واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور علم غیب پر اعتراض کا مدلل جواب
محترم قارئین کرام : دور حاضر کے وہابیہ ، دیابنہ اور دیگر فرقِ باطلہ کے لوگ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے واقعہ کے تعلق سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور عوام الناس کو ورغلانے کیلئے یہ کہتے ہیں کہ اگر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا توآپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے معاملہ میں اتنا سکوت کیوں فرمایا اور وحی کے منتظر کیوں تھے ؟
آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا علم غیب قرآن کی متعدد آیات اور احادیث کے بے شمار متون سے ثابت ہے۔ اس پر ایمان رکھنا ایمان کا ایک حصہ ہے ۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین کے درجہ میں اس معاملہ کا علم تھا حالانکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں یقینا با خبر تھے۔ اسی لئے تو اپنے جانثار صحابہ کرام کی مقدس جماعت کے سامنے حضرت عائشہ کے معاملے میں فرمایا وَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلٰی أھْلِیْ إلَّا خَیْرًا یعنی :'' خدا کی قسم ! میں اپنی اہل سے پارسائی کے سوا کچھ نہیں جانتا '' اس جملے کو غور سے ملاحظہ فرمائیے ۔ حضور نے اس جملے کو'' وَ اللّٰہِ'' یعنی ''خدا کی قسم '' سے مؤکد فرمایا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حضور کو حضرت عائشہ کی عصمت کا صرف گمان نہیں تھا بلکہ یقین کامل تھا ۔ اسی لئے تو اللہ کی قسم سے جملے کی ابتدا فرماکر اپنے یقین کامل کا اظہار فرمارہے ہیں ۔ جب نبی اور رسول معصوم ہیں ۔ ان سے گناہ کا صادر ہونا ممکن ہی نہیں ہے اور جھوٹ بولنا گناہ عظیم ہے ۔ قرآن میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کا اعلان ہے۔ تو نبی اور رسول کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتے ۔ اور پھر جھوٹ پر اللہ کی قسم کھانا، اس سے بھی بڑھ کر گناہ ہے ۔ ہر مومن کا یہ عقیدہ ہونا لازم ہے کہ رسول کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور کبھی بھی خدا کی جھوٹی قسم نہیں کھاتے ۔ تو جب حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم صحابہ کرام کے سامنے خدا کی قسم کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت فرمارہے ہیں، تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو اس واقعہ کی حقیقت کا یقین کے درجہ میں علم تھا، بلکہ یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تہمت لگانے والا اور فتنہ اٹھانے والا کون ہے؟ اسی لئے مسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ :''کون ہے جو میری مدد کرے؟ اور اس شخص سے انتقام لے جس نے بلا شبہ مجھے اور میری اہل کو ایذا پہنچائی ''حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان سے جوش الفت کے جذبے کے تحت طیش میں آکر منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق جو قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا، اس سے انتقام لینے کیلئے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہوگئے لیکن حضور نے انہیں باز رکھا ۔ اور مصلحتاً خاموش کر دیا کیونکہ اگر حضور ان حضرات کو اجازت انتقام عطا فرماتے اور وہ تہمت لگانے والے منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق کو قتل کردیتے، تو دیگر منافقین یہ واویلا مچاتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ کی طرفداری میں حقیقتِ واقعہ کو چھپانے کیلئے عبداللہ بن ابی کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا۔ اپنی زوجہ کی پاک دامنی کا کوئی ثبوت نہ تھا، لہذا قتل و غارت گری کی راہ اپنائی ۔ اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کو خاموش کر دیا۔ تاکہ فتنہ کی آگ اور زیادہ نہ بھڑکے ۔
٥ ھ میں غزوہ بنی المصطلق میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لے جانے کا ارادہ فرمایا ۔ اور ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالا ۔ اور اس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نام نکلا ۔ غزوہ بنی المصطلق ٥ ھ سے پہلے آیت حجاب نازل ہو چکی تھی ۔ یعنی عورتوں کیلئے پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا ۔ قرآن مجید پارہ ٢٢؎ سورہ احزاب میں آیت حجاب نازل ہو چکی تھی ۔ غزوہ بنی المصطلق کا واقعہ غزوہ خندق اور غزوہ بنی قریظہ سے قبل کا ہے ۔ غزوہ بنی المصطلق میں ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا حضور اقدس ؐ کے ساتھ تشریف لے گئیں۔ ان کی سواری کا بندوبست ایک اونٹنی پر محمل یعنی کجاوے میں کیا گیا ۔ اس کجاوے کو پردہ کیلئے اچھی طرح محجوب کیا گیا ۔ تاکہ کسی غیر محرم کی نظر ام المؤمنین پر نہ پڑے۔ آپ کجاوے میں پردے کے کامل انتظام کے ساتھ بیٹھ جاتیں ۔ اور پھر اس کجاوے کو اونٹ کی پیٹھ پر رسیوں سے باندھ دیا جاتا ۔ پڑاؤ اور منزل پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اس کجاوے کے اندر بیٹھی رہتی تھیں ۔ اور کجاوے کو اونٹ کی پیٹھ سے اتار لیا جاتا تھا ۔ اب پورا واقعہ جس کو '' حدیث افک'' کے نام سے شہرت ملی ہے ۔ اس کو خود سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مقدس زبان سے سنئے ۔
اصل واقعہ کیا تھا ؟
شیخین رحمۃ اللہ تعالی علیہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی ، آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے فارغ ہو کر روانہ ہوئے ۔ اور مدینہ طیبہ پہنچنے سے پہلے ایک مقام پر پڑاؤ کا حکم فرمایا میں اٹھی اور قضائے حاجت کیلئے لشکریوں کے پڑاؤ اور ٹھہراؤ سے ذرا فاصلے پر باہر چلی گئی، فراغت پاکر اپنی قیام گاہ پر لوٹی تو اتفاق سے میرا ہاتھ سینے پر گیا، تو مجھے پتہ چلا کہ میرا ہار گلے میں نہیں ہے ۔ وہ ہار جزع غفار کا بنا ہوا تھا۔ میں اسی جگہ پر واپس گئی تو ہار کو تلاش کرنے لگی ۔ اور اس تلاش میں دیر لگ گئی ۔ادھر لشکر روانہ ہو رہا تھا جو لوگ میرا کجاوا (محمل ) اونٹ پر رکھتے اور باندھتے تھے وہ آئے اور یہ سمجھا کہ میں اس کجاوے (محمل ) میں بیٹھی ہوئی ہوں ۔ محمل کو اٹھاکر اونٹ کی پیٹھ پر باندھ دیا ۔ میں ایک کم وزن اور سبک جسم عورت تھی ۔ لہذا ان کو یہ پتہ نہ چلا کہ محمل خالی ہے یا بھرا ہوا ہے۔ میں جب ہار تلاش کرکے اقامت گاہ پر لوٹی تو لشکر روانہ ہو چکا تھا ۔ جہاں لشکر کا پڑاؤ تھا، وہاں پر اب کوئی بھی موجود نہ تھا جس جگہ پر میرا ڈیرہ تھا میں اس جگہ آکر بیٹھ گئی ۔ میرا خیال یہ تھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب مجھ کو نہ پائیں گے تو کسی کو بھیج کر مجھ کو بلوالیںگے ۔ میں اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔ بیٹھے بیٹھے آنکھیں بوجھل ہوئیں، نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گئی ۔ حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالی عنہ جو لشکر کے پیچھے ''معقب کارواں'' کی خدمت پر مامور تھے ( معقب کاروں یعنی پہلے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی قافلہ یا لشکر کوچ کرتا تھا تو ایک شخص کارواں یا لشکر کے پیچھے رکھا جاتا تھا تاکہ کارواں سے کسی کی کوئی چیز گر جائے تو وہ شخص اٹھالے اور پھر منزل پر پہنچ کر امیر کارواں کے سپرد کر دے ، اور امیر کارواں تحقیق کرکے جس کی وہ چیز ہو اسے دےدے ) حضرت صفوان بن معطل صبح کے وقت اس مقام پر پہونچے اور مجھ کو سوتا پایا ۔ چونکہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے جب عورتوں کے شرعی پردے نہ تھے، تب انہوں نے مجھ کو دیکھا تھا، اس لئے انہوں نے مجھ کو پہچان لیا ۔ اور مجھ کو پہچان لینے پر فوراً استرجاع پڑھا ۔ یعنی '' انا للہ و انا الیہ راجعون''. ان کے استرجاع پڑھنے سے میں بیدار ہوئی اور چہرے اور جسم کو میں نے چادر میں اور زیادہ چھپالیا ، حضرت صفوان نے استرجاع کے علاوہ کچھ بھی نہ کہا اور نہ میں نے کچھ سنا ۔ انہوں نے اونٹنی سے اتر کر اونٹنی کو بٹھایا اور میں جا کر سوار ہوگئی ۔ اور حضرت صفوان اونٹنی کو کھینچ کر چل دیئے ۔ ہم نے چل کر لشکر کو سخت دھوپ اور گرمی کے وقت ٹھہراؤ میں پالیا ۔پھر ہلاک ہوا جس کو میرے معاملے میں ہلاک ہونا تھا اور جس شخص نے سب سے بڑھ کر اس کی تشہیر اور اتہام طرازی کی وہ عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق تھا۔ (الخصائص الکبریٰ فی معجزات خیر الوری از :امام علامہ جلال الدین سیوطی اردو ترجمہ ، جلد ١۔ ص ٤٤٩ تا ٤٥٠،چشتی)
بس اتنی سی بات تھی لیکن مدینہ طیبہ کے منافقین اور خصوصاً عبد اللہ بن اُبی بن سلول منافق نے اپنے خبث باطن اور دل میں چھپے ہوئے نفاق کا اظہار کرتے ہوئے ام المومنین محبوبہ محبوب رب العالمین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عصمت اور پاک دامنی کے خلاف تہمت اور افترا پردازی کا طوفان کھڑا کر دیا ۔ فتنے کا طوفان برپا ہوگیا ۔ منافقین کے ساتھ کفار اور مشرکین بھی شامل ہوگئے، کچھ ضعیف الاعتقاد، سادہ لوح ، بھولے بھالے مسلمان بھی ان کے بہکاوے میں آگئے۔
جہاں دیکھو وہاں صرف ایک ہی بات ، مبالغہ ، غلو اور جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ منافقین نے اس واقعہ کو اتنی اہمیت اور شہرت دی کہ خدا کی پناہ۔ ایک عظیم فتنہ کھڑا ہو گیا ۔ حالانکہ اجلّہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے منافقین کے بہتان و افک کا دندان شکن جواب دیا اور بارگاہ رسالت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عصمت اور پاک دامنی کا اظہار کیا ۔
امیر المؤمنین خلفیۃ المسلمین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کے جسم اقدس پر جب کہ مکّھی تک نہیں بیٹھتی کیونکہ اس کے پاؤں نجاستوں سے آلودہ ہوتے ہیں تو حق تعالی آپ کے لئے کیسے گوارا کرے گا، اس بات کو جو اس سے کہیں زیادہ بد ترین ہو اور اس سے آپ کی حفاظت نہ فرمائے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کا سایہ زمین پر نہیں گرتا، مبادا کہ وہ زمین ناپاک ہو ۔ حق تعالی جب کہ آپ کے سائے کی اتنی حفاظت فرماتا ہے تو آپ کی زوجہ محترمہ کی ناشائستگی سے کیوں نہ حفاظت فرمائے گا ۔ مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! حق تعالی نے اتنا گوارا نہیں فرمایا کہ آپ کے پائے اقدس کے نعلین مبارک میں نجاست کی آلودگی ہو اور وہ آپ کو اس کی خبر دیتا ہے کہ آپ نعلین کو پائے اقدس سے اتار دیں ۔ تو اگر یہ واقعہ نفس الامر میںوقوع پذیر ہوتا تو یقینا رب تبارک و تعالی آپ کو اس کی خبر دیتا ۔ )مدارج النبوۃ از شیخ عبد الحق محدث دہلوی اردو ، جلد ١۔ ص ٢٨٠،چشتی)(الخصائص الکبری ، امام جلال الدین سیوطی ۔ اردو ترجمہ جلد ١۔ ص۔ ٤٥٣)
حضور اقدس ؐنے اشارۃً الزام کی تردید فرمائی
منافقین و مشرکین کی جانب سے حضرت سیدتنا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عصمت اور پاک دامنی پر مسلسل الزامات و اتہامات کا سلسلہ جاری رہا ۔ بلکہ روز بروز اس میں اضافہ اور مبالغہ ہوتا رہا۔ ادھر صحابہ کرام و جانثاران بارگاہ رسالت منافقین کے اقوال و الزامات کی تردید فرماتے رہے۔ یہ معاملہ ایک ماہ سے زیادہ طول پکڑ گیا ۔ حضور اقدس ؐ نے بر بنائے مصلحت سکوت فرمایا اور منافقین کو کچھ جواب نہ دیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عصمت اور پاک دامنی سے آپ یقینا با خبر تھے لیکن مصلحت ایزدی کی بنا پر آپ نے اپنی رفیق حیات کی برأت کا صراحۃً اعلان نہ فرمایا ۔ البتہ اشارۃً اپنے جاں نثار صحابہ کے سامنے ان الفاظ میں ذکر فرمایا کہ وَ اللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلیٰ أھْلِیْ إلَّا خَیْرًا یعنی خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ میری اہلیہ کا دامن اس تہمت سے پاک ہے ۔
یہاں تک کہ اس فتنہ کے دوران آپ نے مسجد نبوی میں دوران خطبہ فرمایا کہ '' کون ہے جو میری مدد کرے ، اور اس شخص سے انتقام لے جس نے بلا شبہ مجھے اور میری اہل کو ایذا پہنچائی '' ( اس سے مراد عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق تھا ) پھر فرمایا کہ '' قسم ہے خدا کی ! میں اپنی اہل سے پارسائی کے سوا کچھ نہیں جانتا ''
والله ما علمت على أهلى إلا خيرا
"I know my wife to be only chaste.
Sahih al-Bukhari,Kitab al-Maghazi,Baab Hadith al-Ifk,Hadith 4141]
مذکورہ واقعہ تفصیل سے بیان کرنے کے بعد اس واقعہ میں کیا کیا اسرار و رموز مخفی تھے؟نیز حضور پاک ؐ نے کس مصلحت کی بنا پر سکوت فرمایا؟ اور اس میں کیا حکمت تھی ؟وہ انشاء اللہ کتاب کے اختتام میں عرض کروں گا ۔ پہلے اس واقعہ کو تفصیل سے ذکر کرتا ہوں ۔
جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا لشکر کے قافلے سے بچھڑ گئیں اور قافلہ جب روانہ ہوگیا تب تک کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ حضرت عائشہ بچھڑ گئی ہیں ۔ محمل اٹھانے والوں نے یہی سمجھ کر محمل (کجاوے) کو اونٹ پر رکھ دیا تھا کہ آپ اس کے اندر تشریف فرما ہیں ۔ لیکن جب یہ لشکر مدینہ شریف کے قریب صلصل نامی مقام پر ٹھہرا اور اونٹ بٹھائے گئے، مگر محمل سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا باہر تشریف نہ لائیں، تب پتہ چلا کہ آپ پیچھے رہ گئیں ہیں، ان کے انتظار میں لشکر بمقام صلصل ٹھہرا رہا لشکر میں پانی اس انداز سے تھا کہ مدینہ شریف پہنچ جائے ۔ لیکن ام المومنین کے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے قافلہ کو مجبوراً ان کے انتظار میں رکنا پڑا اور لشکر میں جتنا پانی تھا، وہ صرف ہوگیا۔ نماز کا وقت آیا تو وضو کیلئے پانی نہیں تھا پینے کیلئے بھی پانی کی تنگی تھی ۔ پانی کے بغیر وضو اور وضو کے بغیر نماز پڑھنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن چونکہ یہ قافلہ محبوبہ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و ازواجہ و بارک وسلم کے انتظار میں ٹھہرنے کی وجہ سے پانی کی قلت کی دقت و مصیبت میں مبتلا تھا ۔ لہذا اللہ تبارک و تعالی نے اپنے محبوب کی حرم محترمہ کے صدقے اور طفیل ان لشکر والوں پر مہربان ہو کر، ان پر اور ان کے طفیل قیامت تک کے مسلمانون پر کرم فرماکر تیمم کاحکم نازل فرمایا ۔ جس کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت سید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ صدیقہ میں عرض کیا کہ مَا ھِیَ بِأوَّلِ بَرْکَتِکُمْ یَا آلِ أبِیْ بَکْرٍ اے اولاد ابو بکر ! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں '' مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو تمہاری بہت سی برکتیں پہونچی ہیں ۔ (مدارج النبوۃ ، اردو ترجمہ ، جلد ٢۔ ص ٢٧٥،چشتی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ہم مدینہ منورہ واپس آئے، تو مشیت ایزدی سے ان ہی دنوں میں بیمار ہوگئی ۔ میں گھر ہی میں تھی۔ ایک ماہ سے زیادہ میں بیمار رہی ۔ باہر میرے خلاف فتنہ پردازوں نے جو الزامات اٹھا رکھے تھے، اس کا مجھے کچھ پتہ نہ تھا ۔ ایک دن ام مسطح نام کی عورت نے الزام تراشیوں کی اتہام سازیوں کی ساری باتیں مجھ سے بیان کیں ۔ جنہیں سن کر میں پہلے سے زیادہ بیمار ہوگئی۔ ایک روز حضور اقدس ؐ میرے پاس تشریف لائے اور سلام علیک کے بعد مجھ سے فرمایا '' تم کیسی ہو ؟ '' میں نے اپنی کیفیت بتانے کے بعد عرض کیا کہ اگر آپ اجازت عطا فرمائیں تو میں چند دنوں کیلئے اپنے والدین کے گھر چلی جاؤں ۔ حضور نے اجازت عطا فرمائی اور میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر چلی گئی ۔ میں نے اپنی والدہ سے تمام باتیں دریافت کیں ۔ میں تمام رات روتی رہی اور صبح ہوجانے پر بھی میرے آنسو تھمتے ہی نہ تھے ، تمام شب جاگتی ہی رہی ، پلک تک نہ جھپکی ۔ میں دن بھر مسلسل روتی رہی، میرے آنسو روکے نہ رکتے تھے اور نیند نام کو بھی نہ تھی، مجھ کو اندیشہ ہوا کہ شدت گریہ کی وجہ سے شاید میرا جگر پھٹ جائے گا ۔ (الخصائص الکبری ، اردو ، جلد ، ١۔ ص ٤٥١)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو ملنے میرے گھر تشریف لائے ۔ اور مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ ! میرے حضور تمہارے بارے میں ایسی ایسی باتیں پہنچی ہیں، لہذا اگر تم بری اور پاک ہو، تو عنقریب اللہ تمہاری پاکی بیان فرمائے گا اور تمہاری برأت کی خبر نازل فرمائے گا ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں ۔ کہ حضور کی زبان مبارک سے یہ کلمات سن کر میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ میری آنکھوں میں ایک قطرہ تک بھی نظر نہ آتا تھا۔ یہ اس خوشی کی بنا پر تھا جو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام مبارک سے بشارت پائی تھی ۔ )مدارج النبوۃ ، اردو ترجمہ، جلد ٢۔ ص ٢٨١،چشتی)(خصائص کبری، اردوترجمہ ،جلد ١ ۔ ص ٤٥٢)
حضرت عائشہ کی برأت میں قرآنی آیات کا نزول
ام المومنین سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں امید رکھتی تھی کہ اللہ تبارک و تعالی میری برأت فرمادے گا ۔ اور میری پاکی اور پاک دامنی کی خبر دے گا ۔ لیکن مجھے یہ خیال بھی نہ تھا کہ اللہ میرے اس معاملہ میں وحی نازل فرمائے گا ۔ کیونکہ میں اپنے آپ کو اور اپنے معاملے کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی۔ البتہ مجھ کو صرف اس بات کی توقع تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاید خواب دیکھیں گے اور اس ذریعہ سے مجھ بے چاری کی عفت اور عصمت پر گواہی مل جائے گی ۔ اللہ کا کرم دیکھئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے کہ یکایک حضور پر نزول و حی کے آثار نمودار ہوئے اور جو شدت ایسے موقع پر ہوتی تھی وہ شروع ہوئی ۔ حتی کہ آپ کی پیشانی مبارک پر موتیوں کے مانند پسینہ چمکنے لگا ۔ آپ پر خوب ٹھنڈی کے موسم میں بھی نزول وحی کی شدت سے پسینہ وغیرہ کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ۔ اور یہ اس گرانی اور بوجھ کی وجہ سے ہوتا تھا ، جو کلام مجید آپ پراترتا تھا ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نزول وحی کی کیفیت سے فارغ ہوئے، تو آپ کا یہ حال تھا کہ آپ تبسم فرمارہے تھے ۔ سب سے پہلی بات جو حضور نے فرمائی وہ یہ تھی کہ '' اے عائشہ صدیقہ ! حق تعالی نے تمہیں بری قرار دے کر تمہیں پاک گردانا ہے ۔ اس تہمت سے تمہاری پاکی بیان کی ہے اور تمہاری شان میں قرآن بھیجا ہے ۔ '' (مدارج النبوۃ ،اردو ترجمہ، جلد ٢۔ ص ٢٨٣)(خصائص کبری ،اردوترجمہ، جلد ١ ۔ ص٤٥٤)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس وقت إنَّ الَّذِیْنَ جَآؤا بِالإفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ (پارہ ١٨ ، سورہ نور، آیت ١١ )
ترجمہ:'' بے شک وہ کہ یہ بہت بڑابہتان لائے ہیں، تمہیں میں کی ایک جماعت '' ( کنز الایمان ) سے لے کر دس ١٠؎ آیتوں تک وحی ہوئی ۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت میں دس آیات مذکورہ اور دیگر آٹھ٨؎ آیات ملا کر کل ٨ ١؎ اٹھارہ آیات نازل فرمائیں ۔
سورہ نور آیت ٤ ۔ پارہ اٹھارہ میں صاف حکم نازل ہوا کہ :
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأتُوا بِأرْبَعَۃِ شُھَدَآءِ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَ لاَ تَقْبَلُوا لَھُمْ شَھَادَۃً أبَدًا ۔
ترجمہ :'' اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں ، پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں تو انہیں اسی٨٠؎ کوڑے لگاؤ اور ا ن کی کوئی گواہی کبھی نہ مانو ۔''
ام المومنین محبوبہ محبوب رب العالمین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت اور افک کے سلسلہ میں قرآن مجید کا انداز بیان بڑا جامع اور پر زور ہے۔ اس میں اعجاز و ایجاز اور احکامات و تنبیہات اس اسلوب سے بیان کئے گئے ہیں کہ معصیت کے کسی دوسرے وقوع اور موقع پر اس انداز سے بیان نہیں کئے گئے۔ تہمت طرازی اور سخن سازی کا منافقین کی طرف سے جو مظاہرہ ہوا، جس سے اہل بیت رسول اور خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو جو انتہائی صدمہ ، دکھ ، اور تکلیف پہونچی تھی، اس کی وجہ سے انداز بیان میں شدت ہوئی ہے ۔
الخصائص الکبری فی معجزات خیر الوری میں امام اجل حضرت علامہ عبد الرحمن جلال الدین سیوطی قدس سرہ نے زمخشری کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ ''اصنام پرستی اور شرک کے بارے میں جو تنبیہات ہیں، وہ بھی مقابلۃً اس سے کچھ کم ہی ہیں ۔ کیونکہ یہ ایک پاکباز زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طہارت و برأت کی حامل ہیں ۔ ''
وحی کے نزول کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سورئہ نور کی دس١٠؎ آیتوں کی تلاوت فرمائی اور پھر حضرت عائشہ صدیقہ کے یہاں سے نکل کر خوش و خرم مسجد نبوی میں تشریف لائے اور صحابہ کو جمع فرماکر خطبہ دیا اور اس کے بعد نازل شدہ آیتوں کی صحابہ کرام کے سامنے تلاوت فرمائی ۔ اور تہمت لگانے والوں کو طلب فرمایا ۔ تہمت لگانے والے جب بارگاہ رسالت میں حاضر کئے گئے، تو سرکار نے ان پر ''حد قذ ف '' جاری فرمایا اور ہر ایک کو اسی٨٠؎ اسی ٨٠؎ کوڑے لگوائے ۔ (مدارج النبوۃ ۔ اردو ، جلد ٢۔ ص ٢٨٣)
یہاں تک کے مطالعہ سے واقعہ کی ابتدا سے انتہا تک کی واقفیت حاصل ہو چکی ہوگی ۔ اب دور حاضر کے منافقین کے اعتراضات میں سے اہم اعتراض جو اس واقعہ کے ضمن میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب پر ہیں اس کا جواب دیں ۔
منافقین زمانہ کے اعتراضات
دور حاضر کے منافقین یعنی وہابی ، نجدی ، دیوبندی ، اور تبلیغی فرقہ باطلہ کے مبلغین و مقررین اپنے جہالت سے لبریز بیان اور تقریر جو در اصل تقریر نہیں بلکہ تفریق بین المسلمین ہوتی ہے ۔ بڑے تپ و تپاک سے اودھم مچاتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ کی عصمت و پاک دامنی کے سلسلہ میں حضور نے ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ تک سکوت کیوں فرمایا ؟ آپ نے فی الفور ان کی برات کا اعلان کیوں نہ کر دیا ؟ بلکہ وحی کے منتظر رہے ۔ اور جب وحی آئی تب آپ نے برأت کا اعلان فرمایا ۔ اس سے پتہ چلا کہ آپ کو علم غیب نہیں تھا ۔ اگر علم غیب ہوتا تو آپ فوراً برأت کا اعلان کردیتے ۔ ( معاذ اللہ )
بس یہی ہے ان کے دعوی کی دلیل و برہان ۔ مشیت ایزدی اور حکمت الہیہ کے رموز کو سمجھنے سے یک لخت قاصر وعاجز ہونے کی وجہ سے ایسی بے ڈھنگی بات کہہ رہے ہیں ۔ حالانکہ اس واقعہ کے پردے میں اللہ تعالی کی کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں اور ان تمام حکمتوں سے اللہ نے اپنے محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ فرما دیا تھا ۔ اسی وجہ سے آپ نے سکوت فرمایا تھا۔ کچھ وجوہات ذیل میں عرض ہیں ۔
حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر منافقین کی طرف سے تہمت لگائی گئی تھی ، منافق اس کو کہتے ہیں کہ جو بظاہر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو لیکن دل سے وہ مومن نہیں ہوتا ۔ زبان سے تو قسمیں کھا کھا کر حضور اقدس ؐ کو اللہ کا رسول ہونے کا اقرار کرتے تھے لیکن پیٹھ کے پیچھے حضور کی شان میں نا زیبا کلمات کہہ کر آپ کی گستاخی کرتے تھے اور آپ کو جھٹلاتے تھے ۔منافقین کی ان دو غلی باتوں کا اللہ نے پردہ فاش فرماتے ہوئے قرآن مجید میں ایک مکمل سورۃ بنام '' منافقون '' نازل فرمائی ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : '' إذَا جَا ۤءَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوا نَشْھَدُ إنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ إنَّکَ لَرَسُوْلُہ، وَ اللّٰہُ یَشْھَدُ إنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ '' ( پارہ ٢٨ ۔ سورہ منافقون ۔ آیت ١)
ترجمہ : ''جب منافق تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں ،کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور بیشک یقینا اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق ضرور جھوٹے ہیں ''۔
ان منافقین کی ایک خصلت کا ذکر قرآن شریف میں اس طرح ہے کہ : ''إذَا لَقُوا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قَالُوْا آمَنَّا وَ إذَا خَلَوْا إلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ قَالُوْا إنَّا مَعَکُمْ إنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِؤُنَ'' ( پارہ ١۔ سورئہ البقرۃ ، آیت ١٤)
ترجمہ: '' اور جب ایمان والوں سے ملیں ، تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوں، تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو یوں ہی ہنسی کرتے ہیں ۔'' ۔
رسول کے ماننے میں اور ایمان کے اقرار میں منافقین دو غلی بولی بولتے ہیں اور ان کے اقرار و ایمان کا کچھ بھی اعتبار نہیں ۔ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے کہ منافقین ضرور جھوٹے ہیں ۔ منافق کو صرف جھوٹا نہیں بلکہ'' ضرور جھوٹا'' کہا گیا ہے ۔ یعنی ان کا جھوٹ اتنا عام ہے کہ ان سے صدق کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی ۔ منافقوں کی بے حیائی اور بے شرمی کا یہ حال تھا کہ ابھی انکار اور ابھی رجوع ۔ بلکہ دن کے اجالے کو رات کی اندھیری کہہ دینے میں بھی ان کو کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے تھے، آپ کی تکذیب کرتے تھے ،آپ کے بین معجزات کو معاذ اللہ جادو اور سحر کہتے تھے ۔ لہذا ان جھوٹوں کے سامنے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی برأت کا اعلان کرنا بے سود تھا ۔ اگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے حضرت عائشہ کی برأت کا اعلان فرماتے، تو منافقین ایک الزام یہ گڑھتے کہ دیکھو! اپنی بیوی کا دفاع کر رہے ہیں ، زوجیت کی بناء پر طرفداری کر رہے ہیں، اپنی بیوی کے عیب پر پردہ ڈال رہے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین کے درجہ میں اس معاملہ کا علم تھا
حالانکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں یقینا با خبر تھے۔ اسی لئے تو اپنے جانثار صحابہ کرام کی مقدس جماعت کے سامنے حضرت عائشہ کے معاملے میں فرمایا وَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلٰی أھْلِیْ إلَّا خَیْرًا یعنی :'' خدا کی قسم ! میں اپنی اہل سے پارسائی کے سوا کچھ نہیں جانتا '' اس جملے کو غور سے ملاحظہ فرمائیے ۔ حضور نے اس جملے کو'' وَ اللّٰہِ'' یعنی ''خدا کی قسم '' سے مؤکد فرمایا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حضور کو حضرت عائشہ کی عصمت کا صرف گمان نہیں تھا بلکہ یقین کامل تھا ۔ اسی لئے تو اللہ کی قسم سے جملے کی ابتدا فرماکر اپنے یقین کامل کا اظہار فرمارہے ہیں ۔ جب نبی اور رسول معصوم ہیں ۔ ان سے گناہ کا صادر ہونا ممکن ہی نہیں ہے اور جھوٹ بولنا گناہ عظیم ہے ۔ قرآن میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کا اعلان ہے ۔ تو نبی اور رسول کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتے ۔ اور پھر جھوٹ پر اللہ کی قسم کھانا، اس سے بھی بڑھ کر گناہ ہے ۔ ہر مومن کا یہ عقیدہ ہونا لازم ہے کہ رسول کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور کبھی بھی خدا کی جھوٹی قسم نہیں کھاتے ۔ تو جب حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم صحابہ کرام کے سامنے خدا کی قسم کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت فرمارہے ہیں، تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو اس واقعہ کی حقیقت کا یقین کے درجہ میں علم تھا، بلکہ یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تہمت لگانے والا اور فتنہ اٹھانے والا کون ہے؟ اسی لئے مسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ :''کون ہے جو میری مدد کرے؟ اور اس شخص سے انتقام لے جس نے بلا شبہ مجھے اور میری اہل کو ایذا پہنچائی ''حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان سے جوش الفت کے جذبے کے تحت طیش میں آکر منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق جو قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا، اس سے انتقام لینے کیلئے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہوگئے لیکن حضور نے انہیں باز رکھا ۔ اور مصلحتاً خاموش کر دیا کیونکہ اگر حضور ان حضرات کو اجازت انتقام عطا فرماتے اور وہ تہمت لگانے والے منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق کو قتل کردیتے، تو دیگر منافقین یہ واویلا مچاتے کہ حضور نے اپنی زوجہ کی طرفداری میں حقیقتِ واقعہ کو چھپانے کیلئے عبداللہ بن ابی کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا۔ اپنی زوجہ کی پاک دامنی کا کوئی ثبوت نہ تھا، لہذا قتل و غارت گری کی راہ اپنائی ۔ اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کو خاموش کر دیا۔ تاکہ فتنہ کی آگ اور زیادہ نہ بھڑکے ۔
دور حاضر کے منافقین صرف اسی بات کی رٹ لگاتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے حضرت عائشہ کی برأت کا اعلان نہ کرتے ہوئے سکوت کیوں اختیار کیا ۔ اس کا جواب ضمناً تو اوپر بیان ہو چکا کہ اگر آپ برأت کا اعلان فرماتے تو منافقین ماننے والے نہ تھے بلکہ دیگر الزامات تراشتے ۔اس لئے حضور نے سکوت فرمایا ۔ اور ایک اہم مصلحت یہ تھی کہ حضور برأت کا اعلان کریں وہ اتنا مؤثر نہ ہوگا جتنا کہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے اعلان برأت کا اثر ہوگا ۔ اس کو ایک آسان مثال سے سمجھیں کہ ایک بادشاہ کی کوئی چیز گم ہوگئی ،کچھ مخالف لوگوں نے چوری کا الزام بادشاہ کے وزیر اعلیٰ کے بیٹے پر لگایا۔ حالانکہ کہ وزیر اعلیٰ کا بیٹا بے قصور تھا۔ وزیر اعلیٰ کو اپنے بیٹے کے بے قصور ہونے کا یقین کے درجہ میں علم ہے ۔ لیکن وقت کا تقاضا اور مصلحت حالات یہ ہے کہ وزیر خاموش ہی رہے ۔ کیونکہ اگر وزیر اٹھ کر اپنے بیٹے کے بے قصور ہونے کا اعلان کرے گا تو الزام لگانے والے مخالفین کا گروہ یہی کہے گا کہ اپنے بیٹے کی محبت اور طرفداری میں وزیر اعلیٰ اپنے عہدے اور منصب کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ لہذا وزیر اعلیٰ سکوت اختیار کرے یہی بہتر و مناسب ہے، چاہے تہمت کی آندھی کتنی ہی تیز کیوں نہ ہوجائے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ صبر کرے اور خاموش رہ کر اس وقت کا انتظار کرے کہ حق بات واضح ہو کر سامنے آجائے ۔ا چانک ایک دن بادشاہ سلامت کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ وزیر اعلی کے فرزند ارجمند پر چوری کا جو الزام لگایا گیا ہے اس میں وہ بری اور بے قصور ہے ۔ وزیر زادہ دیانتدار اور نیک بخت ہے ۔ ایسے نیک بخت پر چوری کا الزام لگانا ، ظلم شدید اور گناہ عظیم ہے ۔ ہم وزیر زادہ کو اس چوری کی تہمت سے باعزت بری کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ حکم نافذ فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایسے نیک بخت اور دیانتدار پر غلط الزام لگاتے ہیں ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔ اس اعلان کے بعد الزام لگانے والوں کو بادشاہ کوڑے لگوائے اور کوڑے لگانے کا کام اپنے وزیر کے ہاتھ سے انجام دلوائے ۔
اب قارئین کرام ،سوچیں ! وزیر زادہ کی عزت کس میں بڑھی ؟ اگر وزیر اپنے بیٹے کی برأت کا اعلان کرتا ہے تو اس میں وہ عزت و شان حاصل نہ ہوتی جو عزت اور مرتبہ بادشاہ کے اعلان سے حاصل ہوا ۔ ٹھیک اسی مثال کو حضرت سدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعہ میں ذہن نشیں کرکے سوچیں کہ حضور اقدس ؐ کی طرف سے برأت و عصمت کے اعلان میں منافقین کو طرفداری اور پاسداری کے الزام کی گنجائش تھی ۔ لیکن جب اللہ تبارک و تعالی نے ہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی برأت کا اعلان قرآن مجید میں فرمادیا، تو اب کسی کو سسکنے کی ، کھسکنے کی ، بدکنے کی، رینگنے کی گنجائش ہی نہ رہی ۔
اگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برات کا اعلان فرماتے تو وہ حدیث کہلاتی اور یہ واقعہ حدیث کی کتابوں میں دیگر واقعات کی طرح شمار کیا جاتا ۔ حدیث کے متن (عبارت ) کی نماز میں تلاوت نہیں ہوتی لیکن اللہ نے حضرت عائشہ کی برات کا قرآن مجید میں اعلان فرمایا۔ اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ حضرت عائشہ کی عظمت قیامت تک نماز میں تلاوت قرآن مجید کے ذریعہ ظاہر ہوتی رہے ۔ عوام مسلمین میں دینی تعلیم و معلومات حاصل کرنے کی رغبت اور شوق دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔ بڑی مشکل سے ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم لوگ اپنی اولاد کو دے پاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں حدیث و فقہ کے علم کی طرف بہت کم افراد مائل ہیں۔ اگر برأت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بذریعہ حدیث ہوتی تو اتنی شہرت و عزت نہ ملتی جتنی کہ قرآن مجیدسے برأت ہونے پر حاصل ہوئی ۔
چھوٹا سا دیہات ہوگا ، چاہے اس میں مسلمان کے دور چار ہی مکان ہوں لیکن وہاں کسی نہ کسی گھر میں قرآن مجید ضرور ہوگا ۔ لیکن وہاں کتب احادیث کا ہونا ناممکن ہے ۔بلکہ اکثر شہروں میں جہاں دار العلوم نہیں ہوتے وہاں بخاری شریف ، مسلم شریف و دیگر کتب احادیث کا ہونا نا ممکن ہے ۔ علاوہ ازیں دنیا کا کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں ہے جہاں کلام مجید کا نسخہ موجود نہ ہو ۔ بر عکس اس کے کتب احادیث بہت کم دستیاب ہیں۔ تو اللہ تعالی نے قرآن مجید کے ذریعہ برأت حضرت عائشہ کا جو اعلان فرمایا ہے، اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں اپنے محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کی شان و شوکت کا ڈنکا قیامت تک بجتا رہے ۔
اگر بجائے قرآن مجید احادیث سے حضرت عائشہ کی برأت و عصمت کا اعلان ہوتا، تو منکرین عظمت کو تنقیص کیلئے ایک راہ یہ ملتی کہ وہ اپنی ذہنی اختراع سے یہ کہہ دیتے کہ '' یہ حدیث ضعیف ہے '' جیسا کہ دور حاضر کے منافقین وہابی ، نجدی ، دیوبندی ، تبلیغی لوگ عظمت و تعظیم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواز و ثبوت کی احادیث سے عوام کو بے التفات و بے اعتماد کرنے کیلئے بلا کسی ثبوتِ علم اسماء الرجال کہہ دیتے ہیں کہ ''یہ حدیث ضعیف ہے '' لیکن قرآن مجید کی کسی بھی آیت کو ضعیف کہنے کی کسی میں جرأت نہیں ۔ اور اسی حکمت کے تحت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا اعلان قرآن مجید میں کیا گیا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment