Wednesday, 3 March 2021

قرآن اور علم غیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم حصّہ دوم

 قرآن اور علم غیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم حصّہ دوم

محترم قارئینِ کرام امید ہے آپ اس موضوع کا حصّہ اوّل پڑھ چکے ہونگے اب آئیے حصّہ دوم پڑھتے ہیں :

ماکان حدیثا یفترٰی و لکن تصدیق الذی بین یدیہ و تفصیل کل شئی ۔ (پارہ 13 سورہ 12 آیت111)
تفسیر خازن یہ ہی آیت : یعنی فی ھذا القرآن المنزل علیک یا محمد تفصیل کل تحتاج الہ من الحلال و الحرام و الحدود و الاحکام و القصص و المواعظ و الامثال و غیر ذلک مما یحتاج الیہ العباد فی امر دینھم و دیناھم ۔
تفسیر حسینی میں ہے و تفصٰل کل شئی ما من شئی فی العالم الا ھو فی کتاب اللہ تعالٰٰے
ترجمہ : یعنی اس قرآن میں ہر اس چیز کا بیان ہمہ چیز ہاکہ محتاج باشد دردین و دنیا۔
12۔ الرحمٰن0 علم القرآن0 خلق الانسان 0 علمہ البیان 0 ( پارہ 27 سورہ 55 آیت 1 تا 4 ) تفسر معالم التنزیل و حسینی یہ ہی آیت : خلق الانسان ای محمد علیہ السلام علمہ البیان یعنی بیان ماکان وما یکون ۔
ترجمہ : یہ کوئی بناوٹکی بات نہیں اپنے سے اگلی کلاموں کی تصدیق ہے اور پر چیز کا مفصل بیان۔ یعنی اس قرآن میں جو آپ پر اتارا گیا۔
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر اس یز کی تفصیل ہے جسکی آپ کو ضرورت ہو حلال اور حرام سزائیں اور احکام اور قصے اور نصیحتیں اور مثالیں۔ ان کے علاوہ اور وہ چیزیں جن کی بندوں کو اپنے دینی و دنیاوی معاملات میں ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی اس قرآن میں ہر اس چیز کا بیان ہے جسکی دین و دنیا میں ضرورت ہو۔ ( کتاب الاعجاز لابن سراقہ میں ہے ) عالم میں کوئی چیز ایسی نہیں جو قرآن میں نہ ہو۔ رحمان نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا ماکان و ما یکون کا بیان اس سکھا یا۔ اللہ نے ینسان یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا اور ان کا بیان یعنی ساری اگلی پچھلی باتوں کا بیان سکھا دیا۔
تفسیر خازن ہی آیت : قیل اراد بالانسان محمدا صلی اللہ علیہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان وما یکون لانہ علیہ السلام نبیء عن خبر الاولین و الآخرین وعن یوم الدین
“ کہا گیا ہے کہ انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ اگلت پچھلے امور کا بیان سکھا دیا گیا کیونکہ حجور علیہ السلام کو اگلوں اور پچھلوں کی اور قیامت کی دن کی خبر دے دی گئی۔
روح البیان یہ ہی آیت : وعلم نبینا علیہ السلام القرآن و اسرار الالوھیۃ کما قال و علمک مالم تکن تعلم ۔
ترجمہ : یعنی“ ہمارے نبی علیہ السلام کو رب تعالٰی نے قرآن اور اپنی ربوبیت کے بھید سکھا دئے جیسا کہ خود رب تعالٰی نے فرمایا کہ آپ کو سکھا دیں وہ باتیں جو آپ نہ جانتے تھے۔ ینسان سے مراد جنس انسانی ہے یا آدم علیہ السلام یا حضور علیہ السلام۔
معالم التنزیل یہ آیت : و قیل الانسان ھھنا محمد علیہ السلام و بیانہ علمک مالم تکن تعلم۔
“کہا گیا ہے کہ اس آیت میں انسان سے مراد حضور علیہ السلام ہیں اور بیان سے مراد ہے کہ آپ کو وہ تمام باتیں سکھائیں جو نہ جانتے تھے۔
تفسیر حسینی یہ ہی آیت : یا وجود محمد راھیا موزانیدوے ۔
ترجمہ : یا مراد ہے کہ پیدا فرمایا حضور علیہ السلام کی ذات کو اور سکھایا انکو جو کچھ ہو چکا ہے یا ہو گا۔ ان آیتوں اور تفاسیر سے معلوم ہوا کہ قرآن میں سب کچھ ہے اور اس کا سارا علم حضور علیہ السلام کو دیا گیا۔

ماانت بنعمۃ ربک بمجنون (تفسیر روح البیان یہ ہی آیت )
ای لیس بمستور علماکان فی الازل وما سیکون الی الابد لان الجن ھو الستر بل انت عالم بماکان و خبیربما سیکون ۔
ترجمہ : تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں۔یعنی آپ سے وہ باتیں چھپی ہوئی نہیں ہیں جو ازل میں تھیں اور وہ جو ابد تک ہونگی۔ کیونکہ جن کے معنی ہیں چھپنا بلکہ آپ اس کو جانتے ہیں جو ہوچکا اور خبردار ہیں اس سے جو ہوگا ۔ اس آیت و تفسیر سے علم غیب کلی ثابت ہوا۔

ولئن سالتھم لیقولن انما کنا نخوض و نلعب۔ ( پارہ 10 سورہ 9 آیت 65)
ترجمہ : اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو گےتو کہیں گے کہ ہم یونہی ہنسی کھیل میں تھے۔
تفسیر در منشور طبری یہ ہی آیت : عن مجاھد انہ قال فی قولہ تعالٰے ولئن سالتھم الخ قال رجل من المنافقین یحدثنا محمد ان فانہ بواد کذا وکذاوما یدریہ بالغیب۔
ترجمہ : حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس آیت کے نزول کے بارے میں ولئن سالتھم کہ ایک منافق نے کہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خبر دیتے ہیں کہ فلاں کی اونٹنی فلاں جنگل میں ہے ان کو غیب کی کیا خبر۔
اس آیت اور تفسیر سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غیب کا انکار کرنا منافقین کا کام تھا۔ جسکو قرآن نے کفر قرار دیا۔

فلا یظھر علی غیبہ احدمن ارتضی من رسول ( پارہ 29 سورہ 72 آیت 26)
ترجمہ : تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔
تفسیر کبیر یہ ہی آیت : ای وقت وقوع القیمۃ من الغیب الذی لا یظھرہ اللہ لاحد فان قیل فاذا حملتم ذلک علی القیمۃ فکیف قال الا من ارتضی من رسول مع انہ لا یظھر ھذا لغیب لاحد قلنابل یظھرہ عند قریب القیمۃ۔
ترجمہ : یعنی قیامت کے آنے کا وقت ان غیبوں میں سے ہے جس کو اللہ تعالٰی کسی ہر ظاہر نہیں فرماتا پس اگر کہا جاوے کہ جب تم اس غیب کو قیامت پر محمول کر لیاتو اب رب تعالٰی نے یہ کیسے فرمایا! مگر پسندیدہ رسولوں کو حالانکہ یہ غیب تو کسی پر ظاہر نہیں کیا جاتا تو ہم کہیں گے کہ رب تعالٰی قیامت کے قریب ظاہر فرمادے گا۔
تفسیر عزیزی صفحہ 173۔ آنچہ بہ نسبت مخلوقات عائب است غائب مطلق است مثل وقت آمدن قیامت و احکام تکوینیہ وسرعیہ باری تعالٰی در ہر روز و ہر شریعت و مثل حقائق ذآت و صفات او تعالٰی علی سبیل التفصیل ایں قسم را غیب خاص او تعالٰی نیز می نامند فلا یظھرہ علی غیبہ احدا پس مطلع نمی کند بر غیب خاص خود ہیچکسرا مگر کسی راکہ مسند میکند وآں کس رسول باشد خواہ از جنس ملک و خواہ از جنس بشر مثل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اظھاربعضے اس عیوب خاصہ خودنی فرامائد۔
تفسیر خازن یہ ہی آیت۔الا من یصطفیہ لرسالۃ و نبوتہ فیظھرہ علی من یشاء من الغیب حتی یستدل علی نبوتہ بما یخبربہ من المغیبات فیکون ذلک معجزۃ لہ۔
ترجمہ : جو چیز تمام مخلوق سے غائب ہو وہ غائب مطلقہے جیسے قیامت کے آنے کا وقت اور روزانہ اور ہر چیز کے پیدائشی اور شرعی احکام اور جیسے پروردگار کی ذات و صفات بر طریق تفصیل اس قسم کو رب کا خاص غیب کہتے ہیں۔پس اپنے خاص غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ اس کے سوا جسکو پسند فرمادے اور وہ رسول ہوتے ہیں خواہ فرشتے کی جنس سے ہوں یا ینسان کی جنس سے جیسے حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بعض خاص غیب ظاہر فرماتا ہے۔ سوا اس کے جس کو اپنی نبوت اور رسالت کے لئے چن لیا پس ظاہر فرماتا ہے جس پر چاہتا ہے غیب تاکہ انکی نبوت پر دلیل پکڑی جاوے ان غیب چیزوں سے جس کی وہ خبر دیتے ہیں پس یہ ان کا معجزہ ہوتا ہے۔
روح البیان یہ ہی آیت۔ قال ابن الشیخ انہ تعالٰی لا یطلع علی الغیب الذی یختص بہ تعالٰی علمہ الا لمرتضی الذی یکون رسولا وما لا یختص بہ یطلع علیہ غیر الرسول۔
ترجمہ : ابن شیخ نے فرمایا کہ رب تعالٰی اس غیب پر جو اس سے خاص ہے کسی کو مطلع نہیں فرماتا سوائے برگزیدہ رسولوں کے اور جو غیب کے رب کے ساتھ خاص نہیں اس پر غیر رسول کو بھی مطلع فرمادیتا ہے۔
اس آیت اور ان تفاسیر سے معلوم ہوا کہ خدائے قدوس کا خاص علم غیب حتٰی کہ قیامت کا علم بھی حضور علیہ السلام کو عطا فرمایا گیا اب کیا شے ہے جو علم مصطفٰی علیہ السلام سے باقی رہ گئی۔ فاوحی الی عبدہ ما اوحی ۔
“اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔“
مدارج النبوۃ جلد اول وصل رویۃ الہی میں ہے۔ فاوحی ۔۔۔۔۔۔۔ الآیۃ بتمام علوم علوم و معارف و حقائق و بشارات و اشارات، اخبار و آثار و کراماتو کمالات در احیطہء ایں ابہام داخلاست وہمہ راشامل و کثرت وعظمت اوست کہ مبہم آدردوبیان نہ کرداشارات بآنکہ جزعلم علام الغیوب ورسول محبوب بہ آں محیط نتواند شد مگر آں چہ آں حضرت بیان کردہ۔
ترجمہ : معراج میں رب نے حضور علیہ السلام پر جو سارے علوم اور معرفت اور بشارتیں اور اشارے اور خبریں اور کرامتیں و کمالات وحی فرمائے وہ اس ابہام میں داخل ہیں اور سب کو شامل ہیں انکی زیادتی اور عظمت ہی کی وجہ سے ان چیزوں کو بطور ابہام ذکر کا بیان نہیں فرمایا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان علوم غیبیہ کو سوئے رب تعالٰی اور محبوب علیہ السلام کے کوئی نہ احاطہ کر سکتا۔ ہاں جس قدر حضور نے بیان فرمایا وہ معلوم ہے۔
اس آیت اور عبارت سے معلوم ہواکہ معراج میں حضور علیہ السلام کو، وہ علم عطاہوئے جن کو کوئی نہ بیان کرسکتا ہے اور نہ کسی کے خیال میں آسکتے ہیں ماکان و ما یکون تو صرف بیان کے لئے ہیں ورنہ اس سے بھی کہیں زیادہ کی عطا ہوئی۔

وما ھو علی الغیب بضنین۔ ترجمہ : اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں۔“
یہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ حضور علیہ السلام کو غیب کا علم ہو ۔ اور حضور علیہ السلام لوگوں کو اس سے مطلع فرمادیتے ہوں۔
معالم التنزیل یہ ہی آیت : علی الغیب وخبر السماء وما اطلع علیہ من الاخبار والقصص بضنین ای ببخیل یقول انی یاتیہ علم الغیب فلا یبخل بہ علیکم بل یعلمکم و یخبرکم الا یکتمہ کما یکتم الکاھن ۔
خازن یہ ہی آیت : یقول انہ علیہ السلام یاتیہ علم الغیب فلا یبخل بہ علیکم بل یعلمکم ۔
ترجمہ : حضور علیہ السلام غیب ہر اور آسمانی خبروں پر اور ان خبروں اور قصوں پر بخیل نہیں ہیں۔ پراد یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کے پاس علم غیب آتا ہے پس وہ اس میں تم پر بخل نہیں کرتے بلکہ تم کو سکھاتے ہیں اور تم کو خبر دیتے ہیں کیسے کے کاہن چھپاتے ہیں ویسے نہیں چھپاتے مراد یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کے پاس علم غیب آتا ہے تو تم پر اس میں بخل نہیں فرماتے ۔ بلکہ تم کو سکھاتے ہیں۔
اس آیت و عبارت سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام لوگوں کو علم غیب سکھاتے ہیں۔ اور سکھائے گا وہی جو خود جانتا ہو۔

وعلمنہ من لدنا علما ۔ ترجمہ : اور ان کو اپنا علم لدنی عطا کیا یعنی حضرت خضر کا۔“
بیضاوی میں یہ ہی آیت ۔ ای ما یختص بناہ لا یعلم الا بتو قیفنا وھو علم الغیب ۔
ترجمہ : حضرت خضر کو وہ علم سکھائے جا ہمارے ساتھ خاص ہیں بغیر ہمارے بتائے کوئی نہیں جانتا اور وہ علم غیب ہے۔
تفسیر ابن جریر میں سیدنا عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے۔ قال انک لن تستطیع معی صبرا کان رجلا یعلم علم الغیب قد علم ذلک ۔
ترجمہ : حضرت خضر نے فرمایا تھا حضرت موسٰی علیہ السلام سے کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے وہ خضر علم غیب جانتے تھے کہ انہوں نے جان لیا ۔“
روح البیان یہ ہی آیت : ھو علم الغیوب والاخبار عنہا باذنہ تعالٰے کما ذھب الیہ ابن عباس۔
ترجمہ : حضرت خضر کو جو لدنی علم سکھایا گیا وہ علم غیب ہے اور اس غیب کے متعلق خبر دینا ہے خدا کے حکم سے جیسا کہ اس طرف ابن عباس رضی اللہ عھہما گئے ہیں۔
تفسیر مدارک یہ ہی آیت : یعنی الاخبار بالغیوب وقیل العلم اللدنی ماحصل للعبد بطریق الاھام۔
ترجمہ : یعنی حضرت خضر کو غیب کی خبریں اور کہا گیا ہے کہ علم لدنی وہ ہوتا ہے جو بندے کو الہام کے طریقے پر حاصل ہو۔
تفسیر خازن یہ ہی آیت : ای علم الباطن الھاما۔ ترجمہ : یعنی حضرت خضر کو علم باطن الہام کے طریقے پر عطا فرمایا۔
اس آیت و تفسیری عبارتوں سے معلوم ہوا کہ رب تعالٰی نے حضرت خضر کو بھی علم غیب عطا فرمایا تھا جس سے لازم آیا کہ حضور علیہ السلام کو بھی علم غیب عطا ہوا۔ کیونکہ آپ تمام مخلوق الہٰیسے زیادہ عالم ہیں اور حضرت خضر علیہ السلام بھی مخلوق ہیں۔

و کذلک نری ابرھیم ملکوت السمٰوٰت والارض (پارہ 7 سورہ 6 آیت 75)
ترجمہ : اور اسی طرح ہم ابرہیم کو دکھاتے ہیں۔ ساری بادشاہی آسمانوں کی اور زمینوں کی ۔
تفسیر خازن یہ ہی آیت : اقیم علی صخرۃ و کشف لہ عن السٰمٰوت حتی رای العرش و الکرسی وما فی السٰمٰوت وکشف لہ عن الارض حتی نظر الی اسفل الارضین وراٰی ما فیھا من العجائب۔
ترجمہ : حضرت ابراہیم علیہ السلام کو صخرہ پر کھڑا کیا گیا اور ان کے لئے آسمان کھول دئے گئے ۔ یہاں تک کے انہوں نے عرش ع کرسی اور جو کچھ آسمانوں میں ہے دیکھ لیا اور آپ کے لئے زمین کھول دی گئی یہاں تک کے انہوں نے زمینوں کی نیچی زمین اور ان عجائبات کو دیکھ لیا جو زمینوں میں ہیں۔
تفسیر مدارک یہ ہی آیت : قال مجاھد فرجتلہ السٰمٰوت السبع فنظر الی ما فیھن حتی انتھی نظرہ الی العرش و فرجت لہ الارضوان السبع حتی نظر الی ما فیھن۔
روح البیان یہ ہی آیت : عجائب و بدائع آسما نہا و زمین ہا از دروہ عرش تاتحت الثرٰی بروے منکشف ساختہ۔
مجاہد نے فرمایا : کہ ابرہیم علیہ السلام کے لئے ساتوں آسمان کھول دئے گئے پس انہوں نے دیکھ لیا ۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے۔ یہاں تک کے ان کی نظر عرش تک پہنچی اور ان کے لئے سات زمینیں کھولی گئیں کہ انہوں نے وہ چیزیں دیکھ لیں جو زمینوں میں ہیں۔ ابراہیم کو آسمانوں و زمین کی عجائبات و غرائبات دکھائے اور عرش کی بلندی سے تحت الثرٰی تک کھول دیا۔
تفسیر ابن جریر ابن حاتم میں اسی آیت کے ما تحت ہے ۔ انہ جل لہ الامر سرہ و علانیتہ فلم یخف علیہ شئی من اعمال الخلائق۔
ترجمہ : حضرت ابراہیم پر کھلی ع پوشیدہ تمام چیزیں کھل گیئیں پس ان پر مخلوق کے اعمال میں سے کچھ بھی چھپا نہ رہا۔
تفسیر کبیر یہ ہی آیت : ان اللہ شق لہ السمٰوٰت حتی رای العرش و الکرسی والی حیث ینتھی الیہ فوقیہ العالم الجسمالی ورای ما فی السمٰوٰت من العجائب و البدائع ورای مافی بطن الارض من العجائب والغرائب۔
اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم کیلئے آسمانوں کو چیر دیا یہاں تک کے انہوں نے عرش وکرسی اور جہاں تک جسمانی علم کی فوقیت ختم ہوتی ہے دیکھ لیا۔ اور وہ عجیب و غریب چیزیں بھی دیکھ لیں جو آسمانوں میں ہیں ۔ اور وہ عجیب و غریب چیزیں بھی دیکھ لیں جو زمین کے پیٹ میں ہیں۔(چشتی)
اس آیت اور ان تفسیری عبارات سے معلوم ہوا کہ از عرش تا تحت الثرٰی حضرت ابرہیم کو دکھائے گئے اور مخلوق کے اعمال بھی ان کع خبر دی گئی اور حجور علیہ السلام کا علم ان سے کہیں زیادہ ہے تو ماننا پڑے گا کہ حضور علیہ السلام کو بھی یہ علوم عطا ہوئے۔
خیال رہے کہ عرش کے علم میں لوح محفوظ بھی آگئی اور لوح محفوظ میں کیا لکھا ہے اس کو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں لہذا ماکانوما یکون کا علم تو ان کو بھی حاصل ہوا اور علم ابراہیمی اور علم حضرت آدم علیہ السلام کے علم کے دریا کا قطرہ ہے۔

یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا : لا یاتیکما طعام ترزقانہ الا نئتکما بتاویلہ ۔
اس کی تفسیر روح البیان و کبیر و خازن میں ہے ۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ میں تمہیں کھانے کے گزشتہ و آئندہ کے سارے حالات بتا سکتا ہوں کہ غلہ کہاں سے آیا اور اب کہاں جائے گا ۔ تفسیر کبیر نے تو فرمایا کہ میں یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ کھانا نفع دے گا یا نقصان۔ یہ چیزیں وہ ہی بتا سکتا ہے جو ہر ذرہ کی خبر رکھتا ہو پھر فرماتے ہیں ۔
ذلکما مما علمنی ربی ۔ (پارہ 12 سورہ 12 آیت 37)
ترجمہ : یہ علم تع میرے علوم کا بعض حصہ ہے۔“ اب بتاؤ کہ حضور علیہاا لسلام کا علم کتنا ہوگا ۔ علم یوسفی تو علم مصطفٰی کے سمندر کا قطرہ ہے اور عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا : وانبتکم بما تاکلون وما تدخرون فی بیوتکم ۔ (پارہ 3 سورہ 3 آیت 49)
ترجمہ : میں تمیں بتا سکتا ہوں جو کچھ تم اپنے کھروں میں کھاتے ہو اور جو کچھ جمع کرتے ہو۔
دیکھو کھانا گھر میں کھایا گیا اور جمع کیا گیا ۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام موجود نہیں تھے اور اسکی خبر آپ باہر دے رہے ہیں یہ علم غیب ۔

یا ایھا الذین اٰمنوا لا تسئلوا عن اشیاء ان تبدلکم تسؤکم ۔ (پارہ 7 سورہ 5 آیت 101)
ترجمہ : اے ایمان والو !ایسی باتیں ہمارے محبوب سے نہ پوچھو کہ اگر تم پر ظاہری جاویں تو تمھیں ناگوار ہوں۔
بخاری شریف میں سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی : عن ابن عباس قال کان قوما یساء لون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استھزاء فیقول الرجل من ابی و یقول الرجد این فانزل اللہ فیھم ھذہ الاٰیتہ یا ایھاالذین اٰمنوا لا تساء لواعن اشیاء ۔
تتمہ مخالفین سے ان دلائل کے جواب کچھ نہیں بنتے صرف یہ کہدیتے ہیں کہ جن آیات میں کل شئ کا ذکر ہوا یا فرمایا گیا ما لم تکن تعلم ان میں مراد شریعت کے احکام ہیں نہ کہ اور چیزیں اس کے لئے چند دلائل لاتے ہیں ۔
1۔ کل شئ غیر متناہی ( بے انتہا) ہیں اور غیر متناہی چیزوں کا علم خدا کے سوا کسی کو ہونا منطقی قاعدے سے بالکل باطل ہے دلیل تسلسل ہے۔
2۔ بہت سے مفسرین نے بھی کل شئ کے معنے لئے ہیں من امورالدین یعنی دین کے احکام جیسے جلالین وغیرہ۔
3۔ قرآن پاک میں بہت جگہ کل شئ فرمایا گیا ہے مگر اس سے بعض چیزیں مراد ہیں جیسے واوتیت من کل شئ بلقیس کو کل شئ دی گئی ۔ حالانکہ بلقیس کو بعض چیزیں ہی دی گئی تھیں۔
مگر یہ دلائل نہیں صرف غلط فہمی ہے اور دھوکا ۔ ان کے جوابات یہ ہیں ۔
عربی زبان میں کلمہ کل اور کلمہ ما عموم کے لئے آتا ہیں ۔ اور قرآن کا ایک ایک کلمہ قطعی ہے اس میں کوئی قید لگانا محض اپنے قیاس سے جائز نہیں ۔ قرآن پاک کے عام کلمات کو حدیث احاد سے بھی خاص نہیں بنا سکتے۔ چہ جائیکہ محض اپنی رائے سے ۔
1۔ کل شئ غیر متناہی نہیں۔ بلکہ متناہی ہیں ۔
تفسیر کبیر زیر آیت واحصٰٰی کل شئی عددا ہے۔
قلنا لاشک ان احصاء العدد انما یکون فی المتناھی فاما لفظۃ کل شئ فانھا لا تدل علی کونہ غیر متناہ لان الشئ عندزا ھو الموجودات متناھیۃ فی العدد
“ اس میں شک نہیں کہ عدد سے شمار کرنا متناہی چیز میں ہوسکتا ہے لیکن لفظ کل شئ اس شئ کے غیر متناہی ہونے پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ ہمارے نزدیک شئ موجودات ہی ہیں اور موجود چیزیں متناہی میں شمار ہیں ۔
تفسیر روح البیان میں اسی آیت واحصی کل شئ کے ماتحت فرمایا ۔
وھذہ الایتہ مما یستدل علی ان المعدوم لیس لانہ لوکان شئیا لکانت الاشیاء غیر متناھیۃ و کونہ احصٰی عددھا یقتضی کونھا متناھیۃ احصاء العدد انما یکون فی المتناھی
“ اس آیت سے اس پر بڑی دلیل پکڑی جاتی ہے کہ معدوم ( غیر موجود) شئ نہیں ہے کیونکہ اگر وہ بھی شئ ہوتی تو چیزیں غیر متناہی ( بے انتہا) ہو جاتیں ۔ اور چیزونکا شمار میں آنا چاہتا ہے کہ چیزیں متناہی ہوں کیونکہ عدد سے شمار متناہی ہوسکتی ہے ۔
2۔ اگر بہت سے مفسرین نے کل شئ سے صرف شریعت کے احکام مراد لئے ہیں تو بہے سے مفسرین نے کلی علم غیب بھی مراد لیا ہے اور جبکہ دلائل نفی کے ہوں ۔ اور بعض ثبوت کے۔ تو ثبوت والوں کو ہی اختیار کیا جاتا ہے ۔
نورالانوار بحث تعارض میں ہے۔والمثبت اولی من النافی۔
ثابت کرنے والے دلائل نفی کرنے والے سے زیادہ بہتر ہیں ۔ تو جن تفسیروں کے حوالہ ہم پیش کر چکے ہیں ۔ چونکہ ان میں زیادہ کا ثبوت ہے کہذا وہ ہپی قابل قبول ہیں ۔ نیز کل شئ کی تفسیر خود احادیث اور علمائے امت کے اقوال سے ہم بیان کریں گے کوئی ذرہ کوئی قطرہ ایسا نہیں جو حضور علیہ السلام کے علم میں نہ آگیا ہو اور ہم مقدمہ کتاب میں لکھ چکے ہیں کہ تفسیر قرآن بالحدیث اور تفسیروں سے بہتر ہے لہذا حدیث ہی کی تفسیر مانی جاوے گی۔(چشتی)
نیز مفسرین نے امور دین سے تفسیر کی انہوں نے بھی دوسری چیزوں کی نفی تو نہ کی۔ لہذا تم نفی کہاں سے نکالتے ہو ؟ کسی چیز کے ذکر نہ کرنے سے اس کی نفی کیسے ہو گی ۔ قرآن کریم فرماتا ہے ۔ تقیکم الحر یعنی تمہارے کپڑے تم کو گرمی سے بچاتے ہیں ۔ تو کیا کپڑے سردی سے نہیں بچاتے ؟
مگر ایک چیز کا ذکر نہیں فرمایا ۔ نیز دین تو سب ہی کو شامل ہے ۔ عالم کی کون سی چیز ایسی ہے ۔ جس پر دین کے احکام حرام وحلال وغیرہ جاری نہیں ہوتے تو ان کا یہ فرمانا کہ دینی علم مکمل کر دیا سب کو شامل ہے۔
3۔ بلقیس وغیرہ کے قصہ میں جو کل شئ آیا ہے۔ وہاں قرینہ موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کل شئ سے مراد سلطنت کے کاروبار کی چیزیں ہیں ۔ اس لئے وہاں گویا مجازی معنی مراد لئے گئے یہاں کونسا قرینہ ہے جس کی وجہ سے کل شئ کے حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی مراد لئے جائیں خیال رہے۔ کہ قرآن کرین نے ہدہد کا قول نقل فرمایا کہ اس نے کہا اوتیت من کل شئ بلقیس کو ہر چیز دی گئی خود رب نے یہ خبر نہ دی ۔ ہد ہد سمجھا کہ بلقیس کو دنیا کی تمام چیزیں مل گئیں ۔ مگر مصطفی علیہ السلام کے لئے خود رب تعالٰی نے فرمایا۔ تبیانا لکل شئ ہدہد غلطی کر سکتا ہے رب کا کلام غلط نہیں ہو سکتا اس نے تو یہ بھی کہا ولھا عرش عظیم کیا تحت بلقیس عرش عظیم تھا ۔ بلکہ قرآن کریم کی اور آئتیں تو بتا رہی ہیں کہ کل شئ سے مراد یہاں عالم کی تمام چیزیں ہیں ۔ فرماتا ہے ۔ ولا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین “ کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں جو لوح محفوظ یا قرآن کریم میں نہ ہو پھر آنے والی احادیث اور علماء اورمحدثین کے قول بھی اسی تائید کرتے ہیں کہ عالم کی ہر چیز کا حضور علیہ السلام کو علم دیا گیا ۔ ہم حاضر و ناظر کی بحث میں ان شاء اللہ بتائیں گے کہ تمام عالم ملک الموت کے سامنے ایسا ہے ۔ جیسا ایک طشت ۔ اور ابلیس آن کی آن میں تمام زمین کا چکر لگا لیتاہے۔ اور یہ دیوبندی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ساری مخلوقات سے زیادہ حضور علیہ السلام کا علم ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ان چیزوں کا علم ہو ۔ حضرت آدم اور کاتب تقدیر فرشتہ کا علم ہم علوم خمسہ کی بحث میں بتائیں گے جس سے معلوم ہوگا کہ سارے علوم خمسہ اس کو حاصل ہوتے ہیں۔ اور حضور علیہ السلام تو ساری مخلوق سے زیادہ عالم لہذا حضور علیہ السلام کو بھی یہ علوم بلکہ اس سے زیادہ ماننا پڑیں گے ۔ ہمارا مدعٰی ہر حال میں ثابت ہے، الحمدللہ ۔ از افادات حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...