Monday 8 March 2021

شان سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں

0 comments

 شان سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں


محترم قارئینِ کرام : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دعا : ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻣﺴﻬﺮ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﻳﺰ ﻋﻦ ﺭﺑﯿﻌﮧ ﺑﻦ ﺯﯾﺪ ﻋﻦ ﺍﺑﯽ ﻋﻤﯿﺮﮦ، ﻗﺎﻝ : ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻨﺒﯽ ‏( ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ‏) : ﺍﻟﻠﻬﻢ ﺍﺟﻌﻠﻪ ﻫﺎﺩﻳﺎ ﻣﻬﺪﻳﺎ ﻭﺍﻫﺪﻩ ﻭﺍﻫﺪﺑﻪ ۔
ترجمہ : ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻮﻻ ﺍﺳﮯ ‏( ﯾﻌﻨﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ‏) ﮐﻮ ﮨﺎﺩﯼ ﻭ ﻣﮩﺪﯼ ﺑﻨﺎ ، ﺍﺳﮯ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﮮ ۔ (ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ ﻓﯽ ﺍﻟﺘﺎﺭﻳﺦ ﺍﻟﮑﺒﯿﺮ، 640/5 ﺍﻟﺮﻗﻢ 791/)

ﻣﺴﺘﺠﺎﺏ ﺍﻟﺪﻋﻮﺍﺕ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﻗﺎ ﻭ ﻣﻮلا ﺣﻀﻮﺭ ﺳﯿﺪ ﺍﻟﻤﺮﺳﻠﯿﻦ ﺟﻨﺎﺏ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﺠﺘﺒﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﻤﺮﺗﺒﺖ ﻣﺤﺪﺛﯿﻦ، ﻓﻘﻬﺎ، ﻣﺘﮑﻠﻤﯿﻦ، ﻣﺆﺭﺧﯿﻦ، ﻣﻔﺴﺮﯾﻦ، ﺍﻭﺭ ﮐﺜﯿﺮ ﺑﺰﺭﮔﺎﻥ ﺩﯾﻦ ﻭ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺍﻣﺖ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯿﺎ، ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ، ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺝ ﮐﯿﺎ، ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺣﺼﻮﻝ ﺑﺮﮐﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﺎﮐﮧ ﺟﻮ ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﮐﺴﯽ ﺭﺍﻓﻀﯽ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﺴﺎﺭﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺳﮑﮯ : (ﺍﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﺍﻟﻄﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ، 292/7 ﺍﻟﺮﻗﻢ 3746/)(ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ، 426/29 ﺍﻟﺮﻗﻢ 1789/)(ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺧﺜﯿﻤﮧ، ﺍﻟﺘﺎﺭﯾﺦ ﺍﻟﮑﺒﯿﺮ، 349/1)(ﺗﺮﻣﺬﯼ، ﺍﻟﺠﺎﻣﻊ ﺍﻟﺼﺤﯿﺢ، 687/5 ﺍﻟﺮﻗﻢ 3842/)(ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻋﺎﺻﻢ، ﺍﻵﺣﺎﺩ ﻭﺍﻟﻤﺜﺎﻧﯽ، 358/2 ﺍﻟﺮﻗﻢ 1129/)(ﺍﺑﻦ ﺧﻼﻝ، ﺍﻟﺴﻨﺔ، 450/2 ﺍﻟﺮﻗﻢ 699_697/)(ﺑﻐﻮﯼ، ﻣﻌﺠﻢ ﺍﻟﺼﺤﺎﺑﮧ، 146/2)(ﻃﺒﺮﺍﻧﯽ، ﺍﻟﻤﻌﺠﻢ ﺍﻷﻭﺳﻂ، 205/1 ﺍﻟﺮﻗﻢ 656/)(ﻃﺒﺮﺍﻧﯽ، ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ ﺍﻟﺸﺎﻣﯿﯿﻦ، 181/1 ﺍﻟﺮﻗﻢ 311/)(ﺁﺟﺮﯼ، ﺍﻟﺸﺮﯾﻌﮧ، 2436/5 ﺍﻟﺮﻗﻢ 1915/، چشتی)(ﺷﯿﺦ ﺍﺻﺒﯿﮩﺎﻧﯽ، ﻃﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﻤﺤﺪﺛﯿﻦ، 343/3)(ﺩﻗﺎﻕ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ، ﺍﻟﻔﻮﺍﺋﺪ، 211/ ﺍﻟﺮﻗﻢ 452/)(ﺃﺑﻮ ﻧﻌﻴﻢ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺻﺒﮩﺎﻥ، 221/1915)(ﺃﺑﻮ ﻧﻌﻴﻢ، ﺍﻟﻤﻌﺮﻓﺔ ﺍﻟﺼﺤﺎﺑﮧ، 1836/4 ﺍﻟﺮﻗﻢ 4634/)(ﺃﺑﻮ ﻧﻌﻴﻢ، ﺣﻠﯿﺔ ﺍﻻﻭﻟﯿﺎﺀ، 358/8)(ﺧﻄﯿﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺑﻐﺪﺍﺩ، _407 408/1، چشتی)(ﺧﻄﯿﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ، ﺗﻠﺨﯿﺺ ﺍﻟﻤﺘﺸﺎﺑﮧ، _405 406/1)(ﺧﻄﯿﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ، ﺗﺎﻟﯽ ﺗﻠﺨﯿﺺ ﺍﻟﻤﺘﺸﺎﺑﮧ، 539/2 ﺍﻟﺮﻗﻢ 328/)(ﻗﺮﺷﯽ، ﺍﻟﺤﺠﺔ، 404/2 ﺍﻟﺮﻗﻢ 379/)(ﺍﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺩﻣﺸﻖ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺑﺘﺎﺭﯾﺦ ﺍﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ، _80 83/59)(ﺍﺑﻦ ﺧﺮﺍﻁ، ﺍﻻﺣﮑﺎﻡ ﺍﻟﺸﺮﻋﻴﺔ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ، 428/4)(ﺍﺑﻦ ﺍﺛﯿﺮ، ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻷﺻﻮﻝ، 107/9)(ﺍﺑﻦ ﺍﺛﯿﺮ، ﺍﺳﺪ ﺍﻟﻐﺎﺑﮧ، 155/4 ﺍﻟﺮﻗﻢ 4985/)(ﻧﻮﻭﯼ، ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻻﺳﻤﺎﺀ ﻭﺍﻟﻠﻐﺎﺕ، 104/2)(ﺧﻄﯿﺐ ﺗﺒﺮﯾﺰﯼ، ﺍﻟﻤﺸﻜﺎﺓ ﺍﻟﻤﺼﺎﺑﯿﺢ، 1748/3 ﺍﻟﺮﻗﻢ 6244/)(ﻣﺰﯼ، ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻟﻜﻤﺎﻝ، 327/17)(ﺫﻫﺒﯽ، ﺳﯿﺮ ﺍﻋﻼﻡ ﺍﻟﻨﺒﻼﺀ، _125 126/3)(ﺫﻫﺒﯽ، ﻣﻌﺠﻢ ﺍﻟﺸﯿﻮﺥ ﺍﻟﮑﺒﯿﺮ، 155/1)(ﺫﻫﺒﯽ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻹﺳﻼﻡ، 301/4)(ﺫﻫﺒﯽ، ﺗﻠﺨﯿﺺ ﺍﻟﻌﻠﻞ ﺍﻟﻤﺘﻨﺎﮨﯿﮧ ﻟﻼﺑﻦ ﺟﻮﺯﯼ، 93/ ﺍﻟﺮﻗﻢ 225/)(ﺻﻔﺪﯼ، ﺍﻟﻮﺍﻓﯽ ﺑﺎﻟﻮﻓﻴﺎﺕ، 124/18)(ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ، ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﻤﺴﺎﻧﯿﺪ، 536/5،چشتی)(ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ، ﺍﻟﺒﺪﺍﯾﮧ ﻭﺍﻟﻨﮩﺎﯾﮧ، 129/8)(ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻋﺴﻘﻼﻧﯽ، ﺇﺗﺤﺎﻑ ﺍﻟﻤﻬﺮﺓ، 625/10 ﺍﻟﺮﻗﻢ 13513/ ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻋﺴﻘﻼﻧﯽ، ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ ﺍﻟﻤﻌﺘﻠﯽ، 268/4 ﺍﻟﺮﻗﻢ 5869/)( ﺳﯿﻮﻃﯽ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻟﺨﻠﻔﺎﺀ، 152/)(ﺳﯿﻮﻃﯽ، ﺗﻄﮩﯿﺮ ﺍﻟﺠﻨﺎﻥ، 388/)(ﻻﻟﮑﺎﺉ، ﺷﺮﺡ ﺍﻷﺻﻮﻝ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺍﮨﻠﺴﻨﺔ، 1441/8 ﺍﻟﺮﻗﻢ 6778/)(ﺍﺑﻦ ﺟﻮﺯﯼ، ﺍﻟﻌﻠﻞ ﺍﻟﻤﺘﻨﺎﮨﯿﮧ، 674/ ﺍﻟﺮﻗﻢ 446/)(ﺟﻮﺭﻗﺎﻧﯽ، ﺍﻷﺑﺎﻃﻴﻞ، 193/1)(ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻫﯿﺘﻤﯽ، ﺍﻟﺼﻮﺍﻋﻖ ﺍﻟﻤﺤﺮﻗﮧ، 310/)(ﮐﻨﺎﻧﯽ، ﺗﻨﺰﯾﮧ ﺍﻟﺸﺮﯾﻌﺔ ﺍﻟﻤﺮﻓﻮﻋﺔ، 8/2 ﺗﺤﺖ ﺍﻟﺮﻗﻢ 12/)(ﻋﺼﺎﻣﯽ، ﺳﻤﻂ ﺍﻟﻨﺠﻮﻡ، 155/3)(ﻃﯿﺒﯽ، ﺷﺮﺡ ﻋﻠﯽ ﻣﺸﮑﻮﺓ، 3948/12 ﺍﻟﺮﻗﻢ 6244/)0ﻣﻼ ﻋﻠﯽ ﻗﺎﺭﯼ، ﻣﺮﻗﺎﺓ ﺍﻟﻤﻔﺎﺗﯿﺢ، 4022/9 ﺍﻟﺮﻗﻢ 6244/)(ﭘﺮﮨﺎﺭﻭﯼ، ﺍﻟﻨﺎﻫﯿﺔ ﻋﻦ ﻃﻌﻦ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﻣﻌﺎﻭﯾﺔ، 15/)(ﺣﻠﺒﯽ، ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻟﻌﯿﻮﻥ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺳﯿﺮﺕ ﺣﻠﺒﯿﮧ، 136/3)( ﺷﺎﮦ ﻭﻟﯽ ﺍﻟﻠﮧ، ﺇﺯﺍﻟﺔ ﺍﻟﺨﻔﺎﺀ، _571 572/1)(ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ، ﻣﮑﺘﻮﺑﺎﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ، ﺩﻓﺘﺮ 1/ ﺣﺼﮧ 4/ ﺟﻠﺪ 1/ ﺻﻔﺤﮧ 58/ ﻣﮑﺘﻮﺏ 215/)

ﺟﺐ ﺣﻀﻮﺭ نبی ﮐﺮیم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻟیئے ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺭﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﻟﮩٰﺬﺍ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺟﺎﮨﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻮ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر ﻟﻌﻦ ﻃﻌﻦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻧ ﮑﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺭﻭﺵ ﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻔاﻖ ﻭ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﻏﻼﻇﺖ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﮯ ﺭﮐﮭﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﺭﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺳﮯ ﺑﻬﭩﮏ ﻧﮧ ﺟﺎنا اللہ تعالیٰ بے ادبی سے بچائے آمین ۔

میری اُمت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا ، ان (مجاہدین) کے لئے(جنگ) واجب ہے ۔ (صحیح بخاری ٢٩٢٤) ۔۔۔ یہ جہاد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (کی خلافت) کے زمانے میں ہوا تھا ۔ (دیکھئے صحیح البخاری ٦٢٨٢۔٦٢٨٣) ۔۔۔ اور اس جہاد میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شامل تھے ۔ (دیکھئے صحیح بخاری ٢٧٩٩۔٢٨٠٠)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف لائے میں یہ سمجھا کہ آپ میرے لئے تشریف لائے لہذا میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو آپ نے میری کمر پر تھپکی دے کر فرمایا جاؤ اور معاویہ کو بُلا لاؤ وہ (معاویہ رضی اللہ عنہ) وحی لکھتے تھے ۔۔۔ الخ(دلائل النبوۃ للبہیقی ٢\٢٤٣ و سند حسن)

جلیل القدر تابعی عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ المکی رضی اللہ عنہ سے روایت کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھا پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کیا ہے وہ فقیہ ہیں ۔ (صحیح بخاری ٣٧٦٥)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ! مارایت رجلا کان اخلق یعنی للملک من معاویہ ۔
میں نے معاویہ سے زیادہ حکومت کے لئے مناسب (خلفائے راشدین کے بعد) کوئی نہیں دیکھا ... (تاریخ دمشق ٦٢\١٢١ وسند صحیح، مصنف عبدالرزاق ١١\٤٥٣ ح٢٠٩٨٥)

عرباض بن ساریہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ ! اللھم علم معاویۃ الکتاب والحساب، وقد العذاب ۔ اے میرے اللہ!۔ معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اُسے عذاب سے بچا۔(مسند احمد ٤\١٢٧ ح ١٧١٥٢ وسند حسن، صحیح ابن خزیمہ ١٩٣٨)

ابراہیم بن میسر الطائفی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے کسی انسان کو نہیں مارا سوائے ایک انسان کے جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی تھیں انہوں نے اسے کئی کوڑے مارے ۔ (تاریخ دمشق ٦٤\١٤٥ وسند صحیح)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اے اللہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا ، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا ۔ (جا مع ترمذی)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ میری امت میں سب سے زیادہ بردبار اور سخی ہیں ۔ (تطہیرالجنان)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں مبارکبا د دی اور”مرحبا ۔۔ فرمایا” ۔ (البدایہ والنہایہ ص ٧١١ج٨)

مسند بقی بن مخلد میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک سو تریسٹھ احادیث موجود ہیں ۔ (سیراعلام النبلاء (٣\١٦٢)

22 رجب المرجب 60 ھجری میں کاتب وحی ، جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے ۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے ہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی ﷲ عنہ کو کسی کام مشورے کے لئے طلب فرمایا مگر دونوں حضرات کوئی مشورہ نہ دے سکے تو آپ نے فرمایا ادعوا معاویہ احضرروہ امرکم فانہ قوی امین ۔ یعنی معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بلاؤ اور معاملہ کو ان کے سامنے رکھو کیونکہ وہ قوی اور امین ہے ۔ (تطہیر الجنان)

ﷲ تعالیٰ قیامت کے دن معاویہ رضی ﷲ عنہ کو اٹھائے گا تو ان پرنور کی چادر ہوگی۔اہلم من امتی ۔ (تطہیر الجنان)
ترجمہ : میری امت میں سے معاویہ رضی ﷲ عنہ سب سے زیادہ بردبار ہے
اللھم املاہ علماء (ابن حجر الاصابہ ج 3ص 413)

اے ﷲ معاویہ رضی ﷲ عنہ کو علم سے بھر دے
یامعاویہ ان ولیت الامر فاتق ﷲ ۔ (بخاری جلد 1ص 409)
اے معاویہ رضی ﷲ عنہ تمہارے سپرد امارت کی جائے تو تم ﷲ سے ڈرتے رہنا
اول جیش من امتی یغزو البحر فقد اوجیو ۔ (صحیح بخاری)

میری امت کا سب سے بڑا لشکر جو بحری لڑائیوں کا آغاز کرے گا اس پر جنت واجب ہے۔ ابن اثیر اور تمام تاریخوں کے مطابق حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ واحد شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بحری بیڑے کا آغاز کیا اور مسلمان قوم سب سے پہلی مرتبہ بحری جہاد سے سرفراز ہوئی۔وعن ابی الدرداء قال مرائیت احد لعبد رسول ﷲ اشبہ صلاہ برسول من احدکم ہذا یعنی معاویہ ۔ (مجمع الزوائد للعلامہ نورالدین)

حضرت ابو درداء رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے زیادہ سے زیادہ مشابہت رکھنے والی نماز پڑھانے والا امیر معاویہ کے سوا کوئی نہیں دیکھا ۔ (تطہیر الجنان)

عبد ﷲ بن عمران معاویہ کان یکتب بین یدی رسول ﷲ ۔ (منبع الفوائد)
ترجمہ : حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے بیٹھ کر لکھا کرتے تھے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی قیام گاہ یعنی آپ کے والد حضرت سیدنا ابو سفیان رضی ﷲ عنہ کا مکان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے مشرکین مکہ کی ایذا رسانی سے پناہ گاہ ثابت ہوتا تھا چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے طبقات ابن سعد کے حوالہ سے نقل کیا ہے ۔ (الاصابہ ج 2ص 179‘ المتقی ص 253)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو جب مشرکین مکہ اذیت و تکلیف پہنچاتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت ابو سفیان رضی اﷲ عنہ کے گر پناہ لیا کرتے تھے اسی احسان کا بدلہ اور شکریہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فتح مکہ کے موقع پر یہ اعلان فرمایا ’’من دخل دار ابی فہو امن‘‘ یعنی ابتدائے اسلام کی عسرتوں اور پریشانیوں میں جو مکان پناہ گاہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بنا‘ آج جو شخص بھی اس میں پناہ حاصل کرے گا اسے امان دے دی جائے گی ۔ (مسلم شریف)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا معاویہ میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو ۔ (لسان المیزان)

لوگوں کو خبر دی جائے کہ امیر معاویہ جنتی ہیں ۔ (بحوالہ طبرانی)

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ بارہ خلفاء میں شامل ہیں جن کی بشارت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دی ۔ (تطہیر الجنان ص 15)

خود امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ۔ وضو کرو جب ہم وضو کرچکے تو آپ نے فرمایا اے معاویہ ! اگر تو خلیفہ بنایا جائے تو ﷲ تعالیٰ سے ڈرنا عدل کرنا ۔ (تطہیر الجنان)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو نصیحت فرمائی اے معاویہ جب تو ملک کا والی ہوجائے تو رعایا سے حسن سلوک کرنا ۔ (تطہیر علی العواصم ص208)

حضرت شاہ ولی ﷲ رحمتہ ﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو ہدایت یافتہ اور ذریعہ ہدایت فرمایا اس لئے کہ انہوں نے مسلمانوں کا خلیفہ بننا تھا اور نبی امت پر شفیق ہے ۔ (از الۃ الخلفاء ‘ ج 1ص 573)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ! اے ﷲ معاویہ کو ملکوں کی حکومت عطا فرما ۔ (کنز العمال‘ ج 1‘ ص 19)

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ملاقات جنت کے دروازہ پر ہوگی ۔ (لسان المیزان ص 25)

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ پر جبرئیل امین علیہ السلام نے سلام بھیجا ۔ (البدایہ والنہایہ)

سیدنا امیر معاویہ کے بارے میں جبرئیل امین نے خیر کی وصیت کی ۔ (البدایہ والنہایہ)

معاویہ کے لشکر کو بشارت جنت خود رسول خدا نے دی ۔ (مجمع الزوائد‘ ج 9 ص 357)

ان احادیث سے ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں کبھی ان کے حق میں دعا کررہے ہیں ۔ مگر پروپیگنڈہ سے متاثر سنی نادان لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے حکومت چھین لی۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میرے اور امیر معاویہ کے (لشکر کے) مقتول جنتی ہیں مگر یار لوگ کہتے ہیں کہ یہ کفر اور اسلام کی جنگ تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دعا فرما رہے ہیں اے ﷲ معاویہ کو ہدایت پر رکھ‘ ہلاکت سے بچا اور دنیا اور آخرت میں اس کے گناہ بخش دے ۔ پھر بھی بدبخت لوگ شبہ کرتے ہیں کہ معاویہ کے حق میں دعا بھلا کیسے قبول ہوتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں معاویہ جنتی ہیں اور یار لوگ یہ بات ناپسند کرتے ہیں ۔ خدا جانے یہ نادان لوگ غیر شعوری طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مخالفت پر کیوں اتر آئے ہیں ۔

حضرت امیر معاویہ صحابی ہیں اورصحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کا شرعی حکم

محترم قارئینِ کرام : جس طرح اللہ تعالی کی شان الوہیت میں گستاخی کرنا کفر ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس و شان نبوت میں بھی ذرہ بھر گستاخی کرنا کفر ہے۔ اسی طرح جن نفوس قدسیہ کا سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غلامی کا نیاز مندانہ رشتہ ہے ان میں سے کسی کی گستاخی کرنا بھی کفر ہے خواہ وہ ازواج مطہرات امہات المومنین ہوں، خواہ آل و اولاد ہو، خواہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں ، لہٰذا ان کی فضیلت کا مسئلہ اس طرح نہ لیا جائے کہ ایک کی تعریف سے دوسرے کی تنقیص ہو ۔ تعظیم و تکریم میں سب برابر ہیں، ہاں رتبہ فضیلت میں فرق ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس طرح پہلے خلیفہ راشد ہیں اسی طرح مرتبہ و فضیلت میں بھی پہلے نمبر پر ہیں ۔ دوسرے نمبر پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، تیسرے پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، چوتھے نمبر پر خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔(بحوالہ مہر منیر ، مکتوبات مجدد الف ثانی ، الیواقیت والجواہر ، فتاویٰ رضویہ و دیگر کتب اہلسنت)

وعنده مولي لابن عباس ، فأتي ابن عباس ، فقال : فإنه قد صحب رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلّم ۔
ترجمہ : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا غلام ان کے پاس تھا ۔ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے فرمایا : بلاشبہ معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی ہیں ۔ (صحيح البخاري : 351/1، ح : 3764)

بعض لوگ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرتے ہیں ، حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا کہنے والا خود برا ہوتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمانِ عالی شان ہے : لا تسبوا أحدا من أصحابي ۔
ترجمہ : میرے کسی صحابی کو برا بھلا نہ کہو ۔ (صحيح مسلم : 2541)

عظیم تابعی امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو برا بھلا کہتے ہیں اور ان پر لعنت کرتے ہیں ، تو انہوں نے فرمایا : علٰي أولٰئك الذين يلعنون، لعنة الله ۔
ترجمہ : ان پر لعنت کرنے والے اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں ۔ (تاريخ دمشق لابن عساكر : 206/59، وسنده صحيح)

ابراہیم بن میسرہ کہتے ہیں : ما رأيت عمر بن عبد العزيز ضرب إنسانا قط، إلا إنسانا شتم معاوية، فإنه ضربه أسواطا ۔
ترجمہ : میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو کبھی کسی انسان کو مارتے ہوئے نہیں دیکھا ، انہوں نے صرف اس شخص کو کوڑے مارے جس نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا تھا ۔ (تاريخ دمشق لابن عساكر : 211/59، وسنده حسن،چشتی)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آسمان ہدایت کے ستارے ہیں ، ان حضرات کا ایک ایک عمل احد پہاڑ کے برابر ثواب رکھتا ہے، انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے اعلی وارفع مقام انہی حضرات قدسی صفات کا ہے ، چنانچہ صحابۂ کرام کی تعظیم وتکریم امت پر فرض اور ان کی شان میں بدگوئی کرنا حرام ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثار صحابۂ کرام کے متعلق نامناسب کلمات کہنے سے منع فرمایاہے اور بدکلامی کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی کہ وہ اللہ سے ڈریں ، اللہ تعالی ان کی سخت گرفت فرمائے گا چنانچہ جامع ترمذی میں حدیث پاک ہے:عن عبداللہ بن مغفل قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوہم غرضا بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن اٰذاہم فقد اٰذانی ومن اٰذنی فقداٰذی اللہ ومن اٰذی اللہ یوشک ان یأخذہ۔ ترجمہ :حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ سے ڈرتے رہو ،میرے بعد انہیں بدگوئی کا نشانہ مت بناؤ ،پس جس کسی نے ان سے محبت کی توبالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض کے باعث ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہنچائی یقینااس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقینا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرمائے۔(جامع ترمذی ، ابواب المناقب ، حدیث نمبر:3797)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بے ادبی اور ان کے حق میں بدکلامی موجب لعنت ہے جیساکہ امام طبرانی کی معجم کبیر میں حدیث پاک ہے :عن ابن عباس: قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: من سب أصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس أجمعین ۔ ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو میرے صحابہ کے بارے میں بدگوئی کرے اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، باب العین، حدیث نمبر:12709،چشتی)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بے ادبی کرنے والا‘بد گوئی کرنے والا بروز محشر بھی ملعون ہوگا، کنز العمال میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کل الناس یرجو النجاۃ یوم القیامۃ إلا من سب أصحابی فإن أہل الموقف یلعنونہم. ترجمہ : سارے لوگ قیامت کے دن نجات کی امید رکھینگے لیکن وہ بدگو شخص نہیں ‘جس نے میرے صحابہ کو برا کہا ، اہل محشر اس پر لعنت بھیجیں گے ۔ (کنز العمال ، الفصل الاول فی فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر:32539) اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حدیث پاک ہے :عن ابن عمر یقول:لا تسبوا أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلمقام أحدہم ساعۃ خیر من عمل أحدہم عمرہ.ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا نہ کہو، ان میںسے کسی کے ایک گھڑی کا قیام لوگوںمیں سے کسی کے زندگی بھر عمل سے بہتر ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ،کتاب الفضائل ، حدیث نمبر:32415)

کچھ فضائل وہ ہیں جن میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شریک ہیں۔ بعض فضائل خصوصی ہیں کہ ایک میں ہیں دوسروں میں نہیں۔ تاہم عزت و تکریم میں، جنتی ہونے میں، ادب و احترام میں سب برابر ہیں۔ کسی کی ادنیٰ سی گستاخی سے بھی انسان شیطان بن جاتا ہے۔قرآن پاک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گردو غبار کی اللہ قسمیں کھاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا. فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًا. فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا. فَاَثَرْنَ بِه نَقْعًا.(العاديات:1 تا 4)
عرجمہ : (میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں۔

جن شہسواروں سے گھوڑوں کو ، گھوڑوں سے گردو غبار کو یہ مقام ملا ، ان شہسواروں کی اپنی شان کیا ہوگی ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کے متعلق امت کو خیر خواہی، دعائے خیر اور ان کا اچھا ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی۔ فرمایا:الله الله فی اصحابی، الله الله فی اصحابی، لا تتخذوهم غرضا من بعدی فمن احبهم فبحبی احبهم ومن ابغضهم فببغضی ابغضهم ومن اذا هم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی الله ومن اذی الله فيوشک ان ياخذه . (ترمذی، بحواله مشکوٰة، 554،چشتی)
ترجمہ : میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ بعد انہیں (طعن و تشنیع کا) نشانہ نہ بنانا۔ سو جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے میرے ساتھ بغض رکھنے کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف دی اس نے یقینا مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے یقینا اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو عنقریب اسے اللہ پکڑے گا ۔

اسی طرح ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم فبايهم اقتديتم اهتديتم ۔ (مشکوٰة، 554)
ترجمہ : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کی پیروی کرو گے راہ پاؤ گے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ راضی ہوچکا اور وہ حضرات اپنے رب سے راضی ہوچکے۔ قرآن کریم میں ہے:رَّضِیَ اﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ۔ (التوبة:100)
ترجمہ : اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے ۔

پس ہر شخص کو آگاہ ہونا چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا، ان کے راستے پر چلنا، ان کے باہمی تنازعات میں پڑے بغیر ان کے لئے دعائے خیر کرنا، امت پر فرض ہے۔ ان سے بغض رکھنا، ان کی بے ادبی کرنا، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریقِ کفار و منافقین ہے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں، کاتب وحی ہیں۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں ۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ يَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا.(سورہ مومن:7)

جو حضرت امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں میں سے ایک کُتا ہے

امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمہ ﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا : ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔
ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)

امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ)

امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی رافضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121 )

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان صرف دو مرتبہ جنگ ہوئی ۔ (1) جنگ صفین ۔ (2) جنگ جمل

ان جنگوں کا سبب جیسا کہ معلوم ہے بنیادی طور پر خلیفہ راشد، امیرالمومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تھی جس کے پس پردہ وہی یہودی و مجوسی سازش کارفرما تھی جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ دار تھی۔ صحیح صورتحال اور معلومات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بروقت پہنچ جانا اس زمانہ میں ممکن نہ تھا جبکہ اسلام دشمن عناصر گمراہ کن افواہیں تسلسل سے پھیلانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں مسلم عوام و خواص میں غلط فہمیوں کا پیدا ہوجانا باعث تعجب نہیں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور اس کے نتیجہ میں :

(1) باہمی جنگیں ہوئیں جس میں مسلمانوں کا ناقابل بیان جانی و مالی نقصان ہوا۔
(2) ملی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی ۔
(3) وہ فاتحانہ قدم جو بڑی تیزی کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کی طرف بڑھتے چلے جارہے تھے، یکدم رک گئے ۔

تاہم یہ قضا و قدر کے وہ قطعی فیصلے تھے جن کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے دے دی تھی۔ دونوں طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے۔ کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا نہ صحیح ہے نہ انصاف۔ اس مسئلہ میں ناصبی، خارجی بھی غلط ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور رافضی شیعہ بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان عظمت میں گستاخی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ گستاخی کی لعنت سے ہر مسلمان کو محفوظ فرمائے ۔ صحیح صورت حال وہی ہے جس کی نشاندہی ہم نے کردی ہے اللہ تعالیٰ اور نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ، صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم ائمہ و اولیاء و علماء اور عام اہل اسلام کا ادب و احترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔