ہر صحابی نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ جنتی جنتی
محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ارشاد فرمایا : لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوۡنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ غَیۡرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ بِاَمْوٰلِہِمْ وَاَنۡفُسِہِمْ ؕ فَضَّلَ اللہُ الْمُجٰہِدِیۡنَ بِاَمْوٰلِہِمْ وَاَنۡفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیۡنَ دَرَجَۃً ؕ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ؕ وَفَضَّلَ اللہُ الْمُجٰہِدِیۡنَ عَلَی الْقٰعِدِیۡنَ اَجْرًا عَظِیۡمًا ۔ (سورۃُ النساء آیت نمبر 95)
ترجمہ : برابر نہیں وہ مسلمان کہ بے عذر جہاد سے بیٹھ رہیں اور وہ کہ راہِ خدا میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد والوں کا درجہ بیٹھنے والوں سے بڑا کیا اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا اور اللہ نے جہاد والوں کوبیٹھنے والوں پر بڑے ثواب سے فضیلت دی ہے ۔
جب علاّمہ پیر عرفان شاہ مشہدی صاحب شیرِ اہلسنّت اور حجۃُ الاسلام تھے تب انہوں نے لکھا تھا : رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے سارے صحابہ فتح مکہ سے پہلے والے ، فتح مکہ سے بعد والے ، جس نے بھی حبیب خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی غلامی اختیار کی ، اللہ تعالیٰ نے اِن کو جنت عطا فرمادی ۔ (سیدنا امیر معاویہ اہل حق کی نظر میں صفحہ نمبر 36 دارالعرفان سبزہ زار لاہور،چشتی)
ہر صحابی نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ جنتی جنتی رضی اللہ عنہم" کے نعرے کو اہل سنت کے نظریات کے خلاف جاننے والے اے مفتیانِ فیس بَک ، ایک نظر ادھر بھی ہوجائے ۔ ہمیں اس سے سروکار نہیں کہ آپ لوگ اس وقت کہاں اور کِن کی گودوں میں جا بیٹھے ہیں ۔ بہرحال جہاں بھی بیٹھے ہیں اگر وہاں کچھ غیرت نامی چیز ہے تو تھوڑی سی کھالیں ، اور پھر بتائیں کہ : آپ سب کے اس وقر چہیتے اور ممدوح علاّمہ پیر عرفان شاہ مشہدی صاحب جو کبھی شیرِ اہلسنّت اور حجۃُ الاسلام تھے کا یہ بیان پڑھ کر اگر کوئی ہر صحابی کو جنتی ماننے لگے اور اسے بہ طور نعرہ بھی لگائے ، تو قصور وار کون ہوگا ؟
لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوۡنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ غَیۡرُ اُولِی الضَّرَرِ: عذر والوں کے علاوہ جو مسلمان جہاد سے بیٹھے رہے وہ برابر نہیں ۔ اس آیت میں جہاد کی ترغیب ہے کہ بیٹھ رہنے والے اور جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں بلکہ مجاہدین کے لیے بڑے درجات و ثواب ہیں ، اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ بیماری یا بڑھاپے یا ناطاقتی یا نابینائی یا ہاتھ پاؤں کے ناکارہ ہونے اور عذر کی وجہ سے جہاد میں حاضر نہ ہوں وہ فضیلت سے محروم نہ کئے جائیں گے جبکہ اچھی نیت رکھتے ہوں ۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ جب اس آیت کا پہلا حصہ نازل ہوا کہ مجاہدین اور غیر مجاہدین برابر نہیں تو حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو نابینا صحابی تھے عرض کرنے لگے کہ’’ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، میں نابینا ہوں ، جہاد میں کیونکر جاؤں اس پر آیت ’’ غَیۡرُ اُولِی الضَّرَرِ ‘‘ نازل ہوئی یعنی معذوروں کو مُستثنیٰ کر دیا گیا ۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب قول اللہ: لا یستوی القاعدون۔۔۔ الخ، ۲/۲۶۳، الحدیث: ۲۸۳۲)
اور بخاری شریف میں ہی حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے (غزوہ تبوک سے واپسی کے وقت ) فرمایا : کچھ لوگ مدینہ میں رہ گئے ہیں ہم کسی گھاٹی یا آبادی میں نہیں چلتے مگر وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں ، انہیں عذر نے روک لیا ہے ۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من حبسہ العذر عن الغزو، ۲/۲۶۵، الحدیث: ۲۸۳۹،چشتی)
سورۃ النساء کی اس آیت میں غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں کےلیے کسی معذوری کے بغیر شریک نہ ہونے والوں سے درجہ کی بلندی اور برتری کا ذکر فرمایا ہے، اس فرق مراتب کے باوجود فرمایا : ’’وَكُـلاًّ وَعَدَ اللّهُ الْحُسْنَى ‘‘ اللہ کا وعدہ دونوں کےلیے جنت کا ہے ۔ غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں کے بارے میں درجات کی بلندی ، مغفرت ورحمت کی بشارتیں ہیں ، اہل بدر ہی کے بارے میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کے بارے میں فرمایا : تم جو چاہو عمل کرو میں نے تمہارے لیے جنت واجب کردی ہے ۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر 3983)
مگر بدر میں شریک نہ ہونے والے بھی سعادت سے محروم نہیں ، اللہ تعالیٰ نے دونوں کےلیے جنت کا وعدہ کیا ہے ۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ والوں سے کہیں افضل ہیں کیونکہ ان حضرات نے کسی سخت موقعہ پر بھی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ایسا رُوکھا جواب نہ دیا بلکہ اپنا سب کچھ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ پر قربان کر دیا جیسے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ تمام نبیوں کے سردار ہیں ایسے ہی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تمام نبیوں کے صحابہ کے سردار ہیں ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی جانثاری کے بارے میں جاننے کے لئے یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں ۔ جنگِ بدر کے موقع پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ فرمایا تو حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر عرض کی : یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ہماری رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں ، اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ، اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم ارشاد فرمائیں تو ہم اس میں کود جائیں گے ۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب غزوۃ البدر، ص۹۸۱، الحدیث : ۸۳(۱۷۷۹))
انصار کے ایک معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، ہم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اور آپ َکا خدا عَزَّوَجَلَّ جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے دائیں سے ، بائیں سے ، آگے سے ، پیچھے سے لڑیں گے ۔ یہ سن کر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا چہرۂ انور خوشی سے چمک اٹھا ۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قول اللہ تعالی: اذ تستغیثون ربکم۔۔۔ الخ، ۳/۵، الحدیث: ۳۹۵۲،چشتی)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ - اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ - وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ - وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠ ۔ (سورۃ الحدید آیت نمبر 10)
ترجمہ : تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتحِ مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرماچکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔
اس آیت پاک سے معلوم ہوا کہ فرق مراتب کے باوجود سارے صحابہ رضی اللہ عنہم جنتی ہیں یہی بات سورہ توبہ میں ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے ۔
وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحْسٰنٍ ۙ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ تَحْتَہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ۔ ﴿سورہ توبہ آیت نمبر 100﴾
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔
اس آیت مبارکہ میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو دو طبقوں میں تقسیم کیا گیا ہے : ایک اولین سابقین کا اور دوسرا ان کے بعد والوں کا اور دونوں طبقوں کے متعلق یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ اللہ ان سب سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہیں اور ان کے لیے جنت کا مقامِ دوام ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں لہٰذا جوبد بخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مردود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے اور ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیث پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ۔ میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پکڑ فرما لے ۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵/۴۶۳، الحدیث: ۳۸۸۸،چشتی)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا کہنے والے ملعون کی نہ فرض عبادت قبول نہ نفل : عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا ، فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا ، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا صَرْفًا وَلا عَدْلا ” ۔ (هذا حديث صحيح الأسناد ولم يخرجاه ، وقال الذهبي “صحيح” مستدرك الحاكم : ٣/٦٣٢ ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ : الصَّرْفُ وَالْعَدْلُ : الْفَرِيضَةُ وَالنَّافِلَةُ . الشريعة للآجري » رقم الحديث: 1973 ۔
ترجمہ : حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : بیشک الله تبارک و تعالیٰ نے مجھے چن لیا، اور میرے لئے اصحاب کو چن لیا ، پس ان میں بعض کو میرے وزیر اور میرے مددگار اور میرے سسرالی بنادیا، پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے ، ان پر الله کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت ، قیامت کے دن نہ ان کا کوئی فرض قبول ہوگا، اور نہ ہی نفل . (السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 885 2) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:279) » رقم الحديث: 1553 3)الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1590(1772) 4) الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1730(1946) 5) معجم الصحابة لابن قانع (سنة الوفاة:351) » رقم الحديث: 1285(1437) 6) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1972 7) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1973 8) المعجم الأوسط للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 467(456) 9) المعجم الكبير للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 13809(349) 10) جزء ابن الغطريف (سنة الوفاة:377) » رقم الحديث: 37 11) المستدرك على الصحيحين (سنة الوفاة:405) » رقم الحديث: 6686(3 : 629) 12) الجزء التاسع من الفوائد المنتقاة (سنة الوفاة:412) » رقم الحديث: 27 13) حديث ابن السماك والخلدي (سنة الوفاة:419) » رقم الحديث: 56 14) أمالي ابن بشران 20 (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 59 15) حلية الأولياء لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 1399(1401) 16) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4040(4440) 17،چشتی) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4863(5344) 18) المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي (سنة الوفاة:458) » رقم الحديث: 24(47) 19) تلخيص المتشابه في الرسم (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 936(2 : 631) 20) أربع مجالس للخطيب البغدادي (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 21 21) مجلسان من أمالي نظام الملك (سنة الوفاة:485) » رقم الحديث: 20 22) الثاني والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 55 23) السابع والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 14 24) التبصرة لابن الجوزي (سنة الوفاة:597) » رقم الحديث: 104 25) التدوين في أخبار قزوين للرافعيي (سنة الوفاة:623) » رقم الحديث: 1438 26) مشيخة أبي بكر بن أحمد المقدسي (سنة الوفاة:718) » رقم الحديث: 69(70)
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : جو شخص قرآن پر ایمان رکھتا ہے جب اس کے علم میں یہ بات آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے بعض بندوں کو دوامی طور پر جنتی فرمایاہے تو اب ان کے حق میں جتنے بھی اعتراضات ہیں سب ساقط ہوگئے ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ خوب جانتے ہے کہ فلاں بندہ سے فلاں وقت میں نیکی اور فلاں وقت میں گناہ صادر ہوگا اس کے باوجود جب وہ اطلاع دے رہا ہے کہ میں نے اسے جنتی بنادیا تو اسی کے ضمن میں اس بات کا اشارہ ہوگیا کہ اس کی تمام لغزشیں معاف کردی گئی ہیں ، لہٰذا اب کسی کا ان مغفور بندوں کے حق میں لعن وطعن اور برا بھلا کہنا حق تعالیٰ پر اعتراض کے مرادف ہوگا ؛ اس لیے کہ ان پر اعتراض اور زبان طعن دراز کرنے والا گویا یہ کہہ رہا ہے کہ پھر اللہ نے اسے جنتی کیسے بنادیا ‘‘ الخ ۔ (فضائل صحابہ واہل بیت، مجموعہ رسائل صفحہ نمبر ۲۰۶، مطبوعہ انجمن حمایت الاسلام لاہور ۱۹۶۷ء،چشتی)
علاّمہ ابن حزم لکھتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب قطعی جنتی ہیں : کلہم من اہل الجنۃ قطعا ۔ (الاصابۃ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 7)،(الفصل فی الملل والاہواء والنحل جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 149،148)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے ایک بار سورۃ الانبیاء کی یہی آیت تلاوت کی اور فرمایا : ”عثمان منہم“ کہ جن کے لیے ”الحسنیٰ کا وعدہ ہے ان میں عثمان ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ:25/2، ابن جریر: 96/17)
اللہ تعالیٰ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے راضی ہےاور ان سب سے جنت کا وعدہ فر مالیا ہے ۔ اس لئے وہ سب جنتی ہیں ۔ بلکہ ان کی شان یہ ہے کہ ان کے چہرے کو دیکھنے والا مسلمان بھی جنتی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ : وَعَنْ جَابِرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَو رأى من رَآنِي ۔
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا اس مسلمان کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا (یعنی میرے صحابہ کو) یا مجھے دیکھنے والوں کو دیکھا ۔ (یعنی تا بعین کو) ۔ (جامع تر مذی کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، باب : ماجاء في فضل من رأي النبي صلي الله عليه وآله وسلم وصحبه، 5 / 694، الرقم : 3858،چشتی)،(جامع ترمذی باب ماجاء فی فضل رائ النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ و صحبه، اردو جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 873 ، 3793)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنتی ہیں ، اب چاہے وہ حضرت مولا علی ہوں یا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہما ۔ جو جاہل مجاور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو معاذ اللہ جہنمی کہتے ہیں وہ در اصل اپنے لیے دوزخ میں گھر بنا رہے ہیں ۔
یعنی جس نے بحالت ایمان مجھے دیکھا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا وہ دوزخ سے محفوظ رہے گا لہذا جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد مرتد ہوکر مرے وہ اس بشارت سے علیحدہ ہیں ، یوں ہی جن لوگوں کو اخلاص سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صحبت نصیب ہوئی ان کی خدمات میسر ہوئیں وہ بھی دوزخ سے محفوظ ہیں ۔ صحابی کے لیے ایک نظر جمال مصطفوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ دیکھ لینا کافی ہے مگر تابعیت کے لیے صحابی کی صحبت خدمت ضروری ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھنے والی آنکھ کی زیارت بھی بہشتی ہونے کا ذریعہ ہے ۔
احمد اور ابن حبان نے اور عبدالحمید نے بروایت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما حدیث نقل فرمائی و طوبی لمن رانی امن بی و طوبی لمن لم یرانی و امن سبع مرات ۔ (مرقات شرح مشکوات)
ترجمہ : جو مجھے دیکھ کر مجھ پر ایمان لائے اسے ایک بار مبارک اور جو مجھے بغیر دیکھے ایمان لائے اسے سات بار مبارک ۔
طوبى لِمَنْ رآني وآمنَ بي مرَّةً ، وطوبِى لِمَنْ لم يراني وآمنَ بي سبعَ مرَّاتٍ
الراوي ۔ أبو أمامة و أنس بن مالك ۔ (ناصر الألباني المصدر صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 3924 خلاصة حكم المحدث صحيح)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات بار خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا بھی نہیں اور مجھ پر ایمان لایا ۔
خیال رہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے سارے صحابہ جنتی ہیں مگر عشرہ مبشرہ وہ ہیں جنہیں ایک حدیث نے جمع فرمایا ورنہ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنتی ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment