عہد اور ایفائے عہد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ایک دوسرے کی مدد کے بغیر دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے ، اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کےلیے قدم قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے ، اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے ۔ مُستحکم تَعَلُّقات ، لین دین میں آسانی ، معاشرے میں امن اور باہمی اِعتماد کی فضا کا قائم ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے ، اسی لئے اسلام نے اِیفائے عہد پر بہت زور دیا ہے ۔ قراٰن و احادیث میں بہ کثرت یہ حکم ملتا ہے کہ وعدہ کرو تو پورا کرو ۔ اللّٰہ رب العزّت کا فرمان ہے : وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـوْلًا ۔ (پ15، بنی اسرائیل:34)
تَرجَمہ : اور عہد پورا کرو بیشک عہد سے سوال ہونا ہے ۔
آیتِ مبارکہ میں عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے خواہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ہو یا بندوں کا ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد اس کی بندگی اور اطاعت کرنے کا ہے ۔ (تفسیر روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۴، ۵ / ۱۵۵، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۱۷۴)
اور بندوں سے عہد میں ہر جائز عہد داخل ہے ۔ افسوس کہ وعدہ پورا کرنے کے معاملے میں بھی ہمارا حال کچھ اچھا نہیں بلکہ وعدہ خلافی کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے ۔ لیڈر قوم سے عہد کرکے توڑ دیتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے عہد کرکے توڑ دیتے ہیں ۔
فاعقبھم نفاقا فی قلوبھم الی یوم یلقونہ بما اخلفوا اللہ ماوعدوہ وبما کانوا یکذبون ۔ (سورہ التوبہ : 77)
ترجمہ : سو اللہ سے ملاقات کے دن تک انکے دلوں میں نفاق رکھ دیا ‘ کیونکہ انہوں نے اللہ سے کیے ہوئے وعدہ کی خلاف ورزی کی تھی اور اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے ۔
کَیۡفَ یَکُوۡنُ لِلْمُشْرِکِیۡنَ عَہۡدٌ عِنۡدَ اللہِ وَعِنۡدَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمْ عِنۡدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِۚ فَمَا اسْتَقٰمُوۡا لَکُمْ فَاسْتَقِیۡمُوۡا لَہُمْ ؕ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیۡنَ ۔ ﴿سورہ التوبہ آیت نمبر 7﴾
ترجمہ : مشرکوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے پاس کوئی عہد کیونکر ہوگا مگر وہ جن سے تمہارا معاہدہ مسجد حرام کے پاس ہوا تو جب تک وہ تمہارے لیے عہد پر قائم رہیں تم ان کے لیے قائم رہو بیشک پرہیزگار اللہ کو خوش آتے ہیں ۔
ان مشرکوں کا بیان جنہوں نے معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی کی اور جنہوں نے اس معاہدہ کی پابندی کی : جن لوگوں نے مسجد حرام کے پاس رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عہد کرکے پھر اس عہد کو توڑا ، ان کے متعلق امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : امام ابن اسحاق نے کہا کہ عام معاہدہ یہ کیا گیا تھا کہ نہ مسلمان مشرکوں کو حرم میں جانے سے روکیں گے اور نہ مشرک مسلمانوں کو حرم میں داخل ہونے سے روکیں گے اور نہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کریں گے۔ یہ معاہدہ حدیبیہ کے مقام پر ہوا تھا جو مسجد حرام کے پاس ہے۔ یہ معاہدہ مسلمانوں اور قریش کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدہ میں بنو بکر قریش کے حلیف تھے اور بنو خزاعہ مسلمانوں کے حلیف تھے ، پھر معاہدہ کی مدت پوری ہونے سے پہلے بنوبکر نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور بنو خزاعہ پر حملہ کردیا ۔ اور جن لوگوں نے عہد کی پاس داری کی وہ بنو خزاعہ تھے۔ امام ابو جعفر نے کہا وہ لوگ بنوبکر کے بعض افراد تھے جن کا تعلق کنانہ سے تھا، جب بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا تو کنانہ نے بنوبکر کا ساتھ نہیں دیا اور اپنے عہد پر قائم رہے ۔ یہ قول اس سے اولیٰ ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سورة البراءۃ کا پیغام سنانے کے لیے مکہ مکرمہ گئے تھے تو اس وقت تک اہل مکہ میں سے قریش اور بنو خزاعہ سے جنگ ہوچکی تھی اور فتح مکہ کے بعد ان آیات کے نزول سے پہلے وہ سب مسلمان ہوچکے تھے ، اس وقت کنانہ ہی شرک پر تھے لیکن انہوں نے چونکہ معاہدہ حدیبیہ کی پاس داری کی تھی اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا جب تک وہ عہد پر قائم رہیں تم بھی ان کے ساتھ عہد نبھائو اور جو شخص اپنے فرائض کی ادائیگی میں اللہ سے ڈرتا ہے اور خوف خدا سے معاہدہ کی پابندی کرتا ہے ، اللہ کی نافرمانی سے اجتناب کرتا ہے ، اور معاہدہ کرکے غداری نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے ۔ (جامع البیان جز 10 ص 107، 106، ملخصاً ، مطبوعہ دارالفکر بیرورت، 1415 ھ)
امام رازی متوفی 606 ھ نے لکھا ہے : جنہوں نے عہد کی پاسداری کی تھی وہ بنو کنانہ اور بنو ضمرہ تھے ۔ (تفسیر کبیر ج 5 ص 531، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، 1410 ھ)
جن لوگوں نے عہد شکنی کی تھی ان کے متعلق امام ابن جوزی متوفی 597 ھ نے تین قول لکھے ہیں : (1) بنو ضمرہ، (2) قریش، (3) خزاعہ۔ (زادالمسیر، ج 3 ص 400، مطبوعہ مکتب اسلام بیروت، 1407 ھ) ۔
خلاصہ یہ ہے کہ مشرکوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس کوئی عہد نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر اور عہد شکنی کیا کرتے ہیں البتہ بنی کنانہ اور بنی ضمرہ وغیرہ جن لوگوں سے تم نے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر مسجد ِحرام کے نزدیک معاہدہ کیا تھا اور ان سے کوئی عہد شکنی ظہور میں نہ آئی تو ان کے معاہدہ کی مدت پوری کرو اور معاہدے کی مدت کے اندر جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں ، تم بھی قائم رہو اگر وہ اس دوران میں عہد توڑ دیں تو تم بھی ان سے جنگ کرو ۔ (تفسیر خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۲/۲۱۸)(تفسیر جلالین، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۵۵-۱۵۶، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۲۷)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے کئے ہوئے معاہدے بھی پورے کرنے کا حکم دیا ہے تو اس پر افسوس ہے جو مومن کے ساتھ دھوکہ بازی اوربد عہدی سے باز نہ آئے ۔ عہد شکنی حرام ہے چنانچہ حدیث مبارک ہے’’ جس شخص میں یہ چار باتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔ (2) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ۔ (3) جب معاہدہ کرے تو اسے توڑ دے ۔ (4) جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے ۔ اگر کسی کے اندر ان میں سے ایک عادت پائی جائے تو اس میں نفاق کا ایک حصہ موجود ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے ۔ (بخاری، کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب اثم من عاہد ثمّ غدر، ۲/۳۷۰، الحدیث: ۳۱۷۸)
وَ اَوْفُوۡا بِعَہۡدِ اللہِ اِذَا عٰہَدۡتُّمْ وَلَا تَنۡقُضُوا الۡاَیۡمَانَ بَعْدَ تَوْکِیۡدِہَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللہَ عَلَیۡکُمْ کَفِیۡلًا ؕ اِنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوۡنَ ۔ (سورہ النحل : 91)
ترجمہ : اور اللّٰہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھو اور قسمیں مضبوط کرکے نہ توڑو اور تم اللّٰہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو بیشک اللّٰہ تمہارے کام جانتا ہے ۔
اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے کرنے والے کاموں اور نہ کرنے والے کاموں کا اِجمالی طور پر ذکر فرمایا اور ا س آیت سے بعض اِجمالی اَحکام کو تفصیل سے بیان فرما رہا ہے اور ان میں سب سے پہلے عہد پورا کرنے کا ذکر کیا کیونکہ اس حق کو ادا کرنے کی تاکید بہت زیادہ ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے(بیعتِ رضوان کے موقع پر) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اسلام پر بیعت کی تھی ، انہیں اپنے عہد پورے کرنے کا حکم دیا گیا ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے وہ عہد ہے جسے انسان اپنے اختیار سے اپنے اوپر لازم کر لے اور اس میں وعدہ بھی داخل ہے کیونکہ وعدہ عہد کی قسم ہے ۔ (تفسیر خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳/۱۴۰)
وعدے کی تعریف اور اس کا حکم
وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کرلے ”وعدہ“ کہلاتا ہے ۔ (معجم وسیط،ج 2،ص1007)
حکیم الامّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے ۔ مسلمان سے وَعدہ کرو یا کافر سے، عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے ، اُستاذ، شیخ، نبی، اللّٰہ تعالٰی سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو ۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عُذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو وہ گنہگار نہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح،ج6،ص483،492،چشتی)
لفظِ وعدہ ضروری نہیں
وعدہ کے لئے لفظِ وعدہ کہنا ضروری نہیں بلکہ انداز و الفاظ سے اپنی بات کی تاکید ظاہر کی مثلاً وعدے کے طور پر طے کیا کہ ”فُلاں کام کروں گا یا فُلاں کام نہیں کروں گا“ وعدہ ہوجائے گا ۔ ( غیبت کی تباہ کاریاں، ص461)
وعدہ پورا کرنے کی اہمیت
ایفائے عہد بندے کی عزّت و وقار میں اضافے کا سبب ہے جبکہ قول و قرار سے روگردانی اور عہد (Agreement) کی خلاف ورزی بندے کو دوسروں کی نظروں میں گرا دیتی ہے ۔ نبیِّ صادق و امین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے : اس شخص کا کچھ دِین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا ۔ (معجم کبیر،ج10،ص227، حدیث:10553)
حالتِ جنگ میں بھی وعدہ پورا کیا نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حالتِ جنگ میں بھی عہد کو پورا فرمایا چنانچہ غزوۂ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی افرادی قوت کم اور کفّار کا لشکر تین گنا سے بھی زائد تھا، حضرت حُذَیفہ اور حضرت حُسَیْل رضی اللہ تعالٰی عنہما دونوں صحابی کہیں سے آرہے تھے کہ راستے میں کفّار نے دَھر لیا اور کہا : تم محمد عربی (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے پاس جا رہے ہو ؟ جب ان دونوں حضرات نے شریکِ جنگ نہ ہونے کا عہد کیا تب کفار نے انہیں چھوڑا، آقا علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام نے سارا ماجرا سُن کر دونوں کو الگ کردیا اور فرمایا : ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے ، ہمیں صرف اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی مدد درکار ہے ۔ (مسلم، ص763، حدیث:4639)
مفسرین نے اس عہد کی حسب ذیل اقسام بیان فرمائی ہیں
(1) اللہ کے عہد سے مراد بیعت رضوان ہے جب چودہ سو مسلمانوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہاتھ قصاص عثمان لینے کے لیے بیعت کی تھی۔ جس کا ذکر اس آیت میں ہے : ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ، ید اللہ فوق ایدیھم فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ ۔ (سورہ الفتح : 10) ، بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ سے ہی بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ، پس جس نے بیعت توڑی اس کا وبال اسی پر ہوگا ۔
یعنی جب تم بیعت کرنے کے بعد اللہ کی قسم کھا کر اس بیعت کو پکار کرو، یا عہد کر کے اللہ کی قسم کھا کر اس عہد کو پکار کرو تو پھر اس بیعت یا عہد کو نہ توڑو ۔
(2) اس سے مراد ہر وہ عہد ہے جو انسان اپنے اختیار سے کسی کے ساتھ کرتا ہے ۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا وعدہ بھی عہد کی قسم سے ہے ۔ میمون بن مہران نے کہا تم جس شخص سے بھی عہد کرو اس عہد کو پورا کرو خواہ مسلمان سے عہد کرو یا کافر سے کیونکہ اس عہد پر تم نے اللہ کا نام لیا ہے اور اس کو ضامن بنایا ہے ۔
(3) اس عہد سے مراد اللہ کی قسم ہے اور جب کوئی شخص کسی کام کو کرنے کے لیے اللہ کی قسم کھائے تو اس پر اس قسم کو پورا کرنا واجب ہے ، سوا اس صورت کے جب اس نے گناہ کا کام کرنے کی قسم کھائی تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس قسم کے خلاف کرے یعنی گناہ نہ کرے اور اس قسم کا کفارہ دے ۔ حدیث میں ہے : حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس چیز کا انسان مالک نہ ہو اس پر قسم نہ کھائے ، اور نہ اللہ کی نافرمانی کرنے پر قسم کھائے اور نہ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے پر قسم کھائے اور جس شخص نے کسی کام کرنے کی قسم کھائی پھر اس نے غور کیا کہ اس کام کے خلاف کرنا اچھا ہے تو وہ اس کام کو ترک کردے اور جو کام اچھا ہو اس کو کرے اس کام کو ترک کرنا ہی اس کا کفارہ ہے۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جو تمام احادیث مروی ہیں ان سب میں یہ ہے کہ وہ اس قسم کا کفارہ دے ۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 3274، سنن النسائی رقم الحدیث : 3801)
حضرت عبدالرحإن بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اے عبدالرحمن بن سمرہ ! جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ پھر تم یہ سمجھو کہ اس کام کے خلاف کرنا بہتر ہے تو وہ کام کرو جو بہتر ہے اور اس قسم کا کفارہ دے دو ۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 3277، صحیح البخاری رقم الحدیث : 6721، صحیح مسلم رقم الحدیث : 1652، سنن الترمذی رقم الحدیث : 1529، سنن النسائی رقم الحدیث : 3791،چشتی)
(4) عہد سے مراد ہر وہ کام ہے جس کے تقاضے سے اس کو پورا کرنا واجب ہو کیونکہ عقلی اور سمعی دلائل قسم کے پورا کرنے کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔
ایک دوسرے سے تعاون کے معاہدہ کے متعلق متعارض احادیث : حضرت جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اسلام میں حلف (ایک دوسرے سے تعاون کا معاہدہ) نہیں ہے جس شخص نے زمانہ جاہلیت میں حلف (تعاون کا معاہدہ) کیا تھا اس نے اس کو اور پختہ کردیا ہے ۔ حلف (ح اور لام کی زبر) کا معنی ہے ، قسم کھانا اور حلف (ح کی زیر اور لام پر جزم) کا معنی ہے ایک دوسرے سے تعاون کا معاہدہ کرنا ۔ (مختار الصحاح ص 99، المنجد ص 149) (صحیح مسلم رقم الحدیث : 2530، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 2925)
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمارے گھر میں مہاجرین اور انصار کے درمیان حلف کرایا (یہ معاہدہ کرایا کہ یہ آپس میں بھائی ہیں) حضرت انس سے کہا گیا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسلام میں حلف نہیں ہے ۔ اس پر انہوں نے کہا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمارے گھر میں دو یا تین بار حلف برداری کرائی ۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 2926، صحیح البخاری رقم الحدیث : 6083، صحیح مسلم رقم الحدیث : 2531، مسند احمد رقم الحدیث : 12090، طبع جدید دار الفکر)
ان احادیث میں تطبیق
علامہ ابن اثیر الجزری المتوفی 606 ھ لکھتے ہیں : حلف کا معنی ہے ایک دوسرے کا بازو بننا ، ایک دوسرے کی مدد کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق سے رہنے کا معاہدہ کرنا، زمانہ جاہلیت میں دو قبیلے یا دو دوست یہ معاہدہ کرتے تھے کہ وہ جنگ میں لوٹ مار میں اور قتل اور غارت گری میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے خواہ حق ہو یا باطل ، اسلام میں اس سے منع کردیا اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اسلام میں حلف نہیں ہے اور جن لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ ملکر مظلوموں کی مدد کریں گے ، رشتہ داروں سے ملاپ رکھیں گے اس کے متعلق نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا زمانہ جاہلیت میں جو حلف بھی اٹھایا گیا (جو معاہدہ بھی کیا گیا) اسلام نے اس کو اور پختہ کردیا ہے سو جس حلف کو اسلام نے جائز قرار دیا اور باقی رکھا ہے ، یہ وہ حلف ہے جس میں نیک کاموں اور حق کے راستے میں مدد کرنے پر معاہدہ ہوا اور یہی وہ حلف ہے جس کا اسلام تقاضا کرتا ہے اور جو حلف اسلام میں ممنوع ہے یہ وہ حلف ہے جو اسلام کے احکام کے خلاف ہو ۔ لہذا حلف کی ممانعت اور حلت کے جواز کی حدیثیں کے محمل الگ الگ ہوگئے اور ان حدیثوں میں تعارض نہ رہا اور یہ حدیثیں مجتمع ہوگئیں ۔ (النہایہ ج 1 ص 407، 408، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ،چشتی)
علامہ یحی بن شرف نواوی متوفی 676 ھ لکھتے ہیں : زمانہ جاہلیت میں جو حلف اٹھا کر معاہدہ کیا جاتا تھا، اس میں یہ حلف بھی ہوتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اس حلف کو اسلام نے منسوخ کردیا۔ قرآن مجید میں ہے : واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ۔ (الانفال : 75) اور بعض رشتہ دار دوسرے بعض رشتہ داروں سے (بہ اعتبار وراثت کے) اللہ کی کتاب میں زیادہ مستحق ہیں ۔
علامہ نووی فرماتے ہیں جو معاہدہ وراثت سے متعلق ہو تو اس کی مخالفت کرنا جمہور علماء کے نزدیک مستحب ہے اور رہا اسلام میں مواخاۃ (بھائی بننا) اور اللہ کی اطاعت کرنا اور دین میں ایک دوسرے کی نصرت کرنا اور نیکی کرنے، تقوی اور حق کو قائم کرنے پر ایک دوسرے کے ساتھ حلف برداری کرنا (معاہدہ کرنا) تو یہ ہنوز باقی ہے اور منسوخ نہیں ہوا ، اور ان احادیث کا یہی معنی ہے جن میں آپ کا ارشاد ہے : زمانہ جاہلیت میں جو بھی حلف تھا اس کو اسلام نے اور مضبوط کردیا ہے ۔ اور آپ نے جو فرمایا ہے اسلام میں حلف نہیں ہے اس سے مراد ہے ، ایک دوسرے کا وارث بننے اور خلاف شرعی کاموں میں معاونت کرنے کا اسلام میں کوئی حلف نہیں ہے ۔ (صحیح مسلم بشرح النواوی ج 10،ص 6505، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، 141 ھ)
مواخاۃ کا معنی
علامہ نووی نے اپنی شرح میں مواخاۃ کا بھی ذکر کیا ہے ۔ یہ لفظ اخوت سے بنا ہے ، اس کا معنی یہ ہے کہ دو آدمی ایک دوسرے کی مدد کرنے ، ایک دوسرے کی غم خو واری کرنے اور ایک دوسرے کا وارث بننے کا معاہدہ کریں حتی کہ وہ دونوں نسبی بھائیوں کی طرح ہوجائیں۔ اس معاہدہ کو مواخاۃ کہتے ہیں اور کبھی اس کو حلف بھی کہتے ہیں جیسا کہ حضرت انس نے بیان کیا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے گھر میں قریش کے درمیان حلف برداری کرائی ۔ یہ چیز مانہ جاہلیت میں معروف تھی اور اس پر عمل بھی کیا جاتا تھا اور وہ اس کو حلف ہی کہتے تھے۔ جب اسلام آیا تو پھر بھی اس پر عمل کیا گیا اور ایک دوسرے کا وارث بنایا گیا، جیسا کہ کتب سیرت میں ہے کہ ہجرت سے پہلے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔
علامہ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب مدینہ آئے تو مسجد نبوی بنانے کے بعد آپ نے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا کہ وہ نیکی کے راستے میں ایک دوسرے کا تعاون کریں گے اور اقامت حق میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے ، صحابہ اس مواخاۃ کی وجہ سے بغیر نسب اور رحم کی قرابت کے ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے تھے حتی کہ یہ آیت نازل ہوگئی : والوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ ۔ (سورہ الانفال : 75) ، اور بعض رشتہ دار دوسرے بعض رشتہ داروں سے (بہ اعتبار وراثت کے) اللہ کی کتاب میں زیادہ مستحق ہیں ۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی بن ابی طالب کو اپنا بھائی بنایا اور فرمایا تم میرے بھائی اور میرے صاحب ہو ، اور ایک روایت میں ہے کہ تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو ۔ اور حضرت علی کہتے تھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بھائی ہوں اور مجھ سے پہلے کسی نے یہ نہیں کہا اور جو میرے بعد کہے گا ، وہ کذاب مفتری ہوگا۔ اور آپ نے حضرت ابوبکر اور حضرت خارجہ بن زید کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اور حضرت عمر اور حضرت عتبان بن مالک کو اور حضرت عثمان اور حضرت اوس بن مالک کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔
حلف الفضول (مظلوم کا بدلہ لینے کا باہمی معاہدہ)
ہم نے مواخات کا ذکر کیا ہے یہ زمانہ جاہلیت کے حلف الفضول کی مثل ہے ۔ اس میں بھی نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا حلف اٹھایا گیا تھا۔ امام بن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ قریش کے قبائل عبداللہ بن جدعان کے شرف اور نسب کی فضیلت کی وجہ سے اس کے گھر جمع ہوئے ۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ حلف اٹھا کر یہ معاہدہ کیا کہ مکہ میں ان کو جو مظلوم بھی دکھائی دے گا خواہ وہ مکہ کا رہنے والا ہو نہ ہو، وہ اس کی مدد کریں گے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ اس کا حق اس کو نہیں دلا دیتے ۔ قریش نے اس حلف کا نام حلف الفضول رکھا اس کا معنی تھا حلف الفضائل اور فضول فضل کی جمع کثرت ہے جسے فلس کی جمع فلوس ہے ۔ امام ابن اسحاق نے ابن شہاب سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس وقت عبداللہ بن جدعان کے گھر میں حلف ہورہا تھا میں بھی اس موقع پر تھا اور اگر اس تقریب میں شرکت کے بدلہ مجھے سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو مجھے پسند نہ تھا اور اگر زمانہ اسلام میں بھی مجھے اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی جاتی تو میں قبول کرلیا۔ امام ابن اسحاق نے کہا کہ ولید بن عتبہ نے حضرت حسین بن علی کے خلاف اپنے مال کا مقدمہ ولید کے پاس پیش کیا ، وہ اس وقت مدینہ کا گورنر تھا ، حضرت حسین بن علی نے فرمایا کہ اللہ کی قسم کھاؤ کہ تم میرے حق کے ساتھ انصاف کرو گے ورنہ میں اپنی تلوار پکڑ لوں گا ۔ پھر میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسجد میں لوگوں کو حلف الفضول کے لیے بلاؤں گا ۔ حضرت عبداللہ بن الزبیر نے فمرایا اللہ کی قسم ! اگر انہوں نے مجھے حلف الفضول کی دعوت دی تو میں اپنی تلوار اٹھا لوں گا پھر میں ان کا ساتھ دوں گا حتی کہ یا تو انہیں ان کا حق مل جائے یا ہم ان کے حق کی خاطر لڑتے لڑتے مرجائیں گے ۔ یہ بات حضرت مسور بن مخرمہ تک پہنچی تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا پھر یہ بات عبدالرحمن بن عثمان بن عبید اللہ التیمی تک پہنچی تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا اور جب یہ خبر ولید کو پہنچی جو امیر مدینہ تھا تو اس نے کہا میں انصاف کروں گا ۔ (الجامع لاحکام القرآن جز 10 ص 154)
علماء نے کہا یہ وہ حلف ہے (معاہدہ) ہے جو زمانہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا اور اسلام نے اس کو اور مضبوط کردیا اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو فرمایا ہے اسلام میں حلف (تعاون کا معاہدہ) نہیں ہے آپ نے اپنے ارشاد کے عموم سے اس معاہدہ کو مستثنی کردیا جس میں جائز اور ناجائز حمایت کا عہد کیا جاتا تھا۔ اور اس کی حکمت یہ ہے کہ شریعت کا بھی یہ حکم ہے کہ ظالم سے بدلہ لیا جائے اور اس سے مظلوم کا حق لے کر مظلوم تک پہنچایا جائے اور اس کام کو مکفلین پر بقدر استطاعت واجب کردیا اور ظالموں سے حق وصول کرنے کی ان کا اجازت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولمن انتصر بعد ظلمہ فاولئک ما علیھم من سبیل۔ انما السبیل علی الذین یظلمون الناس ویبغون فی الارض بغیر الحق اولئک لھم عذاب الیم ۔ (سورہ الشوری : 42، 43) ، جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد بدلہ لے تو اس پر گرفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ گرفت کی گنجائش تو صرف ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔
اس کی تائید ان حدیثوں میں ہے
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم ہو ۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! ہم مظلوم کی تو مدد کریں گے، ظالم کی کیسے مدد کریں ؟ آپ نے فرمایا : اس کا ہاتھ پکڑ لو ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2444، مسند احمد رقم الحدیث : 13110، سنن الترمذی رقم الحدیث : 2255، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 5167)
حضرت ابوبکر یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کے ہاتھوں کو نہ پکڑیں تو عنقریب اللہ تعالیٰ ان سب پر عام عذاب نازل کردے گا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2167، مسند الحمیدی رقم الحدیث : 3، مصنف ابن ابی شیبہ ج 15، ص 174، 175، مسند احمد ج 1 ص 5، 7، 9) (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 4338، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 4005، مسند البزار رقم الحدیث : 65، 66، مسند ابو یعلی رقم الحدیث : 128، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 403، المعجم الاوسط رقم الحدیث : 2532، السنن الکبری للبیہقی ج 10، ص 9)
عہد شکنی کی مذمت
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور قسموں کو پکار کرنے کے بعد نہ توڑو جبکہ تم اللہ کو اپنا ضامن قرار دے چکے ہو۔ قسموں کو پکا کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی چیز پر یا کسی کام کے کرنے پر دو یا تین بار اللہ تعالیٰ کے نام کیق سم کھائے اور اس کو موکد کرنے کے لیے کہے اللہ کی قسم ! میں اس کے خلاف نہیں کروں گا۔ تاہم اس موکد قسم کے کفارہ اور غیر موکد قسم کے کفارہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ قسم بھی عہد ہے اور ہر قسم عہد ہوتی ہے لیکن جس عہد کے ساتھ قسم نہ کھائی جائے اس کے توڑنے پر کفارہ نہیں ہوتا لیکن عہد شکنی کی شرع میں سخت مزمت کی گئی ہے اور اس پر سخت وعید ہے ۔
نافع بیان کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنے نوکروں اور بال بچوں کو جمع کیا اور فرمایا میں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا نصب کیا جائے گا اور ہم نے اس شخص سے بیعت کی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی بیعت ہے اور میرے علم میں اس سے بڑی عہد شکنی نہیں ہے کہ ایک شخص کسی کے ہاتھ پر اللہ اور اس کے رسول کی بیعت کرے اور پھر اس سے جنگ کرنا شروع کردے اور مجھے تم میں سے جس شخص کے متعلق یہ معلوم ہوا کہ وہ اس شخص سے بیعت توڑ رہا اور اس بیعت کو قائم نہیں رکھ سکا ، میرے اور اس کے درمیان تعلق منقطع ہوجائے گا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 7111، صحیح مسلم، رقم الحدیث : 1738، السنن الکبری رقم الحدیث : 8737، مسند احمد رقم الحدیث : 5457، عالم الکتب بیروت)
حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا قیامت کے دن عہد شکن کے لیے جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 6177، صحیح مسلم رقم الحدیث : 1735)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’وعدہ عہد ہی کی ایک قسم ہے۔ حضرت میمون بن مہران رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’تم جس شخص سے بھی عہد کرو تواسے پورا کرو ، خواہ وہ شخص مسلمان ہو یا کافر ، کیونکہ تم نے اس عہد پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا نام لیا (اور اسے ضامن بنایا) ہے ۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۷/۲۶۳،چشتی)
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : تم میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہوجاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ذمہ دار ہوتا ہوں ۔ (۱) جب بات کرو سچ بولو۔ (۲) جب وعدہ کرو اسے پورا کرو ۔ (۳) جب تمھارے پاس امانت رکھی جائے اسے ادا کرو ۔ (۴)اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ۔ (۵) اپنی نگاہیں نیچی رکھو ۔ (۶) اپنے ہاتھوں کو روکو ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث عبادۃ بن الصامت رضی اللّٰہ عنہ، ۸/۴۱۲، الحدیث: ۲۲۸۲۱) یعنی ہاتھ سے کسی کو ایذا نہ پہنچاؤ ۔
حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے ۔ (بخاری، کتاب الادب، باب ما یدعی الناس بآبائہم، ۴/۱۴۹، الحدیث: ۶۱۷۷)
حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا ہو گا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا ۔ (بخاری، کتاب الحیل، باب اذا غصب جاریۃ فزعم انّہا ماتت۔۔۔ الخ، ۴/۳۹۴، الحدیث: ۶۹۶۶)
قسموں کو مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ قسم کھاتے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے اَسماء اور صفات زیادہ ذکر کئے جائیں اور قسم توڑنے کی ممانعت مضبوط کرنے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ مُطْلَقاً قسم توڑنا منع ہے۔ یا قسم مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ قصداً قسم کھائی جائے ، اس صورت میں لَغْو قسم اس حکم سے خارج ہو جائے گی ۔ (تفسیر جمل، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۴/۲۶۲)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا قیامت کے دن جب اللہ اولین وآخرین کو جمع فرمائے گا تو ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی کا جھنڈا ہے ۔ (صحیح البخاری ‘ ج 7‘ رقم الحدیث :‘ 6177‘ صحیح مسلم ‘ جہاد ‘ 9‘ (1735) 4448‘ سنن الترمذی ‘ ج 3‘ رقم الحدیث :‘ 1587‘ سنن ابوداؤد ‘ ج 2‘ رقم الحدیث :‘ 2756‘ صحیح ابن حبان ‘ ج 16‘ رقم الحدیث :‘ 7343‘ مسند احمد ‘ ج 2‘ رقم الحدیث :‘ 4648‘ مسند احمد ‘ ج 1‘ ص 411‘ 417‘ 441‘ ج 2‘ ص 56‘ 49‘ 48‘ 29‘ 16‘ طبع قدیم ‘ مسند احمد ‘ ج 2‘ رقم الحدیث :‘ 4648‘ طبع جدید ‘ سنن کبری ‘ للبیہقی ‘ ج 8‘ ص 160۔ 159،چشتی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خطبہ میں فرمایا سنو ! جو امانت دار نہ ہو اس کا ایمان نہیں اور جو عہد پورا نہ کرے وہ دین دار نہیں ۔ (شعب الایمان ‘ ج 4‘ رقم الحدیث :‘ 4354)
نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا کوئی گوشہ نہیں جو کمال انسانیت کا آئینہ دار نہ ہولیکن اس کے دو اہم پہلو ایسے ہیں جو سب سے زیادہ بنیادی اور سب سے اہم ہیں(1) ایک تو یہ کہ آپ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس جو حق تھا اسے آپ نے خلق تک و قت کے وقت جوں کا توں پہنچا دیااور کبھی اس بات کو روا نہ رکھا کہ اس کا کوئی جز و لوگوں پر واضح ہونے سے رہ جائے ۔
(2) دوسرے یہ کہ آپ نہایت سچے وعدہ نبھانے والے اور امین یعنی دیانت دار ہیں ۔ قرآن کریم ، حدیث پاک وعلماء کی لکھی ہوئی قدیم و جدید کتب کا جس نے بھی اچھی طرح مطالعہ کیا ہے ۔ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کے بارے میں سیر حاصل تحقیق کی ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس دنیا میں آنے والے سب سے بڑے وعدہ نبھانے والے تھے اور کئی صدیوں کے گذر جانے کے باوجود یہ حقیقت دھندلی ہونے کے بجائے زیادہ روشن اور صاف ہو گئی ہے ۔
ساری دنیا اور معاشرے کی تعمیر و تکمیل میں جہاں اور بہت سی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں ان میں اہم چیز ایفائے عہد (قول وقرار کا پورا کرنا) بھی ہے اس کے ذریعے معاشرے میں ایک توازن پیدا ہوتا ہے جس سے ماحول خوشگوار بن جاتا ہے اور وقتی رنجش ہو یا دائمی سب کا ازالہ ہوجاتا ہے کوئی بھی ملک ہو یا کمپنی یا قبیلہ یا انسان کسی بات پر کوئی عہد (Agreement) کرے یا کسی طرح کا وعدہ کرے لیکن بر وقت اس کی تعمیل و تکمیل نہ کرے تو ایسی صورت میں ایک قسم کی بد مزگی پیدا ہو جاتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایفائے عہد (وعدہ) کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے قرآن و حدیث میں بہ کثرت یہ حکم ملتا ہے کہ جو معاملہ کرو یا کسی سے وعدہ کرو اسے بر وقت پورا کروبندوں کو بتایا جارہا ہے کہ سارے عہدوں (وعدوں) کو پورا کرو خواہ خالق کائنات سے کریں یا مخلوق سے ۔
پارہ 2؍ رکوع 6؍ سورہ البقرہ آیت نمبر 177 (ترجمہ) اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے پورا کریں پھر وعدہ مجبور۱ً پورا نہ کریں بلکہ قرآن فرما رہا ہے عہد کرتے وقت وفا کی نیت ہونا چاہیئے عہد ﷲ تعالیٰ کی صفت ہے ﷲ تعالیٰ نے اپنے متعلق متعدد مقامات پر فرمایا ہے پارہ 13؍ رکوع 10؍سورہ رعد آیت نمبر 31؍اِنَّ اللّٰہ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعِاد (ترجمہ) یقینا اﷲ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا (4) پارہ 11؍ رکوع 2؍ سورہ توبہ آیت نمبر 111؍ وَ مَنْ اَوْفیَ بِعَہَدِہ مِنَ اللّٰہٖ (ترجمہ) اور ﷲ سے زیادہ اپنے عہد پورا کرنے والا کون ہے ۔ عہد کا پورا کرنا اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے ﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں اس صفت کو جلوہ گر دیکھنا چاہتا ہے اس لئے اس نے عہد (وعدہ)(Promise) کی بار بار تاکید کی ہے ۔ پارہ 15رکوع3؍سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 37؍وَاَوْفُوْبِالعَہْداِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُولاَ (ترجمہ) اور عہد کو پورا کرو عہد کے بارے میں (ﷲ کے یہاں) ضرور باز پُرس ہوگی ۔
ﷲ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور انبیاء کرام کی صفت بھی وعدہ پورا کرنے والی ہے رب العزت فرماتا ہے اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ کَانَ رَسُوْلاًنَبِیاً ، (ترجمہ) جتنے بھی رسول آئے سب سچے وعدہ پورا کرنے والے ۔
اور آگے رب کریم ارشاد فرماتا ہے اِنَّہٗ کَانَ صِدِیْقاً نَبِیاً سورہ مریم آیت نمبر 56 ، (ترجمہ) بے شک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔
جو لوگ حج کی سعادت عظمیٰ و روضۂ رسول صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حاضری سے سرفراز ہو چکے ہیں انہوں نے روضۂ رسول صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جالیوں میں لکھا ہوا دیکھا ہوگا محمد رسول صادق الوعدالامین ․․․․․․․ ہیں حضور سچے وعدہ نبہانے والے اور امین ہیں یعنی امانت دار ہیں ۔ وعدہ خلافی شیطانی عیب ہے ابلیس قیامت میں کہے گا سورہ ابراہیم آیت نمبر 21؍ وَوَعَدْتَّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ ․․․․․․․الخ (ترجمہ) میں نے جو تم کو وعدہ دیا تھا وہ میں نے تم سے جھوٹا کیا ․․․․․․․․ (1) وفائے عہد ایمانی صفت ہے (2) جھوٹا آدمی دین ودنیا میں کہیں کا میاب نہیں ہوتا (3) وعدہ نبہانے عہد کی پابندی کرنے والے سے ﷲ خوش ہوتا ہے اور دوست رکھتا ہے (4) وعدہ خلافی کرنے والے پر سخت عذاب کی وعید ہے (5) ایفائے عہد وعدہ نبہانے والے سے ﷲ محبت فرماتا ہے ۔ پارہ 3؍ رکوع 15؍ سورہ آل عمران آیت نمبر 75 (ترجمہ) ہاں کیوں نہیں جس نے پورا کیا اپنا وعدہ اور پرہیزگار بنا تو بے شک ﷲ محبت کرتا ہے وعدہ نبہانے والوں اور پرہیز گاروں سے ۔
عہد کی پابندی نہ کرنے والے پرسخت عذاب کی وعید ہے ۔ اسلام نے محض ایفائے عہد کی تعلیم و تلقین ہی پر (کفایت)اکتفا نہیں کیا ۔ اس کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں ﷲ کے عذاب کی وعیدیں بھی آئی ہیں ۔ پارہ 3؍ رکوع 15؍ سورہ آل عمران آیت نمبر 77؍ (ترجمہ) بے شک جو لوگ خریدتے ہیں ﷲ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی سی قیمت یہ وہ (بد نصیب) ہیں کہ کچھ حصہ نہیں ان کے لئے آخرت میں اور بات نہ کرے گا ان سے ﷲ تعالیٰ اور دیکھے گا بھی نہیں ﷲ ان کی جانب قیامت کے روز نہ پاک کرے گا انہیں اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔
عہد (وعدہ) پورا نہ کرنے اور جھوٹی قسم کھانے پر بہت سی وعیدیں قرآ ن پاک و حدیث شریف میں آئی ہیں وعدہ نہ نبہانے والے کی طرف ﷲ پاک دیکھے گا بھی نہیں اور گناہ بھی معاف نہ فرمائے گا (استغفر اﷲ) ۔ تفسیر ضیاء القرآن جلد اول صفحہ 245 سے 246 تک کبیرہ گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اس میں عہد شکنی وعدہ خلافی کو نمبر 3 پر رکھا گیاہے اور جو سزا مقرر کی گئی ہے وہ کسی دوسرے گناہ کے لئے تجویز نہیں کی گئی ۔ عہد شکنی کے لئے پانچ سزاؤں کایہاں ذکر کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں غور کریں اور اپنا محاسبہ فرمائیں (1) وہ آخرت کی نعمتوں سے یکسر محروم کرد یا جائے گا (2) رحمٰن و رحیم خدائے پاک اس سے بات تک نہ کرے گا (3) اس کی نظر کرم و رحمت سے بھی محروم رہے گا (4)گناہوں کی آلائشوں سے بھی وہ پاک نہیں کیا جائے گا (5) اس کے علاوہ اسے درد ناک عذاب دیا جائے گا ۔
ہے کوئی ایسے دل گردے والاجو ان سزاؤں میں ایک کو بھی برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہو ۔ قرآن پاک کو ﷲ تعالیٰ کا کلام ماننے والی قوم اگر اس ہیبت و جلال والی آیت کے بعد بھی وہ وعدہ کی پابندی نہ کرے (استغفرﷲ-استغفرﷲ)عہد شکنی نفاق کی علامت ہے ۔ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عہد شکنی کو نفاق کی خصلتوں میں شمار کیا ہے اور وعدہ خلاف شخص کو منافق قرار دیا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا آیۃ المنافق ثلاث اذا احدث کذب واذا وعداخلف واذا اُتمئن خان ۔ (ترجمہ) منافق تین باتوں سے پہچانا جاتا ہے ٭ جب بات کرے تو جھوٹ بولے ٭ جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے ٭ جب امانت سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے ٭ (بخاری شریف کتاب الایمان باب علامت منافق حدیث نمبر 2682-2633 ) ، اسی مضمون کی ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں ․․ عبد ﷲ بن عمرو رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے چار خصلتیں ہیں جس کے اندر پائی جائیں وہ خالص منافق ہوگا (1) جب بولے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے (Promise) تو ا س کی خلاف ورزی کرے (3) جب معاہدہ کرے (Agreement)کرے تو توڑ دے (4)جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے ۔ ﷲ کے رسول صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم جو ظاہری طور پر اعلان نبوت کے پہلے بھی صادق الامین کے لقب سے مشہور تھے وعدہ کی اہمیت پر ارشاد فرماتے ہیں اَلْعِدَّۃُدَیْنٌ وعدہ ایک قسم کا قرض ہے جس طرح قرض ادا کرنا واجب ہے اسی طرح وعدہ پورا کرنا واجب ہے ۔
ایفائے عہد (وعدہ) پورا کرنے کی نیت پر نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں ایفائے عہد کے نیت کے باوجودوعدہ پورا نہ کر سکے تو یہ وعدہ خلافی نہیں ۔
نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں ایفائے عہد (وعدہ پورا کرنے) کی نیت ہو اور آدمی وعدہ وفا نہ کر سکے تو یہ خلف وعدہ نہیں ہے۔ہاں خلف وعدہ (وعدہ خلافی) یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور ایفائے عہد (وعدہ پورا نہ کرنے کی نیت نہ ہو (کنزالعمال جلد 3؍ صفحہ 200) صادق الوعد الامین محمد رسول ﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وعدہ وفا کرنا ملاحظہ فرمائیں ۔ صلح حدیبیہ میں کفار و مشرکین کی من مانی کے باوجود ﷲ کے رسول نے معاہدہ فرمایا صحابہ کو شرائط سن کر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔ ابھی معاہدہ لکھا جا رہا تھا کہ کفار کے نمائند ے سہیل بن عمرو کا لڑکا ۔ ابو جندل رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جو ایمان لا چکے تھے انہیں زنجیروں میں جکڑ دیا گیا تھا زنجیروں کو گھسیٹتے ہوئے میدان میں آگئے مسلمانوں نے بڑے پُر تپاک سے خوش آمدید کہا ان کا باپ سہیل بن عمرو ابھی وہیں موجود تھا اس نے ببول کی ٹہنی توڑ کر حضرت ابو جندل رضی ﷲ عنہ کے منھ میں مارنے لگا چہرہ لہو لہان ہوگیا اور سہیل بن عمرو نے کہا اے محمد صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ پہلا آدمی ہے اس کی واپسی کا مطالبہ میں آپ سے کرتا ہوں نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ابھی معاہدہ لکھا جا رہا ہے ۔ ابھی دستخط نہیں ہوئے ہیں معاہدہ اس وقت واجب العمل ہوتا ہے جب فریقین کے دستخط ہو جاتے ہیں اس ظالم نے کہا اگر آپ میریلڑکے کو واپس نہیں کریں گے تو سارے معاہدے کلعدم قرار دیں گے حضور رحمت عالم نے فرمایا اے سہیل اسے (ابو جندل) کو میرے لئے چھوڑ دو لیکن اس نے حضور کی بھی پرواہ نہیں کی اور ضد کرنے لگا ۔ ابو جندل رضی ﷲ عنہ جان رہے تھے کہ ہم کو اپنے پاس لے جائیں گے تو یہ اور زیادہ ظلم کریں گے آپ رونے لگے نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ابو جندل رضی ﷲ عنہ کو بلایا اور فرمایا ابو جندل صبر کرو اور ﷲ سے اس کے اجر کی امید رکھو یقینا ﷲ تمہارے لئے اور تمہارے کمزور ساتھیوں کے لئے نجات کا راستہ بنانے ہی والا ہے ہم نے قوم کے ساتھ صلح کی ہے اور ان کے ساتھ عہد و پیمان کیا ہے اب ہم عہد شکنی نہیں کریں گے سُبحان ﷲ سُبحان ﷲ اس چیز نے صحابہ کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا لیکن ادب سے کسی نے کچھ بھی نہیں کہا ۔ (ضیاء النبی پیر کرم شاہ ازہری رحمۃ ﷲ علیہ جلد 4؍ صفحہ 153؍سیرت خاتم النبین جلد 2؍ صفحہ 852)
وعدہ کی پاسداری
حضرت حذیفہ بن یمان رضی ﷲ عنہ مشہور صحابی ہیں یہ جب ایمان لاچکے تھے نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت میں بے چین تھے مکہ سے مدینہ آرہے تھے نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھنے راستے میں ابو جہل اور اس کے لشکر سے ملاقات ہوگئی تو پکڑلیا چونکہ اسلام و کفر کی سب سے پہلی جنگ بدر کی تیاری کرکے لشکر لیکر ابو جہل مدینے کی جانب آرہا تھا ۔ پوچھا کہاں جا رہے ہو تو آپ نے کہا نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا روئے زیبا دیکھنے وہ نہ مانا کہا تم جنگ میں جارہے ہو انہوں نے کہا نہیں ہم وعدہ کرتے ہیں جنگ میں حصہ نہیں لیں گے حضور کی زیارت کریں گے ابو جہل نے وعدہ کرواکر چھوڑ دیا آپ مدینہ آئے جنگ کی تیاریاں شباب پر تھیں حذیفہ رضی ﷲ عنہ نے نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے واقعہ بتا دیا نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جنگ بدر میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی ۔ فرمایا تم وعدہ کرکے آئے ہو اور اسی شرط پر ابو جہل نے رہا کیا ہے لہٰذا اس پہلی جنگ میں میں تمہیں اجازت نہیں دیتا وعدہ کی پاسداری کرو اسلام میں اس کی سخت تاکید ہے ۔ (الاصابۃ جلد 1؍ صفحہ 316) اور اس اعلیٰ وصف (وعدہ پر) عامل کے لئے جنت کی اعلی قسم جنت فردوس کی خوشخبری ہے عہد کو پورا کرنا مومن کا وصف ہے ۔
ارشادباری ہے سورہ مومنون آیت نمبر 8-11(ترجمہ) اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد (وعدہ) کی رعایت کرتے ہیں اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس (جنت) کی میراث پائیں گے وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔
عام طور پر لوگ عہد کے معنی صرف قول و قرار کو سمجھتے ہیں اسلام میں اس کے معنی بہت وسیع ہیں یہ حقوق ﷲ ،حقوق العباد،معاشرت،تجارت،اخلاق ومعاملات کی ان تمام صورتوں کو محیط (گھیرے ہوئے) ہے جس کی پابندی انسان پر عقلاً ،شرعاً ،اخلاقاً فرض ہے امام قرطبی الجامع الاحکام القرآن جلد 12؍ صفحہ 107میں فرماتے ہیں امانت و عہد دینی و دنیاوی معاملے پر حاوی ہے چاہے وہ قولی ہو یا فعلی اور جس کا پابند اور متحمل ہو علامہ الوسی بغدادی رحمۃ ﷲ علیہ (تفسیر روح المعانی جلد 18؍صفحہ 11) میں فرماتے ہیں یہ آیت مبارکہ اکثر مفسرین کے نزدیک ہر قول و قرار کے لئے عام ہے چاہے وہ ﷲ اور بندے کے مابین ہو یا دو انسانوں کے درمیان ہو ۔
وعدہ نبہانہ ﷲ کا محبوب بن جانا ہے جس شخص سے معاہدہ (Agreement) ہے چاہے وہ کافر مشرک ہی کیوں نہ ہو اگر وہ وعدہ خلافی نہ کرے تو اس کے لئے وعدہ کی پابندی و استواری اور اس کا پاس و لحاظ رکھنا نا گزیر ہے اور یہی تقوے کا تقاضا ہے ۔ مولائے رحیم فرما رہا ہے سورہ توبہ آیت نمبر 7؍ (ترجمہ) ان مشرکین کے لئے ﷲ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہدآخر کیسے ہو سکتا ہے بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا ۔تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیوں کہ ﷲ متقیوں کو پسند فرماتا ہے ایک جگہ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے سورہ آل عمران آیت نمبر 76؍ (ترجمہ) جو بھی اپنے عہد(وعدہ) کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا وہ ﷲ کا محبوب بنے گا کیوں کہ پرہیز گار لوگ ﷲ کو پسند ہیں ۔
محترم قارئینِ کرام : مندرجہ بالا آیتوں و احادیثِ مبارکہ اور تفاسیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عہد کا ایفا یعنی وعدہ پورا کرنا ﷲ کی خوشی و مسرت اور محبت و رضامندی کا سبب ہے ﷲ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندے کے لئے عظیم انعام و اعزاز ہے اس سے بڑھ کر کوئی اکرام نہیں ۔ ﷲ ہم تمام اہل ایمان کو عہد (وعدہ) کی اہمیت سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین ۔
تبلیغِ دین کے مشن کو آگے بڑھانے میں ہمارا ساتھ دیجیئے
دین کا درد رکھنے والے مسلمان بھائیوں ، بیٹوں اور سبھی احباب سے گذارش ہے کہ : فتنوں کے اس دور میں فتنوں کا مقابلہ کرنے ، دین کی نشر و اشاعت کرنے اور دینی تعلیم عام کرنے میں ہمارا ساتھ دیں ۔ دین کی نشر و اشاعت کےلیے دینی کتب تفاسیر قرآن اور کتب احادیث عربی اردو کی شروحات و دیگر اسلامی کتب کی اشد ضرورت ہے : آئیے تفاسیر قرآن اور کتب احادیث کی خریداری میں ہمارا ساتھ دیجیے اور مستحق بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے اخراجات کے سلسلہ میں صاحب حیثیت مسلمان تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیرا ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : فیض احمد چشتی ولد ملک غلام سرور اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ، اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment