Wednesday 6 October 2021

گستاخ بدمذھب سید کی تعظیم کا حکم

0 comments

 گستاخ بدمذھب سید کی تعظیم کا حکم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : صحیح النسب سید اگر چہ فاسق و فاجر اور تارک نماز روزہ اور فلم دیکھنے والا ہی کیوں نہ ہو اس کی تعظیم واجب ہے جیسا کہ امامِ اہلسنّت مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سید سنی المذہب کی تعظیم لازم ہے اگر چہ اس کے اعمال کیسے ہوں ان اعمال کے سبب اس سے تنفر نہ کیا جائے نفس اعمال سے تنفر ہو بلکہ اس کے مذہب میں بھی قلیل فرق ہو کہ حدِ کفر تک نہ پہنچے جیسے تفضیلی تو اس حالت میں بھی اس کی تعظیم سیادت نہ جائے گی ہاں اگر اس کی بد مذہبی حدِ کفر تک پہنچے جیسے رافضی وہابی قادیانی نیچری وغیرہم تو اب اس کی تعظیم حرام ہے کہ جو وجہ تعظیم تھی یعنی سیادت وہی نہ رہی یعنی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم سے ان کا نسب ارتداد نے منقطع کر دیا اب وہ سید نہ رہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ٢٢ صفحہ ٤٢٢)


جو واقع میں سیِّد نہ ہو اور دِیدہ ودِانستہ(جان بوجھ کر ) سید بنتا ہو وہ ملعون (لعنت کیا گیا) ہے ، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل۔رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم فرماتے ہیں : جو کوئی اپنے باپ کے سِوا کسی دوسرے یا کسی غیر والی کی طرف منسوب ہونےکا دعویٰ کرے تو اس پر اللّٰہ تعالیٰ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفل ۔ (مُسلِم ، کتاب الحج ، باب فضل المدینة...الخ ،ص۷۱۲،حدیث:۱۳۷۰،چشتی)


مگر یہ اس کا مُعامَلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے یہاں ہے ، ہم بِلا دلیل تکذیب نہیں کر سکتے ، اَللہ ہمارے علم (میں) تحقیق طور پر معلوم ہے کہ یہ سیِّد نہ تھا اور اب سیِّد بن بیٹھا تو اُسے ہم بھی فاسِق و مُرتکبِ کبیرہ و مستحق لعنت جانیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٣/١٩٨)


اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگزاس کی تعظیم نہ کی جائے گی ۔ امامِ اہلسنّت مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم ہمیشہ (کی جائے گی) جب تک ان کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پَہُنچے کہ اس کے بعد وہ سیِّد ہی نہیں ، نسب مُنْقَطَع ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے :  قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ  ۔ (پ۱۲، ھُود:۴۶)

ترجَمہ : فرمایا ! اے نوح ! وہ (یعنی تیرا بیٹا کنعان) تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں ۔ بدمذہب جن کی بد مذہبی حدِّ کفر کو پَہُنچ جائے اگرچہ سیِّد مشہور ہوں نہ سیِّد ہیں ، نہ اِن کی تعظیم حلال بلکہ توہین و تکفیر فرض ۔ (فتاویٰ رضویہ ،٢٢/٤٢١)


امامِ اہلسنّت مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا ایک دوسرا بھی فتویٰ ملاحظہ کریں : ⬇


مسئلہ ۸۰۹ : اہلِ سنت و جماعت کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ بعد الانبیاء علیہ السلام افضل البشر ہیں۔ زید و خالد دونوں اہلِ سادات ہیں ، زید کہتا ہے کہ جو شخص حضرت علی کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما پر فضیلت دیتا ہے اُس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے ۔ خالد کہتا ہے کہ میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ حضرت ابوبکر صدیق پر حضرت علی رضی اللہ عنہما کو فضیلت ہے اور ہر سید تفضیلیہ ہے اور تفضیلیہ کے پیچھے نماز مکروہ نہیں ہوتی بلکہ جو تفضیلیہ کے پیچھے نماز مکروہ بتائے خود اس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے ۔

الجواب : تمام اہلِ سنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اللہ عنہما مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے افضل ہیں۔ ائمہ دین کی تصریح ہے کہ جو مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کو اُن پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے ۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے ۔ فتاویٰ خلاصہ ، و فتح القدیر و بحرالرائق و فتویٰ عالمگیری وغیرہ یا کتب کثیرہ میں ہے ۔ اگر کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما پر فضیلت دیتا ہے تو وہ بدعتی ہے۔ غنیہ و رد المختار میں ہے ۔ بدمذہب کے پیچھے نماز ہرحال میں مکروہ ہے ۔ ارکانِ اربعہ میں ہے ۔ ان یعنی تفضیلی شیعہ کی اقتداء میں نماز شدید مکروہ ہے ۔ تفضیلیوں کے پیچھے نماز سخت مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۶ صفحہ ۶۲۲،چشتی)


یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اس ⬆ فتویٰ  کی تاریخ ۱۴ محرم الحرام ۱۳۳۹ھ ہے ۔ جو کہ تفضیلی حضرات پیش کرتے ہیں ۔ محترم قارئین کرام ! امامِ اہلسنّت مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے دونوں فتوے ملاحظہ کریں اور دونوں میں فرق ملاحظہ کریں اور نتیجہ پڑھنے والوں پر ہے ۔


مگر تفضیلی حضرات کو کم از کم امامِ اہلسنّت مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے دونوں فتوے عوام الناس کے سامنے پیش کر دینے چاہئیں تھے تاکہ ساری بات واضح ہو سکے کہ حقیقت کیا ہے ؟


محترم وقار رضا قادری صاحب لکھتے ہیں : سید کی تعظیم ہمارے ہاں یہ بات عمومی طور پر بیان کی جاتی ہے کہ سید بدمذھب بھی ہو تو اس کی تعظیم واجب ہے جو اپنی جگہ حق اور درست ہے اس کا مفھوم بھی بالکل واضح ہے کہ اس کی توہین اس کے نسب کو دیکھتے ہوئے نہ کی جائے جیسے سید کو گالیاں دینا اس کے نسب کو لیکر طعن و تشنیع کرنا وغیرہ ۔ لیکن اس کا ہرگز وہ مفہوم نہیں جو آج کل بعض بناسپتی خطیبوں نے لیا ہے کہ بدمذھب سید کی محفل میں جاتے ہیں اس کے ہاتھ چومتے ہیں وغیرہ یہ سب امور ناجائز ہیں کہ فقط تعظیم بمعنیٰ توہین سے روکا گیا تھا ۔ اس کی نشست اختیار کرنا وغیرہ تو بحکم حدیث سخت ممنوع تھا ۔


رحمتِ عالم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا فرمانِ معظم ہے تم ان سے دُور رہو اور وہ تم سے دُور رہیں کہیں تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور فتنے میں نہ ڈال دیں ۔ (مقدمہ صحیح مسلم ص۹حدیث ۷)


امامِ اہلسنّت مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے اس فتویٰ کہ سید بدمذھب کی تعظیم کی جائے کے ساتھ اس فتوی کو بھی پیش نظر رکھا جائے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے : سُنیّوں کو غیر مذہب والوں سے اِختِلاط (میل جول) ناجائز ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد21ص 128،چشتی)


آج کل جو خطیب پیر بدمذھب تفضیلیہ اگرچہ سید ہوں ان کی محافل میں جاتے ہیں وہ سب فاسق گناہ کبیرہ کے مرتکب ہیں ۔ بلکہ بعض تو تفضیلہ اگرچہ سید ہوں کہ جنازوں میں جاتے ہیں یا تفضیلہ کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں یہ سب امور سید کی تعظیم میں داخل نہیں ہیں جیسا کہ بعض افراد نےسمجھا ہے ۔


امامِ اہلسنّت مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر صرف تفضیلیہ ہے تو اُس کے جنازے کی نماز بھی نہ چاہتے متعدد حدیثوں میں بد مذہبوں کی نسبت ارشاد ہوا : ان ماتوا فلا تشہدوھم ، وُہ مریں تو ان کے جنازہ پر نہ جائیں ، ولاتصلوا علیہم ، ان کے جنازے کی نمازنہ پڑھو۔ نماز پڑھنے والوں کو توبہ استغفار کرنی چاہئے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 177)


امامِ اہلسنّت مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہر قسم کا بدمذھب اگرچہ وہ سید جیسے تفضیلی سید اس کی محفل میں جانا اس سے جھک جھک کر ملنا اس کے پیچھے نماز پڑھنا اس کے جنازے میں جانا وغیرہ سب ناجائز ہے ۔


مفتی خلیل احمد خان قادری مارہروی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : غیر سیّد اگر خود کو سیّد کہے تو وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی لعنت کا مستحق ہے اور اس پر جنّت حرام ہے ۔ (فتاویٰ خلیلیہ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 137) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔