Wednesday 28 October 2015

نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کے قلبِ اطہر کا حسین تذکرہ

0 comments
نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کے قلبِ اطہر کا حسین تذکرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر علوم و معارف کا گنجینہ اور انوار و تجلیاتِ الٰہیہ کا خزینہ تھا۔ چونکہ اس بے مثال قلبِ انور پر قرآنِ حکیم کا نزول ہونا تھا، اسے شرحِ صدر کے بعد منبعِ رُشد و ہدایت بنا دیا گیا تاکہ تمام کائناتِ جن و انس ابدالآباد تک اُس سے اِیمان و اِیقان کی روشنی کشید کرتی رہے

خود قرآنِ مجید کی بعض آیات اور الفاظ آقائے دوجہاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر سے منسوب ہیں اور مفسرین نے ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَالنَّجْمِ إِذَا هَوٰيO

قسم ہے ستارے (یعنی نور مبین) کی جب وہ (معراج سے) اُتراo

القرآن، النجم، 53 : 11

قاضی عیاض حضرت جعفر بن محمد سے وَالنَّجْمِ کی تشریح میں لکھتے ہیں :

النجم : هو قلب محمد صلي الله عليه وآله وسلم.

نجم سے مراد حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ انور ہے۔

قاضي عياض، الشفا، 1 : 23

دوسرے مقام پر قرآن مجید نے قلبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

مَا کَذَبَ الفُؤَادُ مَا رَاٰيO

’’جو (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) دیکھا قلب نے اُسے جھوٹ نہ جانا (سمجھ لیا کہ یہ حق ہے)o‘‘

القرآن، النجم، 53 : 11

اللہ ربُ العزت نے قرآن حکیم میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر اور سینۂ اقدس کا ایک ہی مقام پر تمثیلی پیرائے اور استعاراتی انداز میں یوں ذکر فرمایا :

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ.

’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اُس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دُنیا میں روشن ہوا) اُس طاق (نما سینۂ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے، (وہ) چراغ فانوسِ (قلبِ محمدی) میں رکھا ہے۔‘‘

القرآن، النور، 24 : 25

امام خازن رحمۃ اﷲ علیہ اِس آیتِ کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں سوال کیا :

أخبرني عن قوله تعالٰي : مَثَلُ نُوْرِه کَمِشْکٰوةٍ.

’’مجھے باری تعالیٰ کے ارشاد . . . اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہوا) اس طاق (نما سینہ اقدس) جیسی ہے . . . کے بارے میں بتائیں کہ اس سے کیا مراد ہے ؟‘‘

حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :

هذا مثل ضربه اﷲ لنبيها، فالمشکٰوة صدره، والزجاجة قلبه، والمصباح فيه النبوة توقد من شجر مبارکة هي شجرة النبوة.

’’(آیتِ مذکورہ میں) باری تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ مشکٰوۃ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس مراد ہے، زجاجۃ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر ہے، جبکہ مصباح سے مراد وہ صفتِ نبوت ہے جو شجرۂ نبوت سے روشن ہے۔‘‘

خازن، لباب التأويل في معاني التنزيل، 5 : 56

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک سینے کو انوار و معارفِ الٰہیہ کا خزینہ بنایا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ منور سوز و گداز اور محبت و شفقت کا مخزن تھا۔ انسان تو انسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جانور پر بھی تشدد برداشت نہ کر سکتے تھے۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی رقیق القلب تھے، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے، اُن کا غم بانٹتے اور اُن کے زخموں پر شفا کا مرہم رکھتے، ہر وقت دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہتے، بیماروں کی عیادت فرماتے، حرفِ تسلی سے اُن کا حوصلہ بڑھاتے اور اُنہیں اِعتماد کی دولت سے نوازتے۔ قرآنِ مجید کا فرمان ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نرم دل اور رقیق القلب نہ ہوتے تو پروانوں کا ہجوم شمعِ رسالت کے گرد اِس طرح جمع نہ ہوتا۔

ارشادِ ربانی ہے :

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.

(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ن کے لئے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تندخو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔

القرآن، آل عمران، 3 : 59

اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوئے دل نوازی اور بندہ پروری کا ذکر اس شعر میں کس حسن و خوبی سے کیا ہے :

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق

اللہ ربُ العزت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قلبِ بیدار عطا کیا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إن عيني تنامان و لا ينام قلبي.

’’بیشک میری آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 1 : 385، ابواب التهجد، رقم : 1096
2. مسلم، الصحيح، 1 : 509، کتاب صلاة المسافرين و قصرها، رقم : 737
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 1 : 302، 738، ابواب الصلوة، رقم : 439
4. ابوداؤد، السنن، 2 : 40، کتاب الصلوة، رقم : 1341
5. نسائي، السنن، 3 : 234، کتاب قيام اليل و تطوع النهار، رقم : 1697
6. مالک، الموطأ، 1 : 120، رقم : 263
7. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 104
8. ابن حبان، الصحيح، 6 : 186، رقم : 2430
9. ابن خزيمه، الصحيح، 1 : 30، رقم : 49
10. بيهقي، السنن الکبريٰ، 1 : 122، رقم : 597
11. ابو نعيم، حلية الأولياء، 10 : 384

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔