Monday, 22 March 2021

میری امت کے علماء بنی اسرائیل کی امت کے انبیاء کی طرح ہیں

 میری امت کے علماء بنی اسرائیل کی امت کے انبیاء کی طرح ہیں


محترم قارئینِ کرام : حدیث میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں ۔ شارح بخاری مفتی اعظم ہند علاّمہ شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ : علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل ۔ ترجمہ : میری امت کے علما بنی اسرائیل کے انبیاء کے مثل ہیں ۔ کے متعلق فرماتے ہیں : ہاں یہ حدیث شریف صحیح ہے ۔ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں یہ طریقہ تھا کہ ایک نبی کے تشریف لے جانے کے بعد دوسرا نبی اس کی جگہ تشریف لاتا اور قوم کی ہدایت کرتا اور ان کے دین وایمان کی حفاظت کرتا , اور ہر ہر قوم کے جدا جدا نبی ہوتے, ایک ایک وقت میں کثیر انبیاء کرام موجود ہوتے تھے اور یہ سب شریعت موسوی کے پابند اور اس کے محافظ تھے , سواۓ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے , اسی طرح حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم چونکہ خاتم النبیین ہیں, حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے بعد اور کوئ دوسرا نبی پیدا نہ ہوگا تو جیسے کے بنی اسرائیل میں انبیاء شریعت موسوی کی حفاظت کا کام انجام دیتے تھے اسی طرح میری امت کے علما میری شریعت کی حفاظت کریں گے اور مخلوق کو ہدایت کریں گے ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد اول کتاب العقائد صفحہ نمبر 495)

حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وراخبار آمدہ العلماء ورثہ الانبیاء علمیکہ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات باقیماندہ است دو نوع است علم احکام و علم اسرار عالم وارث کسے است کہ اورا ازہر دونوع علم سہم بود نہ آنکہ اورا ازیک نوع نصیب بودنہ از نوعِ دیگر کہ کہ آن منافی وراثت است چہ وارث را از جمیع انواع ترکہ ٔ مورث نصیب ست انہ از بعض دون بعض وآنکہ اورا از بعض معین نصیب ست داخل غرما ست کہ نصیب او بجنس حق او تعلق گرفتہ است وہمچنین فرمودہ علیہ وعلیٰ اٰلہ الصلوٰۃ والسلام علماء امتی کانبیآء بنی اسرائیل مراد از علما علماء وارثانندنہ غرما کہ نصیبے از بعض ترکہ فراگرفتہ اندچہ وارث را بواسطۂ قرب و جنسیت ہمچو مورث میتوان گفت بخلاف غریم کہ ازین علاقہ خالی است پس ہر کہ وارث نبود عالمِ نبا شد مگر آنکہ علم اور امقید بیک نوع سازیم و گویم کہ عالم علم احکام است مثلاد عالم مطلق آن بود کہ وارث باد وازہر دو نوع علم اورا نصیب وافر بود ۔ (مکتوبات حضرت مجدّد الف ثانیؒ ۔ ۳۷۰ گارڈن ایسٹ ۔ ۱۲۳۱ھ ۔ دفتر اوّل حصّہ دوئم ۔ مکتوب نمبر ۲۶۸)
ترجمہ : حدیث شریف میں وارد ہے العلماء ورثۃالانبیاء (علماء انبیاءؑ کے وارث ہیں) واضح ہو کہ جو علم انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات سے باقی و جاری ہے دو قسم کا ہے: (۱) علمِ احکام (۲) علمِ اسرار ۔ اور (انبیاء کی)وراثت کا عالم (کہلانے کا مستحق) وہی شخص ہو سکتا ہے جو دونوں قسم کے علم سے بہر ور ہو، نہ یہ کہ صرف ایک قسم کاعلم حاصل ہو اور دوسری قسم سے محروم ہو ۔ یہ بات وراثت کے منافی ہے، کیونکہ وارث کو موروث کے ہر قسم کے ترکہ میں سے حصہ ملتا ہے، نہ کہ بعض میں حصہ ہو اور بعض میں نہ ہو۔ اور وہ شخص جس کا حصہ کسی خاص معین تک محدود ہو وہ (وارث نہیں بلکہ) غرما (قرض خواہ) میں داخل ہے، جس کا حصہ اس کے جنس کے حق سے متعلق ہے، اسی طرح آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا ہے : علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں) اور علماء سے مراد علمائے وارث ہیں نہ کہ غرما کہ جنہوں نے ترکہ کا بعض حصہ لیا ، کیونکہ وارث کو قرب و جنسیت کی وجہ سے بھی موروث کے مانند کہہ سکتے ہیں بخلاف غریم کے کہ وہ اس تعلق سے خالی ہے۔ لہٰذا جو شخص وارث نہیں ہے وہ عالم بھی نہیں ہے، مگر یہ کہ اس کے علم کو ایک نوع کے ساتھ مقید کر دیا جائے اور مثال کے طور پر یوں کہیں کہ وہ علمِ احکام کا عالم ہے ۔ اور عالم مطلق وہ ہے جو وارث ہو اور اس کو دونوں قسم کے علوم سے وافر حصہ حاصل ہو . (مکتوبات ربانی دفتر اوّل حصّہ دوئم ۔ مکتوب نمبر 268 صفحہ نمبر 661 مترجم اردو،چشتی)

حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت سے ظاہر ہوا وارثِ انبیاء سے مراد وہ علماء کرام ہیں جنہوں نے انبیاء ؑ کی وراثت سے کامل طور پر دونوں علوم سے حصّہ پایا ہو۔ فی زمانہ اکثر علمائے کرام صرف علم احکام (علم ظاہر) کو تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن علم اسرار (علم باطن) کی طرف توجہ نہیں دے پاتے ۔ اگر علم دین کو اللہ تعالیٰ کی رضا، دعوتِ دین اوراخلاص و تقویٰ کے ساتھ آدابِ استاد و آدابِ علم کو مد نظر رکھتے ہوئے رزقِ حلال اور طیب غذا کے ساتھ حاصل کیاجائے تو علم دین کی برکت سے قابلِ قدر حد تک نفسِ امارہ کی سرکشی کم ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات نفسِ امارہ کی سرکشی عروج پر ہوتی ہے ۔ ظاہری علم کی وجہ سے انانیت اور تکبر پیدا ہوجاتا ہے اور پھر غصّہ ، حقارت ، بڑائی جیسے حجابات باطن پر پیدا ہوجاتے ہیں۔اورترقی اور استفادہ کی راہ بندہوجاتی ہے۔ اوربعض اوقات شیطان ڈس لے تو فرقہ پرستی، دین فروشی ، ضمیر فروشی، شہواتِ دنیا میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ ایسے طبقے کو پھر علمائے سو کے لقب سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

اس سے امت کے علماء کی فضیلت معلوم ہوتی ہے ، علماء کے فضائل سے متعلق کئی آیات مبارکہ اور اس کے علاوہ بہت سی احادیث شریفہ ہیں ۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں سورۂ‎‎‎‎‍‌ یونس آیت نمبر : 37 / 38 کے تحت یہ حدیث ذکر کیا ہے ، نیز امام ملا علی قاری رحمہ اللہ الباری نے مرقاۃ المفاتیح میں اس کو درج کیا ہے ۔ مرقاۃ المفاتیح ، ج3 ، ص 274 ، كتاب المناسك ، باب حرم المدينة ، ويؤيده حديث علماء أمتي كأنبياء بني إسرائيل وإن تكلم في إسناده ۔

بنی اسرائیل کے انبیاء شریعت کی وضاحت و تشریح کا فریضہ سرانجام دیتے تھے اور یہ ذمہ داری امتِ مسلمہ کے علماء پر ڈالی گئی ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری وصال مبارکہ کے بعد سے لے کر آج تک ہر دور کے علماء نے علمِ حدیث اور شریعتِ مطہرہ کی وضاحت اور حفاظت کے لیے قابلِ قدر خدمات سرانجام دی ہیں ۔

علماء أمتي كأنبياء بني إسرائيل : روي أن الإمام الشاذلي قدس سره صاحب حزب البحر قال : اضطجعت في المسجد الأقصى فرأيت في المنام قد نصب خارج الأقصى في وسط الحرم فسطاط كبير فدخل خلق كثير أفواجاً أفواجاً فقلت : ما هذا الجمع؟ فقالوا : جميع الأنبياء والرسل عليهم السلام قد حضروا ، فنظرتُ إلى التخت فإذا نبينا صلى الله عليه وسلّم جالس عليه بإنفراده وجميع الأنبياء على الأرض جالسون مثل إبراهيم وموسى وعيسى ونوح عليهم السلام، فوقفت أنظر وأسمع كلامهم فخاطب موسى نبينا عليه السلام وقال له : إنك قد قلت : "علماء أمتي كأنبياء بني إسرائيل" فأرنا منهم واحداً فقال : هذا وأشار إلى الإمام الغزالي قدس سره فسأله موسى سؤالاً فأجابه بعشرة أجوبة فاعترض عليه موسى بأن الجواب ينبغي أن يطابق السؤال والسؤال واحد ، وأجبت بعشرة فقال الإمام : هذا إعتراض وارد عليك أيضاً حين سئلت {وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ} وكان الجواب عصاي فأوردت صفات كثيرة، قال: فابتسم النبي صلى الله عليه وسلم وقال لسيدنا موسى: أفي أمتك حبر مثل هذا؟؟؟فقال: اللهم لا، قال الشاذلي: : فبينما أنا متفكر في جلالة قدر سيدنا محمد عليه الصلاة السلام ، وكونه جالساً على التخت بإنفراده والخليل والكليم والروح جالسون على الأرض إذ رفسني شخص برجله رفسة مزعجة : فانتبهت فإذا بقيّم يشعل قناديل الأقصى وقال لي : لا تعجب فإن الكل خلقوا من نوره فخررت مغشياً فلما أقاموا الصلاة أفقت وطلبت القيم فلم أجده إلى يومي هذا ۔

عُلَمَاءُاُمَّتِی کَاَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْل ، یعنی میری اُمت کے علما بنی اسرائیل کے اَنبیا کی طرح ہیں ۔ (المقاصد الحسنة، حرف العین ، ص۲۹۳، حدیث : ۷۰۲ دار الکتاب العربی بیروت)

حضرت علاّمہ غلام محمود غزی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنی کتاب ”حُسْنُ التَّنَبُّہ“ میں اس حدیثِ پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت کے عُلما شرعی اَحکام کو مقرر کرنے ، لوگوں کو ان کی تاکید کرنے اور ان کا حکم دینے کے مُعاملے میں بنی اسرائیل کے اَنبیا کی طرح ہیں، حدیثِ پاک کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس اُمَت کے علما مقام و مرتبے میں بنی اِسرائیل کے اَنبیا کی طرح ہیں بلکہ مقام و مرتبے میں تو بنی اسرائیل کے اَنبیا ہی بلند ہیں ۔ (حسن التنبه ، باب التشبه بالنبیین صلوات الله وسلامه عليهم اجمعين، ۵ / ۲۷۰ دار النوادر لبنان،چشتی)

علامہ شمس الدین محمد بن ابراہیم السخاوی المتوفی 902 ھ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں : اس حدیث کے بارے میں ہمارے شیخ اور ان سے پہلے علامہ دمیری اور زرکشی نے کہا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور یہ کسی معتبر کتاب میں معروف نہیں ہے ۔ البتہ ابونعیم نے پاک دامن عالم کی فضیلت میں حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے کہ نبوت کے سب سے قریب وہ لوگ ہیں جو اہل علم اور اہل جہاد ہوں ۔ اس کی سند ضعیف ہے ۔ (مقاصد الحسنہ ص 293، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1407 ھ،چشتی)

علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی المتوفی 1162 ھ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں : علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الدار المنتژہ میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے ، اسی طرح حافظ ابن حجر نے بھی کہا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے ۔ (کشف الخفاء ج ٢ ص 64، مطبوعہ مکتبتہ الغزالی دمشق)

مُفسّرِ قرآن،حضرت سَیِّدُنا اِسماعیل حقّی اپنی مشہور تفسیر”رُوح البیان“میں ایک ایمان افروز واقعہ لکھتے ہیں،اِسے نہایت توجہ سے سُنیےاور ایمان تازہ کیجئے،چنانچہ لکھتے ہیں کہ:حضرت سیّدُنا امام ابُو الحسن شاذلی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں ایک بار مسجدِ اقصیٰ میں سوگیا، کیا دیکھتا ہوں کہ مسجدِ اقصیٰ کے باہر ایک تخت بچھایا گیا اور فوج در فوج مخلوق کا اِزْدِحَام (یعنی مجمع) ہونا شروع ہوا ، میں نے دریافت کِیا کہ یہ کیسا اجتماع ہے ؟ معلوم ہوا کہ تمام رُسُل و انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سیدِ عالم نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ اَقدس میں حاضرہوئے ہیں ،میں نے جو تخت دیکھا تو اس پر ہمارے نبی ،محمد ِمدنی،رسولِ ہاشمی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تنہاجلوہ افروز ہیں اور دیگرتمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جیسے حضرت ابراہیم،حضرت عیسیٰ ، حضرت نوح اور حضرت موسیٰ (اور ان کے علاوہ دوسرے انبیائے کرام) عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سب زمین پرتشریف فرما ہیں ۔ میں وہاں ٹھہر گیا اور ان مُقَدَّس حضرات کی گفتگو سننے لگا ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےعرض کِیا کہ حضور!آپ نے فرمایا کہ میری اُمّت کے علماء، انبیائے بنی اسرائیل کی مانند ہیں (یعنی دِین کی تبلیغ و اشاعت کرنے کے اعتبار سے ، لہٰذا دِین کی جتنی خدمت علماء اسلام نے کی ، اتنی خدمت کسی اوردِین کے عالموں نے اپنے دِین کی نہ کی) تو آپ اُن میں سے کوئی ایک عالِم دکھائیں تو حضورِ اکرم ،نبیِ مکرّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے امام محمد بن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی طرف اشارہ فرمایا : حضرتِ مُوسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنےان سے ایک سوال کِیا ، امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اس کے دس (10)جواب دیئے ۔ حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جواب سوال کے موافق ہونا چاہئے ، ایک سوال کا ایک جواب دینا تھا ، آپ نے دس (10) جواب کیوں دیئے ؟ حضرت سَیِّدُنا امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے عرض کیا : یا نبیَّاللہ ! اللہ عَزَّ وَ جَلَّ نے آپ سے بھی ایک ہی سوال کیا تھا جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے کہ (وَ مَا تِلْكَ بِیَمِیْنِكَ یٰمُوْسٰى ۔ (پارہ:۱۶،طٰہٰ:۱۷)
تَرْجَمہ : اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ ۔ آپ نےاس کے کئی جواب دئیے کہ یہ میراعصا(یعنی لاٹھی)ہے ، میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کیلئے پتےّ جھاڑتا ہوں اور اس کے علاوہ میرے اور بھی کام اس سے سر انجام ہوتے ہیں ، حالانکہ اللہ عَزَّ وَ جَلَّ کے اس سوال کا ایک جواب تھا کہ یہ میری لکڑی ہے ، مگر بات یہ ہے کہ جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو اللہ عَزَّ وَ جَلَّ سے ہمکلام ہونے کا شرف حاصل ہوا تو محبت و شوق کے غلبے کی وجہ سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے کلام کو طویل کر دیا تاکہ زیادہ سے زیادہ ہمکلامی کا شرف حاصل ہوسکےاور اِس وقت خُوش قسمتی سے مجھے آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے گفتگو کا شرف حاصل ہوا تو میں نے بھی شوق و محبت ہی کی وجہ سے اپنی گفتگو کو طویل کردیا ۔
حضرت امام ابُوا لحسن شاذلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ یہ منظر دیکھ کر کہ حضورِ انور،شاہِ بحرو بَرصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تنہا تخت پر جلوہ افروز ہیں اور تمام انبیاء اور رسول عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بالخصوص حضرتِ ابراہیم خَلِیْلُ اللہ،جنابِ عیسیٰ رُوْحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جیسے جلیلُ القدر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضورِ اکرم ، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سامنے زمین پر جلوہ افروز ہیں ، کتنی بڑی عظمت اور جلالتِ محمدی کا مُظاہرہ ہے ، میں اسی سوچ و بچار میں تھا اور اپنے دل میں بحالتِ خواب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی قدرو منزلت پر تعجب کر رہا تھا کہ اچانک کسی نے مجھے پاؤں سے ٹھوکر ماری جس سے میں بیدار ہوگیا ، میں نےاسے دیکھا تو وہ مسجدِ اقصیٰ کا منتظم تھا اور اس وقت مسجدِ اقصیٰ کی قندیلیں روشن کر رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا : (شہِ انبیاء ، سرورِ ہر دوسَرا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مرتبے پر) کیا تعجب کرتا ہے ؟ یہ سب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی کے نُورسےتو پیدا ہوئے ہیں ۔ یہ سُن کر مجھ پر بے ہوشی طاری ہوگئی ۔ نماز کےلیے جماعت کھڑی ہوئی تو اس وقت مجھے افاقہ ہوا میں نے مسجدِ اقصیٰ کے اس منتظم کو تلاش کیا مگر آج تک اسے نہ پایا۔(روح البیان،ج۵،ص۳۷۴ بتغیر قلیل،کوثرُ الخیرات،ص ۳۹)۔(شمائم امدادیہ صفحہ نمبر 134)

حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ شمائم امدادیہ میں فرماتے ہیں کہ منقول ہے کہ شب معراج کو جب آنحضرت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقی ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے استفسار فرمایا کہ ’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘ جو آپ نے کہا ہے کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ حضرت حجۃ الاسلام امام غزالی حاضر ہوئے اور سلام باضافہ الفاظ ’’وبرکاتہٗ ومغفرتہٗ‘‘ وغیرہ عرض کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ طوالت بزرگوں کے سامنے کرتے ہو۔ آپ (امام غزالی) نے عرض کیا آپ سے حق تعالیٰ نے صرف اس قدر پوچھا تھا ’’مَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یَا مُوْسٰی‘‘ تو آپ نے کیوں اتنا طول دیا کہ ’’ہِیَ عَصَایَ اَتَوَکَّؤُا عَلَیْہَا وَاَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیْ وَلِیَ فِیْہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰی۔‘‘ الاٰیۃ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا ’’ادب یا غزالی ۔‘‘ ادب کرو اے غزالی (شمائم امدادیہ مطبوعہ قومی پریس لکھنؤ)،(شمائم امدادیہ صفحہ نمبر 134،چشتی)

صاحب نبراس شارح عقائد نسفیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق کتاب نبراس شرح عقائد نسفیہ میں فرماتے ہیں کہ امام قطب زماں ابو الحسن شاذلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کے سامنے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ فخر فرما رہے ہیں اور موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ کیا آپ کی امتوں میں غزالی جیسا کوئی عالم ہے۔ بعض لوگ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ پر انکار کیا کرتے تھے تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے خواب میں انہیں کوڑے مارے۔ وہ بیدار ہوئے تو کوڑوں کا اثر ان کے جسم پر تھا ۔ (نبراس ص ۳۸۸)

اسی واقعہ کو امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے محاضرات میں سیدنا امام شاذلی صاحب ’’حزب البحر‘‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی طرح نقل فرمایا کہ میں ایک مرتبہ مسجد اقصیٰ میں سو گیا خواب میں دیکھتا ہوں کہ مسجد اقصیٰ کے باہر وسط حرم میں ایک تخت بچھایا گیا اور فوج در فوج مخلوق کا اژدھام ہونا شروع ہوا ۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ کیسا اجتماع ہے ؟ معلوم ہوا کہ تمام رسل و انبیاء علیہم السلام حضور سید عالم حضرت محمد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں منصور حلاج کی سوء ادبی کے بارے میں شفاعت کے لئے حاضر ہو رہے ہیں۔ میں نے جو تخت دیکھا تو اس پر ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تنہا رونق افروز ہیں اور تمام انبیاء علیہم السلام جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ و عیسیٰ و نوح علیہم السلام سب زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہاں ٹھہر گیا اور ان مقدس حضرات کی باتیں سننے لگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا، حضور! آپ نے فرمایا ہے کہ میری امت کے علماء انبیائِ بنی اسرائیل کی طرح ہیں تو ان میں سے کوئی ایک عالم دکھائیں۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے امام غزالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ فرمایا، موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ایک سوال کیا۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دس جواب دئیے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا جواب سوال کے مطابق ہونا چاہئے۔ ایک سوال کا ایک جواب دینا تھا آپ نے دس جواب کیوں دئیے ؟ امام غزالی نے عرض کیا ۔ حضور (معاف فرمائیں) اللہ تعالیٰ نے آپ سے بھی ایک ہی سوال کیا تھا ’’وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یَا مُوْسٰی!‘‘ (اے موسیٰ! تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے ؟) آپ نے اس کے کئی جواب دئیے کہ یہ میرا عصا ہے۔ میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں اور اس کے علاوہ میرے اور کام بھی اس سے سرانجام ہوتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سوال کا ایک جواب کافی تھا کہ یہ میرا عصا ہے ۔ امام شاذلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ منظر دیکھ کر حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تنہا تخت پر جلوہ افروز ہیں اور تمام رسل و انبیاء بالخصوص حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام، موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام، نوح نجی اللہ علیہ السلام، عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام جیسے اولوا العزم انبیاء علیہم السلام سب حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے سامنے زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں کتنی بڑی عظمت اور جلالت محمدی کا مظاہرہ ہے میں سوچ بچار میں لگا ہوا تھا اور اپنے دل میں (بحالت خواب) حضور عصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی قدر و منزلت پر متعجب تھا کہ ناگہاں کسی نے مجھے پاؤں سے ٹھوکر ماری جس کی ضرب سے میں بیدار ہو گیا۔ میں نے اسے جو دیکھا تو وہ مسجد اقصیٰ کا منتظم تھا اور اس وقت مسجد اقصیٰ کی قندیلیں روشن کر رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا، کیا تعجب کرتا ہے؟ یہ سب حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہی کے نور سے پیدا ہوئے ہیں ۔ یہ سن کر مجھ پر بے ہوشی طاری ہو گئی۔ نماز کے لئے جماعت کھڑی ہوئی تو اس وقت مجھے افاقہ ہوا ۔ میں نے اس منتظم مسجد اقصیٰ کو تلاش کیا مگر آج تک اسے نہ پایا ۔ (روح البیان جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۷۵)

ایک شبہ کا ازالہ

شاید کسی کے دل میں شبہ پیدا ہو کہ امام غزالی نے موسیٰ علیہ السلام کو (معاذ اللہ) لا جواب کر دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ محض اس لئے پیدا ہوا کہ مکالمہ کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی حیثیت ملحوظ نہ رہی ۔

اصل واقعہ یہ ہے کہ موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اس وقت بحیثیت ممتحن تھے اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ موسیٰ علیہ السلام کے سامنے امتحان دینے والے طالب علم کی حیثیت سے کھڑے ہوئے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطور امتحان سوال فرمایا اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا صحیح جواب دیا ۔

اگر کوئی طالب علم ممتحن کے سوال کا صحیح اور معقول جواب دے دے تو کوئی عقل مند یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے ممتحن کو لا جواب کر دیا بلکہ طالب علم کو کامیاب کہا جائے گا۔ لہٰذا امام غزالی کے متعلق یہ کہنا قطعاً غلط ہو گا کہ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو لاجواب کر دیا بلکہ یہی کہا جائے گا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ بارگاہِ کلیمی میں امتحان دے کر خود کامیاب ہو گئے ۔

ایک اور شبہ کا ازالہ

اس مقام پر یہ شبہ بھی غلط ہو گا کہ واقعی قاعدہ بھی چاہتا ہے کہ جواب سوال کے مطابق ہو اور ایک سوال کے متعدد جوابات بظاہر خلافِ اصول ہیں ۔ ایسی صورت میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے جوابات اور ساتھ ہی موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے جوابات سب محل نظر ہو جائیں گے ۔

اس شبہ کے غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جواب کا سوال کے مطابق ہونا یقینا ضروری ہے لیکن جوابات کا تعدد مطابقت کے خلاف نہیں ۔ البتہ یہ سوال ضرور ہو سکتا ہے کہ ایک سوال کے کئی جواب دینے میں کیا حکمت ہوگی؟ جس کے جواب میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی حکمت کلام کو لمبا کرنا ہے تاکہ شرف مکالمہ زیادہ دیر تک حاصل ہوتا رہے۔ گویا امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے موسیٰ علیہ السلام کو یہ جواب دیا کہ اے کلیم اللہ! جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے سوال کیا تھا کہ اے موسیٰ! تمہارے داہنے ہاتھ میں یہ کیا چیز ہے ؟ تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس خطاب کو اپنے لئے باعث عزت و افتخار جانا اور یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کلام فرما کر مجھے اپنا کلیم بنایا۔ لہٰذا ایک سوال کے کئی جواب دے کر کلام کو لمبا کر دوں تاکہ لذت مکالمہ دیر تک حاصل ہوتی رہے۔ علیٰ ہٰذا القیاس اے کلیم الٰہی! جب آپ نے مجھے مخاطب فرما کر سوال فرمایا تو آپ کے خطاب کو میں نے اپنے لئے باعث صد عزت و افتخار جانا اور یہ محسوس کیا کہ میں کیسا خوش نصیب ہوں کہ خدا کے کلیم سے ہم کلام ہو رہا ہوں۔ آپ نے کلیم اللہ ہونے پر فخر کیا اور میں نے کلیم اللہ کے کلیم ہونے کو موجب شرف جانا اور لذت مکالمہ سے زیادہ دیر تک کیف (لطف) اندوز ہونے کے لئے کلام کو لمبا کر دیا ۔ (مقالاتِ کاظمی معراج النبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جلد اوّل،چشتی)

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وذکرفی حرز العاشقین وغیرہ من الکتب ان نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لقی لیلۃ المعراج سیدنا موسٰی علیہ السلام فقال موسٰی مرحبابالنبی الصالح والاخ الصالح انت قلت علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل، ارید ان یحضراحد من علماء امتک لیتکلم معی فاحضر النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روح الغزالی رحمہ اللہ تعالٰی الٰی موسٰی علیہ السلام (وساق القصۃ ثم قال)، وفی کتاب رفیق الطلاب لاجل العارفین الشیخ محمد الجشتی نقلا عن شیخ الشیوخ قال قال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انی رأیت رجالا من امتی فی لیلۃ المعراج ارانیھم اللہ تعالٰی (الخ ثم قال) وقال الشیخ نظام الدین الکنجوی کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راکبا علی البراق وغاشیتہ علی کتفی انتھی ۔
اورحرز العاشقین وغیرہ کتابوں میں کہ حضرت سیدنا موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی درخواست پر حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے روح امام غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو حکم حاضری دیا ۔ روحِ امام نےحاضرہوکر موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کلام کیا۔(عہ۱) اورعارف اجل شیخ محمد چشتی نے کتاب رفیق الطلاب میں حضرت شیخ الشیوخ قدست اسرارہم سے نقل کیاکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے شب معراج کچھ لوگ اپنی امت کے ملاحظہ فرمائے(عہ۲) اورشیخ نظام الدین گنجوی رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے تھے: جب حضورپُرنورصلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ رونق افروز پشت براق پر تھے اوربراق کا زین پوش میرے کندھے پرتھا ۔
عہ۱: (الف) نبر اس شرح شرح عقائد، علامہ عبدالعزیز پرہاروی ، ص۳۸۸
(ب) مقابیس المجالس اردوترجمہ از واحد بخش سیال ص۲۵۵
(ج) معراج النبی از علامہ سید احمد سعید کاظمی ص۲۸ اورمابعد
(د) عرفان شریعت(مجموعہ فتاوٰی امام احمد رضا) مرتبہ مولانا محمد عرفان علی حصہ سوم ص۸۴تا۹۱
عہ۲: رفیق الطلاب مجتبائی دہلی ص۲۸
عہ۳: عمدۃ الفضلاء المحققین امام نجم الدین غیطی فرماتے ہیں : واماالرفرف فیحتمل ان المراد بہ السحابۃ التی غشیتہ وفیھا من کل لون التی رواھا ابن ابی حاتم عن انس وعندما غشتہ تاخرعنہ جبریل۔(کتاب المعراج (مؤلفہ رجب ۹۹۹ھ) مطبوعہ مصر،ص۸۹)
(ماخؤذ فتاوی رضویہ جلد نمبر 28)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...