Tuesday 9 March 2021

عورت ایک پردہ ہے اورپردے کی چیز پردے میں ہی بھلی معلوم ہوتی ہے

0 comments

 عورت ایک پردہ ہے اورپردے کی چیز پردے میں ہی بھلی معلوم ہوتی ہے

محترم قارئینِ کرام : لغت میں عورت کامعنی پردہ ہے،لیکن پردے کا نام آتے ہی بعض عورتیں اس طرح بدک جاتی ہیں کہ مانواس کے ساتھ بڑا ظلم کیا جارہا ہے جبکہ پردہ ان کے لیے نہ صرف عزت وشرافت کی علامت ہے بلکہ بری نگاہوں سے انھیں بچاتابھی ہے۔یوں تو پردے کا تصورہر مذہب میں کسی نہ کسی طورپر مل جاتا ہے مگرمذہب اسلام میں پردے کا جو خیال رکھا گیا ہے وہ سب سے بہترطریقہ ہے،اس تعلق سے قرآن مقدس میں کئی آیتیں نازل ہوئی ہیں جس کے ذریعے معلوم ہوتاہے کہ پردہ ہماری زندگی میں بہت اہمیت رکھتاہے ۔

معاشرے میں تمام برائیوں کی جڑ بد نگاہی ہے،کیونکہ بدنگاہی اورادھرادھر تاک جھانک ہی انسان کوبدکاری کی راہ دکھاتی ہے اورآخرکارانسان گمراہی اوربدنامی کے جہنم میں پہنچ جاتا ہے۔پردے کاحکم آج سے نہیں ہے بلکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہے،کیوں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کوعلم تھاکہ پردہ نہ ہونے کی وجہ سے دنیامیں ہزاروں فتنے پیداہوں گے،یہی سبب ہے کہ احادیث میں پردے کی سخت تاکید کی گئی ہے،امام ترمذی کی ایک حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے : عورت عورت ہے، یعنی چھپانے کی چیزہے،جب یہ نکلتی ہے تواُسے شیطان جھانک کردیکھتا ہے۔
گویا اُسے دیکھنا شیطانی کام ہے،لیکن دنیا اس فتنے میں جان بوجھ کرمبتلاہے ،جس فتنے کی وجہ سے بے شرمی اوربے حیائی عام ہوگئی ہے ،جب کہ قرآن مقدس میں آیاہے کہ: مسلمان عورتوں کوحکم دوکہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی پارسائی کی حفاظت کریں اوراپنابنائوسنگارنہ دکھائیں مگرجتنا خودہی ظاہر ہوں اوردوپٹے اپنے گریبانوں پرڈالے رہیں اوراپنا سنگار نہ ظاہرکریں مگر اپنے شوہروں پر یااپنے باپ یااپنے شوہروں کے باپ یااپنے بیٹے یااپنے شوہروں کے بیٹے یااپنے بھائی یااپنے بھتیجے یااپنے بھانجے یااپنے دین کی عورتیں یااپنی کنزیں جواپنے ہاتھ کی ملک ہوں یااپنے نوکر، بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یاوہ بچے جنھیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبرنہیں اورزمین پرپاؤں زورسے نہ رکھیں کہ جاناجائے ان کاچھپاہوا سنگار ۔(چشتی)

لیکن آج دیکھاجارہاہے کہ عورتوں کاحال ذرہ بھر بھی قرآن وحدیث کے مطابق نہیں ہے، بلکہ وہ مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے اور جہاں دیکھوبے حیائی اوربے شرمی ہے ،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بے حیائی اوربے شرمی میں سب سے بڑا ہاتھ عورتوں کاہی ہاتھ ہے۔معاشرے میں تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ہم عورتیں اپنے آپ کونہیں بدلیں گے،کیوںکہ عورت اگرپارسااورنیک ہے توگھر اورمعاشرے کے لیے اچھاشگون ہے اوراگر یہی عورت بے حیا اوربے شرم ہے تودونوں کے لیے وبال ہے ۔

اس کے باوجودآج جدھر بھی نظر اٹھاکردیکھا جارہاہے تو پردے کے بجائے عریانیت کاماحول ہے،لباس کے نام پرایسے ایسے کپڑے استعمال کیے جارہے ہیں کہ جس سے پردے کی تکمیل تو دورخود بدن صحیح سے نہیں ڈھک پاتا ہے ۔

اسلام کویہ بے ہودگی اوریہ بدتہذیبی ایک لمحے کے لیے بھی گوارانہیں ہے، اسی لیے اس نے عورتوں کوایسالباس پہننے سے منع کیاہے جس سے جسم کی رنگت یابناوٹ ظاہرہوں، کیونکہ عورت، عفت وعصمت اورپارسائی کی چلتی پھرتی تصویر ہوتی ہے اورشرم وحیا کی جیتی جاگتی دیوی بھی ۔

اسلام عورتوں کو پاکیزگی، حرمت اور عزت وشرافت کے ساتھ زندگی گزارنے کاڈھنگ سکھاتاہے اوربنیادی طورپر یہ ہدایتیں دیتاہے کہ :

1 ۔ عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔

2 ۔ اپنی پارسائی اورعزت وعظمت کی حفاظت کریں اور اس پرداغ نہ آنے دیں ۔

3 ۔ اپنی زیبائش اورآرائش اوراپنا بنائو سنگار اجنبی کی نگاہوںمیںنہ آنے دیں ۔

4 ۔ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پرڈالے رکھیں تاکہ ان کاسراورسینہ کھلانہ رہے ۔

5 ۔ زمین پراس طرح اپنے پائوں زورسے نہ رکھیں کہ ان کے زیوروں کی جھنکار غیرمردوں کے کان میں پڑے ۔

ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ام سلمہ اورحضرت ام میمونہ رضی اللہ عنہما حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرتھیں کہ عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ آگئے ۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پردہ کرنے کاحکم دیا،انھوں نے عرض کیاکہ وہ تونابیناہیں ،اس پرفرمایا:تم تونابینانہیں ہو ۔(چشتی)

اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ برائی کی جڑنگاہیں ہیں اس لیے اس کاخیال رکھناچاہیے، اگر ضرورت پڑنے پرغیرمحرم سے مخاطب ہونا پڑے یاکوئی کام ہوتوبھی نگاہیں نیچی رکھیں ۔

پردہ صرف لباس یانگاہ تک نہیں ہے،بلکہ آوازکابھی خیال رکھناچاہیے کہ زیادہ زورزورسے اورچلاکر نہ بولیں، کیوں کہ عورتوںکی آواز میں ایک کشش ہوتی ہے جوانسان کے دلوں میں برے خیالات پیداکرسکتے ہیں اورعورت کویہ بھی چاہیے کہ وہ اپنے بنائوسنگارمیں کسی ایسی خوشبوکا استعمال نہ کریں جومردوں کوان کی جانب متوجہ کردے اورایسے زیوربھی پہننے سے گریز کریں جس میں آواز ہو،کیوں کہ زمانہ جاہلیت میں مردوں کولبھانے اوراپنی جانب متوجہ رکھنے کے لیے عورتوں میں یہ بات بڑی پسندیدہ مانی جاتی تھی کہ:جب اُن کاگزراجنبی مردوں کے سامنے یاکسی مجمع سے ہوتا تووہ اپنے پائوں کوزورسے زمین پررکھتی تھیں تاکہ مرداُن کے زیوروں کی آواز سن کر اُن کی طرف متوجہ ہوں اوراُن کے دل میں اُن کا خیال پیداہو۔آج بھی کچھ عورتیں اپنا سنگار ظاہر کرنے کے لیے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے ایسی اوچھی حرکت کرتی ہیں،شریعت مطہرہ نے ایسی ذلیل حرکتوں سے سختی کے ساتھ روکاہے کہ زورسے قدم زمین پرنہ رکھیں کہ ُان کے زیوروں کی جھنکار غیروں کے کانوں تک پہنچے اوروہ ان کی جانب متوجہ ہوں ۔

اگر کبھی کسی ضرورت کے تحت عورت کو گھر سے نکلنا بھی پڑے توحکم ہے کہ شرافت اورسنجیدگی سے اپناقدم بڑھائیں اورپردے کاخاص خیال رکھیں، کیوں کہ یہی وہ ساری صفات اور عادات ہیں جنھیں چھوڑدینے سے انسان غلط راستہ اختیار کرلیتاہے اورگناہوں کے دلدل میں پھنستاچلاجاتاہے ۔

عورت کی آواز بھی عورت ہے اس کا بھی پردہ کریں

ایک مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح خواتین کے لیے اپنے جسم کو نامحرم مردوں سے چھپانا ضروری ہے ، اسی طرح اپنی آواز کو بھی نامحرم مردوں تک پہنچنے سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے، البتہ جہاں ضرورت ہو وہاں نامحرم مرد سے پردہ کے پیچھے سے بات کرسکتی ہے، اسی طرح ٹیلی فون پر بھی ضرورت کے وقت بات کر سکتی ہے ، البتہ ادب یہ ہے کہ نامحرم سے بات کرتے وقت عورت اپنی آواز کی قدرتی لچک اور نرمی کو ختم کرکے ذرا خشک لہجے میں بات کرے، تاکہ قدرتی لچک اور نرمی ظاہر نہ ہونے پائے اور نامحرم مرد کو عورت کے نرم انداز گفتگو سے بھی کسی گناہ کی لذت لینے کا موقع نہ مل سکے۔ اس سے شریعت کی احتیاط کا اندازہ لگائیے آج کل ہمارے معاشرے میں جن گھروں میں کچھ پردہ کا اہتمام ہوتا ہے ، وہاں بھی عورت کی آواز کے سلسلے میں عموماً کوئی احتیاط نہیں کی جاتی، بلکہ نامحرم مردوں سے بلاضرورت بات چیت ہوتی رہتی ہے اور ان سے گفتگو میں ایسا انداز ہوتا ہے جیسے اپنے محرم کے ساتھ گفتگو کا انداز ہوتا ہے، مثلاً جس بے تکلفی سے انسان اپنی ماں کے ساتھ، اپنی بیٹی کے ساتھ، اپنی بیوی کے ساتھ اوراپنی سگی بہن کے ساتھ بات چیت کرتا ہے اور ہنستا بولتا ہے اوراس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، لیکن بعض اوقات یہ انداز نامحرم عورتوں کے ساتھ گفتگو کے وقت بھی ہوتا ہے ۔ اور نامحرم عورتیں نامحرم مردوں کے ساتھ یہی انداز اختیار کر لیتی ہیں اور گفتگو کے دوران ہنسی مذاق، دل لگی اور چھیڑ چھاڑ سبھی کچھ ہوتا ہے ، آج یہ باتیں ہمارے معاشرے میں عام ہیں ۔ یاد رکھیے! جس طرح عورت کے جسم کا پردہ ہے، اسی طرح اس کی آواز کا بھی پردہ ہے، جس طرح عورت کے ذمہ یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو نامحرم مرد کے سامنے آنے سے بچائے ، اسی طرح اس کے ذمہ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی آواز کو بھی بلاضرورت نامحرم مردوں تک جانے سے روکے ، البتہ جہاں ضرورت ہے وہاں بقدر ضرورت (ضرورت کی حد تک) گفتگو کرنا جائز ہے ۔ اور اسی طرح نامحرم مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ بلا ضرورت نامحرم عورت کی آواز کی طرف کان نہ لگائیں ۔ ( یعنی نہ سنیں)
اور نامحرم عورت کی آواز یا نامحرم مرد کی آواز کو خواہش نفس (شہوت ) کی تسکین کی خاطر سننا یقینا ناجائز اور گناہ ہے ۔ حج جو کہ فرض ہے اورحج میں زور سے تلبیہ ( یعنی لبیک اللھم لبیک) پڑھا جاتا ہے، لیکن عورتوں کے لیے حکم یہ ہے کہ عورتیں تلبیہ زور سے نہیں، بلکہ آہستہ آہستہ آواز میں پڑھیں ۔(چشتی)

بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ عورتوں کی دینی تقریات، اجتماعات وغیرہ میں اسپیکر لگے ہوتے ہیں ۔ جن کے ذریعے عورتوں کی تقاریر ، نعتوں وغیرہ کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے ۔ یہ بھی ناجائز ہے ، کیوں کہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی بند مکان میں عورتوں کا اجتماع ہو اور اگر عورتوں کے رش یا کثرت کی وجہ سے ان سب تک بات پہنچانے کے لیے اسپیکر بھی لگانے پڑیں تو عورتوں کی آواز باہر نہ جائے ۔

اب جبکہ عورت خود ایک پردہ ہے اورپردے کی چیز پردے میں ہی بھلی معلوم ہوتی ہے تو ہرحال میں عورتوں کو پردے کا خیال رکھنا چاہیے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اورشریعت مطہرہ پرچلنے کی توفیق عطافرمائے ۔ (آمین بجاہ نبی الکریم الامین صلی اللہ علیہ وسلّم ۔ طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔