حضرت امیر معاویہ کو برابھلا کہنے والے کو حضرت عمر بن عبد العزيز (رضی اللہ عنہما) نے کوڑے مارے ، روایت مکمل تحقیق کے ساتھ
محترم قارئینِ کرام : ایک شخص نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو برابھلا کہا تو اس شخص کو حضرت عمر بن عبد العزيز رضی اللہ عنہ نے کوڑے مارے ۔
أخبرتنا أم البهاء فاطمة بنت محمد قالت أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبد الله نا محمد بن هارون نا أبو كريب نا ابن المبارك عن محمد بن مسلم عن إبراهيم بن ميسرة قال ما رأيت عمر بن عبد العزيز ضرب إنسانا قط إلا إنسانا شتم معاوية فإنه ضربه أسواطا ۔ (تاريخ دمشق جلد نمبر ٥٩ صفحہ نمبر ٢١١)
ترجمہ : تابعی ابراہیم بن میسرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے کسی شخص کو مارا ہو سوائے ایک شخص کے جس نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو برابھلا کہا تو اس شخص کو عمر بن عبد العزيز رضی اللہ عنہ نے کوڑے مارے ۔
اس روایت کے ایک راوی محمد بن مسلم پر اعتراض کیا جاتا ہے آیئے اس اعتراض کا جواب پڑھتے ہیں :
محمد بن مسلم الطائفی حسن الحدیث راوی ہے
محمد بن مسلم الطائفی کی توثیق
امام یحیی ابن معین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ثقة ۔ (تاريخ يحيي بن معين رواية الدارمي رقم ٧٢١) ، مزيد فرماتے ہیں : مُحَمَّد بن مُسلم الطَّائِفِي لم يكن بِهِ بَأْس ۔ (تاريخ يحيي بن معين رواية الدوري رقم ٣٠٤)
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ثقة ۔ (تهذيب التهذيب ج ٩ ص ٤٤٥) ، مزید فرماتے ہیں : ليس بِهِ بأس ۔ (تهذيب الكمال ج ٢٦ ص ٤١٥)
امام عجلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ثقة ۔ [الثقات للعجلي رقم ١٥٠٣]
امام یعقوب بن سفیان الفسوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ثقة لا بأس به ۔ [المعرفة والتاريخ ج ١ ص ٤٣٥]
امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِيُّ وَمَيْسَرَةُ بْنُ عَمَّارٍ الْأَشْجَعِيُّ ثِقَتَانِ لَا بأس بهما جميعا ۔ [الاستذكار ج ٨ ص ٤٩٥]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس راوی سے استشہاداً روایت لی ہے ۔ [دیکھیں صحیح بخاری رقم ٢٧٣٨ ، ٣٨٦٩ ، ٧٢٣٩]
امام مزي رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : استشهد به البخاري ، ان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے استشہاداً روایت لی ہے ۔ [تهذيب الكمال ج ٢٦ ص ٤١٦]
عرض ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس سے استشہاداً روایت لیں وہ راوی عام طور سے ثقہ ہوتا ہے ۔
امام محمد بن طاھر ابن القیسرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بل استشهد به في مواضع ليبين أنه ثقة ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے ( حماد بن سلمہ سے ) صحیح بخاری میں کئی مقامات پر استشہاداً روایت کیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ یہ ثقہ ہیں ۔ [ شروط الأئمة الستة ص ١٨ ]
امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اس کو الثقات میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : كَانَ يخطىء ۔ [الثقات رقم ١٠٥٩٢،چشتی]
عرض ہے کہ غلطیاں ثقہ رواة سے بھی ہوتی ہے اس لئے محض غلطی کرنے کی وجہ سے کسی کو ضعیف نہیں کہہ سکتے ۔ بلکہ ضعیف کہنے کے لئے ضروری ہے کہ راوی کی بکثرت غلطی ثابت ہو ۔
امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ راوی ثقہ ہے ۔ اس کی بیان کردہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں : هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ ۔ یہ حدیث کی سند صحیح ہے ۔ [مستدرك حاكم رقم ٣٣١٨،چشتی]
امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تعلیق میں فرماتے ہیں : صحیح
امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ راوی حسن الحدیث ہے ، فرماتے ہیں : فيه لين وقد وثق ۔ یہ کمزور ہیں اور ان کی توثیق کی گئی ہے ۔ [الكاشف رقم ٥١٥١]
اپنی دوسری کتاب من تكلم فيه وهو موثق میں فرماتے ہیں : وثقه ابن معين وغيره وضعفه أحمد بن حنبل ۔ [من تكلم فيه وهو موثق رقم ٣١٥]
اسی کتاب کے مقدمہ میں امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فهذا فصل نافع في معرفة ثقات الرواة الذين تكم فيهم بعض الأئمة بما لا يرد أخبارهم وفيهم بعض اللين وغيرهم أتقن منهم وأحفظ فهؤلاء حديثهم إن لم يكن في أعلى مراتب الصحيح فلا ينزل عن رتبة الحسن اللهم إلا أن يكون للرجل منهم أحاديث تستنكر عليه وهي التي تكلم فيه من أجلها فينبغي التوقف في هذه للأحاديث والله الموفق بمنه ۔
ترجمہ : یہ ایک مفید بحث ہے، ثقہ رواة کی معرفت کے سلسلے میں جن کے متعلق بعض اماموں نے ایسا کلام(یعنی جرح) کیا ہے جس کی بنا پر ان سے مروی روایت رد نہیں کی جائیگی،اور ان میں بعض لیّن(کمزور) ہیں جبکہ کچھ کا حافظہ ان سے قوی ہے، تو یہ وہ لوگ ہیں جن کی روایت اگر صحت کے اعلی درجے تک نہیں پہنچ سکتی تو وہ حسن درجے سے کم بھی نہیں ہوسکتی، ہاں یہ اور بات ہے کہ ان میں سے بعض سے ایسی احادیث مروی ہوں جس سے ان پر نکارت کی جائے، تو یہی وہ مرویات ہیں جس کی وجہ سے لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے، تو ان احادیث کے متعلق توقف اختیار کیا جائے گا ۔
امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اللہ اس کی بیان کردہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں : اسنادہ صالح ۔ [اتهاف المهرة لابن حجر رقم ٣٠٢٣]
امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَهو صالح الحديث لا بأس به ولم أر له حديثا منكرا ۔ اور وہ حدیث میں صالح ہے اس میں کوئی حرج نہیں تاہم میں نے اس کے حوالے سے کوئی منکر روایات نہیں دیکھی ۔ [الكامل ج ٧ ص ٢٩٦]
امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صدوق يخطىء من حفظه ۔ [تقريب التهذيب رقم ٦٢٩٣]
حفظ میں غلطی کرتا ہے اس کے باوجود امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کو صدوق کہہ رہے ہیں ۔ معلوم ہوا ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ راوی حسن الحدیث ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریر تقریب التھذیب کے مصنف شیخ بشار عواد معروف اور شیخ شعیب ارنؤوط رحمہ اللہ اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں : صدوقٌ حسن الحديث ، یہ صدوق اور حسن الحدیث راوی ہے ۔ [تحرير تقريب التهذيب ج ٣ ص ٣١٧،چشتی]
امام زکریا بن یحیی الساجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صدوق ، يهم في الحديث ، روى عن عمرو بن دينار حديثًا يحتج به ، صدوق ہے ، حدیث میں وہم ہو جاتا ہے ، عمرو بن دینار سے روایت بیان کرتا ہے ، ان کی حدیث سے احتجاج کیا جائے گا ۔ [تهذيب التهذيب ج ٩ ص ٤٤٥،چشتی]
معلوم ہوا کہ امام یحیی الساجی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ راوی حسن الحدیث ہے ، اس کا وہم اتنا زیادہ نہیں تھا اسی لئے امام ساجی رحمۃ اللہ علیہ نے ثقہ کے درجہ سے گرا کر صدوق کے درجہ پر لا دیا اور فرمایا کہ ان کی حدیث سے احتجاج کیا جائے گا یہ اس بات کہ دلیل ہے کہ امام ساجی کے نزدیک یہ راوی حسن الحدیث ہے ۔
امام ابو عوانہ رحمۃ اللہ علیہ محمد بن مسلم سے اپنی مستخرج میں روایت لی ہے ۔ [مستخرج أبي عوانة رقم ٧٦٧ ، ٢٦٦٨ ، ٦٠٢٠]
امام ابو نعیم الاصبھانی رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن مسلم الطائفی سے اپنی مستخرج میں روایت لی ہے ۔ [المستخرج رقم ٨٢٣]
امام ضياء الدين المقدسى رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن مسلم الطائفي سے اپنی مستخرج میں روایت لی ہے ۔ [مستخرج رقم ٤٧ ، ٤٣ ، ٤٤]
وہ محدثین علیہم الرّحمہ جنھوں نے مستخرج لکھی ہے اس میں انہوں نے صحیح روایات درج کرنے کا اہتمام کیا ہے اس کتاب میں جو روایت بھی ہوگی وہ ان کے نزدیک صحیح ہوگی اور اس سے توثیق ضمنی اخذ ہوتی ہے ۔
امام عبد الرحمن بن مھدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : كتب محمد صحاح ، محمد کی کتابیں صحیح ہیں ۔ [ تاريخ الكبير للبخاري رقم ۷۰۰]
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : كان صالحا وسطا ، نیک وسط تھا ۔ [سؤالات ابن أبى شيبة رقم ١٧٤]
محمد بن مسلم الطائفي پر جرح
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ليس بذلك القوي . [سنن الكبري رقم ٥٩٦٧]
امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ضعیف ۔ [المحلى ج ٨ ص ٣٤٣]
امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو الضعفاء میں ذکر کیا ہے ۔ [الضعفاء الكبير رقم ١٦٩٢]
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قال عبد الله بن أحمد : سمعت أبي يقول : محمد بن مسلم الطائفي ، ما أضعف حديثه ، وضعفه جدا . وقال الميموني : ضعفه أحمد على كل حال ، من كتاب وغير كتاب . [العلل ومعرفة الرجال عن أحمد ، رواية عبد الله ج ١ ص ١٨٩ ج ٢ ص ١٤٨]،[الضعفاء الكبير رقم ١٦٩٢]
عرض ہے جمہور کی توثیق کے مقابلے میں یہ جرحیں نا قابل قبول ہیں ۔
محمد بن مسلم الطائفی پر امام یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ جب حفظ سے روایت کرتا ہے تو غلطی کرتا ہے اور جب کتاب سے روایت کرے تو صحیح ہے ، لہٰذا یہ جرح مفسر ہے ۔ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں فرماتے ہیں :
إِذا حدث من حفظه يَقُول كَأَنَّهُ يخطىء وَكَانَ إِذا حدث من كِتَابه فَلَيْسَ بِهِ بَأْس ۔ [تاريخ ابن معين رواية الدوري رقم ٣٠٤،چشتی]
عرض ہے کہ امام یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں یہ نہیں کہا کہ حفظ سے روایت کرے تو ضعیف ہے بلکہ یہ کہا کہ "کانه یخطی " اس سے یہ بات قطعاً ثابت نہیں ہوتی کہ یہ راوی ضعیف ۔ کیونکہ حفظ پر کلام ابن حجر و زکریا بن یحیی الساجی رحمہم اللہ نے بھی کیا ہے ۔ (دیکھیں توثیق کے ضمن میں ) ۔۔ اس کے باوجود انہوں نے اس راوی کو حسن الحدیث مانا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امام یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ اس راوی کے حفظ پر کلام کرنے کے باوجود فرماتے ہیں : لم يكن بِهِ بَأْس ۔ [تاريخ يحيي بن معين رواية الدوري رقم ٣٠٤] ، مزید فرماتے ہیں : ثقة ۔ [تاريخ يحيي بن معين رواية الدارمي رقم ٧٢١،چشتی]
امام یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے بھی یہ بات روز و روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کے نزدیک یہ راوی ثقہ حسن الحدیث ہے ، فرماتے ہیں : سئل يحيى بن معين وأنا أسمع: أيما أثبت في عمرو بن دينار: ابن عيينة أو محمد بن مسلم؟ فقال: «ابن عيينة أثبت في عمرو من محمد بن مسلم، ومن داود العطار، ومن حماد بن زيد. وسفيان أكثر حديثاً منهم عن عمرو وأسند» ، قيل: فابن جريج؟ قال: «جميعاً ثقة» ، كأنه سوى بينهما في عمرو .
ترجمہ : ابن معین رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا : اور میں نے سنا : کون عمرو بن دینار سے بہتر روایت کرتا ہے ۔ ابن عیینہ یا محمد بن مسلم ۔ تو ابن معين نے کہا : ابن عیینہ عمرو سے بہتر روایت کرتے ہیں محمد بن مسلم سے ۔ اور داود عطار ، حماد بن زید اور سفیان ان میں سے اکثر نے عمرو سے روایت کی ہوئی ہے ۔
کہا ابن جریج ؟ تو ابن معین نے کہا سارے ہی ثقہ ہیں ان میں عمرو کے حوالہ سے فرق نہیں کیا جا سکتا ۔ [سؤالات ابن الجنيد رقم ١٧٠]
یہی وجہ ہے کہ کسی محدث نے امام یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ نہیں کہا کہ امام یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس راوی کی وہی روایت قبول ہے جو اس نے کتاب سے بیان کی ہے یا کسی نے امام يحيي رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ کہہ کر ان کی روایت ترک کی ہو کہ انہوں نے اپنے حفظ سے بیان کیا ہے اسی لئے یہ روایت قبول نہیں ۔ اگر کسی نے کہا ہے تو حوالہ درکار ہے ۔ محدثین علیہم الرّحمہ نے امام یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بالجزم اس راوی کو ثقہ کہا ہے ۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ابن معین کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے ۔ امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وثقه ابن معين . [من تكلم فيه وهو موثق رقم ٣١٥] ۔ امام ضیاء الدین مقدسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَقَدْ وَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ ۔ [الأحاديث المختارة ج ١٠ ص ٥٤] ۔ ثابت ہوا کہ یہ راوی حسن الحدیث ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment