Thursday, 7 October 2021

حضرت سیدنا امامِ حسن کی ازواج و اولاد رضی اللہ عنہم اور شہادت

حضرت سیدنا امامِ حسن کی ازواج و اولاد رضی اللہ عنہم اور شہادت

محترم قارئینِ کرام : سردارِ امّت ، حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی ولادتِ باسعادت  15 رمضان المبارک 3 ہجری  کو مدینہ طیبہ میں ہوئی ۔ (البدايۃوالنہایہ جلد 5 صفحہ 519)


حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ، حضرت سیدتنا فاطمہ اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنھہما کے بیٹے ، حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ چوتھے خلیفہ و امام ہیں جنہوں نے اپنے وقت میں امامت کا حق ادا کیا اور اُس کے بعد حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ و امام بنے مگر انہوں نے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سُپرد کی ۔ اس کے علاوہ حضرات امامِ حُسین ، امامِ زین العابدین ، امامِ باقر ، امامِ جعفر صادق ، امامِ موسی کاظم ، امامِ علی رضا ، امامِ محمد تقی ، امامِ علی نقی ، امامِ حسن عسکری رضی اللہ عنہم حکمرانی کرنے والے خلیفہ یا امام نہیں بنے ۔ حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ نے ایک سے زیادہ نکاح کیے ۔ مختلف اوقات میں آپ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں رہنے والی ازواج کی کل تعداد دس کے قریب ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی زوجات میں خولہ بنت منظور ، ام بشر بنت ابی مسعود ، ام اسحاق بنت طلحہ اور جعدہ بنت اشعث مشہور ہیں ۔ آپ کے آٹھ بیٹے امام حسن مثنیٰ ، امام زید ، امام عمرو ، امام قاسم ، امام ابوبکر ، امام عبدالرحمن ، امام حسین اور امام طلحہ ہیں ۔ آپ کی نسل دو بیٹوں سے چلی ہے جن میں امام حسن مثنیٰ اور امام زید بن حسن شامل ہیں ۔ آپ کی پانچ صاحبزادیاں حضرت سیدہ فاطمہ ، حضرت سیدہ رقیہ ، حضرت سیدہ ام سلمی ، حضرت سیدہ ام عبداللہ اور حضرت سیدہ ام الخیر ہیں ۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔


تاریخ میں حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ سے انتہائی غلط طور پر کثرتِ ازواج منسوب کی جاتی ہے اور بدطینت دشمنانِ اہلِ بیت نے کبھی آپ رضی اللہ عنہ سے 70 کبھی 100 کبھی 150 یا 300 ازواج منسوب کی ہیں حالانکہ یہ بالکل ناممکن بات ہے ۔ اوّل تو اتنی ازواج کی موجودگی میں اولاد کی تعداد صرف 17 ہونا ممکن نہیں ۔ دوسرے اتنی ازواج کےلیے کثرت سے طلاق جیسا مکروہ فعل بار بار دہرانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک وقت میں چار سے زائد ازواج جائز نہیں ۔ آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسے افعال کو منسوب کرنے کا خیال بھی مکروہ معلوم ہوتا ہے ۔ یہ وہ پاکیزہ ہستی ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے باغ کے پھول اور جنت کے نوجوانوں کے سردار قرار دیا ہے ۔ اگر ہم ان جیسے اعمال کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو کم از کم ان کے متعلق بدگمانیاں دلوں میں پال کر دلوں کو مزید غلاظت میں مبتلا تو نہ کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوبین کی صرف محبت و عقیدت ہی قلوب کو تقویت بخشتی ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا باعث ہوتی ہے ۔


حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی زوجہ اور اولاد کے نام یہ ملتے ہیں : ⏬


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت فضل رضی اللہ عنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد از وصال غسل دینے والوں میں شامل تھے ، اُن کی بیٹی ”ام کلثوم“ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا ۔


خولہ بنت منظور سے نکاح ہوا جس سے حسن مثنی پیدا ہوئے ۔ خولہ پہلے حضرت طلحہ کے بیٹے محمد کے نکاح میں تھیں جو  جمل کی لڑائی میں شہید ہو گئے اس کے بعد حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا ۔


ام بشیر بنت ابی مسعود انصاری سے نکاح ہوا جس سے زید ، ام الحسن و ام الحسین پیدا ہوئے ۔


ام اسحاق بیٹی طلحہ بن عبید اللہ (عشرہ مبشرہ) سے طلحہ ، حسین (لقب اَثرَم) و فاطمہ پیدا ہوئے ۔ حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا ۔


ام ولد یا رملہ جن سے حضرت ابوبکر بن حسن پیدا ہوئے اور کربلہ میں شہید ہوئے ۔


ام فروہ سے قاسم پیدا ہوئے یہ بھی کربلہ میں شہید ہو گئے ۔


عائشہ بنت خلیفہ خثعمیہ ، جعدہ بنت اشعث ، ہند بنت سہیل بن عمرو ، ام عبداللہ بنت سلیل بن عبداللہ سے نکاح ہوا ۔ بعض دیگر ازواج سے عبداللہ ، عبدالرحمن ، ام عبداللہ ، ام سلمہ و رقیہ پیدا ہوئے ۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ 


امام ابن جوزی ، ابن ہشام اور واقدی علیہم الرحمہ کے نزدیک حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد کی تعداد میں 15 بیٹے اور 8 بیٹیاں ہیں ۔ کربلہ میں حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کے تین بیٹے حضرت قاسم ، ابوبکر اور عبداللہ شہید ہوئے ۔ حضرت حسن مثنی کا نکاح حضرت سیدنا امامِ حُسین رضی اللہ عنہ کی بیٹی فاطمہ سے ہوا جن سے عبداللہ ، ابراہیم ، حسن و زینب رضی اللہ عنہم پید ا ہوئے ۔ حسنی سادات کہلانے والے حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں جیسے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ ۔ اس لیے اہلتشیع ان سے بہت نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ اہلسنت ہیں ۔ دوسری نسل حضرت زید بن حسن سے زیدی حسنی نسل چلی ہے مگر سیدنا امامِ حسن مثنی اور سیدنا امامِ زید بن حسن رضی اللہ عنہم اہلتشیع کے نزدیک امام شمار نہیں کیے جاتے ۔ یا للعجب ۔


شہادت حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ اور زہر کس نے دیا


محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمی پانچ (5) ربیع الاول 50 ہجری اور ایک روایت کے مطابق 49 ہجری  ، مدینہ منورہ میں ہوئی ، آپ کو زہر دے کر شہید کیا گيا ، آپ کا مزار مقدس جنت البقیع شریف میں ہے ۔ توفي رضي الله عنه بالمدينة مسموماً ۔ وكانت وفاته سنة تسع وأربعين وقيل في خامس ربيع الأول سنة خمسين ۔ (تاریخ الخلفاء جلد 1 صفحہ 78)


کسی کے زہر کھلا دینے کی وجہ سے حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ نے 5 ربیع الاول 49 ہجری کو مدینۂ منورہ میں شہادت کا جام نوش فرمایا ۔ ایک قول50 ہجری کا بھی ہے ۔ (المنتظم جلد 5 صفحہ226)(صفۃ الصفوة جلد 1 صفحہ 386)


صدرالافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حضرت سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ نے پانچویں ربیع الاول 49 ھجری کو اس دارنا پائیدار سے مدینہ طیبہ میں رحلت فرمائی ۔ (سوانح کربلا بحوالہ تاریخ الخلفاء باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ 152)


فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پینتالیس 45 سال چھ ماہ چند روز کی عمر شریف میں بمقام مدینہ طیبہ 5 ربیع الاول شریف 49 ھجری میں آپ نے وفات پائی اور جنت البقیع میں حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پہلو میں مدفون ہوۓ ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ۔ (خطبات محرم صفحہ 278)


بعض نے 28 صفر لکھی لیکن صحیح تاریخ شہادت 5 ربیع الاول ہی ہے ۔


نمازِ جنازہ حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ۔ جنت البقیع میں اپنی والدہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں مدفون ہوئے ۔


حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے بوقت وصال امام حسین رضی اللہ عنہ کے اصرار کے باوجود زہر دینے والے کا نام نہیں بتایا حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : جب آپ کو زہر دیا گیا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تشریف لائے اور آپ کے پاس بیٹھ کر پوچھنے لگے اے بھائی آپ کے ساتھ یہ کام کس نے کیا ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم اس کو قتل کرنا چاہتے ہو امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اگر میرے ساتھ کام کرنے والا وہی ہے جو میرے خیال میں ہے تو اللہ اس کو سخت سزا دے گا اگر وہ نہیں ہے تو میں نا پسند کرتا ہوں تو میرے بدلے میں ایک بے گناہ کو قتل کرے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد 8 صفحہ 62،چشتی)


مزید اسی روایت میں ہے : میرے بھائی اس کو چھوڑ دو حتی کہ میں اور وہ اللہ سے ملاقات کریں آپ نے اس کا نام بتانے سے انکار کر دیا ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد 8 صفحہ 62)


صاحب ناسخ التواریخ شیعہ نے لکھا ہے : حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے جب حضرے امام حسین رضی اللہ عنہ نے زہر دینے والے کا نام پوچھا تو آپ نے منع کردیا ۔ (ناسخ التواریخ جلد 2 ص 146) ۔ ابن اشہر اشوب شیعہ نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے ۔ (مناقب آل ابی طالب جلد 4 صفحہ 42 بحوالہ تحفہ جعفریہ جلد 5 صفحہ 217)


ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ حضرت امام حسن پاک رضی اللہ عنہ کو زہر حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیا بالکل بے بنیاد ہے بلکہ حضرت امام حسن پاک رضی اللہ عنہ نے نام بتانے سے صاف انکار کردیا نہ جانے رافضیوں اور نیم رافضیوں کو کس نے بتادیا ؟


حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظیفہ مقرر کیا تھا اور نہایت اکرام کرتے تھے اس کے باوجود یہ کہنا کہ آپ نے زہر دیا انتہائی بغض اور صریح الزام تراشی ہے ۔ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینا عقل بھی تسلیم نہیں کرتی ہے کیونکہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے آپ کو خلافت بھی سونپ دی تھی اگر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زہر دینا تھا تو امام حسین رضی اللہ عنہ کو دیتے کہ وہ ذی جلال اور حق کے سامنے ڈٹ جانے والے تھے جبکہ امام حسن رضی اللہ عنہ درگذر فرمانے کی طبیعت کے مالک تھے ۔


حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف زہر دینے کی نسبت کرنے والی روایتوں کو محدثین علیہم الرحمہ نے باطل قرار دیا چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : میرے نزدیک زہر دینے کی نسبت یزید کی طرف صحیح نہیں اور ان کے والد حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت کی صحت تو بالکل درست نہیں ہے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد 8 صفحہ 62)


علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں : حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا یہ من گھڑت اور شیعہ کی گھڑی ہوئی بات ہے اللہ پناہ دے سیدنا امیر معاویہ اس سے بری ہیں ۔ (تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 182،چشتی)


ان تمام حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیا جھوٹ ہے جس پر اہلسنت و جماعت اور رافضیوں کی کتب گواہ ہیں ۔ حتٰی کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی معلوم نہ ہو سکا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو کس نے قتل کیا ہے ، تو کس طرح دوسروں کو معلوم ہو گیا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کو  نعوذ باللہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ہے ؟


قال بن سعد أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم أخبرنا بن عون عن عمير بن إسحاق دخلت أنا وصاحب لي على الحسن بن علي فقال لقد لفظت طائفة من كبدي وإني قد سقيت السم مرارا فلم أسق مثل هذا فأتاه الحسين بن علي فسأله من سقاك فأبى أن يخبره رحمه الله تعالى ۔

ترجمہ : عمیر بن اسحق کہتے تھے کہ میں اور میرے ایک ساتھی حسن رضی اللہ عنہ کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ میرے جگر کے کچھ ٹکڑے گرچکے ہیں اورمجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا ؛ لیکن اس مرتبہ کہ ایسا قاتل کبھی نہ تھا اس کے بعد حسین رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور پوچھا کس نے پلایا، لیکن انہوں نے بتانے سے انکار کیا ۔ (الإصابة في تمييز الصحابة جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۷۳،چشتی)


عمیر بن اسحاق کہتے ہیں : دخلت أنا ورجل علی الحسن بن علی نعودہ ، فجعل یقول لذلک الرجل: سلنی قبل أن لا تسألنی ، قال: ما أرید أن أسألک شیئا ، یعافیک اللّٰہ ، قال: فقام فدخل الکنیف ، ثمّ خرج إلینا ، ثمّ قال: ما خرجت إلیکم حتی لفظت طائفۃ من کبدی أقلبہا بہذا العود ، ولقد سقیت السمّ مرارا ، ما شیء أشدّ من ہذہ المرّۃ ، قال: فغدونا علیہ من الغد ، فإذا ہو فی السوق ، قـال : وجاء الحسین فجلس عند رأسہ ، فقال: یا أخی ، من صاحبک ؟ قال : ترید قتلہ ؟ قال: نعم ، قال: لئن کان الذی أظنّ ، للّٰہ أشدّ نقمۃ ، وإن کان بریئا فما أحبّ أن یقتل برئی ۔

ترجمہ : میں اور ایک آدمی سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پرعیادت کے لیے داخل ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہما اس آدمی سے کہنے لگے : مجھ سے سوال نہ کر سکنے سے پہلے سوال کرلیں ۔ اس آدمی نے عرض کیا: میں آپ سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہتا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کوعافیت دے ۔ آپ رضی اللہ عنہماکھڑے ہوئے اور بیت الخلاء گئے ۔ پھر نکل کر ہمارے پاس آئے ، پھرفرمایا : میں نے تمہارے پاس آنے سے پہلے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا (پاخانے کے ذریعہ) پھینک دیاہے۔ میں اس کو اس لکڑی کے ساتھ الٹ پلٹ کر رہا تھا ۔ میں نے کئی بار زہر پیا ہے ، لیکن اس دفعہ سے سخت کبھی نہیں تھا ۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس اگلے دن آئے تو آپ رضی اللہ عنہماحالت ِ نزع میں تھے ۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور آپ کے سر مبارک کے پاس بیٹھ گئے اورکہا : اے بھائی!آپ کو زہر دینے والا کون ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہمانے فرمایا : کیا آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! فرمایا : اگر وہ شخص وہی ہے جو میں سمجھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ انتقام لینے میں زیادہ سخت ہے ۔ اوراگر وہ بری ہے تو میں ایک بری آدمی کوقتل نہیں کرنا چاہتا ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ۱۵ صفحہ ۹۳،۹۴)(کتاب المحتضرین لابن ابی الدنیا صفحہ ۱۳۲)(المستدرک للحاکم جلد ۳ صفحہ ۱۷۶،چشتی)(الاستیعاب لابن عبد البر جلد ۳ صفحہ ۱۱۵)(تاریخ ابن عساکر جلد ۱۳ صفحہ ۲۸۲، وسندہٗ حسنٌ)


اسی طرح اہل تشیع کی مشہور کتاب بحار الانوار میں علامہ مجلسی نے مروج الذہب للمسعودی الشیعی سے مندرجہ زیل روایت نقل کی ہے : عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين عليهم السلام قال: دخل الحسين على عمي الحسن حدثان ما سقي السم فقام لحاجة الانسان ثم رجع فقال: سقيت السم عدة مرات، وما سقيت مثل هذه، لقد لفظت طائفة من كبدي ورأيتني أقلبه بعود في يدي، فقال له الحسين عليه السلام: يا أخي ومن سقاك؟ قال: وما تريد بذلك؟ فإن كان الذي أظنه فالله حسيبه، وإن كان غيره فما أحب أن يؤخذ بي برئ، فلم يلبث بعد ذلك إلا ثلاثا حتى توفي صلوات الله عليه ۔

ترجمہ : علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (زین العابدین) رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ حسین میرے چچا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے زہر پلانے کے وقت گئے تو حسن رضی اللہ عنہ قضائے حاجت کے لئے گئے وہاں سے لوٹ کر کہا کہ مجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا ، لیکن اس مرتبہ کے ایسا کبھی نہ تھا اس میں میرے جگر کے ٹکڑے باہر آگئے تم مجھے دیکھتے کہ میں ان کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا ، حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا بھائی صاحب کس نے پلایا ؟ حسن رضی اللہ عنہ نے کہا، اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ہے ، اگر زہر دینے والا وہی شخص ہے جس کے متعلق میرا گمان ہے تو خدا اس کے لئے کافی ہے اور اگر دوسرا ہے تو میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میری وجہ  سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے ، اس کے بعد حسن رضی اللہ عنہ زیادہ نہ ٹھہرے اور تین دن کے بعد انتقال کر گئے ۔ (بحار الأنوار مجلسی شیعہ جلد ٤٤ صفحة ١٤٨)


پس معلوم ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر لگایا جانے والا یہ الزام کوئی بنیاد نہیں رکھتا ، یہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کا اپنا ایجادکردہ الزام ہے ۔


علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں : وما ينقل من ان معاوية دس إليه السم مع زوجه جعدة بنت الاشعث فهو من أحاديث الشيعة وحاشا لمعاوية من ذلك ۔

ترجمہ : اوریہ روایت کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان (امام حسن رضی اللہ عنہ) کی بیوی سے مل کر زہر دلایا شیعوں کی بنائی ہوئی ہے حاشا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات سے اس  کاکوئی تعلق نہیں ۔ (تاریخ ابن خلدون جلد ۲ صفحہ ١۸۷،چشتی)


علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : وأما قوله : إن معاوية سم الحسن ، فهذا  مما ذكره بعض الناس ، ولم يثبت ذلك ببينة شرعية ، أو إقرار معتبر ، ولا نقل يجزم به ، وهذا مما لا يمكن العلم به ، فالقول به قول بلا علم ۔

ترجمہ : بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حسن کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے زہر دیا تھا کہ کسی شرعی دلیل اور معتبر اقرار سے ثابت نہیں ہے اورنہ کوئی قابل وثوق روایت سے اس کی شہادت ملتی ہے اوریہ واقعہ ان واقعوں میں ہے جس کی تہ تک نہیں پہنچا جا سکتا اس لیے اس کے متعلق کچھ کہنا بے علم کی بات کہنا ہے ۔ (منہاج السنہ جلد ۴ صفحہ ۴٦۹)


علامہ حافظ ابن کثیر اس کے متعلق لکھتے ہیں : وعندي أن هذا ليس بصحيح ، وعدم صحته عن أبيه معاوية بطريق الأولى ۔

ترجمہ : میرے نزدیک تو یہ بات بھی صحیح نہیں کہ یزید نے سیدنا امام حسن کو زہر دے کر شہید کر دیا ہے۔ اور  اس کے والد ماجد سیدنا امیر معاویہ کے متعلق یہ گمان کرنا بطریق اولٰی غلط ہے ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ۸ صفحہ ۴۳)


امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں : قلت : هذا شيء لا يصح فمن الذي اطلع عليه ۔ ترجمہ : میں کہتا ہوں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے، اور اس پر کون مطلع ہو سکا ہے ۔ (تاریخ اسلام صفحہ ۴۰،چشتی)


حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی تایخ وصال میں مور خین کا اختلاف ہے،ایک قول یہ ہے کہ سن 49/ہجری میں آپ کا وصال ہوا ۔اور ایک قول یہ ہے کہ سن ۵۰/ہجری میں ہوا،اور سن ۵۱/ہجری کا بھی قول کیا گیا ہے۔لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔آپ کی وفات کاسبب یہ ہوا کہ دشمنوں کی سازش سے آپ کو زہر پلا دیا گیا ،جس کی وجہ سے آپ چالیس دن تک بیمار رہے پھر آپ کا وصال ہو گیا۔ جب بیماری زیادہ بڑھی  تو آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے فر مایا کہ:مجھے تین بار زہر دیا گیا لیکن اس بار سب سے زیادہ شدید زہر تھا جس سے میرا جگر کٹ رہا ہے ۔سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے پو چھا کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے؟تو آپ نے فر مایا:یہ سوال کیوں پوچھتے ہو؟کیا تم ان سے جنگ کروگے۔میں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔


کچھ لوگوں سے یہاں پر سخت غلطی واقع ہو ئی ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ  کی بیوی “جعدہ بنت الاشعث” کو دشمنوں نے بہلا پھسلا کر اپنی سازش کا حصہ بنا لیا اور وہ دشمنوں کے جھانسے میں آکر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دھوکے میں زہر پلادی ۔ یہ بات بالکل جھوٹ اور افترائے محض ہے ۔ کیو نکہ تمام مور خین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے زہر پلانے والے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کسی کا نام نہ بتایا اور صرف اتنا کہا کہ:میں ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں ۔ تو جب انہوں نےنام نہیں بتایا یہاں تک کہ کسی کے بارے میں اپنی شک کا اظہار بھی نہ فر مایا۔جس کی وجہ سے اس وقت کسی سے قصاص نہ لیا جا سکا تو پھر دوسروں کو کیسے اس کا علم ہوا؟اس لئے  ایک ایسے مقدس امام  جن سے اپنا رشتہ جوڑنے پر اس زمانے کی عورتیں ہر دکھ گوارا کرنے کو تیار رہتی تھی ، پھر جنہیں نوجوانا ن جنت کی سردار کی بیوی بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ ان  کے بارے میں ایسا خیال ر کھنا اپنی تباہی اور بر بادی کو دعوت دینا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اپنے ان نیک بندوں کے صدقے دارین کی سر خروئی نصیب فر مائے ۔


خلیفہ اعلیٰ حضرت صدر الافاضل حضرت علامہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ سوانح کربلا میں فرماتے ہیں : مؤرخین نے زہر خورانی کی نسبت جعدہ بنت اشعث ابن قیس کی طرف کی ہے اور اس کو حضرت امام کی زوجہ بتایا ہے اوریہ بھی کہا ہے کہ یہ زہر خورانی باغوائے یزید ہوئی ہے اور یزید نے اس سے نکاح کا وعدہ کیا تھا ۔ اس طمع میں آکر اس نے حضرت امام کو زہر دیا ۔ (تاریخ الخلفاء باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ ۱۵۲) ۔ لیکن اس روایت کی کوئی سندِ صحیح دستیاب نہیں ہوئی اور بغیر کسی سندِ صحیح کے کسی مسلمان پر قتل کا الزام اور ایسے عظیم الشان قتل کا الزام کس طرح جائز ہو سکتا ہے ۔


قطع نظر اس بات کے کہ روایت کےلیے کوئی سند نہیں ہے اور مؤرخین نے بغیر کسی معتبرذریعہ یا معتمدحوالہ کے لکھ دیا ہے ۔ یہ خبر واقعات کے لحاظ سے بھی ناقابل اطمینان معلوم ہوتی ہے ۔ واقعات کی تحقیق خود واقعات کے زمانہ میں جیسی ہو سکتی ہے مشکل ہے کہ بعد کو ویسی تحقیق ہو خاص کر جب کہ واقعہ اتنا اہم ہو مگر حیرت ہے کہ اَہل بیتِ اَطہار کے اس امامِ جلیل کا قتل اس قاتل کی خبر غیر کو تو کیا ہوتی خود حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو پتہ نہیں ہے یہی تاریخیں بتاتی ہیں کہ وہ اپنے برادر ِمعظم سے زہر دہندہ کا نام دریافت فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو زہر دینے والے کا علم نہ تھا ۔ اب رہی یہ بات کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کسی کانام لیتے ۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا تو اب حضرت جعدہ رضی اللہ عنہا کو قاتل ہونے کےلیے معین کرنے والا کون ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یا امامین کے صاحبزادوں میں سے کسی صاحب کو اپنی آخر حیات تک جعدہ کی زہر خورانی کا کوئی ثبوت نہ پہنچانہ ان میں سے کسی نے اس پر شرعی مواخذہ کیا ۔ ایک اور پہلو اس واقعہ کاخاص طور پر قابلِ لحاظ ہے وہ یہ کہ حضرت امام رضی اللہ عنہ کی بیوی کو غیر کے ساتھ ساز باز کرنے کی شنیع تہمت کے ساتھ متہم کیا جاتا ہے یہ ایک بدترین تبرا ہے ۔ عجب نہیں کہ ا س حکایت کی بنیاد خارجیوں کی افتراءات ہوں جب کہ صحیح اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کثیر التزوج تھے اور آپ نے سو (یہ بات درست نہیں ہے چشتی غفرلہ) کے قریب نکاح کیے اور طلاقیں دیں ۔ اکثر ایک دو شب ہی کے بعد طلاق دے دیتے تھے اور حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم باربار اعلان فرماتے تھے کہ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت ہے ، یہ طلاق دے دیا کرتے ہیں ، کوئی اپنی لڑکی ان کے ساتھ نہ بیاہے ۔ مگر مسلمان بیبیاں اور ان کے والدین یہ تمنا کرتے تھے کہ کنیز ہونے کا شرف حاصل ہو جائے اسی کا اثر تھا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن عورتوں کو طلاق دیدیتے تھے ۔ وہ اپنی باقی زندگی حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت میں شیدایانہ گزار دیتی تھیں اور ان کی حیات کا لمحہ لمحہ حضرت امام رضی اللہ عنہ کی یاد اور محبت میں گزرتا تھا ۔ (تاریخ الخلفاء باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ ۱۵۱) ۔ ایسی حالت میں یہ بات بہت بعید ہے کہ امام کی بیوی حضرت امام کے فیض صحبت کی قدر نہ کرے اور یزید پلید کی طرف ایک طمعِ فاسد سے اما م جلیل رضی اللہ عنہ کے قتل جیسے سخت جرم کا ارتکاب کرے ۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَال ۔


امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو زہر دے کر شہید کیا گیا اور مشہور ہے کہ زہر دینے والی آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث رضی اللہ عنہا تھی ۔ بعض علما نے بھی زہر خورانی کی نسبت جعدہ بنت اشعث رضی اللہ عنہا کی طرف کی ہے لیکن علما و محققین نے اس کو ناقابل قبول اور حقیقت کے خلاف بتایا ہے ۔ سب سے پہلے ہم ان علما میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے زہر دینے کی نسبت حضرت جعدہ بنت اشعث رضی اللہ عنہا کی طرف کی ہے : ⏬


شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ ۔ (سر الشھادتین صفحہ 14 ، 25)


امام جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 192)


امام ابن حجر ہیتمی رحمة اللہ علیہ  (الصواعق المحرقہ صفحہ 141) 


علامہ حسن رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ ۔ (آئینۂ قیامت صفحہ 21) 


اور مفتی اعظم ہند، علامہ مصطفی رضا خان رحمة اللہ علیہ نے اسی کو درست قرار دیا ہے ۔ (فتاوی مفتی اعظم ہند جلد 5 صفحہ 306 تا 310)


اب ان علما کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں جن کا موقف اس کے خلاف ہے : ⏬


حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی رحمة اللہ علیہ اس بابت لکھتے ہیں کہ : مؤرخین نے زہر خورانی کی جعدہ بنت اشعث کی طرف کی ہے لیکن اس روایت کی کوئی سند صحیح دستیاب نہیں ہوئی اور بغیر دلیل کسی مسلمان پر قتل کا الزام کس طرح جائز ہو سکتا ہے ۔ تاریخیں بتاتی ہیں کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بھائی سے زہر دینے والے کے متعلق دریافت کیا اور اس سے ظاہر ہے کہ امام حسین کو زہر دینے والے کا علم نہ تھا۔ امام حسن نے بھی کسی کا نام نہیں لیا تو اب ان کی بیوی کو قاتل معین کرنے والا کون ہے ۔ (سوانح کربلا صفحہ 101 ، 102) ۔ فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمة اللہ علیہ ، شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفی اعظمی رحمة اللہ علیہ ، حکیم الامت، حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمة اللہ علیہ ، حضرت علامہ محمد شبیر کوٹلی رحمة اللہ علیہ ، حضرت علامہ عبد السلام قادری رحمة اللہ علیہ ، حضرت علامہ مفتی غلام حسن قادری اور حضرت علامہ قاری محمد امین القادری نے یہی موقف اختیار کیا ہے ۔ (فتاوی فقیہ ملت جلد 2 صفحہ 406 ، 407،چشتی)(خطبات محرم صفحہ 279 ، 280)(حقانی تقریریں صفحہ 226)(حضرت امیر معاویہ پر ایک نظر صفحہ 69)(شہادت نواسۂ سید الابرار صفحہ 288)(تاریخ کربلا صفحہ 195 تا 197)(کربل کی ہے یاد آئی صفحہ 89 ، 90) 


یہی دوسرا قول زیادہ صحیح ہے اور احتیاط کے قریب ہے ۔ محض مشہور ہونے کی بنا پر امام حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی پر الزام لگانا درست نہیں ہے ۔


ابن سعد نے عمران ابن عبداللہ ابن طلحہ سے روایت کی کہ کسی نے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخواب میں دیکھا کہ آپ کے دونوں چشم کے درمیان : قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ۔ لکھی ہوئی ہے ۔ آپ کے اہل بیت میں اس سے بہت خوشی ہوئی لیکن جب یہ خواب حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان کیاگیاتو انہوں نے فرمایا کہ واقعی اگر یہ خواب دیکھا ہے ۔ توحضرت امام رضی اللہ عنہ کی عمر کے چند ہی روز رہ گئے ہیں ۔ 


یہ تعبیر صحیح ثابت ہوئی اور بہت قریب زمانہ میں آپ کو زہر دیا گیا ۔ زہر کے اثر سے اِسْہالِ کَبِدی لاحِق ہوا اور آنتوں کے ٹکڑے کٹ کٹ کر اِسہال میں خارج ہوئے ۔ اس سلسلہ میں آپ کو چالیس روز سخت تکلیف رہی ۔ قریب ِوفات جب آپ کی خدمت میں آپ کے برادر عزیز سیدنا حضر ت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاضر ہو کر دریافت فرمایا کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے ؟ تو فرمایا کہ تم اسے قتل کروگے ؟حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ بے شک ! حضرت امام عالی مقام نے فرمایا کہ میرا گمان جس کی طرف ہے اگر درحقیقت وہی قاتل ہے تو اللہ تعالیٰ منتقمِ حقیقی ہے اور اس کی گرفت بہت سخت ہے اور اگر وہ نہیں ہے تو میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے کوئی بے گناہ مبتلائے مصیبت ہو ۔ مجھے اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ زہر دیا گیا ہے لیکن اس مرتبہ کا زہر سب سے زیادہ تیز ہے ۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت اور منزلت کیسی بلند و بالا ہے کہ اپنے آپ سخت تکلیف میں مبتلا ہیں ، آنتیں کٹ کٹ کر نکل رہی ہیں ، نزع کی حالت ہے مگر انصاف کا بادشاہ اس وقت بھی اپنی عدالت و انصاف کا نہ مٹنے والا نقش صفحۂ تاریخ پرثَبَت فرماتا ہے ۔ اس کی احتیاط اجازت نہیں دیتی کہ جس کی طرف گمان ہے اس کانام بھی لیاجائے ۔ اس وقت آپ کی عمر شریف پینتالیس سال چھ ماہ چندروزکی تھی کہ آپ نے پانچویں ربیع الاول ۴۹ھ کو اس دارنا پائیدار سے مدینہ طیبہ میں رحلت فرمائی ۔(حلیۃ الاولیاء الحسن بن علی بن ابی طالب الحدیث : ۱۴۳۸ جلد ۲ صفحہ ۴۷)(تاریخ الخلفاء باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ ۱۵۲)(سوانح کربلا و خطبات محرم) ۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...