Thursday 29 October 2015

نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کی پشتِ اقدس ذکر مبارک

0 comments
نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کی پشتِ اقدس ذکر مبارک
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس کشادہ اور خوبصورتی و دلکشی میں اپنی مثال آپ تھی، دونوں مقدس کندھوں کے درمیان مہرِنبوت تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَO الَّذِي اَنْقَضَ ظَهْرَکَO

’’اور ہم نے آپ کا (غمِ اُمت کا وہ) بار آپ سے اُتار دیاo جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھاo‘‘

القرآن، الم نشرح، 94 : 2، 3
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت محرش بن عبداللہ رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے آقائے نامدار علیہ السلام کو عمرہ کا اِحرام باندھتے ہوئے دیکھا

فنظرتُ إلي ظهره کأنها سبيکة فضة

میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمرِ مبارک کی جانب نظر اٹھائی تو اُسے چاندی کے ٹکڑے کی طرح پایا

1. احمدبن حنبل، المسند، 5 : 380، رقم : 23273
2. نسائي، السنن، 5 : 220، کتاب مناسک الحج، رقم : 2864
3. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 474، رقم : 4234
4. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 231، رقم : 13230
5. حميدي، المسند، 2 : 380، رقم : 863
6. طبراني، المعجم الکبير، 20 : 327، رقم : 772
7. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 570
8. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 22
9. مزي، تهذيب الکمال، 27 : 286
10. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 2 : 324
11. مناوي، فيض القدير، 5 : 69
12. عبدالباقي، معجم الصحابه، 3 : 90
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے

و کان واسع الظهر

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک کشادہ تھی

بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 304
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا ہی سے ایک دوسری روایت بھی مذکور ہے

و کان طويلَ مسْرُبة الظهر

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریڑھ کی ہڈی لمبی تھی

بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 304

نبی کریم رؤف الرّحیم ﷺ کی ناف مبارک کا حسین تذکرہ

0 comments
نبی کریم رؤف الرّحیم ﷺ کی ناف مبارک کا حسین تذکرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدائش کے وقت ہی کئی حوالوں سے ممتاز اور منفرد اوصاف کے حامل تھے۔ عام انسانوں کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش اِس حال میں ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ختنہ شدہ اور ناف بریدہ تھے

قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے

کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد وُلِد مختوناً، مقطوع السرة

بیشک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ختنہ شدہ اور ناف بُریدہ پیدا ہوئے

الشفاء (1 : 42
----------------------------------------------------------------------------------
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما اپنے والدِ گرامی سے روایت فرماتے ہیں

وُلد رسولُ اﷲ مختوناً مسرورًا يعني مقطوع السرة، فأعجب بذلک جده عبدالمطلب، وقال : ليکونن لبني هذا شأن عظيم

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ختنہ شدہ اور ناف بریدہ پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدِ امجد حضرت عبدالمطلب اس پر متعجب ہوئے اور فرمایا میرا یہ بیٹا یقیناً عظیم شان کا مالک ہو گا

1. ابن عبد البر، الاستيعاب، 1 : 51
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 103
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما فرماتے ہیں

ان رسول صلي الله عليه وآله وسلم وُلد مختوناً مسروراً يعني مقطوع السرة

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ختنہ شدہ اور ناف بریدہ پیدا ہوئے تھے

1. ابن حبان، الثقات، 1 : 42
2. حاکم، المستدرک، 2 : 657، رقم : 4177
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 103
4. نووي، تهذيب الأسماء، 1 : 50
5. صيداوي، معجم الشيوخ، 1 : 336، رقم : 314

Wednesday 28 October 2015

نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کے بطنِ اقدس کا ذکر جمیل

0 comments
نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کے بطنِ اقدس کا ذکر جمیل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکمِ اطہر سینۂ انور کے برابر تھا، ریشم کی طرح نرم اور ملائم، چاندی کی طرح سفید، چودھویں کے چاند کی طرح حسین اور چمکدار، حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا جنہیں دورانِ ہجرت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میزبانی کا شرفِ لازوال حاصل ہوا، فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکم مبارک نہ تو بہت بڑھا ہوا تھا اور نہ بالکل ہی پتلا۔ اُن سے مروی روایت کے الفاظ ہیں

لم تعبه ثُجلة.

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیٹ کے بڑا ہونے کے (جسمانی) عیب سے پاک تھے

1. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
2. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 49، رقم : 3605
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
4. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1959
5. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 139
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . سواء البطن والصدر

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکم مبارک اور سینۂ انور برابر تھے

1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، رقم : 8
2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155
3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155، رقم : 414
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35
6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
7. ابن حبان، الثقات، 2 : 146
8. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 156
9. نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 52
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت اُمِ ہلال رضی اللّٰہ عنہا تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکمِ اطہر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں

ما رأيتُ بطن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قط إلا ذکرت القراطيس المثنية بعضها علي بعض

یں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بطنِ اقدس کوہمیشہ اِسی حالت میں دیکھا کہ وہ یوں محسوس ہوتا جیسے کاغذ تہہ در تہہ رکھے ہوں

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 419
2. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 413، رقم : 1006
3. طيالسي، المسند، 1 : 225، رقم : 1619
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 280
5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 12 : 64، رقم : 6457
6. صيداوي، معجم الشيوخ، 3 : 739، رقم : 355
----------------------------------------------------------------------------------
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکمِ اقدس پر بال نہ تھے، ہاں بالوں کی ایک لکیر سینۂ انور سے شروع ہوکر ناف پر ختم ہوجاتی تھی

ليس في بطنه و لا صدره شعر غيره

اُس لکیرکے علاوہ سینۂ انور اور بطنِ اقدس پر بال نہ تھے

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 410
2. طبري، تاريخ، 2 : 221
3. ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 318
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أبيض الکشحين

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں پہلو سفید تھے

1. بخاري الادب المفرد، 1 : 99، رقم : 255
2. ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 320
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 414، 415
ایک ایمان افروز واقعہ
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بہت زندہ دل تھے، محفل میں تہذیب و شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسی مزاحیہ گفتگو کرتے کہ اہلِ محفل کشتِ زعفران کی طرح کھل اُٹھتے اور اُن کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھر جاتیں۔ ایک دن وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں کسی بات پر خوش طبعی کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تفنن طبع کے طور پر اُن کے پہلو پر ہاتھ سے ہلکی سے چپت لگائی۔ حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ عرض پیرا ہوئے

یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مارنے سے مجھے تکلیف پہنچی ہے‘‘۔ والی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابی کی یہ بات سنی تو فرمایا

اگر ایسا ہے تو تم مجھ سے اس کا بدلہ لے لو‘‘۔ وہ صحابی جو محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بے خود اور وارفتہ ہو رہے تھے، عرض گزار ہوئے

یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جب آپ نے مجھے ہاتھ مارا تھا اُس وقت میرا جسم ننگا تھا۔‘‘ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پشت اقدس پر سے قمیص مبارک اُٹھا دی اور فرمایا : لو اپنا بدلہ لے لو۔ اس پر وہ جان نثارِ رسول رضی اللہ عنہ وجد میں آ کر جھوم اُٹھا

فاحتضنه، فجعل يقبل کشحه، فقال : بأبي أنت و أمي يا رسول اﷲ! أردتُ هذا

پس اُس صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لپٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلوئے اطہر کے بوسے لینا شروع کر دیئے، اور عرض کی : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میرا مقصد صرف یہی تھا

1. حاکم، المستدرک، 3 : 328، رقم : 5262
2. ابو داؤد، السنن، 4 : 356، کتاب الأدب، رقم : 5224
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 49
4. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 206، رقم : 557
5. مقدسي، الاحاديث المختارة، 4 : 276
6. زيلعي، نصب الراية، 4 : 259
7. ذهبي، سيرأعلام النبلا، 1 : 342
8. عسقلاني، الدراية في تخريج أحاديث الهداية، 2 : 232
9. عجلوني، کشف الخفاء، 2 : 53
----------------------------------------------------------------------------------
شکمِ اطہر پر ایک کی بجائے دو پتھر

والی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فقر اختیاری تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقر و فاقہ کی زندگی بسر کی۔ غزوہ احزاب میں خندق کی کُھدائی کے دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی نے فاقہ کی شکایت کی اور عرض کیا کہ میں نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بطنِ اقدس سے کپڑا ہٹایا جہاں دو پتھر بندھے تھے۔ حدیثِ مبارکہ میں اِس کا ذکر اس طرح ہوا ہے

فرفع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن بطنه عن حجرين.

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شکمِ اطہر سے کپڑا اُٹھایا تو اُس پر دو پتھر بندھے تھے

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 585، ابواب الزهد، رقم : 2371
2. ترمذي، الشمائل المحمديه : 27، باب ماجاء في عيش النبيا
3. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 53
4. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 14 : 156
5. ابن ابي عاصم، کتاب الزهد، 1 : 175
6. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 96، رقم : 4964
7. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 7 : 33
8. مزي، تهذيب الکمال، 12 : 170
----------------------------------------------------------------------------------
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقر کو غنا پر ترجیح دی، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ارض و سماوات بلکہ کل جہاں کے تمام خزانوں کے مالک تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب کریم نے قاسم بنایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ فقر کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل و عیال نے کبھی شکم سیر ہو کر کھانا نہ کھایا، اکثر جَو کی روٹی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غذا ہوتی

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما فرماتے ہیں

وکان أکثرخبزهم خبز الشعير

آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غذا اکثر و بیشتر جَو کی روٹی ہوتی تھی

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 580، ابواب الزهد، رقم : 2360
2. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 91
3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 275
4. ابو نعيم، حلية الاولياء، 3 : 342
5. منادي، فيض القدير، 3 : 199
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

و ما أکل خبزاً مرققاً حتي مات

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری دم تک پتلی روٹی نہیں کھائی

1. بخاري، الصحيح، 5 : 2369، کتاب الرقاق، رقم : 6085
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 581، ابواب الزهد، رقم : 2363
3. نسائي، السنن الکبريٰ، 4 : 150، رقم : 6638
----------------------------------------------------------------------------------
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں

ما شبع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من خبز شعير يومين متتابعين حتي قبض

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل دو دن جَو کی روٹی سے پیٹ نہیں بھرا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 579، رقم : 2357
2. طيالسي، المسند، 1 : 198، رقم : 1389
----------------------------------------------------------------------------------
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک دفعہ بعض لوگوں نے دعوت کی، اور اُنہیں کھانے کو بکری کا بُھنا ہوا گوشت پیش کیا، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُس عاشقِ زار کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا زمانہ یاد آگیا اور وہ معذرت کرتے ہوئے فرمانے لگے

خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من الدنيا ولم يشبع من خبز الشعير

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں وصال فرما گئے کہ آپ نے تادم وصال جَو کی روٹی بھی کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی

1. بخاري، الصحيح، 5 : 2066، کتاب الأطعمة، رقم : 5098
2. ابويعلي، المسند، 8 : 35، رقم : 5541
3. بيهقي، شعب الايمان، 5 : 30، رقم : 4658
4. ازدي، مسند الربيع، 1 : 352، رقم : 90

نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کے قلبِ اطہر کا حسین تذکرہ

0 comments
نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کے قلبِ اطہر کا حسین تذکرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر علوم و معارف کا گنجینہ اور انوار و تجلیاتِ الٰہیہ کا خزینہ تھا۔ چونکہ اس بے مثال قلبِ انور پر قرآنِ حکیم کا نزول ہونا تھا، اسے شرحِ صدر کے بعد منبعِ رُشد و ہدایت بنا دیا گیا تاکہ تمام کائناتِ جن و انس ابدالآباد تک اُس سے اِیمان و اِیقان کی روشنی کشید کرتی رہے

خود قرآنِ مجید کی بعض آیات اور الفاظ آقائے دوجہاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر سے منسوب ہیں اور مفسرین نے ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَالنَّجْمِ إِذَا هَوٰيO

قسم ہے ستارے (یعنی نور مبین) کی جب وہ (معراج سے) اُتراo

القرآن، النجم، 53 : 11

قاضی عیاض حضرت جعفر بن محمد سے وَالنَّجْمِ کی تشریح میں لکھتے ہیں :

النجم : هو قلب محمد صلي الله عليه وآله وسلم.

نجم سے مراد حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ انور ہے۔

قاضي عياض، الشفا، 1 : 23

دوسرے مقام پر قرآن مجید نے قلبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

مَا کَذَبَ الفُؤَادُ مَا رَاٰيO

’’جو (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) دیکھا قلب نے اُسے جھوٹ نہ جانا (سمجھ لیا کہ یہ حق ہے)o‘‘

القرآن، النجم، 53 : 11

اللہ ربُ العزت نے قرآن حکیم میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر اور سینۂ اقدس کا ایک ہی مقام پر تمثیلی پیرائے اور استعاراتی انداز میں یوں ذکر فرمایا :

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ.

’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اُس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دُنیا میں روشن ہوا) اُس طاق (نما سینۂ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے، (وہ) چراغ فانوسِ (قلبِ محمدی) میں رکھا ہے۔‘‘

القرآن، النور، 24 : 25

امام خازن رحمۃ اﷲ علیہ اِس آیتِ کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں سوال کیا :

أخبرني عن قوله تعالٰي : مَثَلُ نُوْرِه کَمِشْکٰوةٍ.

’’مجھے باری تعالیٰ کے ارشاد . . . اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہوا) اس طاق (نما سینہ اقدس) جیسی ہے . . . کے بارے میں بتائیں کہ اس سے کیا مراد ہے ؟‘‘

حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :

هذا مثل ضربه اﷲ لنبيها، فالمشکٰوة صدره، والزجاجة قلبه، والمصباح فيه النبوة توقد من شجر مبارکة هي شجرة النبوة.

’’(آیتِ مذکورہ میں) باری تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ مشکٰوۃ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس مراد ہے، زجاجۃ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر ہے، جبکہ مصباح سے مراد وہ صفتِ نبوت ہے جو شجرۂ نبوت سے روشن ہے۔‘‘

خازن، لباب التأويل في معاني التنزيل، 5 : 56

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک سینے کو انوار و معارفِ الٰہیہ کا خزینہ بنایا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ منور سوز و گداز اور محبت و شفقت کا مخزن تھا۔ انسان تو انسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جانور پر بھی تشدد برداشت نہ کر سکتے تھے۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی رقیق القلب تھے، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے، اُن کا غم بانٹتے اور اُن کے زخموں پر شفا کا مرہم رکھتے، ہر وقت دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہتے، بیماروں کی عیادت فرماتے، حرفِ تسلی سے اُن کا حوصلہ بڑھاتے اور اُنہیں اِعتماد کی دولت سے نوازتے۔ قرآنِ مجید کا فرمان ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نرم دل اور رقیق القلب نہ ہوتے تو پروانوں کا ہجوم شمعِ رسالت کے گرد اِس طرح جمع نہ ہوتا۔

ارشادِ ربانی ہے :

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.

(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ن کے لئے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تندخو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔

القرآن، آل عمران، 3 : 59

اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوئے دل نوازی اور بندہ پروری کا ذکر اس شعر میں کس حسن و خوبی سے کیا ہے :

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق

اللہ ربُ العزت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قلبِ بیدار عطا کیا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إن عيني تنامان و لا ينام قلبي.

’’بیشک میری آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 1 : 385، ابواب التهجد، رقم : 1096
2. مسلم، الصحيح، 1 : 509، کتاب صلاة المسافرين و قصرها، رقم : 737
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 1 : 302، 738، ابواب الصلوة، رقم : 439
4. ابوداؤد، السنن، 2 : 40، کتاب الصلوة، رقم : 1341
5. نسائي، السنن، 3 : 234، کتاب قيام اليل و تطوع النهار، رقم : 1697
6. مالک، الموطأ، 1 : 120، رقم : 263
7. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 104
8. ابن حبان، الصحيح، 6 : 186، رقم : 2430
9. ابن خزيمه، الصحيح، 1 : 30، رقم : 49
10. بيهقي، السنن الکبريٰ، 1 : 122، رقم : 597
11. ابو نعيم، حلية الأولياء، 10 : 384

نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کے سینئہ اقدس کا تذکرہ

0 comments
نبی اکرم نور  مجسّم ﷺ کے سینئہ اقدس کا تذکرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس فراخ، کشادہ اور ہموار تھا۔ جسمِ اطہر کے دوسرے حصوں کی طرح حسنِ تناسب اور اعتدال و توازن کا نادر نمونہ تھا۔ سینۂ انور سے ناف مبارک تک بالوں کی ایک خوشنما لکیر تھی، اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاسینۂ اقدس بالوں سے خالی تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ انورقدرے ابھرا ہوا تھا، یہی وہ سینۂ انور تھا جسے بعض حکمتوں کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ کے مختلف مرحلوں میں کئی بار چاک کر کے انوار و تجلیات کا خزینہ بنایا گیا اور اسے پاکیزگی اور لطافت و طہارت کاگہوارہ بنا دیا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ فراخی، کشادگی، وسعت اور حسن تناسب میں اپنی مثال آپ تھا

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سینۂ اقدس کے فراخ اور کشادہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . عريض الصدر

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ انور فراخی (کشادگی) کا حامل تھا

1. ترمذي، الشمائل المحمديه : 2، باب في خلق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم
2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155، رقم : 414
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35
6. ابن حبان، الثقات : 2 : 146
7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
8. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 156
----------------------------------------------------------------------------------
اس حوالے سے امام بيہقی رحمۃ اﷲ علیہ کی روایت ہے

و کان عريض الصدر ممسوحه کأنه المرايا في شدتها و إستوائها، لا يعدو بعض لحمه بعضاً، علي بياض القمر ليلة البدر

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس فراخ اور کشادہ، آئینہ کی طرح سخت اور ہموار تھا، کوئی ایک حصہ بھی دوسرے سے بڑھا ہوا نہ تھا اور سفیدی اور آب و تاب میں چودھویں کے چاند کی طرح تھا

بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 304
----------------------------------------------------------------------------------
ایک دوسری روایت میں آتا ہے

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فسيح الصدر.

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس سینے میں وسعت پائی جاتی تھی

ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 330

نبی کریم ﷺ کے بغل مبارک

0 comments
نبی کریم ﷺ کے بغل مبارک
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک بغلیں سفید، صاف و شفاف اور نہایت خوشبودار تھیں، جس کے بارے میں کتب احادیث و سیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے متعدد احادیث مروی ہیں

ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وضو کا پانی پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہو کر اُنہیں دُعا دی اور اپنے مبارک ہاتھوں کو بلند فرمایا۔ وہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ

و رأيتُ بياض إبطيه

میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغلوں کی سفید ی دیکھی

1. بخاري، الصحيح، 5 : 2345، کتاب المناقب، رقم : 6020
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1944، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2498
3. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 240، رقم : 8187
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 460
----------------------------------------------------------------------------------
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک بغلوں کی خوشبودار ہونے کے حوالے سے بنی حریش کا ایک شخص اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اپنے والدِ گرامی کے ساتھ بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوا، اُس وقت حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو اُن کے اقرارِ جرم پر سنگسار کیا جارہا تھا۔ مجھ پر خوف سا طاری ہوگیا، ممکن تھا کہ میں بے ہوش ہو کر گرپڑتا

فضمني إليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فسال عليّ مِن عرقِ إبطه مثل ريحِ المسکِ

پس رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنے ساتھ لگالیا (گویا گرتے دیکھ کر مجھے تھام لیا) اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک بغلوں کا پسینہ مجھ پر گرا جو کستوری کی خوشبو کی مانند تھا

1. دارمي، السنن، 1 : 34، رقم : 64
2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 116
3. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 461
4. عسقلاني، الاصابه، 2 : 57
5. عسقلاني، لسان الميزان، 2 : 170
6. ذهبي، ميزان الاعتدال، 2 : 193
----------------------------------------------------------------------------------
انسانی جسم کا وہ حصہ جس سے عموماً پسینہ کی وجہ سے ناپسندیدہ بو آتی ہے، حضور ختمی مرتب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کے حسن و جمال میں اضافے کا موجب بنا اور وہ خوش نصيب صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم جنہيں حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي مبارک و مقدس بغلوں کے پسينے کي خوشبو سے مشامِ جاں کو معطر کرنے کي سعادت حاصل ہوئي، وہ عمر بہر اُس سعادت پر نازاں رہے

نبی کریم ﷺ کی مبارک ہتھیلیوں کا تذکرہ

0 comments
نبی کریم ﷺ کی مبارک ہتھیلیوں کا تذکرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس اور نورانی ہتھیلیاں کشادہ اور پرگوشت تھیں۔ اس بارے میں متعدد روایات ہیں

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . رحب الراحة.

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلیاں فراخ تھیں

1. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 156
2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
4. ابن حبان، الثقات، 2 : 146
5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35
6. مناوي، فيض القدير، 5 : 78
7. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 156
8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 422
9. نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 52
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

وکان بسط الکفين

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں

1. بخاري، الصحيح، 5 : 2212، کتاب اللباس، رقم : 5567
2. عسقلاني، فتح الباري، 10 : 359
----------------------------------------------------------------------------------
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک ہتھیلیوں میں نرماہٹ ، خنکی اور ٹھنڈک کا احساس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک منفرد وصف تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک ہتھیلیوں سے بڑھ کر کوئی شے نرم اور ملائم نہ تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی سے مصافحہ فرماتے یا سر پر دستِ شفقت پھیرتے تو اُس سے ٹھنڈک اور سکون کا یوں اِحساس ہوتا جیسے برف جسم کو مَس کر رہی ہو

حضرت عبداللہ بن ہلال انصاری رضی اللہ عنہ کو جب اُن کے والدِ گرامی دعا کے لئے حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے کر گئے تو اُس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور اُن کے سر پردستِ شفقت پھیرا۔ وہ اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں

فما أنسيٰ وضع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يده علي رأسي حتي وجدتُ بردها

هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 399

حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دستِ شفقت کی ٹھنڈک اور حلاوت کو میں کبھی نہیں بھولا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک میرے سر پر رکھا

نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کی مبارک انگلیوں کا ذکر جمیل

0 comments
نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کی مبارک انگلیوں کا ذکر جمیل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک کی انگلیاں خوبصورت، سیدھی اور دراز تھیں

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم . . . سائل الأطراف

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگشتانِ مبارک لمبی اور خوبصورت تھیں

1. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 156، رقم : 414
2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35
----------------------------------------------------------------------------------ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت انگلیوں کو چاندی کی ڈلیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں

کأن أصابعه قضبان فضة

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیاں مبارک چاندی کی ڈلیوں کی طرح تھیں

1. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 305
2. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 40
3. مناوي، فيض القدير، 5 : 78
----------------------------------------------------------------------------------
انہی مقدس انگلیوں کے اشارے پر چاند وجد میں آجایا کرتا تھا، شق القمر کا معجزہ انہی مقدس انگلیوں کے اُٹھ جانے سے ظہور میں آیا

انہی مقدس انگلیوں سے پانی کے چشمے رواں ہوگئے

حضرت میمونہ بنت کردم رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر باہر نکلی تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انگوٹھے کے ساتھ شہادت والی انگلی کی لمبائی کو دیکھا کہ وہ باقی سب انگلیوں سے دراز ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انگلیوں کے بارے میں دوسری جگہ روایت ہے کہ اشارے کرنے والی انگلی (شہادت والی انگلی) درمیانی انگلی سے لمبی تھی، درمیانی انگلی شہادت والی سے چھوٹی اور انگوٹھی والی انگلی درمیانی انگلی سے چھوٹی تھی

1. مناوي، فيض القدير، 5 : 195
2. حکيم ترمذي، نوادر الاصول في أحاديث الرسول، 1 : 167، 168
3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 268، رقم : 471
4. قرطبي، الجامع الاحکام القرآن، 2 : 15

رسول اللہ ﷺ کے گستاخ کی سزا قرآن اور تفاسیر کی روشنی میں

0 comments
رسول اللہ ﷺ کے گستاخ کی سزا قرآن اور تفاسیر کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگر کبھی ایمان کی پختگی کے ساتھ قرآن مجید بمعہ ترجمہ و تفسیر پڑھا ہو تو معلوم ہوکہ گستاخِ رسول کی کیا سزا ہے۔ صرف اور صرف نام نہاد اسکالروں کی باتیں سن کر یہ کہہ دینا کہ قرآن مجید میں کہیں بھی گستاخِ رسول کو قتل کرنے کا ذکر نہیں ملتا، بہت بڑی نادانی ہے۔

ہم آپ کے سامنے قرآن مجید کی آیات اور شان نزول سے گستاخِ رسول کا واجب القتل ہونا ثابت کرتے ہیں۔

القرآن: ویوم یعض الظالم علیٰ یدیہ یقول یلیتنی اتخذت مع الرسول سبیلا O یویلتی لیتنی لم اتخذ فلانا خلیلا O لقد اضلنی عن الذکر بعد اذ جاء نی ، وکان الشیطن للانسان خذولا O

ترجمہ: اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا چبا لے گا کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی، وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا (سورۂ فرقان، پارہ 19، آیات 27 تا 29)

تفسیر: تفسیر ابن عباس، تفسیر جلالین اور تفسیر ابن کثیر میں مفسرین ان آیات کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ابی بن خلف کے اکسانے پر عقبہ بن ابی معیط نے سید عالمﷺ کی شان میں گستاخی کی اور حضورﷺ نے اس کو تنبیہ کی کہ اگر تو مکہ کے باہر مجھے ملا تو میں تجھے قتل کروں گا۔ حضورﷺ نے بدر کی جنگ کے موقع پر اس کو گرفتاری کی حالت میں قتل کیا تھا۔

القرآن: وان نکثوا ایمانہم من بعد عہدہم وطعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفر، انہم لاایمان لہم لعلہم ینتہون O (سورۂ توبہ آیت 12)

ترجمہ: اور اگر عہد کرکے اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین پر منہ آئیں تو کفر کے سرغنوں سے لڑو بے شک ان کی قسمیں کچھ نہیں اس امید پر کہ شاید وہ باز آئیں۔

تفسیر: مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ اپنی معرکۃ الآراء تفسیر خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں اس آیت سے ثابت ہوا کہ جو کافر ذمی دین اسلام پر ظاہر طعن کرے اس کا عہد باقی نہیں رہتا، وہ ذمہ سے خارج ہوجاتا ہے، اس کو قتل کرنا جائز ہے۔

جو کافر دین اسلام پر ظاہر طعن کرے اس کو قتل کرنا جائز ہے تو جو بدنصیب اﷲ تعالیٰ کے محبوبﷺ کی شان میں گستاخی کرے ایسے شخص کو قتل کرنا کیونکر جائز نہ ہوگا؟

گستاخ رسول مسلمان ہوکر بھی کافر

ارشاد باری تعالیٰ:

القرآن: ولئن سالتہم لیقولن انما کنا نخوض ونلعب O قل اباﷲ ایاتہ ورسولہ کنتم تستہزنون O ولا تعتذرواقد کفرتم بعد ایمانکم (سورۂ توبہ آیت 66-65)

ترجمہ: اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کہ اﷲ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو۔ بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے ہو مسلمان ہوکر۔

تفسیر: تفسیر در منثور اور الصارم علی المسلول میں ہے کہ یہ آیت مبارکہ اس وقت نازل ہوئی جب غزوہ تبوک کے موقع پر بعض منافقین نے ایسی باتیں کیں جو حضور اکرمﷺ کو اذیت کا باعث بنی مثلا حضرت مجاہد رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کی اونٹنی گم ہوگئی تو جناب سرکارﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اونٹنی فلاں جنگل میں ہے۔ اس پر ایک منافق بولا محمدﷺ غیب کیا جانیں۔ تب یہ آیات اس کی مذمت میں نازل ہوئی تھیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضور اکرمﷺ کے علم غیب میں طعن کرنا بھی رسول ﷺ کی توہین اور علامت کفر ہے۔

القرآن: ان الذین یحادون اﷲ ورسولہ اولئک فی الاذلین O

ترجمہ: بے شک وہ جو اﷲ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ سب سے زیادہ ذلیلوں میں ہیں (سورۂ مجادلہ، پارہ 28، آیت 20)

القرآن: انما جزؤا الذین یحاربون اﷲ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف او ینفوا من الارض، ذلک لہم خزی فی الدنیا ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم O

ترجمہ: وہ کہ اﷲ اور اس کے رسول سے لڑتے اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں، ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کئے جائیں یا سولی دیئے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں، یا زمین سے دور کردیئے جائیں۔ یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب (سورۂ مائدہ، پارہ 6، آیت 33)

جب فسادی کی سزا قتل ہے تو پھر اس سے بڑھ کر فسادی کون ہوسکتا ہے جو حضور اکرم نور مجسمﷺ کی شان میں گستاخی کرکے امت مسلمہ میں فساد برپا کرے، توہین رسالت کا جرم سب سے بڑا جرم ہے لہذا توہین رسالت کا مرتکب واجب القتل ہے۔

نبی کریم ﷺ کے دستِ اقدس کی برکتیں ، خوشبوئیں و ذکر جمیل

0 comments
نبی کریم ﷺ کے دستِ اقدس کی برکتیں ، خوشبوئیں و ذکر جمیل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اِنتہائی نرم اور ملائم تھے، شبنم کے قطروں سے بھی نازک، پھولوں کا گداز بھی اس کے آگے پانی پانی ہو جائے، دستِ اقدس سے ہمہ وقت خوشبوئیں لپٹی رہتیں، مصافحہ کرنے والا ٹھنڈک محسوس کرتا، اَنگشت مبارک قدرے لمبی تھیں، چاند کی طرف اُٹھتیں تو وہ بھی دولخت ہو جاتا

6ھ میں حدیبیہ کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جاں نثاروں کے ساتھ پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں، کفار و مشرکینِ مکہ آمادۂ فتنہ و شر ہیں۔ سفراء کا تبادلہ جاری ہے اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سفیرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہو تے ہیں۔ دوسری طرف بیعتِ رضوان کا موقع آتا تو اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیتا ہے :

إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاO

القرآن، الفتح، 48 : 10

(اے رسول!) بلاشبہ جو لوگ آپ سے (آپ کے ہاتھ پر) بیعت کرتے ہیں فی الحقیقت وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، (گویا) اللہ کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں پر ہے، پھر جو کوئی عہد کو توڑے تو عہد کے توڑنے کا نقصان اُسی کو ہو گا اور جو اللہ سے اپنا اِقرار پورا کرے (اور مرتے دم تک قائم رہے) تو اللہ تعالیٰ عنقریب اُسے بڑا اجر دے گا (اپنے دیدار سے سرفراز فرمائے گا )o

ایک دوسرے مقام پر ارشادِ خُداوندی ہے

وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمٰی.

اور (اے حبیبِ محتشم) جب آپ نے (اُن پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ تعالیٰ نے مارے تھے

القرآن، الانفال، 8 : 17
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس نہایت نرم و گداز تھے۔ حضرت مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ اپنے والدِ گرامی کے حوالے سے فرماتے ہیں

أتيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فأخذتُ بيده فإذا هي ألين من الحرير وأبرد من الثلج

میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ تھام لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس ریشم سے زیادہ نرم و گداز اور برف سے زیادہ ٹھنڈے تھے

1. طبراني، المعجم الکبير، 7 : 272، رقم : 7110
2. طبراني، المعجم الاوسط، 9 : 97، رقم : 9237
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 282
4. ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 3 : 323، رقم : 3859
5. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 74
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

مَا مَسسْتُ حريراً و لا ديباجاً ألين من کف النبي صلي الله عليه وآله وسلم

میں نے کسی ایسے ریشم یا دیباج کو نہیں چھوا جو نرمی میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک سے بڑھ کر ہو

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1306، کتاب المناقب، رقم : 3368
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2330
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 368، ابواب البروالصلة، رقم : 2015
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 211، رقم : 6303
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 315، رقم : 31718
6. احمد بن جنبل، المسند، 3 : 200، رقم؛ 13096
7. ابو يعلي، المسند، 6 : 405، رقم : 3762
8. عبد بن حميد، المسند، 1 : 402، رقم : 13163
9. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 413
10. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 170
خوشبوئے دستِ اقدس
----------------------------------------------------------------------------------
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس ہاتھوں سے ہر وقت بھینی بھینی خوشبو پھوٹتی تھی۔ حضرت جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہ اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد سے باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باری باری سب بچوں کے رُخساروں پر ہاتھ پھیرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے رُخسار پر بھی ہاتھ پھیرا

فوجدتُ ليده برداً أو ريحاً کأنما أخرجها من جؤنة عطّار

پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو یوں محسوس کی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے ابھی عطار کی ڈبیہ سے نکالا ہو

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1814، کتاب الفضائل، رقم : 2329
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 323، رقم : 31765
3. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 228، رقم : 1944
4. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 6 : 573
----------------------------------------------------------------------------------
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس ہمیشہ معطر رہتے، جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مصافحہ کرتے وہ کئی کئی دن دستِ اقدس کی خوشبو کی سرشاری کو مشامِ جان میں محسوس کرتے رہتے

وکأن کفه کف عطار طيب مسها بطيب أو لا مسها، فإذا صافحه المصافح يظل يومه يجد ريحاً و يضعها علي رأس الصبي فيعرف من بين الصبيان من ريحها علي رأسه

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ عطار کے ہاتھوں کی طرح معطر رہتے، خواہ خوشبو لگائیں یا نہ لگائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مصافحہ کرنے والا شخص سارا دن اپنے ہاتھوں پر خوشبو پاتا اور جب کسی بچے کے سر پر دستِ شفقت پھیر دیتے تو وہ (بچہ) خوشبوئے دستِ اقدس کے باعث دوسرے بچوں سے ممتاز ٹھہرتا

1. ابنِ عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 337
2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 305
---------------------------------------------------------------------------------
دستِ مبارک کی ٹھنڈک

خوشبو کے علاوہ سردارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کا لمس انتہائی خوشگوار ٹھنڈک کا کیف انگیز احساس بخشتا تھا۔ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی، اس کے بعد

1 : ۔ و قام الناس، فجعلوا يأخذون يديه فيمسحون بهما وجوههم، قال : فأخذت بيده فوضعُتها علي وجهي، فإذا هي أبرد من الثلج، و أطيب رائحة من المسک

لوگ کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے، میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ انور اپنے چہرے پر پھیرا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، کتاب المناقب، رقم : 3360
2. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 309
3. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 67، رقم : 1638
4. دارمي، السنن، 1 : 366، رقم : 1367
5. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 115، رقم : 294

2 : ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبت سے میرے سر اور سینے پر اپنا دستِ اقدس پھیرا۔ اس سے یہ کیفیت پیدا ہوئی

فما زلتُ أجد برده علي کبدي فما يخال إلي حتي الساعة

میں ہمیشہ اپنے جگر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی ٹھنڈک اور خنکی پاتا رہا، مجھے خیال ہے کہ اس (موجودہ) گھڑی تک وہ ٹھنڈک پاتا ہوں

1. بخاري، الصحيح، 5 : 2142، کتاب المرضيٰ، رقم : 5335
2. نسائي، السنن الکبريٰ؛ 4 : 67، رقم : 6318
3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 171
4. بخاري، الادب المفرد، 1 : 176، رقم : 499
5. مقدسي، الأحاديث المختاره، 3 : 212، رقم : 1013
----------------------------------------------------------------------------------
دستِ اقدس کی برکتیں

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض و برکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے مَس کیا اُس کی حالت ہی بدل گئی۔ وہ ہاتھ کسی بیمار کو لگا تو نہ صرف یہ کہ وہ تندرست و شفایاب ہوگیا بلکہ اس خیر و برکت کی تاثیر تادمِ آخر وہ اپنے قلب و روح میں محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تو اُسے علم و حکمت کے خزانوں سے مالا مال کردیا۔ بکری کے خشک تھنوں میں اُس دستِ اقدس کی برکت اُتری تو وہ عمر بھر دودھ دیتی رہی۔ توشہ دان میں موجود گنتی کی چند کھجوروں کو اُن ہاتھوں نے مَس کیا تو اُس سے سالوں تک منوں کے حساب سے کھانے والوں نے کھجوریں کھائیں مگر پھر بھی اُس ذخیرہ میں کمی نہ آئی۔ بقول اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ :
ہاتھ جس سمت اُٹھایا غنی کر دیا

اُن ہاتھوں کی فیض رسانی سے تہی دست بے نوا گدا، دوجہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوگئے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی زندگیوں میں بارہا ان مبارک ہاتھوں کی خیر و برکت کا مشاہدہ کیا۔ وہ خود بھی اُن سے فیض حاصل کرتے رہے اور دوسروں کو بھی فیض یاب کرتے رہے، اس حوالے سے متعدد روایات مروی ہیں

1 : ۔ دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ دوسروں کو فیض یاب کرتے رہے

حضرت ذیال بن عبید رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے حق میں دعائے خیر کے لئے عرض کیا :

فقال : ادن يا غلام، فدنا منه فوضع يده علي رأسه، وقال : بارک اﷲ فيک

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹا! میرے پاس آؤ، حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سر پر رکھا اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے۔

حضرت ذیال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

فرأيتُ حنظلة يؤتي بالرجل الوارم وجهه وبالشاة الوارم ضرعها فيتفل في کفه، ثم يضعها علي صُلعته، ثم يقول : بسم اﷲ علي أثر يد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، ثم يمسح الورم فيذهب

میں نے دیکھا کہ جب کسی شخص کے چہرے پر یا بکری کے تھنوں پر ورم ہو جاتا تو لوگ اسے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آتے اور وہ اپنے ہاتھ پر اپنا لعابِ دہن ڈال کر اپنے سر پر ملتے اور فرماتے بسم اﷲ علی اثرید رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پھر وہ ہاتھ ورم کی جگہ پر مل دیتے تو ورم فوراً اُتر جاتا

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 7 : 72
2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 68
3. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 6، رقم : 3477
4. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 191، رقم : 2896
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 211
6. بخاري التاريخ الکبير، 3 : 37، رقم : 152
7. ابن حجر، الاصابه، 2 : 133

2 : ۔ دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے بال عمر بھر سیاہ رہے

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو اُس کی برکت سے 100 سال سے زائد عمر پانے کے باوجود اُن کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔ اس آپ بیتی کے وہ خود راوی ہیں

قال لي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ادن مني، قال : فمسح بيده علي رأسه ولحيته، قال، ثم قال : اللهم جمله و ادم جماله، قال : فلقد بلغ بضعا ومائة سنة، وما في رأسه ولحيته بياض الانبذ يسير، ولقد کان منبسط الوجه ولم ينقبض وجهه حتي مات

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہو جاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور دعا کی : الٰہی! اسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو گندم گوں کر دے۔ راوی کہتے ہیں کہ.اُنہوں نے 100 سال سے زیادہ عمرپائی، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سیاہ رہے، ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادم آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی

1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 77
2. عسقلاني، الاصابه، 4 : 599، رقم : 5763
3. مزي، تهذيب الکمال، 21 : 542، رقم : 4326

3 : ۔ دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے خشک تھنوں میں دودھ اُتر آیا

سفرِ ہجرت کے دوران جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اُم معبد رضی اللّٰہ عنہا کے ہاں پہنچے اور اُن سے کھانے کے لئے گوشت یا کچھ کھجوریں خریدنا چاہیں تو ان کے پاس یہ دونوں چیزیں نہ تھیں۔ حضور علیہ السلام کی نگاہ اُن کے خیمے میں کھڑی ایک کمزور دُبلی سوکھی ہوئی بکری پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ بکری یہاں کیوں ہے؟ حضرت اُمِ معبدنے جواب دیا : لاغر اور کمزور ہونے کی وجہ سے یہ ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ہے اور یہ چل پھر بھی نہیں سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیا یہ دودھ دیتی ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اجازت ہو تو دودھ دوہ لوں؟ عرض کیا : دودھ تو یہ دیتی نہیں، اگر آپ دوہ سکتے ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دوھا، آگے روایت کے الفاظ اس طرح ہیں

فدعا بها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فمسح بيده ضرعها و سمي اﷲ تعالٰي ودعا لها في شاتها، فتفاجت عليه ودرّت فاجتبرت، فدعا بإنائِ يربض الرهط فحلب فيه ثجاً حتي علاه البهاء، ثم سقاها حتيّٰ رويت وسقٰي أصحابه حتي رووا و شرب آخرهم حتي أراضوا ثم حلب فيه الثانية علي هدة حتيّٰ ملأ الإناء، ثم غادره عندها ثم بايعها و ارتحلوا عنها

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے منگوا کر بسم اﷲ کہ کر اُس کے تھنوں پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور اُم معبد کے لئے ان کی بکریوں میں برکت کی دعا دی۔ اس بکری نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں، کثرت سے دودھ دیا اور تابع فرمان ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا برتن طلب فرمایا جو سب لوگوں کو سیراب کر دے اور اُس میں دودھ دوہ کر بھر دیا، یہاں تک کہ اُس میں جھاگ آگئی۔ پھر اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کو پلایا، وہ سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے۔ سب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا، پھر دوسری بار دودھ دوہا۔ یہاں تک کہ وہی برتن پھر بھردیا اور اُسے بطورِ نشان اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کے پاس چھوڑا اور اُسے اِسلام میں بیعت کیا، پھر سب وہاں سے چل دیئے

1. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 56
3. شيباني، الآحاد و المثاني، 6 : 252، رقم : 3485
4. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 49، رقم : 3605
5. هبة اﷲ، اعتقاد اهل السنة، 4 : 778
6. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1959
7. عسقلاني، الاصابه، 8 : 306
8. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 230
9. ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 60
10. طبري، الرياض النضره، 1 : 471

تھوڑی دیر بعد حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کا خاوند آیا، اُس نے دودھ دیکھا تو حیران ہوکر کہنے لگا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا نے جواباً آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ شریف اور سارا واقعہ بیان کیا، جس کا ذکر ہم متعلقہ مقام پر کر آئے ہیں۔ وہ بولا وہی تو قریش کے سردار ہیں جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ میں نے بھی قصد کرلیا ہے کہ اُن کی صحبت میں رہوں چنانچہ وہ دونوں میاںبیوی مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے

حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا قسم کھا کر بیان کرتی ہیں کہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیاتِ مبارکہ کے دس برس گزارے، پھر اڑھائی سالہ خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دور گزرا اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا۔ ان کے دورِ خلافت کے اواخر میں شدید قحط پڑا، یہاں تک کہ جانوروں کے لئے گھاس پھوس کا ایک تنکا بھی میسر نہ آتا۔ وہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم! آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے میری بکری اُس قحط سالی کے زمانے میں بھی صبح و شام اُسی طرح دودھ دیتی رہی

4 : ۔ دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لمس سے لکڑی تلوار بن گئی

غزوۂ بدر میں جب حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں ایک سوکھی لکڑی عطا کی جو اُن کے ہاتھوں میں آ کر شمشیرِ آبدار بن گئی

فعاد سيفا في يده طويل القامة، شديد المتن أبيض الحديدة فقاتل به حتي فتح اﷲ تعالٰي علي المسلمين وکان ذلک السيف يُسمّی العون

جب وہ لکڑی اُن کے ہاتھ میں گئی تو وہ نہایت شاندار لمبی، چمکدار مضبوط تلوار بن گئی، تو اُنہوں نے اُسی کے ساتھ جہاد کیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور وہ تلوار عون (یعنی مددگار) کے نام سے موسوم ہوئی

1. ابن هشام، السيرة النبويه، 3 : 185
2. بيهقي، الاعتقاد، 1 : 295
3. عسقلاني، فتح الباري، 11 : 411
4. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 : 308
5. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 1080، رقم : 1837
6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 188
7. نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 310، رقم : 418

5 : ۔ جنگِ اُحد میں حضرت عبداللہ بن جحش کی تلوار ٹوٹ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔

فرجع في يد عبداﷲ سيفاً.

جب وہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں گئی تو وہ (نہایت عمدہ) تلوار بن گئی

1. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 359
2. أزدي، الجامع، 11 : 279
3. ابن حجر، الاصابه، 4 : 36، رقم : 4586

6 : ۔ دستِ اقدس کے لمسِ سے کھجور کی شاخ روشن ہو گئی

آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے کھجور کی شاخ میں روشنی آگئی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ایک اندھیری رات میں طوفانِ باد و باراں کے دوران دیر تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے رہے۔ جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی اور فرمایا

إنطلق به فإنه سيضئ لک مِن بين يديک عشرا، و مِن خلفک عشراً، فإذا دخلت بيتک فستري سواداً فأضربه حتي يخرج، فإنه الشيطان

اسے لے جاؤ! یہ تمہارے لئے دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ تمہارے پیچھے روشنی کرے گی اور جب تم اپنے گھر میں داخل ہوگے تو تمہیں ایک سیاہ چیز نظر آئے گی پس تم اُسے اتنا مارنا کہ وہ نکل جائے کیونکہ وہ شیطان ہے

1. قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفيٰ، 1 : 219
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 65، رقم : 11642
3. ابن خزيمه، صحيح، 3 : 81، رقم : 1660
4. طبراني، المعجم الکبير، 19 : 13، رقم : 19
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 2 : 167
6. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 29
7. مناوي، فيض القدير، 5 : 73

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے تو وہ شاخ ان کے لئے روشن ہو گئی یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہوگئے اور اندر جاتے ہی اُنہوں نے اُس سیاہ چیز کو پالیا اور اتنا مارا کہ وہ نکل گئی

7 : ۔ توشہ دان میں کھجوروں کا ذخیرہ

بيہقی، ابو نعیم، ابن سعد، ابن عساکر اور زرقانی نے یہ واقعہ ابو منصور سے بطریق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کیاہے کہ ایک جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم موجود تھے جن کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُس موقع پر میرے ہاتھ ایک توشہ دان (ڈبہ) لگا، جس میں کچھ کھجوریں تھیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استفسار پر میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ کھجوریں ہیں۔ فرمایا : لے آؤ۔ میں وہ توشہ دان لے کر حاضر خدمت ہوگیا اور کھجوریں گنیں تو وہ کل اکیس نکلیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس اُس توشہ دان پر رکھا اور پھر فرمایا ۔

أدع عشرة، فدعوت عشرة فأکلوا حتٰي شبعوا ثم کذالک حتٰي أکل الجيش کله و بقي من التمر معي في المزود. قال : يا أباهريرة! إذا أردت أن تأخذ منه شيئًا فادخل يدک فيه ولا تکفه. فأکلتُ منه حياة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وأکلت منه حياة أبي بکر کلها و أکلت منه حياة عمر کلها و أکلت منه حياة عثمان کلها، فلما قُتل عثمان إنتهب ما في يدي وانتهب المزود. ألا أخبرکم کم أکلتُ منه؟ أکثر من مأتي وسق

دس آدمیوں کو بلاؤ! میں نے بلایا۔ وہ آئے اور خوب سیر ہو کرچلے گئے۔ اسی طرح دس دس آدمی آتے اور سیرہو کر اٹھ جاتے یہاں تک کہ تمام لشکر نے کھجوریں کھائیں اور کچھ کھجوریں میرے پاس توشہ دان میں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوہریرہ! جب تم اس توشہ دان سے کھجوریں نکالنا چاہو ہاتھ ڈال کر ان میں سے نکال لیا کرو، لیکن توشہ دان نہ انڈیلنا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس سے کھجوریں کھاتا رہا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق و عثمان غنی رضی اللہ عنھم کے پورے عہد خلافت تک اس میں سے کھجوریں کھاتا رہا اور خرچ کرتا رہا۔ اور جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو جو کچھ میرے پاس تھا وہ چوری ہو گیا اور وہ توشہ دان بھی میرے گھر سے چوری ہوگیا۔ کیا تمہیں بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کنتی کھجوریں کھائیں ہوں گی؟ تخمیناً دو سو وسق سے زیادہ میں نے کھائیں۔

1. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة) 6 : 117
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 685، ابواب المناقب، رقم : 3839
3. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 352
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 467، رقم : 6532
5. اسحاق بن راهويه، المسند، 1 : 75، رقم : 3
6. بيهقي، الخصاص الکبريٰ، 2 : 85
7. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 631

یہ سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی برکتوں کا نتیجہ تھا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُس توشہ دان سے منوں کے حساب سے کھجوریں نکالیں مگر پھر بھی تادمِ آخر وہ ختم نہ ہوئیں

8 : ۔ دستِ شفا سے ٹوٹی ہوئی پنڈلی جڑ گئی

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عتیک دشمنِ رسول ابو رافع یہودی کو جہنم رسید کر کے واپس آرہے تھے کہ اُس کے مکان کے زینے سے گر گئے اور اُن کی پنڈلی ٹوٹ گئی۔ وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی ٹانگ کھولو۔ وہ بیان کرتے ہیں

فبسطتُ رجلي، فمسحها، فکأنّما لم أشتکها قط

میں نے اپنا پاؤں پھیلا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا دستِ شفا پھیرا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ کرم کے پھیرتے ہی میرے پنڈلی ایسی درست ہوگئی کہ گویا کبھی وہ ٹوٹی ہی نہ تھی

1. بخاري، الصحيح 4 : 1483، کتاب المغازي، رقم : 3813
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 80
3. طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 56
4. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 946
5. ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 125، رقم : 134
6. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 139
7. ابن تيميه، الصارم المسلول، 2 : 294
(8) دستِ اقدس کی فیض رسانی

9 : ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کا گورنر تعینات کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ مقدمات کے فیصلے میں میری ناتجربہ کاری آڑے آئے گی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سینے پر پھیرا جس کی برکت سے انہیں کبھی کوئی فیصلہ کرنے میں دشواری نہ ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی فیض رسانی کا حال آپ رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں

فضرب بيده في صدري، و قال : اللهم اهد قلبه و ثبت لسانه. قال فما شککتُ في قضاء بين اثنين

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ کرم میرے سینے پر مارا اور دعا کی : اے اللہ! اس کے دل کو ہدایت پر قائم رکھ اور اس کی زبان کو حق پر ثابت رکھ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ (خدا کی قسم) اُس کے بعد کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلے کرنے میں ذرہ بھر غلطی کا شائبہ بھی مجھے نہیں ہوا

1. ابن ماجه، السنن، 2 : 774، کتاب الاحکام، رقم : 2310
2. عبد بن حميد، المسند، 1 : 61، رقم : 94
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 337
4. احمد بن ابي بکر، مصباح الزجاجه، 3 : 42، رقم : 818
5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 2 : 122

9 : ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی قوت حافظہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں

قلتُ : يا رسول اﷲ، إني أسمع منک حديثاً کثيراً فأنساه؟ قال : أبسط، رداء ک، فبسطتُه، قال : فغرف بيديه فيه، ثم قال : ضمه فضممته، فما نسيتُ شيئاً بعده

میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ صلی اﷲ علیک وسلم سے بہت کچھ سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلا؟ میں نے پھیلا دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لپ بھر بھر کر اس میں ڈال دیئے اور فرمایا : اسے سینے سے لگا لے۔ میں نے ایسا ہی کیا، پس اس کے بعد میں کبھی کچھ نہیں بھولا

1. بخاري، الصحيح، 1 : 56، کتاب العلم، رقم : 119
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1940، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2491
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 684، ابواب المناقب، رقم : 3835
4. ابن حبان، الصحيح، 16 : 105، رقم : 7153
5. ابو يعلٰي، المسند، 11 : 88، رقم : 6219
6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 329
7. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1771
8. عسقلاني، الاصابه، 7 : 436
9. ذهبي، تذکرة الحفاظ، 2 : 496
10. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 12 : 174

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی خیر و برکت کی تاثیر کے حوالے سے یہ چند واقعات ہم نے محض بطور نمونہ درج کئے ورنہ دستِ شفا کی معجز طرازیوں سے کتبِ احادیث و سیر بھری پڑی ہیں ۔

نبی کریم ﷺ کے بازوئے مقدّس کا ذکر جمیل

0 comments
نبی کریم ﷺ کے بازوئے مقدّس کا ذکر جمیل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بازوئے اقدس خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے، طوالت کے اِعتبار سے اِعتدال کا خوبصورت اور دلکش نمونہ تھے، کلائیوں پر بال مبارک تھے، بازو اور کلائیاں سفید اور چمکدار تھیں اور حسن و جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آئینہ دار تھیں۔

امام بيہقی بیان کرتے ہیں

وکان عبل العضدين والذراعين، طويل الزندين

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مچھلیاں سفیداور چمکداراور کلائیاں لمبی تھیں

بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 305
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت ہندبن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . أشعر الذراعين

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک کلائیوں پر بال موجود تھے

1. ترمذي، الشمائل المحمديه : 2، باب في خلق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
3. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 156
4. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 32
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عظيم الساعدين

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بازو (اعتدال کے ساتھ) بڑے تھے

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 415
2. ابن کثير، البدايه و النهايه (السيرة) 6 : 19
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں

کان رسول صلي الله عليه وآله وسلم سَبْط القصب

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بازو مبارک اور پنڈلیاں موزوں ساخت کی تھیں

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 156، رقم : 414

Tuesday 27 October 2015

نبی کریم ﷺ کے مبارک کندھوں کا تذکرہ

0 comments
نبی کریم ﷺ کے مبارک کندھوں کا تذکرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھے مضبوط اور قدرے فربہی لئے ہوئے تھے، بالکل پتلے شانے نہ تھے بلکہ خاص گولائی میں تھے۔ دونوں شانوں کی ہڈیوں کے درمیان مناسب فاصلہ تھا
جس نے سینۂ اقدس کو فراخ اور دراز کر دیا تھا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مضبوط کندھوں کے بارے میں فرماتے ہیں

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . عظيم مشاش المنکبين

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں کے جوڑ توانا اور بڑے تھے

1. ابنِ عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 320
2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 241
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 415
4. ابن کثير، البدايه و النهايه (السيرة)، 6 : 19
5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 126
---------------------------------------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات کوئی دیہاتی آ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قمی رضی اللہ عنہ کھینچ لیتا تو

فکأنما أنظر حين بدا منکبه إلي شقة القمر من بياضه صلي الله عليه وآله وسلم

دوشِ اقدس سفیدی اور چمک کے باعث یوں نظر آتے جیسے ہم چاند کا ٹکڑا ملاحظہ کر رہے ہوں ۔ سُبل الهديٰ والرشاد، 2 : 43
---------------------------------------------------------------------------------
جلیل القدر صحابہ کرام حضرت علی المرتضیٰ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ہند بن ابی ہالہ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنھم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھوں کے فاصلے کے حوالے سے یہ روایت ملتی ہے

کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم مربوعاً بعيد ما بين المنکبين.

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میانہ قد کے تھے، دونوں کاندھوں کے درمیان فاصلہ تھا

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1303، کتاب المناقب، رقم : 3358
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1818، کتاب الفضائل، رقم : 2337
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، ابواب المناقب، رقم : 3635
4. ابن کثير، البدايه و النهايه (السيرة) 6 : 11
5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 128
---------------------------------------------------------------------------------
ملا علی قاری رحمۃ اللّٰہ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس صفتِ عالیہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں

کان إذا جلس يکون کتفه أعلٰي من الجالس

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب (کسی مجلس میں) تشریف فرما ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھے تمام اہلِ مجلس سے بلند نظر آتے

ملا علي قاري، جمع الوسائل، 1 : 13

نبی کریم ﷺ کی گردن مبارک حسین تذکرہ

0 comments
نبی کریم ﷺ کی گردن مبارک حسین تذکرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردنِ اقدس دستِ قدرت کا تراشا ہوا حسین شاہکار تھی، چاندی کی طرح صاف و شفاف، پتلی اور قدرے لمبی تھی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک گردن اِس طرح تھی جیسے کوئی صورت یا مورتی چاندی سے تراشی گئی ہو اور اُس میں اُجلاپن، خوش نمائی، صفائی اور چمک دمک اپنے نقطۂ کمال تک بھر دی گئی ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردنِ اقدس کی خوبصورتی اس ندرت سے کہیں زیادہ تھی
---------------------------------------------------------------------------------
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

کأن عنقه جيدٌ دمية في صفاء الفضة

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک کسی مورتی کی طرح تراشی ہوئی اور چاندی کی طرح صاف تھی

1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، باب في خلق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، رقم : 8
2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155، رقم : 414
3. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
5. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 156
---------------------------------------------------------------------------------
حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا بیان فرماتی ہیں

وفي عنقه سطع

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردنِ اقدس قدرے لمبی تھی

1. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
2. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 49، رقم : 3605
3. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1959
4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
5. طبري، الرياض النضره، 1 : 471
6. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة) 3 : 192
7. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 310
8. حلبي، انسان العيون، 2 : 227
---------------------------------------------------------------------------------
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے

وکان أحسن عباد اﷲ عنقاً، لا ينسب إلي الطول و لا إلي القصر

اور اللہ کے بندوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن سب سے بڑھ کر حسین و جمیل تھی، نہ زیادہ طویل اور نہ زیادہ چھوٹی

1. ابنِ عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 336
2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 304
---------------------------------------------------------------------------------
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک سونے اور چاندی کے رنگوں کا حسین اِمتزاج معلوم ہوتی تھی۔ گردنِ اقدس کو چاندی کی صراحی سے بھی تشبیہ دی گئی۔ حضرت حافظ ابوبکر بن ابی خیثمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس عنقاً، ما ظهر من عنقه للشمس و الرياح فکأنّه إبريق فضة مشرب ذهباً يتلأ لأ في بياض الفضة وحمرة الذهب، و ما غيبت الثياب من عنقه فما تحتها فکأنّه القمر ليلة البدر

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردنِ مبارک تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت تھی۔ دھوپ یا ہوا میں گردن کا نظر آنے والا حصہ چاندی کی صراحی کے مانند تھا، جس میں سونے کا رنگ اس طرح بھرا گیا ہو کہ چاندی کی سفیدی اور سونے کی سُرخی کی جھلک نظر آتی ہو اور گردن کا جو حصہ کپڑوں میں چھپ جاتا وہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن اور منور ہوتا ۔ سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 43

دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ

0 comments
دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوشِ اقدس خوبصورتی اور دلکشی میں بے مثال اور اِعتدال و توازُن کا حسین اِمتزاج تھے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنھا فرماتی ہیں

تخرج الأذنان ببياضهما من تحت تلک الغدائر، کأنما توقد الکواکب الدرية بين ذالک السواد

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاہ زلفوں کے درمیان دو سفید کان یوں لگتے جیسے تاریکی میں دو چمکدار ستارے چمک رہے ہوں

ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 335
---------------------------------------------------------------------------------
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے قاضی بنا کر یمن بھیجا گیا تو ایک یہودی عالم نے مجھے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرنے کے لئے کہا۔ جب میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا مبارک بیان کر چکا تو اُس یہودی عالم نے کچھ مزید بیان کرنے کی استدعا کی۔ میں نے کہا کہ اس وقت مجھے یہی کچھ یاد ہے۔ اُس یہودی عالم نے کہا : اگر مجھے اجازت ہو تو مزید حلیہ مبارک میں بیان کروں۔ اُس کے بعد وہ یوں گویا ہوا

فی عينيه حمرةٌ، حسن اللحية، حسن الفم، تام الأذنين

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ اقدس میں سرخ ڈورے ہیں، ریش مبارک نہایت خوبصورت، دہنِ اقدس حسین و جمیل اور دونوں کان مبارک (حسن میں) مکمل ہیں

1. ابن کثير، شمائل الرسول : 16
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 415
---------------------------------------------------------------------------------
مختصر یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر ہر عضو کو اللہ تعالیٰ نے عمومی افعال کی انجام دہی کے علاوہ ایک معجزہ بھی بنایا تھا۔ عام انسانوں کے کان مخصوص فاصلے تک سننے کی استطاعت رکھتے ہیں، مگر جدید آلات کی مدد سے دُور کی باتیں بھی سنتے ہیں لیکن آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوش مبارک کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قوت سماعت عطا فرمائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے جھرمٹ میں بیٹھے ہوتے، اوپر کسی آسمان کا دروازہ کھلتا تو خبر دیتے کہ فلاں آسمان کا دروازہ کھلا ہے

حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے گوشِ اقدس کی بے مثل سماعت پر حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

إنی أريٰ ما لا ترون، وأسمع ما لا تَسمعون

میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور میں وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 556، ابواب الزهد، رقم : 2312
2. حاکم، المستدرک، 2 : 554، رقم : 3883
3. احمدبن حنبل، المسند، 5 : 173
4. بزار، مسند، 9 : 358، رقم؛ 3925
5. بيهقي، شعب الايمان، 1 : 484 رقم : 783
---------------------------------------------------------------------------------
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ خطاب صرف صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے ادوار تک ہی مخصوص و محدود نہ تھا بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے موجودہ ترقی یافتہ دور کے لئے بھی ایک چیلنج ہے

آج ساری کائنات میں سائنس و ٹیکنالوجی پر عبور رکھنے والے ماہرین اپنی تمام تر ترقی اور اپنی بے پناہ ایجادات کے باوجود کائنات کی ان پوشیدہ حقیقتوں اور رازوں کو جان سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں جنہیں چشمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے پردہ دیکھ لیا اور اُن کی حقیقت کو جان لیا تھا۔ حضور علیہ السلام کے دائرہ سماعت سے کوئی آواز باہر نہ تھی۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے کیا خوب فرمایا

دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام
---------------------------------------------------------------------------------
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا بارگاہِ نبوت میں حاضر تھیں۔ اسی دوران حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے کسی کے سلام کا جواب دیا پھر حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا سے فرمایا

هذا جعفر بن أبي طالب مع جبريل و ميکائيل و إسرافيل، سلموا علينا فردي عليهم السلام

یہ جعفر بن ابی طالب ہیں، جو حضرت جبریل، حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیھم السلام کے ساتھ گزر رہے تھے۔ پس انہوں نے ہمیں سلام کیا، تم بھی ان کے سلام کا جواب دو

1. حاکم، المستدرک، 3 : 232، رقم : 4937
2. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 88، رقم : 6936
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 272
4. ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 1 : 487
5. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 211
---------------------------------------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو نجّار کے قبرستان سے گزر رہے تھے

فسمع أصوات قوم يعذبون في قبورهم

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قبور میں) ان مُردوں کی آوازوں کو سماعت فرمایا جن پر عذابِ قبر ہو رہا تھا

1. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 175
2. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 120، رقم : 3757
3. طبراني، المعجم الکبير، 25 : 103، رقم : 268
4. عبدالله بن احمد، السنه، 2 : 608، رقم : 1445
5. ازدي، مسند الربيع، 1 : 197، رقم : 487

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی داڑھی مبارک کا حُسین تذکرہ

0 comments
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی داڑھی مبارک کا حُسین تذکرہ

آج کے پر فتن دور میں جہاں اور فتنے ہیں وہاں ایک فتنہ نبی کریم صلي الله عليه وآله وسلم محبوب سنت داڑھی مبارک کی مختلف انداز میں توہین کرنے کا فتنہ بھی موجود ہے کبھی خشخشی داڑھی رکھ کر توہین کرتے ہیں ، کبھی داڑھی کے توہین آمیز ڈیزائن بنا کر توہین کرتے ہیں ان حالات میں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اپنے تئیں مختصر سی کوشش کی ہے کہ ایسی احادیث مبارکہ جمع کردوں جن میں نبی کریم صلي الله عليه وآله وسلم ریش مبارک کا حُسین و جمیل تذکرہ موجود ہے سو یہ گلدستہ پیش خدمت ہے پڑھیئے پیارے نبی صلي الله عليه وآله وسلم کی مبارک داڑھی کا تذکرہ اور اس فقیر پُر تقصیر کو دعاؤں میں یاد رکھیئے گا ۔

نبی کریم رؤف الرّحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک گھنی اور گنجان ہوتے ہوئے بھی باریک اور خوبصورت تھی، ایسی بھری ہوئی نہ تھی کہ پورے چہرے کو ڈھانپ لے اور نیچے گردن تک چلی جائے۔ بالوں کا رنگ سیاہ تھا، سرخ و سفید چہرے کی خوبصورتی میں ریشِ مبارک مزید اِضافہ کرتی ۔ عمر مبارک کے آخری حصہ میں کل سترہ یا بیس سفید بال ریش مبارک میں آگئے تھے لیکن یہ سفید بال عموماً سیاہ بالوں کے ہالے میں چھپے رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریش مبارک کے بالوں کو طول و عرض سے برابر کٹوا دیا کرتے تھے تاکہ بالوں کی بے ترتیبی سے شخصی وقار اور مردانہ وجاہت پر حرف نہ آئے ۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے سر کے اگلے بال اور داڑھی کے ( کچھ) بال سفید ہوگئے تھے،جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم تیل لگاتے تو وہ سفیدی معلوم نہیں ہوتی تھی اور جب بال بکھرے ہوئے ہوتے تھے تو سفیدی ظاہر ہوتی تھی ، وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ ۔ آپکی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی ،ایک شخص نے کہا کہ آپ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا؟انہوں نے کہا، نہیں!بلکہ سورج اور چاند کی طرح تھا ،آپ کا چہرہ گول تھا،میں نے آپ کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہرِ نبوت دیکھی، جس کا رنگ جسم مبارک کے رنگ کے مشابہ تھا۔ (صحیح مسلم:۲۳۴۴)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلا بِالْقَصِيرِ، ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا قد مبارک نہ بڑا تھا نہ چھوٹا ، آپ کا سر مبارک بڑا اور داڑھی مبارک بھی بڑی تھی ۔ (مسند الامام احمد :۱؍ ۹۶،۱۲۷، وسندہ حسن) اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (۲؍۶۰۲) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے ۔
حضرت ہشام بن حبیش بن خویلد سے روایت ہے کہ : حضرت امِّ معبد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : وفي لحيته كثاثة : ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔ (المستدرک للحاکم :۳؍۹،۱۱،وسندہ حسن) اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

یزید الفارسی کہتے ہیں کہ :میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو خواب میں دیکھا تو اس کا ذکر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا ، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرمایا : شیطان میری مشابہت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ، جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا ، اس نے مجھے ہی دیکھا ، تو اس شخص کی صفت بیان کرسکتا ہے ، جس کو تو نے خواب میں دیکھا ہے ؟ کہا ، ہاں درمیانے قد والا ، گندمی رنگ سفیدی کی طرف مائل ، آنکھیں بڑی بڑی گویا کہ سرمہ ڈالا ہوا ہو ، خوبصو رت مسکراہٹ اور شکل ، گول چہرہ قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ قَدْ مَلَأَتْ نحرہ داڑھی جو سینے کو بھرے ہوئے تھی ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے ، اگر تو جاگتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو دیکھتا تو ان صفات کے سوا اور صفات بیان نہیں کر سکتا تھا ۔
(طبقات ابن سعد:۱؍۴۱۷،مصنف ابن ابی شیبہ:۱۱؍۵۱۵،۵۶،مسند ابن ابی شیبہ: (الاتحاف:۸۵۰۷)،مسند الامام احمد:۱؍۳۶۲۔۳۶۱،مسند ابی یعلیٰ: (الاتحاف:۵۸۰۸) الشمائل للترمذی:۳۹۳،ابن عساکر(السیرۃ النبویۃ:۱؍۲۳۰۔۲۲۹)،وسندہ حسن)
اس کا روای یزید الفارسی ’حسن الحدیث‘ ہے،اس کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:لا بأس به ’’ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل:۹؍۲۹۴(
امام ترمذی رحمہ اللہ (۳۰۸۶) ،امام ابن حبان رحمہ اللہ (۴۳) اور امام حاکم رحمہ اللہ ۲؍۲۲۱،۳۳۰) نے اس کی ایک حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے ،یہ اس کی ’’توثیق‘‘ ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ ہیثمی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :رجاله ثقات .اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد:۸؍۲۷۲)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ضخم الرأس و اللحية.
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِعتدال کے ساتھ بڑے سر اور بڑی داڑھی والے تھے ۔
(حاکم، المستدرک، 2 : 626، رقم : 4194)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 96)(بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 216)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411)(طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 221)(ابن کثير، البدايه و النهايه (السيرة)، 6 : 17)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أسود اللحية.
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سیاہ رنگ کی تھی ۔
(بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 217)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 433)(سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 125، رقم : 4194)

حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنھا جنہیں سفرِ ہجرت میں والی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میزبانی کا شرفِ لازوال حاصل ہوا، اپنے تاثرات اِن الفاظ میں بیان کرتی ہیں : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کثيف اللحية.
ترجمہ : رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریشِ اقدس گھنی تھی ۔
(ابن جوزي، الوفا : 397)(حاکم، المستدرک، 3 : 10)(ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 184)(سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 38)(مناوي، فيض القدير، 5 : 77)

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کث اللحية ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔
(نسائي، السنن، 8 : 183، کتاب الزينه، رقم : 5232)(ترمذي، الشمائل المحمديه1 : 36، رقم : 8)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 101، رقم : 796)(بزار، المسند، 2 : 253، 660
5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422)

حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں یوں گویا ہوئے : کان . . . أسود اللحية حسن الشعر . . . مفاض اللحيين.
ترجمہ : (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) ریش مبارک سیاہ، بال مبارک خوبصورت، (اور ریش مبارک) دونوں طرف سے برابر تھی ۔
(ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 320)(هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 280)

عمر مبارک میں اضافے کے ساتھ ریش مبارک کے بالوں میں کچھ سفیدی آ گئی تھی۔ حضرت وہب بن ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رأيتُ النبي صلي الله عليه وآله وسلم، و رأيتُ بياضاً من تحت شفته السفلٰي العنفقة.
ترجمہ : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لبِ اقدس کے نیچے کچھ بال سفید تھے ۔
(بخاري، الصحيح، 3 : 1302، کتاب المناقب، رقم : 3352)(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 216)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 434)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا پر قربان ہو ہو جاتے تھے، حیاتِ مقدسہ کی جزئیات تک کا ریکارڈ رکھا جا رہا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : و ليس في رأسه و لحيته عشرون شعرة بيضآءَ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک اور سر مبارک میں سفید بالوں کی تعداد بیس سے زائد نہ تھی ۔
(بخاري، الصحيح، 3 : 1302، کتاب المناقب، رقم : 3354)(مسلم، الصحيح، 4 : 1824، کتاب الفضائل، رقم : 3347)(ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 592، کتاب المناقب، رقم : 3623)(امام مالک، الموطا، 2 : 919، رقم : 1639)(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 130)(عبدالرزاق، المصنف، 3 : 599، رقم : 6886)(ابن حبان، الصحيح، 14 : 298، رقم : 6378)(ابو يعلي، المعجم، 1 : 55، رقم : 25)(طبراني، المعجم الصغير، 1 : 205، رقم : 328)(شعب الايمان، 2 : 148، رقم : 1412)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 308)

کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک میں لب اقدس کے نیچے اور گوش مبارک کے ساتھ گنتی کے چند بال سفید تھے جنہیں خضاب لگانے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خضاب وغیرہ استعمال نہیں کیا اس حوالے سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : و لم يختضب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، إنما کان البياض في عنفقته و في الصَّدغين وفي الرأس نبذ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی خضاب نہیں لگایا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نچلے ہونٹ کے نیچے، کنپٹیوں اور سر مبارک میں چند بال سفید تھے ۔ (مسلم، الصحيح، 4 : 1821، کتاب الفضائل، رقم : 2341)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 310، رقم : 14593)(بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 232)

ریشِ اقدس طویل تھی نہ چھوٹی ، بلکہ اِعتدال ، توازُن اور تناسب کا اِنتہائی دلکش نمونہ اور موزونیت لئے ہوئے تھی ۔

کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يأخذ من لحيته من عرضها وطولها ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریش مبارک کے طول و عرض کو برابر طور پر تراشا کرتے تھے ۔
(ترمذي، الجامع الصحيح، 2 : 100، ابواب الادب، رقم : 2762)(عسقلاني، فتح الباري، 10 : 350)(زرقاني، شرح المؤطا، 4 : 426)(سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 263) (محمد بن عبدالرحمن مباکفوري، تحفة الاحوذي، 8 : 38)(قرطبي، تفسير، الجامع الأحکام القرآن، 2 : 105)(ابن جوزي، الوفا : 609)(مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 161) (نبهاني، الانوار المحمديه : 214)( شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 142)

یا اللہ ہم مسلمانوں کی نبی کریم صلي الله عليه وآله وسلم کی مبارک سنتوں سے محبت عطاء فرما اور آپ صلي الله عليه وآله وسلم کی جملہ سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرما نبی کریم صلي الله عليه وآله وسلم کی سنت کی مخالفت کرنے اور مذاق اڑانے والوں کے فتنہ و شر سے بچا آمین ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday 26 October 2015

نبی کریم ﷺ کی آواز مبارک کا ذکر جمیل

0 comments
نبی کریم ﷺ کی  آواز مبارک کا ذکر جمیل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آواز دلآویزی اور حلاوت کی چاشنی لئے ہوئے حسنِ صوت کا کامل نمونہ تھی۔ لہجہ انتہائی دلکش، باوقار اور بارعب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر یوں گفتگو فرماتے کہ بات دل میں اتر جاتی اور مخاطب دوبارہ سننے کی خواہش کرتا
--------------------------------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

ما بعث اﷲ نبياً قط إلا بعثه حسن الوجه، حسن الصوت، حتي بعث نبيکم صلي الله عليه وآله وسلم ، فبعثه حسن الوجه حسن الصوت.

اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس بھی نبی کو مبعوث فرمایا خوبصورت چہرہ اور خوبصورت آواز دے کر مبعوث فرمایا حتیٰ کہ تمہارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو انہیں بھی خوبصورت چہرے اور خوبصورت آواز کے ساتھ مبعوث فرمایا

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 376
2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 261، رقم : 321
3. ابن کثير، البديه والنهايه، 6 : 286
4. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 124
5. حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 434
--------------------------------------------------------------------------
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نمازِ عشا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاوت کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں :

سمعتُ النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقرأ ﴿وَالتِّيْنِ وَ الزَّيْتُوْنِ﴾ في العشاء، و ما سمعتُ أحداً أحسن صوتاً منه أو قراءةً.

میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نمازِ عشاء میں سورۃ التین کی تلاوت فرماتے ہوئے سنا، اور میں نے کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ خوش الحان اور اچھی قرآۃ والا نہیں پایا

1. بخاري، الصحيح، 1 : 266، کتاب الاذان، رقم : 735
2. مسلم، الصحيح، 1 : 339، کتاب الصلوٰة، رقم : 464
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 273، کتاب إقامة الصلوة والسنة فيها، رقم : 835
4. احمد بن حنبل، مسند، 4 : 302
5. ابو عوانه، مسند، 1 : 477، رقم : 1771
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 194، رقم : 2888
--------------------------------------------------------------------------
سفرِ ہجرت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمِ معبد رضی اﷲ عنہا کے ہاں قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز کے بارے میں اُمِ معبد رضی اﷲ عنہا کا کہنا ہے :

في صوته صلي الله عليه وآله وسلم صَحَلٌ.

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز میں دبدبہ تھا

1. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 50، رقم : 3605
2. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
4. طبري، الرياض النضره، 1 : 471
5. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 446
--------------------------------------------------------------------------
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز نغمگی اور حسنِ صوت سے کمال درجہ مزین تھی۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسن النغمة.

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لب و لہجہ نہایت حسین تھا

1. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 91
2. زرقاني، شرح المواهب، 5 : 446
--------------------------------------------------------------------------
مبداء فیض نے حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس منفرد وصفِ جمیل سے نواز رکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز دور دور تک پہنچ جاتی۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

خطبنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حتي أسمع العواتق في خدورهن

حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو پردہ نشین خواتین کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردوں کے اندر (یہ خطبہ) سنایا

1. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 113
2. طبراني، المعجم الاوسط، 4 : 125، رقم : 3778
3. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 186، رقم : 11444
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 94
5. نبهاني، الانوار المحمديه : 207
--------------------------------------------------------------------------
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تشریف فرماہوئے اور لوگوں سے بیٹھنے کو کہا

فسمعه عبد اﷲ بن رواحة و هو في بني غنم فجلس في مکانه.

اس وقت حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ محلہ بنی غنم میں تھے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز مبارک سنی اور وہیں بیٹھ گئے

1. نبهاني، الانوار المحمديه، 207
2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 113
3. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 160
--------------------------------------------------------------------------
خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی تعداد سوا لاکھ کے قریب تھی، اس اجتماعِ عظیم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب فرمایا تو اِجتماع میں شریک ہر شخص نے خطبہ سنا

حضرت عبدالرحمن بن معاذ تمیمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

کنا نسمع ما يقول و نحن في منازلنا، فطفق يعلمهم مناسکهم

ہم اپنی اپنی جگہ پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ سن رہے تھے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو مناسکِ حج کی تعلیم دے رہے تھے

1. ابوداؤد، السنن، 2 : 198، کتاب الحج، رقم : 1957
2. نسائي، السنن، 5 : 249، کتاب مناسک الحج، رقم : 2996
3. بيهقي، سنن الکبريٰ، 5 : 138، رقم : 9390
4. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 160

وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں

0 comments
وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زبان حق و صداقت کی آئینہ دار تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان حق ترجمان کا اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں ذکر فرمایا۔ جب نزولِ وحی ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسے جلدی جلدی محفوظ کرنے کے آرزو مند ہوتے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا

لَا تُحَرِّکْ بِه لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِه O القرآن، القيامه، 75 : 16

اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے (نزولِ وحی کے ساتھ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیںo

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زبان فضول اور لایعنی باتوں سے پاک تھی، اس لئے کہ زبانِ اقدس سے نکلا ہوا ہر لفظ وحیِ الٰہی تھا جس میں سرے سے غلطی اور خطا کا کوئی اِمکان ہی نہیں تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰيO إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْیٌ يُّوْحٰي
Oالقرآن، النجم، 53 : 3، 4

اور وہ اپنی (یعنی نفس کی) خواہش سے بات ہی نہیں کرتےo وہ تو وہی فرماتے ہیں جو (اللہ کی طرف سے) اُن پر وحی ہوتی ہےo
--------------------------------------------------------------------------
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يخزن لسانه إلا فيما يعنيه.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زبانِ اقدس کو لا یعنی باتوں سے محفوظ رکھتے تھے

1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 277، باب ما جاء في تواضع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، رقم : 337
2. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 158
3. ابن قيم، زاد المعاد، 1 : 182

نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کے دندانِ اقدس ذکر جمیل

0 comments
نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کے دندانِ اقدس ذکر جمیل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک باریک اور چمکدار تھے، سامنے کے دندان مبارک کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ تھا۔ تبسم فرماتے تو یوں لگتا کہ دندان مبارک سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکراتے تو دانتوں کی باریک ریخوں سے اس طرح نور کی شعاعیں نکلتیں کہ در و دیوار چمک اُٹھتے
--------------------------------------------------------------------------
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أفلج الثنيتين، إذا تکلم رئي کالنور يخرج من بين ثناياه.

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کے دانتوں کے درمیان موزوں فاصلہ تھا جب گفتگو فرماتے تو ان ریخوں سے نور کی شعاعیں پھوٹتی دکھائی دیتیں

1. دارمي، السنن، 1 : 44، باب في حسن النبيا، رقم : 58
2. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 235، رقم : 767
--------------------------------------------------------------------------
مسکراتے تو جیسے موتیوں کی لڑیاں فضا میں بکھر جاتیں، چہرۂ انور گلاب کے پھول کی طرح کھل اُٹھتا

إذا افترّ ضاحکاً إفترّ عن مثلَ سَنَا البرق و عن مثل حبّ الغمام، إذا تکلّم رئی کالنور يخرج من ثناياه.

جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبسم فرماتے تو دندان مبارک بجلی اور بارش کے اولوں کی طرح چمکتے، جب گفتگو فرماتے تو ایسے دکھائی دیتا جیسے دندان مبارک سے نور نکل رہا ہے

1. قاضي عياض، الشفا، 1 : 39
2. سيوطي، الخصائص الکبري، 1 : 131
3. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 185، رقم : 226
--------------------------------------------------------------------------
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ نے دندان مبارک کی خوبصورتی اور چمک کا نقشہ اِن الفاظ میں کھینچا ہے

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يفْتِرُ عن مثل حب الغمام.

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانت تبسم کی حالت میں اولوں کے دانوں کی طرح محسوس ہوتے تھے

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 423
2. ابن جوزی، الوفا : 395
3. ابن کثير، البدايه والنهايه، (السيرة)، 6 : 32
--------------------------------------------------------------------------
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

مبلّج الثنايا و في رواية عنه بَرّاق الثنايا

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانت مبارک بہت چمکدار تھے

1. نبهاني، الانوار المحمديه : 199
2. ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 18
3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 129
--------------------------------------------------------------------------
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک کا مسوڑھوں میں جڑاؤ اور جماؤ نہایت حسین تھا، جیسے انگوٹھی میں کوئی ہیرا ایک خاص تناسب کے ساتھ جڑ دیا گیا ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسن الثغر

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام دانت مبارک نہایت خوبصورت تھے

1. بخاري، الادب المفرد، 1 : 395، رقم : 1155
2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 125
3. حلبي، انسان العيون، 3 : 436
4. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 30
--------------------------------------------------------------------------
امام بوصیری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے دندان مبارک کو چمکدار موتی سے تشبیہ دی ہے

کأنّما اللّؤلؤ المکنون فی صدفٍ
من معدنی منطق منه و مبتسم

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانت مبارک اس خوبصورت چمکدار موتی کی طرح ہیں جو ابھی سیپ سے باہر نہیں نکلا

پیارے نبی ﷺ کے دہن مبارک تذکرہ

0 comments
پیارے نبی ﷺ کے دہن مبارک تذکرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دہن مبارک فراخ، موزوں اور اعتدال کے ساتھ بڑا تھا۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ضليع الفم.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دہنِ مبارک فراخ تھا

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 33، ابواب المناقب، رقم : 3647
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 33، ابواب لمناقب، رقم : 3646
3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 97، رقم : 20952
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 199، رقم : 6288
5. طيالسي، المسند، 1 : 104، رقم : 765
6. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 220، رقم : 1904
7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 416
8. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 22
9. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
--------------------------------------------------------------------------
دہنِ اقدس چہرۂ انور کے حسن و جمال کو دوبالا کرتا۔ ایسا کیوں نہ ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ مبارک سے جو کلمہ ادا ہوتا حق ہوتا، حق کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ یہ علم و حکمت کا چشمۂ آبِ رواں تھا جس کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا :

وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیO إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْیٌ يُّوْحٰیO

’اور وہ اپنی (یعنی نفس کی) خواہش سے بات ہی نہیں کرتےo وہ تو وہی فرماتے ہیں جو (اللہ کی طرف سے) اُن پر وحی ہوتی ہےo‘‘

القرآن، النجم، 53 : 3، 4
--------------------------------------------------------------------------
غصہ کی حالت میں بھی دہنِ اقدس سے کلمۂ حق ہی ادا ہوتا

چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو حیطۂ تحریر میں لے آیا کرتے تھے کیونکہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اُن سے فرمایا تھا

أکتب، فوالذي نفسي بيده! ما يخرج منه إلاحق

لکھو (جو بات میرے منہ سے نکلتی ہے)، اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اس منہ سے صرف حق بات ہی نکلتی ہے

1. ابوداؤد، السنن، 3 : 315، کتاب العلم، رقم : 3646
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 313، رقم : 26428
3. بيهقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 415، رقم : 756
4. عسقلاني، فتح الباري، 1 : 207
5. حسن رامهرهزي، المحدث الفاصل، 1 : 366
--------------------------------------------------------------------------
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان، اللہ کا فرمان، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نطق، نطقِ اِلٰہی، جس میں خواہشِ نفس کا قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے کبھی کبھی دل لگی بھی فرما لیا کرتے تھے۔ خوش کلامی، مزاح اور خوش مزاجی کے جواہر سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو مزین ہوتی لیکن اُس خوش طبعی، خوش مزاجی یا خوش کلامی میں بھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹتا، مزاح اور دل لگی میں بھی جو فرماتے حق فرماتے۔

نبی کریم ﷺ کے مبارک ہونٹوں کا ذکر جمیل

0 comments
نبی کریم ﷺ کے مبارک ہونٹوں کا ذکر جمیل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب مبارک سرخی مائل تھے، لطافت و نزاکت اور رعنائی و دلکشی میں اپنی مثال آپ تھے

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس لب کی لطافت و شگفتگی کے حوالے سے روایت ہے

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن عباد اﷲ شفتين وألطفهم ختم فم.

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس لب اللہ کے تمام بندوں سے بڑھ کر خوبصورت تھے اور بوقتِ سکوت نہایت ہی شگفتہ و لطیف محسوس ہوتے

1. نبهاني، الانوار المحمديه : 200
2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 303
3. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 203
--------------------------------------------------------------------------
لب مبارک وا ہوتے تو دہن پھول برساتا، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

کان في کلام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ترتيل أو ترسيل.

آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی گفتگو میں ایک نظم اور ٹھہراؤ ہوتا

1. ابوداؤ، السنن، 4 : 281، کتاب الادب، رقم : 4838
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 300، رقم : 26294
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 207، رقم : 5550
4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 375
5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 375
--------------------------------------------------------------------------
آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے، کلام بڑا واضح ہوتا جس میں کوئی اِبہام اور اُلجھاؤ نہ ہوتا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے

آن النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يحدث حديثا، لوعدّه العاد لأحصاه.

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس قدر ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے کہ اگر کوئی شمار کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1307، کتاب المناقب، رقم : 3374
2. مسلم، الصحيح، 4 : 2298، رقم : 2493
3. حميدي، المسند، 1 : 120، رقم : 247
4. ابن جوزي، الوفا، 2 : 454
--------------------------------------------------------------------------
حضرت اُم معبد رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے

 (کلامه) فصلٌ لا نزر و لا هذر.

گفتگو نہایت فصیح و بلیغ ہوتی، اس میں کمی بیشی نہ ہوتی

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
2. طبراني، المعجم الکبير، 6 : 49، رقم : 3605
3. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4674
4. ابن کثير، شمائل الرسول : 46
5. صيبة اﷲ، اعتقاد اهل السنة، 4 : 779