Monday 11 October 2021

جشنِ میلاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علمائے دیوبند و اہلحدیث کی نظر میں

0 comments

 جشنِ میلاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علمائے دیوبند و اہلحدیث کی نظر میں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : شیخ المشائخ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ (متوفی1317ھ) مرشد اکابرینِ دیوبند فرماتے ہیں کہ : اور مشرب (طریقہ) فقیر کا یہ ہے کہ محفلِ مولد (میلاد) میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کرہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف ولذت پاتاہوں ۔ (فیصلہ ہفت مسئلہ) ۔ شمائم امدادیہ کے صفحہ نمبر 47 اور 50 پر درج ہے کہ حاجی صاحب نے ایک سوال' میلادالنبی کے انعقاد کے بارے ان کی کیا رائے ہے ؟ کے جواب میں فرمایا : مولد شریف تمام اہل حرمین کرتے ہیں ، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے اور حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر کیسے مزموم ہو

سکتا ہے ۔


علمائے دیوبند کا متفقہ فیصلہ (1325ھ)


حرمین شریفین کے علمائے کرام نے علمائے دیوبند سے اِختلافی و اِعتقادی نوعیت کے چھبیس (26) مختلف سوالات پوچھے تو 1325ھ میں مولانا خلیل احمد سہارن پوری (1269۔ 1346ھ) نے اِن سوالات کا تحریری جواب دیا، جو ’’المھند علی المفند‘‘ نامی کتاب کی شکل میں شائع ہوا۔ اِن جوابات کی تصدیق چوبیس (24) نام وَر علمائے دیوبند نے اپنے قلم سے کی، جن میں مولانا محمود الحسن دیوبندی (م 1339ھ)، مولانا احمد حسن امروہوی (م 1330ھ)، مفتی اعظم دار العلوم دیوبند مفتی عزیز الرحمٰن (م 1347ھ)، مولانا اشرف علی تھانوی (م 1362ھ) اور مولانا عاشق اِلٰہی میرٹھی بھی شامل ہیں۔ اِن چوبیس (24) علماء نے صراحت کی ہے کہ جو کچھ ’’المھند علی المفند‘‘ میں تحریر کیا گیا ہے وہی ان کا اور ان کے مشائخ کا عقیدہ ہے۔کتاب مذکورہ میں اِکیسواں سوال میلاد شریف منانے کے متعلق ہے۔ اس کی عبارت ہے :أتقولون أن ذکر ولادته صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مستقبح شرعًا من البدعات السيئة المحرمة أم غير ذلک ؟ ’’ کیا تم اس کے قائل ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کا ذکر شرعاً قبیح سیئہ، حرام (معاذ ﷲ) ہے یا اور کچھ ؟ ‘‘ علمائے دیوبند نے اِس کا متفقہ جواب یوں دیا : حاشا أن يقول أحد من المسلمين فضلاً أن نقول نحن أن ذکر ولادته الشريفة علية الصلاة والسلام، بل وذکر غبار نعاله وبول حماره صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مستقبح من البدعات السئية المحرمة. فالأحوال التي لها أدني تعلق برسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ذکرها من أحب المندوبات وأعلي المستحبات عندنا سواء ، کان ذکر ولادته الشريفة أو ذکر بوله وبزاره وقيامه وقعوده ونومه ونبهته، کما هو مصرح في رسالتنا المسماة بالبراهين القاطعة في مواضع شتي منها ۔ حاشا کہ ہم تو کیا کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نعلین اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کے گدھے کے پیشاب کے تذکرہ کو بھی قبیح و بدعتِ سئیہ یا حرام کہے ۔ وہ جملہ حالات جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ذرا سی بھی نسبت ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک نہایت پسندیدہ اور اعلی درجہ کا مستحب ہے ، خواہ ذکر ولادت شریف کا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بول و براز، نشست و برخاست اور بے داری و خواب کا تذکرہ ہو۔ جیسا کہ ہمارے رسالہ ’’براہین قاطعہ‘‘ میں متعدد جگہ بالصراحت مذکور ہے ۔‘‘سهارن پوري ، (المهند علي المفند صفحہ 60)


علمائے دیوبند کا متفقہ فتویٰ : میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اعلیٰ درجہ کا مستحب ہے خواہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بول و براز کا ذکر ہو یا سواری کا ۔ (المہند  صفحہ 64 ادارہ اسلامیات اردو بازار لاہور)


علمائے دیوبند کا متفقہ فتویٰ : میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اعلیٰ درجہ کا مستحب ہے خواہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بول و براز کا ذکر ہو یا سواری کا ۔ (المہند  صفحات 146 ، 247 مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی،چشتی)


جب علمائے دیوبند کا متفقہ فتویٰ ہے کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اعلیٰ درجہ کا مستحب عمل ہے تو میرے بھائی مستحب عمل پر ثواب ملتا ہے گناہ نہیں تو پھر میلاد کے خلاف فتوے اور میلاد منانے والے مسلمانوں کے خلاف فتوے بازی کیوں صرف تفرقہ وانتشار اور فساد پھیلانے کےلیے خدا را نفرتیں پھیلانا چھوڑو آؤ مل کر میلاد منائیں جہاں جہاں خرافات و منکرات ہیں ہم سب ان کے مخالف ہیں مگر کچھ جہلا کے عمل کو سامنے رکھ میلاد جیسے اعلیٰ درجے کے مستحب عمل کو ہدف تنقید مت بنائیے اللہ ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔


میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حکیم الامت دیوبند کی نظر میں


حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عید میلاد لکھتے ہیں اور لکھتے ہیں ہم اسے باعث برکت سمجھتے ہیں اور جس مکان میں عید میلاد منائی جائے اس میں برکت ہوتی ہے ۔ (ارشاد العباد فی عید میلاد صفحہ نمبر 4)


حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وجود سب سے بڑی نعمت ہے یومِ ولادت پیر اور تاریخ ولادت بارہ (12) ربیع الاوّل باعث برکت ہیں اس دن و یوم میلاد سے برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ (ارشاد العباد فی عید میلاد صفحہ نمبر 5،چشتی)


حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وجود سب سے بڑی نعمت ہے اور تمام نعمتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صدقے ملی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اصل ہیں تمام نعمتوں کی ۔ (اِرشادُالعِبَاد فِی عِیدِ المیلاد صفحہ نمبر 5 ، 6)


حکیم الامت دیوبند لکھتے ہیں : ذکر ولادت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دیگر اذکار خیر کی طرح ثواب اور افضل ہے ۔ (امدادُ الفتاویٰ جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 351 مطبوعہ انڈیا،چشتی)


مکتبہ فکر دیوبند کے دوستو آؤ منکرات کے خلاف مل کر کام کریں آواز اٹھائیں مگر خدا را ہماری نہ مانو اپنے حکیم الامت صاحب کی مان لو اور وہابیت کے راستے پر چل کر میلاد جیسے ثواب کے کام کا مذاق مت اڑاؤ پڑھو تھانوی صاحب کیا لکھ رہے ہیں ۔ اب آپ کی مرضی ہے اس ثواب کے کام کا مذاق اڑاؤ یا منا کر ثواب کماؤ ۔


حکیم الامت دیوبند تھانوی صاحب فرماتے ہیں : میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم مستحب عمل ہے اس شامل منکرات کو ترک کرنا چاہیئے نہ کہ مستحب عمل کو ۔ (مجالس حکیم الامت صفحہ نمبر 160 مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)


اے اہلیانِ دیوبند آپ کے حکیم الامت علامہ اشرف علی تھانوی صاحب میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو مستحب عمل قرار دے رہے ہیں ذرا بتایئے مستحب عمل کرنے پر ثواب ملتا ہے یا گناہ ؟ سنیے ہم بھی مستحب سمجھ کر میلاد مناتے ہیں فرض یا واجب نہیں ۔


رہی بات منکرات کی تو ہم سخت مخالف ہیں اور رد کرتے ہیں ان غیر شرعی افعال کا جو کچھ جہلا شامل کر لیتے ہیں آئیے منکرات کا رد کریں مستحب عمل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو دھوم دھام سے منائیں ۔


حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں : میلاد ہر جگہ تو بدعت ہے مگر کالج میں منانا نہ صرف جائز ہے بلکہ واجب ہے ۔ (ملفوظات حکیم الامت انفاس عیسیٰ جلد نمبر 21 حصّہ اوّل صفحہ نمبر 326،چشتی)


اب دیوبندی حضرات سے سوال ہے کہ میلاد ہر جگہ بدعت کیوں ہے ؟ اور کالج میں جائز بلکہ واجب کیوں ہے ؟ برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں اس تضاد بیانی کا جواب دیا جائے اوٹ پٹانگ باتوں سے پرھیز فرمائیں موضوع اور پوسٹ کے مطابق جواب عنایت فرمائیں جاہلانہ کمنٹ کرنے والوں سے ایڈوانس معذرت ایسے لوگ پوسٹ سے دور رہیں ۔


بانی دیوبند سے سوال کیا گیا مولانا عبد السمیع رامپوری میلاد مناتے ہیں آپ کیوں نہیں مناتے کہا انہیں حب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بڑا درجہ حاصل ہے دعا کرو مجھے بھی حاصل ہو جائے ۔ (مجالس حکیم الامت صفحہ نمبر 124)


معلوم ہوا میلاد محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم والے ہی مناتے ہیں آؤ میلاد منائیں محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں ڈوب کر ۔


حکیم الامت مکتبہ فکر دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر پاک طاعون سے چھٹکارے کا سبب ہے محفل میلاد ہر روز مناؤ سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر پاک کرو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذکر کی کتاب پڑھنے سے مصائب دور ہوتے ہیں ۔ (خطباتِ میلاد رسالہ النور صفحہ نمبر 112،113،چشتی)


یہی ہم کہتے ہیں مٹھائی بانٹنا یا لنگر کا اہتمام شرط میلاد نہیں ہے اور نہ اہلسنت یہ کہتے ہیں ہاں اگر کوئی اہتمام کرے تو ناجائز بھی نہیں ہے علمائے دیوبند و اہلسنت دونوں سے ایصال ثواب ثابت ہے ۔


مفتی رشید احمد لدھیانوی دیوبندی (احسن الفتاوی347،348 )میں تحریر کرتے ہیں : جب ابو لہب جیسے بدبخت کافر کے لیے میلاد النبی کی خوشی کی وجہ سے عزاب میں تخفیف ہو گئی تو کوئی امتی آپ کی ولادت کی خوشی کرے اور حسب وسعت آپ کی محبت میں خرچ کرے تو کیوںکر اعلی مراتب حاصل نہ کرے گا ۔


مفتی محمد مظہراللہ دہلوی (فتاوی مظہری 435،436) میں لکھتے ہیں کہ : میلاد خوانی بشرطیکہ صحیح روایات کے ساتھ ہو اور بارہویں شریف میں جلوس نکالنا بشرطیکہ اس میں کسی فعل ممنوع کا ارتکاب نہ ہو، یہ دونوں جائز ہیں ؛ ان کو نا جائز کہنے کے لیے دلیل شرعی ہونی چاہیے ۔ مانعین کے پاس اسکی ممانعت کی کیا دلیل ہے ؟ یہ کہنا کہ صحابہ کرام نے نہ کبھی اس طور سے میلاد خوانی کی نہ جلوس نکالا ممانعت کی دلیل نہیں بن سکتی کہ کسی جائز امر کو کسی کا نہ کرنا اسکو نا جائز نہیں کر سکتا ۔


علامہ عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں : جس وقت بھی محفل میلاد کی جائے ، باعثِ ثواب ہے اور حرمین شریفین ، بصرہ ، شام ، یمن اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی ربیع الاوّل کا چاند دیکھ کر میلاد کا اہتمام کرتے ہیں ، چراغاں کرتے ہیں ، خوشی کا اظہار کرتے ہیں ، کارِ خیر کرتے ہیں ، قرآن پڑھتے ہیں،نعت اور سماعت میلاد کا اہتمام کرتے ہیں اور روح پر ور محافل کا انعقاد کرتے ہیں ، یہ ان کے معمولات میں شامل ہیں ۔ (مجموعۃالفتاویٰ)


حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے والد محترم حضرت شاہ عبدالرحیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ’’ میں میلاد شریف کے دنوں میں ہر سال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد شریف کی خوشی میں کھانا پکوایا کرتا تھا لیکن ایک سال مجھے سوائے بھنے ہوئے چنوںکے اور کچھ مجھے میسر نہیں ہوا ۔ چناں چہ میں نے وہی بھنے ہوئے چنے لوگوں میں تقسیم کردیے ۔ اسی رات کو خواب میں مجھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت نصیب ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے حضورسیّد عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اُن سے بہت خوش نظر آرہے ہیں ۔ (الدرالثمین)


شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : عید میلاد النبی کے دن مکہ کے لوگ مقامِ ولادت پر جمع ہوکر صلوٰۃ و سلام بھیجتے ہیں

۔ یہ وہی شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ ہیں جن کو اکابر دیوبند اور غیر مقلد اہلحدیث اپنے اسلاف میں شمار کرتے ہیں ، چنانچہ یہ دونوں فرقوں کے مسلمہ بزرگ ہیں ۔ کیا ان کی بات کو بھی نہیں مانو گے ؟


نواب صدیق حسن خان غیر مقلد وہابی لکھتے ہیں : اِس میں کیا برائی ہے کہ اگر ہر روز ذکرِ حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) نہیں کر سکتے تو ہر اُسبوع (ہفتہ) یا ہر ماہ میں اِلتزام اِس کا کریں کہ کسی نہ کسی دن بیٹھ کر ذکر یا وعظِ سیرت و سمت و دل و ہدی و ولادت و وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا کریں ۔ پھر ایامِ ماہِ ربیع الاول کو بھی خالی نہ چھوڑیں اور اُن روایات و اخبار و آثار کو پڑھیں پڑھائیں جو صحیح طور پر ثابت ہیں ۔ (الشمامة العنبرية من مولد خير البرية صفحہ 5)


نواب صدیق حسن خان غیر مقلد وہابی لکھتے ہیں : جسے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کے میلاد کا حال سن کر اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد کی خوشی نہ ہو وہ مسلمان نہیں اور واقعہ شقِ صدر چار بار ہوا ۔ (الشمامۃ العنبریہ صفحہ نمبر 12)


نواب صاحب کے فرمان پر وہ لوگ اپنا محاسبہ کرلیں جو میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر شرک و بدعت کے فتوے لگاتے ہیں ۔

سوال بارہ (12) ربیع الاول وفات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہےتو وفات کا غم کیوں نہیں مناتے ؟

جواب : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ظاھری وصال بارہ (12) ربیع الاول کونہیں ھوا اور حضور بارہ (12) ربیع الاول نے تین (3) دن سے زیادہ غم منانے سےمنع فرمایا صرف بیوی کےلیئے چار (4) ماہ دس (10) دن غم ہے دیکھیئے ۔ (صحیح بخاری کتاب الجنایزحدیث نمبر 1280 دار الکتب العلمیۃ بیروت)


ابن تیہ علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ (1263۔ 1328ء) اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں : اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں ، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت اور تعظیم کےلیے ۔ اور ﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بہ طور عید اپنایا ۔ (ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 404)

دوسری جگہ لکھتے ہیں : میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں ۔ (ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔