Monday, 11 October 2021

ذکر و نعت مصطفیٰ ﷺ اور قرآن کریم دوم

 ذکر و نعت مصطفیٰ ﷺ اور قرآن کریم دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کو اپنی بیعت قرار دیتے ہوئے فرمایا :


إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ۔

ترجمہ : اے (حبیب !) بے شک جو لو گ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے، پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اُس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ عن قریب اسے بہت بڑا اَجر عطا فرمائے گا ۔ (سورہ الفتح، 48 : 10)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے اونچی آواز کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسروں کی مثل پکارنے پر اَعمال کے ضائع ہو جانے کی وعید سناتے ہوئے فرمایا : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ۔ (سورہ الحجرات، 49 : 2)

ترجمہ : اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیء مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اَعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اَعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے پست آواز رکھنے کو تقویٰ کا معیار قرار دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ۔

ترجمہ : بے شک جو لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں (اَدب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو ﷲ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے، ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اَجرِ عظیم ہے ۔ (سورہ الحجرات ، 49 : 3)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقعۂ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا : سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ۔

ترجمہ : وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اَقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے ۔ (سورہ بني اسرائيل، 17 : 1)


سورۃ النجم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعہ معراج کو تفصیلاً نہایت ہی حسین پیرایہ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا : وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىO مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىO وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىO إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىO عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىO ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىO وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىO ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىO أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَىO وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىO عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَىO عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىO إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىO مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىO لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىO ۔ (النجم، 53 : 1 - 18)

ترجمہ : قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اُترےo تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیں اپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےo اُن کا اِرشاد سَراسَر وحی ہوتی ہے جو اُنہیں کی جاتی ہےo ان کو بڑی قوتوں و الے (رب) نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازاo جو حسنِ مُطلَق ہے، پھر اُس (جلوۂ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایاo اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)o پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیاo پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (اِنتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)o پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (ﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائیo (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھاo کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھاo اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)o سِدرۃ المنتہیٰ کے قریبo اسی کے پاس جنت الماویٰ ہےo جب نورِ حق کی تجليّات سِدرَۃ (المنتہیٰ) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیںo اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)o بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلقِ عظیم کو یوں بیان فرمایا : وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ ۔

ترجمہ : اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزيّن اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متصف ہیں)   (القلم، 68 : 4)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا : لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ ۔

ترجمہ : میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo (اے حبیبِ مکرم! آپ کے) والد (آدم یا اِبراہیم علیہما السلام) کی قسم اور (اُن کی) قسم جن کی ولادت ہوئی  (سورہ البلد، 90 : 1 - 3)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور اور گیسوئے عنبریں کی قسموں اور چند دیگر خصائل کا تذکرہ یوں فرمایا : وَالضُّحَىO وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىO مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىO وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىO وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىO أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىO وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىO وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىO فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْO وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْO وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ۔

ترجمہ : (اے حبیبِ مکرم!) قسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرۂ اَنور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کردیا)o اور (اے حبیبِ مکرم!) قسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رخِ زیبا یا شانوں پر) چھا جائےo آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا او رنہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہےo اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت ) ہےo اور آپ کا رب عن قریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گےo (اے حبیب!) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزز و مکرم) ٹھکانا دیاo اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیاo اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی دید کی لذت سے نواز کر ہمیشہ کے لیے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیاo سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیںo اور (اپنے دَر کے) کسی منگتے کو نہ جھڑکیںo اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں ۔ (الضحي، 93 : 1 - 11)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیرِ کثیر عطا کیے جانے کا ذکر یوں فرمایا : إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَO فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْO إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ۔ (الکوثر، 108 : 1 - 3)

ترجمہ : بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہےo پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکر ہے)o بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا ۔


رفعتِ ذکرِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  یہ بھی ہے کہ ذکر ِ خدا کے ساتھ ذکرِ مصطفیٰ کیا جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اَذان میں،اِقامت میں،نماز میں،تشہّد میں ،خطبے میں اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکرشامل کردیا ہے۔اس حوالے سے صرف چند آیاتِ قرآنی ملاحظہ فرمائیں : ٭آپ سے جنگ خدا سے جنگ ہے(بقرہ: 278 ،279) ٭ آپ کی اطاعت خُدا کی اطاعت ہے(النساء:80) ٭ آپ کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے(النساء: 14) ٭ آپ کی مخالفت خدا کی مخالفت ہے(انفال:13) ٭آپ کی طرف بلانا خدا کی طرف بلانا ہے(النساء:61) ٭ آپ کی طرف ہجرت خدا کی طرف ہجرت ہے(النساء:100) ٭آپ پر ایمان لانا خدا پر ایمان لانے کی طرح ضَروری ہے(النساء:136) ٭ آپ سے مقابلہ خدا سے مقابلہ ہے(مائدہ:33)  ٭ آپ سے دوستی خدا سے دوستی ہے(مائدہ:56) ٭ آپ سے منہ پھیرنا خدا سے منہ پھیرنا ہے(انفال:20) ٭ آپ کے بلانے پر حاضِر ہونا خدا کے بلانے پر حاضر ہونا ہے یا بالفاظِ دیگر آپ کا بلاوا خدا کا بلاوا ہے(انفال:24) ٭ آپ سے خیانت خداسے خیانت ہے(انفال:27) ٭ آپ کی طرف سے کسی شے سے بَراءَت کا اظہار خدا کی طرف سے بَراءت کا اظہار ہے(توبہ:1) ٭ آپ سے معاہدہ خدا سے معاہدہ ہے(توبہ:7) ٭ آپ کی محبت خدا کی محبت ہے(توبہ:24) ٭ آپ کا کسی شے کو حرام قرار دینا خدا کا حرام قرار دینا ہے(توبہ:29) ٭ آپ سے کُفر کرنا خدا سے کفر کرنا ہے(توبہ:54)  ٭ آپ کی عطا خدا کی عطا ہے اور آپ کا فضل و کرم خدا کا فضل و کرم ہے(توبہ:59) ٭ آپ کی رضا خدا کی رضا ہے اور آپ کو راضی کرنا خُدا کو راضی کرنا ہے(توبہ:62) ٭ آپ کا کسی کو مال دینا، غنی کرنا خدا کا غنی کرنا ہے(توبہ:74) ٭ آپ سے جُھوٹ بولنا خدا کی بارگاہ میں جھوٹ بولنا ہے(توبہ:90) ٭ آپ کی خیر خواہی خدا کی خیر خواہی ہے(توبہ:91) ٭ آپ کی طرف بلانا خدا کی طرف بلانا ہے(نور:48)  ٭ آپ کا وعدہ خدا کا وعدہ ہے(احزاب:22) ٭ آپ کی رضا چاہنا  خدا کی رضا چاہنا ہے(احزاب:29) ٭ آپ کا فیصلہ خدا کا فیصلہ ہے (احزاب:36) ٭ آپ کوایذا خدا کوایذا ہے(احزاب:57) ٭ آپ پر  پیش قدمی خدا پر پیش قدمی ہے(حجرات:1) ٭ آپ کی مدد خدا کی مدد ہے۔ (سورہ حشر:08)


میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کہ حبیب یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا


بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں وہ وہاں نہیں


ذکرِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رفعت پر یہ اُمور بھی دلالت کرتے ہیں:٭آپ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ذکر زمین پر بھی ہے اور آسمانوں پر بھی ٭آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر انسان بھی کرتے ہیں، فرشتے بھی، جنّات بھی اور دیگر مخلوقات بھی ٭آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ذکر پتّھروں نے بھی کیا اور درختوں نے بھی ٭دنیا کے ہر کونے میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذکر کرنے والے موجود ہیں۔چنانچہ دنیا کے ایک کنارے سے فَجْر کی اَذانیں شُروع ہوتی ہیں اوردنیا کے آخری کنارے تک دی جاتی ہیں اور ابھی اگلی جگہوں پر فجر کی اَذان نہیں ہوتی کہ پہلی جگہ ظہر کی اذانیں شروع ہوجاتی ہیں اور ہر اذان میں آپ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام اور رسالت کی گواہی پڑھی جاتی ہے اور یوں دنیا کا کوئی ملک اور خطہ ایسا نہیں جہاں ہر وَقْت آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نامِ مبارک نہ لیا جارہا ہو۔ یہی حال قرآنِ مجید کی تلاوت کا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں ہر وقت تلاوتِ قرآن جاری رہتی ہے اور لاکھوں مسلمان ہروقت تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں اور قرآن ذکرِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم   سے معمور ہے تو ہر وقت آپ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ذکر تلاوتِ قرآن کی صورت میں بھی جاری ہے۔ درود ِ پاک کی صورت میں ذکر ِ مصطفیٰ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان تو یہ ہے کہ ہر آن، ہر لمحہ دنیا میں آپ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر دُرود و سلام پڑھا جارہا ہے اور اگر درود پڑھنے والا کوئی انسان نہ بھی ہو تو فرشتے تو ہر آن آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پردرود پڑھ رہے ہیں اور یہ فرشتے زمین کی گہرائیوں سے لے کر عرش کی بُلندیوں تک موجود ہیں اور معاملہ کچھ یوں نظر آتا ہے ۔ (چشتی)


فرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ، عرش پہ طرفہ دھوم دھام کان جدھر لگا ئیے تیری ہی داستان ہے


نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا نامِ مبارَک عرش وکرسی پر لکھا ہوا ہے، سِدْرَۃُ المُنتہیٰ اور جنّتی درختوں کے پتّوں پر نقش ہے، جنّت کے محلّات پر کندہ ہے ۔ تمام انبیا و رسول علیہم الصلوٰۃ والسلام آپ کا ذکر کرتے رہے، آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے کا اپنی اپنی امّت سے وعدہ لیتے رہے۔ہر آسمانی کتاب میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر موجود ہے ۔ سوانح نگاری کی دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت پر لکھی گئیں ، بیانِ فضائل میں دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے فضائل کے متعلّق تحریر کی گئیں ۔ نظم کی صورت میں دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ کلام یعنی نعتیں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں لکھی گئیں ۔ سب سے زیادہ زَبانوں میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہی کا تذکرہ ملتا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...