تعارف اہلسنت و جماعت اور فرقے حصہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتبعوا السواد الاعظم ید ﷲ علی الجماعۃ شذشذ فی النار ۔
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بڑی جماعت (یعنی اہل سنت و جماعت) کی پیروی کرو‘ ﷲ تعالیٰ کی رحمت و مدد جماعت کے ساتھ ہے‘ جو بڑی جماعت (اہل سنت و جماعت) سے علیحدہ ہوا وہ جہنم میں علیحدہ ڈالا گیا ۔ (کنز العمال …۱/ ۲۰۶)
اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور
نجم ہیں اور ناٶ ہے عترت رسول ﷲ کی
متحدہ پاک و ہند میں ہمیشہ اہل سنت و جماعت حنفی کی غالب اکثریت رہی ہے ۔ سرزمین ہند میں بڑے بڑے نامور اور باکمال علماء و مشائخ پیدا ہوئے جنہوں نے دین اسلام کی زریں خدمات انجام دیں اور ان کے دینی اور علمی کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ تیرہویںصدی ہجری کے آخر میں افق ہند پر ایک ایسی شخصیت اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ نظر آتی ہے جن کی ہمہ گیر اسلامی خدمات اسے تمام معاصرین میں امتیازی حیثیت عطا کرتی ہیں۔ شخص واحد جو عظمت الوہیت‘ ناموس رسالت‘ مقام صحابہ و اہل بیت اور حرمت ولایت کا پہرا دیتا ہوا نظرآتا ہے۔ عرب و عجم کے ارباب علم جسے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ہماری مراد ہے امام اہل سنت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ العزیز جنہوں نے مسلک اہل سنت اور مذہب حنفی کے خلاف اٹھنے والے نت نئے فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور ﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر مرحلے پر سرخرو ہوئے۔ اہل سنت و جماعت کے عقائد ہوں یامعمولات جس موضوع پر بھی انہوں نے قلم اٹھایا‘ اسے کتاب و سنت ائمہ دین اور فقہاء اسلام کے ارشادات کی روشنی میں پائے ثبوت تک پہنچایا۔ آپ کی سینکڑوں تصانیف میں سے کسی کو اٹھا کر دیکھ لیجئے ہر کتاب میں آپ کویہ انداز بیان مل جائے گا۔ یہاں یہ بتادینا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے افکار و نظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہوکرمخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء و مشائخ کو ’’بریلوی‘‘ کا نام دے دیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ دوسرے فرقوں کی طرح یہ بھی ایک نیافرقہ ہے جوسرزمین ہند میں پیدا ہوا ہے۔ مبلغ اسلام حضرت علامہ سیدمحمدمدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں۔
’’غورفرمایئے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے از اول تا آخر مقلد رہے۔ ان کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلام کو واضح طور پر پیش کرتی رہی وہ زندگی کے کسی گوشہ میں ایک پل کے لئے بھی ’’سبیل مومنین صالحین‘‘ سے نہیں ہٹے۔ اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں انہیں سلف صالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہہ دیا گیا تو کیا ’’بریلویت‘ و ’’سنیت‘ْ‘ کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیاگیا ۔ (تقدیم‘ دور حاضر میں بریلوی اہل سنت کا علامتی نشان‘ ص ۱۱۔۱۰‘ مکتبہ حبیبیہ لاہور)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں ’’یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے لیکن افکار و عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے ۔ (البریلویہ صفحہ ۷)
اب اس کے سوا اور کیا کہاجائے کہ ’’بریلویت‘‘ کا نام لے کر مخالفت کرنے والے دراصل ان ہی عقائد و افکار کو نشانہ بنا رہے ہیں جو زمانہ قدیم سے اہل سنت و جماعت کے چلے آرہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ کھلے بندوں اہل سنت کے عقائد کو مشرکانہ اورغیر اسلامی قرار دے سکیں۔ باب عقائد میں آپ دیکھیں گے کہ جن عقائد کو ’’بریلوی عقائد‘‘ کہہ کر مشرکانہ قرار دیا گیا ہے وہ قرآن و حدیث اور متقدمین علماء اہلسنت سے ثابت اور منقول ہیں۔ کوئی ایک ایسا عقیدہ بھی تو نہیں پیش کیا جاسکا جو ’’بریلویوں‘‘ کی ایجاد ہوا ور متقدمین اہل سنت و جماعت سے ثابت نہ ہو۔ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کے القاب میں سے ایک لقب ہی ’’عالم اہل السنتہ‘‘ تھا… اہل سنت و جماعت کی نمائندہ جماعت ’’آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘ کا رکن بننے کے لئے سنی ہونا شرط تھا اس کے فارم پر ’’سنی‘‘ کی یہ تعریف درج تھی۔
’’سنی وہ ہے جو ’’ماانا علیہ و اصحابی‘‘ (سرکار کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : نجات پانے والا گروہ ان عقائد پر ہوگا جن پر میں اور میرے صحابہ ہیں) کا مصداق ہوسکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ائمہ دین ‘ خلفاء اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علماء دین سے شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی‘ حضرت ملک العلماء بحر العلوم صاحب فرنگی محلی‘ حضرت مولانا فضل حق صاحب خیر آبادی‘ حضرت مولانا فضل رسول صاحب بدایونی‘ حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری‘ اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد رضا خان رحمہم ﷲ تعالیٰ کے مسلک پر ہو‘‘ ۔ (خطبات آل انڈیا کانفرنس ص ۶و۸۵ مکتبہ رضویہ لاہور،چشتی)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ لوگ قدیم طریقوں پر کاربند ہیں۔ مشہور مورخ سلیمان ندوی جن کا میلان طبع اہل حدیث کی طرف تھا‘ لکھتے ہیں۔’’تیسرا فریق وہ تھا جوشدت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل سنت کہتا رہا‘ اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے‘‘ ۔ (حیات شبلی‘ ص ۴۶)
شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں ’’انہوں (امام احمد رضا بریلوی) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ‘‘ (موج کوثر ص ۷۰)
اہل حدیث کے شیخ الاسلام مولوی ثناء ﷲ امرتسری لکھتے ہیں۔’’امرتسر میں مسلم آبادی‘ غیر مسلم آبادی (ہندو سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے۔ اسی سال قبل پہلے سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے (شمع توحید صفحہ ۲۰)
آج جن کے نام سے مسلک اہل سنت و جماعت پہچانا جاتا ہے ان کی مختصر سوانح ماہ و سال کے آئینہ میں :
حیات امام احمد رضا ماہ و سال
ولادت باسعادت ۱۰ شوال ۱۲۷۲ھ
ختم قرآن کریم ۱۲۶۷ھ/۱۸۶۰ء
پہلی تقریر ربیع الاول ۱۲۷۸ھ/۱۸۶۱ء
پہلی عربی تصنیف ۱۲۸۵ھ/۱۸۶۸ء
دستار فضیلت شعبان ۱۲۸۶ھ/۱۸۶۹ء
عمر تیرہ سال دس ماہ پانچ دن
آغاز فتویٰ نویسی ۱۴ شعبان ۱۲۸۶ھ/۱۸۶۹ء
آغاز درس و تدریس ۱۲۸۶ھ/۱۸۶۹ء
ازدواجی زندگی ۱۲۹۱ھ/۱۸۷۴ء
فرزند اکبر مولانا محمد حامد رضا خان کی ولادت ربیع الاول ۱۲۹۳ھ/۱۸۷۵ء
فتویٰ نویسی کی مطلق اجازت ۱۲۹۳ھ/۱۸۷۶ء
بیعت و خلافت ۱۲۹۴ھ/۱۸۷۷ء
پہلی اردو تصنیف ۱۲۹۴ھ/۱۸۷۷ء
پہلا حج و زیارت حرمین شریفین ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء
شیخ احمد بن زین بن دحلان مکی سے اجازت احادیث ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء
مفتی مکہ شیخ عبدالرحمن سے اجازت حدیث ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء
شیخ عابد السندی کے تلمیذ امام کعبہ شیخ
حسین بن صالح مکی سے اجازت حدیث ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء
امام احمد رضا کی پیشانی میں شیخ
موصوف کا مشاہدہ انور الہیہ ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء
مسجد خیف (مکہ مکرمہ) میں بشارت مغفرت ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء
زمانہ حال کے یہود و نصاری کی عورتوں
سے نکاح کے عدم جواز کافتویٰ ۱۲۹۸ھ/۱۸۸۱ء
تحریک ترک گائوکشی کا سدباب ۱۲۹۸ھ/۱۸۸۱
پہلی فارسی تصنیف ۱۲۹۹ھ/۱۸۸۲ء
اردو شاعری کا سنگھار ’’قصیدہ معراجیہ‘‘ کی تصنیف قبل ۱۳۰۳ھ/۱۸۸۵ء
فرزند اصغر مفتی اعظم ہند
محمد مصطفی رضا خاں کی ولادت ۲۲ ذولحجہ ۱۳۱۰ھ/۱۸۹۲ء
ندوۃ العلماء کے جلسہ تاسیس (کانپور) میں شرکت ۱۳۱۱ھ/۱۸۹۳ء
تحریک ندوہ سے علیحدگی ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء
مقابر پر عورتوں کے جانے کی
ممانعت میں فاضلانہ تحقیق ۱۳۱۶ھ/۱۸۹۸ء
قصیدہ عربیہ ’’آمال الابراروآلام
الاشرار‘‘ کی تصنیف ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء
ندوۃ العلماء کے خلاف ہفت روزہ
اجلاس پٹنہ میں شرکت رجب ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰
علماء ہند کی طرف سے خطاب ’’مجدد مائتہ حاضرہ‘‘ ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء
تاسیس دارالعلوم منظر الاسلام بریلی ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء
امام کعبہ شیخ عبدﷲ میر داد اور ان کے استاذ شیخ
حامد مکی کا مشترکہ استفتاء اور امام احمد رضا کا جواب ۱۳۲۴ھ/۱۹۰۶ء
علماء مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے نام
سندات اجازت و خلافت ۱۳۲۴ھ/۱۹۰۶ء
کراچی آمد اور مولانا عبدالکریم
درس سندھی سے ملاقات ۱۳۲۴ھ/۱۹۰۶ء
امام احمد رضا کے عربی فتویٰ کو شیخ اسماعیل خلیل
مکی کا زبردست خراج عقیدت ۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء
شیخ ہدایت ﷲ سندھی کا اعتراف مجددیت ۱۴ ربیع الاول ۱۳۳۰ھ/۱۹۱۲ء
قرآن کریم کا اردو ترجمہ (کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن) ۱۳۳۰ھ/۱۹۱۲ء
شیخ موسیٰ علی شامی ازہری کی طرف سے خطاب (امام الائمۃ المجدد لہذہ الامۃ‘‘ یکم ربیع الاول ۱۳۳۰ھ/۱۹۱۲ء
شیخ اسماعیل خلیل مکی کی طرف سے خطاب
’’خاتم الفقہاء و المحدثین‘‘ ۱۳۳۰ھ/۱۹۱۲ء
علم المربعات میں ڈاکٹر سرضیاء الدین
(علی گڑھ یونیورسٹی انڈیا) کے مطبوعہ
سوال کا فاضلانہ جواب قبل ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء
ملت اسلامیہ کے اصلاحی و انقلابی پروگرام کا اعلان ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء
بہاولپور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد دین کا استفتاء
اس کا فاضلانہ جواب ۲۳ رمضان ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء
مسجد کانپور کے قضیہ پر برطانوی حکومت سے
معاہدہ کرنیوالوں کے خلاف ناقدانہ رسالت ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء
ڈاکٹر سرضیاء الدین (وائس چانسلر مسلم
یونیورسٹی علی گڑھ) کی آمد اور استفادہ علمی مابین ۱۳۳۲ھ/۱۹۱۴۔۱۳۳۵ھ/۱۹۱۶ء
انگریزی عدالت میں جانے سے انکار
اور حاضری سے استثنائ ۱۳۳۴ھ/۱۹۱۶ء
صدر الصدور صوبہ جات دکن کے نام ارشاد نامہ ۱۳۳۴ھ/۱۹۱۶ء
تاسیس جماعت رضائے مصطفی بریلی قریبا ۱۳۳۶ھ/۱۹۱۷ء
سجدہ تعظیمی کی حرمت پر فاضلانہ تحقیق ۱۳۳۷ھ/۱۹۱۸ء
امریکی ہیئت داں پروفیسر البرٹ ایف پورٹا
کو شکست فاش ۱۳۳۸ھ/۱۹۱۹ء
آئزک نیوٹن اور آئن اسٹائن کے نظریات
کے خلاف فاضلانہ تحقیق ۱۳۳۸ھ/۱۹۲۰ء
رد حرکت و زمین پر 105 دلائل اور فاضلانہ تحقیق ۱۳۳۸ھ/۱۹۲۰ء
فلاسفہ قدیمہ کا رد بلیغ ۱۳۳۸ھ/۱۹۲۰ء
دو قومی نظریہ پر حرف آخر ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء
تحریک خلافت کا افشائے راز ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء
تحریک ترک موالات کا افشائے راز ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء
انگریزوں کی معاونت و حمایت کے الزام کیخلاف
تاریخی بیان ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء
وصال پر ملال ۲۵ صفر المظفر ۱۳۴۰ھ
/۲۸ اکتوبر ۱۹۲۱ء
مدیر ’’پیسہ اخبار‘و کا تعزیتی نوٹ یکم ربیع الاول ۱۳۴۰ھ
سندھ کے ادیب شہیر سرشار عقیلی کا تعزیتی مقالہ ۱۳۴۱ھ/ستمبر۱۹۲۲ء
بمبئی ہائی کورٹ کے جسٹس ڈی۔ ایف۔ ملا
کا خراج عقیدت ۱۳۴۹ھ/۱۹۳۰ء
شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کا خراج عقیدت ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲ ۔ (ماخوذ… خلفائے محدث بریلوی رحمتہ ﷲ علیہ)
۳۔ مسلک کے بنیادی عقائد ‘ممیزات اہل سنت و جماعت حنفی ’’بریلوی‘‘ حضرات کے عقائد وممیزات
عقیدہ: ﷲ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا۔ جس طرح سے اس کی ذات قدیم ازلی ابدی ہے اس کی صفات بھی قدیم ازلی ابدی ہیں۔ ذات و صفات کے علاوہ سب چیزیں حادث ہیں یعنی پہلے نہیں تھیں پھر موجود ہوئیں۔
عقیدہ: ﷲ تعالیٰ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
ومن اصدق من ﷲ قیلا (سورہ النساء ۴/۱۲۲)
’’اور ﷲ سے زیادہ کس کی بات سچی‘‘ (کنزالایمان) نیز ایک اور مقام پر فرماتا ہے۔
ومن اصدق من ﷲ حدیثا (سورہ النساء ۴/۸۷)
’’اور ﷲ سے زیادہ کس کی بات سچی‘‘ (کنزالایمان)
صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
’’یعنی اس سے زیادہ سچا کوئی نہیں اس لیے کہ اس کا کذب ناممکن و محال ہے کیونکہ کذب عیب ہے اور ہر عیب ﷲ پر محال ہے‘ وہ جملہ عیوب سے پاک ہے‘‘ (تفسیر خزائن العرفان)
عقیدہ: ﷲ تعالیٰ کا علم غیب ذاتی ہے… ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
ترجمہ ’’وہی ﷲ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ ہر نہاں و عیاں کا جاننے والا وہی ہے‘ بڑا مہربان رحمت والا (سورہ الحشر ۵۹/۲۲) (کنزالایمان)
ترجمہ: ’’ہر چھپے اور کھلے کا جاننے والا سب سے بڑا بلندی والا‘‘ (سورہ الرعد ۱۳/۹) (کنزالایمان)
ترجمہ: ’’بے شک توہی ہے سب غیبوں کا جاننے والا‘‘ (سورہ المائدہ ۵/۱۰۹‘۱۱۶) (کنزالایمان)
عقیدہ: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔ ﷲ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ختم کر دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری زمانہ مبارک میں یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے‘ کافر ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ ترجمہ: ’’محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں ﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے‘‘ (سورہ الاحزاب ۳۳/۴۰) (کنزالایمان)
عقیدہ: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نور ہیں۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
ترجمہ: بے شک تمہارے پاس ﷲ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب (سورہ المائدہ ۵/۱۵) (کنزالایمان)
حضرت عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما کی تفسیر یہ ہے کہ اس آیت میں نور سے مراد حضور پرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ جمہور مفسرین کا یہی قول ہے ملاحظہ ہوں (تفسیر بیضاوی‘ تفسیر مظہری‘ تفسیر خازن‘ تفسیر مدارک‘ تفسیر روح البیان‘ تفسیر جلالین‘ تفسیر روح المعانی و غیرہا،چشتی) صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نور فرمایا گیا کیونکہ آپ سے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی‘‘ (خزائن العرفان)
عقیدہ: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بے مثل بشر ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔ ’’میں تمہاری مثل نہیں‘‘ (صحیح بخاری ۲/۲۴۶‘ جامع الترمذی ۱/۹۷)
حضرت سیدنا علی رضی ﷲ عنہ ارشاد فرماتے ہیں ’’میں نے رسول ﷲ کی مثل نہ پہلے کسی کو دیکھا نہ بعد میں ۔ (ترمذی ۱۲/۸۹ تاریخ کبیر‘ خصائص کبریٰ،چشتی)
عقیدہ: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شافع محشر ہیں۔ وہ ﷲ تعالیٰ کے اذن سے اپنی امت کی شفاعت فرمائیں گے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’وہ کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے مگر اس کے حکم سے جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ۔ (سورہ البقرہ ۲/۲۵۵) (کنزالایمان)
’’قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں‘‘ (سورہ الاسراء ۱۷/۷۹) (کنزالایمان)
جمہور مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مقام محمود سے شفاعت مراد ہے۔
عقیدہ: عبدالمصطفی‘ عبدالنبی‘ غلام رسول اور غلام نبی وغیرہ نام رکھنا جائز ہے اور باعث برکات بھی ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’تم فرمائو اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ﷲ کی رحمت سے ناامید نہ ہو‘‘ (سورہ الزمر ۳۹/۵۳) (کنزالایمان)
ﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم فرمایا کہ یاعبادی (اے میرے بندوں) کہیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ لفظ عبد غیر ﷲ کے ساتھ مل کر استعمال ہوسکتا ہے۔ یعنی جس طرح عبدﷲ اور عبدالرحمن نام ہو سکتے ہیں اسی طرح عبدالمصطفی اور عبدالنبی نام میں کچھ حرج نہیں ہے جو لوگ غیر ﷲ کی طرف اضافت کے سبب شرک کی بات کرتے ہیں وہ اس آیت کا کیا جواب دیں گے اس میں بندوں کی اضافت ضمیر واحد متکلمی کی طرف کی گئی ہے جس سے قطعا حضورپرنور سید عالم صاحب لولاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات مراد ہے۔
عقیدہ: یارسول ﷲ‘ یا حبیب ﷲ لفظ ندا سے پیارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارنایا یاد کرنا جائز ہے۔ امام المحدثین محمد بن اسمعیل بخاری قدس سرہ روایت فرماتے ہیں کہ:’’حضرت عبدﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما کا پائوں سن ہوگیا تو ایک شخص نے ان سے کہا کہ اس شخص کو یاد کریں جو آپ کو سب سے محبوب ہے‘ تو انہوں نے کہا ’’یامحمداہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‘‘ (الادب المفردلامام بخاری ۱/۳۲۵،چشتی)
عقیدہ: حضور سرور کون و مکاں دور و نزدیک سے اپنے امتیوں کی آواز و فریاد کو سنتے ہیں۔ شافع محشر‘ ساقی کوثر احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے۔ ’’جو کچھ میں سنتا ہوں تم نہیں سنتے‘‘ ۔ (المستدرک علی صحیحین ۲/۵۵۴‘ سنن الترمذی ۴/۵۵۶‘ سنن البیہقی الکبری ۵۲۷‘ مسند البزار ۹/۳۵۸‘ مسند احمد ۵/ ۱۷۳‘ شعب الایمان ۱/۴۸۴)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ اپنے مشہور و معروف ’’سلام‘‘ میں فرماتے ہیں۔
دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام
عقیدہ: حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ﷲ تعالیٰ نے نفع و نقصان کا مالک بنایا ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔’’اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ ﷲ اور ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا (سورہ التوبہ ۹/۷۴) (کنزالایمان)
’’اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو ﷲ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ﷲ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں ﷲ اپنے فضل سے اور ﷲ کا رسول ہمیں ﷲ ہی کی طرف رغبت ہے‘‘ (سورہ التوبہ ۹/۵۹) (کنزالایمان)
’’اور اے محبوب یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سے جسے ﷲ نے نعمت دی اور تم نے اسے نعمت دی (سورہ الاحزاب ۳۳/۳۷) (کنزالایمان)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’ہم تقسیم فرمانے والے ہیں اور ﷲ تعالیٰ دیتا ہے‘‘ ۔ (صحیح البخاری ۱/۱۲۶ مشکورہ المصابیح)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم من جانب ﷲ پوری کائنات میں تقسیم فرمانے والے ہیں اور جو قاسم ہوتا ہے یقینا وہ نفع رساں ہوتا ہے۔
عقیدہ: انبیاء کرام‘ اولیاء کرام اور نیک ہستیوں کا وسیلہ مانگنا جائز ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔’’اے ایمان والو! ﷲ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاٶ ‘‘ ۔ (سورہ المائدہ ۵/۳۵) (کنزالایمان)
حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک نابینا صحابی رضی ﷲ عنہ کوایک دعا تعلیم فرمائی جس میں ان صحابی رضی ﷲ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگی۔ وہ دعا یہ ہے : اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یامحمد انی قد توجہت بک الی ربی فی حاجتی ہذہ لتقضی اللھم فشفعہ فی‘‘ ۔
اے ﷲ بیشک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف اپنے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نبی رحمت کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہے‘ یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بے شک میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اپنی اس حاجت کےلیے تاکہ میری حاجت پوری ہو۔ اے ﷲ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما‘‘ (سنن ابن ماجہ ۴/۲۹۶) علامہ سید احمد بن زینی دحلان مکی فرماتے ہیں۔ ’’اہل سنت و جماعت کے نزدیک وسیلہ مانگنے کے جائز ہونے پر اجماع ہے‘‘ ۔ (الدر السنیۃ ص ۴۰)
عقیدہ: حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معلم کائنات ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت سب پر لازم ہے۔ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے ﷲ کا حکم مانا‘‘ ۔ (سورہ النساء ۴/۸۰) (کنز الایمان)
’’اور جو کچھ رسول تمہیں عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو‘‘ (سورہ الحشر ۵۹/۷) (کنزالایمان)
’’اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم ہی کی زبان میں بھیجا کہ وہ انہیں صاف بتائے‘‘ (سورہ ابراہیم ۱۴/۴) (کنزالایمان)
شیخ سلیمان الجمل قدس سرہ حاشیہ جلالین میں لکھتے ہیں ’’اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر قوم سے ان کی زبان میں خطاب فرمایا کرتے تھے‘‘ ۔ (تفسیر جمل ۲/۵۱۲)
’’اور تمہیں کتاب و حکمت سکھاتے ہیں اور تمہیں خوب ستھرا کرتے ہیں اور تمہیں وہ سکھاتے ہیں جو تم نہیں جانتے تھے‘‘ (سورہ البقرہ ۲/۱۵۱) (کنزالایمان)
ان آیات و تفسیر سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام لغات کے جاننے والے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معلم کائنات ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کوئی علم یا کوئی زبان کسی مخلوق سے سیکھی ہو۔
عقیدہ: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ﷲ تعالیٰ نے ہر چیز کا علم عطا فرمایا ہے۔ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔’’اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور ﷲ کا تم پر بڑا فضل ہے‘‘ (سورہ النساء ۴/۱۱۳) (کنزالایمان)
صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ابو زید رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں ’’نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہم کو جو کچھ بھی پہلے ہوچکا تھا اور جو کچھ آئندہ ہونے والا تھا‘ تمام بیان فرمادیا‘‘ ۔ (صحیح مسلم ۲/۳۹۰،چشتی)
نیز سرکار کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’پس جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے‘ میں اس کو جان گیا ہوں‘‘ ۔ (جامع ترمذی ۲/۱۵۵)
نیز سرکار کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کیا حال ہے ان قوموں کا جنہوں نے میرے علم میں طعن کیا ہے۔ قیامت تک کی جس چیز کے بارے میں تم مجھ سے پوچھو گے میں تمہیں بتادوں گا‘‘ ۔ (تفسیر خازن ۱/۳۸۲‘ مطبوعہ مصر)
عقیدہ: نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنا جائز ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا‘‘ (سورہ غافر ۴۰/۶۰) (کنزالایمان)
اس آیت میں کوئی قید نہیں ہے جب بھی ہم دعا مانگیں ﷲ تعالیٰ قبول فرمانے والا ہے۔ خواہ عام فرض نمازوں کے بعد دعا کی جائے یا نماز جنازہ کے بعد بالکل جائز اور حکم قرآن کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ حضور اقدس سیدعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔ ’’جب تم نماز جنازہ پڑھ لو تو میت کےلیے خالص دعا مانگو‘‘ ۔ (ابن ماجہ ۴/۴۴۷‘ سنن ابی دائود ۸/۴۹۱)
حضرت سیدنا عبدﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما ایک جنازے پر نماز جنازہ کے بعد پہنچے تو انہوں نے نمازیوں سے فرمایا ’’اگر تم نے مجھ سے پہلے نماز پڑھ لی ہے تو دعا میں تم مجھ سے آگے نہ برھو‘‘ ۔ (المبسوط الامام شمس الائمۃ السرخسی ۲/۶۷)
عقیدہ: محفل میلاد شریف کرنا جائز اور باعث برکت ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔’’تم فرمائو کہ ﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اس پر چاہئے کہ خوشی کریں‘‘ ۔ (سورۃ یونس ۱۰/۵۸) کنزالایمان)
’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ (سورۃ الضحی ۹۳/۱۱) (کنزالایمان)
ان آیات سے یہ بات نہایت واضح کہ ﷲ تعالیٰ کے فضل‘ رحمت اور نعمت پر خوب خوشی کا اظہار کرو اور چرچا بھی کرو۔ اب کون سا مسلمان ہے جو سرور عالم نور مجسم شفیع اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات بابرکات کو ﷲ تعالیٰ کا فضل اس کی رحمت اور اس کی نعمت نہیں سمجھتا ؟ یقینا تمام مسلمانان عالم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ﷲ تعالیٰ کی طرف سے رحمة للعالمین اور ﷲ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ سمجھتے ہیں جن کی بعثت شریفہ کا ﷲ تعالیٰ نے احسان جتایا ہے۔
’’بے شک ﷲ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ‘‘ (سورہ آل عمران ۳/۱۶۴) (کنزالایمان)
لہذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے میلاد کی خوشی منانا ﷲ تعالیٰ کی نعمت کا چرچا کرنا ہے۔ اور محفل میلاد منعقد کرنا صرف پاکستان یا ہندوستان تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام عالم اسلام اپنے اپنے زمانے میں محفل میلاد منعقد کرتے آئے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ لکھتے ہیں ’’اور اہل اسلام ہمیشہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت شریف والے مہینہ میں محافل میلاد منعقد کرتے رہے ہیں‘‘ ۔ (ماثبت من السنۃ ص ۴۰ مطبوعہ لاہور،چشتی)
عقیدہ: حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور تمام انبیاء کرام اپنے اپنے مزاروں میں زندہ ہیں۔ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں‘‘ (سورہ البقرہ ۲/۱۵۴) (کنزالایمان)
علامہ احمد بن حجر عسقلانی رحمة ﷲ لکھتے ہیں:’’اور جب قرآنی ارشادات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ شہید لوگ زندہ ہیں اور یہی عقل سے بھی بادلیل ثابت ہے تو وہ انبیاء کرام علیہم السلام جن کا درجہ شہداء سے بلند اور بالاتر ہے ان کی حیات بطریق اولیٰ ثابت ہوگئی‘‘ ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری ۱۰/۲۴۳)
عقیدہ: بزرگان دین کے اعراس میں جو جانور نیاز اور ارواح کے ایصال ثواب کے لئے ذبح کیا جاتا ہے‘ وہ حلال ہے۔ قرآن مجید میں جو آیت ہے (اور وہ جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو‘‘ (سورہ البقرہ ۲/۱۷۳) (کنزالایمان) تو اس آیت کی تفسیر میں مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں وہ جانور مراد ہے جس پر ذبح کے وقت غیر ﷲ کا نام لیا جائے۔ مندرجہ ذیل تفاسیر میں یہ بیان موجود ہے (تفسیر بیضاوی‘ تفسیر مظہری‘ تفسیر خازن‘ تفسیر مدارک‘ تفسیر روح البیان‘ تفسیر جلالین‘ تفسیر روح المعانی،چشتی)
لہٰذا حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی گیارہویں شریف ان کے ایصال ثواب کےلیے جو جانور گائے‘ بکرا وغیرہ ذبح کیا جاتا ہے یا کسی ولی ﷲ کے عرس مقدس پر جو بکرا ذبح کیا جاتا ہے اس پر بھی ذبح کے وقت (بسم ﷲ ﷲ اکبر) پڑھا جاتا ہے لہٰذا وہ کھانا بالاتفاق حلال اور جائز ہے ۔ کذا فی التفسیرات الاحمدیۃ ۔
عقیدہ: مردے سنتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب ﷲ تعالیٰ نے قوم ثمود پر عذاب نازل کیا اور وہ لوگ مر گئے تو حضرت صالح علیہ السلام نے ان مردہ لوگوں کو فرمایا (پس ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا دی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرض ہی نہیں) (سورہ الاعراف ۷/۷۹) (کنزالایمان)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’بے شک جب آدمی کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے دوست جب اس سے لوٹتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے‘‘ ۔ (صحیح بخاری ۵/۱۱۳)
حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ طیبہ کے قبرستان سے گزرتے تو فرماتے: ’’اے قبر والو! تم پر سلامتی ہو‘ ﷲ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں بخشے اور تم ہم سے پہلے آئے اور ہم تمہارے بعد آئیں گے‘‘ ۔ (جامع ترمذی ۴/۲۰۸) ان احادیث سے صاف واضح ہے کہ قبروں والے مردے سنتے ہیں۔
عقیدہ: اولیاء ﷲ کو پکارنا اور ندا کرنا جائز ہے۔ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔’’تو بے شک ﷲ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے فرشتہ مدد پر ہیں‘‘ (سورۃ التحریم ۶۶/۴) (کنزالایمان)
امام جلال الدین سیوطی قدس سرہ نے طبرانی شریف کے حوالے سے حدیث شریف درج فرمائی ہے کہ حضرت عبدﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ﷲ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں جنہیں لوگوں کی حاجتیں پوری ہونے کےلیے لوگ اپنی حاجتوں میں ان کی طرف فریاد کریں گے‘ وہ ﷲ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہیں‘‘ ۔ (جامع صغیر مع فیض القدیر ۲/۴۷۷ مطبوعہ مصر‘ المعجم الکبیر ۱۲/۳۵۸‘ حلیتہ الاولیاء ۳/۲۲۵)
اس کے علاوہ بہت سے ایسے عقائد ہیں جن سے اہل سنت و جماعت حنفی بریلوی حضرات کا دیگر فرقوں سے امتیاز ہوجاتا ہے چنانچہ انہیں عقائد سے یہ ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حاضر و ناظر ماننا
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے عطائی علم غیب ماننا
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دنیا وآخرت کے احوال کا جاننے والا ماننا
اذان سے قبل اور بعد میں درود شریف پڑھنا
انگوٹھے چومنا‘ رحمۃ للعالمین صفت کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خاصہ ماننا
ختم شریف‘ یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیأ للہ وغیرہ
ان عقائد کے حامل حضرات ہی درحقیقت اہل سنت و جماعت ہیں جنہیں عرف میں ’’بریلوی‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ مذکورہ بالا عقائد چودہ سو سال سے چلے آرہے ہیں اور ان کے دلائل قرآن و سنت سے واضح ہیں۔ ان عقائد کے حامل شخص کو ’’بریلوی فرقہ‘‘ والا کہنا قطعا درست نہیں ہے۔ ورنہ پھر صحابہ کرام‘ تابعین‘مفسرین‘ محدثین‘ ائمہ مجتہدین‘ سب کو ’’بریلوی‘‘ کہنا پڑے گا۔ کیونکہ ان کے بھی وہی عقائد تھے جو آج اہل سنت حنفی بریلویوں کے ہیں۔ لہذا مذکورہ عقائد کے حامل حضرات کو ’’بریلوی‘‘ مکتبہ فکر والا کہہ کر اہل سنت و جماعت سے علیحدہ کہنا اور جدید فرقہ کے عقائد کا پیروکار کہنا ظلم و زیادتی ہے۔
۴: عبادات و معاملات میں کون سے فقہی مذہب سے وابستگی ہے‘ اس فقہی مذہب کی کون سی کتاب کو بنیادی ماخذ کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے‘ فقہی لحاظ سے ممیزات
عبادات و معاملات میں فقہی مذہب ’’حنفی‘‘ ہے جوکہ حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ اس فقہی مذہب کی کئی کتب کو ماخذ کی حیثیت حاصل ہے جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں۔
کتب ظاہر الروایہ میں چھ کتابیں ہیں۔
(۱) جامع کبیر (۲) جامع صغیر (۳) سیر کبیر (۴) سیر صغیر (۵) مبسوط (۶) زیادات
یہ کتابیں فقہ حنفی کا اصل ماخذ اور بنیادی ماخذ ہیں۔پھر مسائل پیدا ہوتے گئے اور کلیات سے جزئیات نکلتے گئے اور کتب فتاویٰ تصنیف ہوتی رہیں۔ ہمارے دور میں جو کتب فتاویٰ مشہور اور زیادہ مروج ہیں وہ یہ ہیں۔
(۱) فتاویٰ عالمگیری (۲) فتاویٰ شامی (۳) فتاویٰ قاضی خان (۴) فتاویٰ خلاصہ (۵) فتاویٰ بزازیہ (۶) فتاویٰ انقرویہ (۷) فتاویٰ رضویہ (۸) فتاویٰ امجدیہ (۹) بہار شریعت (۱۰) فتاویٰ فیض رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وغیرہا
۵: اس مسلک کے بارے میں مزید معلومات کیلئے منتخب کتابیں
تمہید ایمان‘ از: امام احمد رضا محدث بریلوی
زلزلہ‘ از: علامہ ارشد القادری
جاء الحق از : مفتی احمد یار خان نعیمی
بزرگوں کے عقیدے از: مفتی جلال الدین احمد امجدی
مقیاس حنفیت از : حضرت مولانا محمد عمر اچھروی
حیات اعلیٰ حضرت از: مولانا ظفر الدین بہاری
حیات مولانا احمد رضا بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد
فاضل بریلوی علماء حجاز کی نظر میں از پروفیسر مسعود احمد
امام احمد رضا اور عالم اسلام از پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد
حیات امام اہلسنت از: پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد
گناہ بے گناہی از :پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد
اعلیٰ حضرت بریلوی از: مولانا نسیم بستوی
جہان رضااز: مرید احمد چشتی
خیابان رضا از: مرید احمد چشتی
امام احمد رضا ارباب علم ودانش کی نظر میں از: مولانا یاسین اختر مصباحی
حیات صدر الافاضل از: سید معین الدین نعیمی
اکرام امام احمد رضا از: مفتی محمد برہان الحق جبل پوری
اکابر تحریک پاکستان از: محمد صادق قصوری
خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس از: مولانا محمد جلال الدین امجدی
اندھیرے سے اجالے تک از: مولانا عبدالحکیم شرف قادری
انوار رضا ‘مقالات یوم رضا‘ معارف رضا (مطبوعہ ۱۹۸۳ئ) تعارف اہل سنت از: یاسین اختر مصباحی ۔ (مزید حصہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment