Tuesday 20 October 2015

قتل حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اصل میں مرگ یزید ہے

0 comments
قتل حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اصل میں مرگ یزید ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کربلا کے میدان میں تنہا کھڑا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہونٹوں پر تشنگی کے کانٹے چبھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمان سے سورج آگ برسا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نینوا کے سینے سے فرات بہہ رہا تھا آج نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ یہ پانی ہر شخص کے لئے عام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امام عالی مقام کے جان نثار ایک ایک کر کے راہ حق میں توحید کی گواہی دیتے دیتے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گلستان رسول اجڑ چکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چمنستان فاطمہ رضی اللہ عنہا کو موت کی بے رحم ہواؤں نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عون و محمد بھی رخصت ہوچکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عباس علمدار مقام شہادت پاچکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہزادہ قاسم موت کو گلے سے لگاچکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہزادہ علی اکبر کا بے گور و کفن لاشہ ریگ کربلا پر پڑا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معصوم علی اصغر کا خون بھی فضا کربلا کو رنگین کرگیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امام عالی مقام اپنے جان نثاروں کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے نڈھال ہوچکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت، بہادری اور جوانمردی پر ڈھلتی عمر کا سایہ بھی نہیں پڑا۔ شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شیر اپنے تمام اثاثے لٹانے کے بعد بھی استقامت کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ایمان کی روشنی آنکھوں سے جھلک رہی ہے۔ چہرے پر اعتماد کا نور بکھرا ہوا ہے، گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، زینب رضی اللہ عنہا رکاب تھامتی ہیں، امام عالی مقام میدان کربلا میں تلوار لئے کھڑے ہیں، یزیدی عساکر پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ فرزند شیر خدا کا سامنا کرنے سے ہر کوئی کترا رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مدمقابل کون کھڑا ہے۔ نواسہ رسول کو پہچانتے ہیں ان کی عظمت اور فضیلت سے آگاہ ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، وہ جانتے ہیں کہ نبض حسین نبض رسول ہے، لیکن مصلحتیں پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہیں۔ مفادات نے ہونٹوں پر قفل ڈال رکھے ہیں۔ لالچ، حرص اور طمع نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اور وہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر کے دربار یزید میں مسند شاہی کا قرب حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ یزیدی لشکر میں سے کوئی نکل کر شہسوار کربلا کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ کرسکا۔

یزیدی لشکر نے جان نثاران حسین رضی اللہ عنہ کی استقامت، شجاعت اور جرات دیکھ کر انفردی جنگ بند کردی تھی، جب حسین مقتل میں آئے تو اجتماعی حملہ جاری تھا لیکن پورا لشکر بھی اجتماعی طور پر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے سے ڈر رہا تھا۔ دور دور سے تیر چلاتے رہے’ کئی گھنٹوں تک حسین رضی اللہ عنہ کے جسم پر تلوار کا زخم نہ لگا کیونکہ قریب آ کر علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت کے وارث سے جنگ کرنے کا کسی کو حوصلہ نہ ہوا۔ تیروں کی برسات میں امام عالی مقام کا جسم اطہر چھلنی ہوگیا۔ زخموں سے چور امام پر چاروں طرف سے حملہ کیا گیا۔ شمر اور یزید کے بدبخت سپاہی قریب آگئے، یکبارگی حسین رضی اللہ عنہ کو تلواروں کے نرغے میں لے لیا گیا۔ آخر مردانہ وار جنگ کرتے کرتے شہسوار کربلا گھوڑے سے نیچے آگئے۔ نیزوں اور تلواروں سے بھی امام عالی مقام کا جسم چھلنی کردیا گیا۔

زندگی کا آخری لمحہ آپہنچا، امام عالی مقام نے دریافت فرمایا کہ کون سا وقت ہے جو اب ملا نماز کا وقت ہے۔ فرمایا : مجھے اپنے مولا کے حضور آخری سجدہ کرلینے دو۔ خون آلودہ ہاتھوں کے ساتھ تیمم کیا اور بارگاہ خداوندی میں سجدہ ریز ہوگئے باری تعالیٰ یہ زندگی تیری ہی دی ہوئی ہے اسے تیری ہی راہ میں قربان کر رہا ہوں اے خالق کائنات! میرا یہ آخری سجدہ قبول ہو۔ بدبخت شمر آگے بڑھا اور چاہا کہ امام عالی مقام کا سر تن سے جدا کر دے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا میرے قاتل! ذرا مجھے اپنا سینہ تو دکھا کیونکہ میرے نانانے مجھے جہنمی کی نشانی بتائی تھی۔

1۔ امام ابن عساکر نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

کأنی أنظر إلی کلب أبقع يلغ فی دماء اهل بيتی

(کنز العمال، ح : 34322)

گویا کہ میں ایک سفید داغوں والے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے۔

2۔ محمد بن عمرو بن حسین بیان کرتے ہیں :

کنا مع الحسين بنهر کربلا فنظر إلي شمر ذي الجوشن فقال : صدق اﷲ ورسوله! فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کائي أنظر : إلي کلب أبقع يلغ في دماء أهل بيتي و کان شمر أبرص

ہم سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا کے دریا پر موجود تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے شمر کے سینے کی طرف دیکھا اور فرمایا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گویا میں اس سفید داغوں والے کتے کی طرف دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے اور شمر برص کے داغوں والا تھا۔

(کنز العمال فضائل اهل بي، قتل حسين، 13)

چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے نشانی دیکھ کر فرمایا ہاں یہ بدبختی تیرا ہی مقدر ہے، وہ بدبخت آگے بڑھا اور سر اقدس کو تن سے جدا کر دیا۔ ادھر روح نے قفس عنصری سے پرواز کی ادھر ندا آئی۔

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُO ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO

اے اطمینان پاجانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)

حسین! میں تجھ پر راضی ہوگیا۔ اے روح حسین! میرے پاس لوٹ آ جنت کے دروازے کھلے ہیں، حور وغلمان تیرے منتظر ہیں، قدسیان فلک تیرے انتظار میں ہیں۔

شھید اعظم مظہر کامل فرمان الٰہی ذبح عظیم

امام عالی مقام اپنا سارا گھرانہ اللہ کی راہ میں قربان کرچکے ہیں۔ اسلام کی عزت و حرمت پر علی اصغر جیسے معصوم فرزند کی بھی قربانی دے چکے ہیں۔ اپنی جان کا نذرانہ دے کر توحید الہٰی کی گواہی دے چکے ہیں، آپ مقام صبر و رضا پر استقامت سے ڈٹے رہے، قدسیان فلک متحیر ہیں کہ پیکران صبر و رضا ایسے بھی ہوتے ہیں ۔ ؟

امام عالی مقام نے اپنے نانا اور ابا کے خون اور اپنی امی کے دودھ کی لاج رکھ لی، حسین کامیاب ہوگئے۔ حسینیت زندہ ہوگئی۔ واقعی یہ خانوادہ اور اس کا عالی وقار سربراہ۔ ۔ ۔ ۔ اس ذبح عظیم کا سزاوار ہے۔ آج سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی روح بھی رشک کر رہی تھی کہ یہ شرف بھی انکی نسل کے ایک فرد فرید کے حصے میں آیا۔ حسین رضی اللہ عنہ اس عظیم کامیابی پر قدسیان فلک باشندگان کرہ ارضی کا سلام قبول ہو، حسین راہ خدا میں نذرانہ جان پیشں کر کے اور ملوکیت اور آمریت کے اندھیروں میں اپنے خون کے چراغ روشن کر کے ذریت ابراہیمی کی محافظت کی علامت بن گئے، شہادت عظمیٰ نے انہیں ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نشان بنا دیا۔ حسین رضی اللہ عنہ قیامت تک کے لئے اسلام کی حفاظت کا ستون بن گئے ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔