Sunday, 7 March 2021

خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں

 خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں و خارجیوں کے عقائد و نظریات


محترم قارئینِ کرام : خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں : کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظام علیھم السلام اور اولیاء و صلحاء علیہم الرّحمہ پر بھی کر دیتے ہیں ۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود ۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص ، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے ۔ خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا ۔

وہابیوں کے محقق ڈاکٹر علی محمد صلابی و وہابی مترجم ابو عبد اللہ لکھتے ہیں : آج کل جوشیلے (وہابیوں) نے خارجیوں کا راستہ اختیار کر لیا ہے بتوں کی مذمّت میں نازل ہونے والی آیات کو اہلِ ایمان و صالحین پر چسپاں کرتے ہیں جن میں تفقہ فی الدین نہیں ہے ۔ (فکرِ خوارج خطرناک فتنوں کی حقیقت مترجم صفحہ نمبر 186)

خوارج کے بارے میں منقول ہے : کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری صفحہ 1714 کتاب استتابۃ المرتدین مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)( بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539)،(صحیح بخاری مترجم جلد سوم صفحہ نمبر 1033)،(ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)،(ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں ، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے ۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا آج بھی اوثان اور اصنام والی آیاتِ قرآنیہ کو مقبولانِ الٰہی اور اُن کے محبین اور اُن کا احترام بجا لانے والوں پر چسپاں کرنا اسی طرح قابلِ مذمت نہیں ؟ قابلِ مذمت ہے ، خوارج نے تو حضرت سیدنا علی المرتضی کرم ﷲ وجہہ الکریم جیسی شخصیت کو بھی مشرک کہا جو سرچشمۂ ولایت و روحانیت ہیں ۔ انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی صداقت کا بھی انکار کر دیا تھا اور بغاوت اختیار کرتے ہوئے وہ تاریخِ اسلام کے پہلے بڑے اعتقادی فتنے کا سبب بنے تھے ۔ خوارج نے باقاعدہ طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شرک کا مرتکب ٹھہرایا اور بزعمِ خویش اِس شرک کو قرآن حکیم کی آیت : إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ. (یوسف، 12 : 40) ’’حکم کا اختیار صرف ﷲ کو ہے۔‘‘) سے ثابت کرکے تحکیم کا انکار کیا ۔ اور ہر جگہ یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا : لَا حُکْمَ إِلَّاِ ﷲ. ’’حکم کا اختیار صرف ﷲ کو ہے۔‘‘ ان کا اپنے خلاف پراپیگنڈہ دیکھ کر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے واضح فرمایا تھا :کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ.ترجمہ:کلمہ تو برحق ہے مگر اِس سے مراد لیا جانے والا معنی باطل ہے ۔ (مسلم، الصحيح ، کتاب الزکاة، باب التحريض علي قتل الخوارج، 2 : 749، رقم : 1066)(ابن حبان، الصحيح، 15 : 387، رقم : 6939) (بيهقی، السنن الکبری، 8 : 171) ۔ اِسی طرح اہلِ ایمان کو آیات کی غلط تعبیر اور اطلاق کے ذریعے مشرک قرار دینے والا موجودہ طبقۂ فکر بھی خوارج ہی کی روش اختیار کئے ہوئے ہے ۔

خارجیوں کے عقائد نظریات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں خوارج کی نشانیاں

خارجیت دراصل منتشرالخیالی اور منتشرالعملی کا ابلیسی فتنہ ہے جس کی کوکھ سے جہالت ، درندگی ، وحشت و دہشتگردی جنم لیتی ہے ۔ یہ تاریخ اسلام میں یہ فتنہ ابتدائی زمانے میں ہی پیدا ہوگیا تھا جس نے پہلا منظم حملہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی مقدس جماعت پر کیا اور (نعوذباللہ) امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو کافر و مشرک قرار دیتے ہوئے ان کے قتل کا فتویٰ جاری کردیا ۔ یہ ایک انتہا تھی ۔ قانونِ فطرت کے تحت اس کا رد عمل دوسرے بڑے فتنہ روافض کی صورت میں سامنے آیا جو کہ ایک دوسری انتہا تھی ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اعتقادی ، فکری ، کلامی فسادات رونما ہونے میں یہی دو فتنے (خوارج و روافض) کارفرما رہے ۔ البتہ فتنہ خوارج سے آگہی و پہچان قرآن و سنت میں واضح کروا دی گئی ہے ۔ آئمہ تاریخ کی تحقیقات کے مطابق خوارج کے تقریبا بیس مختلف فرقے ہیں لیکن احادیث مبارکہ کی روشنی میں انکے دو گروہ نمایاں ہیں ۔ پہلا نجدیہ دوسرا حروریہ ۔

البتہ تاریخ اسلام میں اہل حق طبقہ ہمیشہ اعتدال، سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، صبر ، قربانی ، باہمی رواداری اور جمعیت کا دامن تھامے نظر آتا ہے ۔ جسے عام اصطلاح یں ’’اہلسنت و جماعت‘‘کہا جاتا ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا ۔ (صحيح بخاري ، كتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم)

صحیح بخاری کی کتاب ’استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم (باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے اور ان کے قتل کا بیان)‘ کے باب ’قتل الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم (خارجیوں اور بےدینوں سے ان پر دلیل قائم کر کے لڑنا)‘ کے تحت امام بخاری سب سے پہلے سورہ التوبہ (9) کی آیت نمبر 115 تحریر کرتے ہیں ، وقول الله تعالى ‏: ‏وما كان الله ليضل قوما بعد إذ هداهم حتى يبين لهم ما يتقون‏ ۔ ترجمہ : اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیزکرنا چاہئے، بیشک اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ۔ (سُورة الْتوبہ 9 ، آیت : 115)

پھر اس آیت کے فوراََ بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کوئی حدیث بیان کرنے کے بجائے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا وہ قول درج کرتے ہیں جو یوں ہے : وكان ابن عمر يراهم شرار خلق الله وقال إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار فجعلوها على المؤمنين‏ ۔ شارحینِ حدیث کے مطابق اس قول میں گمراہ گروہ خوارج کا ذکر ہے ۔

خوارج ہی وہ طبقہ ہے جو کافروں کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتا ہے ۔

خوارج کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں ؟ اس کے بارے میں امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ‫: نافع بن الازرق خارجی اور اس کے ساتھی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جب تک ہم شرک کے ملک میں ہیں تب تک مشرک ہیں اور جب ملک شرک سے نکل جائیں گے تو مومن ہوں گے ان کا کہنا تھا کہ جس کسی سے گناہ کبیرہ سرزد ہوا وہ مشرک ہے اور جو ہمارے اس عقیدے کا مخالف ہوا وہ بھی مشرک ہے جو لڑائی میں ہمارے ساتھ نہ ہو وہ کافر ہے ‫۔ ابراہیم الخارجی کا عقیدہ تھا کہ دیگر تمام مسلمان قوم کفار ہیں اور ہم کو اُن کے ساتھ سلام و دُعا کرنا اور نکاح ورشتہ داری جائز نہیں اور نہ ہی میراث میں اُن کا حصہ بانٹ کر دینا درست ہے ۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے بچے اور عورتوں کا قتل بھی جائز تھا کیونکہ اللہ تعالٰی نے یتیم کا مال کھانے پر آتش جہنم کی وعید سنائی ہے لیکن اگر کوئی شخص یتیم کو قتل کر دے یا اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے یا اس کا پیٹ پھاڑ ڈالے تو جہنم واجب نہیں ۔ (تلبس ابلیس علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ صفحہ 126 ، 127،چشتی)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں خارجیوں کی نشانیاں

(1) أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ. ’’وہ کم سن لڑکے ہوں گے ۔
(بخاری، الصحيح، کتاب ، 6 : 2539، رقم : 6531۔۔مسلم، الصحيح، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066،چشتی)

(2) سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ. ’’دماغی طور پر ناپختہ ہوں گے ۔

(3) کَثُّ اللِّحْيَةِ. ’’ گھنی ڈاڑھی رکھیں گے ۔

(4) مُشَمَّرُ الْإِزَارِ. ’’بہت اونچا تہ بند باندھنے والے ہوں گے ۔

(5) يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ. ’’یہ خارجی لوگ (حرمین شریفین سے) مشرق کی جانب سے نکلیں گے ۔

(6) لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتّٰی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ.۔۔ ’’یہ ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا ۔

(7) لَا يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ. ’’ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔

(8) يَتَعَمَّقُوْنَ وَيَتَشَدَّدُوْنَ فِی الْعِبَادَةِ. ’’وہ عبادت اور دین میں بہت متشدد اور انتہاء پسند ہوں گے ۔ (عبد الرزاق، المصنف، 10 : 155، رقم : 18673،چشتی)

(9) يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ. (بخاری) تم میں سے ہر ایک ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانے گا اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانے گا ۔

(10) لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ. ’’نماز ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘ (مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066)

(11) يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرائَتُکُمْ إِلَی قِرَاءَ تِهِمْ بِشَيءٍ . وہ قرآن مجید کی ایسے تلاوت کریں گے کہ ان کی تلاوتِ قرآن کے سامنے تمہیں اپنی تلاوت کی کوئی حیثیت دکھائی نہ دے گی ۔

(12) يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. ’’ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی ۔

(13) يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ. ’’وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ اس کے احکام ان کے حق میں ہیں لیکن درحقیقت وہ قرآن ان کے خلاف حجت ہوگا ۔

(14) يَدْعُونَ إِلَی کِتَابِ اﷲِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْئٍ. (ابوداود باب فی قتل الخوارج) وہ لوگوں کو کتاب اﷲ کی طرف بلائیں گے لیکن قرآن کے ساتھ ان کا تعلق کوئی نہیں ہوگا ۔

(15) يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ. ’’وہ (بظاہر) بڑی اچھی باتیں کریں گے ۔ (بخاری)

(16) يَقُوْلُوْنَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ قَوْلًا. ’’ان کے نعرے (slogans) اور ظاہری باتیں دوسرے لوگوں سے اچھی ہوں گی اور متاثر کرنے والی ہوں گی ۔ (طبرانی)

(17) يُسِيْئُوْنَ الْفِعْلَ. ’’مگر وہ کردار کے لحاظ سے بڑے ظالم، خونخوار اور گھناؤنے لوگ ہوں گے۔‘‘ (أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4 : 243، رقم : 4765،چشتی)

(18) هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. ’’وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہوں گے ۔ (مسلم)

(19) يَطْعَنُوْنَ عَلٰی أُمَرَائِهِمْ وَيَشْهَدُوْنَ عَلَيْهِمْ بِالضَّلَالَةِ. ’’وہ حکومت وقت یا حکمرانوں کے خلاف خوب طعنہ زنی کریں گے اور ان پر گمراہی و ضلالت کا فتويٰ لگائیں گے ۔
هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 228، وقال : رجاله رجال الصحيح.

(20) يَخْرُجُوْنَ عَلٰی حِيْنِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ . وہ اس وقت منظرِ عام پر آئیں گے جب لوگوں میں تفرقہ اور اختلاف پیدا ہو جائے گا ۔ (متفق علیہ)

(21) يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الإِسْلَامِ وَيَدْعُوْنَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ . وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے ۔ (متفق علیہ)

(22) يَسْفِکُوْنَ الدَّمَ الْحَرَامَ. ’’وہ ناحق خون بہائیں گے ۔ (مسلم)

(23) يَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ وَيَسْفِکُوْنَ الدِّمَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ مِنَ اﷲِ وَيَسْتَحِلُّوْنَ أَهْلَ الذِّمَّةِ . (من کلام عائشة رضي اﷲ عنها) ۔ وہ راہزن ہوں گے، ناحق خون بہائیں گے جس کا اﷲ تعاليٰ نے حکم نہیں دیا اور غیر مسلم اقلیتوں کے قتل کو حلال سمجھیں گے۔‘‘ (یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے۔) (حاکم، المستدرک، 2 : 166، رقم : 2657)

(24) يُؤْمِنُونَ بِمُحْکَمِهِ وَيَهْلِکُونَ عِنْد مُتَشَابِهه. (قول ابن عباس رضی الله عنه) . وہ قرآن کی محکم آیات پر ایمان لائیں گے جبکہ اس کی متشابہات کے سبب سے ہلاک ہوں گے ۔ (قولِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما) (امام طبری۔عسقلانی)

(25) يَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. (قول علي رضی الله عنه) ’’وہ زبانی کلامی حق بات کہیں گے، مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی ۔ (قولِ علی رضی اللہ عنہ) (مسلم)

(26) ينْطَلِقُوْنَ إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَيَجْعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ . (من قول ابن عمر رضی الله عنهما) (بخاری) ۔ وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے۔ اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں ۔ (قولِ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مستفاد)

(27) يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ . وہ دین سے یوں خارج ہو چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے ۔

(28) اَلْأَجْرُ الْعَظِيْمُ لِمَنْ قَتَلَهُمْ. ’’ان کے قتل کرنے والے کو اجرِ عظیم ملے گا ۔ مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066،چشتی)

(29) وہ شخص بہترین مقتول (شہید) ہوگا جسے وہ قتل کر دیں گے ۔ (ترمذی)

(30) کلاب النار ۔۔ خوارج جہنم کے کتے ہیں ۔ (السنن ابن ماجہ۔ باب فی الذکر الخوارج ۔ ۱: ۶۲، رقم۔۱۷۶

متعدد احادیث مبارکہ میں فرامین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں کہ خوارج دہشت گردوں کے گروہ امت مسلمہ کے اندر یکے بعد دیگرے نکلتے رہیں گے۔ حتی کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ جا کر ملے گا ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : یخرج قوم من قبل المشر یقروون القرآن ، لایجاوز تراقیم کلما قطع قرن نشا قرن، حتی یخرج فی بقیتھم الدجال ۔

ترجمہ : مشرق کی طرف سے کئی لوگ نکلیں گے ۔ وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن انکے حلق سے نیچے نہ اترے گا، جب ایک شیطانی سینگ یعنی دہشت گرد گروہ کو کاٹ دیا جائے گا تو دوسرا نکلے گا ، یعنی گروہ در گروہ پیدا ہوتے رہیں گے ۔ حتی کہ ان کے آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا ۔ (احمد بن حنبل المسند۔ ۲، ۲۰۹، رقم ۶۹۵۲)(طبرانی المعجم الاوسط۔ ۷: ۴۱، رقم ۶۷۹۱)(امام حاکم المستدرک ۔ ۴: ۵۵۶، رقم ۸۵۵۸)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...