی بن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو ہمارےاگلوں پچھلوں کی اور تیرے طرف سے نشانی ''
اس آیت سے معلوم ہوا کہ خوان اترنا نعمت ہے۔ اور اللہ کی طرف سے نشانی اور لوگوں کے لئے وہ عید کا دن ہے اگر خوان نعمت کا اترنا نعمت تو جان نعمت کا تشریف لانا اس سے کروڑہا گنا بڑی نعمت ہے۔ اور خوان اللہ تعالٰی کی نشانی ہے تو حضور رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس سے بڑھکر اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے ۔خوان اترنے پر خوشی منانا جائز اور اس دن کو عید بنانا جائز ہے تو سرکار دوعالمصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تشریف لانے پر خوشی منانا جائز اور اس دن کو عید بنانا جائز ہے۔
یہ اختصار وعجلت کے ساتھ دس دلیلیں ہیں۔ اگر کسی میں عقل و فہم کی دولت ہے تو ان کو پڑھ کر میلاد خوانی کا جواز مان لے گا اور بے عقل کے لئے راستے بہت ہیں۔ ہزار دلیل کے بعد بھی کہہ سکتا '' دل نہیں مانتا ''۔
اب ذیل میں دی جانے والی بحث غور سے پڑھئے اور انکار کرنے والوں کے بارے میں سوچیں کہ کس گروہ سے ہیں۔
اللہ عزوجل نے فرمایا ، ان فرعون علا فی الارض وجعل اھلھا شیعا یستضعف طائفۃ منھم یذبح ابنائھم ویستحیٖ نسائھم انہ کان من المفسدین (٤) و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم ائمۃ و نجعلھم الوارلاثین (٥) واوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ فاذا خفت علیہ فالقیہ فی الیم ولا تخافی ولا تحزنی انا رادوہ الیہ وجاعلوہ من المرسلین (٧) فالتقطہ ال فرعون لیکون اھم عدوا و حزنا ان فرعون و ھمن و جنودھماکانوخطئین (٨) وقالت امرئۃ فرعون قرۃ عینی لی ولک لاتقتلوہ عسی ان ینفعنا او نتخذہ ولدا و ھم لا یشعرون (٩)
'' بیشک فرعون نے زمین میں غلبہ پایا تھا۔ اور اس نے لوگوں کو اپنا تابع بنایا ان میں ایک گروہ کو کمزور دیکھا ان کے بیٹوں کو ذبح کر تا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا ۔ بے شک وہ فسادی تھا۔ اور ہم چاہتے تھے کہ ان کمزوروں پر احسان فرمائیں اور ان کو پیشوا بنائیں۔ اور ان کے ملک و مال کا انہیں کو وارث بنائیں۔ اور ہم نے موسی کی ماں کو الہام فرمایا کہ اسے دودھ پلا۔ پھر جب تجھے اس سے اندیشہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر اور نہ غم کر بیشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں گے اور اسے رسول بنائیں گے۔ تو اسے اٹھالیا فرعون کے گھر والوں نے کہ وہ ان کا دشمن اور ان پر غم ہو۔
بیشک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے اور فرعون کی بی بی نے کہا یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اسے قتل نہ کرو شاید یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ بے خبر تھے ''(سورۃ القصص ترجمہ کنزالایمان )
اس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں ۔ (١) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت فرعون بادشاہ وقت تھا (٢) وہ بچوں کو ذبح کرتا اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیتا (٣) اللہ تعالیٰ نے کمزوروں اور مظلوموں پر احسان کرنے کا ارادہ فرمایا (٤) موسی علیہ السلام کی پیدائش ان کٹھن حالاتمیں ہوئی (٥) حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ پریشان ہوئیں (٦) اللہ تعالٰی نے دودھ پلانے کا انہیں الہام فرمایا (٧) اور بصورت خطرہ دریا میں ڈالنے کا حکم دیا (٨) اُمِ دوسی کو حضرت موسی علیہ السلام کے واپس ملنے اور رسول بنانے کی بشارت دی (٩) دریا سے فرعون کی بیوی نےآپ علیہ السلام کو اٹھالیا (١٠) فرعون کی بیوی نے اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈکقرار دیا (١١) حضرت موسی علیہ السلام نے اپنا بچپن فرعون کے پاس گذارا (١٢) فرعون نے آپ کے قتل کا ارادہ کیا تو بیوی نے منع کردیا۔
سورۃ القصص پوری پڑھ لیں موسی علیہ السلام کے میلاد سے لیکر نبوت کے بعد تک کے واقعات ہی ملیں گے۔ مزید سنئے اللہ عزوجل نے فرمایا۔ واذکر فی الکتب مریم اذا انتبذت من اھلھا مکانا شرقیا الی ذٰلک عیسی ابن مریم ۔ سورۃ مریم آیت ١٦ سے لیکر آیت نمبر ٣٤ تک پڑھ لیں ۔ مندرجہ ذیل باتیں صراحۃً معلوم ہوجائیں گی (١) حضرت مریم رضی اللہ عنھا اپنے گھر والوں سے مشرق کی طرف چلی گئیں (٢) گھر والوںسے پردہ کرلیا (٣) حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک انسانی جوان صورت میں ان کے پاس آئے (٤) حضرت مریم رضی اللہ عنھا نے ان سے پناہ مانگی (٥) حضرت جبریئل امین علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنھا کو بچے کی خوشخبری دی (٦) حضرت مریم بن باپ کے بچہ پیدا ہونے پر پریشان ہوئیں (٧) حضرت عیسی علیہ السلام حمل میں تشریف لائے (٨) حضرت مریم دوران حمل ایک دور جگہ پر چلی گئیں (٩) درد زہ شروع ہوگیا (١٠) آپ رضی اللہ عنھا ایک کھجور کے درخت کے پاس آگئیں (١١) حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی (١٢) بعد ولادت حضرت مریم رضی اللہ عنھا نے ایک خشک تنے کو ہلایا تو اس سے تروتازہ کھجوریں گرنے لگیں (١٣) اللہ تعالٰی کی طرف سے حضرت مریم رضی اللہ عنھا کو چپ کاروزہ رکھنے کا حکم دیا گیا (١٤) حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش پر لوگوں نے حضرت مریم کو طعنے دیئے (١٥) حضرت عیسی علیہ السلام نے گود میں کلام فرمایا اور اپنے صاحب کتاب اور نبی ہونے اور اپنی والدہ کی طہارت کا اعلان فرمایا ۔
ان دونوں جگہوں کی آیات کو پڑھ کر غور فرمائیں کہ ولادت کی وہ کونسی چیز ہے جو قابل ذکر تھی اور اسے ذکر نہ کیا گیا ۔ اس زمانہ کے حالات ، پیدائش کے حالات، پیدائش کے بعد کے واقعات بالتفصیل مذکور ہیں اب سوال ہے کہ ان آیات کو بمع ترجمہ وتفسیر مجمع عام میں بیان کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ کوئی وہابی دیوبندی اسے ناجائز نہ کہے گا۔ لہذا اگر جائز کہے اور یقینا جائز ہی کہے گا۔ تو سوال ہے ۔ کہ کیا جو حالات و واقعات کی تفصیل حضرت موسی و عیسی علیھما الصلٰوۃ والسلام کے میلاد مبارک کی جائز ہے۔ حضور اکرم سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمکے میلاد مبارک کو اس طرح حالات و واقعات کی تفصیل کے ساتھ بیان کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز مانو تو ہمارا مدّعا ثابت کہ محفل میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمجائز ہے۔ اور اگر ناجائز مانو تو بھی ہمارا مقصد حاصل ہوگیاکہ میلاد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر کرنا مسلمان کا کام ہے غیر کا نہیں اور حضرت موسی و عیسی علیھما الصلٰوۃ والسلام کی میلاد خوانی کو جائز سمجھنا اور سید الانبیاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمکی میلاد خوانی کو ناجائز کہنا یقینا کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں کا یا ان کے ایجنٹوں کا کام ہوسکتا ہے۔
منکرین میلاد پر ایک اور بھاری سوال ابھی باقی ہے۔ وہ بھی سنئے۔
غیر مقلدوہابی اور دیوبندی حضرات سیرت النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جلسے کرتے ہیں اس کی ہیئت کذائیہ یہ ہوتی ہے (١) اشتہار چھاپنا (٢) اسپر مولویوں کے نام لکھنا (٣)ا سپیکر میں جلسے کا اعلان کرنا(٤) وقت مقررہ پر لوگوں کا آنا (٥) معین مولوی صاحب کا معین دن میں معین وقت پرا سپیکر میں منبر پر بیٹھ کر تقریر سے پہلے اسٹیج سیکٹری کا مولوی صاحب کو عجیب و غریب القاب دیکر بلانا جن کا ذکر احادیث و آیات میں کہیں نہیں مثلًاشیخ القرآن ، شیخ الحدیث ، مفسر و فاتحِ فلاں فلاں وغیرہ۔ کیا یہ جلسے جائز ہیں یا نہیں ؟ جائز نہیں تو کیا سب دیوبندی وہابی حرام کے مرتکب ہیں اور اگر جائز ہے تو میلاد خوانی جو انہی امور پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ ناجائز کیوں اور یہ جلسے جائز کیوں ؟
نیز میلاد ، سیرت کا پہلا باب ہے تو کیا وجہ کہ سیرت تو جائز لیکن سیرت کا پہلا باب بیان کرنا ناجائز ؟نیزمیلاد مبارک کی تفصیل محدثین و مؤرخین نے کتب احادیث و سیرت و تاریخ میں جگہ جگہ بیان کی ہے۔ جب کہ ترمذی میں باب ہے۔ باب ما جاء فی میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (ترمذی شریف جلد ٢ ص ٢٠١ مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان،چشتی٭ کیا میلاد مبارک کو تحریر کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو محدثین و مؤرخین نے کیا حرام کا ارتکاب کیا ؟ اور اگر میلاد مبارک کو لکھنا جائز ہے تو زبانی بیان کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو مدعا حاصل کہ میلاد خوانی جائز اور اگر جواب نہیں میں ہے تو کیا وجہ ہے کہ تحریرِ میلاد جائز اور تقریر میلاد ناجائز ؟وجہ فرق بیان کریں ۔
الغرض اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جائز قرار دیا جائے ۔
ایک بات واجب الحفظ ہے کہ یہ ساری بحث اس میلاد خوانی کے بارے میں ہے جو خلاف شرع کاموں سے خالی ہو ۔ اور اگر کوئی خلاف شرع کام میلاد خوانی میں پایا جائے تو میلاد خوانی جائز رہی گی اور خلافِ شرع کام ناجائز رہے گا ۔ حیسے شادیوں میں کئی حرام کام شامل ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود شادی کرنا جائز اور ناجائز کام حرام رہیں گے ۔ (طالبِِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment