فضائل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اسلام کی تیرہ سو سالہ تاریخ و احادیث میں
محترم قارئینِ کرام : الحمد للہ ہم اہلسنت و جماعت ہیں ہمیں نہ خارجی و ناصبی قبول ہیں اور نہ ہی رافضی قبول ہیں ۔ خارجی و ناصبی اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کی شانوں میں گستاخیاں کرتے ہیں اور رافضی حب اہلبیت و حب مولا علی رضی اللہ عنہم کی آڑ لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باالخصوص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں ۔ ہم ان لوگوں سے کہتے ہیں جو اچھل اچھل کر اسلام کی تیرہ (13) سو سالہ تاریخ کے دعوے تو کرتے ہیں مگر اپنے انہیں دعوؤں کی روشنی میں یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ اہلسنت نے کب خارجیت ، ناصبیت اور رافضیت کو قبول کیا ہے ۔ یاد رہے ہم اہلسنت اہلبیت اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے محبت کرتے ہیں سب کا ادب کرتے ہیں ۔
محترم قارئین ایک اہم بات نوٹ فرما لیں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجماع امت کی روشنی باالترتیب انبیاء علیہم السّلام کے بعد سب ست افضل ہیں اہلسنت کے لبادے چھپے رافضی سادہ لوح مسلمانوں کو حب مولا علی رضی اللہ عنہ کی آڑ لے گمراہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں لو جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں لے آئے لعنۃ اللہ علی الکاذبین و لعنۃ اللہ علی شرکم ۔ بد بختو کیوں جھوٹ بول بول کر سادہ لوح مسلمانوں کو رافضی شیعہ بنانے پر تلے ہو جب اہلسنت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم انبیاء علیہم السّلام کے بعد سب سے افضل ہیں تو جھوٹ بول بول کر اپنی اور دوسروں کی عاقبت کیوں خراب کر رہے ہو ۔ آیئے اب تیرہ سو سالہ تاریخ اسلام میں لکھی کتب احادیث و تاریخ سے فضائل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق چند صحیح روایات پڑھتے ہیں :
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں صحیح حدیث مع مکمل تخریج
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دعا : ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻣﺴﻬﺮ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﻳﺰ ﻋﻦ ﺭﺑﯿﻌﮧ ﺑﻦ ﺯﯾﺪ ﻋﻦ ﺍﺑﯽ ﻋﻤﯿﺮﮦ، ﻗﺎﻝ : ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻨﺒﯽ ( ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ) : ﺍﻟﻠﻬﻢ ﺍﺟﻌﻠﻪ ﻫﺎﺩﻳﺎ ﻣﻬﺪﻳﺎ ﻭﺍﻫﺪﻩ ﻭﺍﻫﺪﺑﻪ
ترجمہ : ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻮﻻ ﺍﺳﮯ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ) ﮐﻮ ﮨﺎﺩﯼ ﻭ ﻣﮩﺪﯼ ﺑﻨﺎ، ﺍﺳﮯ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﮮ ۔ (ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ ﻓﯽ ﺍﻟﺘﺎﺭﻳﺦ ﺍﻟﮑﺒﯿﺮ، 640/5 ﺍﻟﺮﻗﻢ 791/)
عبد الرحمن بن ابی عمیرہ ازدی رضی اللہ عنہ نبی ﮐﺮیم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : اَللّٰہُمَّ اجْعَلْهُ هَادِیًا مَهدِیًّا وَاهدِ بِهِ ‘‘ (أحمد والترمذي:۳۸۴۲، وقال: حسن غریب)
’’اے اللہ! اس کو راہنمائی کرنے والا، ہدایت یافتہ بنا دے اور اس کے ذریعے ہدایت کو عام کر ۔
عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﮐﺮیم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا کہ !۔۔۔ اے اللہ!۔۔۔ اسے ہادی مہدی بنادے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے (سنن الترمذی۔٣٨٤٢ وقال؛ {ھذا حدیث حسن غریب} التاریخ الکبیر للبخاری ٥\٢٤٠، طبقات ابن سعد ٧\٤٨٧، الآحادوالمثانی لابن ابی عاصم ٢\٣٥٨ ح ١١٢٩، مسند احمد ٤\٢١٦ ح ١١٢٩ مسند احمد ٤\٢١٦ ح ١٧٨٩٥ وھوحدیث صحیح}۔۔۔ یہ روایت مروان بن محمد وغیرہ نے سعید بن عبدالعزیز سے بیان کر رکھی ہے اور مروان سعید سے روایت صحیح مسلم میں ہے۔{ دیکھئے ١٠٨\١٠٤٣ وترقیم دارلسلام ٢٠٤٣}
یہ نبی ﮐﺮیم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی سیدنا اَمیر معاوِیہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دُعا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی دُعا قبول کی۔ اس سے اہل حق کے سینوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے ، جبکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں نبی ﮐﺮیم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے اصحاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں کھوٹ ہے ان کو اس فضیلت سے غم اور تکلیف پہنچتی ہے، نعوذ باﷲ من الخِذلان، لاریب کہ اس حدیث مبارکہ میں سیدنا اَمیر معاوِیہ رضی اللہ عنہ کی عظیم فضیلت بیان ہوئی ہے ۔
اس حدیث کے مزید حوالہ جات یہ ہیں : (ﺍﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﺍﻟﻄﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ، 292/7 ﺍﻟﺮﻗﻢ 3746/)(ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ، 426/29 ﺍﻟﺮﻗﻢ 1789/)(ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺧﺜﯿﻤﮧ، ﺍﻟﺘﺎﺭﯾﺦ ﺍﻟﮑﺒﯿﺮ، 349/1)(ﺗﺮﻣﺬﯼ، ﺍﻟﺠﺎﻣﻊ ﺍﻟﺼﺤﯿﺢ، 687/5 ﺍﻟﺮﻗﻢ 3842/)(ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻋﺎﺻﻢ، ﺍﻵﺣﺎﺩ ﻭﺍﻟﻤﺜﺎﻧﯽ، 358/2 ﺍﻟﺮﻗﻢ 1129/)(ﺍﺑﻦ ﺧﻼﻝ، ﺍﻟﺴﻨﺔ، 450/2 ﺍﻟﺮﻗﻢ 699_697/)(ﺑﻐﻮﯼ، ﻣﻌﺠﻢ ﺍﻟﺼﺤﺎﺑﮧ، 146/2)(ﻃﺒﺮﺍﻧﯽ، ﺍﻟﻤﻌﺠﻢ ﺍﻷﻭﺳﻂ، 205/1 ﺍﻟﺮﻗﻢ 656/)(ﻃﺒﺮﺍﻧﯽ، ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ ﺍﻟﺸﺎﻣﯿﯿﻦ، 181/1 ﺍﻟﺮﻗﻢ 311/)(ﺁﺟﺮﯼ، ﺍﻟﺸﺮﯾﻌﮧ، 2436/5 ﺍﻟﺮﻗﻢ 1915/، چشتی)(ﺷﯿﺦ ﺍﺻﺒﯿﮩﺎﻧﯽ، ﻃﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﻤﺤﺪﺛﯿﻦ، 343/3)(ﺩﻗﺎﻕ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ، ﺍﻟﻔﻮﺍﺋﺪ، 211/ ﺍﻟﺮﻗﻢ 452/)(ﺃﺑﻮ ﻧﻌﻴﻢ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺻﺒﮩﺎﻥ، 221/1915)(ﺃﺑﻮ ﻧﻌﻴﻢ، ﺍﻟﻤﻌﺮﻓﺔ ﺍﻟﺼﺤﺎﺑﮧ، 1836/4 ﺍﻟﺮﻗﻢ 4634/)(ﺃﺑﻮ ﻧﻌﻴﻢ، ﺣﻠﯿﺔ ﺍﻻﻭﻟﯿﺎﺀ، 358/8)(ﺧﻄﯿﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺑﻐﺪﺍﺩ، _407 408/1)(ﺧﻄﯿﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ، ﺗﻠﺨﯿﺺ ﺍﻟﻤﺘﺸﺎﺑﮧ، _405 406/1)(ﺧﻄﯿﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ، ﺗﺎﻟﯽ ﺗﻠﺨﯿﺺ ﺍﻟﻤﺘﺸﺎﺑﮧ، 539/2 ﺍﻟﺮﻗﻢ 328/)(ﻗﺮﺷﯽ، ﺍﻟﺤﺠﺔ، 404/2 ﺍﻟﺮﻗﻢ 379/)(ﺍﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺩﻣﺸﻖ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺑﺘﺎﺭﯾﺦ ﺍﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ، _80 83/59)(ﺍﺑﻦ ﺧﺮﺍﻁ، ﺍﻻﺣﮑﺎﻡ ﺍﻟﺸﺮﻋﻴﺔ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ، 428/4)(ﺍﺑﻦ ﺍﺛﯿﺮ، ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻷﺻﻮﻝ، 107/9)(ﺍﺑﻦ ﺍﺛﯿﺮ، ﺍﺳﺪ ﺍﻟﻐﺎﺑﮧ، 155/4 ﺍﻟﺮﻗﻢ 4985/)(ﻧﻮﻭﯼ، ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻻﺳﻤﺎﺀ ﻭﺍﻟﻠﻐﺎﺕ، 104/2)(ﺧﻄﯿﺐ ﺗﺒﺮﯾﺰﯼ، ﺍﻟﻤﺸﻜﺎﺓ ﺍﻟﻤﺼﺎﺑﯿﺢ، 1748/3 ﺍﻟﺮﻗﻢ 6244/)(ﻣﺰﯼ، ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻟﻜﻤﺎﻝ، 327/17)(ﺫﻫﺒﯽ، ﺳﯿﺮ ﺍﻋﻼﻡ ﺍﻟﻨﺒﻼﺀ، _125 126/3)(ﺫﻫﺒﯽ، ﻣﻌﺠﻢ ﺍﻟﺸﯿﻮﺥ ﺍﻟﮑﺒﯿﺮ، 155/1)(ﺫﻫﺒﯽ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻹﺳﻼﻡ، 301/4)(ﺫﻫﺒﯽ، ﺗﻠﺨﯿﺺ ﺍﻟﻌﻠﻞ ﺍﻟﻤﺘﻨﺎﮨﯿﮧ ﻟﻼﺑﻦ ﺟﻮﺯﯼ، 93/ ﺍﻟﺮﻗﻢ 225/)(ﺻﻔﺪﯼ، ﺍﻟﻮﺍﻓﯽ ﺑﺎﻟﻮﻓﻴﺎﺕ، 124/18)(ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ، ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﻤﺴﺎﻧﯿﺪ، 536/5)(ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ، ﺍﻟﺒﺪﺍﯾﮧ ﻭﺍﻟﻨﮩﺎﯾﮧ، 129/8)(ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻋﺴﻘﻼﻧﯽ، ﺇﺗﺤﺎﻑ ﺍﻟﻤﻬﺮﺓ، 625/10 ﺍﻟﺮﻗﻢ 13513/ ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻋﺴﻘﻼﻧﯽ، ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ ﺍﻟﻤﻌﺘﻠﯽ، 268/4 ﺍﻟﺮﻗﻢ 5869/)( ﺳﯿﻮﻃﯽ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻟﺨﻠﻔﺎﺀ، 152/)(ﺳﯿﻮﻃﯽ، ﺗﻄﮩﯿﺮ ﺍﻟﺠﻨﺎﻥ، 388/)(ﻻﻟﮑﺎﺉ، ﺷﺮﺡ ﺍﻷﺻﻮﻝ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺍﮨﻠﺴﻨﺔ، 1441/8 ﺍﻟﺮﻗﻢ 6778/)(ﺍﺑﻦ ﺟﻮﺯﯼ، ﺍﻟﻌﻠﻞ ﺍﻟﻤﺘﻨﺎﮨﯿﮧ، 674/ ﺍﻟﺮﻗﻢ 446/)(ﺟﻮﺭﻗﺎﻧﯽ، ﺍﻷﺑﺎﻃﻴﻞ، 193/1)(ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻫﯿﺘﻤﯽ، ﺍﻟﺼﻮﺍﻋﻖ ﺍﻟﻤﺤﺮﻗﮧ، 310/)(ﮐﻨﺎﻧﯽ، ﺗﻨﺰﯾﮧ ﺍﻟﺸﺮﯾﻌﺔ ﺍﻟﻤﺮﻓﻮﻋﺔ، 8/2 ﺗﺤﺖ ﺍﻟﺮﻗﻢ 12/)(ﻋﺼﺎﻣﯽ، ﺳﻤﻂ ﺍﻟﻨﺠﻮﻡ، 155/3)(ﻃﯿﺒﯽ، ﺷﺮﺡ ﻋﻠﯽ ﻣﺸﮑﻮﺓ، 3948/12 ﺍﻟﺮﻗﻢ 6244/)0ﻣﻼ ﻋﻠﯽ ﻗﺎﺭﯼ، ﻣﺮﻗﺎﺓ ﺍﻟﻤﻔﺎﺗﯿﺢ، 4022/9 ﺍﻟﺮﻗﻢ 6244/)(ﭘﺮﮨﺎﺭﻭﯼ، ﺍﻟﻨﺎﻫﯿﺔ ﻋﻦ ﻃﻌﻦ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﻣﻌﺎﻭﯾﺔ، 15/)(ﺣﻠﺒﯽ، ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻟﻌﯿﻮﻥ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺳﯿﺮﺕ ﺣﻠﺒﯿﮧ، 136/3)( ﺷﺎﮦ ﻭﻟﯽ ﺍﻟﻠﮧ، ﺇﺯﺍﻟﺔ ﺍﻟﺨﻔﺎﺀ، _571 572/1)(ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ، ﻣﮑﺘﻮﺑﺎﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ، ﺩﻓﺘﺮ 1/ ﺣﺼﮧ 4/ ﺟﻠﺪ 1/ ﺻﻔﺤﮧ 58/ ﻣﮑﺘﻮﺏ 215/، چشتی)
ﺟﺐ نبی ﮐﺮیم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻟیئے ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺭﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﻟﮩٰﺬﺍ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺟﺎﮨﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻮ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر ﻟﻌﻦ ﻃﻌﻦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮑﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺭﻭﺵ ﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻔاﻖ ﻭ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﻏﻼﻇﺖ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﮯ ﺭﮐﮭﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﺭﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺳﮯ ﺑﻬﭩﮏ ﻧﮧ ﺟﺎنا ۔ اللہ بے ادبی سے بچائے آمین ۔
نبی ﮐﺮیم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم وسلّم نے فرمایا : اَللّٰہُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِیَةَ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ ‘‘ (مسند أحمد: ۱۶۷۰۲، والطبرانی فی الکبیر، وصحّحہ الألبانی)
ترجمہ : اے اللہ! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم سکھا اور اس کو عذاب سے بچا۔
میری اُمت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا، ان (مجاہدین) کے لئے(جنگ) واجب ہے (صحیح بخاری ٢٩٢٤)۔۔۔یہ جہاد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (کی خلافت) کے زمانے میں ہوا تھا (دیکھئے صحیح البخاری ٦٢٨٢۔٦٢٨٣)۔۔۔ اور اس جہاد میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شامل تھے ۔ (دیکھئے صحیح بخاری ٢٧٩٩۔٢٨٠٠)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھا کہ اتنے میں نبی ﮐﺮیم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم تشریف لائے میں یہ سمجھا کہ آپ میرے لئے تشریف لائے لہذا میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو آپ نے میری کمر پر تھپکی دے کر فرمایا۔۔۔جاؤ اور معاویہ کو بُلا لاؤ وہ (معاویہ رضی اللہ عنہ) وحی لکھتے تھے۔۔۔ الخ ۔ (دلائل النبوۃ للبہیقی ٢\٢٤٣ و سند حسن،چشتی)
جلیل القدر تابعی عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ المکی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھا پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ : انہوں نے صحیح کیا ہے وہ فقیہ ہیں ۔ (صحیح بخاری ٣٧٦٥)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ!۔مارایت رجلا کان اخلق یعنی للملک من معاویہ ۔ میں نے معاویہ سے زیادہ حکومت کے لئے مناسب (خلفائے راشدین کے بعد) کوئی نہیں دیکھا... (تاریخ دمشق ٦٢\١٢١ وسند صحیح، مصنف عبدالرزاق ١١\٤٥٣ ح٢٠٩٨٥،چشتی)
عرباض بن ساریہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﮐﺮیم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا کہ!۔اللھم علم معاویۃ الکتاب والحساب، وقد العذاب۔اے میرے اللہ!۔ معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اُسے عذاب سے بچا ۔ (مسند احمد ٤\١٢٧ ح ١٧١٥٢ وسند حسن، صحیح ابن خزیمہ ١٩٣٨)
ابراہیم بن میسر الطائفی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے کسی انسان کو نہیں مارا سوائے ایک انسان کے جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی تھیں انہوں نے اسے کئی کوڑے مارے ۔ (تاریخ دمشق ٦٤\١٤٥ وسند صحیح،چشتی)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں نبی ﮐﺮیم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا کہ : اے اللہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قا ئم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا ۔ ( جا مع ترمذی)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مبارکبا د دی اور”مرحبا ۔۔۔۔۔۔” فرمایا” ۔ (البدایہ والنہایہ ص ٧١١ج٨)
مسند بقی بن مخلد میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک سو تریسٹھ
احادیث موجود ہیں دیکھئے سیراعلام النبلاء (٣\١٦٢)
اما م اہلسنت ابو لحسن الاشعری رحمۃ اللہ علیہ (324 ہجری) فرماتے ہیں : جو جنگ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیر و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی یہ تاویل اور اجتہاد کی بنیاد پر تھی ، حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی امام تھے اور یہ تمام کے تمام مجتہدین تھے اور ان کے لیئے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے جنّت کی گواہی دی ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کی گواہی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ تمام اپنے اجتہاد میں حق پر تھے ، اسی طرح جو جنگ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مابین ہوئی اس کا بھی یہی حال ہے ، یہ بھی تاویل و اجتہاد کی بنیاد پر ہوئی ، اور تمام صحابہ پیشوا ہیں ، مامون ہیں ، دین میں ان پر کوئی تہمت نہیں ہے ، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے ان تمام کی تعریف کی ہے ، ہم پر لازم ہے کہ ہم ان تمام کی تعظیم و توقیر کریں ، ان سے محبت کریں اور جو ان کی شان میں کمی لائے اس سے براءت اختیار کریں ۔ (الابانہ عن اصول الدیانہ صفحہ نمبر 178 ، 179،چشتی)
امام قاضی ابو بکر باقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 304ھجری) فرماتے ہیں :
واجب ہے کہ ہم جان لیں : جو امور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مابین واقع ہوئے اس سے ہم کف لسان کریں ، اور ان تمام کے لیئے رحمت کی دعا کریں ، تمام کی تعریف کریں ، اور اللہ تعالی سے ان کے لیئے رضا ، امان ، کامیابی اور جنتوں کی دعا کرتے ہیں ، اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ ان امور میں اصابت پر تھے ، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیئے ان معاملات میں دو اجر ہیں ، اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جو صادر ہوا وہ ان کے اجتہاد کی بنیاد پر تھا ان کے لیئے ایک اجر ہے ، نہ ان کو فاسق قرار دیا جائے گا اور نہ ہی بدعتی ۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کے لیئے اللہ تعالی نے فرمایا : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور یہ ارشاد فرمایا : بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انھیں جلد آنیوالی فتح کا انعام دیا ، اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کا یہ فرمان ہے جب حاکم اجتہاد کرے اور اس میں اصابت پر ہو تو اس کے لیئے دو اجر ہیں ، اور جو اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے ، تو اس کے لیئے اجر ہے ۔ جب ہمارے وقت میں حاکم کے لیئے اس کے اجتہاد پر دو اجر ہیں تو پھر ان کے اجتہاد پر تمہارا کیا گمان ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۔ (الانصاف فی ما یجب اعتقاده صفحہ 64،چشتی)
حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 561ھجری) فرماتے ہیں : اہل سنت صحابہ کے آپس کے معاملات میں کف لسان ، ان کی خطاؤں کے بیان سے رکنے اور ان کے فضائل ومحاسن کا اظہار کرنے پر اور جو معاملہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرات طلحہ وعائشہ ومعاویہ رضی اللہ تعالی عنہم کے مابین اختلاف ہوا اس کو اللہ تعالی کے سپرد کرنے پر متفق ہیں جیسا کہ ہم ماقبل میں بیان کرچکے ہیں اور ان میں ہر فضل والے کو اس کا فضل دینے پر متفق ہیں ۔ (الغنية لطالبي طريق الحق عز وجل صفحہ 163)
حضرت امام مالک رضی ﷲ عنہ نے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو برا کہنا اتنا بڑا جرم ہے جتنا بڑا جرم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما کو برا کہنا ہے ۔ (صواعق محرقہ ص 102)
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے ساتھ اگر جنگ میں ابتدا کی تو صلح میں بھی ابتدا کی ۔ (صواعق محرقہ ص 105)
حضرت امام شافعی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اسلامی حکومت کے بہت بڑے سردار ہیں ۔ (صواعق محرقہ ص 105)
امام احمد بن حنبل رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے کردار کو دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے بے شک یہی مہدی ہیں ۔
(صواعق محرقہ ص 106)
حضرت امام اعمش رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ رضی ﷲ عنہ کا زمانہ دیکھ لیتے تو تم کو معلوم ہوتا کہ حکمرانی اور انصاف کیا چیز ہے‘ لوگوں نے پوچھا کیا آپ ان کے حلم کی بات کررہے ہیں تو آپ نے فرمایا نہیں ! خدا کی قسم ان کے عدل کی بات کہہ رہاہوں ۔ (العواصم ص 333‘ اور المتقی ص 233)
حضرت عوف بن مالک مسجد میں قیلولہ فرما رہے تھے کہ خواب میں ایک شیر کی زبانی آواز آئی جو منجانب ﷲ تھی کہ حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کو جنتی ہونے کی بشارت دے دی جائے ۔ (بحوالہ طبرانی)
حضرت مجاہد نے کہا کہ اگر تم حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کو دیکھتے تو کہتے یہ مہدی ہیں ۔ (البدایہ والنہایہ)
قاضی عیاض رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی‘ برادر نسبتی‘ اور کاتب وحی ہیں جو آپ کو برا کہے اس پر لعنت ہو ۔ (البدایہ والنہایہ)
امام ابن خلدون نے فرمایا کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے حالات زندگی کو خلفائے اربعہ کی ساتھ ذکر کرنا ہی مناسب ہے کیونکہ آپ بھی خلیفہ راشد ہیں ۔
(تاریخ ابن خلدون‘ ج 2‘ص 1141)
حضرت ملا علی قاری رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ مسلمانوں کے امام برحق ہیں ان کی برائی میں جو روایتیں لکھی گئی ہیں سب کی سب جعلی اور بے بنیاد ہیں ۔ (موضوعات کبیر ص 129،چشتی)
امام ربیع بن نافع فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اصحاب رسول کے درمیان پردہ ہیں جو یہ پردہ چاک کرے گا وہ تمام صحابہ رضی ﷲ عنہم پر طعن کی جرات کرسکے گا ۔ (البدایہ ج 8‘ ص 139)
علامہ خطیب بغدادی رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ مرتبے میں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ سے افضل ہیں لیکن دونوں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی ہیں بلکہ مملکت اسلامیہ کے دوستوں میں سے ہیں ان کے باہمی اختلافات کے فتنہ کا تمام گناہ سبائی فرقہ پر ہے ۔ (البدایہ والنہایہ)
علاّمہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آپ کی سیرت نہایت عمدہ تھی اور آپ بہترین عفو کرنے والے تھے اور آپ سب سے بہتر درگزر کرنے والے تھے اور آپ بہت زیادہ پردہ پوشی کرنے والے تھے ۔ (البدایہ ج 8‘ ص 126،چشتی)
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے خود اس شخص کو کوڑے مارے تھے جو حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ پر سب و شتم کیا کرتا تھا ۔ (الصارم المسلول)
حضرت معانی بن عمران سے سوال کیا گیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ ﷲ علیہ ؟ انہوں نے کہا کیا تم ایک تابعی کا صحابی سے مقابلہ کرتے ہو ۔ (البدایہ)
حضرت ابن عمران نے کہا کہ جو حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو برا بھلا کہے اس پر ﷲ تعالیٰ کے فرشتوں کی لعنت ہو اور اس پر تمام مخلوقات کی لعنت ہو ۔ (البدایہ)
حضرت قیصہ بن جابر اسدی فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر محبوب دوست اور ظاہر اور باطن کو یکساں رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا ۔ (تاریخ طبریٰ مترجم ج 5ص 175)
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حقوق ﷲ اور حقوق العباد کے پورا کرنے میں خلیفہ عادل ہیں ۔ (مکتوبات دفتر اول ص 441)
حضرت شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ نے لکھا حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حق میں کبھی بدظنی نہ کرنا اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی بدگوئی کرکے ضلالت کا ورطہ نہ لینا۔(ازالۃ الخفاء)
امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمہ اﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا: ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔
ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)
امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں : جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ)
امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی رافضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121 ،چشتی)
علاّمہ پیر سیّد محمد عرفان شاہ مشہدی صاحب فرماتے ہیں : جاہل صوفی اور نام نہاد سیّد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بد گو ئی کرتے ہیں خود کو سنی کہتے ہیں در اصل یہ اہلسنّت کے مخالف اور شیعہ فرقوں میں شامل ہیں ۔ (سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اہلِ حق کی نظر میں صفحہ نمبر 14 مطبوعہ دارالعرفان سبزہ زار لاہور،چشتی)
نبی ﮐﺮیم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : لا تسبوا أحدا من أصحابي . فإن أحدكم لو أنفق مثل أحد ذهبا ، ما أدرك مد أحدهم ولا نصيفه ۔ (صحيح مسلم)
ترجمہ : میرے صحابہ میں سے کسی کو گالی نہ دو، اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ ان کے ایک یا آدھ چلو (گندم یا جو وغیرہ) کے صدقے کے برابر بھی نہ ہوگا۔
نبی ﮐﺮیم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : من سب أصحابي، فعليه لعنة الله و الملائكة و الناس أجمعين ۔ ( صحيح الجامع: 6285،چشتی)
ترجمہ : جس میرے صحابہ کو برا بھلا کہا، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں (بشمول نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کی لعنت ہے ۔
ان احادیث میں سب صحابہ رضی اللہ عنہم اور اوپر بیان کردہ میں خصوصا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے جس سے واضح ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے ، اور بھت فضیلت والے صحابی تھے : اس سے کوئی صحابی مستثنیٰ نہیں۔
﴿ وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلِلَّـهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴾ ( سورة الحديد آیت نمبر 10)
ترجمہ : اور تمہیں کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالانکہ آسمانوں اور زمین میں سب کا وارث اللہ ہی ہے تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتحِ مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا، اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ،
اللہ تعالیٰ نے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے خواہ وہ فتح مکہ سے قبل ایمان لائے ہوں یا بعد میں حسنیٰ کا وعدہ فرمایا ہے ، اور یہاں ’حسنیٰ‘ سے مراد جنت ہے، ثابت ہوا کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنتی ہیں ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment