اہلسنت میں انتشار و افتراق کیوں ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اِس وقت اہلسنت و جماعت کے درمیان کافی اختلاف و انتشار برپا ہے کہیں قادری ، رضوی آپس میں متصادم ہیں تو کہیں رضوی اشرفی گتھم گتھا کہیں گولڑوی ، رضوی آپس میں معرکہ آرائی کرتے دِکھ رہے ہیں کبھی مداری اور رضوی حضرات کے درمیان مکّا بازی ہو رہی ہوتی ہے تو کبھی دعوت اسلامی سے رضوی حضرات گرما گرمی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مشاہدہ یہ بھی ہے کہ رضوی حضرات اشرفی ، صابری ، وارثی ، جلالی وغیرہ وغیرہ سبھی سے لڑتے جھگڑتے ، مباحثہ و مبالغہ کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، لہٰذا مذکورہ باتوں کو نہ ٹالتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور آناً فاناً کسی ایسی تدبیر کی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعہ کل اہلسُنَّت و جماعت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی نئی صبح دیکھنے کو مل سکے غور طلب بات ہے کہ کہیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہم سے کوئی چوک کوئی تغافل تو نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ہماری ہی جماعت کے لوگ ہم سے دور ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں قابل توجہ بات یہ ہے کہ آخر وہ کون سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے اہلسنت میں درار پیدا ہو رہی ہے ؟ دوستو جب تک ان مسائل کا سراغ لگا کر ان کو حل نہیں کر لیا جاتا تب تک اہلسنت و جماعت میں اتحاد و اتفاق پیدا نہیں ہو سکتا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے جنہوں نے تمام خانقاہوں کی نمائندگی کرتے ہوئے معمولات اہلسنت کو کفر و شرک بتانے والوں سے لڑائی لڑی سنیت کے تحفظ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور اسی حال میں داعئی اجل کو لبّیک کہا لیکن دوستو! آج بعض خانقاہی حضرات اور سنی عوام کو کیا ہو گیا ہے جو خانوادہ اعلیٰ حضرت سے بغض و حسد کا شکار ہو گئے کہیں ان کی شہرت و مقبولیت سے تو حسد نہیں ہو گیا ہے ؟ آج رضوی حضرات دیگر سلسلے کے حضرات کی آنکھوں میں چبھ رہے ہیں چشتی، نقشبندی،سہروردی، رفاعی اس چکر میں ہے کہ ہمارے سلسلہ کا نعرہ لگے اشرفی اور صابری کو اس غم نے کمزور کر دیا کہ ہمارا سلسلہ ہندوستان میں قدیم ہے اس لیے ہمارا نعرہ لگے دوستوں!! جس دن ہم نے ان اختلافات کو نظر انداز کر کے یہ ٹھان لیا کہ چشتی قادری بھی ہمارے ہیں صابری اشرفی بھی ہمارے ہیں وارثی، نقشبندی، سہروردی، برکاتی رفاعی بھی ہمارے ہیں خلاصہ یہ کہ تمام سنّی خانقاہوں اور سلسلے کے علماء کرام اور عوام سب ہمارے ہی ہیں،ان شاء اللہ تعالٰی اسی دن سے اہلسنت و جماعت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی فضاء ہموار ہونا شروع ہو جائے گی ۔
جب کسی قوم کا عہد زوال شروع ہوتا ہے تو وہ آپسی اختلا ف و انتشار اور مخاصمت ومعاندت کا خوگر ہو جاتی ہے۔باہمی اخوت و محبت کی فضا کو مکدر کر کے اپنی ہی قوم کے ساتھ بر سر پیکار ہو جاتی ہے۔ ان دنوں وطن عزیز میں کچھ ایسا ہی حال جماعت اہل سنت کا ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے ہماری جماعت میں اختلاف وانتشار کی جو تشویش ناک صورت حال پیدا ہو گئی ہے اور اس کا گراف جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے، وہ ہماری اجتماعی قوت کوپارہ پارہ کر دینے کے لیے کا فی ہے۔پوری جماعت ٹکڑیوں او رریوڑوں میں تقسیم ہو تی جارہی ہے۔عوام تو عوام،خواص بھی جماعتی مفادات سے نا آشنا ہوتے جارہے ہیں۔نفع ِعاجل اور شہرت وخود نمائی کے چکر میں وہ کسی ایسے عمل کے لیے تیار نہیں جس میں پو ری قوم کی عزت و افتخار کا ساماں ہو۔
بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، اہل سنت و جماعت کی ماضی قریب کی تاریخ پر ہی نظر ڈالیں تو ہمیں وہ زرّین دور بھی نظر آتا ہے۔ جب اتحاد واتفاق کا بول بالا تھا۔ ہمارے علما و مشائخ باہم شیرو شکر تھے۔مشربی تعصبات سے بالا تر ہوکرایک دوسرے کی عظمت و رفعت کا اعتراف کرتے، ایک دوسرے کا ادب و احترام بجا لاتے۔یہ قد سی صفات شخصیتیں دینی و مذہبی کاموں میں ایک دوسرے کی دست وبازو ہو تیں۔محبت و مودت کی یہ پاکیزہ فضا اس لیے قائم نہیں تھی کہ اس زمانے میں مسائل پیدا نہیں ہواکر تے تھے، یا خانقاہوں، اداروں اور تنظیموں کی تعداد بہت کم تھی۔ بلکہ اس دور میں بھی بڑے اہم مسائل پیدا ہوئے۔ فکری اور نظریاتی اختلافات بھی رونما ہوئے۔خانقاہیں اور ادارے بھی قائم تھے۔ لیکن ان تمام چیزوں کے ساتھ ان نفوس قدسیہ کے دلوں میں خدا کا خوف موج زن تھا۔ وہ خلوص وللہیت کے پیکر بھی تھے۔وہ ہردم دین کی سر بلندی کے لیے کوشاں رہتے۔وہ دینی و مذہبی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے۔ ان کا کوئی بھی عمل اپنی انا کی تسکین کے لیے نہیں ہوتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے مسائل نہایت آسانی کے ساتھ حل ہو جاتے۔کسی بھی اختلاف کو پنپنے کا موقع نہیں مل پا تا۔آپسی اتحاد و اتفاق بہر حال باقی رہتا۔لیکن آج کی صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے۔ اخلاص کی جگہ انا کی ہوس نے لے لی ہے۔ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بڑا سے بڑا دینی و جماعتی نقصان بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر لیا جا تا ہے۔اختلافات کو ختم کر نے کے بجاے ایک خود غرض طبقہ انہیں مسلسل ہوا دے رہا ہے۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
جماعت اہل سنت میں اختلاف و انتشار کا جو سلسلہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اس کا ایک اہم اور بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت کسی ایسی مضبوط قیادت پر متفق نہیں ہو سکی ہے جسے مختلف فیہ اور متنا زع مسا ئل میں حکم بنا یا جا سکے۔جس کے فیصلے پر عمل در آمد ہر دو فریق اپنے لیے لازم و ضروری سمجھتا ہوں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے بعد اسلا میان ہند کے لیے مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمۃ کی ذات مرجع عوام وخواص تھی۔ان کا ہر حکم فیصلے کی حیثیت رکھتا تھا۔متنازع مسائل میں آپ کے فیصلے کو سبھی بسر و چشم قبول کیا کرتے اور آپ کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو تا تھا۔افسوس کہ آپ کے وصال کے بعدجماعت کا شیرازہ اس طر ح بکھرا کہ پھر کسی شخصیت کی مرجعیت پر پوری جماعت متفق نہیں ہو سکی۔ ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ ان کے بعد جماعت میں کوئی ایسی شخصیت نہیں رہی جو مسلمانوں کی دینی قیادت کا فریضہ انجام دے سکے ۔ اللہ کے فضل سے آج بھی اپنی جماعت میں ایسی شخصیتیں موجود ہیں جو جماعتی مسائل سے نمٹ کر اپنے دینی و مذہبی فرائض بخوبی انجام دے سکتے ہیں ۔ بلکہ اس صورت حال کا اصل سبب یہ ہے کہ اب ہمارے دلوں میں دینی مفادات کی اہمیت نہیں رہ گئی۔ ہم دین ومذہب کے نام پر صرف اس لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکتے کہ اس میں ہمارے بہت سارے دنیا وی مفادات کا خون ہوگا۔ہما ری شخصیت نمایاں نہیں ہو سکے گی،اور ہم دنیا وی جاہ و جلال کے حصول سے قا صر رہ جائیں گے ۔ یقینا اسی طرز فکرکی بنیاد پر جماعتی اتحاد واتفاق کی راہیں مسدود ہو تی جارہی ہیں ۔ خلوص و للہیت کے فقدان نے ہماری انا کی آگ کو شعلہ جوّالہ بنا دیا ہے جس کی لپٹ سے ہما رے دینی مفادات خاکستر ہو ئے جا رہے ہیں ۔ (چشتی)
ادھر ایک دہائی کے اندر ہما ری جماعت میں شدت پسندو ں کا ایک ایسا طبقہ پر وان چڑھا ہے، جس نے آپسی اتحاد واتفاق کو پارہ پارہ کر نے میں سب سے اہم کردار اداکیا ہے۔علم ودانش اور فکر و تدبر سے نا آشنا یہ طبقہ تحقیق و تفتیش اور اصلاح کی سعی کے بغیر ہی کسی شخصیت کو جماعت سے خارج قرار دینے میں ذرا بھی دریغ نہیں کرتا۔ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اہل سنت کا خار جہ رجسٹر ان دنوں ان ہی حضرات کے قبضے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ آئے دن اہل سنت کی کسی نہ کسی شخصیت، تنظیم اور ادرے کو جماعت کی فہرست سے خارج کرتی نظر آتی ہے۔ستم بالاے ستم یہ کہ وہ اپنی یہ نادانیاں دوسروں کو بھی تسلیم کرا نے کے درپے رہتے ہیں اور عدم اتفاق کی صورت ان کی سنیت بھی اس طبقے کے نزدیک مشکوک ہو جا تی ہے۔کسی کے لیے صلح کلیت کا حکم لگادینا گویا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔’بائیکاٹ‘کی اسلامی سزاکو ان لوگوں نے مذاق بنا دیا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اختلاف انتشار کا یہ عمل ما ضی قریب کی ایک ایسی شخصیت کے نام پرا نجام دیا جا رہا ہے، جو بر صغیر میں اتحاد اہل سنت کے سب سے بڑے علم بردار تھے۔اس طبقے کی یہ سر گرمیاں جماعتی مفادات کے حق میں حد درجہ نقصان دہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان افراد کو صراط مستقیم پر گام زن فر مائے آمین ۔
ان دنوں بر صغیر میں گمراہ اور باطل فرقوں کی سر گرمیاں عروج پر ہیں۔ سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے معتقدات و مسلمات کے خلاف باطل افکار و نظریات کی اشاعت پر پو ری توانائی صرف کی جا رہی ہے۔ باطل فرقے اپنے گمراہ کن نظریات کی اشاعت کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال بھی بڑی مہارت سے کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے نئی نسل کے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت ان فرقوں کے دام فریب میں پھنستی جا رہی ہے۔دیوبندی، وہابی،قادیانی، جماعت اسلامی، نیچری اور نہ جانے کتنے فرقے ہیں جن کا واحد نشانہ اہل سنت وجماعت ہے۔ان فرقوں کی ساری توانائی اسی جماعت حق کے خلاف صرف ہو رہی ہے۔ایسے حا لات میں ان فرقوں کی سرکوبی اورسواداعظم اہل سنت وجما عت کے معتقدات کے تحفظ کے لیے اتحاد اہل سنت کتنا ضروری ہو گیا ہے، بیان کر نے کی ضرورت نہیں ۔
رئیس التحریر علامہ یسین اختر مصباحی کے بقول : وقت کا شدید مطالبہ ہے کہ متعدد غیر منظم سنی حلقے اپنے مسائل حل کر نے اور مخالفین کا مقابلہ کر نے کےلیے خلوص دل سے کوئی ایسی تدبیر نکالیں کہ یہ ساری ندیاں نالے مل کر ایک بیکراں سمندر میں تبدیل ہو جائیں یا کم از کم دیانت دارانہ وفا قی جماعت تشکیل دے کر ایک مضبوط و مستحکم اور بلند وبالاعمارت کی بنا ڈال کر اپنے خون جگر کا نقش جمیل اس کے درو دیوار میں ثبت کر یں اور اس کے فروغ و بقا کی راہ میں اپنی تمام تر کو ششیں صرف کر دیں ۔ جس روز ایسا نقشہ سامنے آگیا تو پھر ید اللہ علی الجماعۃ کے بموجب قدرت کی نوازشات اور اس کی عنایات کا دروازہ اس طرح کھل جائے گاکہ اطراف ہند ہی نہیں بلکہ اس کی موج رحمت سے نہ جانے کتنے ملک اور کتنی قومیں نہال اور شاد کام ہو جائیں گی ۔ (نقوش فکر صفحہ ۳۷،چشتی)
ظاہر ہے یہ سب اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب ہماری خانقاہیں، ہمارے ادارے، ہماری تنظیمیں اور ہمارے قائدین اپنے دلوں سے نفع عاجل اور شہرت وخود نمائی کے جذبے کو نکال پھیکیں اور نہایت خلوص کے ساتھ کاروان اہل سنت کی زمام قیادت کو اپنے ہا تھوں میں لیں۔ بنام اہل سنت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر دین کی فلاح و بہبودی اور جماعتی مفادات کے لیے اپنی پوری توانائی صرف کر نے کا عہد کریں ۔ آپس میں محبت و خلوص کا ماحول پیدا کریں۔ ایک دوسرے کی عظمت ورفعت کا لحاظ اورادب و احترام کا خیال رکھیں۔ تمام سنی ادارے اور تنظیمیں مسلک حق کی اشاعت ہی کے لیے ہیں ۔ کوئی تنظیم یا ادارہ کسی دوسرے ادارے کو اگر اپنا حریف سمجھتا ہے تو یہ بڑی بھول ہے ۔
اگر ہماری جماعت کا کوئی فرد کسی غلط راستے پر جا رہا ہے تو اس کے خلاف محاذ آرائی کے بجائے اس کی اصلاح کی کوشش ہو نی چاہیے۔غلطیاں کہاں نہیں ہوتیں ؟ غلطیوں کی اصلاح کی جائے۔اصلاح مفاسد کےلیے حکمت و تدبر کا قرآنی اصول اپنا یا جائے ۔ کسی بھی معاملے میں عجلت اور بے جا شدت جما عتی اتحادکے حق میں حد درجہ ضرر رساں ہے ۔
کاش ! ان امور پر توجہ دی جا ئے تو پھر اتحاد اتفاق کی وہی بہاریں ہماری نظروں کو خیرہ کریں گی جن کا مطالعہ ہم اپنے اسلاف کی تاریخ میں کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کوئی ایسی سبیل پیدا فرمادے کہ ہم اپنے گزشتہ سارے اختلافات کو بھلا کر تلافی مافات کے لیے ایک پرچم تلے جمع ہو جائیں ۔
تعلیماتِ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ
بدگمانی حرام ہے
القرآن: یایھا الذین امنوا احتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم
ترجمہ: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو بے شک بعض گمان گناہ ہیں ۔ (سورۂ حجرات آیت 12 پارہ 26)
(برے) گمان سے دور رہو کہ (برے) گمان سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔
(صحیح بخاری‘ کتاب الادب‘ حدیث 6066‘ جلد 3 صفحہ 117)
بعض گمان گناہ ہیں
ایک مرتبہ امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ تنہا ایک گدڑی پہنے مدینہ طیبہ سے کعبہ معظمہ کو تشریف لے جارہے تھے اور ہاتھ میں صرف ایک تاملوٹ (یعنی ڈونگا) تھا۔ شفیق بلخی علیہ الرحمہ نے دیکھا (تو) دل میں خیال کیا کہ یہ فقیر اوروں پر اپنا بار (یعنی بوجھ) ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ وسوسہ شیطانی آنا تھا کہ امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ نے فرمایا! شفیق ۔ بچو گمانوں سے (کہ) بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ نام بتانے اور وسوسہ دلی پر آگاہی سے نہایت عقیدت ہوگئی اور امام کے ساتھ ہولئے۔ راستے میں ایک ٹیلے پر پہنچ کر امام صاحب نے اس سے تھوڑا ریت لے کرتا ملوٹ (یعنی ڈونگے) میں گھول کر پیا اور شفیق بلخی سے بھی پینے کو فرمایا۔ انہیں انکار کا چارہ نہ ہوا جب پیا تو ایسے نفیس لذیذ اور خوشبودار ستو تھے کہ عمر بھر نہ دیکھے نہ سنے ۔ (عیون الحکایات حکایت نمبر 131صفحہ 150/149،چشتی)
شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں کہ : محدث بریلی علیہ الرحمہ کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے از اول تا آخر مقلد رہے۔ ان کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی۔ نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی۔ وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ’’سبیل مومنین صالحین‘‘ سے نہیں ہٹے۔ اب اگر ایسے کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت و سنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز محدث بریلی علیہ الرحمہ کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ؟
مزارات اولیاء پر ہونے والے خرافات
ﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات شعائر ﷲ ہیں‘ ان کا احترام و ادب ہر مسلمان پر لازم ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات اولیاء پر حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان اپنے مولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار پر حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فیض حاصل کیا کرتے تھے ۔ پھر تابعین کرام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر تبع تابعین‘ تابعین کرام کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کرام کے مزارات پر آج تک عوام وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور ان شاء ﷲ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔
لادینی قوتوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کے لئے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائر ﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جاسکے ۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا ۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کئے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کےلیے بیت المقدس آتے تھے (معاذ ﷲ)
اسی طرح آج بھی مزارات اولیاء پر خرافات‘ منکرات‘ چرس و بھنگ‘ ڈھول تماشے‘ ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں سے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ یہ تمام خرافات اہلسنت اور امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جوکہ بہت سخت قسم کی خیانت ہے۔
اس بات کو بھی مشہور کیا جاتا ہے کہ یہ سارے کام جو غلط ہیں‘ یہ امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات ہیں۔ پھر اس طرح عوام الناس کو اہلسنت اور امام اہلسنت علیہ الرحمہ سے برگشتہ کیا جاتا ہے۔ اگر ہم لوگ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتابوں اور آپ کے فرامین کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بدعات و منکرات کے قاطع یعنی ختم کرنے والے تھے۔ اب مزارات پر ہونے والے خرافات کے متعلق آپ ہی کے فرامین اور کتابوں سے اصل حقیقت ملاحظہ کریں اور اپنی بدگمانی کو دور کریں ۔
مزار شریف کو بوسہ دینا اور طواف کرنا
امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے مگر بوسہ دینے سے بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے۔ آستانہ بوسی میں حرج نہیں اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرع میں ممانعت نہ آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہ فرمایا وہ منع نہیں ہوسکتی۔ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ’’ان الحکم الا ﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاؤں آنا ایک طرز ادب ہے اور جس ادب سے شرح نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذا کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز (بچا) کیا جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 8‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)
روضہ انور پر حاضری کا صحیح طریقہ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ خبردار جالی شریف (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار شریف کی سنہری جالیوں) کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ خلافِ ادب ہے بلکہ (جالی شریف) سے چار ہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاؤ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا‘ اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی‘ ان کی نگاہ کرم اگرچہ ہر جگہ تمہاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 765‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)
روضہ انور پر طواف و سجدہ منع ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ سجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے ۔(فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد 10ص 769 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
معلوم ہوا کہ مزارات پر سجدہ کرنے والے لوگ جہلا میں سے ہیں اور جہلاء کی حرکت کو تمام اہلسنت پر ڈالنا سراسر خیانت ہے‘ اور امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔
مزارات پر چادر چڑھانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں ۔ (احکام شریعت حصہ اول صفحہ 42)
عرس کا دن خاص کیوں کیا جاتا ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ بزرگان دین کے اعراس کی تعین (یعنی عرس کا دن مقرر کرنے) میں بھی کوئی مصلحت ہے ؟
آپ سے جواباً ارشاد فرمایا ہاں اولیائے کرام کی ارواح طیبہ کو ان کے وصال کے دن قبور کریمہ کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے چنانچہ وہ وقت جو خاص وصال کا ہے۔ اخذ برکات کے لئے زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔ (ملفوظات شریف ص 383‘ مطبوعہ مکتبتہ المدینہ کراچی)
عرس میں آتش بازی اور نیاز کا کھانا لٹانا حرام ہے
سوال : بزرگان دین کے عرس میں شب کو آتش بازی جلانا اور روشنی بکثرت کرنا بلا حاجت اور جو کھانا بغرض ایصال ثواب پکایا گیا ہو۔ اس کو لٹانا کہ جو لوٹنے والوں کے پیروں میں کئی من خراب ہوکر مٹی میں مل گیا ہو‘ اس فعل کو بانیان عرس موجب فخر اور باعث برکت قیاس کرتے ہیں۔ شریعت عالی میں اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : آتش بازی اسراف ہے اور اسراف حرام ہے‘ کھانے کا ایسا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے‘ تصنیع مال ہے اور تصنیع حرام۔ روشنی اگر مصالح شرعیہ سے خالی ہو تو وہ بھی اسراف ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 24ص 112‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
عرس میں رنڈیوں کا ناچ حرام ہے
سوال : تقویۃ الایمان مولوی اسمعیل کی فخر المطابع لکھنؤ کی چھپی ہوئی کہ صفحہ 329 پر جو عرس شریف کی تردید میں کچھ نظم ہے اور رنڈی وغیرہ کا حوالہ دیا ہے‘ اسے جو پڑھا تو جہاں تک عقل نے کام کیا سچا معلوم ہوا کیونکہ اکثر عرس میں رنڈیاں ناچتی ہیں اور بہت بہت گناہ ہوتے ہیں اور رنڈیوں کے ساتھ ان کے یار آشنا بھی نظر آتے ہیں اور آنکھوں سے سب آدمی دیکھے ہیں اور طرح طرح کے خیال آتے ہیں۔ کیونکہ خیال بدونیک اپنے قبضہ میں نہیں‘ ایسی اور بہت ساری باتیں لکھی ہیں جن کو دیکھ کر تسلی بخش جواب دیجئے ؟
جواب : رنڈیوں کا ناچ بے شک حرام ہے‘ اولیائے کرام کے عرسوں میں بے قید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلائی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 29ص 92‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وجد کا شرعی حکم
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ مجلس سماع میں اگر مزامیر نہ ہوں (اور) سماع جائز ہو تو وجد والوں کا رقص جائز ہے یا نہیں ؟
آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ اگر وجد صادق (یعنی سچا) ہے اور حال غالب اور عقل مستور (یعنی زائل اور اس عالم سے دور تو اس پر تو قلم ہی جاری نہیں ۔ اور اگر بہ تکلف وجد کرتا ہے تو ’’تشنی اور تکسر‘‘ یعنی لچکے توڑنے کے ساتھ حرام ہے اور بغیر اس کے ریا و اظہار کے لئے ہے تو جہنم کا مستحق ہے اور اگر صادقین کے ساتھ تشبہ بہ نیت خالصہ مقصود ہے کہ بنتے بنتے بھی حقیقت بن جاتی ہے تو حسن و محمود ہے حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ (ملفوظات شریف صفحہ نمبر231 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)
حرمتِ مزامیر
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزامیر یعنی آلات لہو و لعب بروجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح‘ ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے اور حضرات علیہ سادات بہثت کبرائے سلسلہ عالیہ چشت کی طرف اس کی نسبت محض باطل و افتراء ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد دہم صفحہ 54)
نشہ و بھنگ و چرس
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نشہ بذاتہ حرام ہے۔ نشہ کی چیزیں پینا جس سے نشہ بازوں کی مناسبت ہو اگرچہ حد نشہ تک نہ پہنچے یہ بھی گناہ ہے ہاں اگر دوا کے لئے کسی مرکب میں افیون یا بھنگ یا چرس کا اتنا جز ڈالا جائے جس کا عقل پر اصلا اثر نہ ہو حرج نہیں ۔ بلکہ افیون میں اس سے بھی بچنا چاہیے کہ اس خبیث کا اثر ہے کہ معدے میں سوراخ کردیتی ہے ۔ (احکام شریعت جلد دوم)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment