Tuesday 5 October 2021

ہم دین سمجھ کر نہیں کرتے

0 comments

 ہم دین سمجھ کر نہیں کرتے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : بدعت کے دوروں میں مبتلا لوگ ایک من گھڑت قاعدہ بیان کرتے ہیں کہ : ’’للدین‘‘ (یعنی دین کے لئے) نیا اچھا کام جائز ہے اور ’’فی الدین‘‘ (دین میں بدعت) نیا اچھا کام ایجاد کرنا ناجائز ہے ۔ یا پھر ’’لغوی بدعت‘‘ کہہ کر اپنے جدید کاموں کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ ذکر میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، صلوۃ وسلام اورایصال ثواب کی محافل وغیرہ کو بدعت کہتے ہیں ۔


اس فریب کے جواب سے قبل ہم دین سمجھ کر نہیں کرتے کہنے والوں سے کچھ سوال کیا دین اور دنیا الگ ہیں ؟


(1) اس زمین کا خالق کون ؟


(2) اس آسمان کا خالق کون ۔؟


(3) اس سورج ، چاند ، اور ستاروں کا خالق کون ؟


(4) ہمارا خالق کون ؟


(5) ہمیں سوچنے سمھجنے کی صلاحیت کس نے دی ؟


(6) ہمیں اچھے اور برے کی کس نے پہچان کروائی ؟


(7) وہ قوانین جو سائنس کے ذریے ہم دریافت کر رہے ہیں کس نے بناے ؟


(8) وہ چیزیں جنہیں ہم کھا پی کر زندہ ہیں کس نے پیدا کی ؟


(9) کیا اللہ ہماری بات سننے پے قادر ہے ؟


(10) کیا وہ ہماری ہر بات سنتا اور ہر خیال جانتا ہے ؟


(11) کیا وہ ہمارا ہر عمل دیکھتا ہے ؟


(12) کیا وہ ہماری نیتوں سے واقف ہے ؟


(13) کیا جس طاقت کے ذریہ ہم اس دنیا میں عمل بجا لاتے ہیں اور ہماری اپنی یعنی ذاتی ہے یا حاصل کی ہوئی ہے ؟


(14) کیا قیامت میں ہمارے عمل کا حساب ہو گا ؟


(15) کیا ہم اپنی مرضی سے ہر وہ کام کر سکتے ہیں جس کا خیال ہمارے دل میں آئے ؟


(16) کیا اگر وہ رسول نہ بھیجتا تو ہم اس اکبر ، سبحان ، علی ، حی خدا کو پہچان سکتے ؟


(17) آخرت کےلیے ثواب اور ہم نیکیاں کہاں کماتے ہیں ؟


(18) کیا ہم نیکی اس کے حکم پے عمل کر کے کماتے ہیں یا جس کام کو ہم صحیح سمجھیں اس کام کی نیکی کا اجر الله دے گا ؟


(19) کیا یہ دنیا آخرت کی کھیتی نہی ہے ؟


(20) کیا اس دنیا کی قدرتی موجودات کو ہم نے تخلیق کیا ہے ؟


(21) کیا اجرام فلکی ہمارے تابع ہیں ؟


(2) کیا اس دنیا میں ہم اپنی مرضی سے آئے ہیں ؟


(23) ہم کیوں پیدا ہوئے ہیں ؟


(24) ہم کہاں جائیں گے ؟


(25) کیا الله اپنے علم سے ہر جگہ موجود نہیں ہے ؟


(26) کیا قرآن میں ہر شئی کا علم نہیں ہے ؟


(27) کیا موجودات الله کی اجازت کی محتاج نہیں کوئی بھی کام کرنے کےلیے ؟


(28) کیا الله محتاج ہے اور اس کا علم ہر شٸی کا احاطہ نہی کرتا ؟


(29) کیا ہم الله کی مخلوق نہی ؟


(30) کیا قرآن و حدیث میں کہیں یہ حکم ہے کہ ایک مسلمان کا دین اور دنیا الگ الگ ہیں ؟


ذرا سوچیئے تو پھر دین اور دنیا الگ کہاں ہوئے ؟


للدین دین ، ’فی الدین اور لغوی بدعت کی تاویل کا جواب


بدعت کے دوروں میں مبتلا لوگ ایک من گھڑت قاعدہ بیان کرتے ہیں کہ : ’’للدین‘‘ (یعنی دین کےلیے) نیا اچھا کام جائز ہے اور ’’فی الدین‘‘ (دین میں بدعت) نیا اچھا کام ایجاد کرنا ناجائز ہے۔یا پھر ’’لغوی بدعت‘‘ کہہ کر اپنے جدید کاموں کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ ذکر میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، صلوۃ وسلام اورایصال ثواب کی محافل وغیرہ کو بدعت کہتے ہیں ۔


جواب


(1) سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دیوبندی اور وہابی حضرات اپنے اصول کے مطابق ’’للدین‘‘ اور ’’فی الدین‘‘ کا یہ قاعدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت کریں یا صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین سے ثابت کریں یا تابعین و تابع تابعین علہیم الرضوان اجمعین سے ثابت کریں ۔ عجیب بات ہے کہ ہم سنیوں سے تو ہر ہر بات پر ثبوت مانگا جاتا ہے لیکن خود اتنے بڑے قاعدے جس پر شریعت کا دار و مدار قائم کیا اس پر دیوبندی اور وہابی کوئی ایک بھی دلیل پیش نہیں کر سکتے لہذا ہم دیوبندیوں اور وہابیوں سے اس قاعدے کے ثبوت کا مطالبہ کرتے ہیں ؟


(2) دوسری بات یہ ہے کہ منکرین تو حدیث ’’کل بدعۃ ضلالہ‘‘ (ہرنیا کام گمراہی ہے) کے تحت کہتے ہیں کہ یہاں ’’کل‘‘ عمومیت کیلئے ہے لہٰذا ہر نیا کام گمراہی ہے ۔ تو اب ہم وہابیوں سے سوال کرتے ہیں کہ ’’للدین‘‘ یا ’’ لغوی بدعت‘‘ وغیرہ کہہ کر جن نئے کاموں کو دیوبندی اور وہابی جائز قرار دیکر انہیں اختیار کرتے ہیں ۔ وہ سب اس ’’کل‘‘ کی عمومیت سے کس طرح خارج ہو گئے ہیں ؟ جب ہر بدعت (نیا کام) گمراہی ہے تو پھریہ کہاں لکھا ہے کہ دین اسلام کےلئے (للدین) گمراہی نکالنا جائز ہے ؟ گمراہی تو بہر صورت گمراہی ہے اور یہ بات حدیث شریف میں قطعاََ نہیں کہ دین کےلئے ’’للدین‘‘ گمراہی جائز و ضروری ہے ۔ اور اُس گمراہی پر عمل کرنا درست ہے ۔ پس یا تو دیوبندیوں اور وہابیوں کے اس قاعدے میں خرابی ہے یا کہ (معاذ اللہ) اِس دین میں ، جس کی تقویت کےلئے گمراہی پر عمل کی ضرورت پڑے ۔ اب دین (اسلام) میں تو ہر گز ہرگز خرابی نہیں اس لئے ماننا پڑے گا کہ دیابنہ اور وہابیہ کے اس من گھڑت قاعددے میں خرابی ہے ۔


(3) تیسری بات یہ ہے کہ پورا ماہِ رمضان تروایح با جماعت پڑھنے کا حکم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے دیا اور پھر اس کے بارے میں فرمایا ’’نعمۃ البدعۃِ ھذا‘‘ (یعنی) یہ اچھی بدعت ہے‘‘ ۔ (بخاری شریف باب فصل من قام رمضان،مشکوۃ شریف جلد اول باب قیام شھر رمضان ص ۲۷۶،چشتی)


تو اب ہم بدعت کے دوروں میں مبتلا لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ یہ تراویح کا طریقہ نماز ’’للدین‘‘ ہے یا ’’فی الدین‘‘ ؟ اب دیوبندی اور وہابی جو بھی جواب دیں اس کا ثبوت پیش کریں ۔ اگر للدین ہے تو کیا اس کو عبادت کا درجہ دینا اور کار ثواب سمجھنا جائز ہو گا ؟ اور اگر یہ عمل ’’فی الدین‘‘ہے تو کیا یہ ’’کل بدعۃ ضلالہ‘‘ کے مخالف ہے کہ نہیں ؟ اور دین میں اضافہ ہے کہ نہیں ؟


اسی طرح دیوبندی اور وہابی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ نماز تراویح کا مذکورہ عمل ’’لغوی بدعت‘‘ ہے تو فقیر چشتی یہ سوال کرتا ہے کہ بالفرض یہی مان لیا جائے تو کیا یہ لغوی بدعت ’’عبادت‘‘ ہے کہ نہیں ؟ اس پر اجر و ثواب ملے گا کہ نہیں ؟ اور اسی طرح اگر کوئی محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو للدین سمجھ کر اختیار کرتا ہے تو یہ عمل بدعت ضلالہ سے خارج ہو کر جائز قرار پائے گا کہ نہیں ؟


(4) چوتھی بات یہ ہے کہ مخالفین کا یہ خود ساختہ قاعدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عدم اعتماد کا مظہر ہے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو فی الدین (دین اسلام میں) کو مستحسن فرما رہے ہیں اور جو دین اسلام میں نہ ہو للدین سے منع فرما رہے ہیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایاکہ ’من سن فی الاسلامہ سنہ حسنہ فلہ اجرھا و اجر من عمل بھا من بعد ہ من غیر ان ینقض من اجور ھم شئی‘‘ جو کوئی (دین) اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا اِس کو اُس (نئے طریقہ کے جاری کرنے پر) ثواب ملے گا ۔ اور اُس کو بھی جو اس پر عمل کریں گے۔اور ان کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا۔(صحیح مسلم کتاب الزکوۃ ۱/ ۳۲۷)(ترمذی کتاب العلم ۲/۹۲۔چشتی)(نسائی ۱/۱۹۱)(سنن ابن ماجہ شریف ۱۸)


لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تودین اسلام میں نیا طریقہ، اچھے نئے کام کو ایجاد کرنے پر اجر و ثواب کی خوشخبری سنا رہے ہیں لیکن اعتراض کرنے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے’’فی الاسلام‘‘ (یعنی دین اسلام میں) ایجاد ات کو منع کر رہے ہیں ۔ اب خود سوچئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فی الدین (دین اسلام میں نئے کاموں) کو جائز فرما رہے ہیں اور اعتراض کرنے والے فی الدین (دین اسلام میں نئے کاموں) کو گمراہی و جہالت کہہ رہے ہیں ۔ معاذﷲ یہ کلیہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ہوا کہ نہیں ؟ کیا یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت نہیں کی جا ر ہی ؟


اور پھریہ لوگ جو فی الدین سے خارج ہو اس کو ’’للدین‘‘ (دین اسلام کےلئے) کا نام دیکر اچھا قرار دیتے ہیں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فی دین سے خارج کو بُرا فرماتے ہیں جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’ما لیس منہ‘‘ جو دین میں سے نہ ہو ‘‘ یعنی جس کی اصل دین میں ثابت نہ ہو وہ رد ہے ۔ پس ان فی الدین کے منکروں کو ’’جو دین میں سے نہ ہو‘‘ کے الفاظ پر غور کر نا چاہیے ۔


نہ معلوم ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جو دین میں نہ ہو ’’ یعنی جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رد فر ما رہے ہیں اُس ’’مردود‘‘ کو یہ منکر ’’للدین،، کا نام دیکر اچھا کہہ رہے ہیں اور جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ’’سنہ حسنہ‘‘ کہہ کر ’’فی الاسلام‘‘ میں داخل کر رہے ہیں اس کو یہ منکر ’’فی الدین‘‘ کا نام دے کر ناجائز قرار دے رہے ہیں ۔ گو کہ جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اچھا فرما رہے ہیں اس کو یہ ناجائز کہہ رہے ہیں اور جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مردود فرما رہے ہیں اس کویہ منکرین جائز کہہ رہے ہیں ۔ معاذﷲ ! لہٰذا اعتراض کرنے والوں کا یہ کلیہ سراسر ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ہے اس لئے دیابنہ اور وہابیہ کا ’’للدین‘‘ کا یہ قاعددہ ، کلیہ مخالف حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہونے کے باعث مردود و باطل ٹھہرا ۔


(5) پھر بدعت کے دوروں میں مبتلا لوگوں کے نزدیک صرف میلاد ، عرس ، ذکر ، صلوۃ و سلام ہی ایسے کام ہیں جو فی الدین ہیں اور باقی وہابیوں کی محافل ، جلسے جلوس ، اجتماعات کو وہابی حضرات ’’للدین‘‘ کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں ؟ للدین اور فی الدین کا یہ معیار کسی اصولِ شریعت کے مطابق نہیں اگر ایسا ہوتا تو وہ اصول شریعت بتایا جاتا محض للدین اور فی الدین کی لفاظی کا چکر نہ چلایا جاتا ۔


خدا را انصاف فرمائیے شرک و بدعت کی اس خانہ ساز شریعت میں میلاد و عرس جیسے کام (جن میں عظمتِ انبیاء علیہم السّلام کرام و اولیاء عظام علیہم الرّحمہ ہے) بدعت و حرام ہیں ۔ اور ان پر اپنی طرف سے فی الدین کا چکر چلاتے ہیں لیکن ان کے علاوہ ان کے اپنے من گھڑت نئے کام بدعات کے کی فہرست سے نکل کرجائز ہو جاتے ہیں ۔ کیا کتاب و سنت سے کوئی ایسا حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے جس میں میلاد و عرس وغیرہ کو تو بدعت و حرام قرار دیا ہو اور دیگر متذکرہ امور کو سنت و جائز قرار دیا ہو ؟ ھا تو ابرھانکم ان کنتم صدیقین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔