Monday 26 October 2015

پیارے نبی ﷺ کے دہن مبارک تذکرہ

0 comments
پیارے نبی ﷺ کے دہن مبارک تذکرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دہن مبارک فراخ، موزوں اور اعتدال کے ساتھ بڑا تھا۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ضليع الفم.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دہنِ مبارک فراخ تھا

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 33، ابواب المناقب، رقم : 3647
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 33، ابواب لمناقب، رقم : 3646
3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 97، رقم : 20952
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 199، رقم : 6288
5. طيالسي، المسند، 1 : 104، رقم : 765
6. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 220، رقم : 1904
7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 416
8. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 22
9. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
--------------------------------------------------------------------------
دہنِ اقدس چہرۂ انور کے حسن و جمال کو دوبالا کرتا۔ ایسا کیوں نہ ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ مبارک سے جو کلمہ ادا ہوتا حق ہوتا، حق کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ یہ علم و حکمت کا چشمۂ آبِ رواں تھا جس کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا :

وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیO إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْیٌ يُّوْحٰیO

’اور وہ اپنی (یعنی نفس کی) خواہش سے بات ہی نہیں کرتےo وہ تو وہی فرماتے ہیں جو (اللہ کی طرف سے) اُن پر وحی ہوتی ہےo‘‘

القرآن، النجم، 53 : 3، 4
--------------------------------------------------------------------------
غصہ کی حالت میں بھی دہنِ اقدس سے کلمۂ حق ہی ادا ہوتا

چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو حیطۂ تحریر میں لے آیا کرتے تھے کیونکہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اُن سے فرمایا تھا

أکتب، فوالذي نفسي بيده! ما يخرج منه إلاحق

لکھو (جو بات میرے منہ سے نکلتی ہے)، اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اس منہ سے صرف حق بات ہی نکلتی ہے

1. ابوداؤد، السنن، 3 : 315، کتاب العلم، رقم : 3646
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 313، رقم : 26428
3. بيهقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 415، رقم : 756
4. عسقلاني، فتح الباري، 1 : 207
5. حسن رامهرهزي، المحدث الفاصل، 1 : 366
--------------------------------------------------------------------------
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان، اللہ کا فرمان، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نطق، نطقِ اِلٰہی، جس میں خواہشِ نفس کا قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے کبھی کبھی دل لگی بھی فرما لیا کرتے تھے۔ خوش کلامی، مزاح اور خوش مزاجی کے جواہر سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو مزین ہوتی لیکن اُس خوش طبعی، خوش مزاجی یا خوش کلامی میں بھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹتا، مزاح اور دل لگی میں بھی جو فرماتے حق فرماتے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔