Sunday 28 March 2021

ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جنّتی ہیں

0 comments

 ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جنّتی ہیں

امام محمد بن حسین آجری متوفی 280 ہجری رحمۃ اللہ علیہ روایت فرماتے ہیں : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تمہارے سامنے ایک جنّتی شخص آئے گا ۔ تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آئے ۔ پھر اگلے دن بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسی طرح فرمایا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آتے رہے ۔ ایک صاحب نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیا یہ وہ جنّتی شخص ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہاں یہ ہے ۔ (الشریعہ للآجری مترجم اردو جلد 3 صفحہ 566،چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول اور کاتب وحی ہیں

0 comments

 امام محمد بن حسین آجری متوفی 280 ہجری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول اور کاتب وحی ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اللہ تعالیٰ انہیں عذاب سے بچائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے معاویہ تم عنقریب مجھ سے جنّت میں ملو گے ، برد باری و علم عطاء فرمائے ، آپ اہلِ ایمان کے ماموں ہیں ۔ (الشریعہ للآجری جلد 3 صفحہ 558،چشتی) ۔ مزید اسکن میں پڑھیں ۔


Saturday 27 March 2021

معاویہ اور ہمارا اللہ عز و جل ایک ، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک ، قرآن ایک

0 comments

معاویہ اور ہمارا اللہ عز و جل ایک ، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک ، قرآن ایک


امیر المؤمنین حضرت سیّدُنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب ہم شام کے لشکر کے ساتھ جمع ہوئے ان کا ہمارا اللہ عز و جل ایک ، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک ، قرآن ایک اور نہ ہم ایمان میں تصدیق و اضافہ کے طلب گار تھے اور نہ وہ (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ) اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے ہمارا صرف ختلاف  قصاص خون عثمان رضی اللہ عنہ میں تھا ۔ (نہج البلاغہ جلد نمبر 1 ، 4 صفحہ نمبر 114 ، مترجم شیعہ اردو صفحہ نمبر 600 ، 601،چشتی)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرنے والو ان کے اور اپنے ایمان کو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ایک قرار دے رہے ہیں اگر کہیں کسی بازار میں شرم و حیاء بکتی ہو تو خرید لو اور باز آجاؤ توہین امیر معاویہ رضی عنہ سے اور شرم کرو حیاء کرو وہ صحابی رسول ہیں ۔


نیچے ہم مکمل خطبہ بمعہ ترجمہ اہل تشیع پیش کر رہے ہیں پڑھیئے :


وإِنْ كُنْتُ مُسِيئاً اسْتَعْتَبَنِي


(۵۸)


ومن كتاب لهعليه‌السلام


كتبه إلى أهل الأمصار ۔ يقص فيه ما جرى بينه وبين أهل صفين


وكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا والْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ - والظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ ونَبِيَّنَا وَاحِدٌ - ودَعْوَتَنَا فِي الإِسْلَامِ وَاحِدَةٌ - ولَا نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الإِيمَانِ بِاللَّه والتَّصْدِيقِ بِرَسُولِه - ولَا يَسْتَزِيدُونَنَا - الأَمْرُ وَاحِدٌ إِلَّا مَا اخْتَلَفْنَا فِيه مِنْ دَمِ عُثْمَانَ - ونَحْنُ مِنْه بَرَاءٌ - فَقُلْنَا تَعَالَوْا نُدَاوِ مَا لَا يُدْرَكُ الْيَوْمَ - بِإِطْفَاءِ النَّائِرَةِ وتَسْكِينِ الْعَامَّةِ - حَتَّى يَشْتَدَّ الأَمْرُ ويَسْتَجْمِعَ - فَنَقْوَى عَلَى وَضْعِ الْحَقِّ مَوَاضِعَه - فَقَالُوا بَلْ نُدَاوِيه بِالْمُكَابَرَةِ - فَأَبَوْا حَتَّى جَنَحَتِ الْحَرْبُ ورَكَدَتْ - ووَقَدَتْ نِيرَانُهَا وحَمِشَتْ ۔


اورغلطی پر دیکھو تو مجھے رضا کے راستہ پر لگا دو (۶۳)


(۵۸)

آپ کامکتوب گرامی


تمام شہروں کے نام۔جس میں صفین کی حقیقت کااظہار کیا گیا ہے


ہمارے معاملہ کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب بظاہر(۱) دونو ں کاخدا ایک تھا۔رسول ایک تھا۔پیغام ایک تھا۔نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلب گار تھے ۔ نہ وہ اپنے ایمان کوبڑھانا چاہتے تھے۔معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمان کے بارے میں تھا جس سے ہم بالکل بری تھے اورہم نے یہ حل پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہوسکتا ہے ' اس کاوقتی علاج یہ کیا جائے ہ آتش جنگ کو خاموش کردیاجائے اور لوگوں کے جذبات کوپرسکون بنادیا جائے۔اس کے بعد جب حکومت کو استحکام ہوجائے گا اورحالات ساز گار ہوجائیںگے تو ہم حق کو اس کی منزل تک لانے کی طاقت پیدا کرلیں گے ۔ لیکن قوم کا اصرار (۲) تھا ۔ کہ اس کا علاج صرف جنگ و جدال ہے۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ جنگ نے اپنے پائوںپھیلادئیے اورجم کر کھڑی ہوگئی ۔ شعلے بھڑک اٹھے اورٹھہرگئے اور قوم نے دیکھاکہ : فَلَمَّا ضَرَّسَتْنَا وإِيَّاهُمْ - ووَضَعَتْ مَخَالِبَهَا فِينَا وفِيهِمْ - أَجَابُوا عِنْدَ ذَلِكَ إِلَى الَّذِي دَعَوْنَاهُمْ إِلَيْه - فَأَجَبْنَاهُمْ إِلَى مَا دَعَوْا وسَارَعْنَاهُمْ إِلَى مَا طَلَبُوا - حَتَّى اسْتَبَانَتْ عَلَيْهِمُ الْحُجَّةُ - وانْقَطَعَتْ مِنْهُمُ الْمَعْذِرَةُ - فَمَنْ تَمَّ عَلَى ذَلِكَ مِنْهُمْ - فَهُوَ الَّذِي أَنْقَذَه اللَّه مِنَ الْهَلَكَةِ - ومَنْ لَجَّ وتَمَادَى فَهُوَ الرَّاكِسُ - الَّذِي رَانَ اللَّه عَلَى قَلْبِه - وصَارَتْ دَائِرَةُ السَّوْءِ عَلَى رَأْسِه ۔(چشتی)

جنگ نے دونوں کودانت کاٹنا شروع کردیا اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پرآمادہ ہوگئے اورمیں نے بھی ان کیبات کو مان لیا اورتیزی سے بڑھ کران کے مطالبہ صلح کو قبول کرلیا یہاں تک کہ ان پرحجت واضح ہوگئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہوگیا۔اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا توگویا اپنے نفس کو ہلاکت سے نکال لیا ورنہ اس گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہوگا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگادی ہے اور زمانہ کے حوادث اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)




آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو قلم دیا کہ لکھو

0 comments

 حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خبردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما ہیں اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس بیٹھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو قلم دیا کہ لکھو اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں میرے نزدیک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ موسیٰ علیہ کی مثل ہیں جس طرح انہیں اللہ عزّ و جل نے قوی اور امین قرار دیا ویسے ہی جبرائیل علیہ السّلام حاضر ہوئے اور عرض کی یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ عزّ و جل نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حکم دیا ہے کہ معاویہ سے کہیں وحی لکھیں کیونکہ وہ قوی اور امین ہیں ۔ (طبقات الحنابلہ الجزء الثالث عربی صفحہ نمبر 295،چشتی)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تبرا کرنے والا مکذّبِ قرآن بے دین ، کافر ہے

0 comments

 قاضی القضاۃ فی الہند حضور تاج الشریعہ مولانا مفتی اختر رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تبرا کرنے والا مکذّبِ قرآن بے دین ، کافر ہے اور قرآن پر افتراء کرنے والا ہے ۔۔۔۔۔۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تبراء کرنے والے پیر کی بیعت فسخ ہوگئی ایسے تبرائی کو پیر جاننا منافی ایمان ہے ۔ (فتاویٰ تاج الشریعہ جلد اوّل صفحہ نمبر 421 مطبوعہ بریلی شریف،چشتی)


Friday 26 March 2021

حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی ہیں اور کونسی آیات لکھیں کا جواب

0 comments

 حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی ہیں اور کونسی آیات لکھیں کا جواب


محترم قارئینِ کرام : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم کے کاتب تھے اور عام کتابت کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کتابت وحی کی بھی ذمے داری عطا فرمائی ۔ (صحیح مسلم، جلد4، صفحہ نمبر1945، رقم2501)(صحیح ابن حان، جلد16، صفحہ نمبر189، رقم7209)(المعجم الکبیر للطبرانی، جلد13، صفحہ نمبر554، رقم14446- سند حسن)(مجمع الزوائد، جلد9، صفحہ نمبر357، رقم15924)(دلائل النبوۃ، جلد6، صفحہ نمبر243- قد صح عن ابن عباس)(تاریخ اسلام، جلد4، صفحہ نمبر309)(الشریعہ، جلد5، صفحہ نمبر2431)(المبسوط، جلد24، صفحہ نمبر47)(الاعتقاد، صفحہ نمبر43)(الحجۃ فی بیان المحجہ، جلد2، صفحہ نمبر570، رقم56)(الذخیرۃ، جلد1، صفحہ نمبر110)(الاباطیل والمناکیر، صفحہ116، رقم191)(کتاب الاربعین، صفحہ نمبر174،چشتی)(تاریخ دمشق الکبیر، جلد59،صفحہ نمبر55، رقم7510) (کشف المشکل، جلد2، صفحہ نمبر96)(الفخری فی الآداب، صفحہ نمبر109)(جامع المسانید، جلد8، صفحہ نمبر131، رقم1760)(الاعتصام، صفحہ نمبر239)(امتاع الاسماع، جلد12، صفحہ نمبر113)(تقریب التھذیب، صفحہ نمبر470، رقم675،چشتی)(عمدۃ القاری، جلد2، صفحہ نمبر73، رقم71)(المواھب اللدنیۃ، جلد1، صفحہ نمبر533)(ارشاد الساری، جلد1، صفحہ نمبر170، رقم71)(الصواعق المحرقہ، صفحہ نمبر355)(سمط النجوم، جلد3، صفحہ نمبر155)(تفسیر روح البیان، جلد1، صفحہ نمبر180)(فتاوی رضویہ جلد26، صفحہ نمبر492)(شان صحابہ، صفحہ نمبر32)


کاتب وحی حضرت سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما جن کے ہاتھ کا لکھا قرآن ہم مسلمان پڑھتے ہیں اسلامی تاریخ میں اس سے بڑھ کر اور کیا مقام ہوگا کہ جس کو اللہ نے (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) کے مصداق کے طور پر پسند فرما کر چن لیا! الا ان کے کہ جو اس قرآن میں مانے ہی نا ۔


زیر نظر تصاویر میں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کے لکھے کچھ کتبے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ پہلا کتبہ جو کہ تقریباً 40 ہجری کا ہے اور اس پر کندہ الفاظ کو ساتھ لکھ کر واضح کیا گیا ہے ۔


دوسرے کتبے میں کندہ الفاظ قرآن خاصے واضح ہیں اور یہ کتبہ بئیر حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جو کہ طائف کے قریب ہے جہاں سے کہ یہ تختیاں ملی تھی ، (58 ہجری میں) اور اس کا نام حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام پر ہی رکھ دیا گیا اور آج بھی یہ وہاں طائف کے قریب صحیح سلامت موجود ہے ۔ بعد ازاں اس بیئر کی ملکیت بھی حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہوئی جس کی وجہ سے بئیر معاویہ (Dam of Muaviya r.a) نام معروف ہوا ۔

یہ تصویر 70ء کی دہائی کی تصویر ہے ۔ (تصاویر نیچے پوسٹوں میں دی جا رہی ہیں)


البتہ اس کتبے میں کچھ الفاظ کے رسم الخط معروف عربی رسم الخط یعنی جو قریش اور بدو قبائل میں زیادہ معروف تھا جس کو کہ کوفی رسم الخط کہتے ہیں، ان سے کچھ مختلف تھے ۔ ان کو حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوفی رسم الخط میں اپنی زیر نگرانی تبدیل کروا کر مصحف کی شکل میں مرتب کروایا ۔ یہ کام تقریباً 50 ہجری تک مکمل ہوگیا ۔


زیر نظر مصحفی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اب الفاظ کندہ ہونے کی بجاۓ روشنائی سے لکھے گئے ہیں اور رسم الخط بھی واضح ہے ۔ یہ اس وقت کے خام کاغذ پر لکھا گیا قرآن کا قلمی نسخہ ہے ۔


یہ مصحف حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آج بھی یمن کے عجائب گھر میں موجود ہے جہاں سے کہ اس کی یہ تصویر لی گئی ہے ۔


ان تصاویر کی صحت کی دلیل کے لئے محدث عصر شیخ مصطفے الاعظمی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب The History of Quranic Text، وہ تحقیقی ریسرچ ورک کہ جس میں شیخ نے قرآن مجید کی روز اول سے آج تک لفظی و تحریری تاریخ کو دلائل سے بیان کر کے ثابت کیا ہے اور تاریخی و تصاویری ثبوت بھی فراہم کئے ہیں، اور جہاں سے یہ تصاویر بھی حاصل کی گئی ہیں، کی تصویر بھی ساتھ اٹیچ کر دی گئی ہے ۔


تاریخ چاہیے تو تاریخ لیں ! یہ ہے ہماری تاریخ ! اور اس کا روشن اور ناقابل فراموش باب اور ستارہ ہیں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ۔


رجال و سیر کی کتابوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کاتبوں کے نام ملتے ہیں ، مگر سب کے بارے میں یہ صراحت نہیں ملتی کہ کس نے کیا لکھا ۔ (قرآن کیسے جمع ہوا ص 37 مکتبہ اعلی حضرت لاہور)


اس سے اتنا تو واضح ہوگیا کہ سب کے نام ملتے ہیں مگر کس نے کونسی آیت کی کتابت کی اس کی صراحت نہیں ملتی ، اب ذرہ ان ہستیوں کے نام ملاحظہ فرمائیں جن کے نام کتابت وحی کے فرائض انجام دینے میں لکھے گئے ہیں :


1 حضرت ابوبکر صدیق

2 حضرت فاروق اعظم

3 حضرت عثمان غنی

4 مولا علی شیر خدا

5 طلحہ بن عبید اللہ بن عثمان

6 زبیر بن العوام بن خویلد

7 سعد بن ابی وقاص مالک

8 عامر بن فہیرہ

9 ثابت بن قیس بن شماس

10 خالد بن سعید بن العاص بن امیہ

11 ابان بن سعید بن العاص امیہ

12 حنظلہ بن الربیع

13 ابو سفیان صخر بن حرب

14 یزید بن ابو سفیان

15 ( امیر )معاویہ بن ابی سفیان

16 زید بن ثابت

17 شرحبیل بن حسنہ

18 علاء حضرمی

19 خالد بن ولید

20 محمد بن مسلمہ انصاری

21 عبداللہ بن رواحہ انصاری

22 مغیرہ بن شعبہ

23 عمرو بن العاص بن وائل قرشی

24 عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول

25 جہم بن سعد اسلمی

26 جہیم بن الصلت

27 ارقم بن ابی ارقم مخزومی

28 عبداللہ بن زید بن عبد ربہ انصاری خزرجی

29 علاء بن اقبی

30 ابو ایوب انصاری

31 حذیفہ بن یمان

32 بریدہ بن ابن الحصیب مازنی

33 حصین بن نمیر بن فاتک

34 عبداللہ بن ابی سرح سعد

35 ابو سلمہ بن عبد الاسد قرشی

36 حویطب بن عبد العزی

37 حاطب بن عمرو

38 ابن خطل

39 ابی بن کعب

40 عبداللہ بن ارقم قرشی

41 معیقیب بن ابی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین ۔ (قرآن کیسے جمع ہوا صفحہ 38 تا 50 مکتبہ اعلی حضرت لاہور)


ان اسماء گرامی کو لکھنے کے بعد میں اعتراض کرنے والوں سے اسی کے طریقہ پر کہوں گا پوچھنا یہ تھا کہ ان میں سے ہر ایک ہستی نے قرآن کی کون کونسی آیت لکھی مزید یہ کہ ان میں سے ہر ایک نے کتنی کتنی ایات مبارکہ کی کتابت فرمائی ؟


بیچارے کیا جواب دینگے شائد انہوں نے کاتبان وحی کے اسماء گرامی ہی پہلی مرتبہ پڑھے ہوں ۔ جب جواب نہیں میں ہے اور یقینا نہیں میں ہے تو صرف حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے اس طرح سوال کرنا بد بختی نہیں تو کیا ہے ؟


کیا یہ ان کی شان کتابت وحی کا منکر بنانے کا جال نہیں ؟


اے مسلمانانِ اہلسنّت ہشیار رہنا یہ رافضیت و تفضیلیت کی اندھا دھند یلغار ہے ۔


اندھے بلکہ جاہل معترضین کے لئے مزید چشم کشا علم بخش دوائی حاضر ہے ۔


کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی تھے آپ کی اسی ذمہ داری کی بابت سیدنا عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنھم فرماتے ہیں : و کان یکتب الوحی ، حضرت ( امیر) معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وحی لکھا کرتے تھے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کا یہ فرمان امام بیہقی (متوفی 458ھ) نے نقل کیا ہے

اور اس (قول) کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں : قد صح عن ابن عباس ، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے جو روایت ہے صحیح ہے ۔ (دلائل النبوۃ باب ما جاء فی دعائہ ، ج 6 ص 243،چشتی)(تاریخ الاسلام حرف المیم معاویہ بن ابی سفیان ج 4 ص 309)


اسی شرف سے مشرف ہونے کی بنا پر جلیل المرتبت محدثین اور علماء ربانیین و اولیاء کاملین آپ کو  کاتب وحی کہہ کر یاد کرتے رہے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں :


حافظ ابوبکرمحمد بن حسین آجری بغدادی (متوفی 360ھ ) فرماتے ہیں : معاویۃ رحمہ اللہ  کاتب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی وحی اللہ عزوجل وھو القرآن بامر اللہ عزوجل ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب سیدنا امیر معاویہ پر اللہ رحم فرمائے آپ اللہ کے حکم سے وحی الہی؛ قرآن پاک لکھا کرتے تھے ۔ (الشریعہ کتابت فضائل معاویۃ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 2431،چشتی)


حافظ الکبیر امام ابو بکر احمد بن حسین خراسانی بیہقی (متوفی 458ھ) فرماتے ہیں : و کان یکتب الوحی ، سیدنا امیر معاویہ کاتب وحی تھے ۔ (دلائل النبوۃ ج6ص243 )


امام شمس الائمہ ابوبکر محمد بن سرخسی حنفی( متوفی 483 ھ) فرماتے ہیں : و کان کاتب الوحی ۔ (المبسوط کتاب الاکراہ ج 24 ص 47)


امام قاضی ابو الحسین محمد بن محمد حنبلی(ابن ابی یعلی) (متوفی 526ھ) فرماتے ہیں

(معاویۃ) کاتب وحی رب العلمین ، حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تمام جہانوں کے رب کی وحی کے کاتب تھے ۔ (الاعتقاد۔ الاعتقاد فی الصحابۃ ص43)


امام حافظ ابو قاسم اسماعیل بن محمد قرشی طلیحی (قوام السنۃ) (متوفی 535)

فرماتے ہیں : معاویۃ کاتب الوحی ۔ (الحجۃ فی بیان المحجۃ ج2 ص570 رقم 566)


علامہ ابو الحسن علی بن بسام الشنترینی اندلسی (متوفی 542ھ) فرماتے ہیں :

معاویۃ بن ابی سفیان کاتب الوحی ۔ (الذخیرۃ فی محاسن اہل الجزیرۃ ج1ص110)


حافظ ابو عبداللہ حسین بن ابراھیم جوزقانی(متوفی 543ھ) فرماتے ہیں : (معاویۃ) کاتب الوحی ۔ (الاباطیل و المناکیر و الصحاح و المشاھیر باب فی فضائل معاویۃ ص116رقم 191)


علامہ ابو الفتوح محمد بن محمد طائی ہمذانی (متوفی 555ھ) فرماتے ہیں : معاویۃ کاتب وحی رسول رب العلمین و معدن الحلم والحکم ، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول رب العلمین کے کاتب وحی اور حلم و دانائی کے کان تھے ۔ (کتاب الاربعین فی ارشاد السائرین ص 174 )


امام حافظ ابو القاسم علی بن حسن بن ہبۃ اللہ شافعی (ابن عساکر) (متوفی 571) فرماتے ہیں : (معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ) خال المؤمنین وکاتب وحی رب العلمین ، حضرت امیر معاویہ تمام مؤمنوں کے خالو ہیں اور تمام جہانوں کے رب کی وحی کے کاتب ہیں ۔ (تاریخ دمشق الکبیر ذکر من اسمہ معاویۃ ، معاویۃ بن ابی سفیان بن صخر ج59 ص55 رقم 7510)


امام حافظ جمال الدین ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی (متوفی 497ھ) نے کشف المشکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 12 کاتبوں کا تذکرہ کیا ہے ، جن میں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔ (کشف المشکل ج2ص96)


ابو جعفر محمد بن علی بن محمد ابن طباطبا علوی(ابن الطقطقی) (متوفی 709ھ)

نے لکھا ہے : و اسلم معاویۃ و کتب الوحی فی جملۃ من کتبہ بین یدی الرسول ،

اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اسلام لائے اور ان سب میں رہکر کتابت کی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حضور کتابت کرتے تھے ۔ (الفخری فی الآداب السلطانیۃ من سیرۃ معاویۃ ص 109،چشتی)


حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر قرشی شافعی (متوفی 774) لکھتے ہیں : ثم کان ممن یکتب الوحی بین یدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، پھر (حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ) ان میں سے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے وحی لکھتے تھے ۔ (جامع المسانید والسنن الھادی ج8 ص 31 رقم 1760)


حافظ ابراھیم بن موسی مالکی شاطبی (متوفی 790ھ) نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کتاب وحی میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر فرمایا ۔ (الاعتصام صفحہ نمبر 239)


حافظ ابو الحسن نور الدین علی بن ابی بکر بن سلیمان ہیثمی (متوفی 807ھ) نے بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کُتّابِ وحی کے باب میں سیدنا امیر معاویہ کا تذکرہ کیا ہے ۔ (مجمع الزوائد باب فی کُتّاب الوحی ج 1 ص 53 رقم 686)


علامہ تقی الدین ابو العباس احمد بن علی حسینی مقریزی (متوفی 845ھ) فرماتے ہیں : و کان یکتب الوحی ، حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی تھے ۔ (امتاع الاسماع  اجابۃ اللہ دعوۃ الرسول ج12 ص 113)


امام حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی (متوفی 852ھ) لکھتے ہیں : معاویۃ بن ابی سفیان ، الخلیفۃ صحابی اسلم قبل الفتح و کتب الوحی ، سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہما خلیفہ ہیں صحابی ہیں آپ فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے اور وحی کی کتابت فرمائی ۔ (تقریب التھذیب حرف المیم ص 470 رقم 6758)


امام حافظ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عینی حنفی (متوفی 855) لکھتے ہیں : معاویۃ بن ابی سفیان صخر بن حرب الاموی کاتب الوحی ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری کتاب العلم باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین ج 2ص73 رقم 71)


علامہ شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد قسطلانی مصری شافعی (متوفی 923) لکھتے ہیں : و ھو مشھور بکتابۃ الوحی ، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ مشہور کاتب وحی ہیں ۔ (المواھب اللدنیۃ الفصل السادس ج1 ص533)


علامہ قسطلانی نے ارشاد الساری میں بھی لکھا ہے کہ : معاویۃ بن ابی سفیان بن صخر بن حرب کاتب الوحی لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذا المناقب الجمعۃ ۔ (ارشاد الساری شرح صحیح بخاری کتاب العلم باب من یرد اللہ ج1ص170 رقم 71)


امام حافظ شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد (ابن حجر) ہیتمی مکی شافعی (متوفی 974ھ) لکھتے ہیں : معاویۃ بن ابی سفیان اخی ام حبیبۃ زوجۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاتب الوحی ، حضرت سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ سیدہ ام حبیبہ زوجہ رسول رضی اللہ تعالی عنھا و صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی اور کاتب وحی ہیں ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ نمبر 355،چشتی)


علامہ عبد الملک بن حسین بن عبد الملک عاصمی مکی (متوفی 1111ھ) نے لکھا ہے : معاویۃ و کان یکتب الوحی ۔ (سمط النجوم العوالی ج3ص 55)


علامہ اسماعیل بن مصطفیٰ حقی حنفی (متوفی 1127ھ) لکھتے ہیں : معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ کاتب الوحی ۔ (تفسیر روح البیان جزء 1 تحت سورۃ بقرۃ ایت 90 ج 1 ص 180)


امام اہل سنت مجدد دین و ملت الشّاہ احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر قرآن عظیم کی عبارت کریمہ نازل ہوتی عبارت میں اعراب نہیں لگائے جاتے (تھے) حضور کے حکم سے صحابہ کرام مثل : امیر المؤمنین عثمان غنی و حضرت زید بن ثابت و امیر معاویہ  وغیرہم رضی اللہ تعالی عنہم اسے لکھتے ؛ ان کی تحریر میں بھی اعراب نہ تھے ، یہ تابعین کے زمانے سے رائج ہوئے ، اللہ تعالی اعلم ۔ (العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ ج26 ص 492/493)


شارح بخاری علامہ سید محمود احمد بن سید ابو البرکات احمد بن سید دیدار علی شاہ محدث الوری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایمان لانے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ خدمت نبوی سے جدا نہ ہوئے ہما وقت پاس رہتے اور وحی الہی کی کتابت کرتے ۔ (شان صحابہ ؛ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام ص32)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نےحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جبرائیل علیہ السّلام سے مشورہ کے بعد کاتب وحی بنایا جبرائیل علیہ السّلام نے عرض کیا کیوں نہیں وہ امین ہیں ۔ (تاریخ ابن کثیر  مترجم حصّہ ہفتم ، ہشتم صفحہ 158)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتب وحی تھے (معانی الاخبار صفحہ 394 شیعہ مصنف شیخ صدوق کا  انتہائی گستاخانہ انداز میں مجبورا اقرار) سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی منکر اب کیا کہتے ہیں ؟


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی اور اُمتِ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کے ماموں ہیں ۔ (تاریخ مدینہ دمشق الجزء التّاسع و الخمسون صفحہ 55)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ اُمتِ مُسلمہ کے ماموں اور رب العالمین کی وحی کے کاتب ہیں دیگر کاتبان وحی کے ساتھ وحی لکھتے تھے ۔ (تاریخ ابن کثیر  جلد نمبر ہفتم ، ہشتم صفحہ نمبر 33،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو وحی لکھواتے حروف بتاتے یہ ایسے ایسے لکھو ۔ (تفسیر دُرِّ منثور جلد اوّل صفحہ نمبر 45 مترجم اردو )


حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ فتح مکہ سے پہلے اسلام  لائے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے خطوط اور وحی الٰہی لکھا کرتے تھے ۔ (مدارج النبوت جلد دوم صفحہ نمبر  620 حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مترجم مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)


امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ) اور کاتب وحی اور وحی الٰہی کے امین ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم کو دوسروں پر قیاس مت کرو ۔ (کتاب الشفا مترجم اردو جلد نمبر 1 صفحہ نمبر61)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جبرائیل امین علیہ السّلام کے مشورے سے کاتبِ وحی بنایا جبرائیل امین علیہ السّلام نے عرض کیا معاویہ امانت دار ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیئے دعائیں فرمائیں اور فرما یا اے معاویہ میں تم سے ہوں اور تُم مجھ سے ہو تم میرے ساتھ جنّت میں ہوگے ۔ (سیرتِ حلبیہ مترجم اردو جلد نمبر 5 صفحہ 289 مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی،چشتی)


شیخ الاسلام منھاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہرُ القادری صاحب لکھتے ہیں : کتابتِ وحی کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی مقرر فرمایا ہوا تھا، جو حسب ضرورت کتابتِ وحی کے فرائض انجام دیتے تھے، کاتبین وحی کی تعداد چالیس تک شمار کی گئی ہے۔ لیکن ان میں سے زیادہ مشہور یہ حضرات ہیں :


حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت ابان بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت حنظلہ ابن الربیع رضی اللہ عنہ، حضرت معقیب بن ابی فاطمہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن ارقم الزہری رضی اللہ عنہ، حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ، حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ۔


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے، چنانچہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق لکھ لیا جاتا تھا، قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، اور چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں، البتہ کبھی کبھی کاغذ کے ٹکڑے بھی استعمال کئے گئے ہیں ۔ (عسقلانی، فتح الباری، 9 : 18،چشتی)۔(سیرۃُ الرّسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصی و رِسالتی اہمیت صفحہ 59)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی ، عظیم المرتب صحابی اور تمام اہلِ اسلام کے ماموں ہیں مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں ، کاتب وحی ہیں ۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں ۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں ۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن جنوری 2013 ء الفقہ آپ کے دینی مسائل،چشتی)


یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا کاتب مقرر فرمائیں گے ؟


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا گیا کہ : ومعاوية، تجعله كاتبا بين يديك ؟ ۔

ترجمہ : کیا آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا کاتب مقرر فرمائیں گے ؟


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا :  جی ہاں ۔ )صحيح مسلم : 304/2، ح : 2501)


ایک روایت میں ہے : وكان يكتب الوحي  ۔

ترجمہ : معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی تھے ۔ (دلائل النبوة للبيهقي : 243/6، وسنده صحيح)


تبع تابعی ، شیخ الاسلام ، معافی بن عمران رحمۃ اللہ علیہ (م : 186/185 ھ) فرماتے ہیں : معاوية ، صاحبه ، وصهره ، وكاتبه ، وأمينه علٰي وحي الله ۔

ترجمہ : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی ، آپ کے سالے ، آپ کے کاتب اور اللہ کی وحی کے سلسلے میں آپ کے امین تھے ۔ (تاريخ بغداد للخطيب : 209/1،چشتی)(تاريخ ابن عساكر : 208/59، البداية والنهاية لابن كثير : 148/8، وسنده صحيح)


امام حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ (571-499 ھ) فرماتے ہیں : وأصح فى فضل معاوية حديث أبي جمرة عن ابن عباس، أنه كان كاتب النبى صلى الله عليه وسلم منذ أسلم ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں اصح حدیث ابوجمرہ کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کردہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ جب سے اسلام لائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کاتب تھے ۔ (البداية والنهاية لابن كثير : 128/8)


امام ابومنصور معمر بن احمد اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ (م : 428 ھ) اہلسنت کا اجماعی عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وأن معاوية بن أبي سفيان كاتب وحي الله وأمينه، ورديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، وخال المؤمنين رضي الله عنه .

ترجمہ : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو وحی الٰہی کے کاتب و امین ہونے ، نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ایک سواری پر سوار ہونے اور مؤمنوں کے ماموں ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ (الحجة فى بيان المحجة للإمام قوام السنة أبي القاسم إسماعيل بن محمد الأصبهاني : 248/1، وسنده صحيح)


امام ابن قدامہ مقدسی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ (م : 620 ھ) مسلمانوں کا عقیدہ یوں بیان فرماتے ہیں : ومعاوية خال المؤمنين، وكاتب وحي الله، وأحد خلفاء المسلمين ۔

ترجمہ : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مؤمنوں کے ماموں ، کاتب وحی الٰہی اور مسلمانوں کے ایک خلیفہ تھے ۔ (لمعة الاعتقاد، ص : 33)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)













فضائلِ شبِ برات قرآن و حدیث کی روشنی میں

0 comments

 فضائلِ شبِ برات قرآن و حدیث کی روشنی میں


محترم قارئینِ کرام : شبِ برات کے بے شمار فضائل ہیں ، یہ رات برکتوں والی رات ہے ، رحمتوں والی رات ہے اور نعمتوں والی رات ہے ، سورۂ دخان کی ابتدائی آیات میں اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے : حٰمٓ ۔ وَالْکِتَابِ الْمُبِینِ ۔ إِنَّا أَنْزَلْنٰہُ فِی لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنْذِرِینَ ۔ فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیم ۔ ترجمہ : حٰمٓ قسم ہے واضح کتاب کی ! بے شک ہم نے اس (قرآن )کوایک برکت والی رات میں نازل کیا ، ہم ہی ڈرانے والے ہیں ، اس (رات)میں ہرحکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتاہے ۔
ان آیات مبارکہ میں مذکور مبارک رات سے کونسی رات مراد ہے، اس سلسلہ میں علماء امت کی ایک جماعت کے مطابق اس سے مراد پندرہ شعبان کی شب ’’شب براء ت‘‘ہے ۔ جیسا کہ علامہ شیخ احمد بن محمد صاوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1247؁ھ) نے ’مبارک رات‘’ سے شعبان کی پندرھویں رات ‘مراد ہونے سے متعلق لکھاہے : ھو قول عکرمۃ و طائفۃ ووجہ بامور منھا ان لیلۃ النصف من شعبان لھا اربعۃ اسماء: اللیلۃ المبارکۃ و لیلۃ البراء ۃ و لیلۃ الرحمۃ ولیلۃ الصک ۔
ترجمہ : حضرت عکرمہ اورمفسرین کی ایک جماعت کا بیان ہے کہ’’ برکت والی رات ‘‘ سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے‘اور یہ توجیہ چند امور کی وجہ سے قابل قبول ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ پندرھویں شعبان کے چار نام ہیں: (1) مبارک رات (2) براء ت والی رات (3) رحمت والی رات (4) انعام والی رات ۔ (حاشیۃ الصاوی علی الجلالین، ج4 ص57۔التفسیر الکبیرللرازی:سورۃ الدخان :1،چشتی)

اس مبارک رات سے متعلق قرآن شریف میں آیا ہے کہ : فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ۔
ترجمہ : اس میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ (سورۂ دخان :4)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ برکت والی رات فیصلوں کی رات ہے، اسی طرح پندرہ شعبان کی شب سے متعلق بھی احادیث شریفہ میں یہی تفصیل وارد ہے کہ اس میں سال بھر ہونے والے مختلف امور اور معاملات کے فیصلے کئے جاتے ہیں، اس جہت سے پندرہ شعبان سے متعلق احادیث شریفہ ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ (برکت والی رات) کی تفصیل اور تفسیر قرار پاتی ہیں، جیسا کہ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرماتے ہیں : وروی عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما تقتضی الاقضیۃ کلھا لیلۃ النصف من شعبان ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :جملہ معاملات کے فیصلہ جات شعبان کی پندرھویں شب میں ہوتے ہیں ۔ (روح المعانی ج14، ص174)

برکت والی رات میں نزول قرآن کا صحیح مفہوم : اس مبارک رات سے متعلق یہ تفصیل بیان کی گئی کہ رب العالمین نے اس رات قرآن مجید کو نازل فرمایاہے اور شب قدرسے متعلق بھی قرآن کریم میں یہی تفصیل بیان کی گئی کہ وہ نزول قرآن کی رات ہے ، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے: کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ کلام الہی شب براء ت میں بھی نازل ہو اور شب قدر میں بھی ؟
شب براء ت کا نام اللہ تعالی نے مبارک رات رکھا ہے اور اس رات قرآن اتارا ، ایساہی شب قدر کے لئے فرمایاکہ ہم نے قرآن اُتاراہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ شب براء ت میں قرآن اتارنے کی تجویز ہوئی اور شب قدر میں آسمان اول پر اُتارا،پھر تیئیس 23 سال تک تھوڑا تھوڑا کرکے دنیا میں اترتارہا ۔ (فضائل رمضان، ص:23،چشتی)

شب براء ت ، موت و حیات اورتقسیم رزق کا فیصلہ : ہرشخص جانتاہے کہ ازل سے جو ہوا اورابد تک جو کچھ ہونے والا ہے سب کچھ لوح محفوظ میںتحریر شدہ ہے۔ البتہ سال بھر واقع ہونے والے امور سے متعلق تمام احکام کو شب براء ت میں منظوری دی جاتی ہے اور فرشتے لوح محفوظ سے ان فیصلوں کو دفتروںمیں نقل کرتے ہیں ‘اور شب قدر میں ان فائلوں کو متعلقہ فرشتوں کے حوالہ کردیاجاتاہے ، ان فائلوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ اس سال کتنے لوگ پیدا ہوں گے، اور کتنے دنیا سے رخصت ہوجائیںگے اور کس کو کتنا رزق ملے گا۔ جیسا کہ شعب الایمان‘ الدعوات الکبیرللبیہقی‘ مشکوٰۃ المصابیح اور زجاجۃ المصابیح میں حدیث شریف ہے : عن عائشۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ھل تدرین مافی ھذہ اللیلۃ یعنی لیلۃ النصف من شعبان قالت مافیھا یا رسول اللہ فقال فیھا ان یکتب کل مولود بنی آدم فی ھذہ السنۃ وفیھا ان یکتب کل ھالک من بنی آدم فی ھذہ السنۃ وفیھا ترفع اعمالھم وفیھا تنزل ارزاقھم فقالت یا رسول اللہ مامن احد یدخل الجنۃ الا برحمۃ اللہ تعالیٰ ؟ فقال مامن احد یدخل الجنۃ الا برحمۃاللہ تعالیٰ ثلاثاً قلت ولا انت یا رسول اللہ فوضع یدہ علی ھامتہ ولا أنا الا ان یتغمدنی اللہ منہ برحمتہ یقولھا ثلاث مرات۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتی ہو اس رات یعنی پندرھویں شعبان میں کیا ہوتاہے! آپ نے عرض کیا: اس میں کیاہوتاہے؟یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: اس سال پیداہونے والے تمام آدمیوں کے نام اس رات فہرست میں لکھ دئے جاتے ہیں،اور اس سال فوت ہونے والے تمام انسانوں کے نام بھی فہرست میں درج کردئیے جاتے ہیںاور اس میں لوگوں کے اعمال( رب کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں اور ان کے رزق اتارے جانے کا فیصلہ کردیاجاتا ہے۔آپ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جاسکے گا؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں چلاجائے، آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا:کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا :آپ بھی نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اپنے سر انور پر رکھ کرتین مرتبہ فرمایا نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی آغوشِ رحمت میں لئے ہوئے ہے۔اسے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ دہراتے رہے ۔
( زجاجۃ المصابیح، ج1، ص367۔ مشکوۃ المصابیح، ج1، ص114۔ الدعوات الکبیر للبیہقی،فضائل الاوقات للبیہقی ، باب فضل لیلۃ النصف من شعبان،حدیث نمبر 28۔شعب الایمان للبیہقی ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان ،حدیث نمبر: 3675 ۔ العلل المتناھیۃ لابن الجوزی،حدیث فی فضل لیلۃ النصف شعبان ، حدیث نمبر 918 ۔التبصرۃ لابن الجوزی، المجلس الخامس فی ذکر لیلۃ النصف من شعبان ،چشتی)

شب براء ت میں قیام اور دن میں روزہ کا اہتمام : شب براء ت ذکر وشغل اور نمازو تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنا اور ساری رات قیام کرنا اور دن میں روزہ رکھنا احادیث شریفہ سے ثابت ہے چنانچہ سنن ابن ماجہ شریف‘ شعب الایمان ‘ کنزالعمال اور’ تفسیر در منثور‘ میں ہے : عَنْ عَلِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَیْلَہَا وَصُومُوا یَوْمَہَا. فَإِنَّ اللَّہَ یَنْزِلُ فِیہَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَائِ الدُّنْیَا فَیَقُولُ أَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِی فَأَغْفِرَ لَہُ أَلاَ مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَہُ أَلاَ مُبْتَلًی فَأُعَافِیَہُ أَلاَ کَذَا أَلاَ کَذَا حَتَّی یَطْلُعَ الْفَجْرُ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا:سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تو اس رات قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو! کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج ڈوبتے ہی آسمان دنیا کی طرف نزول اجلال فرماتاہے اورارشاد فرماتاہے :کیا کوئی مغفرت کا طلبگار ہے کہ میں اس کو بخش دوں! کیا کوئی رزق چاہنے والا ہے کہ میں اس کو رزق عطا کروں! کیا کوئی مصیبت کا مارا ہوا ہے کہ میں اس کو عافیت دوں! کیا کوئی ایساہے! کیاکوئی ایسا ہے! یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے ۔
(سنن ابن ماجہ ‘حدیث نمبر: 1451 ۔ شعب الایمان للبیہقی حدیث نمبر: 3664۔ کنزالعمال حدیث نمبر: 35177۔التفسیر الدرالمنثور ،سورۃ الدخان،آیت ۔4،چشتی)

اس روایت سے شب براء ت میں قیام کرنا اور دن میں روزہ کاسنت ہونا مذکور ہے اس سے واضح طور پر معلوم ہورہاہے کہ یہ رات غفلتوں میں رہنے کی رات نہیں‘ بلکہ شب بیداری اورسحرخیزی کی رات ہے ، بارگاہ الہی سے رحمتیں لوٹنے کی رات ہے ، زندگی میں برکت حاصل کرنے اور پریشانیوں سے چھٹکارہ پانے کی رات ہے ۔

فضیلت شب براء ت کی احادیث ثقہ راویوں سے منقول : علامہ ہیثمی نے اپنی کتاب مجمع الزوائد میں شب براء ت کی فضیلت میں وارد احادیث شریفہ نقل کرتے ہوئے امام طبرانی کی معجم کبیرومعجم اوسط سے اس باب میں دو(2)روایتیں نقل کیں اور ان کے راویوں کو قابل اعتبار قراردیتے ہوئے رقم فرمایاہے: ورجالھما ثقات ۔ترجمہ : اور ان دونوں احادیث شریفہ کے راوی معتبر وثقہ ہیں ۔ (مجمع الزوائد ، کتاب الادب ، باب ماجاء فی الھجران ) ۔ شب براء ت کی فضیلت سے متعلق تقریباً سولہ (16) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے روایتیں منقول ہیں ۔

شب براء ت رحمت کے تین سو دروازے کھول دئے جاتے ہیں : شب براء ت جبریل امین سدرہ کے مکین حاضر دربار رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہوکر اس رات عبادت کرنے والوں کے حق میں خوش قسمتی و فیروز بختی کی بشارت سناتے ہیں : قال ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال جاء نی جبریل علیہ السلام لیلۃ النصف من شعبان وقال یا محمد ارفع رأسک الی السماء قال قلت ماھذہ اللیلۃ قال ھذہ اللیلۃ یفتح اللہ سبحانہ فیھا ثلاث مائۃ باب من ابواب الرحمۃ یغفر لکل من لایشرک بہ شےئا الا ان یکون ساحرا اوکاھنا او مدمن خمر او مصرا علی الربا والزنا فان ھؤلاء لایغفرلھم حتی یتوبوا فلما کان ربع اللیل نزل جبریل علیہ السلام وقال یا محمد ارفع رأسک فرفع راسہ فاذا ابواب الجنۃ مفتوحۃ وعلی الباب الاول ملک ینادی طوبی لمن رکع فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب الثانی ملک ینادی طوبی لمن سجد فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب الثالث ملک ینادی طوبی لمن دعا فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب الرابع ملک ینادی طوبی للذاکرین فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب الخامس ملک ینادی طوبی لمن بکی من خشیۃ اللہ فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب السادس ملک ینادی طوبی للمسلمین فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب السابع ملک ینادی ھل من سائل فیعطی سؤلہ وعلی الباب الثامن ملک ینادی ھل من مستغفر فیغفرلہ فقلت یاجبریل الی متی تکون ھذہ الابواب مفتوحۃ قال الی طلوع الفجر من اول اللیل ثم قال یا محمد ان للہ تعالیٰ فیھا عتقاء من النار بعدد شعرغنم کلب ۔
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیںکہ آپ نے ارشاد فرمایا :شعبان کی پندرھویں رات میرے پاس جبرئیل علیہ السلام نے حاضر ہوکر عرض کیا : اے پیکر حمدوثنا! اپنا سرانور آسمان کی جانب اٹھائیے ،میں نے کہا :واہ‘اس رات کے کیا کہنے! ،جبرئیل نے عرض کیا اس رات اللہ تعالیٰ رحمت کے تین سو دروازے کھولتا ہے اور ہر اس شخص کی بخشش فرمادیتا ہے جس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، سوائے یہ کہ وہ جادوگر ہو یا کاہن ہو یا شراب کا عادی ہو یا ہمیشہ کا سود خوار اور بدکار ہو کیونکہ ان لوگوں کو نہیں بخشا جائے گا یہاں تک کہ و ہ توبہ کرلیں ، پھر جب چوتھائی رات ہوئی تو جبرئیل نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا:اے پیکر حمد وثنا و لائق ہر ستائش و خوبی ! اپنا سرا نور اٹھائیے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرانور اٹھایا تو جنت کے دروازے کھلے ہیں، پہلے دروازہ پر ایک فرشتہ اعلان کررہا ہے: اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نے اس رات رکوع کیا، دوسرے دروازہ پر ایک فرشتہ آواز دے رہا ہے: اس شخص کیلئے خوشخبری ہے جس نے اس رات سجدہ کیا ، تیسرے دروازہ پر ایک فرشتہ ندادے رہا ہے: بشارت ہے اس شخص کیلئے جس نے اس رات دعاکی ، چوتھے دروازہ پر ایک فرشتہ اعلان کررہا ہے :اس رات ذکر کرنے والوں کیلئے مژدہ ہے ، پانچویںدروازہ پر ایک فرشتہ آوازدے رہا ہے: خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو اس رات اللہ تعالیٰ کے خوف سے روئے ، چھٹے دروازہ پرایک فرشتہ منادی ہے: اس رات اطاعت کرنے والوں کیلئے بشارت ہے ، ساتویں دروازہ پر ایک فرشتہ آوازدے رہا ہے: کیا کوئی مانگنے والاہے کہ اس کی مانگ پوری کی جائے! اورآٹھویں دروازہ پر ایک فرشتہ اعلان کررہا ہے: کیا کوئی بخشش کا طلبگارہے کہ اسے بخش دیا جائے! میں نے کہا: اے جبرئیل!یہ دروازے کب تک کھلے رہتے ہیں، جبرئیل نے عرض کیا: رات کے ابتدائی حصہ سے فجر طلوع ہونے تک پھر عرض کیا : اے پیکر حمدوثنا ولائق ہر ستائش وخوبی ! یقینااس رات اللہ تعالی قبیلۂ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار بندوں کو دوزخ سے آزاد فرماتاہے ۔ (الغنیۃ لطالبی طریق الحق ،ج:1 ،ص:191،چشتی)

وہ لوگ جن کی شب براء ت بخشش نہ ہوگی : مقام غورہے کہ سارے لوگ اللہ رب العزت کی رحمتوں کو حاصل کررہے ہونگے ، اس کی نعمتوں سے اپنی جھولیوں کو بھر رہے ہوں گے اور اس بخشش والی رات سعادتوں سے اپنے مقدر چمکارہے ہونگے ، ایسی انعام والی رات مغفرت نہ پانا یقینا محرومی کی بات ہے اوراپنے حال پر افسوس وندامت کرنے کی بات ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس رات کی فضیلت سے آگاہ فرمایا، اس رات بٹنے والی رحمتوں ‘برکتوں اور چھٹکارے کا تذکرہ بھی فرمادیا، بات یہیں ختم نہ ہوئی ‘بلکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم گنہگاروں کی بندہ پروری فرماتے ہوئے ؛اس رات محروم رہنے والوں کی تفصیل بھی بتلادی ، چنانچہ اس طرح کرم کا معاملہ فرمایاکہ اگر کوئی شرک وبدعقیدگی ‘قتل وغارت گری اور کینہ پروری میں مبتلا ہوتو شرک وبدعقیدگی کو بالکلیہ طورپرچھوڑے اوردیگر گناہوں پرصدق دل سے توبہ کرلے تواسے سایۂ رحمت میں جگہ دیدی جائیگی ، اگر کوئی ڈاکہ زنی وبدکاری اور سود خوری وشراب نوشی میں ملوث ہوتو ان برائیوں سے باز آجائے اور انہیں آئندہ نہ کرنے کا عہد کرے، متعلقہ افراد کے حقوق ادا کرے اور ان کے املاک واپس کردے تو اس کی کوتاہیوں کو درگزر کردیا جائے گااور اس کے گناہوں کو بھی بخش دیا جائے گا۔

اسی طرح اگر کوئی جادو کررہا ہے ‘ رشتہ داری کاٹ رہاہے اور والدین کی نافرمانی کررہاہے تو اپنے حال زار پر افسوس کرے ،رب العزت کے دربار میں ندامت کے آنسو بہائے اوراپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور اہل حقوق کے حقوق ادا کرے تو اللہ تبارک وتعالی اسے بھی محروم نہیں فرمائے گااور اس رات کی برکتوں سے ضرور مالا مال فرمائے گا ۔
اگر سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم ان گناہوں کی تفصیل نہ بتلاتے ہوتے تو یہ تمام لوگ محروم رہ جاتے ، آپ نے اپنی شان رحمۃ للعالمینی کا صدقہ عطا فرمایا اور اپنے وسعت علم اور نگاہ نبوت کے مشاہدہ کے ذریعہ اُن تمام تر تفصیلات سے ہمیں باخبر فرمایا۔ چنانچہ شعب الایمان میں حدیث پاک ہے ،ام المو منین سید تنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے،وہ شب براء ت کے بارے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بیان فرماتی ہیں : اتانی جبریل علیہ السلام فقال ھذہ اللیلۃ لیلۃ النصف من شعبان و للہ فیھا عتقاء من النار بعدد شعور غنم کلب لا ینظر اللہ فیھا الی مشرک ولا الی مشاحن ولا الی قاطع رحم ولا الی مسبل ولا الی عاق لوالدیہ ولا الی مدمن خمر۔
ترجمہ : حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب براءت جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اورعرض کیا: یہ رات شعبان کی پندرھویں رات ہے، اس رات اللہ تعالیٰ قبیلۂ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار میں دوزخ سے گنہگاروں کو آ زاد فرماتا ہے ، اور اس رات چند لوگوں کی طرف نظررحمت نہیں فر ماتا،(وہ یہ ہیں:) مشرک ، بدعقیدہ اورکینہ پرور، رشتہ داری کاٹنے والا،ٹخنوں کے نیچے لباس رکھنے والا،والدین کا نا فرمان، شراب کاعادی ۔ (شعب الایمان للبیھقی،اکنت تخافین ان یحیف اللہ ، حدیث: 3678) ۔ اس حدیث شریف کے علاوہ شب براءت میں رب العالمین کی رحمتوں سے محروم رہنے والے افراد سے متعلق احادیث مبارکہ میں تفصیلات ملتی ہیں ، جن کی تعداد تقریباً چودہ (14) ہے، وہ یہ ہیں : (1) مشرک ۔ (2) بدعقیدہ ۔ (3) کینہ پرور ۔ (4) قاتل ۔ (5) زانی وزانیہ ۔ (6) ماں باپ کا نافرمان ۔ (7)رشتہ داری کاٹنے والا ۔ (8) سود خور ۔ (9) شراب کا عادی ۔ (10) جادوگر ۔ (11) کاہن ۔ (12) ڈاکہ زنی کرنے والا ۔ (13) ناجائز طور پر محصول وصول کرنے والا ۔ (14) ازراہ تکبر ٹخنوں کے نیچے لباس رکھنے والا ۔ جب تک یہ لوگ توبہ نہ کریں ‘حق داروں کا حق ادا نہ کریں؛ان کی توبہ درجۂ قبولیت کو نہیں پہنچتی ۔

شب براء ت زیارت قبور کا اہتمام : احادیث شریفہ میں مزارات کی زیارت سے متعلق عام اجازت کے علاوہ بطورخاص شب براء ت میں زیارت کرنے کا ثبوت ملتا ہے، چنانچہ جامع ترمذی شریف ،سنن ابن ماجہ شریف ،مسند احمد ،الترغیب والترھیب ،الغنیۃ لطالبی طریق الحق میں حدیث پاک ہے : عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْلَۃً فَخَرَجْتُ فَإِذَا ہُوَ بِالْبَقِیعِ فَقَالَ أَکُنْتِ تَخَافِینَ أَنْ یَحِیفَ اللَّہُ عَلَیْکِ وَرَسُولُہ‘ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنِّی ظَنَنْتُ أَنَّکَ أَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ ۔فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ .
ترجمہ : ام المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں نے ایک رات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا ،میں نکلی اور دیکھاکہ آپ بقیع میں تشریف فرما ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں اندیشہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں گے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے خیال کیا کہ آپ کسی اور زوجۂ مطہرہ کے پاس تشریف لے گئے ہوںگے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ شب براء ت کو آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ (جامع ترمذی شریف ابواب الصوم ،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان ج1 ص156، حدیث نمبر:744۔ سنن ابن ماجہ شریف،ابواب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیہا ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان حدیث نمبر: 1379،ج1 ص99۔ مسند احمد حدیث نمبر24825۔ مسند الانصار ، حدیث نمبر: 2482۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ج7ص139۔ شعب الایمان للبیہقی ، حدیث نمبر: 3666۔ کنزالعمال ، تابع لکتاب الفضائل ، حدیث نمبر: 35184۔ تفسیر الدرالمنثور :سورۃ الدخان۔1۔ الترغیب والترھیب ج2 ص119۔ الغنیۃ لطالبی طریق الحق ج1ص191،چشتی)

خوشبوئے جانفزا وجود گرامی کا پتہ دیتی ہے : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے ساتھ رہنے کے لئے باری مقرر فرمایا کرتے تھے جس وقت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دولت کدہ میں تشریف فرما تھے اس وقت رات کا کچھ حصہ گزار نے کے بعد ام المومنین کے پاس سے بقیع شریف زیارت کے لئے تشریف لے گئے۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرہ شریفہ میں نہ پایا تو ابتدائًً خیال گذرا کہ شاید دیگر ازواج مطہرات میں سے کسی زوجہ مبارکہ کے پاس تشریف لے گئے ہوں۔ پھر جب آپ نے حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مراقبہ کیا تو خوشبوئے جاں فزا نے دامن دل کھینچ کر بقیع شریف تک پہنچادیا۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے گلیاں، فضائیں معطر رہتیں اور عاشقوں کو پتہ دیتیں کہ محبوب کی سواری یہاں سے گذری ہے اور عاشقان گم گشتۂ ہوش و خرد،َنفَسِ رحمانی کی ہدایت پر حالت مراقبہ میں راہ طے کرتے ہوئے حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشاہدہ سے بہرہ مندہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ام المومنین نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بقیع شریف میں بحالت سجدہ دعا گو ہیں ۔

جیسا کہ حضرت ملا علی قاری مرقاۃ ،شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں : وفی روایۃ اخری۔ ۔ ۔ فاذاھو ساجد بالبقیع فأطال السجود حتی ظننت انہ قبض فلما سلم التفت الی ۔ اور دوسری روایت میں ہے:ام المومنین رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بقیع شریف میں سجدہ ریز ہیں، اتنا طویل سجدہ فرمایا کہ میں سمجھی کہ آپ حضوریٔ حق سے واپس نہ ہونگے ‘ وصال فرماگئے ہوں۔پھرجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو میری طرف توجہ رحمت فرمائی ۔ (مرقاۃ المفاتیح ‘ج2 ص171،چشتی) ۔ اس مبارک رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بقیع شریف قدم رنجہ فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات بھی زیارت قبورمسنون ومستحب ہے ۔

کیا ہر سال شب براء ت کے موقع پر زیارت قبور سنت ہے ؟ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ شب براء ت میں زیارت قبور کے لئے تشریف لے گئے تھے ،اسی لئے زندگی میں صرف ایک بار زیارت کرلی جائے تو کوئی حرج نہیں، ہر سال شب براء ت کے موقع پر زیارت قبور کا اہتمام بدعت ہے‘‘ان کا یہ قول بغیر دلیل کے دعویٰ اوراستدلال کرنا ہے، جوازروئے شرع قابل قبول نہیں ہوسکتا،کیونکہ احادیث شریفہ کے ذخیرہ میں کہیں یہ صراحت نہیں آئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یا ہر سال زیارت نہیں فرمائی بلکہ اس کے برعکس یہ شہادت موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عام دنوں میں بھی زیارت قبور کا التزام واہتمام فرمایا کرتے ،اور یہ بات حقیقت سے نہایت بعید ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک بار شب براء ت میں زیارت قبور کے لئے تشریف لے گئے ہوں کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی باری ہوتی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات بقیع شریف تشریف لے جاتے۔ جیساکہ صحیح مسلم شریف کتاب الجنائز،ج1ص313 میں حدیث مبارک ہے : عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم کُلَّمَا کَانَ لَیْلَتُہَا مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ إِلَی الْبَقِیعِ فَیَقُولُ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّہُ بِکُمْ لاَحِقُونَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأَہْلِ بَقِیعِ الْغَرْقَدِ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: جب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی باری ہوتی تو آپ رات کے آخری حصہ میں بقیع مبارک تشریف لے جاتے اور فرماتے’’ تم پر سلامتی ہو اے ایمان والو!تمہارے پاس پہنچا ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، روزمحشر ملنے والی نعمتیں تمہارے لئے تیار رکھی ہوئی ہیںاور یقیناً ہم تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! اہل بقیع کی بخشش فرمادے ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الجنائز،ج۱ص313کتاب الجنائز، حدیث نمبر2299)(سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب الامر بالاستغفار للمؤمنین، حدیث نمبر2012)(مسندالامام احمد، مسند الانصار، حدیث نمبر:24297)(صحیح ابن حبان ،فصل فی زیارۃالقبور، ج7 ، ص444، حدیث نمبر:3172)0زجاجۃ المصابیح،باب زیارۃ القبور، ج1ص487،چشتی)
اگرکسی کو یہی اصرار ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک بار زیارت فرمائی ہے تب بھی نفس زیارت تو ثابت ہوئی، اگر کوئی امتی ایک بار یا ہر سال اہتمام کرے تو بہر طور وہ اللہ تعالی کے پاس محبوب وپسندیدہ ہی ہوگا ،کتب اسلامیہ کا مطالعہ کرنے والوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ جو عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یا چند مرتبہ فرمایا ہو اس پر امت کی پابندی و مواظبت سے وہ سنت بدعت نہیں ہوتی بلکہ بقدر پابندی عمل کرنے والا اجروثواب کا مستحق ہوتاہے۔
جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک میں ہے : وان احب الاعمال الی اللہ ادومھا وان قل ۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے پاس محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مواظبت و پابندی کی جائے، اگرچہ وہ تھوڑاہو ۔ (صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل،حدیث نمبر:6464!صحیح مسلم،،کتاب صلوۃ المسافرین وقصرھا ،حدیث نمبر783 !سنن نسائی،ابواب القبلۃ،باب المصلی یکون بینہ وبین الامام سترۃ،حدیث نمبر:754 )
اور صحیح مسلم شریف کی روایت میں ہے : وَکَانَ آلُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا عَمِلُوا عَمَلاً أَثْبَتُوہُ . حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کرام جب بھی کوئی عمل کرتے تو اس پر مواظبت کرتے۔(صحیح مسلم ،کتاب صلوۃ المسافرین وقصرھا ،حدیث نمبر1863،چشتی)

شب براء ت میں آتش بازی کی قباحت : آتش بازی میں بلا کسی فائدہ کے مال ضائع ہو تا ہے ، یہ فضول خرچی اور اسراف ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیرًا . إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینْ ۔ اور فضول خرچی بالکل مت کرو ، بیشک فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں ۔ (سورۃ بنی اسرائیل،آیت:26/27) ۔ آتش بازی میں کسی عضوکے ہلاک ہونے کااندیشہ رہتا ہے جبکہ شریعت مطہرہ میں اپنے آپ کو ہلاکت میںڈالنے سے منع کیاگیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے : وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ۔ تم اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (سورۃ البقرۃ،آ یت:195)

مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ اپنے وقت عزیز کو لایعنی اور بے فائدہ امور میں صرف کرے، جیسا کہ جامع ترمذی شریف ج2ص58میں حدیث پاک ہے : من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ ۔ ترجمہ : انسان کے مسلمان ہونے کی خوبی یہ ہیکہ وہ بے فائدہ چیز چھوڑدے ۔ اسی لئے فقہاء کرام نے یہ صراحت کی ہے : (و)کرہ (کل لھو)لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام کل لھو المسلم حرام الا ثلاثۃ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسلمان کیلئے ہر غافل کرنے والے کھیل مکروہ ہیں بجزتین کے ۔ ۔ ۔ ۔ (الدرالمختار، ج:5ص279)
ان مفاسد و خرابیوں کی وجہ سے آتش بازی شریعت اسلامیہ میں فی نفسہ درست نہیں بالخصوص اس مبارک و باعظمت رات میں اللہ تعالی کی رضاجوئی اور توبہ و استغفارکرنے کے بجائے آتش بازی میں مشغول رہنا رحمت الٰہی سے روگردانی اختیار کرنے اور نعمت خداوندی کی ناقدری کرنے کے برابر ہے ۔
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : ومن البدع الشنیعۃ ما تعارف الناس فی اکثر بلا دالھند من.......و اجتما عھم اللھوواللعب بالنار واحتراق الکبریت ۔ ان بری بدعتوں میں جو ہندوستان کے باشندوں میں رواج پکڑی ہے آتشبازی، پٹاخے چھوڑنا اور گندہک جلانا ہے ۔ (ما ثبت بالسنۃ،ص:87)
مسلمان اس متبرک اور رحمت والی رات میں آتش بازی جیسے لا یعنی اوربے فائدہ امور سے احتراز کریں اور اللہ تعالی کی رحمتوں سے اپنے دامن مراد کو بھرلیں۔

شب براء ت بطور خاص غیر شرعی امور سے باز رہیں : اسلام ‘امن و سلامتی عطا کرنے والا تہذیب وشائستگی کی تعلیم دینے والامقدس دین ہے، جس کے احکام وقوانین اقوام عالم کے ہر فرد و ہر قبیلہ، ہر رنگ و نسل، ہر زماں و مکاں کیلئے امن و شانتی ‘راحت و اطمینان فراہم کرتے ہیں، جس کا پیغامِ امن اپنے ماننے والوں تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام عالم انسانیت کیلئے ہے ۔
زمین پر کسی بھی قسم کا فتنہ وفساد، نقصان و خسران،قتل و غارتگری اس دین متین میںبالکل ناجائز و ممنوع ہے، ارشاد باری تعالی ہے : وَلَا تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِہَا ۔ ترجمہ:تم زمین میں اصلاح کے بعد فساد مت کرو!۔(سورۃالاعراف،آیت:65)

مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے طرز عمل اور گفتار سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور سارے لوگ اس سے محفوظ و مامون رہیں، مشکوۃ ، ج1’ص15‘ میںجامع ترمذی اور سنن نسائی کے حوالہ سے منقول ہے:

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ والمؤمن من امنہ الناس علی دمائھم واموالھم۔
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مؤمن وہ ہے جس سے سارے لوگ اپنی جان ومال سے متعلق بے خوف رہیں ۔

اسلامی قانون میں اس بات کی صراحت ہے کہ غیر مسلم سے بھی تکلیف کودور کرنا اور اس کی ایذاء رسانی سے احتراز کرنا ضروری ہے،در مختار میں ہے : ویجب کف الاذی عنہ وتحریم غیبتہ کالمسلم ۔ غیر مسلم کی تکلیف دور کرنا لازم اور اس کی غیبت کرنا حرام ہے جس طرح کسی مسلمان کو تکلیف دینا اور اس کی غیبت کرنا حرام ہے ۔ ( درمختار ’ج3ص272،چشتی)

رات دیر گئے نوجوانوں کا گروہوں کی شکل میں ٹوویلر اور فور ویلر پر سوار ہو کر راہرووں کو ایذاء پہنچانا،سواریوں، دفاتر ‘دکانوں اور لوگوں کی دیگر املاک پر سنگباری کرنا اور راستے مسدود کر کے سواریوں پر مختلف کرتب دکھانا،آتش بازی کے ذریعہ پرُامن فضامیں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنا‘اسلامی احکام و قوانین کے بھی متضاد اور مخالف ہے اور بتقاضۂ انسانیت بھی قابل مذمت ہے۔ خاص طور پر مقدس راتوں میں اس طرح کا عمل سخت ترین گناہ ہے۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے کے حقوق و آداب بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: جب تم کوبیٹھنا ہی ہوتو راستے کا حق دیا کرو! صحابہ کرام نے عرض کیا: راستہ کا حق کیا ہے؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تو آپ نے ارشاد فرمایا:نظر نیچی رکھنا، تکلیف دہ چیز کو دور کرنا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم کرنااور برائی سے روکنا ۔
(صحیح البخاری ، کتاب المظالم،باب افنیۃ الدور والجلوس فیھا،حدیث نمبر2465-صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النھی عن الجلوس فی الطرقات،حدیث نمبر 5685۔زجاجۃ المصابیح ج4ص 7،چشتی)
لہٰذاان مقدس راتوں میں ہر طرح کے غیر شرعی امور سے اجتناب کریں، عبادت و اطاعت کے ذریعہ رحمت و سعادت حاصل کرنے کی سعی کریں ۔
شب معراج‘ شب براء ت اور دیگر مقدس راتوںاور ایام میں زندگی کواللہ تعالی اوراس کے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت اور ان کی رضا و خوشنودی میں گزاریں ۔

چودہ 14 رکعات نمازکی خصوصی فضیلت : شب براء ت میں کس طرح عبادت کی جائے اس سے متعلق امام بیہقی نے شعب الایمان میں حدیث پاک نقل کی ہے : عن ابراہیم ، قال ، قال علی ، رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ النصف من شعبان قام فصلی أربع عشرۃ رکعۃ ۔ثم جلس بعد الفراغ، فقرأبأم القرآن أربع عشرۃ مرۃ ، وقل ہو اللہ أحد أربع عشرۃ مرۃ وقل أعوذبرب الفلق أربع عشرۃ مرۃ وقل أعوذبرب الناس أربع عشرۃ مرۃ ،وآیۃ الکرسی مرۃ و’’لقد جاء کم رسول من انفسکم ، الآیۃ ‘‘، فلمافرغ من صلاتہ سألتہ عما رایت من صنیعہ قال : (من صنع مثل الذی رایت کان لہ کعشرین حجۃ مبرورۃ ،وصیام عشرین سنۃ مقبولۃ ، فان اصبح فی ذلک الیوم صائماکان لہ کصیام سنتین سنۃ ماضیۃ ، وسنۃ مستقبلۃ ۔
ترجمہ : حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کی پندرھویں رات قیام فرما دیکھا او رآپ نے چودہ 14 رکعت نماز ادا فرمائی ۔ پھر بعد فراغت نماز آپ تشریف فرما ہوئے اور چودہ مرتبہ سورۃ الفاتحہ ، چودہ مرتبہ سورۃ الاخلاص ، چودہ مرتبہ سورۃ الفلق ،چودہ مرتبہ سورۃ الناس اور ایک مرتبہ آیۃ الکرسی او ر(سورہ توبہ کی آیت128) لقد جاء کم رسول من انفسکم تلاوت فرمائی۔جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا سے فارغ ہوئے تو میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے اس مبارک عمل سے متعلق دریافت کیا جس کو میںنے دیکھا تھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کوئی شخص اس طرح عمل کرے گا جس طرح تم نے دیکھا ہے تو اس شخص کیلئے بیس 20 مقبول حج اوربیس 20 سال کے مقبول روزوں کا ثواب ہے۔اگر وہ اس دن (پندرھویں تاریخ کو)روزہ رکھے گا تو اس کیلئے دو سال ،ایک گزشتہ اور ایک آئندہ سال کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا ۔ ( شعب الایمان للبیھقی ،کتاب الصوم حدیث نمبر:3683، الدرالمنثور،سورۃ الدخان۔جامع الاحادیث ، مسند العشرۃ،حدیث نمبر:33372،چشتی)

گوکہ اس حدیث کی سند میں کلام ہے تاہم فضیلت عمل کے باب میں ضعیف اور متکلم فیہ روایت کو بھی قبولیت حاصل ہے‘ جس طرح ماہ رمضان کی فضیلت کے بارے میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت مروی ہے ،جس کو امام بیہقی نے شعب الایمان(حدیث نمبر:3455) میں نقل کیا ہے، اُس حدیث کو دیگر مکاتب فکر کے علماء بھی بیان کرتے ہیں ‘حالانکہ اس کی سند میں بھی کلام ہے ، علامہ بدرالدین عینی ودیگر شارحین حدیث نے تو فضائل رمضان سے متعلق حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت کو ’’منکر‘‘ کہا ہے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری شریف کی عظیم شرح’’عمدۃ القاری ‘‘میں علامہ عینی لکھتے ہیں : ولا یصح إسنادہ وفی سندہ إیاس قال شیخنا الظاہر أنہ ابن أبی إیاس قال صاحب(المیزان ) إیاس بن أبی إیاس عن سعید بن المسیب لا یعرف والخبر منکر . اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے اور اس سند میں’’ایاس‘‘ہیں،ہمارے شیخ نے کہا:ظاہر بات ہے کہ اس سند میں’’ابن ابی ایاس‘‘ ہیں، صاحب المیزان نے کہاکہ’’ ایاس ابن ابی ایاس‘‘کا حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کرنا معروف نہیں!لہذا یہ روایت منکر ہے ۔ (عمدۃ القاری ، باب ھل یقال رمضان او شھر رمضان ومن رای کلہ واسعا،حدیث نمبر:9981،چشتی)
فضائل رمضان والی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت منکر ہونے کے باوجوددیگر مکاتب فکرکے علماء بھی عملی طور پر اُسے قبول کرتے ہیں اور اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں تو پھر شب براء ت میں چودہ رکعت نماز والی اس روایت کو قبول کرنے میں کیا امر مانع ہے ‘ اگر عمل نہ بھی کریں تو کم ازکم اتنا تو کریں کہ جو عمل کر رہے ہیں ان پر ردوانکار نہ کریں ۔

شب براء ت کی مسنون دعائیں : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: شب براء ت میں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا : اَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَاَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْھُکَ لا اُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ ۔
ترجمہ : اے اللہ! میں تیری سزا سے تیرے عفو کی پناہ چاہتا ہوں‘ تیرے غضب سے تیری رضا کی پناہ میں آتاہوں اورتجھ سے تیری ہی پناہ میں آتاہوں‘ تیری ذات بزرگی والی ہے اے اللہ! میں تیری مکمل تعریف کا احاطہ نہیں کرسکتا‘ تو ویسا ہی ہے جس طرح تو نے خود اپنی کی تعریف وثناء کی ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : یا عائشۃ تعلمتھن فقلت نعم فقال تعلمیھن و علمیھن ۔اے عائشہ !کیا تم نے ان (کلمات) کویادکرلیاہے؟ (حضرت عائشہ فرماتی ہیں:) میں نے عرض کیا: ہاں! تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے یاد رکھو اور دوسروں کو سکھاؤ ۔ (شعب الایمان للبیھقی‘ حدیث نمبر:3678،چشتی)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں محبوبیت کے اعلی مقام پر متمکن ہیں وہیں بارگاہ ایزدی میں عبدیت ونیازمندی کے بھی اعلی مدارج پر فائز ہیں‘ چنانچہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بارگاہ الہی میں نیازمندیوں کا نذرانہ پیش کرنے کی تعلیم دی اوریہ کلمات ادا کئے ‘جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پندرھویں شعبان کی رات یہ دعا فرمائی : سَجَدَ لَکَ خَیَالِیْ وَ سَوَادِیْ وَ آمَنَ بِکَ فُؤادِیْ فَھٰذِہِ یَدِیْ وَمَا جَنَیْتُ بِھَا عَلٰی نَفْسِیْ، یَا عَظِیْمُ یُرْجٰی لِکُلِّ عَظِیْم، اِغْفِرِ الذَّنْبَ العَظِیْمَ، سَجَدَ وَجْھِیْ لِلَّذِیْ خَلَقَہُ وَ شَقَّ سَمْعَہُ وَ بَصَرَہُ ۔ ترجمہ : تجھ کو میرے باطن و ظاہر نے سجدہ کیا اور میرا دل تجھ پر ایمان رکھتا ہے تو یہ میرا ہاتھ ہے اور جو کچھ میں نے اس سے اعمال کئے ہیں ‘ اے بزرگ و برتر جس کی ہر بڑے مقصدکے لئے امید کی جاتی ہے (میری امت کے) بڑے گناہ کو معاف فرمادے ‘ میرے چہرہ نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اس کو پیدا کیا اور اس میں کان اور آنکھ بنائے ۔ (شعب الایمان للبیھقی‘ حدیث نمبر :3680)

آج سے 1200 سال پہلے اہل مکہ شب برات کس طرح گزارتے تھے ؟

تیسری صدی کے مشہور مورخ امام ابو عبداللہ محمد بن اسحاق ابن العباس فاکہی مکی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 275 ھجری) نے اپنی تاریخ کی کتاب اخبار مکہ میں باب کا نام ہی یہ رکھا ہے کہ "ذکر عمل اہل مکۃ لیلۃ النصف من شعبان و اجتہادھم فیھا لفضلھا" اہل مکہ کا شعبان کی پندرہویں 15 رات عمل اور انکا مجاہدہ اس رات کی فضیلت کی وجہ سے 'پھر لکھتے ہیں کہ : اور اہل مکہ کا زمانہ ماضی سے آج تک یہ معمول ہے کہ جب بھی شعبان کی پندرہویں رات آتی ہے تو تمام مرد و عورت مسجد ( حرم ) میں جاتے ہیں نماز پڑھتے ہیں طواف کرتے ہیں اور پوری رات تلاوت کرتے ہوے مسجد حرام میں جاگ کر گزارتے ہیں یہانتک کہ صبح ہو جاتی ہے اس حال میں کہ وہ قرآن کریم مکمل ختم کر چکے ہوتے ہیں پھر نماز پڑھتے ہیں‌ اور ان میں‌سے بعض لوگ اس رات 100 رکعات اس طرح پڑھتے ہیں کہ ہر رکعت میں الحمد کے بعد سورہ اخلاص 10 مرتبہ پڑھتے ہیں اور پھر اس رات زمزم لیتے ہیں اور اسے پیتے ہیں اور اس سے غسل کرتے ہیں مرض سے شفاء کے لئے ، اور اس کے ذریعے اس رات کی برکت تلاش کرتے ہیں اور اس معاملے میں کثیر احادیث مروی ہیں ۔ (اخبار مکۃ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 84‌)


غیر مقلد عالم شمس الحق عظیم آبادی صاحب لکھتے ہیں : ماہِ شعبان کی بندرہویں شب بہت بزرگ ہے نمازیں پڑھنا دعائیں مانگنا ثواب ہے اس کے خلاف کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہے ۔ (فتاویٰ شمس الحق صفحہ نمبر 182غیر مقلد عالم)

شب برات کی عبادات کو بدعت کہنے والے اور بدعت بدعت کی رٹ لگانے والے غیر مقلدین اب کیا فرماتے ہیں ؟

شب برات میں تمام لوگوں کی بخشش مگر کچھ لوگوں کی مغفرت نہیں ہوتی

محدث و مجدد الوہابیہ شیخ ناصر البانی لکھتے ہیں ہیں : پندرہ شعبان کی رات یعنی شبِ برات کو اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے ۔ (سِلسِلہ الاحادیث صحیحہ عربی صفحہ نمبر 135 محدث الوہابیہ شیخ ناصر البانی لکھتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے)، (سِلسِلہ احادیث صحیحہ جلد پنجم صفحہ نمبر 181 مترجم اردو محدث الوہابیہ شیخ ناصر البانی لکھتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے)


مکمل حدیث پاک یہ ہے : عَنْ اَبِیْ مُوسیٰ الاشْعَرِیِّ عَنْ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اِنَّ اللّٰہَ لَیَطَّلِعُ فی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ او مُشَاحِنٍ․ (سنن ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان للبیہقی ۳/۳۸۲۔چشتی)
ترجمہ : حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نظر فرماتا ہے نصف شعبان کی رات میں ، پس اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرمادیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے ۔

”مشاحن“ کی ایک تفسیر اس شخص سے بھی کی گئی ہے جو مسلمانوں کی جماعت سے الگ راہ اپنائے ۔ (مسند اسحاق بن راہویہ ۳/۹۸۱، حاشیہ ابن ماجہ ص۹۹) حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ”زانیہ“ بھی آیا ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت میں ”رشتہ داری توڑنے والا، ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے والا ، ماں باپ کا نافرمان اور شراب کا عادی“ بھی آیا ہے اور بعض روایات میں عشّار، ساحر، کاہن، عرّاف اور طبلہ بجانے والا بھی آیا ہے ۔ گویا احادیث شریفہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عام مغفرت کی اس مبارک رات میں چودہ (14) قسم کے آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی ؛ لہٰذا ان لوگوں کو اپنے احوال کی اصلاح کرنی چاہیے : (1) مشرک، کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو (2) بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی سے کینہ اور دشمنی رکھنے والا (3) اہل حق کی جماعت سے الگ رہنے والا (4) زانی وزانیہ (5) رشتے داری توڑنے والا (6) ٹخنوں سے نیچے اپنا کپڑا لٹکانے والا (7) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (8) شراب یا کسی دوسری چیز کے ذریعے نشہ کرنے والا (9) اپنا یا کسی دوسرے کا قاتل (10) جبراً ٹیکس وصول کرنے والا (11) جادوگر (12) ہاتھوں کے نشانات وغیرہ دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے والا (13) ستاروں کو دیکھ کر یا فال کے ذریعے خبر دینے والا (14) طبلہ اور باجا بجانے والا۔ (شعب الایمان ۳/۳۸۲، ۳۸۳، الترغیب والترہیب ۲/۷۳، مظاہر حق جدیث ۲/۲۲۱، ۲۲۲۔چشتی)،(مراۃ شرح مشکوٰۃ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)





Thursday 25 March 2021

سیاست و امارت حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ

0 comments

 سیاست و امارت حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ


محترم قارئینِ کرام : صحابیِّ رسول ، کاتبِ وحی ، خالُ المؤمنین و خلیفۃُ المسلمین حضرتِ سَیِّدُنا امیر ِمُعاوِیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ (جو کہ اوّل ملوکِ اسلام (پہلے سلطانِ اسلام) بھی ہیں) بعثتِ نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے ۔ (دلائل النبوۃللبیھقی،ج6، ص243، ملتقطاً۔ تاریخ ابن عساکر،ج3، ص208۔ الاصابۃ،ج6، ص120، بہارشریعت،ج1، ص258)


آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ صحابی رسول حضرت ابوسفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بیٹے اور اُمّ المومنین حضرتِ سَیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے بھائی ہیں ۔ آپ کی شان میں کئی احادیث مروی ہیں ۔ حضور نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ کے بارے میں یوں دعا فرمائی : اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! انہیں (امیر معاویہ کو) ہدایت دینے والا ، ہدایت یافتہ بنا اور اِن کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے ۔ (ترمذی،ج5، ص455، حدیث: 3868،چشتی)


آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ چالیس سال تک حکومتی مَنْصَب پر جلوہ اَفروز رہے ۔ جن میں 10 سال امیر المومنین حضرتِ سَیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جیسے عادل و نَقَّاد خلیفہ کا سنہری دور بھی شامل ہے ۔ حضرتِ سَیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے : تم قیصر و کِسریٰ اور ان کی عقل و دانائی کا تذکرہ کرتے ہو جبکہ معاویہ بن ابوسفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ موجود ہیں ۔ (تاریخ طبری،ج3، ص264)


حضرت سَیِّدُنا امیرمعاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے زمانَۂ خلافت میں اِسلامی سلطنت  خُراسان سے مغرب میں واقع افریقی شہروں اور قُبْرُص سے یَمَن تک پھیل چکی تھی ۔


حضرت سیدنا مولا علی المرتضیٰ مشکل کشاء رضی ﷲ عنہ نے جنگ صفین سے واپسی پر فرمایا  : امارت معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بھی خزانہ سمجھو کیونکہ جس وقت وہ نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا ہوا دیکھو گے ۔ (البدایہ والنہایہ عربی صفحہ نمبر 131)


مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں امارت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نا پسند نہ کرو اگر تم نے انہیں کھو دیا تو سر گردنوں سے گرینگے جیسے حنظل گرتا ہے ۔ (مصنفف ابن ابی شیبہ مترجم اردو جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 765 مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی نظر میں اتنا اہمیت و قدر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مگر نام نہاد محبانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بغض حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں مرے جا رہے ہیں اور کھلے و سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی توہین پہ توہین کرتے چلے جا رہے ہیں کیا ذرا سوچو تم لوگ کیا کر رہے ہو فرامین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو جھٹلا اور ان کی توہین کر رہے ہو ۔ فرمان حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اگر تم نے انہیں کھو دیا پر توجہ فرمائیں ۔


امام حسن رضی اللہ عنہ نے جب خلافت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کی ، صلح کی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت منھج رسول ، منھج خلفاء راشدین پے رہی الا چند مجتہدات کے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت عادلہ راشدہ کہلائی تو ایسی حکومت زندہ باد کیوں نہ ہو ؟ ایسی سیاست و کردار کا فیضان کیوں نا جاری رہے ؟


وقد كان ينبغي أن تلحق دولة معاوية وأخباره بدول الخلفاء وأخبارهم فهو تاليهم في الفضل والعدالة والصحبة ۔

سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے جب حکومت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو دی انکی بیعت کی ، ان سے صلح کی تو اس کے بعد سیدنا معاویہ کی حکومت خلفاء راشدین کی حکومت کی طرح حکومت عادلہ و راشدہ کہلانی چاہیے اور سیدنا معاویہ کے اقوال و اخبار بھی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے اقوال و اخبار کی طرح کہلانے چاہیے کیونکہ فضیلت عدالت اور صحابیت میں سیدنا معاویہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے بعد ہیں ۔ (تاریخ ابن خلدون2/650،چشتی)


فأرسل إِلَى معاوية يبذل له تسليم الأمر إليه، عَلَى أن تكون له الخلافة بعده، وعلى أن لا يطلب أحدًا من أهل المدينة والحجاز والعراق بشيء مما كان أيام أبيه، وغير ذلك من القواعد، فأجابه معاوية إِلَى ما طلب، فظهرت المعجزة النبوية في قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إن ابني هذا سيد يصلح اللَّه به بين فئتين من المسلمين “.ولما بايع الحسن معاوية خطب الناس ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ خلافت و حکومت معاویہ کو دینے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت انہیں ملے گی اور یہ بھی شرط کی کہ اہل مدینہ اہل حجاز اور اہل عراق میں سے کسی سے بھی کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا اور اس کے علاوہ بھی کچھ شرائط رکھیں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان شرائط کو قبول کرلیا تو نبی کریم صلہ اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وہ معجزہ ظاہر ہوگیا کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ میرا بیٹا یہ سید ہے اللہ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا اور سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی بیعت کر لی تو خطبہ بھی دیا ۔ (أسد الغابة ,2/13)


امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرو ، اطاعت کرو


جمع الحسن رءوس أهل العراق في هذا القصر قصر المدائن- فقال: إنكم قد بايعتموني على أن تسالموا من سالمت وتحاربوا من حاربت، وإني قد بايعت معاوية، فاسمعوا له وأطيعو ۔

ترجمہ : سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے مدائن کے ایک محل میں عراق وغیرہ کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ تم صلح کر لو گے اس سے جس سے میں صلح کروں اور تم جنگ کرو گے اس سے جس سے میں جنگ کروں تو بے شک میں نے معاویہ کی بیعت کر لی ہے تو تم بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بات سنو مانو اور اطاعت کرو ۔ (الإصابة في تمييز الصحابة ,2/65،چشتی)


قَالَ كَعْب الْأَحْبَار لم يملك أحد هَذِه الْأمة مَا ملك مُعَاوِيَة ۔

ترجمہ : سیدنا کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جیسی (عظیم عادلہ راشدہ) بادشاہت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تھی ایسی کسی کی بادشاہت نہیں تھی ۔ (صواعق محرقہ2/629)


وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِيَةَ ۔

ترجمہ : سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا ۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,9/357 روایت15921)(السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/441)


ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُوْلُ:مَا رَأَيْتُ رَجُلاً كَانَ أَخْلَقَ لِلمُلْكِ مِنْ مُعَاوِيَةَ ۔

ترجمہ : سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا کے میں نے (رسول کریم اور خلفاء راشدین وغیرہ مستحقین کے بعد) معاویہ سے بڑھ کر حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے کسی کو عظیم مستحق ترین , لائق ترین اور عظیم اخلاق والا نہیں پایا ۔ (سير أعلام النبلاء3/153)


عَنِ ابْن عُمَر، قَالَ: مَا رأيت أحدا بعد رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أسود من مُعَاوِيَة. فقيل لَهُ: فأبو بَكْر، وَعُمَر، وعثمان، وعلي! فَقَالَ: كانوا والله خيرا من مُعَاوِيَة، وَكَانَ مُعَاوِيَة أسود منهم ۔

ترجمہ : سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا … کسی نے پوچھا کہ ابوبکر عمر عثمان اور علی رضی اللہ عنہم سے بھی زیادہ ۔۔۔؟ فرمایہ کہ یہ سب حضرات سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل تھے مگر کثرت کرم نوازی بردباری سخاوت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ زیادہ تھے ۔ (الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,3/1418،چشتی)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور عشق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم


أوصى أن يكفن فِي قميص كَانَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قد كساه إياه، وأن يجعل مما يلي جسده، وَكَانَ عنده قلامة أظفار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فأوصى أن تسحق وتجعل فِي عينيه وفمه ۔

ترجمہ : سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے وصیت کی تھی کہ انہیں کفن میں وہ قمیض پہنائی جائے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہنائی تھی اور سیدنا معاویہ کے پاس حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ناخن مبارک کے ٹکڑے تھے ان کے متعلق وصیت فرمائی کہ وہ ان کی آنکھوں اور منہ پر رکھے جائیں ۔ (أسد الغابة ,5/201)


جہاد و فتوحاتِ  اور انقلابی کارنامے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ


اسلامی شہروں سازشوں کے ذریعے فتنہ پھیلانے والے  خَوارِج کی سرکوبی فرمائی، یہاں تک کہ  فتنہ مکمل طور پر ختم ہوگیا ۔ آپ کے حکم سے تاریخ کی پہلی کتاب کتابُ المُلُوك وَ اَخبَارُ الْمَاضِین لکھی گئی ۔ (التراتیب الاداریہ،ج2،ص322) ، 28 ہجری میں اسلام کی سب سے پہلی بحری فوج کی قیادت فرمائی اور قُبْرُص کو فتح کیا ۔ (شرح ابن بطال ،ج5، ص11، تحت الحدیث: 2924)


بحری جہاز بنانے کے لئے 49ہجری  میں کارخانے قائم فرمائے اور ساحل پر ہی تمام کاریگروں کی رہائش وغیر ہ کا انتظام کردیا تاکہ  بحری جہاز بنانے کے اہم  کام میں  خَلل واقع  نہ ہو ۔ (فتوح البلدان،ص161)


مکتوبات پر مہر لگانے کا طریقہ  رائج فرمایا جس کا سبب یہ بنا کہ آپ نے ایک شخص  کیلئے بَیْتُ المال سے ایک لاکھ درہم  دینے کا حکم تحریر فرمایا لیکن اس نے تَصَرُّف کرکے اسے ایک کے بجائے دو لاکھ کردیا،آپ کو جب اس خیانت کا عِلْم ہوا تو  اُس کا مُحاسَبَہ فرمایا اور اس کے بعد  خُطوط پر مہر لگانے کا نِظام نافِذ فرما دیا ۔ (تاریخ الخلفا، صفحہ 160،چشتی)


سرکاری خُطوط کی نقل محفوظ رکھنے کا نظام بنایا ۔ (تاریخ یعقوبی،ج2، ص145)


سب سے پہلے کعبہ شریف میں منبر کی ترکیب بنائی ۔ (تاریخ یعقوبی،ج2، ص131)


اور سب سے پہلے خانہ کعبہ پر دِیبا  و حَرِیر (یعنی ریشم) کا قیمتی غلاف چڑھایا اور خدمت کے لیے مُتَعَدِّد غلام مُقَرَّر کیے ۔ (تاریخ یعقوبی، ج2، ص150)


عوام کی خیرخواہی کیلئے شام اور روم کے درمیان میں واقع ایک  مَرْعَش نامی غیر آباد علاقے میں فوجی چھاؤنی قائم فرمائی ۔ (فتوح البلدان، ص265)


اَنْطَرطُوس، مَرَقِیَّہ جیسے غیر آباد علاقے بھی دوبارہ آباد فرمائے ۔ (فتوح البلدان، ص182)


نئے آباد ہونے والے علاقوں میں جن جن چیزوں کی ضرورت تھی ،اُن کا انتظام فرمایا مثلاً لوگوں کو پانی فراہم کرنے کے لئے نہری نظام قائم فرمایا ۔ (فتوح البلدان، ص499)


رعایا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے محکمہ بنایا جس کے تحت ہر علاقے میں ایک ایک افسرمقرر تھا تاکہ وہ لوگوں کی معمولی ضرورتیں خودپوری کرے اوربڑی ضرورتوں سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو آگاہ کرے نیزان کو کسی بھی گھر میں آنے والے مہمان یا بچے کی ولادت کے بارے میں معلومات رکھنے کا حکم دیا تاکہ ان کے وظائف کی ترکیب بنا سکیں ۔ (البدایہ و النہایہ،ج8،ص134،مراٰۃ المناجیح،ج5،ص374 )


وفي سنة ثلاث وأربعين فتحت الرخج وغيرها من بلاد سجستان، وودان من برقة، وكور من بلاد السودان ۔ وفي سنة خمس وأربعين فتحت القيقان قوهستان ۔

خلاصہ : رخج وغیرہا کئ ممالک سجستان ودان کور سوڈان قعقان قوہستان وغیرہ کئ ممالک سلطنتیں سیدنا معاویہ کے دور میں فتح ہوئے…عرب تا افریقہ تک تقریبا آدھی دنیا پر سیدنا معاویہ کی حکومت تھی ۔ (تاريخ الخلفاء)


سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اہلبیت و امام حسن رضی اللہ عنہم کی تعظیم و خدمت


اس صلح کے وقت واقعہ یہ ہوا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس سادہ کاغذ بھیجا اور فرمایا کہ آپ جو شرائط صلح چاہیں لکھ دیں مجھے منظور ہے ،ا مام حسن رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ اتنا روپیہ سالانہ بطور وظیفہ ہم کو دیا جایا کرے اور آپ کے بعد پھر خلیفہ ہم ہوں گے، آپ نے کہا مجھے منظور ہے ۔ چنانچہ آپ سالانہ وظیفہ دیتے رہے اس کے علاوہ اکثر عطیہ نذرانے پیش کرتے رہتے تھے ، ایک بار فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ نذرانہ دیتا ہوں جو کبھی کسی نے کسی کو نہ دیا ہو۔چنانچہ آپ نے اربعۃ مائۃ الف الف نذرانہ کیے یعنی چالیس کروڑ روپیہ ۔ (مرقات) جب امام حسن رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ، کسی نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں فرمایا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ ہم شکل مصطفی ہیں صلی الله علیہ وسلم اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں ۔ (مراۃ شرح مشکوٰۃ 8/460)


سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی خدمت


سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو تحفے تحائف تک بھیجا کرتے تھے جو اس طرف واضح اشارہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ رسول کریم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا خیال رکھا کرتے تھے ۔


أَهْدَى مُعَاوِيَةُ لِعَائِشَةَ ثِيَابًا وَوَرِقًا وَأَشْيَاءَ ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو کپڑے اور چاندی کے سکے(نقدی) اور دیگر چیزیں تحفے میں بھیجیں ۔(حلية الأولياء 2/48)


أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ ۔

ترجمہ : (رسول کریم نے حسن حسین وغیرہ اہلبیت سے فرمایا) تم جس سے جنگ کرو میری اس سے جنگ ہے،تم جس سے صلح کرو میری اس سے صلح ہے ۔ (صحیح ابن حبان حدیث6977)،(شیعہ کتاب بحار الانوار32/321)


شیعہ ، رافضی ، نیم رافضی سچے مسلمان نہیں ، سچے محب اہلبیت نہیں ….. حسنی حسینی سچا مسلمان اور سچا محبِ اہلبیت وہ ہےجو یزیدیت سے جنگ اور معاویت سے صلح رکھے ، زبان قابو میں رکھے کیونکہ حجرت سیدنا امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنھما نے حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید سے جنگ کی …… اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی صلح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح اور انکی جنگ رسول کریم کی جنگ ہے ۔


سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث و سنت کی اتباع و پیروی اور عوام کی فلاح


أَنَّ أَبَا مَرْيَمَ الْأَزْدِيَّ، أَخْبَرَهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ ،فَقَالَ: مَا أَنْعَمَنَا بِكَ….فَقُلْتُ: حَدِيثًا سَمِعْتُهُ أُخْبِرُكَ بِهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَاحْتَجَبَ دُونَ حَاجَتِهِمْ، وَخَلَّتِهِمْ وَفَقْرِهِمْ، احْتَجَبَ اللَّهُ عَنْهُ دُونَ حَاجَتِهِ وَخَلَّتِهِ، وَفَقْرِهِ» قَالَ: فَجَعَلَ رَجُلًا عَلَى حَوَائِجِ النَّاسِ ۔ (ابوداود حدیث2948بالحذف الیسیر)

ترجمہ : صحابی سیدنا ابو مریم الازدی رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ کی تشریف آوری سے ہمارا دل باغ بہار ہوگیا ، فرمائیے کیسے آنا ہوا …….؟؟ صحابی ابو مریم الازدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں آپ کو ایک حدیث پاک سنانے آیا ہوں “رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے اللہ نے مسلمانوں کی حکومت (لیڈری، ذمہ داری، عھدے داری) سے نوازا ہو اور وہ لوگوں پر اپنے دروازے بند کر دے حالانکہ لوگ تنگ دستی میں ہوں حاجات والے ہوں اور فقر و فاقہ مفلسی والے ہوں تو اللہ قیامت کے دن ایسے (نا اہل) حکمران و ذمہ دار پر (رحمت کے ، جنت کے) دروازے بند کر دے گا حالانکہ وہ تنگ دست ہوگا حاجت مند ہوگا مفلس و ضرورت مند ہوگا …” صحابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیث پاک سنتے ہی فورا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی حاجات و مسائل کے سننے ، حل کرنے ، مدد کرنے کے لیے ایک شخص کو مقرر کر دیا ۔ (ابوداود حدیث2948بالحذف الیسیر)


سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے جب حکومت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سپرد کردی اور بیعت کی اور ان کی بیعت کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم دے دیا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ متبع سنت تھے عادل و راشد تھے عاشق رسول تھے صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم وغیرہ کا احترام و خدمت کرتے تھے اور اپنی حکومت منھج سنت و منھج ِ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم پر چلائی الا بعض اجتہادی مسائل کے اور بخاری میں ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فقیہ یعنی مجتہد تھے تو ثابت ہوا کہ ان کی حکومت اچھی عادلہ راشدہ تھی اس لیے ان کی سیاست زندہ باد کہنا اور فیضان معاویہ رضی اللہ عنہ جاری رہے گا کا نعرہ لگانا بے جا نہیں برحق و سچ ہے … ہاں یزید ملعون کی سیاست و حکومت یزیدت مردہ باد لیکن والد کی وفات کے بعد بیٹے کے کرتوت ہوں تو اس کی وجہ سے باپ پر کوئی الزام حرف نہیں آتا ۔


آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات ، قندھار، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ، ترمذ،شمالی افریقہ ،جزیرہ روڈس ،جزیرہ اروڈ ،کابل ،صقلیہ (سسلی ) سمیت مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔ ان فتوحات میں غزوہ قسطنطنیہ ایک اہم مقام رکھتاہے ۔ یہ مسلمانوں کی قسطنطنیہ پر پہلی فوج کشی تھی ، مسلمانوں کا بحری بیڑہ سفیان ازدی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روم سے گزر کر قسطنطنیہ پہنچا اور قلعے کا محاصرہ کرلیا ۔


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب شام پر لشکر کشی ہوئی تو حضرت ابو سفیان کے دونوں بیٹے یزید اور معاویہ رضی اللہ عنہم اس فوج کے آفیسر تھے۔ ان دونوں بھائیوں نے وہاں غیر معمولی کارنامے سر انجام دیے۔ حضرت ابوبکر نے حضرت یزید بن ابی سفیان کو شام کا گورنر مقرر کیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کو ان کا نائب بنایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ان عہدوں پر بحال رکھا۔ 19/640 میں حضرت معاویہ نے رومیوں کی مشہور فوجی چھاؤنی “قیساریہ” کو فتح کر لیا۔ اگلے برس ان کے بھائی یزید نے طاعون کے مرض میں مبتلا ہو کر وفات پائی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی جگہ حضرت معاویہ کو مقرر کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب روم، قیصر کے قبضے سے نکل رہا تھا۔ حضرت معاویہ نے رومن ایمپائر کی افواج کو پے در پے شکستیں دے کر پورے شام کو فتح کر لیا۔


جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے گورنروں سے کم ہی مطمئن ہوتے تھے اور ان کا تبادلہ کرتے رہتے تھے۔ یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی غیر معمولی پرفارمنس تھی، جس کی وجہ سے حضرت عمر نے اتنے غیر معمولی اور حساس صوبے پر آپ کو گورنر مقرر کیے رکھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے عہدے پر بحال رکھا اور ان کے حسن انتظام کی وجہ سے دیگر علاقے بھی انہی کی گورنری میں دے دیے۔ حضرت معاویہ نے حضرت عثمان کے زمانے میں موجودہ ترکی کا تیس فیصد حصہ فتح کر لیا اور ماضی کی عظیم ایسٹرن رومن ایمپائر جو کئی صدیوں سے ایشیا اور افریقہ پر اپنا قبضہ برقرار رکھے ہوئے تھی، کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ کے پے در پے حملوں کے نتیجے میں قیصر روم، جو کبھی تین براعظموں پر حکومت کرتا تھا، اب محض موجودہ ترکی کے تھوڑے سے حصے تک محدود ہو کر رہ گیا۔


یہی وجہ ہے کہ مشہور مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے جب تاریخ انسانی کی موثر ترین 200 شخصیات کی فہرست تیار کی، تو مسلمانوں میں سے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر کے بعد تیسرے نمبر پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کو رکھا ۔

(Hart, Micheal H. The 100. A Ranking of the Most Influential Persons in History. P. 510. New York: Carol Publishing Group Edition (1993).


حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے تاریخ اسلامی کی پہلی بحری فوج تیار کی جس نے بحیرہ روم پر قیصر کے قبضے کو ختم کر دیا۔ آپ نے بحیرہ روم کے ساحلوں پر جہاز سازی کی عظیم صنعت قائم کی جس نے ابتدائی سالوں ہی میں عالم اسلام کو 1700 جنگی جہازوں سے مسلح کر دیا۔ اس سے دنیا کے اہم ترین سمندروں پر مسلمانوں کے غلبے کا جو آغاز ہوا، وہ گیارہ سو برس تک قائم رہا۔ آپ نے جزیرہ قبرص (Cyprus)، روڈس (Rhodes) بعد میں سسلی کو بھی فتح کر لیا جو موجودہ اٹلی کا اہم ترین حصہ ہے۔ اس طرح یورپ میں مسلمانوں کے قدم پہلی مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کے ذریعے پہنچے۔ ان تمام علاقوں کا حسن انتظام ایسا تھا کہ جس کی مثال عالم اسلام کے دیگر مفتوحہ علاقوں میں نہیں ملتی ہے۔ آپ کے علاقوں میں بغاوتیں نہ ہونے کے برابر رہی ہیں جبکہ اس کے برعکس عراق، ایران، خراسان، مصر وغیرہ میں آئے دن بغاوتیں ہوتی رہی ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ وہ خوبیاں ہیں، جن کا اعتراف مخالف و موافق سبھی کرتے ہیں۔


حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ایک خود مختار حکمران کے طور پر رہے لیکن آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضل اور کمالات کے معترف تھے ۔ آپ کا اختلاف صرف یہ تھا کہ باغی تحریک کو قرار واقعی سزا دی جائے یا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ، ان کے خلاف کاروائی میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے راستے میں حائل نہ ہوں ۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے امام حسن رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر کے امت مسلمہ کو متحد کیا ۔


جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے رومن ایمپائر سے جہاد کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا ۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ قیصر روم اپنی ترکی کی چھوٹی سی حکومت پر قانع نہ تھا اور ایشیا اور افریقہ میں اپنا اقتدار دوبارہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ وہ کئی مرتبہ شام پر لشکر کشی کر چکا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے رومیوں کے مقابلے کے لیے دو افواج تیار کیں جو سردی اور گرمی کی افواج کہلائیں۔ اگر آپ تاریخ طبری میں حضرت معاویہ کے دور کا مطالعہ کریں تو ہر سال کے آغاز میں طبری لکھتے ہیں کہ اس سال فلاں نے سردیوں کا جہاد کیا اور فلاں نے گرمیوں کا۔ حضرت معاویہ کی یلغاریں نہ صرف مغرب بلکہ مشرق میں بھی جاری رہیں ۔


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جنگی مہمات


27-28ھ/ع648-649

فتح قبرص (Cyprus)


32ھ/ع653

قسطنطنیہ (استنبول)


33ھ/ع653

افطرنطیہ،ملطیہ اور روم کے بعض علاقوں کو فتح


35ھ/ع655

ذی خشب کی مہم


42ھ/ع662

سجستان (موجودہ افغانستان اور پاکستان میں مشترک علاقہ) کی مہم


43ھ/ع663

فتح سوڈان


44ھ/ع664

فتح کابل


45ھ/ع665

لیبیا اور الجزائر کے بعض علاقوں کی فتح


46ھ/ع666

صقلیہ یا سسلی پر پہلا حملہ


50-51ھ/ع670-671

قسطنطنیہ کی پہلی مہم


54ھ/ع674

فتح بخارا


54ھ/ع674

قسطنطنیہ کی دوسری مہم


56ھ/ع676

فتح سمر قند


حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ صرف جنگی پلاننگ اور کاروائیوں ہی میں ماہر نہ تھے بلکہ آپ انتظامی اور علمی امور میں ایک غیر معمولی دماغ رکھتے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ڈاک کا نظام قائم کیا تھا ، اسے غیر معمولی ترقی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حاصل ہوئی ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ اس دور کا ایک مواصلاتی انقلاب (Communication Revolution) تھا ۔ اس نظام کی تفصیل یہ ہے کہ مختلف شہروں کے مابین ڈاک کی چوکیوں کا نیٹ ورک بنا دیا گیا ۔ ایک پوسٹ مین تیز رفتار گھوڑے پر ڈاک لے کر دوڑتا ۔ گھوڑے پر ایک گھنٹی لگی ہوتی تھی جو اس کے دوڑنے سے بجتی تھی ۔ اس کی آواز سن کر لوگ گھوڑے کو راستہ دے دیتے اور اسی آواز کو سن کر اگلی چوکی کا پوسٹ مین تیار رہتا۔ جیسے ہی پہلا پوسٹ مین وہاں پہنچتا، تو اگلا پوسٹ مین اس سے ڈاک لے کر گھوڑے کو دوڑا دیتا ۔ یہی سلسلہ تیسری ، چوتھی اور اگلی چوکیوں پر جاری رہتا ۔ اس طرح بہت کم وقت میں ایک شہر سے ڈاک دوسرے شہر پہنچ جاتی ۔ ڈاک ہی سے متعلق ایک اور محکمہ کی ایجاد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا کارنامہ ہے اور وہ تھا خطوط کے لیے مہریں تیار کرنے اور ان پر لگانے کا محکمہ ۔ آج کے دور میں یہ بڑا غیر اہم لگتا ہے لیکن اسی کی بدولت نہایت اہم سرکاری خطوط اور دستاویزات میں جعل سازی کا خاتمہ ہوا ۔ (تاریخ طبری۔ 4/1-133)


اس سے یقینی طور پر باغی تحریک کو بڑا نقصان ہوا ہو گا کیونکہ وہ جعل سازی کے فن میں ید طولی رکھتے تھے ۔


حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی سلطنت کے استحکام میں اس کمیونی کیشن کے نظام سے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ گورنر زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے انٹیلی جنس نظام کا یہ عالم تھا کہ افغانستان میں کسی کی رسی بھی چوری ہوتی تو انہیں بصرہ میں اس کا علم ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان پورے بیس برس میں باغی تحریک کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکا اور جب انہوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کچھ سر اٹھایا تو اسے بڑی آسانی سے کچل دیا گیا۔ اس کسمپرسی کے سبب باغیوں میں جو فرسٹریشن پیدا ہوئی، اسے انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف پراپیگنڈا کی شکل دے دی ۔


حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نہ صرف سیاسی بلکہ علمی میدان میں بھی غیر معمولی پراجیکٹ شروع کیے ۔ آپ کو سائنس سے خاص دلچسپی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اہل یونان کی سائنس کی کتب کا خاص طور پر ترجمہ کروایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کے اپنے خاندان میں ایک اتنا بڑا سائنسدان پیدا ہوا جس کی صلاحیت کا لوہا اہل مغرب نے بھی مانا۔ آپ کے پوتے خالد بن یزید بن معاویہ کو کیمسٹری اور میڈیسن (گویا بائیو کیمسٹری) سے غیر معمولی شغف حاصل تھا اور انہیں مسلم دنیا کا پہلا کیمیائی سائنسدان قرار دیا گیا ہے ۔


ان کے متعلق چند اہل علم کی آراء ہم یہاں درج کر رہے ہیں ۔


ابن خلکان لکھتے ہیں : ابو ہاشم خالد بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان اموی رضی اللہ عنہما ۔ قریش میں فنی علوم میں سب سے مشہور تھے اور کیمسٹری اور طب کی صنعتوں میں ان کا کلام موجود ہے ۔ وہ ان علوم میں بہت بڑے ماہر تھے اور ان کے علم اور ذہانت کا ثبوت ان کے رسائل ہیں ۔ انہوں نے یہ علوم ایک راہب، مریانس راہب رومی سے حاصل کیے۔ ان کے تین رسائل ہیں جن میں سے ایک میں مریانس راہب کے ساتھ ان کا معاملہ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اس سے یہ علوم کیسے سیکھے ۔ (ابن خلکان (608-681/1212-1282)۔ وفیات الاعیان۔ شخصیت نمبر 212۔ 2/224۔ بیروت: دار الصادر،چشتی)


مشہور برطانوی ماہر طب ایڈورڈ براؤن لکھتے ہیں : دمشق کا جان (John of Damascus)، جن کا لقب کرسوروس اور عربی نام منصور ہے، پر پہلے اموی خلیفہ معاویہ نے بہت سے احسانات کیے۔ عربوں میں یونانی دانش کے علم کی خواہش سب سے پہلے اموی شہزادے، خالد بن یزید بن معاویہ کے ہاں پیدا ہوئی جنہیں کیمسٹری (Alchemy) کا جنون تھا۔ فہرست (ابن الندیم کی مشہور کتاب جس میں اس دور تک کی ہزاروں کتب کا تعارف موجود ہے) کے مطابق، جو اس بارے میں ہماری معلومات کا سب سے قدیم اور سب سے بہتر ذریعہ ہم تک پہنچا ہے، خالد نے یونانی فلسفیوں کو ملک مصر میں اکٹھا کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس مضمون کی یونانی اور مصری تصانیف کو عربی زبان میں ترجمہ کریں۔ فہرست کے مصنف کا کہنا ہے کہ اسلامی (تاریخ) میں یہ وہ پہلی کتابیں تھیں جو ایک زبان سے دوسری میں ترجمہ ہو کر آئیں۔ اسی شہزادے کے ساتھ مشہور کیمیا دان جابر بن حیان بھی کام کرتے تھے جو کہ قرون وسطی کے یورپ میں Geber کے نام سے مشہور ہیں ۔

( Browne, Edward G. MB, FRCP. Arabian Medicine. P. 15. London: Cambride University Press (1921)


اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مفتوحہ اقوام کے علوم کو سیکھنے کی تحریک نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تیزی اختیار کی ۔ پھر انہی علوم کی بدولت اس دور کے مسلمانوں نے وہ بنیاد رکھی، جس پر بنو امیہ، بنو عباس اور پھر سلطنت عثمانیہ کی عالیشان عمارت 1200 سال تک کھڑی رہی ۔


حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محبت


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو جو محبت تھی، اس کا اندازہ اس بات سےکیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: “میں نے نماز پڑھنے کے انداز میں کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اتنا مشابہ نہیں دیکھا ، جتنا کہ معاویہ تھے ۔ (ہیثمی۔ مجمع الزوائد ۔ کتاب المناقب ، ما جاء فی معاویہ بن ابی سفیان۔ حدیث 19520)


اُم علقمہ (مرجانہ) سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) مدینہ تشریف لائے تو (سیدہ) عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چادر اور بال مانگا۔ پھر انہوں نے چادر اوڑھ لی اور بال پانی میں ڈبو کر وہ پانی پیا اور اپنے جسم پر بھی ڈالا ۔ (تاریخ دمشق ۱۰۶/۶۲ و سندہ حسن، مرجانہ و ثقھا العجلی وابن حبان،چشتی)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ ایک قمیص پہننے کے لیے دی تھی ۔ یہ قمیص آپ کے پاس محفوظ تھی ۔ ایک مرتبہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تراشے ہوئے ناخن ایک شیشی میں محفوظ کر لیے تھے۔ جب حضرت معاویہ کی جب وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے وصیت کی کہ اسی قمیص میں مجھے کفن دیا جائے اور مبارک ناخنوں کو رگڑکر میری آنکھوں اور منہ پر چھڑک دیا جائے۔ اپنے ذاتی مال کے بارے میں انہوں نے وصیت کی کہ اس کا آدھا حصہ بیت المال میں جمع کروا دیا جائے ۔ (تاریخ طبری۔ 4/1-131)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)