Thursday 22 October 2015

وھابیوں کی طرح شیعوں کا یزید کی حمائیت و دفاع کرنا

0 comments
وھابیوں کی طرح شیعوں کا یزید کی حمائیت و دفاع کرنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یزید نے قتل حسین پر ماتم کیا

یزید نے کہا : ـ

شامیو ! تم مجھے کہتے ہو کہ میں نے امام حسین کو قتل کیا ہے ـ یا ان کے قتل کا حکم دیا ـ انہیں تو ابن مرجانہ نے قتل کیا تھا ـ یہ کہہ کر ان لوگوں کو یزید نے بلوایا ـ جو شہادت امام حسین کے وقت موجود تھے ـ جب اس کے روبرو پیش ہوئے ـ تو اس نے پوچھا ـ بتلاؤ امام حسین کا قاتل کون ہے ؟ یہ سن کر وہ ایک دوسرے کو قاتل کہنے شروع ہو گئے ـ اس حالت کو دیکھ کر یزید بولا ـ بربادی ہے تمہارے لیے ـ میں کیا دیکھتا ہوں کہ تم امام حسین کا قتل ایک دوسرے پر ڈال رہے ہو ـ ان حاضرین نے کہا کہ انہیں قیس بن الربیع نے شہید کیا تھا ـ قیس بن الربیع سے یزید نے پوچھا ـ تو نے قتل کیا تھا ؟ کہنے لگا نہیں ہرگز نہیں ـ میں نے تو قتل نہیں کیا تھا ـ یزید نے پوچھا تو پھر اور کس نے قتل کیا تھا ـ قیس بولا حضور بتلاتا ہوں ـ اگر امان مل جائے ـ کہا جاؤ تمہیں امان ہے ـ بتلا دو ؟ قیس نے کہا ـ خدا کی قسم ! امام حسین کا قاتل وہ ہے ـ جس نے جھنڈے گاڑے تھے ـ اور جس نے مجرموں کے سامنے مال رکھا تھا ـ اور جس نے لشکر لے کر چڑھائی کی تھی ـ یزید نے پوچھا ـ آ خر وہ کون ہے ؟ قیس نے کہا خدا کی قسم ! یزید تمہیں وہ شخص ہو جو قاتل حسین ہے ـ اس پر یزید سخت غصہ میں آیا اور وہاں سے اٹھ کر گھر آگیا ـ پھر ایک تھال میں امام حسین کے سر انور کو رکھا ـ اور رومال دے دیا ـ جو دیبقی تھا ـ اسے گود میں لے کر اپنے رخسار پیٹنے لگا ـ اور کہتا جاتا تھا ـ مجھے کیا ہو گیا کہ میں نے امام حسین کو قتل کر دیا ؟ اور مجھے امام کے قتل سے کیا غرض تھی ؟
( مقتل ابی مخنف ، ص 139 ، تذکرہ دخول السبایا الی الشام ، مطبوعہ نجف )

مقتل ابی مخنف کے مصنف لوط بن یحیے شیعی نے یہ اقرار کیا ہے کہ یزید کے بارے میں شامیوں میں جو یہ بات مشہور تھی کہ امام حسین کا قاتل یزید ہے ـ یہ غلطی تھی بلکہ یزید اس قتل میں کسی طرح بھی ملوث نہ تھا ـ اس سے بڑھ کر یہ بات کہ جب اس کو معلوم ہوا کہ مجھ پر قتل حسین کا الزام لگ ہے اور میرے منہ پر کہا گیا کہ تم قاتل حسین ہو ـ تو اس غصہ میں آکر اٹھ کر کھڑا ہوا اور امام حسین کے سر انور کو گود میں لے کر خوب چہرا پیٹا ـ حس سے یہ بات باکل واضح ہے کہ اہل تشیع کے نزدیک یزید نہ تو قاتل حسین ہے اور نہ ہی اس میں ملوث بلکہ وہ تو اس قتل پر ماتم کرنے والا ماتمی شیعہ تھا ـ


یزید اہل بیت کا غم گسار اور قاتل حسین کو ملعون کہتا تھا

پھر یزید نے اہل بیت اطہار کی مستورات اور ان کے بچوں کو بلوایا ـ یہ سب اس کے سامنے بیٹھ گئے ـ ان حضرات کی دگرگوں حالت دیکھ کر یزید بولا ـ اللہ ابن مرجانہ کا ستیاناس کرے ـ اگر تمہارے اور اس کے درمیان قرابت داری ہوتی تو وہ ایسا ہرگز نہ کرتا ـ اور نہ ہی تمہاری یہ حالت ہوتی ـ جنابہ سیدہ فاطمہ بنت حسین فرماتی ہیں ـ جب ہم یزید کے سامنے بیٹھ گئے ـ اس نے ہمارے سامنے بڑی غم خواری کی ـ پھر یزید نے حکم دیا کہ اس میں سے عورتوں کو ان کے بھائی علی بن الحسین کے ساتھ علیحدہ کمروں میں بٹھایا جائے ـ لہذا ان کے لیے علیحدہ رہائش کا بندوبست ہو گیا ـ اور ان کی رہائش گاہ یزید کے گھر کے بالکل متصل تھی ـ وہاں کئی دن ٹھہرے ـ یزید نے نعمان بن بشیر کو بلا کر کہا ـ تیاری کرو اور ان عورتوں کے ساتھ تمہیں مدینہ منورہ جانا ہے جب تیاری ہو گئی ـ تو یزید نے علی بن الحسین کو تنہائی میں بلا کر کہا ـ ابن مرجانہ پر اللہ کی لعنت ہو ـ خدا کی قسم ! اگر میں تمہارے والد کے پاس ہوتا ـ اور وہ مجھ سے کوئی بھی مطالبہ کرتے ـ تو میں اسے ہر ممکن پورا کرنے کی کوشش کرتا ـ اور ان کو موت کے چنگل سے بچان کی ہر سعی کرتا ـ لیکن اللہ کو منظور تھا وہی ہو گیا ـ جب مدینہ پہنچ جاؤ ـ تو مجھے واپسی تحریری اطلاع دینا ـ آپ کی ہر ضرورت پورا کرنا میری ذمہداری ہے ـ یہ کہہ کر کچھ کپڑے دیئے جو ان کے اور ان کے گھر والوں کے لیے تھے ـ ان کے ساتھ نعمان بن بشیر کو بھیجا ـ اور اسے ہدایت کی کہ رات کو سفر کرنا اور اس قافلے کے پیچھے پمہیں رہنا ہو گا ـ تاکہ وہ نظر سے اوجھل نہ ہونے پائیں ـ جب یہ تمام حضرات کسی جگہ جلوہ فرما ہوں پیچھے تم نعمان بن بشیر علیحدہ کھڑے رہنا ـ حضرت علی بن حسین اور ان کے گھر والے علیحدہ رہیں ـ چوکیدار کی طرح چاروں طرف کی نگاہ رکھنا ـ اور دوران سفر انہیں ایسے مقام پر اتارنا ـ جہاں ان میں سے اگر کوئی فرد وضوء یا قضائے حاجت کرنے جائے تو انہیں وحشت نہ آئے ـ اس قافلہ کو لیے نعمان بن بشیر روانہ ہوا ـ اور جہاں کہیں مناست سمجھتا ـ ان کو راستہ میں پڑاؤ ڈالنے کو کہتا اور بڑی نرمی سے ان سے پیش آتا ـ کیونکہ یزید کی اسے یہی وصیت تھی اور ان حضرات کی کما حقہ رعایت کرتے ہوئے انہیں مدینہ منورہ پہنچایا ـ

(ارشاد شیخ مفید ، ص 246 - 247 فی مکالمۃ علی بن الحسین مع یزید ـ مطبوعہ نجف )

( جلاء العیون ، ص 622 ، حرکت اہل بیت از شام بطرف مدینہ منورہ ، مطبوعہ تہران طبع جدید )

اعلام الوری ، ص 149 ، فی مجلس الزنیم ، مطبوعہ بیروت جدید )

پھر یزید نے اہل بیت کو اپنے مخصوص مکان میں ٹھہرایا ـ اس دوران اس نے کبھی بھی امام زین العابدین کے بغیر صبح و شام کا کھانا نہ کھایا ـ
( بحار الانوار ، جلد 10 ، ص 254 ، تاریخ حسین بن علی ، طبع ایران قدیم )

پھر یزید نے علی ین حسین کو بلا کر کہا ـ ابن مرجانہ پر اللہ کی لعنت ہو ـ خدا کی قسم ! اگر میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے قریب ہوتا ـ تو وہ جو کچھ مجھ سے مانگتے اسے ضرور پورا کرتا ـ اور اپنی طاقت کے مطابق ان کو موت سے بچاتا ـ اگر اس کی خاطر مجھے اپنی اولاد سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونے پڑتے لیکن اللہ تعالی کو وہی منظور تھا ـ جو کچھ تم دیکھ چکے ـ

( بحار الانوار ، جلد 10 ، ص 255 ، تاریخ حسین بن علی )

نوٹ : ۔ یہ سب حوالہ جات شیعہ حضرات کی مستند کتب کے ہیں جس سے واضح ھوتا ہے کہ یہ لوگ ماتم کیوں کرتے وجہ صاف ظاہر ہے کہ جیسے یزید نے ماتم کیا اسی طرح یہ بھی کرتے ہیں یاد رہے غم حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ہے ماتم اور ہے شائید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔