Wednesday 13 October 2021

عمار بن یاسر اور باغی گروہ حصہ دوم

0 comments

 عمار بن یاسر اور باغی گروہ حصہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ کی مظلوم ترین شخصیت ہیں ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے اور آپ نے آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ بے مثال وفا کی تھی ۔ دشمنانِ اسلام نے آپ کی ذات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ در اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے متعلق پیشینگوئی کی تھی کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ یہ روایت حق ہے ۔ لیکن دشمنانِ اسلام کی طرف سے  اس حق میں بیسیوں جھوٹ ملائے جاتے ہیں ، پھر کہا جاتا ہے کہ سیدنا عمار کو سیدنا معاویہ کے گروہ نے قتل کیا اور وہ باغی گروہ تھا۔ وہ لوگ باغی کے لفظ پر بہت زیادہ زور دے کر یہ بھی باور کرواتے ہیں کہ باغی سے مراد اسلام سے باغی گروہ ہے ۔


ہمارے پاس موجود صحیح البخاری کے نسخہ میں 443 نمبر پر یہ روایت موجود ہے : وَيْحَ عَمَّارٍ ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ ۔

ترجمہ : عمار کےلیے خوش خبری ہو ، انہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ عمار ان کو جنت کی طرف بلائیں گے اور وہ عمار کو آگ کی طرف بلائیں گے ۔


اس روایت کے دو حصے ہیں ۔ پہلا حصہ یہ ہے : عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ 

دوسرا حصہ یہ ہے : عمار ان کو جنت کی طرف بلائیں گے اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلائیں گے ۔


اس کا پہلا حصہ جو ہے یہ تقریبا چھبیس صحابہ سے مروی ہے ۔ ان میں کچھ سندیں ضعیف ہیں کچھ صحیح ہیں۔  البتہ ان تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات میں ایک چیز کامن ہے ۔ کسی بھی روایت میں یہ الفاظ بیان نہیں ہوئے کہ : عمار ان کو جنت کی طرف بلائیں گے اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلائیں گے ۔

یہ حصہ صرف سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کی ایک سند میں ذکر ہوا ہے ۔ جس کے راوی خالد حذا ہیں اور وہ عکرمہ سے بیان کر رہے ہیں ۔ پھر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ابو ہشام اور ابونضرہ نامی ثقہ راویوں نے بھی بیان کی ہے ۔ مگر انہوں نے بھی یہ الفاظ بیان نہیں کیئے ۔

یعنی اس روایت کی بیسیوں سندیں ہیں، مگر کسی بھی سند میں دوسرا ٹکڑا بیان نہیں ہوا ۔ دوسرا ٹکڑا صرف ایک سند میں بیان ہوا ہے ۔ 


محققین کی رائے : مذکورہ بحث کے مطابق دوسرا حصہ اصول حدیث کے پیمانے پر پورا نہیں اترتا اسی لیے اسے ضعیف سمجھا جائے گا ۔ یہ بعض عرب محققین کی رائے ہے ۔ جن میں شیخ خالد الوصابی وغیرہ کا نام آتا ہے ۔

بعض دیگر محققین کی تحقیق میں یہ دو حصے ایک حدیث کے نہیں ہیں ، یہ دونوں الگ الگ روایات ہیں ، جو غلطی سے راوی نے ایک ہی روایت میں مکس کر دی ہیں۔ فقیر چشتی کا رجحان بھی دوسری رائے کی طرف ہے ۔ کیوں کہ قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے ۔ قرائن ملاحظہ ہوں : 


جہاں بھی یہ روایات بیان ہوئی ہیں ، صحیح یا ضعیف سند کے ساتھ ۔ الگ الگ ہی بیان ہوئی ہیں۔ ان کو ایک روایت کے طور پر کسی نے بھی بیان نہیں کیا ۔ 


سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے یہ روایت ڈائریکٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہیں سنی ، بلکہ اپنے بعض ساتھیوں سے سنی ہے ۔ صحيح مسلم 5192, مسند احمد : 10588 ۔ اسی طرح مسند البزار میں بھی یہ بات موجود ہے ۔


پھر سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والے دو راوی دوسرا ٹکڑا ذکر نہیں کر رہے صرف ایک راوی ذکر کر رہا ہے ۔


سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہی سے روایت کرنے والوں نے اس کا پس منظر الگ الگ بیان کیا ہے ۔


خالد الحذاء کی روایت کے پس منظر میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم مسجد بنا رہے تھے اور ہم ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے جب کہ عمار دو دو اینٹیں اٹھاتے تھے ۔ (صحیح البخاری : 428،چشتی)


جب کہ صحیح مسلم کی روایت میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت ہم خندق کھود رہے تھے جب رسول اللہ نے فرمایا : عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔


خود خالد نے بعض جگہ ان الفاظ کو بیان کیا بعض جگہ بیان نہیں کیا ۔ 


تو ہم ان دونوں احادیث میں تطبیق یوں دیتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجد نبوی کھودتے وقت سیدنا عمار کے ماضی کے حالات بیان کئے تھے کہ  "کفار عمار کو جہنم کی طرف بلا رہے تھے اور عمار ان کو جنت کی طرف بلا رہے تھے ۔"


جب کہ خندق کھودتے وقت ان کے متعلق صرف اتنی پیشینگوئی کی تھی کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا ۔


یہاں علم حدیث کی تفصیلات سے نا واقف شخص یہ سوال کھڑا کر سکتا ہے کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟ ہو سکتا ہے باقی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اور راویوں نے صرف ایک ٹکڑا بیان کرنے پر اکتفاء کیا ہو جب کہ ایک راوی نے دونوں ٹکڑے بیان کر دئیے ہوں ؟ ۔ تو اس سلسلے میں صرف اتنا یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ خارج میں ایسا ہونا ممکن نہیں ، کیا پچاسوں راویوں میں صرف ایک ہی راوی وہ الفاظ سنے ؟ 


پھر سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے دو الگ الگ پس منظر بیان ہوئے ہیں۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ روایت کسی ایک موقع پر بیان ہوئی اور دوسری جگہ کے بیان میں یا تو کسی راوی کو غلطی لگی ہے۔ یا پھر دوسری جگہ میں کوئی دوسری حدیث بیان ہوئی ہے۔ مگر راوی نے دونوں کو ملا دیا ہے ۔ 


اجمالا یوں کہہ لیجیے کہ یا تو دوسرا حصہ ضعیف ہے اور راوی کو خطا لگی ہے یا پھر دوسرا حصہ کوئی دوسری حدیث ہے ۔ جس کا الگ سے ایک پس منظر ہے ۔ ان دو رستوں کے سوا تیسرا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔ 


صحیح البخاری کا نسخہ جاتی اختلاف : بعض حضرات کے ذہن میں سوال پیدا ہو رہا ہوگا کہ لکھنے والے اچھے اہل سنت ہیں ، یہ تو بخاری کی روایت کو ہی ضعیف کرنے بیٹھ گئے ہیں ۔ تو یہ بتا دینا مناسب رہے گا کہ  دوسرا حصہ اصلا امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ذکر نہیں کیا ۔ اس کے دلائل ملاحظہ ہوں :


حافظ ابو الفتوح حمیدی نے امام بخاری کے قریبی زمانے ہی میں بخاری و مسلم کی روایات جمع کی تھیں، ان کی ایک کتاب ہے الجمع بین الصحیحین کے نام سے۔ اس میں آپ نے اس زیادت کا ذکر نہیں کیا ۔ آپ لکھتے ہیں کہ امام رحمة اللہ علیہ نے یہ دوسرا ٹکڑا اپنی بخاری میں ذکر نہیں کیا ۔


امام ابو نعیم الحداد نے صحیح البخاری کی مستخرج لکھی ، آپ لکھتے ہیں : ولم یذکر البخاری ہذہ الکلمة فیما اظن " میرا ماننا ہے کہ یہ کلمہ امام بخاری نے ذکر نہیں کیا ۔ " (مستخرج : ۴/ ۴٦٧)


امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امام بخاری رحمہ اللہ نے اصلا یہ ٹکڑا روایت میں ذکر نہیں کیا ۔ (دلائل النبوة : ۴/۵۴٨)


اسی طرح حافظ ذہبی رحمہ اللہ ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ قسطلانی رحمہ اللہ اور حافظ ابن رحمہ اللہ نے بھی یہی تحقیق پیش کی ہے کہ مذکورہ حصہ صحیح البخاری میں امام رحمہ اللہ نہیں لائے ۔ حافظ ابن حجر کا ماننا ہے کہ امام بخاری نے یہ ٹکڑا جان بوجھ کر چھوڑا ہے ۔ کیوں کہ آپ جانتے تھے کہ یہ ٹکڑا ضعیف ہے ۔


سوال یہ ہے کہ جب امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ٹکڑا بخاری میں ذکر نہیں کیا، تو پھر یہ موجودہ نسخے میں کہاں سے آگیا ؟

اس کے جواب میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ اصلا حاشئے میں کسی ناقل نے درج کیا تھا، جو بعد میں کتاب کا حصہ بن گیا ۔ 


 نسخوں کا اختلاف اور صحیح البخاری کی حفاظت : اب عام آدمی کے ذہن میں فطرتا ایک سوال پیدا ہوگا کہ صحیح البخاری تو ساری محفوظ ہے پھر اس میں ادراج کہاں سے آگیا ؟  یہ سوال عام ذہن پیدا کر سکتا ہے وگرنہ طلبائے علم بخوبی جانتے ہیں کہ صحیح البخاری میں نسخوں کا اختلاف رہا ہے ۔ اس پر بہت ساری کتابیں بھی لکھی گئی ہیں ۔ شاملہ میں ایک کتاب روایات صحیح البخاری ونسخہ کے نام سے موجود ہے ۔ عربی جاننے والے احباب اس سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔ ہم یہاں صرف اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہیں گے کہ نسخوں کے اختلاف پر کامل نظر رکھنا پھر امام رحمہ اللہ کے شاگردوں کے نسخوں کو تحقیق میں لانا بھی  ائمہ حدیث کا امتیاز ہے۔ وہ کسی شخصیت کے رعب میں آئے بغیر ہر چیز کی مکمل تحقیق کرتے ہیں۔ تحقیق کے بعد ہی انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بخاری کی تمام روایات صحیح ہیں، فلاں روایت فلاں الفاظ امام بخاری کے شاگردوں نے ذکر کئے ہیں، فلاں نہیں کئے فلاں لفظوں میں اختلاف کیا ہے۔ تو یہ علم کی گھاٹی ہے۔ جس میں اترنے والے بخوبی سمجھ جاتے ہیں کہ محدثین حدیث رسول کے معاملے میں کس قدر محتاط واقع ہوئے تھے ۔


مذکورہ بحث سے ہم نے یہ جانا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدنا عمار سے ایک پیشینگوئی کی تھی کہ آپ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ جنت جہنم والی پیشینگوئی نہیں کی تھی ، یہ راوی سے غلطی ہوگئی ہے ۔


اب ہم سمجھیں گے کہ باغی سے مراد کیا ہے ؟


بعض لوگ اس کا معنی یہ کرتے ہیں کہ باغی سے مراد ہے اسلام چھوڑ دینے والا گروہ، تو جو لوگ یہ مراد لیتے ہیں وہ قطعی خطا کار ہیں ۔ 


کیوں کہ کوئی بھی شخص یا گروہ اسلام سے صرف اس وقت خارج ہوتا ہے جب وہ یا تو اسلام کا ہی انکار کردے یا نبی کے مقابلے میں صف آراء ہو جائے ۔ کسی خلیفہ یا بادشاہ کے خلاف لڑنا گو ممنوع سہی ، مگر کسی بھی بنیاد پر اسے کفریہ فعل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ایسی بات کرنا اسلام کے بنیادی قوانین کے خلاف ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ترجمہ : اگر مومنوں کے دو گروہ لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کروائیں اگر ان میں سے ایک بغاوت کر دے تو اس سے اس وقت تک لڑا جائے جب تک وہ اللہ کے معاملے کی طرف لوٹ نہیں آتا ۔


قرآن کے مطابق بغاوت کرنے والا مومن ہی رہتا ہے کافر نہیں ہوجاتا ۔


سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو کس نے قتل کیا ؟


اب تیسرے سوال کی طرف آتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشینگوئی کس صورت میں پوری ہوئی ۔ سیدنا عمار کو کس گروہ نے شہید کیا ۔ اس سلسلے میں تین  آراء ہیں ۔


پہلی رائے تو یہ ہے کہ آپ جنگ صفین سے پہلے ہی شہید ہو چکے تھے ۔


دوسری رائے کے مطابق آپ کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ نے شہید کیا ۔


تیسری رائے والوں کا ماننا ہے کہ آپ اسی گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے جنہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا ۔


پہلی رائے تو قطعی غلط ہے ۔ دوسری اور تیسری رائے والوں کے پاس اپنے اپنے دلائل موجود ہیں ۔


جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ نے قتل کیا ۔ ان کی دلیل دو روایات ہیں :


ایک تو وہ جس میں ہے کہ عمار کو قتل کرنے والا جہنم میں جائے گا ۔ یہ روایت ضعیف ہے ۔


البتہ بعض علماء کے نزدیک اس روایت کی ایک سند جو طبقات الکبری : میں ہے ۔  اس حد تک صحیح ہے کہ اس سے سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ کا قتل کا دعوی کرنا ثابت ہوتا ہے ۔ مگر ہم نے جب مزید تفصیلات دیکھیں تو معلوم ہوا کہ اس کے راوی امام حماد بن سلمہ مختلط ہیں ۔ اور ان کی دو حیثیتیں ہیں ۔ آپ بعض اساتذہ سے حدیث بیان کرنے میں خطا کرتے ہیں اور بعض شاگردوں نے آپ سے بعد از اختلاط سنا ہے ۔ تو یہ روایت آپ نے کلثوم بن جبر سے بیان کی ہے اور کلثوم بن جبر آپ کے چھوٹے شیوخ میں سے ہیں ۔ یعنی ان کی روایات انتہائی قلیل ہیں چار پانچ ہوں گی ۔

 

امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :   

 حماد بن سلمة إذا روى عن الصغار أخطأ ۔

" حماد بن سلمہ جب صغار سے روایت کرتے ہیں تو خطا کرتے ہیں ۔ " روایة الاثرم ۔


لہذا سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ کے قاتل ہونے پر کوئی دلیل بھی بسند صحیح ثابت نہیں ہوتی ۔


البتہ مسند احمد کی ایک روایت میں دو آدمی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں دو آدمی آتے ہیں ، جو خود کو عمار کا قاتل کہہ رہے ہوتے ہیں ۔ ایک کہتا ہے میں نے ان کو قتل کیا دوسرا کہتا ہے میں نے قتل کیا ۔ اس پہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں , آپ خود کو ہی خوش خبری دے لیجیے , میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ، آپ پھر ہمارے ساتھ کیوں ہیں ؟  تو جواب دیتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا تھا جب تک زندہ ہو اپنے باپ کی اطاعت کرتے رہ جاو، اسی لئے میں آپ کے ساتھ ہوں،۔البتہ لڑتا نہیں ہوں ۔" (مسند احمد : 6538)

اس کی سند حسن درجے کی ہے ۔


اسی طرح ایک دوسری روایت ہے کہ : "عمرو بن حزم سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہنے لگے کہ عمار کو قتل کر دیا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔  یہی بات سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے تو انہیں قتل نہیں کیا ۔ انہیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے قتل کیا ہے ۔ وہ انہیں ہمارے پاس لائے اور ہماری تلواروں اور نیزوں کے آگے ڈال دیا" ۔ (مسند احمد : 17778)


اس کی سند بھی بظاہر صحیح بنتی ہے ۔ لیکن امام عبد الرزاق بن ہمام کے متعلق ابن عدی رحمة اللہ نے علیہ یہ جرح کر رکھی ہے کہ وہ فضائل اہل بیت رضی اللہ عنہم اور دوسروں کے مثالب پر مبنی منکر روایات بیان کرتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی شاید ان میں سے ایک ہو،۔اگر ان میں سے نہیں ہے تو پھر یہ صحیح ہوگی ۔


بہر صورت ان دونوں روایات میں دو موضوع بیان ہوئے ہیں ۔


پہلی میں دو بندے باہم لڑتے ہیں ایک کہتا ہے میں نے عمار کو قتل کیا دوسرا کہتا ہے میں نے عمار کو قتل کیا تو وہاں سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے یہ روایت سناتے ہیں ۔


دوسری روایت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی ہے جب وہ سیدنا عمار کی شہادت کی خبر سنتے ہیں تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہیں ۔ پھر آکر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے عرض کرتے ہیں ، تو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کا قتل ہونا وہ بھی پسند نہیں کرتے ۔ بلکہ اس پر یہ کمنٹ دیتے ہیں کہ عمار کو علی اور ان کے ساتھیوں نے شہید کیا ۔ سیدنا معاویہ کے کمنٹ کی طرف بعد میں آتے ہیں ۔ یہاں ایک حقیقت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے ۔ 


ان دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے قریبی ساتھی بھی سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت پر راضی نہیں ہیں ۔


 علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : ثم ( إن عمارا تقتله الفئة الباغية ) ليس نصا في أن هذا اللفظ لمعاوية وأصحابه ؛ بل يمكن أنه أريد به تلك العصابة التي حملت عليه حتى قتلته ، وهي طائفة من العسكر ، ومن رضي بقتل عمار كان حكمه حكمها . ومن المعلوم أنه كان في المعسكر من لم يرض بقتل عمار : كعبد الله بن عمرو بن العاص وغيره ؛ بل كل الناس كانوا منكرين لقتل عمار ، حتى معاوية ، وعمرو " 

ترجمہ : عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔ یہ روایت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے باغی ہونے پر نص نہیں ہے۔ بلکہ ممکن ہے وہی گروہ جس نے ان پر حملہ کیا ہو اور پھر ان قتل کر دیا ہو, یہ لشکر کا کوئی مخصوص گروہ ہوگا۔ جو سیدنا عمار کے قتل پر خوش ہوا اس کا حکم بھی باغیوں والا ہی ہے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس لشکر میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو سیدنا عمار کے قتل پر خوش نہیں ہیں ۔ جیسے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ہیں۔ بلکہ سیدنا معاویہ کا پورا لشکر ہی اس چیز کا ناپسند کرتا تھا۔ یہاں تک کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بھی خوش نہیں تھے ۔(مجموع الفتاوى : 35 / 77)


اب جب کہ ہمیں معلوم ہوچکا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے قریبی ساتھی اور ان کا گروہ بھی سیدنا عمار کے قتل سے انکاری تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ باغیوں کے زمرے میں نہیں آتے ۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ کیوں کہا کہ عمار کو علی اور ان کے ساتھیوں نے قتل کیا ہے ؟ ۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس کے جواب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا پھر تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل مسلمان ہی ہوئے ، جو انہیں کفار کی تلواروں کے سامنے لے گئے تھے ۔ لیکن سیدنا علی رضی اللہعنہ کی طرف سے ایسا کوئی جواب دینا ثابت نہیں ہے بلکہ یہ موضوع من گھڑت بات ہے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اسلام کے مزاج سے ناشنا کسی شخص نے گھڑ لی ہے ۔ اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے ۔ ویسے بھی کفار سے لڑائی کو مسلمان سے لڑائی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ پھر بھی بظاہر لگتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے انتہائی بعید قسم کی تاویل کی ہے ۔ لیکن جب ہم اصل صورت احوال کی طرف دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم تو جنگ کےلیے گئے ہی نہیں ، نہ ہم جنگ چاہتے تھے ہم تو صرف قاتلین عثمان کا قصاص چاہتے تھے جو ہمارا شرعی حق تھا ۔ لڑنے کے لئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ خود آئے ہیں ۔ ہم تھوڑا ہی گئے ہیں ۔ تو اسی لیے کہہ دیا کہ عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا ہمارا مقصود نہیں تھا ، البتہ اگر ہمارے گروہ کی طرف سے ان کی شہادت ہوگئی ہے تو اس میں قصور انہیں لانے والوں کا ہے ۔ یہاں ایک بات ملحوظ خاطر رہے کہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مقدمہ غلط نہیں کر رہے ۔ بلکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی گفتگو کا مفہوم واضح کر رہے ہیں ۔ 


اتنا تو طے ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا گروہ سیدنا عمار کا قاتل نہیں ، اتنا بھی معلوم ہوگیا کہ سیدنا عمار کا کوئی قاتل بسند صحیح نامی نیٹ نہیں ہو سکا ۔ اب دو پوائنٹ باقی رہ گئے ہیں :


یا تو وہ مجہول قاتل سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہوجانے والے نواصب میں سے تھا ۔ کیوں کہ وہ فتنے کا دور تھا اور منافقین نواصب و روافض دونوں گروہوں میں اپنے مفادات کے حصول کےلیے شامل ہوگئے تھے ۔ جیسے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل اشتر نخعی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کا سپہ سالار تک بن گیا تھا ۔ تو اس سے نہ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذات پر حرف آتا ہے اور نہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے سچے ساتھیوں کی ذات پر ۔


یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود کسی خارجی نے ہی شہید کردیا ہو ، اور پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھی بن کر ان سے انعام وصول کرنے چلا گیا ہو ۔ کیوں کہ قرآن نے منافقین کی ایک نشانی یہ بھی بتائی ہے کہ وہ مومنوں کے پاس ہوتے ہیں تو انہیں کہتے ہیں ہم تمہارے ہیں اور پھر جب اپنے شیطانوں کے ساتھ جاتے ہیں تو انہیں کہتے ہیں ہم تو مذاق کر رہے تھے ۔ ایسا ہی ایک کیس جنگ جمل میں پیش آچکا تھا ۔ جب ایک شخص سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا سر لے کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا : ابن صفیہ کا قاتل آگ میں جائے گا ۔ (مسند احمد : 799 وسندہ صحیح)


یہاں کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں :


سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مخالف لشکر میں ہیں اور روافض یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ جنگ حق و باطل کا معرکہ تھا پھر حق و باطل کے معرکے میں باطل کا سپاہی مارنے والے کو جنت کی بشارت دی جائے گی یا جہنم کی ؟ یقینا جنت کی بشارت دی جائے گی۔ مگر سیدنا علی اسے جہنم کی وعید سنا رہے ہیں ۔ کیوں ؟


کیوں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس جنگ کو حق و باطل کا معرکہ نہیں سمجھتے ، بلکہ فتنے کی لڑائی سمجھتے ہیں ، جس میں دونوں فریق اپنے تئیں حق کےلیے لڑ رہے ہیں ۔  بعینہ یہی صورت احوال سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت پر پیش آئی کہ سچے لوگ اس پر خوش نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اس کا انکار کیا ۔ کیوں کہ وہ قاتلین عثمان سے قصاص لینے کےلیے جنگ کر رہے تھے نہ کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کےلیے ۔


دوسرا سوال یہ پیدا ہوگا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اتنی ہی پریشانی تھی اور آپ اس جنگ سے پہلے فوت ہوجانے کی دعائیں کر رہے تھے تو پھر جنگ میں جانے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟

جواب اس سوال کا یہ ہے کہ اسلام میں حقوق اللہ کے بعد سب سے اولین فریضہ نصب امام کا ہے ۔ یعنی کسی نہ کسی شخص کا خلیفہ ہونا بہت ضروری ہے ۔ اگر کوئی بھی خلیفہ نہ ہو تو زمین فساد سے بھر جائے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ آنے والے حالات کا تدارک کر چکے تھے اور انہیں دو پریشانیوں میں سے ایک چوائس کرنا تھی ۔ یا تو خلافت قائم رکھتے اور خلافت کو قائم کرنے کےلیے سخت اقدامات کرتے ۔ اس سے نقصان تو متوقع تھا مگر وہ نقصان بہر حال کم تھا ۔

دوسرا آپشن خلافت چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنے کا تھا ۔ اس آپشن کو استعمال کرنے کا مطلب ایک تو یہ تھا کہ اللہ کا فرض ٹوٹ جاتا ۔ پھر باغی مدینے میں مزید حملے کرتے ، جس سے ایسی خانہ جنگی چھڑتی کہ پھر کبھی ختم نہ ہوتی ۔ امت رسول تباہ ہو کر رہ جاتی ۔ دوسری طرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا و سیدنا زبیر و طلحہ رضی اللہعنہما کا مقدمہ بھی حالات کے مطابق درست تھا ۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ خلیفہ وقت کے قاتل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں شامل ہیں ، اشتر نخعی جیسا بدبخت سپہ سالار بن گیا ہے ۔ تو ان کے دلوں میں اس حوالے سے خدشات پیدا ہوئے ۔ انہیں خدشات کی وجہ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو گھر سے نکلنا پڑا ، سیدنا عثمان کی شہادت اسلامی تاریخ کا ایسا گہرا گھاٶ تھا جس نے امت کا کلیجہ ہلا دیا تھا ۔ یہیں سے فتنہ برپا ہوا تھا اور فتنہ ہی ایسی چیز ہے جس سے پناہ مانگی جاتی ہے ۔ لوگ کہہ دیتے ہیں جی وہ بیعت کرنے کے بعد بھی تو مطالبات رکھ سکتے تھے ۔ لیکن اگر ان کے اپنے والد کے قاتل خلیفہ کی فوج میں موجود ہوتے تو پھر ہم ان سے پوچھتے کہ میاں کس بھاٶ بکتی ہے ۔ بھائی فتنہ اسی چیز کا نام ہے ۔ جب بندہ فیصلہ لینے کی صلاحیت تک سے محروم ہو جاتا ہے ۔ اسی لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بڑی اور بھاری اکثریت ان جنگوں میں شامل نہیں ہوئی ۔ (السنہ لابی بکر الخلال : رقم 728، وسندہ صحیح)


 اگر یہ جنگیں حق و باطل کا معرکہ ہوتیں تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما گھر میں کبھی نہ بیٹھتے ۔ کئی صحابہ بستیوں کو نہ نکلتے بلکہ پہلی صفوں میں آکر لڑتے ۔ سیدنا علی رضی اللہعنہ نے ایک صحابی سے اس جنگ میں شمولیت کا کہا تو انکار کر گئے ۔ ایک صحابی سیدنا علی کے ساتھی بن کر لڑنے جا رہے تھے تو دوسرے صحابی نے منع کردیا کہ بھائی نہ جاو، آپ بخاری کا وہ چیٹر پڑھیں، آپ کو معلوم ہو کہ صحابہ کس طرح اس جنگ سے بھاگتے تھے۔ وہ صحابہ جو کسی لمحے جنگ سے گھبرانے والے نہ ہوں، وہ اگر کسی موقع پر گھروں میں بیٹھ رہتے ہیں تو مطلب صاف ہے۔ وہ ان جنگوں کو حق و باطل کا معرکہ نہیں سمجھتے بلکہ فتنے کی لڑائی سمجھتے ہیں۔ حتی کہ خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ و سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما بھی اس کو حق و باطل کا معرکہ قرار نہیں دیتی ہیں۔ البتہ اماں اتنا ضرور کہا کرتی تھی کہ " فتنے کے دور میں میں دعا کیا کرتی تھی کہ اللہ میری عمر بھی معاویہ کو لگا دے ۔ " (الطبقات لابی عروبہ حرانی، ص41، وسندہ صحیح)


کیوں کہ وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لینے کے لئے کھڑے تھے ۔ 


المختصر لڑائی دو بنیادی باتوں کے درمیان تھی ۔ ایک گروہ قصاص کو ضروری سمجھتا تھا دوسرا گروہ نصب امام کو ضروری سمجھتا تھا ۔


دشمنانِ اسلام یہاں ایک اور وار کرتے ہیں اور کہتے ہیں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ قصاص لینے کےلیے نہیں بلکہ حکومت لینے کےلیے لڑ رہے تھے ۔ اصولی طور پر تو یہ دل کا معاملہ ہے اور دلوں کے حالات اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ اس لیے اس طرح کا حکم لگانے والا قانونی طور پر جھوٹا سمجھا جائے گا ۔ پھر صحابہ کا معاملہ بھی الگ ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں کو تو رب نے صیقل کیا تھا ۔ کچھ قرائن ذکر کرتا ہوں :   قرآن مجید نے ایک اصولی قاعدہ بیان کیا ہے ۔ 


ولکن اللہ حبب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان ۔ " اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کر دیا ہے اور تمہارے دلوں میں کفر فسق اور نافرمانی کو ناپسندیدہ بنا دیا ہے۔ "


اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحابہ معصوم ہیں بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ گناہ کو پسند نہیں کرتے اگر گناہ ہوجائے تو پھر تائب ہو جاتے ہیں ۔ اسی لیے ہم دور صحابہ کے جتنے واقعات دیکھتے ہیں وہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین گناہ کے بعد نادم ہو کر توبہ کےلیے آتے ہیں ۔ زنا ہوگیا تو خود کو سزا کےلیے پیش کردیا ، صحابہ کے جانثاری کے تمام واقعات کے پیچھے مالک کا یہ کرم ہے کہ اس نے صحابہ کے دلوں کو صیقل کردیا ہے ۔


سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مل کر لڑنے والوں میں بدر و احد و حدیبیہ کے لوگ بھی موجود تھے ۔ بیعت شجرہ والے بھی ۔ جن کو مالک نے قرآن میں کہہ دیا ہے کہ میں نے ان کے دلوں کو دیکھا پھر ان سے رضا کا اعلان کیا ۔


حدیث عمار ہی میں ان جنگوں کو فتنے کی جنگیں کہا گیا ہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طرز عمل بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ ان جنگوں میں صحابہ کرام جو تھے وہ دلوں سے صاف تھے بس شبہ کی بنا پر لڑ رہے تھے ۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب خوارج کے متعلق پیشینگوئیاں کیں تو ان سے لڑنے کا حکم دیا ، ان سے لڑنے والوں کو خصوصی انعامات کا حق دار قرار دیا ۔ ان کو روئے زمین کے بدترین لوگ کہا اور ان سے لڑنے کا حکم دیا۔


اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کے متعلق پیشینگوئی کی تو انہیں واضح لفظوں میں منافق قرار دیا ۔ لیکن جب مسلمانوں کے ان دو گروہوں کے متعلق پیشینگوئی فرمائی تو ان کی باہمی جنگ کو بالکل بھی پسند نہیں کیا ۔ بلکہ اپنے نواسے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اس لیے سردار قرار دے دیا کہ اللہ ان کے ہاتھوں دو مسلمان گروہوں کی صلح کروائے گا ۔ (صحیح البخاری : 2704،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ عظیم الشان فرمان دو قسم کے کانسیپٹ کلئیر کر دیتی ہے ۔ الف ۔ دونوں گروہ مسلمان تھے ۔

ؑب ۔ دونوں گروہوں کی لڑائی شبہ اور غلط فہمی کی وجہ سے برپا ہوئی تھی ، کیوں کہ اسلام کفار و منافقین سے صلح کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا اور منافقین کے ہاتھوں پر بیعت کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرتا ۔


پھر قرآن نے حکم دیا ہے کہ باغی سے اس وقت تک لڑیں جب تک وہ اللہ کے امر کی طرف واپس نہیں آجاتا ۔ اب جب سیدنا امام حسن نے اپنی حکومت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کے حوالے کر دی تو سوال اٹھے گا کہ کیا اپنی حکومت باغی کے حوالے کرنا جائز ہے ؟ بالکل نہیں، یعنی سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ ان کو باغی نہیں سمجھ رہے تھے بلکہ ایک شبہ غلط فہمی اور تاویل کی لڑائی ہی سمجھتے تھے ۔ یقینا اگر ان کے دلوں میں کھوٹ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ایسی صلح کی حوصلہ افزائی ہر گز نہ کرتے جو کسی ایسے شخص کی بادشاہت پر منتج ہو رہی ہو ، جس کے دل میں کھوٹ تھا اور وہ اس وجہ سے لڑ رہا تھا ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب خوارج کی پیشینگوئی کی تو فرمایا جب یہ گروہ نکلے گا تو : تقتلہ اولی الطائفتین بالحق ۔

" اس سے حق کے قریب ترین گروہ لڑائی کرے گا ۔" (صحیح مسلم : 2458)


یہ اسم تفضیل ہے ۔ یہاں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ دونوں کے گروہوں کو حق پر کہا گیا ہے ۔ البتہ سیدنا علی رضی اللہعنہ کے گروہ کو حق کے زیادہ قریب کہا ہے اور ہمیں اس پر ایمان ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ۔


بعد ازاں صحابہ کا طرز عمل جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہا اور آپ کی حکومت جس خوش اسلوبی کے ساتھ چلتی رہی ، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دل صاف تھا کیوں کہ مومنوں کی رائے عامہ کسی شخص سے محبت کرتی ہو تو اللہ کے یہاں وہی اس کی گواہی ہوتی ہے ۔ اور کامیابی کے ساتھ حکومت چلانا اسلام کو زیادہ سے زیادہ علاقوں میں پھیلانا یہ سب کارنامے بتاتے ہیں کہ بہر صورت وہ حکومت کے بھوکے نہیں تھے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قربت بہت ملی ہے اور کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قربت کسی منافق کو نہیں مل سکتی اور جس مومن کو آپ کی قربت ملتی ہے اس کے ایمان کی کیفیت کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے ۔


متواتر احادیث میں اس دور کو خیر القرون قرار دیا گیا ہے تو اگر خیر القرون کے صحابہ کرام رام رضی اللہ عنہم کے دلوں پر بھی شک کرنا ہے تو بعد میں کوئی بھی مسلمان نہیں بچتا ۔ یہ چند ایک قرائن صرف اس لیے ذکر کر دئیے ہیں تاکہ دل مطمئن ہوجائے ، وگرنہ ان میں سے کوئی قرینہ بھی نہ ہوتا تب بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی نیت پر شک کرنے کی گنجائش نہیں تھی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔