عشق کے معنیٰ اور لفظ عشق کو گھٹیا و بازاری کہنے والوں کو جواب حصہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : امید ہے آپ نے حصہ اول پڑھ لیا ہوگا اب حصہ دوم پڑھتے ہیں : ⬇
لفظ عشق غلط محبت کا نام نہیں ہے کیوں کہ محبت جب پختہ، مضبوط اور بڑھتی ہے تو اسی کا نام عشق ہے ۔ جیسا کہ مصباح المنیر میں ہے : العشق الإفراط في المحبة ۔ (المصباح المنیر، جلد 2، صفحہ 412، لفظ عشق ، المكتب العلمیہ بیروت) ۔ اسی طرح لسان العرب اور تاج العروس میں ہے ۔
اور عشق کے لغوی معنی ہیں کسی شئی کے ساتھ دل کا وابستہ ہو جانا المنجد میں ہے کہ عشق و عشقا و معشقا معلق به قلبہ (جس کے ساتھ دل لگ جاۓ) چنانچہ عشق بالشئی کے معنی ہیں لصق به ( وہ اس کے ساتھ چمٹ گیا)
عشق کا لفظ ماخوذ ہے عشقہ سے اور وہ ایک پودا ہے جو سرسبز و شاداب ہوتا ہے لیکن پھر مر جھا جا تا ہے اور زرد پڑ جاتا ہے ۔ ہندی میں ’’عشق پیچاں‘ ایک بیل کو کہتے ہیں جو درخت سے لپٹ جاتی ہے اور اس کو بے برگ و بار کر دیتی ہے پھ وہ زرد ہوجاتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد خشک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح عشق جب قلب عاشق میں سما جاتا ہے تو اس کو زرد چہرہ اور لاغر بدن بنا دیتا ہے ۔ اردو زبان میں اس بیل کو؟ آکاش بیل‘‘ کہتے ہیں ۔
بعض کا خیال ہے کہ عشق کا لفظ غیر مشتق ہے ، وہ خود اپنا مادہ ہے ۔ قاموس میں عشق کو جنوں کا ایک حصہ بتایا ہے ۔
امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ علامہ احمد بن محمد منیر اسکندری کی کتاب الانتصاف کے حوالے سے تحریر فرمالے ہیں : اقول : وظاهر ان منشاء الحكم لفظ يعشقني
دون ادعائہ لنفسہ الاترى الى قولہ أن العبارة الصحيحة يحبني ثم الظاهر ان تكون العبارة بواو العطف كقولہ احبہ ویحبنی فيكون الحكم لاجل قولہ يعشقني والا فلا يظهر لہ وجہ بمجرد قولہ اعشقہ ۔ (میں کہتا ہوں) ظاہر یہ ہے کہ منشائیے حکم لفظ يعشقی ہے نہ کہ وہ لفظ جس میں اپنی ذات کے لئے دعوی عشق کیا گیا ہے کیا تم اس قول کو نہیں دیکھتے کہ صحیح عبارت "یحبنی ہے پھر ظاہر ہے کہ عبارت واؤ عاطفہ کے ساتھ ہے جیسے اس کا قول ہے احبہ یحبنی یعنی میں اس سے محبت رکھتا ہوں اور وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے پھر حکم اس کے یعشقنی کہنے کی وجہ سے ہے ورنہ اس کے صرف اعشقہ کہنے سے کوئی امتناعی وجہ ظاہر نہیں ہوتی ۔ فالمحبة في اللغة اذا تاكدت سمیت عشقا فمن تاكدت محبتہ الله تعالى وظهرت آثار تأكدها علیہ من استيعاب الأوقات في ذكره وطاعتہ فلا يمنع ان تسمی محبتہ عشقا اذ العشق ليس الا المحبة البالغة ۔
ترجمہ : محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور موکد ہو جائے تو اسی کو عشق کا نام دیا جاتا ہے پھر جس کی اللہ تعالی سے پختہ محبت ہو جائے اور اس پر پختگی محبت کے آثار ظاہر ہو جائیں (نظر آ نے لگیں) کہ وہ ہمہ اوقات اللہ تعالی کے ذکر و فکر اور اس کی اطاعت میں مصروف رہے تو پھر کوئی مانع نہیں کہ اس کی محبت کو عشق کہا جائے کیونکہ محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے ۔ (فتاوی رضویہ ج 21 ص 115 رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
بزرگان دین کے اقوال عشق کے متعلق
احمد بن یحی سے جب پوچھا گیا کہ عشق اور محبت دونوں میں سے کون زیادہ قابل ستائش ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ الحب (محبت) لان العشق فيه افراط ۔ چونکہ عشق میں زیادہ افراط ہوتا ہے) ۔ بعض عارفین کا قول ہے ۔ العشق تجاوز عن الحد في المحبة
عشق محبت میں حد سے تجاوز کرنا ہے
و بعض نے کہا "۔
العشق عبارة عن إفراط المحبة و شدتھا
والمحبة إذا شتدث و قویت سمیت عشقا
عشق افراط محبت یا شدت محبت کا نام ہے ۔ محبت جب شدید ہو جاتی ہے اور
قوی ہو جاتی ہے تو اس کا نا م عشق ہو جاتا ہے
عشق افراط محبت گفتہ اند
اندریں معنی چہ نیکو سفتہ اند
عشق محبت کی افراط اور زیادتی کا نام ہے اور اس کام میں کئی نیکوکار بھی مبتلا ہیں ۔
حضرت ذوقی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : انسان سب سے اعلی و ارفع مخلوق ہے بعد از خدا بزرگ تو ئی‘‘ - انسان
کامل ہی کی شان ہے اس لئے محبت کا انتہائی مرتبہ یعنی عشق بھی انسان ہی کے حصے میں آیا۔ کوئی انسان اس کی حکمرانی سے آ زاد نہیں ۔ کوئی شخص نہیں جیسے یہ بیش بہا جوہر عنایت ہوا ہو عشق کی برکت سے ، ان کو بے پناہ قوت حاصل ہو جاتی ہے وہ ایوالوقت اور ابو الحال بن جاتا ہے ۔ اس و آفاق اس کے زیرنگین ہو جاتے ہیں ۔
علامہ اقبالؒ لفظ عشق کا استعمال اس طور پر کرتے ہیں :
عشق کی آگ جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہء وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اجالا کر دے
ہر کہ عشقِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سامانِ اوست
بحر و بردر گوشہ دامانِ اوست
نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہٰ
عاشق کو وہ مضبوط ارادہ اور یقین محکم حاصل ہوتا ہے کہ اسے کسی طرح کا خوف دامن گیرنہیں ہوتا ۔
مومن از عشق است و عشق از مومن است
عشق را ناممکن ما ممکن است
مومن عشق سے ہے اور عشق مومن سے ہے اور عشق کےلیے ہمارا ناممکن بھی ممکن ہے ۔
حضرت شیخ ابوالقاسم جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ نے عشق کے متعلق فرمایا : العشق الالفة رحمانية و الهام شوقی اوجبها الله على كل ذي روح ليحصل به اللذة العظمى التي لا يقدر على حصولها الا بتلك الألفة وهي موجودة في النفس و مراتبها مقررة عند أربابها فما احد الا عاشق يستال به على قدر طبقة من الخلق
ولذالك كان اشرف المذاهب، في الدنيا مراتب الذين زهدوا فيها مع كونها معائينة رمالوا الى الآخرة مع كونها من جرابهم عنها بصورة لفظ ۔ (تذکرہ سلوک صفحہ 283،چشتی)
ترجمہ : عشق ایک الفت رحمانی اور الہام شوقی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کو ہر ذی
روح پر واجب کیا ہے تا کہ عشق ہی کی وجہ سے انہیں بڑی لذت حاصل ہو ۔ جس کو وہ بجز الفت کے اور کسی طرح حاصل نہیں کر سکتے تھے اور یہ الفت نفس میں موجود ہے اور اس کے مراتب ارباب الفت کے نزدیک مقرر ہیں ۔ پس کوئی شخص نہیں مگر وہ کسی نہ کسی ایسی چیز پر عاشق ہوتا ہے جس سے وہ اپنے طبقے کے لوگوں کی راہ پاتا ہے ۔ اس لئے ان لوگوں کا مرتبہ دنیا میں اشرف ہے ۔ جنہوں نے دنیا کو جو سامنے موجود ہے چھوڑ دیا ہے اور آخرت کی طرف مائل ۔ ہوگئے ہیں جس کا انہوں نے صرف ذکر ہی سنا ہے ۔
امام غزالی رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ : مرد کو چاہئے کہ دریائے عشق میں غواصی کرے اگر اس کی موج مهر اس کو ساحل تک پہنچا دے تو فقد فاز فوزا عظیما (وہ بڑی کامیابی کو پہنچ گیا اور اگر نہنگ قہر اس کو نگل جا ئے تو فقد وقع اجره على الله (اس کا ثواب اللہ
تعالی کے ہاں ثابت ہو گیا ۔ عشق جب دل میں جاتا ہے خون کر دیتا ہے ۔ جب یہ آنکھ میں پہنچتا ہے اسے دریا بنا دیتا ہے ، جب کپڑوں میں پہنچتا ہے ۔ پھاڑ دیتا ہے ، جب جان پر پہنچتا ہے اسے مٹی بنا دیتا ہے ، جب مال میں پہنچتا ہے قے بنا دیتا ہے ۔ عشق جنون الی ہے ۔
حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا " العشق نار يقع في القلب فاحرفت، ما سوى المحبوب » عشق ایک آگ ہے جو دل میں ہوتا ہے اور محبوب کے ماسوا ہر چیز کو جلا ڈالتی ہے)
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کاقول ہے " عاشق محو عشق و عشق محو در معشوق‘‘
عشق و عاشق محو گردد زیں مقام
خود ہماں معشوق ماند و السلام
اگر عشق و معشوق اس مقام سے فراموش ہو جائیں تو صرف معشوق ہی باقی بچے گا اور بس)
حضرت داتا علی ہجویری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا " عشق از مواهب است نه از
مکاسب (عشق وہبی چیز ہے کسبی چیز نہیں ہے) ۔
اس کو مراز غالب نے یوں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے :
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
حضرت بندہ نواز گیسو دراز رحمة اللہ علیہ نے فر مایا عشق وہبی صرف است
و بخششے خاصہ است‘‘ ( عشق تمغہ خدائی ہے اور خاص انعام ہے )۔ ان ہی کا شعر ہے
عشق بازی اختیار ما نہ بود
ہر کہ ایں اخواہند بر سر می نہند
عاشقی همارا اختیار نہیں جو اس میں پڑتا ہے اس کو اپنے سر پر بٹھاتا ہے)
مولانا مسعود بک چشتی نظامی رحمة اللہ علیہ نے عشق کے کمالات کو اس طرح واضح کیا ہے
اے عزیز عشق بدل رود خون کند ، وچوں بدیدہ رسد جیجوں کند، و چوں
بجامہ رسد چاک کند، و چوں بجاں رسد خاک کند، و چوں بمال رسد قے
کند، العشق جنون الی۔
اے عزیز ! عشق جب دل میں جاتا ہے خون کر دیتا ہے، جب یہ آنکھ میں
پہنچتا ہے اسے دریا بنا دیتا ہے، جب کپڑوں میں پہنچتا ہے پھاڑ دیتا ہے، جب
جان میں پہنچتا ہے اسے مٹی بنادیتا ہے، جب مال میں پہنچتا ہے قے بنا دیتا ہے
عشق جنون الہی ہے)
حضرت ذوالنون مصری رحمة اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ عاشق صادق کون ہے؟ فرمایا اذا رايت رجلا خزين الوجه مفقود القلب ، مغلوب العقل، شديد البكاء ، طالب الموت و الفاء ومع ذلك يراعي الادب و يتفق الاوقات فهو عاشق صادق ۔ جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو پریشان صورت ہو، مفقود القلب ہو، مغلوب العقل ہو، بہت رونے والا ، موت کا طلبگار اورفتا کا دلدادہ ، اس سب کے باوجود اس میں ادب ہو اور پابند اوقات ہو تو سمجھ لو کہ وہ عاشق صادق ہے ۔
حضرت مخدوم شرف الدین احمد یحی منیری سے کسی نے پوچھا کہ عشق کیا ہے ؟ فرمایا عشق فرط محبت کو کہتے ہیں، کسی نے دریافت کیا کہ عشق کا رنگ کیا ہوتا ہے؟ فرمایا
" تمام عالم لون از عشق گرند، یعنی تمام جہان عشق کے رنگ سے رنگین ہے ۔ پھر آپ نے اشعار پڑھے :
عشق ام که در دو کون و مکان پدید نیست
عنقائے مغربم کہ نشانم پدید نیست
با ابرو و به غمزه جهاں صید کرده ام
منکر مداں کہ تیر و کمان پدید نیست
چوں آفتاب در رخ ہر ذرہ ظاہرم
از غایت ظہور عیانم پدید نیست
گویم ہر زبان و بر گوش بشنوم
ایں طرفہ تر کہ گوش و زبانم پدید نیست
چوں ہر چہ ہست در ہمہ عالم ہمہ منم
مانند در دو عالم ازانم پدید نیست
میں وہ عشق ہوں کہ میں دونوں جہان میں ظاہرنہیں ہوں ، میں مغرب کے
وقت کا عنقا پرندہ ہوں لہذا میرا نشانہ کوئی نہیں ہے ۔ ابرو اور ناز انداز سے
میں نے دونوں جہاں کو شکار کر لیا ہے۔ اے منکر ! یہ مت جان کہ میرے تیرو
کماں ظاہر نہیں ہیں میں سورج کی طرح ہر ذرے کے رخ میں ظاہر ہوں ۔
میں انتہائے ظہور میں عیاں ہوں لیکن ظاہر نہیں ہوں ۔ میں ہر زبان میں کہتا
ہوں اور ہر کان میں سنتا ہوں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ میری زبان اور کان ظاہر
نہیں ہیں تمام عالم میں جو کچھ ہے وہ سب میں ہی ہوں دونوں عالم کی طرح
کہ وہ مجھ سے ہیں لیکن ظاہر نہیں ہے
عشق وہ جذبہ ہے کہ جس سے مغلوب ہو کر عاشق وصل محبوب کا نعرہ لگاتا ہے، بے قرار ہو کر خود کو کم کر بیٹھتا ہے۔ جب اس کی ابتدا جان دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو اس کی انتہا کا خود اندازہ لگائیں۔ اگر کوئی عشق کا نظارہ کرنا چاہے تو درد دل کو تلاش کرے، جہاں پائے کا عشق نظر آ جائے گا۔ عراقی نے سچ کہا
۔ بعالم ہر کجا کہ درد دل بود
بہم کردند و عشقش نام کردند
جہان میں جہاں کہیں درد دل موجود تھا سب کو جمع کیا اور اس کا نام عشق رکھ دیا
اور حالی نے اس مضمون کو یوں باندھا ہے
سنتے تھے جسے عشق یہی ہوگا شاید
خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جا
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ عشق غلط محبت کا نام نہیں ہے بلکہ عشق محبت کی افراط اور زیادتی کا نام ہے علم ادب میں لفظ خلق کی طرح عشق بھی اچھے اور برے دونوں معنوں میں استعمال ہوسکتا ہے ۔ جس طرح خلق کا مذموم پہلو بیان کرنے کے لئے اہل زبان سوء خلق یا خلق بد“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اسی طرح عشق کا مذموم پہلو بیان کرتے ہوئے عشق مجازی یا ہوس‘‘ کا لفظ استعمال کیا جا تا ہے جبکہ عشق حقیقی یا عشق کامل وابستگی کے مثبت پہلو کو اجاگر کرتا ہے ۔
لفظ "عشق" کو قرآن مجید میں فرط محبت سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے متعلق حضرت شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے فرمایا کہ قرآن مجید میں عشق کو فرط محبت سے تعبیر کیا گیا ہے پس ارشاد باری تعالی ہے۔
والذین امنوا أشد حبالله یعنی ایمان والوں کو اللہ تعالی سے شدید محبت ہوتی ہے)
جب انسان کے قلب پر شدید محبت کا تسلط ہوجاتا ہے تو وہ محبوب کے سوا ہر چیز سے اندھا ہو جاتا ہے۔ محبت اس کے جسم کے تمام اجزاء میں جاری و ساری ہو جاتی ہے۔ اس کی نظر ہر شے میں محبوب ہی کو دیکھتی ہے اور ہر صورت میں اس کو محبوب ہی جلوہ گر نظر آتا ہے۔ اس کیفیت کا نام عشق رکھا گیا ہے ۔ اہل زبان نے کہا ہے کہ محبت جب محویت اور شدت میں ڈھل جائے تو اسے عشق کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مرآد وہی وارفتگی اور جزبہ جان نثاری ھے ، جو مطلوب و مقصود قرآن ھے اور جس کا سورہ توبہ میں بیان بھی کیا گیا ھے ۔
قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾ یعنی تم فرماؤ: اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے پسندیدہ مکانات تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیاد ہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ (پ 10 سورہ توبہ آیت مبارکہ 24)
اگر کوئی لفظ اس معنی و مفہوم کی صحیح ترجمانی کرتا ھے ۔ جو مقصود قرآن ھے، تو پھر اس لفظ کو معنی کے اعتبار سے مقصود قرآن سمجھا جاۓ گا ۔ اس لیے " حب رسول" کہ جگہ"عشق رسول" کہنا زیادہ قریب ھوگا ۔ جب ھم عشق رسول کہتے ھیں تو مذکورہ بالا آیت مبارکہ کا مفہوم بجلی بن کر ہماری نظروں میں کوند جاتا ھے اور ساری توانائیاں ایک نقطہ " عشق " پر مرکوز ہوجاتی ھیں ۔
اور حدیث پاک میں لفظ عشق کے متعلق مسند احمد بن حنبل میں حدیث نمبر ۲۰۴ میں ایک باندی کے تذکرے میں"عشقها ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اور سیرت کی کتابوں میں محبت کے بعض واقعات جو ہم پڑھتے ہیں، ان کے لیے ہم اپنی زبان میں عشق سے موزوں لفظ کوئی نہیں پاتے۔ عشق کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں : ⬇
حضرت عبدالله بن زید رضی الله عنہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں، انہی کے رویائے صادقہ سے اَذان کا سلسلہ جاری ہوا۔ جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال ہوا، وہ مدینہ منورہ سے باہر اپنے باغ میں کام کر رہے تھے۔ ان کے صاحب زادے وہاں پہنچے اور انہیں حضور صلی الله علیہ وسلم کی خبر وفات سنائی، دل میں عشق کی ایک موج ابھری اور انہوں نے فوراً دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے، اے الله! اگر آج کے بعد میری آنکھوں کو مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوسکتا تو مجھے نابینا کر دے کہ ان آنکھوں سے اورکسی کو نہ دیکھ سکوں ۔ (ترجمان السنہ ص،ج1، ص:349)
صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مصالحت کی غرض سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اپنا نمائندہ بنا کر مکہ بھیجا۔ تفصیلی بات چیت کے بعد قریش مکہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے یہ پیشکش کی کہ اگر آپ خود عمر ہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری طرف سے آپ کو اجازت ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ کیسے ممکن ہے کہ میرے آقا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو طواف سے روک دیا جائے اور میں خود طواف کر لوں ؟ قریش مکہ کے دلوں پر یہ بات بجلی بن کر گری۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ غلامانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عشق و ادب میں اتنا مقام نصیب ہو چکا ہے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ جب واپس تشریف لائے تو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ کیا آپ طواف کر آئے ہیں ؟ تو آپ نے جواب دیا اللہ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں وہاں ایک سال بھی ٹھہرا رہتا اور میرے آقا حدییبہ میں ہوتے تو میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بغیر طواف نہ کرتا ۔
غزوہ بدر کے موقع پر مقام صفراء میں حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیاہے اس کو انجام دیجیے ہم سب آپ کے ساتھ ہیں ۔ خدا کی قسم ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ ہرگز نہیں کہیں گے اے موسیٰ! آپ اور آپ کا رب جا کر لڑیں ہم تو یہیں بیٹھیں ہیں۔ بلکہ ہم بنی اسرائیل کے برعکس یہ کہیں گے ہم بھی آپ کے ساتھ مل کر جہاد و قتال کریں گے بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے لڑیں گے۔ راوی حدیث حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا چہرہ انور فرطِ مسرت سے چمک اٹھا ۔
بنو دینار کی ایک خاتون صحابیہ رضی اللہ عنہا ایسی تھیں جن کا بھائی ،شوہر، اور باپ جنگ احد میں شہید ہو گئے۔ وہ کہتی تھیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بابت بتلاؤ تو لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صحیح و سلامت ہیں وہ کہنے لگیں کہ مجھے دکھاؤ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں ؟ جب دور سے آقائے کون و مکان محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا تو بے اختیار پکار اٹھیں” کل مصیبۃ بعدک حلل“ آپ سلامت ہیں تو سب کچھ برداشت ہے ۔ (کتبِ احادیث و کتبِ سیر)
ان واقعات کو علم کی روشنی میں نہ جانچیے ، کیوں کہ یہ عشق کی اضطراری کیفیت ہے ، جس کی تعریف مولانا جامی علیہ الرحمہ ان لفظوں میں کرتے ہیں :
گہے فرزانہ را دیوانہ سازد
گہے دیوانہ را فرزانہ سازد
اور اگر اس پر اصرار کیا جائے کہ وہی لفظ استعمال کیا جائے، جو قرآن و احادیث نے استعمال کیا ھے، تو سوال کیا جاسکتا ھے۔کہ لفظ " خدا" لفظ " نماز،" روزہ اور لفظ سود قرآن و احادیث میں کہاں ھیں ؟ پس چاہیے کہ عقائد و فقہ کہ اردو اور فارسی کی کتابوں سے ان الفاط کو نکال دیا جائے اور ان کی جگہ وہی الفاظ استعمال کئے جائیں جو قرآن نے استعمال کیے ھیں، لیکن ایسا نہیں کیا جاے گا۔ حالانکہ احتیاط کا تقاضا تو یہ تھا جو قرآن نے استعمال کیے ھیں انہیں کو استعمال کیا جاتا کیونہ کہ علم و فن کی ہر اصطلاح اپنے الگ معنی و مفہوم رکھتی ھے اور یہ معنی و مفہوم عام لغت میں نہیں بلکہ اس فن کی لغت میں ھی مل سکتے ھیں مگر ایسے الفاظ کے لیے بھی مترادفات کو تسلیم کیا گیا ھے اور بے دھڑک استعمال کیا گیا ھے اور لفظ"عشق" کے لیے یہ احتیاط کہ اسکو قرآن میں تلاش کیا جارھا ھے۔۔۔۔ اگر اسکو تلاش کیا جاسکتا ۔تو پھر ان الفاط کو بدرجہ اولی تلاش کیا جانا چاھے جو اوپر مذکور ھوئے : ⬇
یہ قانون غلط، بے بنیاد اور عام ذہن رکھنے والوں کو متزلزل کرنے والا ہے کہ "جو قرآن و احادیث میں ذکر نہیں کیا گیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے استعمال نہ کیا جائے اور اس قانون کا مطلب یہ ہے کہ جو قرآن و احادیث میں ذکر کیا گیا ہے وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے استعمال
کریں ۔ یہ بھی سراسر غلط ہے ۔ جب ہم سنی مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیلئے عشق اور عاشقان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہم پر کڑی تنقید کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ عشق کا لفظ بازاری لفظ ہے یہ صنف نازک کےلیے استعمال کیا جاتا ہے کیا تم لوگ اپنی ماں بہن بیٹی کےلیے یہ لفظ استعمال کر سکتے ہو کہ بہن کا عاشق ماں کا یا بہن کا ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے کوئی لفظ استعمال کرنا ہے تو لفط پیار یا محبت اسعمال کرو ۔ اس کا جواب دینے سے پہلے ہم لفظَ پیار و محبت اور عشق میں فرق دیکھتے ہیں ۔
(1) پیار یہ ہمیں کسی سے بھی ہو سکتا ہے عورت کو مرد سے یا مرد کو عورت سے بھائی کو بہن سے یا بہن کو بھائی سے ماں باپ کو اولاد سے یا اولاد کو ماں باپ سے استاد کو شاگرد سے یا شاگرد کو استاد سے نیک لوگوں سے اللہ سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ۔ لیکن جب عام طور پر دو پیار کرنے والے لڑکا لڑکی جب انگلش میں ایک جملہ استعمال کرتے ہیں آئی لو یو تو اس کا مطلب ہوتا ہے میں تم سے پیار کرتا ہوں یا کرتی ہوں اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ میں تم سے عشق کرتا ہوں یا عشق کرتی ہوں لڑکا لڑکی عام طور پر ایک دوسرے کو یہی کہتے ہیں میں تم سے پیار کرتا یا کرتی ہوں ۔ عشق کا لفظ عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا دو ناسمجھ دل ایک دوسرے کو یہ کہہ کر پیغام دیتے ہیں کہ میں تم سے پیار کرتا یا کرتی ہوں معزرت کے ساتھ کونسا لفظ بازاری ہوا ۔ پیار کا یا عشق کا ۔ پیار جس سے ہو وہ اس کا یار ہوتا محبت جس سے ہو وہ اس کا محبوب ہوتا ہے اور عشق جس سے ہو وہ اس کا مشتاق ہوتا ہے یعنی ملنے کےلیے بے تاب ہوتا ہے ۔ پیار ، محبت اور عشق میں کونسا لفظ بازاری ہے میں تو کہوں گا پیار کا لفظ کیونکہ دو نا سمجھ جوان زیادہ تر اپنی گفتگو میں پیار کا لفظ استعمال کرتے ہیں عشق کا نہیں ۔
(2) محبت ۔ محبت کا مطلب ہے حب محبت کا معاملہ بھی یہی کہ محبت ہمیں اپنے تمام عزیزوں سے ہوسکتی ہے اپنے پیاروں سے ہو سکتی ہے اللہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہوسکتی ہے ، ماں باپ دوست احباب بہن بھائی غرضیکہ ہر کسی سے ہو سکتی دو ناسمجھ دل اس لفظ کا استعمال بھی کرتے ہیں مجھے تم سے محبت ہے پیار ہے جب پیار اور محبت انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اس وقت عشق بھی کہتے ہیں ۔ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حبیب کہہ کر پکارا ہے حبیب وہ ہوتا ہے جس سے حب ہو محبت ہو اور جو محبوب ہو اور جب محبت انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو یہ عشق بن جاتا ہے اور عشق پیار اور محبت سے پاکیزہ جزبہ ہوتا ہے۔عشق میں کوئی ہوس نہیں ہوتی جبکہ جس سے پیار یا محبت ہو تو عام مرد و عورت کو کوئی نہ کوئی ہوس بھی ضرور ہوتی ہے چاہے جسموں کے ملاپ کی ہوس ہو یا روحوں کے میلاپ کی۔لیکن عشق ہوس کے جزبے سے پاک جزبہ ہے ۔
(3) جیسا کہ حصہ اول میں لفظ عشق کے متعلق عرض کرچکے ہیں مزید یہ کہ ۔ عشق کی دو اقسام ہیں عشق مجازی اور عشق حقیقی ۔عشق ایسا جزبہ ہے کہ جسمیں انسان بے لوث ہوتا ہے کسی کی خاطر جان لے بھی سکتا ہے اور جان دے بھی سکتا ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو انہوں نے زندگی کی کوئی پروا نہ کی اور اپنی زندگی داؤ پہ لگا دی اس پروانہ کرنے کا نام عشق ہے ۔جب حضرت اسمایل پر انکے والد حجرت ابراہیم علیہ السلام نے چھری پھیرنے کا ارادہ کیا ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو بے چوں چراں ذبح ہونے کےلیے اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر چپ چاپ لیٹ گئے اس پروانے کا نام عشق ہے ۔یہ عشق حقیقی کی مثالیں ہیں ۔
عشق مجازی میں کوئی اپنے محبوب کی خاطر مجنوں بن جاتا ہے کوئی فرہاد بن جاتا ہے کوئی رانجھا بن جاتا ہے اس مجازی عشق میں کوئی ہوس نہیں ہوتی کوئی جسمانی ہوس کی طلب نہیں ہوتی اس طلب کا نہ ہونے کا نام عشق ہے لیکن یہ عشق مجازی ہے ۔ جبکہ عشق حقیقی میں سب کچھ اللہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خاطر قربان کرنے کا نام عشق حقیقی ہے اللہ کی خاطر جو انبیاء کرام نے قربانیاں دیں یہ عشق حقیقی کی زندہ مثالیں ہیں ۔ جب اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے فرمایا اے حبیب اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بنانا مقصود نہ ہوتا تو میں کچھ بھی نہ دو جہاں میں اور تمام جہاں میں یہاں تک کہ اپنے آپکو بھی ظاہر نہ کرتا یہ عشق اللہ کا اپنے حبیب کےلئیے ہے کہ اللہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خاطر خود کو بھی ظاہر نہ کرتا اور خود کو ازل سے لیکر چھپائے رکھتا ۔ کسی کی خاطر اپنے آپکو دنیا سے چھپا دینا ظاہر نہ کرنے کا نام عشق ہے ۔
عشق کی تعریف و توصیف میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’لمعات ‘‘ میں عشق کی حقیقت اس طرح واضح کی ہے ۔ بنده مومن جس کا اعتقاد ہے کہ حق سبحانہ و تعالی تمام صفات کمالیہ سے موصوف ہے ۔ اپنے کمالات کو ان ہی کے ذکر پر موقوف سمجھتا ہے اور وہ ہمیشہ حق تعالی کے نام کو یاد کرتا رہا ہے اور ان کی نعمتوں اور رعنائیوں کو ملاحظہ کرتا رہتا ہے ۔ اس حال پر مداومت کی وجہ سے اس کے دل میں بے قراری ، اضطراب اور قلق و جوش کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور روز بروز ترقی کرتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ حق تعالی کا نام مبارک بھی زبان پرنہیں لا سکتا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی روح جسم سے پرواز کر جائے گی ۔
بقول شاعر :
و یدرکنی في ذكرها قشعرير
لها بين جلد والعظام دبيب
مجھے اپنے محبوب کے ذکر کے وقت کپکپی سی ہوتی ہے میری جلد اور ہڈیوں
میں اس کی باریک سی حرکت محسوس ہوتی ہے غرض جب نفس میں یہ کیفیت متمکن بن جاتی ہے تو جو ہر قلب میں اتر جاتی ہے اور نفس ناطقہ پر اس کا رنگ چڑھ جاتا ہے تو اس کو نسبت عشق سے تعبیر کرتے ہیں۔
اس طویل بحث کے بعد ایک بات تو روز عیاں کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ عشق پاک جذبے کا نام ہے اس میں کوئی ہوس کوئی غرض نہیں ہوتی بس اللہ اس کے محبوب کی خوشنودی دیکھی جاتی ہے ۔
اور اہلِ اسلام جو لفظ عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے استعمال کرتے ہیں یہ بالکل شریعت کے مطابق ہے ۔ پیار میں ہوس اور محبت میں بھی کوئی ضرورت ہوسکتی ہے لیکن عشق میں کوئی ہوس نہیں ہوتی صرف اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خوشنودی ہوتی ہے ۔ لہٰذا لفظ عشق کا استعمال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے کر سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
جب ہم سنی مسلمان اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے عشق ، عاشق لفظ استعمال کرتے ہیں تو یہ لوگ (وہابی دیوبندی ) ہمیں کہتے ہیں کہ تم جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم استعمال کرتے ہو یہ بازاری لفظ ہے یہ صنف نازک کیلے استعمال کیا جاتا ہے ۔ کیا تم اپنی ماں بہن بیٹی کےلیے یہ لفظ استعمال کر سکتے ہو ۔ تو ان کو جواب دینے سے پہلے فقیر بتا دے کہ قرآن و حدیث میں اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حبیب کہہ کر پکارا ہے محبوب لفظ اسی سے دریافت ہوتا ہے اور یہی محبوب لفظ صنف نازک کےلیے استمال کیا جاتا ہے کیا اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو محبوب کہہ کے معاذ اللہ ثم معاذ اللہ بازاری زبان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے خطاب کیا ہے ۔ حبیب اس کو کہتے ہیں جو محبوب ہو اور محبوب وہ ہوتا ہے جس سے محبت ہو عشق ہو ۔ شاعر اپنے عاشق کےلیے محبوب کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔ اب دیابنہ اور وہابیہ سے گذارش ہے تم اپنی ماں ، بہن اور بیٹی کو محبوبہ کہہ کر کیوں نہیں بلاتے ہو ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ تعالی کے محبوب ہیں یا نہیں کیا اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا محب ہے یا نہیں آئیں دیکھتے ہیں ۔ کیا قرآن و احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حبیب نہیں کہا گیا ۔ کیا اللہ پاک کے محبوب بندے اور رسول اور محبوب ہستی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نہیں ہیں ۔ کیا اللہ نے قرآن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جان کی قسم نہیں اٹھائی اور جان کی قسم بھی اسی کی اٹھائی جاتی ہے جو سب سے زیادہ پیارا ہوتا ہے عزیز ہوتا ہے اور سب سے پیارا اور عزیز بھی وہی ہوتا ہے جس کا کوئی محب ہوتا ہے یا جس کا وہ محبوب ہوتا ہے ۔ کیا قرآن میں اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زلفوں کی قسم نہیں کھائی۔کیا اللہ نے پیار سے نبی پاک کیلے یا ایّھا المدثر کہہ کر نہیں پکارا ۔ کیا اللہ نے حدیث میں یہ نہیں فرمایا مفہوم حدیث اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نہ بناتا تو کچھ بھی نہ بناتا نہ زمین نہ آسمان نہ عرش فرش نہ جن نہ انس نہ جنت نہ دوزخ غرض کچھ نہیں میں اپنے آپ کو بھی چھپا دیتا اپنے آپکو بھی ظاہر نہیں کرتا ۔ (المصنف مواہب الدنیہ ، نشرالطیب)
کیا اتنی بڑی بات کوئی کسی کےلیے کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے آپ کو بھی ظاہر نہیں کرتا ایسا وہی کر سکتا ہے جس کا وہ محبوب ہو ۔ جب اللہ پاک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا محب ہے ۔ تو ہم مسلمانان اہلسنت و جماعت اللہ کی اس سنت پر عمل کیوں نہ کریں کیوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنی زندگی کی محبوب ہستی نہ کہیں کیوں ہم سنی خود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا عاشق نہ کہیں ۔ اور جب اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حبیب کہتا ہے تو حبیب وہی ہوتا ہے جو محبوب ہوتا ہے اور محبوب وہی ہوتا ہے جسکا کوئی محب ہوتا ہے ۔ اگر اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا محب ہے تو ہم اللہ پاک کے اس طریقے سنت سے روگردانی کیوں کریں اگر اللہ کے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں تو ہم سنیوں کے محبوب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں اور ہم اللہ کی سنت پہ عمل کرتے ہوئے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ۔
کیا اللہ قرآن میں حدیث میں حبیب کہہ کے نہیں پکارتا کیا محوب لفظ حبیب لفظ سے دریافت نہیں ہوتا کیا اللہ پاک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے حبیب کا لفظ استعمال کر کے معاذ اللہ ثم معاذ اللہ بازاری زبان میں نعوذ باللہ خطاب کر رہا ہے ۔ اللہ پاک کا جو محبوب ہمارا بھی وہ محبوب ہے ۔
عشق اور لفظ عاشق پہ فتوی لگانے والے وہابیو دیوبندیو اللہ تعالیٰ نے جو حبیب لفظ قرآن اور احادیث میں استعمال کیا ہے جس کا مطلب محبوب ہوتا ہے اور محبوب بھی وہی ہوتا ہے جس کا کوئی محب ہوتا ہے اس پہ فتوی لگا سکتے ہو اللہ کے اس لفظ حبیب کو چیلنج کر سکتے ہو ایسا سوچو گے بھی تو اللہ تمہیں عبرت کا نشان بنا دے گا ۔
یہ قانون غلط ، بے بنیاد اور عام ذہن رکھنے والوں کو متزلزل کرنے والا ہے کہ "جو ماں بہن کےلیے ذکر نہیں کر سکتے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے بھی استعمال نہیں کر سکتے اور اس قانون کا مطلب یہ ہے کہ جو ماں بہن کےلیے استعمال کر سکتے ہیں وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے استعمال کریں ۔ یہ بھی سراسر غلط ہے ۔
وہابیہ و دیابنہ کو چاہیے کہ وہ ہم سنی مسلمانوں پر لفظ عشق کے استعمال پر کڑی تنقید اور فتوی لگانے سے پہلے اپنی گھر کی خبر لینی چاہیے : ⬇
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی حج کے موقع پر مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔ عشق صادق ملاحظہ ہو کہ اول تو آپ منزلوں دور تھے کہ اونٹ سے اتر کر پیدل چلتے رہے او رپھر جب روضہٴ اقدس پر نظر پڑی تو جوتے اتار کر بغل میں دبالیے اور نوکیلے پتھروں سے بھرا ہوا راستہ ننگے پاؤں طے کرتے رہے ۔ (سوانح قاسمی،ج3، ص:31،چشتی)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں مدینہ کے سفر خرچ کا حساب نہ کیا جاوے، کیوں کہ وہ عاشقانہ سفر ہے اورحساب تقاضائے عشق کے خلاف ہے ۔ (ملفوظات حسن العزیز)
وہابی دیوبندی مولوی محمد عبداللہ نے ماہنامہ الفاروق میں بتاریخ جمادی الثانی 1437 ھجری میں ایک مضمون تحریر کیا بنام اکابر دیوبند کی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس میں اکثر و بیشتر لفظ عشق کو بیان کیا
وہابی مفتی محمد عارف باللہ القاسمی نے علمائے دیوبند اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک مضمون تحریر کیا جس میں اس نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عشق ومحبت اور شیفتگی ووارفتگی میں کمال کو پہونچنے والے علماء حق میں جہاں امام غزالی ، جنید بغدادی ، شبلی ، رومی ، سعدی ، رازی ، جامی ، شیخ عبد القادر جیلانی، حافظ شیرازی ، شیخ فرید الدین عطار ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اورشاہ عبد العزیز دہلوی رضی اللہ تعالی عنہم وغیرہ کے نام لئے جاتے ہیں اور نیز علماء دیوبند کا بھی ذکر کیا ۔
وہابی دیوبندی مولوی ابو طلحہ محمد اظہار الحسن محمود نے ایک کتاب تحریر کی جس کو عشق رسول اور علماء دیوبند کے نام سے موسوم کیا اور کہا کہ اپنے موضوع پر پہلی اور لازوال پیشکش ہے ۔
حیات ابن تیمیہ نامی کتاب میں عشق رسول کی چنگاری کے متعلق صفحہ 76 پر لکھا ہوا موجود ہے ۔ ناشر المکتبۃ السلفیہ ۔
سوانح حیات مولوی غلام رسول غیرمقلدوہابی نامی کتاب میں ایک فارسی نظم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عشق کے متعلق تحریر کی گئی ہے صفحہ 160 ۔ اسی کتاب کے صفحہ 161 پر یہ تحریر کیا ہوا ہے
یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے عشق میں جل بل گیا ہے ۔ اب رحم فرمائیے ۔ (سوانح حیات غلام رسول غیر مقلد صفحہ 161)
اب یا نبی اور لفظ عشق جائز ہوگیا
طوالت کی وجہ سے اسی پر موقوف کیا جاتا ہے ورنہ ان وھابی دیوبندیوں کی کئی ایسی کتابیں ہیں جس میں لفظ عشق کو استعمال کیا گیا ہے ۔
عشق اور لفظ عاشق پہ فتوی لگانے والے وہابیو دیوبندیو اب اپنے علماء پر لگاؤ ؟
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ لفظ عشق غلط محبت کا نام نہیں ہے بلکہ جائز محبت کا نام ہے اور اس کا ذکر قرآن مجید میں فرط محبت سے تعبیر کیا گیا ہے اور حدیث میں عشقھا کا ذکر ہے اللہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سچا عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بنا دے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گستاخوں کو نیست و نابود کر دے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان بد مذہبوں سے بچائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عشق کو نعوذ بااللہ بازاری لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اللہ انہیں سچ جھوٹ حق و باطل پہچاننے اور ان میں تمیز کرنے کی توفیق دے ۔ اللہ عزوجل ہم سب مسلمانانِ اہل سنت و جماعت کو سچا عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بنائے تاکہ ہم دشمنان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ایسے ہی منہ توڑ جواب دیتے رہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment