Monday 26 October 2015

بے مثال نبی ﷺ کے بے مثال موئے مبارک کا دلنشین تذکرہ

0 comments
بے مثال نبی ﷺ کے بے مثال موئے مبارک کا دلنشین تذکرہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ انور پر مبارک بال نہایت حسین اور جاذب نظر تھے، جیسے ریشم کے سیاہ گچھے، نہ بالکل سیدھے اور نہ پوری طرح گھنگھریالے بلکہ نیم خمدار جیسے ہلالِ عید، اور ان میں بھی اِعتدال، توازُن اور تناسب کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔

اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاہ زلفوں کی قسم کھاتے ہوئے اِرشاد فرمایا :

وَ اللَّيْلِ اِذَا سَجٰیO القرآن، الضحٰی، 93 : 2

’’ (اے حبیبِ مکرم!) قسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخِ زیبا یا شانوں پر) چھا جائے۔‘‘

یہاں تشبیہ کے پیرائے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں کا ذکر قسم کھا کر کیا گیا جو دراصل محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کی قسم ہے۔ روایات میں مذکور ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کو حضور علیہ السلام سے اس قدر والہانہ محبت تھی کہ ان کی نگاہیں ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا طواف کرتی رہتیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خمدار زلفوں کے اسیر تھے اور اکثر اپنی محفلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ عنبریں کا تذکرہ والہانہ انداز سے کیا کرتے تھے۔
--------------------------------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

کان شعرالنبي صلي الله عليه وآله وسلم رجلا، لا جعْدَ و لا سبط.

’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں نہ تو مکمل طور پر خمدار تھیں اور نہ بالکل سیدھی اکڑی ہوئی بلکہ درمیانی نوعیت کی تھیں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 5 : 2212، کتاب اللباس، رقم : 5566
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1819، کتاب الفضائل، رقم : 2338
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 412
4. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 220
--------------------------------------------------------------------------
صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں کی مختلف کیفیتوں کو اُن کی لمبائی کے پیمائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بڑے اچھوتے اور دل نشیں انداز سے بیان کیا ہے۔ اگر زلفانِ مقدس چھوٹی ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں کی لوؤں کو چھونے لگتیں تو وہ پیار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ذی لمۃ (چھوٹی زلفوں والا)‘‘ کہہ کر پکارتے، جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

ما رأيت من ذي لمة آحسن في حلة حمراء من رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم ، شعره يضرب منکبه.

’’میں نے کانوں کی لو سے نیچے لٹکتی زلفوں والا سرخ جبہ پہنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1818، کتاب الفضائل، رقم : 2337
2. بخاري، الصحيح، 5 : 2211، کتاب اللباس، رقم : 5561
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 219، ابواب اللباس، رقم : 1724
4. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، ابواب الفضائل، رقم : 3635
5. ابوداؤد، السنن، 4 : 81، کتاب الترجل، رقم : 4183
6. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 31، رقم : 4
7. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 300
8. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 223
9. ابن حبان اصبهاني، اخلاق النبيا، 4 : 277، رقم : 4
--------------------------------------------------------------------------
ابو رمثہ تمیمی رضی اللہ عنہ اپنے والدِ گرامی کے ہمراہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، بعد میں اُنہوں نے اپنے ہم نشینوں سے ان حسین لمحات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ عنبرین کا تذکرہ یوں کیا :

وله لمة بهما ردع من حناء.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں کی لو سے نیچے تھیں جن کو مہندی سے رنگا گیا تھا۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 163
2. ابن حبان، الصحيح، 13 : 337، رقم : 5995
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 412، رقم : 9328
4. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 279، رقم : 716
5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 438
--------------------------------------------------------------------------
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ سیاہ کے حسن و جمال کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں

له شعر يبلغ شحمة اليسري، رأيته في حلة حمرآء لم آر شيئًا قط أحسن منه.

’’آپ صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں کانوں کی لو تک نیچے لٹکتی رہتیں، میں نے سرخ جبہ میں حضور اسے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔‘‘

بخاري، الصحيح، 3 : 1303، کتاب المناقب، رقم : 3358
--------------------------------------------------------------------------
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے :

و کان له شعر فوق الجُمّة و دون الوفرة.

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں کانوں اور شانوں کے درمیان ہوا کرتی تھیں۔

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 233، ابواب اللباس، رقم : 1755
2. ابوداؤد، السنن، 4 : 82، کتاب الترجل، رقم : 4187

ابوداؤد کی عبارت میں فوق الوفرۃ و دون الجمۃ کے الفاظ ہیں۔
--------------------------------------------------------------------------
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معنبر زلفیں قدرے بڑھ جاتیں اور کانوں کی لوؤں سے تجاوز کرنے لگتیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ذی وفرۃ (لٹکتی ہوئی زلفوں والا)‘‘ کہنے لگتے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک کا حسین تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی زلفِ مشکبار کا تذکرہ یوں کیا :

کان نبي اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذو وفرة.

’’حضور نبي اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لٹکتی ہوئی زلفوں والے تھے۔‘‘

ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 149
--------------------------------------------------------------------------
اگر شبانہ روز مصروفیات کے باعث بال مبارک نہ ترشوانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں بڑھ کر مبارک شانوں کو چھونے لگتیں تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم فرطِ محبت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ذی جمۃ (کاندھوں سے چھوتی ہوئی زلفوں والا)‘‘ کہہ کر پکارتے۔

حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

کان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم مربوعاً بعيد ما بين المنکبين، وکانت جمته تضرب شحمة آذنيه.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میانہ قد تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کانوں کی لو کو چھوتی تھیں۔‘‘

1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 48، رقم : 26
2. ابن قيم، زاد المعاد، 1 : 177
3. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 572
--------------------------------------------------------------------------
حضرت براء رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے

ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان يضرب شعره منکبيه.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں کاندھوں کو چوم رہی ہوتی تھیں۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1819، کتاب الفضائل، رقم : 2338
2. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، کتاب المناقب، رقم : 3358
3. ابو داؤد، السنن، 4 : 19، کتاب اللباس، رقم : 4072
4. نسائي، السنن، 8 : 134، کتاب الزينه، رقم : 5233
--------------------------------------------------------------------------
صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے مبارک کا ذکر محبت بھرے انداز میں کمالِ وارفتگی کے ساتھ کرتے رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عنبر بار زلفوں کا ذکر کرتے ہوئے مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسن الشعر.

’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک نہایت حسین و جمیل تھے۔‘‘

1. ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 317
2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 217
--------------------------------------------------------------------------
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

رجل الشعر إن انفرقت عقيقته‘ فرقها و إلا فلا يجاوز شعرة شحمة آذنيه إذا هو و فره.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک خمیدہ تھے، اگر سر اقدس کے بالوں کی مانگ بسہولت نکل آتی تو نکال لیتے تھے ورنہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ اقدس کے بال مبارک جب لمبے ہوتے تھے تو کانوں کی لو سے ذرا نیچے ہوتے تھے۔‘‘

1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، رقم : 8
2. جلي، السيرة الحلبيه، 3 : 435
3. ابن حبان بستي، الثقات، 2 : 145
4. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 15، رقم : 414
--------------------------------------------------------------------------
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم شديد سواد الرأس واللحية.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک اور سرِ انور کے بال گہرے سیاہ رنگ کے تھے۔‘‘

1. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 17
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 418
--------------------------------------------------------------------------
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرائشِ گیسو کے مبارک معمول کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يسدل ناصيته سدل آهل الکتاب، ثم فرق بعد ذلک فرق العرب.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیشانی آقدس کے اوپر سامنے والے بال بغیر مانگ نکالے پیچھے ہٹا دیتے تھے جیسا کہ اہلِ کتاب کرتے ہیں، لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح مانگ نکالتے جیسے اہلِ عرب نکالا کرتے۔‘‘

1. ابن حبان بستي، الثقات، 7 : 34، رقم : 8879
2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 8 : 437، رقم : 4545

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔