Monday 26 October 2015

رحمت عالم نور مجسّم ﷺ کی پُر نُور جبینِ اقدس کا دلربا تذکرہ

0 comments
رحمت عالم نور مجسّم ﷺ کی پُر نُور جبینِ اقدس کا دلربا تذکرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی فراخ، کشادہ، روشن اور چمکدار تھی جس پر ہر وقت خوشی و اطمینان اور سرور و مسرت کی کیفیت آشکار رہتی۔ جو کوئی آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی پر نظر ڈالتا تو اُس پر موجود خاص چمک دمک اور تابانی دیکھ کر مسرور ہو جاتا، اُس کا دل یک گونہ سکون اوراطمینان کی دولت سے مالا مال ہو جاتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کشادہ اور پر نور پیشانی مبارک ہر قسم کی ظاہری و باطنی آلائشوں اور کثافتوں سے پاک تھی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی انور پر کبھی بھی اُکتاہٹ اور بیزاری کی کیفیت نہیں دیکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی پھولوں کی طرح تر و تازہ اور ماہِ تاباں کی طرح روشن و آبدار تھی، جس پر کبھی شکن نظر نہ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاقات کے لئے آنے والوں سے اِس قدر خندہ پیشانی سے پیش آتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے نقوش مخاطبین کے دلوں پر نقش ہو جاتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے موانست، چاہت اور اپنائیت کا اِحساس لے کر لوٹتے۔
--------------------------------------------------------------------------
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم واسع الجبين.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کشادہ پیشانی والے تھے۔‘‘

1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، رقم : 8
2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155، رقم : 414
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
4. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
5. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، 155، رقم : 1430
6. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 214
--------------------------------------------------------------------------
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اوصافِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے تو کہتے :

کان مفاض الجبين.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس کشادہ تھی۔‘‘

1. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 214
2. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 17
3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 125
--------------------------------------------------------------------------
اللہ رب العزت نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو وحی کے ذریعہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کی خبر دی اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حُلیہ مبارک بیان فرماتے ہوئے خصوصاً سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا :

الصلت الجبين. ’’ (وہ نبي) کشادہ پیشانی والے ہیں۔‘‘

1. ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 345
2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 378
3. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 2 : 78
4. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 62
--------------------------------------------------------------------------
حافظ ابن ابی خیثمہ بیان کرتے ہیں

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أجلي الجبين، إذا طلع جبينه من بين الشعر أو طلع من فلق الشعر أو عند الليل أو طلع بوجهه علي الناس، تراء ي جبينه کأنه السراج المتوقد يتلألآ، کانوا يقولون هو صلي الله عليه وآله وسلم.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی روشن تھی۔ جب موئے مبارک سے پیشانی ظاہر ہوتی، یا دن کے وقت ظاہر ہوتی، یا رات کے وقت دکھائی دیتی یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے سامنے تشریف لاتے تو اُس وقت جبینِ انور یوں نظر آتی جیسے روشن چراغ ہو جو چمک رہا ہو۔ یہ حسین اور دلکش منظر دیکھ کر لوگ بے ساختہ پُکار اُٹھتے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘

1. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 21
2. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 202
--------------------------------------------------------------------------
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا ایک دن چرخہ کات رہی تھیں اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پاپوش مبارک کو پیوند لگا رہے تھے۔ اس حسین منظر کے حوالے سے آپ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں :

فجعل جبينه‘ يعرق، و جعل عرقه يتولد نوراً، فبهت، فنظر إليّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فقال : ما لک يا عائشة بهت؟ قلت : جعل جبين يعرق، وجعل عرقک يتولد نوراً، و لو رآ ک آبو کبير الهذلي لعلم آنک آحق بشعر.

’’پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی پر پسینہ آیا، اُس پسینہ کے قطروں سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی تھی، میں اُس حسین منظر کو دیکھ کر مبہوت ہو گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا : عائشہ ! تجھے کیا ہوگیا؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کی پیشانی پر پسینہ کے قطرے ہیں جن سے نور پھوٹ رہا ہے۔ اگر ابوکبیر ھذلی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس کیفیت کا مشاہدہ کرلیتا تو وہ جان لیتا کہ اس کے شعر کا مصداق آپ ہی ہیں۔‘‘ ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 174
--------------------------------------------------------------------------
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کی گفتگو سنی تو از رہِ استفسار فرمایا کہ ابوکبیر ھذلی نے کونسا شعر کہا ہے؟ اس پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا نے یہ شعر پڑھا :

فإذا نظرتُ إلي أسرة وجهه
برقت کبرق العارض المتهلل

(جب میں نے اُس کے رخِ روشن کو دیکھا تو اُس کے رخساروں کی روشنی یوں چمکی جیسے برستے بادل میں بجلی کوند جائے۔)

ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 174
--------------------------------------------------------------------------
شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشن پیشانی کا لفظی مرقع اپنے ایک شعر میں یوں پیش کیا ہے :

متی يبد في الداجي البهيم جبينه
يلح مثل مصباح الدجي المتوقد

 (رات کی تاریکی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس اس طرح چمکتی دکھائی دیتی ہے جیسے سیاہ اندھیرے میں روشن چراغ۔)

1. حسان بن ثابت، ديوان : 67
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 422، رقم : 15204
3. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 149
4. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 21

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔