Friday 8 October 2021

حدیث ثقلین عرفان شاہ مشہدی کو جواب

0 comments

 حدیث ثقلین عرفان شاہ مشہدی کو جواب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : حدیثِ ثقلین سے شیعہ روافض اور نیم رافضی غلط استدلال کرتے ہیں اسی کو علامہ عرفان شاہ مشہدی نے بیان کیا کیا ہے جس کی ویڈیو موود ہے ، شیعہ روافض کے تمام مذہب کی بنیاد اس حدیث کا دوسرا حصہ ہے ۔ اگران کے مذہب سے اہل بیت رضی اللہ عنہم کا ذکر نکال دیا جائے تو ان کی پوری کی پوری مذہبی عمارت زمین بوس ہوجائے ۔ ان حضرات کا اس حدیث سے استدلال یہ ہے کہ جس طرح کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہے اسی طرح اہل بیت رضی اللہ عنہم کی اتباع و پیروی بھی لازمی اور ضروری ہے ۔ اہل بیت رضی اللہ عنہم میں سے جو بھی شخص جو بھی بات کہے اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ اس حدیث کی آڑ میں وہ سادہ لوح عوام میں اپنے نظریات پھیلا کر انہیں اپنا مذہب اختیار کرنے کی رغبت دلاتے ہیں ۔ علم حدیث میں فہم و فراست نہ رکھنے والے افراد ان کے اس حملے کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت برباد کر بیٹھتے ہیں ۔


مکمل حدیثِ ثقلین


حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ، قَالَ زُهَيْرٌ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَيَّانَ، حَدَّثَنِي عَنْ يَزِيْدَ بْنِ حَيَّانَ قَالَ :  اِنْطَلَقْتُ اَنَا وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ وَعَمْرُوبْنُ مُسْلِم اِلَى زَيْدِ بْنِِ اَرْقَمَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ فَلَمَّا جَلَسْنَا اِلَيْهِ قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ :  لَقَدْ لَقِيْتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيْرًا رَاَيْتَ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعْتَ حَدِيْثَهُ وَغَزَوْتَ مَعَهُ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ :  لَقَدْ لَقِيْتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيْرًا حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :  يَا اِبْنَ اَخِيْ وَاللهِ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي وَقَدُمَ عَهْدِيْ وَنَسِيْتُ بَعْضَ الَّذِيْ كُنْتُ اَعِيْ مِنْ رَسوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوْا وَمَا لَا فَلَا تُكَلِّفُوْنِيْهِ ثُمَّ قَالَ : قَامَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِيْنَا خَطِيْبًا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللهَ وَاَثْنَى عَلَيْهِ وَوَعَظَ وَذَكَّرَ ثُمَّ قَالَ : اَمَّا بَعْدُ اَلَا اَيُّهَا النَّاسُ فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ يُوْشِكُ اَنْ يَاْتِيَ رَسُوْلُ رَبِّيْ فَاُجِيْبَ وَاَنَا تَارِكٌ فِيْكُمْ ثَقَلَيْنِ :  اَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيْهِ الْهُدٰى وَالنُّوْرُ فَخُذُوْا بِكِتَابِ اللهِ وَاسْتَمْسِكُوْا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ  وَرَغَّبَ فِيْهِ ثُمَّ قَالَ : وَاَهْلُ بَيْتِيْ اُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِيْ اَهْلِ بَيْتِيْ اُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِيْ اَهْلِ بَيْتِيْ فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ :  وَمَنْ اَهْلُ بَيْتِهِ يَا زَيْدُاَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ اَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ :  نِسَاؤُهُ مِنْ اَهْلِ بَيْتِهِ وَلٰكِنْ اَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ قَالَ :  وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ :  هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيْلٍ وَآلُ جَعْفَرٍ وَآلُ عَبَّاسٍ. قَالَ :  كُلّ ُهٰؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ :  نَعَمْ. (مسلم ، کتاب الفضائل ، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ص۱۳۱۲ ، حدیث : ۲۴۰۸) وَفِيْ رِوَايَةٍ : اَلَا وَاِنّي تَارِكٌ فِيْكُمْ ثَقَليْنِ :  اَحَدُهُمَا كِتَابُ اللهِ وَهُوَ حَبْلُ اللهِ مَنِِ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَى الهُدٰى وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَى ضَلَالَةٍ. (مسلم ، کتاب الفضائل ، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ص۱۳۱۳ ، حدیث : ۲۴۰۸،چشتی)

ترجمہ :  حضرتِ سَیِّدُنا یزید بن حیان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں ، حُصَیْن بن سَبْرَہ اور عَمرو بن مسلم ہم تینوں حضرت سَیِّدُنَا زید بن اَرْقَمْ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی خدمت میں حاضر ہوئے پس جب ہم ان کے پاس بیٹھ چکے تو حضرت سیدنا حُصَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے کہا :  ’’اے زید !  آپ نے بہت بھلائی پائی کیونکہ آپ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت سے مشرف ہوئے ، آپ نے ان سے احادیث سنیں ، ان کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئے اوران کی اقتداء میں نماز ادا کی ۔  اے زید !  آپ نے خیر کثیر پائی ، آپ ہمیں بھی وہ باتیں بتائیں جو آپ نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سنیں ۔  حضرت سَیِّدُنا زید بن ارقم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :  ’’اے بھتیجے  !  خدا کی قسم ! میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میرے اس یادگار زمانے کو مدت گزر گئی ہے اور جو کچھ حضور عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَالسَّلَام سے میں نے یاد کیا تھا اس میں سے بھی کچھ بھول گیا ہوں پس جو کچھ میں تم سے بیان کروں اسے قبول کرلو اور جو نہ بیان کرسکوں اس کے متعلق مجھے زحمت نہ دو ۔ ‘‘ پھر فرمایا کہ ایک دن رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مکہ و مدینہ کے درمیان خم نامی تالاب پر خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ۔  آپ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَالسَّلَام نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور لوگوں کووعظ و نصیحت فرمائی ۔  پھر ارشاد فرمایا :  ” خبردار !  اے لوگو !  میں ایک بشرہوں ، قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آجائے اور میں اس کا پیغام قبول کرلوں ۔  میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ رہا ہوں ۔  ان میں سے پہلی تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے ، تم اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو ۔ “ پھرآپ نے کِتَابُ اللہ پر عمل کرنے پر اُبھارا اور اس کی رغبت دلائی ۔ پھر ارشاد فرمایا :  ’’دوسرے میرے اہل بیت ہیں ، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے ڈراتا ہوں ، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے ڈراتا ہوں ۔ ‘‘ حضرت سیدنا حصین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے پوچھا : ’’اے زید !  اہل بیت کون ہیں؟ کیا ان میں ازواجِ مُطَہَّرات شامل نہیں ؟ حضرت سیدنا زید بن اَرقم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :  ’’ آپ کی ازواج بھی اہلِ بیت میں سے ہیں لیکن یہاں اہل بیت سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے بعد صدقہ لینا حرام ہے ۔ ‘‘ پوچھا : ’’ وہ کون ہیں؟  ‘‘   فرمایا :  ’’وہ آلِ علی ، آلِ عقیل ، آلِ جعفر اور آلِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ ہیں ۔ ‘‘ پوچھا : ’’ان سب پر صدقہ لینا حرام ہے ؟  ‘‘   فرمایا :  ’’ہاں ۔   ‘‘  ایک روایت میں ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا :  ’’سنو !  میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ۔  ان میں سے ایک اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی کتاب ہے جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رسّی ہے جو اس پر عمل پیرا ہوگا وہ ہدایت پر رہے گا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہ ہوا ۔


بہت ساری سندوں سے منقول ہے لیکن اس کی صرف اور صرف ایک ہی سند صحیح ہے جو مسلم میں ہے ۔


آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :  میں تمہارے درمیان دو عظیم چیزیں چھوڑ رہا ہوں ۔  حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان دو چیزوں کے لیے ثَقَلَیْنِ کے الفاظ ارشاد فرمائے ۔  یہ لفظ دو طرح آتا ہے (1) ثِقْلٌ بمعنیٰ بوجھ ، جن و اِنس کو بھی ثقلین کہتے ہیں کہ زمین میں ان کا بڑا وزن ہے کیونکہ قرآنِ مجید کے احکامات پر عمل کرنا اور اہل بیت کی اطاعت کرنا نفس پر بھاری ہے لہٰذا انہیں ثقلین فرمایا ۔  اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ارشار فرماتا ہے : اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْكَ قَوْلًا ثَقِیْلًا ۔ پ۲۹ ، المزمل : ۵ ۔ ترجمہ  :  بے شک عنقریب ہم تم پر ایک بھاری بات ڈالیں گے ۔ (یعنی قرآنِ مجید) (2) ثَقَلٌ بمعنی عظیم و نفیس چیز ، چونکہ اِیمان کی زِینت دِین کی رونق قرآنِ مجید اور اہل بیت اَطہار رضی اللہ عنہم سے ہے اس لیے انہیں ثقلین فرمایا یعنی دو بھاری بھرکم چیزیں یا نفیس ترین چیزیں جو متاعِ اِیمان میں سب سے زیادہ قیمتی ہیں ۔  (مرآ ۃ المناجیح ، ۸ / ۴۵۶)


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :  ’’اِن دو نفیس چیزوں میں سے پہلی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے پس تم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی کتاب پر عمل پیرا ہو اور اسے مضبوطی سے تھام لو ۔ ‘‘ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ علیہ فرماتے ہیں :  ’’یہ کتاب دنیا اور آخرت کی سعادت تک پہنچاتی ہے ، اس میں روشنی یعنی اعمال کا بیان ہے کہ جس روشنی سے راستہ روشن ہوتا ہے اور منزل ِمقصود تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے ، نیز نور قرآن پاک کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ (اشعۃ اللمعات ، کتاب المناقب ، باب مناقب اھل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ۴ / ۶۹۶،چشتی)


امام مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ علیہ فرماتے ہیں : ’’یہ کتاب گمراہی سے ہدایت کی جانب پھیر تی ہے ، دلوں کو مُنور کرتی ہے اور قیامت میں پل صِراط کا نور ہے ۔  لہٰذا اسے مُسْتَدَلّ بناؤ ، اسے حِفظ کرو اور اس کے علوم حاصل کرو اور اپنے اعقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے اسے مضبوطی سے تھام لو ۔  یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ احادیث رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر عمل کرنا بھی منجملہ کتابُ اللہ پر عمل کرنا ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : ) وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-( ( پ۲۸ ، الحشر : ۷ ) ترجمہ  :  اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو ۔    اور رسولُ اللہ کی اطاعت در حقیقت اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی اطاعت ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے : مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ۵ ، النساء : ۸۰ ) ۔ ترجمہ : جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔  ‘‘ اور جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے محبت کرنے والا ہے اس پر تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اطاعت کرنا لازم ہے ، قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے : )قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ( ( پ۳ ، آل عمران :  ۳۱ ) ’’ترجمہ : اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا ۔ ‘‘ سرکارصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو کتابُ اللہ کے الفاظ و معانی کی رعایت کرنے اور اُس کے اَحکامات پر عمل کرنے پر اُبھارا اور وہ چیزیں بیان فرمائی جن سے لوگوں میں کتابُ اللہ پر عمل کرنے کی رغبت پیدا ہو ، ممکن ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے رغبت دلانے والی باتوں کے ساتھ  ان عذابوں سے بھی لوگوں کو خوف دلایا ہو جو اَحکامِ الٰہی ترک کرنے والوں کو دئیے جائیں گے ۔ (مرقاۃ المفاتیح ، کتاب المناقب و الفضائل باب مناقب اھل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)


ایک روایت میں ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا :  ’’سنو !  میں تم میں دوعظیم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ۔  ان میں سے ایک اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی کتاب ہے جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رسّی ہے جو اُس پر عمل پیرا ہوگا وہ ہدایت پر رہے گا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہ ہوا ۔ ‘‘ حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ الرَحْمَہ فرماتے ہیں : یہ فرمانِ عالی اِس آیت کی طرف اشارہ ہے : (وَ  اعْتَصِمُوْا  بِحَبْلِ  اللّٰهِ  جَمِیْعًا  وَّ  لَا  تَفَرَّقُوْا۪  ) ( پ۴ ، آل عمران : ۱۰۳ ) ’’ترجمۂ  کنزالایمان  :  اور اللہ کی رسّی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا ( فرقوں میں بٹ نہ جانا )  ۔   ‘‘  جیسے کنویں میں گیا ہوا ڈول رسّی سے وابستہ رہے تو پانی لے آتا ہے وہاں کی کیچڑ میں نہیں پھنستا لیکن اگر رسّی سے کھل جاوے تو وہاں کی دلدل میں پھنس جاتا ہے ، دنیا کنواں ہے جہاں نیک اَعمال و اِیمان کا پانی بھی ہے اور کفر و گناہوں کی دلدل بھی ، ہم لوگ گویا ڈول ہیں اگر قرآن اور صاحب قرآن سے وابستہ رہے تو یہاں کے کفرو عصیان میں نہیں پھنسیں گے ۔  نیک اعمال کا پانی لے کر بخیریت اپنے گھر پہنچیں گے ۔  خیال رہے کہ قرآن رسّی ہے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اوپر کھینچنے والے مالک ہیں اور اگر حضور رسی ہیں تو رب تعالیٰ اوپر کھینچنے والا ۔  امام ابوصیری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :


دَعَا اِلَی اللہِ فَالْمُسْتَمْسِکُوْنَ بِہٖ                                  مُسْتَمْسِکُوْنَ بِحَبْلٍ غَیْرِ مُنْفَصِمِ


ترجمہ : ’’حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہمیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے دین کی طرف بلایا تو ان کی اطاعت کی رسّی تھامنے والے ایسے تھامنے والے ہیں کہ کبھی منقطع نہ ہوں گے ۔   ‘‘  رسّی کا ایک کنارہ ڈول میں ہوتا ہے دوسرا کنارہ اوپر والے کے ہاتھ میں اگر اوپر والا ہاتھ نہ کھینچے تو رسّی ڈول کو نہیں نکال سکتی ۔  لہٰذا کوئی قرآن چھوڑ کر ہدایت پر نہیں آسکتا ۔  خیال رہے کہ بعض مؤمنین بغیر کتابُ اللہ صرف نبی کے ذریعہ رب تک پہنچ گئے جیسے فرعونی جادوگر یا جیسے وہ لوگ جو عین جہاد میں ایمان لاکر فورًا شہید ہوگئے مگر کوئی شخص صرف کتابُ اللہ سے بغیر نبی رب تک نہیں پہنچا ۔ ‘‘ (مرآۃ المناجیح ، ۸ / ۴۵۸،چشتی)


اس صحیح حدیث میں صرف اور صرف کتاب اللہ یعنی قران مجید کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور قران نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیروی کا حکم دیا ہے بلکہ اس حدیث میں اتباع کا حکم کی وصیت کرنے والے خود اللہ کے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی ہیں اس لئے اتباع قران کے حکم میں اتباع حدیث کاحکم بھی شامل ہے ۔


یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے قران میں فرمایا گیا : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۔

ترجمہ : اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور تفرقہ بازی سے بچو ۔ (سورہ آل عمران: 103)


اس حکم میں قرآن کی اتباع کے ساتھ ساتھ حدیث کی اتباع کا حکم بھی شامل ہے ۔ یہی معاملہ صحیح مسلم کی اس حدیث کا بھی ہے ۔


اس حدیث میں دوسری بات جو ذکر ہے وہ اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے حقوق کی نگہداشت ۔ یاد رہے کہ صحیح مسلم کی اس حدیث میں اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی بھی پیروی کا حکم قطعاً نہیں ہے بلکہ اس صحیح حدیث میں صرف اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے حقوق کی نگہداشت کا حکم ہے ۔

اور اس روایت کے جن طرق میں اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی بھی پیروی کی بات ہے ان میں کوئی بھی طریق صحیح وثابت نہیں ہے ۔


حدیثِ ثقلین سے شیعہ روافض غلط استدلال کرتے ہیں ، بلکہ یوں کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کے تمام مذہب کی بنیاد اس حدیث کا دوسرا حصہ ہے ۔ اگران کے مذہب سے اہل بیت رضی اللہ عنہم کا ذکر نکال دیا جائے تو ان کی پوری کی پوری مذہبی عمارت زمین بوس ہوجائے ۔ ان حضرات کا اس حدیث سے استدلال یہ ہے کہ جس طرح کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہے اسی طرح اہل بیت رضی اللہ عنہم کی اتباع و پیروی بھی لازمی اور ضروری ہے ۔ اہل بیت رضی اللہ عنہم میں سے جو بھی شخص جو بھی بات کہے اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ اس حدیث کی آڑ میں وہ سادہ لوح عوام میں اپنے نظریات پھیلا کر انہیں اپنا مذہب اختیار کرنے کی رغبت دلاتے ہیں ۔ علم حدیث میں فہم و فراست نہ رکھنے والے افراد ان کے اس حملے کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت برباد کر بیٹھتے ہیں ۔


مذکورہ حدیث سے ان حضرات نے جو استدلال لیا ہے وہ شرعی نصوص کے خلاف ہے ۔ جب ہم اس حدیث کے مختلف طرق دیکھتے ہیں اور حدیث کے الفاظ پر غور کرتے ہیں تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمسّک کا لفظ کتاب اللہ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے بارے میں صرف ان کی عزت و توقیر اور ان کے ساتھ محبت کرنے کی وصیت کی ہے ۔ اس بات کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کتاب اللہ کے ساتھ اپنی سنت کا ذکر فرمایا ہے ۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے : تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَینِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّۃِ نَبِیِّہٖ۔(موطا امام مالک: 899/2)

''میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جب تک تم انھیں تھامے رکھوگے گمراہ نہیں ہوگے، وہ دو چیزیں کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے۔


یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ گروہ اس حدیث کو پکڑ کر تو بڑا ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ اہل بیت کی اطاعت کرنا بھی قرآن کریم کی اطاعت ہی کی طرح ہے مگر اس موقف کا حامل فرقہ اس حدیث کو پس پشت ڈال دیتا ہے جس میں خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنے کا حکم ہے۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے : فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ ۔ (سنن ابن ماجہ: 42)

''فتنوں کے دور میں تم میرے اور میرے صحابہ کرام کے طریقے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔''


یہ بات بھی یاد رہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقے کو لازم پکڑنے کے بارے محدثین علمائے کرام کا منہج یہ ہے کہ ان کی اتباع صرف اسی معاملے میں کی جائے گی جو نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت کی مطابقت میں ہوگا یا پھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت کی مخالفت میں نہیں ہوگا ۔ اسی طرح اہل بیت کی اطاعت بھی اسی منہج کے مطابق کی جائے گی۔ البتہ ہمارا اس حدیث کو یہاں بیان کرنے کا مقصد ان حضرات کو یاد دہانی کرانا ہے کہ اگر ہر معاملے میں اہل بیت کی اطاعت واجب ہے تو پھر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اطاعت تو بالاولیٰ واجب ہے، اس لیے کہ خلفائے راشدین کے ذکر کے ساتھ تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سنت کا لفظ بھی ذکر کیا ہے جو اہل بیت کے ذکر کے ساتھ منقول نہیں ہے ۔ اس لیے ان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کی عزت و توقیر کریں اور ان کے طریقے کے مطابق زندگی گزاریں ۔


امام مناوی علیہ الرحمہ حدیث کے الفاظ (عِتْرَتِي اَھْلِ بَیْتِي) کے ذیل میں لکھتے ہیں : ''رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ان الفاظ سے مراد یہ ہے کہ اگر تم کتاب اللہ کے اوامر کی پیروی کرو ، اس کی نواہی سے اجتناب کرو اور میرے اہل بیت کے طریقے سے رہنمائی لو اور ان کی سیرت کی اقتداء کرو تو تم ہدایت پاجائو گے اور گمراہ نہیں ہوگے ۔

(فیض القدیر للمناوي: 36/11،چشتی)


یعنی اوامر و نواہی میں اطاعت صرف کتاب اللہ کی ہے ۔ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے طریقے سے صرف راہنمائی لی جائے گی تاکہ کتاب و سنت کا جو فہم ہے اسے صحیح طرح سے سمجھا جاسکے ۔ واللہ اعلم


لفظ ''عترتی'' سے مراد تمام اہل بیت ہیں ؟


درج بالا حدیث کی وضاحت میں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ لفظ ''عترتی'' سے مراد کون لوگ ہیں۔ ائمہ محدثین نے اس حوالے سے جو وضاحت کی ہے وہ درج ذیل ہے:

امام حکیمؒ فرماتے ہیں : ''عترتی'' سے مراد باعمل علماء ہیں ، اس لیے کہ وہ قرآن سے جدائی اختیار نہیں کرتے ۔ باقی رہے وہ لوگ جو جاہل ہیں یا علمائے سوء ہیں تو وہ اس مقام افضلیت سے بہت دور ہیں ۔ اصل چیز تو یہ دیکھی جاتی ہے کہ کون ساشخص اچھے خصائل سے آراستہ ہے اور اپنے آپ کو برے اخلاق سے بچائے ہوئے ہے۔ علم نافع اہل بیت کے علاوہ اگر کسی اور کے پاس ہو اور چاہے وہ کوئی بھی ہو اس کی اتباع کرنا بھی ہم پر لازم ہے ۔ (فتاویٰ الشبکۃ الاسلامیہ: 2984/5)


امام طحاوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : عترۃ سے مراد نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اہل بیت میں سے وہ لوگ ہیں جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دین پر قائم ہیں اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اوامر کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں ۔ (فتاویٰ یسألونک: 164/2)


امام ملاعلی القاری حنفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : عترۃ سے مراد اہل بیت رضی اللہ عنہم میں سے وہ لوگ ہیں جو اہل علم ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سیرت پر مطلع ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے طریقے سے واقف ہیں اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اوامر اور سنت کو جانتے ہیں ۔ (فتاویٰ یسألونک: 164/2)


خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن اہل بیت کی اطاعت کی جائے گی ان سے مراد وہ اہل بیت ہیں جو اہل علم ہیں اور نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے طریقے پر مضبوطی سے کاربند ہیں ۔ اگر کسی شخص کا نسب نامہ اہل بیت سے تو جاملتا ہے مگر وہ بدعات و خرافات میں لت پت ہے تو اس کی اطاعت تو کجا ان بدعات و خرافات کی بناپر اس سے بیزاری کا اعلان بھی کیاجائے گا ۔


اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت اور اُن کاادب


کتابُ اللہ کی عظمت بیان فرمانے کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دوسری عظیم چیز بیان فرمائی کہ وہ میرے اہل بیت ہیں اور میں تمہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈراتا ہوں ۔  چنانچہ عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ الرَحْمَہ فرماتے ہیں :  ’’حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ارشاد کا معنیٰ یہ ہے کہ میں تمہیں اہل بیت کی حفاظت ، ان کے ادب و احترام ، ان کی تعظیم اور ان سے محبت مؤدت کے معاملے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حق سے آگاہ کرتا ہوں ۔  نیز حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مبالغہ فرمانے کے لیے اپنے جملے مکرّر فرمائے اور یہ امکان بھی بعید نہیں کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پہلی مرتبہ میں اپنی آل مراد لی ہو اور دوسرے بار میں ازواج کیونکہ اہل بیت کا لفظ تو آل و ازواج دونوں کو شامل ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح ، کتاب المناقب والفضائل ، باب مناقب اھل بیت ۔ ۔ ۔ الخ ، ۱۰ / ۵۱۷ ، تحت الحدیث : ۶۱۴۰،چشتی)


اِمَام شَرَفُ ا لدِّیْن حُسَیْن بِنْ مُحَمَّد طِیْبِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ علیہ فرماتے ہیں : معنیٰ یہ ہے کہ میں تمہیں اپنے اہل بیت کی شان کے حوالے سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈراتا ہوں اور تم سے کہتا ہوں کہ تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرو انہیں ایذا نہ دو بلکہ ان کی حفاظت کرو ۔ (شرح الطیبی ، کتاب المناقب والفضائل ، باب مناقب اھل بیت ۔ الخ ، ۱۱ / ۲۹۶ ، تحت الحدیث : ۶۱۴۰)


اہل بیت رضی اللہ عنہم کی بے ادبی سے بچو


حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ الرَحْمَہ  فرماتے ہیں : آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈراتا ہوں ، اُن کی نافرمانی بے ادبی بھول کر بھی نہ کرنا ورنہ دِین کھو بیٹھو گے ۔ (مرآۃ المناجیح جلد ۸ / صفحہ ۴۵۸،چشتی)


اہل بیت رضی اللہ عنہم دو طرح کے ہیں


 ” اشعۃ اللمعات“ میں ہے : ’’حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اہل بیت دوطرح کے ہیں :  (1) بیت جسم یعنی وہ لوگ کہ جن کا آپ سے جسمانی تعلق ہے جیسے  آپ کی اولاد اور اَزواج ۔  (2) بیت ذِکر یعنی وہ لوگ کہ جن کا آپ سے قلبی رشتہ و تعلق ہے اور یہ علماء ، صُلحاء اور اَولیاءُ اللہ ہیں ۔  یہ دونوں اہل بیت اہل دنیا کے ظاہر و باطن کی آبادی اور دِین و دُنیا کے نظام کی اِصلاح کا سبب ہیں ۔ (اشعۃ اللمعات ، کتاب المناقب ، باب مناقب اھل بیت ۔ الخ ، ۴ / ۶۹۶)


ایک اِشکال اور اُس کا جواب : حدیث پاک کے آخر میں بیان ہوا کہ سیدنا حَصِین بن سَبُرَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سیدنا زید بن اَرقم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے دریافت کیا کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اہل بیت کون ہیں ؟ اور کیا اِن میں اَزواجِ مُطَہَّرات شامل نہیں ہیں ؟ تو حضرتِ سَیِّدُنا زید بن اَرقم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا کہ اَزواجِ مُطَہَّرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں لیکن مذکورہ حدیث پاک میں اَہل بیت سے مراد وہ حضرات ہیں جن پر صدقہ لینا حرام ہے ۔  یہاں ایک اِشکال وارد ہوتا ہے کہ صحیح مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ جب سیدنا زید بن اَرقم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اَزواجِ مُطَہَّرات کے اہلِ بیت میں شامل ہونے سے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے نفی میں جواب دیا ۔  بظاہر اِن دونوں روایتوں میں تضاد نظر آتا ہے لیکن ان دونوں احادیث میں تطبیق دینا ممکن ہے وہ اس طرح کہ جس روایت میں اَزواجِ مُطَہَّرات کی اہل بیت ہونے سے نفی کی گئی ہے تو وہاں مراد ان اہل بیت میں شمولیت سے نفی ہے کہ جن پر صدقہ (زکوٰۃ) لینا حرام ہے اور جس حدیث میں یہ بیان ہواکہ اَزواجِ مُطَہَّرات بھی اَہل بیت سے ہیں تو وہاں ادب و احترام ، تعظیم و تکریم اور حُرمت کے اِعتبار سے انہیں اہل بیت میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ اَزواجِ مُطَہَّرات تو حضور کے گھر میں سکونت پذیر تھیں اور اُن کے اَخراجات حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ذمہ تھے اِس لحاظ سے وہ اَہل بیت میں داخل ہیں ۔  (شرح مسلم للنووی ، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ عنھم ، باب فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ۸ / ۱۸۰ ، الجزء الخامس عشر،چشتی)

اَحناف کے نزدیک وہ اَہل بیت جن پر صدقہ حرام ہے وہ صرف مؤمنینِ بنی ہاشم ہیں ان کے علاوہ کسی پر صدقہ حرام نہیں ۔  (دلیل الفالحین ، باب فی اکرام اھل بیت رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ۔ الخ ، ۲ / ۲۰۱ ، تحت الحدیث : ۳۴۶)


(1)   علم دِين حاصل كرنے کے لیے اکابرین کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہیے جیساکہ حضرت سیدنا حصین بن سبرہ ، سیدنا یزید بن حیان اور سیدنا عَمر و بن مُسْلِم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ تینوں حضرت سیدنا زید بن اَرقم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔


(2)   اہل بیت کی تعظیم ، ادب و احترام اور اُن سے محبت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے ۔


(3)     بڑھاپا نسیان اور حافظہ کمزور ہونے کا سبب ہے ، اِسی وجہ سے بڑھاپے میں حدیث روایت کرنے کو اکثر محدثین نے ناپسند فرمایا ہے ۔


(4) نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بشریت اور نورانیت دونوں صفات سے متصف فرمایا ہے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بے مثل بشر ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے بشر ہونے کا اِظہار اس لیے فرمایا تاکہ لوگ آ پ کے معجزات دیکھ کر کہیں آپ کو معبود یا فرشتہ نہ سمجھ لیں ۔


(5)   اَحکامِ قرآنی پر عمل کرنا اور اہل بیت کی تعظیم کرنا نفس پر بہت ثقیل (بھاری) ہے اس لیے ان کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے ۔


(6)   کتابُ اللہ ہدایت ، نور اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رسّی ہے اسے مضبوطی سے تھامنے والے دنیا اور آخرت میں کامیاب ہیں ۔


(7)   حدیث پر عمل کرنا بھی کتابُ اللہ پر عمل کرنا ہے کیونکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اطاعت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت ہے ۔


(8)   بعض مؤمنین بغیر کتابُ اللہ صرف نبی کے ذریعے رب تک پہنچ گئے جیسے وہ لوگ جو عین جہاد میں ایمان لاکر فورًا شہید ہوگئے مگر کوئی شخص فقط کتابُ اللہ سے بغیر نبی کے رب تک نہ پہنچا ۔


اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اہل بیت کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔