٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ اَمر طے شدہ ہے کہ اِس آیت میں شریعت کے اَحکام کی اِقتداء کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اَخلاقِ حسنہ اور صفاتِ کاملہ مثلاً حلم، صبر، زُہد، کثرتِ شکر، عجز و اِنکساری وغیرہ کے حاصل کرنے کا حکم ہے۔ یہ آیتِ مقدسہ اِس اَمر پر قطعی دلیل کا درجہ رکھتی ہے کہ اِس اِعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء و رُسل سے اَفضل و اَعلیٰ ہیں کیونکہ ربِ کائنات نے جو اَوصاف اور فضیلتیں اُن نبیوں اور رسولوں کو عطا کی ہیں اُن کے حصول کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم فرمایا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت کے پیشِ نظریہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن (فضیلتوں) کو حاصل نہیں کیا بلکہ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ خصائص اور کمالات جو دِیگر انبیاء و رُسل میں جدا جدا تھے اُن سب کو اپنی سیرت و کردار کا حصہ بنا لیا، اِس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح ہر نبی سے اُس کے اِنفرادی کمالات کے اعتبار سے اَفضل ہوئے اُسی طرح تمام انبیاء و رُسل سے اُن کے اِجتماعی کمالات کے اعتبار سے بھی افضل قرار پائے۔‘‘
درجِ بالا عبارت تحریر کرنے کے بعد علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
هو إستنباطٌ حسنٌ.
’’یہ بہت ہی خوبصورت اِستنباط ہے۔‘‘
آلوسي، روح المعاني، 7 : 217
No comments:
Post a Comment