Wednesday 28 October 2015

رسول اللہ ﷺ کے گستاخ کی سزا قرآن اور تفاسیر کی روشنی میں

0 comments
رسول اللہ ﷺ کے گستاخ کی سزا قرآن اور تفاسیر کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگر کبھی ایمان کی پختگی کے ساتھ قرآن مجید بمعہ ترجمہ و تفسیر پڑھا ہو تو معلوم ہوکہ گستاخِ رسول کی کیا سزا ہے۔ صرف اور صرف نام نہاد اسکالروں کی باتیں سن کر یہ کہہ دینا کہ قرآن مجید میں کہیں بھی گستاخِ رسول کو قتل کرنے کا ذکر نہیں ملتا، بہت بڑی نادانی ہے۔

ہم آپ کے سامنے قرآن مجید کی آیات اور شان نزول سے گستاخِ رسول کا واجب القتل ہونا ثابت کرتے ہیں۔

القرآن: ویوم یعض الظالم علیٰ یدیہ یقول یلیتنی اتخذت مع الرسول سبیلا O یویلتی لیتنی لم اتخذ فلانا خلیلا O لقد اضلنی عن الذکر بعد اذ جاء نی ، وکان الشیطن للانسان خذولا O

ترجمہ: اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا چبا لے گا کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی، وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا (سورۂ فرقان، پارہ 19، آیات 27 تا 29)

تفسیر: تفسیر ابن عباس، تفسیر جلالین اور تفسیر ابن کثیر میں مفسرین ان آیات کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ابی بن خلف کے اکسانے پر عقبہ بن ابی معیط نے سید عالمﷺ کی شان میں گستاخی کی اور حضورﷺ نے اس کو تنبیہ کی کہ اگر تو مکہ کے باہر مجھے ملا تو میں تجھے قتل کروں گا۔ حضورﷺ نے بدر کی جنگ کے موقع پر اس کو گرفتاری کی حالت میں قتل کیا تھا۔

القرآن: وان نکثوا ایمانہم من بعد عہدہم وطعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفر، انہم لاایمان لہم لعلہم ینتہون O (سورۂ توبہ آیت 12)

ترجمہ: اور اگر عہد کرکے اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین پر منہ آئیں تو کفر کے سرغنوں سے لڑو بے شک ان کی قسمیں کچھ نہیں اس امید پر کہ شاید وہ باز آئیں۔

تفسیر: مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ اپنی معرکۃ الآراء تفسیر خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں اس آیت سے ثابت ہوا کہ جو کافر ذمی دین اسلام پر ظاہر طعن کرے اس کا عہد باقی نہیں رہتا، وہ ذمہ سے خارج ہوجاتا ہے، اس کو قتل کرنا جائز ہے۔

جو کافر دین اسلام پر ظاہر طعن کرے اس کو قتل کرنا جائز ہے تو جو بدنصیب اﷲ تعالیٰ کے محبوبﷺ کی شان میں گستاخی کرے ایسے شخص کو قتل کرنا کیونکر جائز نہ ہوگا؟

گستاخ رسول مسلمان ہوکر بھی کافر

ارشاد باری تعالیٰ:

القرآن: ولئن سالتہم لیقولن انما کنا نخوض ونلعب O قل اباﷲ ایاتہ ورسولہ کنتم تستہزنون O ولا تعتذرواقد کفرتم بعد ایمانکم (سورۂ توبہ آیت 66-65)

ترجمہ: اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کہ اﷲ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو۔ بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے ہو مسلمان ہوکر۔

تفسیر: تفسیر در منثور اور الصارم علی المسلول میں ہے کہ یہ آیت مبارکہ اس وقت نازل ہوئی جب غزوہ تبوک کے موقع پر بعض منافقین نے ایسی باتیں کیں جو حضور اکرمﷺ کو اذیت کا باعث بنی مثلا حضرت مجاہد رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کی اونٹنی گم ہوگئی تو جناب سرکارﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اونٹنی فلاں جنگل میں ہے۔ اس پر ایک منافق بولا محمدﷺ غیب کیا جانیں۔ تب یہ آیات اس کی مذمت میں نازل ہوئی تھیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضور اکرمﷺ کے علم غیب میں طعن کرنا بھی رسول ﷺ کی توہین اور علامت کفر ہے۔

القرآن: ان الذین یحادون اﷲ ورسولہ اولئک فی الاذلین O

ترجمہ: بے شک وہ جو اﷲ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ سب سے زیادہ ذلیلوں میں ہیں (سورۂ مجادلہ، پارہ 28، آیت 20)

القرآن: انما جزؤا الذین یحاربون اﷲ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف او ینفوا من الارض، ذلک لہم خزی فی الدنیا ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم O

ترجمہ: وہ کہ اﷲ اور اس کے رسول سے لڑتے اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں، ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کئے جائیں یا سولی دیئے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں، یا زمین سے دور کردیئے جائیں۔ یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب (سورۂ مائدہ، پارہ 6، آیت 33)

جب فسادی کی سزا قتل ہے تو پھر اس سے بڑھ کر فسادی کون ہوسکتا ہے جو حضور اکرم نور مجسمﷺ کی شان میں گستاخی کرکے امت مسلمہ میں فساد برپا کرے، توہین رسالت کا جرم سب سے بڑا جرم ہے لہذا توہین رسالت کا مرتکب واجب القتل ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔