Monday 22 March 2021

سیاستِ حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ

0 comments

 سیاستِ حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ


محترم قارئینِ کرام : حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیاست کا دور اُس وقت سے شروع ہوتا ہے جب راکبِ دوشِ مصطفیٰ حضر سیّدُنا امامِ حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ نے خلافت حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کی ۔ (مکمل مضمون پڑھ کر پھر تبصرہ فرمائیں ، اہلِ کہیں غلطی پائیں تو فقیر کو آگاہ فرمائیں جزاکم اللہ خیرا آمین)

حدیث نبوی امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائیں گے ۔ فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں یہ الفاظ کہ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائیں گے ایسے الفاظ ہیں کہ جن سے امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ والے گروہ کی بھی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ والے گروہ کے ایمان اور مسلمان ہونے کی خود زبان نبوت نے تصدیق فرما دی اور صلح اور بیعت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کر کے امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی تائید مزید فرما دی ۔

حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا إسرائيل ابو موسى، ولقيته بالكوفة وجاء إلى ابن شبرمة، فقال: ادخلني على عيسى فاعظه، فكان ابن شبرمة خاف عليه فلم يفعل، قال: حدثنا الحسن، قال: لما سار الحسن بن علي رضي الله عنهما إلى معاوية بالكتائب، قال عمرو بن العاص لمعاوية: ارى كتيبة لا تولي حتى تدبر اخراها، قال معاوية: من لذراري المسلمين؟، فقال: انا، فقال عبد الله بن عامر، وعبد الرحمن بن سمرة: نلقاه، فنقول له: الصلح، قال الحسن: ولقد سمعت ابا بكرة، قال: بينا النبي صلى الله عليه وسلم" يخطب جاء الحسن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ابني هذا سيد، ولعل الله ان يصلح به بين فئتين من المسلمين ۔
ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل ابوموسیٰ نے بیان کیا اور میری ان سے ملاقات کوفہ میں ہوئی تھی۔ وہ ابن شبرمہ کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے عیسیٰ (منصور کے بھائی اور کوفہ کے والی) کے پاس لے چلو تاکہ میں اسے نصیحت کروں۔ غالباً ابن شبرمہ نے خوف محسوس کیا اور نہیں لے گئے۔ انہوں نے اس پر بیان کیا کہ ہم سے حسن بصری نے بیان کیا کہ جب حسن بن علی، امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے خلاف لشکر لے کر نکلے تو عمرو بن العاص نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں ایسا لشکر دیکھتا ہوں جو اس وقت تک واپس نہیں جا سکتا جب تک اپنے مقابل کو بھگا نہ لے۔ پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مسلمانوں کے اہل و عیال کا کون کفیل ہو گا؟ جواب دیا کہ میں، پھر عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمٰن بن سمرہ نے کہا کہ ہم سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے ملتے ہیں (اور ان سے صلح کے لیے کہتے ہیں)، حسن بصری نے کہا کہ میں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ حسن رضی اللہ عنہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرا دے گا ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر: 7109 بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ إِنَّ ابْنِي هَذَا لَسَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)

حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا سفيان، عن ابي موسى، قال: سمعت الحسن، يقول:" استقبل والله الحسن بن علي معاوية بكتائب امثال الجبال، فقال عمرو بن العاص: إني لارى كتائب لا تولي حتى تقتل اقرانها، فقال له معاوية: وكان والله خير الرجلين، اي عمرو إن قتل هؤلاء هؤلاء وهؤلاء هؤلاء من لي بامور الناس بنسائهم من لي بضيعتهم، فبعث إليه رجلين من قريش من بني عبد شمس: عبد الرحمن بن سمرة، وعبد الله بن عامر بن كريز، فقال: اذهبا إلى هذا الرجل فاعرضا عليه، وقولا له، واطلبا إليه، فاتياه، فدخلا عليه فتكلما وقالا له فطلبا إليه، فقال لهما الحسن بن علي : إنا بنو عبد المطلب قد اصبنا من هذا المال، وإن هذه الامة قد عاثت في دمائها، قالا: فإنه يعرض عليك كذا وكذا، ويطلب إليك ويسالك، قال: فمن لي بهذا؟ قالا: نحن لك به، فما سالهما شيئا إلا قالا نحن لك به، فصالحه، فقال الحسن: ولقد سمعت ابا بكرة، يقول: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، والحسن بن علي إلى جنبه، وهو يقبل على الناس مرة وعليه اخرى، ويقول: إن ابني هذا سيد، ولعل الله ان يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين". قال ابو عبد الله: قال لي علي بن عبد الله: إنما ثبت لنا سماع الحسن منابي بكرة بهذا الحديث ۔
ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما (معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا (جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص تھے) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائے گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے، کہ اے عمرو! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کر دیا، یا اس نے اس کو قتل کر دیا، تو (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) لوگوں کے امور (کی جواب دہی کے لیے) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبرگیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ آخر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے۔ عبدالرحمٰن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں۔ وہ کہنے لگے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے۔ حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ آخر آپ نے صلح کر لی، پھر فرمایا کہ میں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہوا ہے ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر: حدیث نمبر: 2704،چشتی)

حدثني عبد الله بن محمد، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا حسين الجعفي، عن ابي موسى، عن الحسن، عن ابي بكرة رضي الله عنه، اخرج النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم الحسن فصعد به على المنبر، فقال :" ابني هذا سيد ولعل الله ان يصلح به بين فئتين من المسلمين ۔
ترجمہ : مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حسین جعفی نے بیان کیا، ان سے ابوموسیٰ نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن رضی اللہ عنہ کو ایک دن ساتھ لے کر باہر تشریف لائے اور منبر پر ان کو لے کر چڑھ گئے پھر فرمایا ”میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں ملاپ کرا دے گا ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر: حدیث نمبر: حدیث نمبر: 3629)

حدثنا صدقة، حدثنا ابن عيينة، حدثنا ابو موسى، عن الحسن، سمع ابا بكرة، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر والحسن إلى جنبه ينظر إلى الناس مرة وإليه مرة، ويقول : ابني هذا سيد ولعل الله ان يصلح به بين فئتين من المسلمين ۔
ترجمہ : ہم سے صدقہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوموسیٰ نے بیان کیا، ان سے حسن نے، انہوں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے اور حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور پھر حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا ۔ (صحيح بخاری حدیث نمبر: حدیث نمبر: حدیث نمبر: 3746،چشتی)

پیرانِ پیر حضرت غوثِ اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے صلح کر کے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کی اس طرح آپ کی امامت واجب ہوگئی ۔ (غنیۃ الطالبین عربی حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ صفحہ نمبر 112 مطبوعہ بیروت) ، (غنیۃ الطالبین صفحہ نمبر 266 ،267 مترجم اہلسنّت مطبوعہ فرید بکسٹال اردو بازار لاہور)، (غنیۃ الطالبین صفحہ نمبر 301 مترجم حافظ مبشر لاہوری غیرمقلد)
ماہنامہ منہاج القرآن مئی 2017 میں غنیۃ الطالبین کے حوالے سے حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان لکھتے ہیں حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان بحوالہ غنیۃ الطّالبین تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق منہاج والے اس کے منکر کیوں ہیں جناب ؟ یا تو یہاں بھی انکار کرو یا پھر دونوں حوالے صحیح مان کر اقرار کرو ضد اچھی نہیں ہوتی ۔

سعیدِ ملت علاّمہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مقالاتِ سعیدی میں "البدایۃ والنھایۃ" کے حوالے سے سندِ صحیح کے ساتھ یہی ذکر کیا اور امامِ اہل سنت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت سیدی احمد رضا خان قادری بریلوی نوّرَاللہُ مرقدہ الشریفَ نے بھی "المعتمد والمستند" کے حاشیہ "المعتقد المنتقد " میں یہی لکھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دورِ سیاست تفویضِ خلافت کے وقت سے شروع ہوتا ہے ۔ مقالات سعیدی صفحہ نمبر 259)

فی زمانہ علمی پختگی مفقود ہے ، اِنحطاطِ علمی کا دور ہے ایسے وقت میں جب کوئی مناظر اور مفتی اسٹیج پر سیاستِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کلام کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ پیروں اور خطیبوں کو راضی رکھنے کا اہتمام کرتا ہے تاکہ کوئی پیر اور خطیب مخالفت پر نہ اتر آئے ۔ اِسی مجبوری کے پیشِ نظر مفتی و مناظر اسٹیج پر کہتے ہیں "دیکھیں جی سیاستِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے تین دور ہیں
نمبر 1 ۔۔۔۔۔ جب وہ گورنر تھے ۔
نمبر 2 ۔۔۔۔۔ جب وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابل آئے ۔
نمبر ۔۔۔۔ 3 جب خلافت اُن کے سپرد کی گئ ۔
پھر مناظرین کہتے ہیں اِن تینوں میں سے جو دوسرا ہے وہ زندہ باد نہیں ہے باقی دو ٹھیک ہیں ۔

اب مناظرین سے کون پوچھے کہ حضرات !!! جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ گورنر تھے تو سیاسی زمانہ خلافت کا تھا یا بادشاہت کا ؟

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جب گورنر تھے تو سیاسی دور خلافتِ راشدہ کا تھا ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو خلافتِ راشدہ کے تابع تھے ، خلفائے اسلام کے احکامات کو صوبہ میں گورنر رہ کر نافذ کرنے والے تھے ۔
اسی طرح جب خلیفہ سیدنا مولا علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ تھے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو خلافت کا مستحق ہی نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ صحیح السند احادیث میں بیان ہے ۔
جنابِ من ! جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیاست کے متعلق آپ لوگوں کا علمی مسلک یہ نہیں ہے تو تاویلات کا سہارا لے کر اُسے اپنا مذھب کیوں بناتے ہو ؟

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی منفرد صفات میں سے دوسری صفت پیکر سیاست ہونا ہے ، سن 41ھ میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے بیعت فرماجانے کے بعد تمام امت امسلمہ آپ کے دست مبارک پر بیعت ہوئی اور آپ کے دور خلافت کا آغاز ہوا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت جدید دور کے مسلمانوں کے لئے نعمت عظمی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ آپ کا عہد خلافت رخصت و عزیمت جیسی نعمت سے سرفراز ہے قدرت نے اس صحابی رسول کے عہد خلافت کو رخصت و عزیمت سے مزین کر کے مسلمانوں کو ہر ترقی یافتہ دور میں جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہو ئے خلافت اسلامیہ قائم کرنے راستہ فراہم کیا ہے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی مملکت اور نظام حکومت کو فاروقی بنیادوں پر استوار کیا اوراپنی بے مثال پالیسی کے تحت امور مملکت سرانجام دیتے ہوئے مملکت اسلامیہ کو نمایاں طورپر یک جہتی بخشی ،آپ کا بطور حکم ران رعایا سے بہترین حسن و سلوک اور رعایا کی آپ سے محبت ضرب المثل تھی ، جس کی بدولت آپ نے چونسٹھ لاکھ مربع میل زمین (نصف دنیا) پراسلامی حکومت قائم فرمائی۔ قبرص ، روڈس ، صقیلہ اورسوڈان جیسے اہم ممالک آپ کے دور حکومت میں اسلامی جھنڈے کے ماتحت آئے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں بحری لڑائیاں عروج پر تھی اور جس قدر بحری لڑائیاں آپ کے دورخلافت میں لڑی گئیں ان کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ۔ آپ نے تاریخ اسلام کا سب سے بڑا بحری بیڑہ جوسات سو بحری جہازوں پرمشتمل تھا جب دریا میں ڈالا تو پاپائے روم اس سے لرز اٹھا ۔ کس قدر احسان فراموشی اورمحسن کشی کی بات ہے کہ سمندری سرگرمیوں اورکارناموں پراعزازی نشانات اورانعامی تمغات کے سلسلہ میں بانی اسلامیہ بحریہ محسن اسلام حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو یکسر فراموش و نظرانداز کردیاجاتا ہے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دورِ سیاست اس وقت شروع ہوتا ہے جب سیدنا حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ نے خلافت براضی و رضا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کی ۔

اہلِ حق کے علمی مسلک کے لحاظ سے دیکھا جائے تو "سیاستِ معاویہ رضی اللہ عنہ زندہ باد" کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

بعض پِیْر حضرات اور خطیب بدگمانی کرتے ہیں کہ سیاستِ معاویہ رضی اللہ عنہ زندہ باد کا مطلب ہے سیاستِ علی مردہ باد ۔ معاذ اللہ ! اللہ کی پناہ خدا ایسے پیروں اور خطیبوں کو جلد صاحبِ مزار بنائے آمین ۔

فقیر ایسے پِیْروں اور خطیبوں سے پوچھتا ہے کہ حضرات یہ تو بتائیے جب آپ آستانہ سجا کر الیکشن کے زمانہ میں جمھوری سیاسی رہنماؤں کو سپورٹ کرتے ہیں تو کیا تمھیں یہ بات یاد نہیں آتی کہ تم خلافت کے مقابلے میں جمھوریت کو سپورٹ کررہے ہو ؟ ، لندن وپیرس ، کینڈا و ڈنمارک کے ویزے لیتے وقت ،،، یورپ میں آستانے کھولتے وقت ،،،، وہاں کے ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے وقت آپ لوگ ہی کہتے ہو "we belive democracy کہ ہم جمھوریت پر ایمان رکھتے ہیں تو کیا آپ حضرات کو یہ بات یاد نہیں آتی کہ خلافت کے مقابلے میں جمھوریت پر یقین رکھنا کسی بھی طرح سے درست نہیں ہے ؟

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین میں سے ہر ایک اپنی ذات میں کامل فرد تھا ،لیکن اپنی ذاتی صلاحیتوں ،نسبی رجحانات اور مشکاۃ نبوت سے فیض یابی کی بدولت ہر ایک کسی خاص جہت سے ممتاز ہوگیا ، کسی بھی صحابی کی اس خاص امتیازی وصف کے ذکر کا مقصد دوسرے صحابہ سے اس کی نفی مراد نہیں ہوتی،کیا عدالتِ عمر کا یہ مطلب ہوگا کہ صدیق اکبر عادل نہیں تھے ؟ یا حیائے عثمان کا یہ مطلب ہے کہ شیخین میں وصفِ حیا کمیاب تھا ؟یا اقضاہم علی کا یہ مطلب ہے کہ دیگر صحابہ میں قضا کی صلاحیت مفقود تھی ؟ ہر گز نہیں ، اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بلا شبہ متاخر الاسلام صحابہ میں سے ہیں ،لیکن اپنی ذاتی اوصاف اور خاندانی وجاہت کی بدولت مختصر عرصے میں جہاں بارگاہ ِ رسالت میں کتابتِ وحی و کتابتِ رسائل کا عظیم الشان منصب حاصل کیا ،وہاں خلفائے راشدین کے زمانے میں نمایاں حیثیت حاصل کی ،چنانچہ اپنے بھائی یزید بن ابی سفیان کی وفات کے بعد حضرت عمر کی نگاہ مردم شناس نے آپ کی ان صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور حجاز کے بعد اہم ترین صوبہ شام کا گورنر بنا دیا اور چھ سال مسلسل خلافتِ عمر میں گورنر رہے ،حضرت عمر زیادہ عرصہ تک کسی کو ایک علاقے کا عامل نہیں رہنے دیتے ،لیکن ابن ابی سفیان نے اتنے کمال کے ساتھ منصب حکومت کو سنبھالا کہ حضرت عمر نے آپ کو اسی منصب پر برقرار رکھا ،اس کے بعد خلافتِ عثمان کے بارہ سال گورنر رہے ،ان اٹھارہ سالوں میں شامیوں کو امیر معاویہ سے تو محبت ہوئی ،اس کے ساتھ آپ کی بدولت بنو امیہ سے بھی اتنی محبت ہوگئی کہ شام امویوں کا گڑھ بن گیا ،(حالانکہ ایک حکمران زیادہ دیر تک رہے تو اہل علاقہ اکتا جاتے ہیں) چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے قدیم الاسلام ،مہاجر ،دامادِ رسول اور ذی وجاہت ہاشمی صحابی کے مقابلے میں جناب امیر معاویہ کا ساتھ دیا اور صفین جیسی بڑی جنگ تک لڑی ،اس کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے مقابلے میں منصبِ خلافت سے دستبردار ہوئے ،اور پھر بیس سال تک مسلسل جناب امیر معاویہ نے اس شان کے ساتھ کارِ حکومت چلایاکہ صفین ،جمل و نہروان جیسے جنگوں کی وجہ سے منتشر امتِ مسلمہ مثالی طور پر متحد رہی ،کیا شامی ،کیا عراقی ،کیا حجازی اور کیا عجم کیا عرب ،سب کو سیاستِ معاویہ نے بڑی حکمت و تدبر سے مسلسل بیس سال تک زیرِ اطاعت رکھا تھا ،چنانچہ صدرِ اول کے جملہ حکمرانوں میں حضرت امیر معاویہ واحد حکمران ہیں ،جو مسلسل اڑتیس سال تک سربراہی کرتے رہے اور اس سربراہی کے دور میں آپ کے زیرِ انتظام علاقے میں آپ کے خلاف اجتماعی شورش تو کیا ، جماعت و گروپ بندی کی صورت میں ادنی سی بغاوت و مخالفت ثابت نہیں ،جبکہ اس وقت بعض بڑے صحابہ جب گورنر بنے ،تو اہل علاقہ نے شکایات کیں ۔ جب سیاستِ معاویہ کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو آپ کی امورِ جہانبانی کی اسی معرفتِ تامہ کی طرف اشارہ ہوتا ہے ،جو بلاشبہ آپ کا ا متیازی وصف بنتا ہے ،یار لوگ بلا وجہ اسے مشاجرات کے ساتھ جوڑ کر پھر خلافت و ملوکیت کی پامال بحثوں کے ساتھ جوڑ کر مشتعل ہوجاتے ہیں ۔ بعض لوگ بلا وجہ اسے "مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم" کے ساتھ جوڑ کر پھر"خلافت و ملوکیت" کی پامال بحثوں کے ساتھ جوڑ کر مشتعل ہو جاتے ہیں اللہ عزّ و جل ایسے لوگوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورخلافت کی خدمات جلیلہ

(1) آپ رضی اللہ عنہ کے دو رخلافت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات ، قندھار، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ، ترمذ،شمالی افریقہ ،جزیرہ روڈس ،جزیرہ اروڈ ،کابل ،صقلیہ (سسلی )سمیت مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔ ان فتوحات میں غزوہ قسطنطنیہ ایک اہم مقام رکھتاہے ۔ یہ مسلمانوں کی قسطنطنیہ پر پہلی فوج کشی تھی ، مسلمانوں کا بحری بیڑہ سفیان ازدی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روم سے گزر کر قسطنطنیہ پہنچا اور قلعے کا محاصرہ کرلیا ۔

(2) )آپ رضی اللہ عنہ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ موسم سرما میں اور دوسرا حصہ موسم گرما میں جہاد کرتا تھا ۔آپنے فوجیوں کا وظیفہ دگنا کردیا ۔ ان کے بچوں کے بھی وظائف مقرر کردئیے نیز ان کے اہل خانہ کا مکمل خیال رکھا ۔

(4) مردم شماری کیلئے باقاعدہ محکمہ قائم کیا ۔

(4) بیت اللہ شریف کی خدمت کیلئے مستقل ملازم رکھے ۔ بیت اللہ پر دیبا وحریر کا خوبصورت غلاف چڑھایا ۔

(5) تمام قدیم مساجد کی ازسرنو تعمیر ومرمت ،توسیع وتجدید او رتزئین وآرائش کی ۔

(6) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سب سے پہلا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا ۔

(7) نہروں کے نظام کے ذریعے سینکڑوں مربع میل اراضی کو آباد کیا اور زراعت کو خوب ترقی دی ۔

(8) نئے شہر آباد کئے اور نو آبادیاتی نظام متعارف کرایا ۔

(9) خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورتمیں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا ۔

(10) ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا ، اس میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ محکمہ بناکر ملازم مقرر کئے ۔

(11) احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا ۔

(12) عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کی اور اس کو مزیدترقی دی ۔

(13) آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا ۔

(14) آپ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کئے ۔

(15) سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں ۔

(16) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا ۔

(17) مستقل فوج کے علاوہ رضا کاروں کی فوج بنائی ۔

(18) بحری بیڑے قائم کئے اور بحری فوج (نیوی) کا شعبہ قائم کیا ۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا تجدیدی کارنامہ ہے ۔

(19) جہاز سازی کی صنعت میں اصلاحات کی اور باقاعدہ کارخانے قائم کئے۔پہلا کارخانہ 54 ھ میں قائم ہوا ۔

(20) قلعے بنائے ، فوجی چھانیاں قائم کی اور دارالضرب کے نام سے شعبہ قائم کیا ۔

(21) امن عامہ برقرار رکھنے کیلئے پولیس کے شعبے کو ترقی دی جسے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے انتہائی احسن انداز میں آدھی دنیا پر حکمرانی کرکے ایک مثال قائم کی،جسے رہتی دنیا یاد رکھے گی ۔

19سال کے قلیل عرصے میں 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے ۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے ۔

آج بھی اگر کوئی مملکت اپنے وطن کو امن وامان کا گہوار اور اسلامی قلعہ بنانا چاہتی ہے تو ان حضرات کے اصول ونقش قدم پر چلنا پڑے گا،ان کے ضوابط اپنے پر لاگو کرنے پڑے گے ۔ اللہ تعالی سے دعا گوہوں کہ رب لم یزل ہمیں ان مقدّس شخصیات کے نقش قدم پرچلنے کی اور اپنے وجود کو ان حضرات کے اصولوں پر پورا اتارنے کی توفیق عطا فرمائ آمین ۔ فقیر کی طرف سے آخری گذارش یہ کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیاست تو اسی دن زندہ باد ہو گئی تھی جب حضرت سیّدُنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)





0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔