نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اے معاویہ توں مجھ سے ہے اور میں تم سے ہوں تم مجھے جنت کے دروازے پر ان دو انگلیوں کی طرح ملو گے
امام ابوبکر بن خلال رحمۃ اللہ علیہ السنہ میں حدیث نقل فرماتے ہیں : أَخْبَرَنِي حَرْبٌ ، قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصَفَّى ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا مُعَاوِيَةُ، أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، لَتُزَاحِمَنِي عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ كَهَاتَيْنِ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے معاویہ (رضی اللہ عنہ) توں مجھ سے ہے اور میں تم سے ہوں تم مجھے جنت کے دروازے پر ان دو انگلیوں کی طرح ملو گے ۔ (السنة لابن خلال جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 454 حدیث نمبر 704)،(مسند الفردوس ، باب الیا 5/393ح8530،چشتی)،(الشریعہ جلد 23 کتاب فضائل معاویہ) ، (لسان المیزان 4/379ح5211) ، (تاریخ دمشق 59/98)
اس روایت پر تحقیقی نظر
پهلا راوی
173 - حرب بن إسماعيل الكرماني الفقيه،
اما م احمد بن حنبل كے ساتھی اور امام ابكركے استاد تھے
قال أبو بكر الخلال : كان رجلا جليلا، یہ ایک عظیم مرد تھے ۔
تاریخ اسلام جلد 6 صفحہ 310 ۔ نیزامام ذہبی فرماتے ہیں : وَمَا عَلِمْتُ بِهِ بَأْساً میں اس میں ہرج نہیں دیکھتا ۔سیر اعلام النبلاء جلد 13 صفحہ 245
ہاں ! بعض اجہل کہتے ہیں اس راوی کے والد کا پتا نہیں چلا مجھے ۔۔ بالکل ایسی چول وہی مار سکتا ہے جس کو اپنے نسب میں بھی تشکیک ہو ۔
دوسرا راوی
الاسم : محمد بن مصفى بن بهلول القرشى ، أبو عبد الله الحمصى
رتبته عند ابن حجر : صدوق له أوهام و كان يدلس ، رتبته عند الذهبي : ثقة يغرب
ابو داود ، ابن ماجہ نسائی نے روایت لی ۔صدوق اور ثقہ ہیں لیکن مدلس بھی ہیں۔
تیسرا راوی
عبد العزیز بن عمر بن عبدالعزیز : حافظ ابن حجر کے نزیدک صدوق ہیں ہاں خطا کرتے ہیں ۔ اور امام ذہبی کےنزدیک ثقہ ہیں ۔ وَكَانَ مِنْ ثِقَاتِ الْعُلَمَاءِ، وَثَّقَهُ ابْنُ مَعِينٍ ۔ (تاریخ اسلام جلد 3 صفحہ 917،چشتی)
چوتهے راوی
الاسم : إسماعيل بن عياش بن سليم العنسى ، أبو عتبة الحمصى
رتبته عند ابن حجر : صدوق فى روايته عن أهل بلده ، مخلط فى غيرهم
اپنے شہر سے روایت کرنے میں صدوق ہے اس کے علاوہ میں مخلط ہے ۔
رتبته عند الذهبي : عالم الشاميين ، قال يزيد بن هارون ما رأيت أحفظ منه ، و قال دحيم هو فى الشاميين غاية و خلط عن المدنيين ،
امام ذہبی کے نزدیک:شامی عالم ہے ،یزید بن ہارون کہتے اس سے بڑا حافظ نہیں دیکھا ۔دحیم کہتے ہیں شامیوں میں ہو تو ۔حد۔۔بندہ ہے ۔اور مدنیوں میں ہو تو مختلط۔
پانچواں راوی
عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار القرشى العدوى ، المدنى ، مولى عبد الله بن عمر بن الخطاب
رتبته عند الذهبي : قال أبو حاتم : فيه لين
کبار تبع تابعین میں سے ہے امام بخاری ،ابوداود ،ترمذی اور نسائی نے ان سے حدیث لی ۔امام ابن حجر کے نزیدک صدوق ہیں لیکن خطا کرتے ہیں ۔
چھٹے راوی کی بحث کی حا جت نہیں ۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند کے اعتبار سے محض ضعیف قرار پائے گی کوئی ایک راوی بھی نہ کذاب ہے اور نہ ہی وضاع پھر بھی اس حدیث کو موضوع کہنے والا منکر حدیث چکڑالوی رافضی ہی ہو سکتا ہے ۔
سند دوم
أخبرنا أبو منصور عبد الرحمن بن محمد بن عبد الواحد أنا أبو بكر الخطيب أنا أبو الحسن بن رزقويه أنا أبو الخير فاتن (1) بن عبد الله مولى أمير المؤمنين المطيع لله أنا أبو مروان عبد الملك بن محمد بن عبد الملك بن سلام ببيت المقدس نا أبو محمد جعفر بن محمد البردعي نا محمد بن عبيد الهاشمي عن عبد العزيز بن بحر نا إسماعيل بن عياش عن عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار عن أبيه عن عبد الله بن عمر قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يطلع عليكم من هذا الباب رجل من أهل الجنة فطلع معاوية فلما كان من الغد قال مثل ذلك فطلع معاوية فلما كان بعد الغد قال مثل ذلك فطلع معاوية قال رجل هو هذا قال نعم هو هذا ثم قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يا معاوية أنت مني وأنا منك لتزاحمني على باب الجنة كهاتين ۔
قال الخطيب عبد العزيز بن بحر (1) ضعيف ومن دونه مجهولون ۔ (تاریخ ابن عساكر جلد 59 صفحه 99،چشتی)
اس پر كلام سے پهلے میں یه عرض كرتا چلوں ۔ علم حدیث كے پاس سے گزر جانے والے بچے كو بھی پتا هے جب علماء محققین كسی بھی حدیث پرصحیح ، ضعیف یا موضوع کا حکم لگاتے ہیں وہ خاص ایک سند پر ہوتا ہے ۔سند اول میں کوئی بھی راوی کذاب و وضاع نہیں جس بنا پر یہ حدیث موضوع قرار دی جائے ۔۔امام ذہبی نے جو اس پر کلام کیا ہے وہ سند دوم سے تعلق رکھتا ہے سند اول میں اس نام کا بندہ ہی موجود نہیں ۔پھر بھی ۔۔موضوع موضوع کی گردان پڑنا ہٹ دھرمی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔
اول : یہ سند اسماعیل بن عیاش پر جا کر اول سے مل جاتی ہے۔اس سے کے بعد مصنف، خطیب کا قول نقل کر رہے ہیں
عبد العزیز بن بحر ضعیف ہے اور اس کے علاوہ نچلے راوی مجہول ہیں گویا کہ خطیب نے حکم بھی بتا دیا کہ روایت محض ضعیف ہے ۔
دوم : امام ابن جوزی جیسے موضوع احادیث میں شدت کرنے والوں کے نزدیک بھی یہ حدیث موضوع نہیں بلکہ صرف اور صرف ضعیف ہے اسی لیے آپ نے اپنی ضعفاء کی کتاب میں اس کو ذکر کیا اگر موضوع ہوتی تو اس میں ذکر کرتے ۔
عبد العزيز بن بحر المروزي .
عن إسماعيل بن عياش بخبر باطل وقد طعن فيه.عباس الدوري، واللفظ له، وعبد الله بن أحمد، وغيرهما ۔
امام ذہبی فرماتے ہیں : یہ خبر باطل لے کر آیا اور اس میں طعن بھی کیا گیا ہے ۔۔۔۔عباس دوری کہتے ہیں اور عبداللہ بن احمد کہتے ہیں۔ اور یہ الفاظ انھی کہ ہیں (اس کے بعد مذکورہ حدیث ذکر کی) ۔ (میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 623،چشتی)
یہی تفسیقیوں کی کل کائنات بن گئی ۔لیکن امام ذہبی نے دوسری جگہ کیا فرمایا وہ ہپ ہپ کر گئے ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کا تلخیص العل المتناہیہ میں مذکور کلام ملاحظہ کیجیے:
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : فیہ : عبد العزیز بن یحیی المودب ۔۔۔مجھول ۔۔عن اسماعیل بن عیاش عن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن دینار عن ابیہ عن ابن عمر ۔۔اخرجہ ابن عدی ۔
اس حدیث میں عبداللہ بن یحیی (بحر ہونا چاہیے کاتب کی غلطی ہے غالباً) المودب ہے جو کہ مجہول راوی ہے ۔جو روایت کرتے ہیں اسماعیل بن عیاش سے اور وہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار سے وہ اپنے والد اور وہ عبد اللہ بن عمر سے ۔ا ابن عدی نے اسے نقل کیا ہے ۔
امام ذہبی فرماتے ہیں : قال عباس دوری حدثنا عبدالعزیز بن بحر المروزی ۔۔مشھور ۔۔۔حدثنا اسماعیل ، فذکرہ وزاد فیہ انت منی و انا منک ۔۔۔الحدیث ۔۔۔
و راوہ عبد اللہ بن احمد بن حنبل عن عبد العزیز مختصراً (کالاوفی(بلکہ صحیح اولی ہے))و مارایت احد ضعف عبد العزیز بل اسماعیل صاحب عجائب عن الحجازیین ۔۔
(تلخیص اللعل المتانہیہ صفحہ 95۔۔96)
عباس دوری کہتے ہیں ہمیں عبد العزیز بن بحر المروزی ۔۔جوکہ مشھور ہے نے خبر دی ۔۔ہمیں بتایا اسماعیل نے الخ۔۔
(امام ذہبی فرماتے ہیں۔۔۔تفسیقی آنکھیں کھول کر دیکھے) ،اس کو امام احمد کے بیٹے نے عبدالعزیز سے مختصرا بھی روایت کیا ہے(پہلی روایت کی طرح) اور میں نے نہیں دیکھا کہ کسی ایک نے بھی عبد العزیز کو ضعیف کہا ہو ہاں اسماعیل حجاز والوں سے عجیب روایات لے کر آتا ہے ۔
یہی امام ذہبی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں :
257 - عَبْد العزيز بْن بحر الْمَرْوَزِيّ المؤدِّب. [الوفاة: 231 - 240 ه]
نزيل بغداد .
عَنْ: سُلَيْمَان بْن أرقم، وعطّاف بْن خَالِد، وإسماعيل بْن عيّاش.
وَعَنْهُ: عبد الله ابن أبي سعد الوَرَّاق، وابن أبي الدنيا، ومحمد بن سويد الطحان، وآخرون.
لم يضعف .
اس کو ضعیف نہیں کہا گیا ۔۔۔ (تاریخ اسلام جلد 5 صفحہ 872)
یہ ہے تناقض : ایک جگہ فرمایا یہ خبر باطل لے کر آیا ہے ۔
دوسری جگہ فرمایا عبد العزیز بن یحیی(بحر) المودب مجہول ہے ۔
تیسری جگہ فرمایا:عباس دوری کہتے ہیں عبدالعزیز مشہور ہے کسی ایک نے بھی سے ضعیف نہیں کہا ۔
چوتھی جگہ فرمایا : اس کو ضعیف نہیں کہا گیا ۔
نوٹ: امام ذہبی کے اس تناقض کو ابن عراق نے تنزیہیہ الشریعہ میں ذکر کیا ہے جس کو طوالت کی وجہ سے چھوڑ رہے ہیں ۔
اب تفسیقی امام ذهبی كے كس قول كو ترجیح دیں گے اور كیوں !!!
الزامی جواب : امام ذهبی كے متضاد قول میں سے ایك كو تو آپ نے بلا چوں چڑاں مان لیا تو كیا انا مدینه العلم و علی بابھا پر امام ذهبی كے اس قول كو مان لیں گے ؟؟؟
فَقُلْتُ: بَلْ مَوْضُوعٌ، ثُمَّ قَالَ: وَأَبُو الصَّلْتِ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ، قُلْتُ: كَلا وَاللَّهِ بَلْ رَافِضِيٌّ غَيْرُ ثِقَةٍ،
میں کہتا ہوں یہ روایت موضوع ہے اور حاکم نے کہا ابو الصلت ثقہ مامون ہے میں کہتا ہوں خدا کی قسم وہ رافضی اور غیر ثقہ ہے ۔ (موضوعات المستدرك للذهبي صفحه 4)
لیجیے ۔۔۔ قبول کیجیے قولِ ذہبی ۔ خلاصہ : یا معاویہ انت منی و انامنک حدیث قطعاً موضوع نہیں ہے صرف ضعیف ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment