Saturday 30 May 2015

شب براءت قرآن و حدیث کی روشنی میں

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اﷲ کریم ہے اور اس کے پیارے حبیب ہم سب کے آقاومولا ﷺ بھی کریم ہیں ۔صدشکر کہ ہستیم میان دو کریم۔ اﷲ تعالیٰ نے امم سابقہ کی نسبت جتنی آسانیاں، رخصتیں، لچک، درگذر، معافیاں اور تھوڑی عبادت پر کثیر ثوابعطا فرمائے کہ سابقہ امتوں میں ایسی مثال کم ملتی ہے۔ کیوں نہ ہوں ہم ٹھرے جو امت وسط، ہمارے والی جو ٹھرے امام الانبیاء اور رحمۃ للعلمین ﷺ انہیں احسانات الہی میں سے ایک کا تذکرہ یوں ہے(سورہ دخان آیات ۱ تا ۶)میں ارشاد رب کریم ہوتا ہے:
ترجمہ: قسم اس روشن کتاب کی۔ بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارابے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔ اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ ہمارے پاس کے حکم سے۔ بے شک ہم بھیجنے والے ہیں۔ تمہارے رب کی طرف سے رحمت ، بے شک وہی سنتا جانتا ہے۔
سورہ دخان کی ان آیات میں اس رات سے مراد شب برات ہے یا شب قدر۔ اس رات میں تمام قرآن پاک لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا پھر وہاں سے حضرت جبریل علیہ السلام ۲۳ سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا لیکر کر نازل ہوئے۔ اس شب کو شب مبارکہ اس لیئے فرمایا گیا کہ اس میں قرآن پاک نازل ہوا اور ہمیشہ اس شب میں خیر و برکت نازل ہوتی ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔اس رات کو لیلۃ البراء ۃ بھی فرمایا گیا ہے۔ عام طور پر ہمارے ہاں شب برات مشہور ہے۔
حضرت السید شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے غنیہ الطالبین میں لکھا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اس ماہ کا نام شعبان اس لیئے رکھا گیا کہ اس ماہ میں رمضان کے لیئے بیشمار نیکیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور رمضان اس لیئے رکھا گیا کہ یہ مہینہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔
اس مقدس رات میں دیدہ دانستہ خلاف شریعت اعمال کا ارتکاب اﷲ اور رسول ﷺ کی ناراضگی کا سبب بنے گا۔ اور عذاب الہی سے کون چھڑائے گا؟ استغفار کریں اور اپنے رب کریم کی رحمت اور اسکے فضل کے حصول کے لیئے کمر بستہ ہوں۔
حدیث شریف: رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا کیا تو جانتی ہے کہ اس رات میں کیا ہے یعنی برکتیں جو نازل ہوتی ہیں نصف شعبان کی رات میں عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم وہ کیا ہیں؟ فرمایا کہ ایک تو یہ کہ اس رات میں اولاد آدم میں ہر پیدا ہونے والا لکھ دیا جاتا ہے دیگر یہ کہ اس سال اولاد آدم میں سے ہر مرنے والے کا نام لکھ دیا جاتا ہے اور اس میں اولاد آدم کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں ۔ علامہ طیبی نے کہا کہ اس سے مراد اعمال لکھے جاتے ہیں اور سال میں روزانہ لکھے کے مطابق اٹھائے جاتے ہیں و دیگر یہ کہ بنی آدم کا رزق جو سال میں اﷲ نے اسکو دینا ہے لکھ دیا جاتا ہے۔ اس سے مراد رزق ہر فرد کا نازل کیا جاتا ہے حضرت ام المؤمنین نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم کیا کوئی ایسا فردنہیں ہے کہ جو جنت میں بغیر اﷲ پاک کی رحمت کے داخل ہو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ایسا نہیں جو جنت میں داخل ہو مگر اﷲ کی رحمت سے یہ آپ ﷺ نے تین دفعہ فرمایا میں نے عرض کیا کہ آپ بھی نہیں آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک اپنے سر پر رکھا فرمایا اور میں بھی نہیں مگر یہ کہ اﷲ پاک نے اپنی رحمت میں مجھ کو لپیٹ دیا ہے ( جیسا کہ اﷲ پاک نے آپ کو مخلوق کے لیئے اپنی جگہ رحمت سراپا بنا دیا اور فرمایا کہ آپ کو تمام جہانوں کے لیئے رحمت بنا کر ہم نے بھیجا ہے) یہ کلمات آپ ﷺ نے تین دفعہ ارشاد فرمائے(مشکوۃ شریف۔رواہ البہیقی فی الدعوات الکبیر)
حدیث شریف: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہنے روائت کی کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اﷲ تعالی نصف شعبان کی رات کو نزول فرماتا ہے یعنی اسکی رحمت و مغفرت اور فضل غروب آ فتاب سے صبح سورج نکلنے تک۔ پس اپنی تمام مخلوق کو معاف فرماتا ہے سوا مشرک کافر اور مسلمان سے بلاوجہ کینہ رکھنے والے کے (مشکوۃ شریف صفحہ۔۱۱۵۔ رواہ ابن ماجہ و رواہ احمد عن عبداﷲ بن عمرو بن العاص) امام احمد کی ایک روائت میں ہے کہ سب کی مغفرت فرماتا ہے سوادو آدمیوں کے ایک کینہ رکھنے والا اور دوسرا وہ جس نے ناحق قتل کیا ۔
حدیث شریف: سیدنا حضرت علی کرم اﷲ وجھہ نے روائت کی کہ فرمایا رسول اﷲ ﷺ کہ جب نصف شعبان کی رات آئے تو رات کو قیام کرو یعنی نفل پڑھو۔رات کو جاگواور اس روز کا روزہ رکھو اس لیئے کہ اﷲ تعالی اس رات کو غروب شمس کے ساتھ ہی آسمان دنیا پر اپنی بے حد رحمت کا نزول فرماتا ہے پس ارشاد فرماتا ہے کہ کیا کوئی نہیں بخشش طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ہے کوئی جو روزی مانگے اور میں اسکو عطا کروں ہے کوئی تکلیف و بلا میں مبتلا کہ میں اسکی مصیبت دور کروں اسی طرح مختلف قسم کی حاجات بارے اﷲ پاک اعلان فرماتا ہے۔ یہاں کہ صبح ہوجاتی ہے۔(مشکوۃ صفحہ ۱۱۵۔رواہ ابن ماجہ)
اﷲ تعالی کی رحمتوں اور فضل کے اسرارو رموز سے کوئی واقف نہیں سوا اس ذات کے جسے خالق و معبود کائنات نے رحمۃ للعلمین ﷺ کی یکتائی سے نوازا۔ سو رحمتوں اور حصول برکات کے مواقع سے آپ ﷺ نے امت کو مطلع فرمایا۔ جبکہ امم سابقہ میں سوائے چند مواقع کے ایسی سعادت کسی امت کو نصیب نہ ہوئی۔ آپ ﷺ نے رحمتوں کے اوقات سے آگاہ ہی نہیں کیا بلکہ خود ذات شفیع المذنبین ﷺ نے اپنے رب کریم کے حضور بے مثل التجائیں فرماکر اس بات پر گواہی دی کہ ذات الہ حد درجہ کریم ہے۔ایک قرآنی آئت کریمہ اور ہر سہ احادیث کے حوالے تحریر کرنے سے صرف اظہار اہمیت و فضیلت ہے وگرنہ نصف شعبان کی شب کے طویل فضائل ہیں۔
شب برات کو کس کی مغفرت نہیں:سرور کون و مکاں ﷺ کے ارشادات کے مطابق اس رات کس کی مغفرت نہیں ہوتی: مشرک، کینہ ور، بدسلوک و قاطع رحم، پائنچے لٹکا کر چلنے والا(تہبند ،شلوار، پائجامہ یا پتلون ٹخنوں سے نیچے)، والدین کو ستانے والا،شراب نوش، زانی و زانیہ ، کچھ دے کر احسان جتلانے والا، باجے ،طنبورے، سارنگیاں ، طبلے بجانے والے، جھوٹی قسمیں کھا کر مال تجار ت کو رواج دینے والے اگر اس رات کو بھی توبہ نہ کریں اور اگر اپنے ان افعال پر نادم ہوکر ذات باری تعالی کے حضور روئیں تو اﷲ پاک بڑا کریم ہے۔
دوبراء تیں: اس رات کو شب برات اس لیئے کہا جاتا ہے کہ اس رات میں دو بیزاریاں ہیں۔ ۱۔ بد بخت لوگ اﷲ تعالی سے بیزار ہوتے ہیں اور دور ہو جاتے ہیں اور اولیاء اﷲ ذلت اور گمراہی سے دور ہوجاتے ہیں(غنیہ الطالبین)
اس مبارک رات کے اعمال: یہ رات اپنی فضیلت کے ساتھ اپنی جگہ لیکن حضور اکر م ﷺ نے فرمایا کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اﷲ پاک کا۔ احادیث میں بکثرت آیا ہے کہ آپ ﷺ پورا شعبان روزہ دار رہتے تھے ۔ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روائت ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ جن لوگوں کی روحیں قبض کرنا ہوتی ہیں انکے نام کی فہرست اسی ماہ شعبان میں ملک الموت کو دی جاتی ہے۔ اور میری دلی خواہش ہے کہ میرا نام اس حالت میں درج فہرست کیا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔ ایک حدیث شریف کے مطابق اﷲ پاک اپنے گنہگار بندوں کو جن کی تعداد بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ کی مغفرت کرتا ہے۔
شب براء ت میں نماز: حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام نے یہ ساری رات اﷲ کے ذکروفکر،استغفار اور دعا میں بسر فرمائی یہاں تک کہ آپکے پاؤں مبارک ورم کرگئے۔ پھر بھی اولیاء اﷲ سے منقول نماز یں یہ ہیں:
منقول نمازیں۔۱۔چودہ رکعت نفل پڑھ کر اسی جگہ بیٹھے بیٹھے سورہ فاتحہ ، سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ الناس چودہ چودہ مرتبہ پڑھے پھر آئت الکرسی اور یہ آئت کریمہ ایک دفعہ پڑھے، لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمؤ منین روف الرحیم o بیس پسندیدہ حج، بیس سال کے مقبول روزوں کا اجر و ثواب ملے گا۔ صبح کو روزہ رکھنے کے سبب دوسال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے روزوں کا ثواب ملے گا۔ یہ دعا اس رات میں زیادہ پڑھیں: اللھم انک کریم تحب العفو فاعف عنی اللھم انی اسئلک العفو والعافیۃ والمعافاۃ الدائمۃفی الدنیا والاخرۃ۔
صلوۃ الخیر: حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے غنیہ الطالبین میں لکھا ہے کہ: اس رات میں سو رکعتیں ہیں، ایک ہزار مرتبہ سورہ اخلاص کے ساتھ یعنی ہر رکعت میں دس مرتبہ قل ھواﷲ احد پڑھی جائے، اس نماز کا نام صلوۃ الخیر ہے اسکے پڑھنے سے برکتیں حاصل ہوتی ہیں۔ سلف صالحین یہ نماز باجماعت پڑھتے تھے ۔ حضرت خواجہ حسن بصری رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے سرورکائنات ﷺ کے تیس صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم نے بیان کیا کہ اس رات کو جو شخص یہ نماز پڑھتا ہے اﷲ تعالی اسکی طرف ستر بار دیکھتا ہے اور ہر بار کے دیکھنے میں ستر حاجتیں اسکی پوری کرتا ہے جن میں سب سے ادنی حاجت اس کے گناہوں کی مغفرت ہے۔
غروب آفتاب کے ساتھ ہی رحمتوں اور برکت کا دوردورہ شروع ہو جاتاہے۔ فقیر کے نزدیک بزرگوں کے افعال مبارکہ کے مطالعہ سے یہی بات سامنے آئی ہے کہ جب روح کلی طور پر اپنے رب کی طرف رجوع کرتی ہے تو جسم عبادت الہی میں اپنی تمام تر قوت صرف کرتا ہے۔اپنے گھرو ں کو ذکر الہی کی شوکت کے لیئے مزید صاف کیا جائے۔ نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد شب بیداری کا اہتمام گھروں میں خواتین ، بچے اور ضعفاء کے لیئے ہونا چاہیئے۔ مساجد میں خصوصی انتظامات کیئے جائیں۔ علماء کرام اول رات میں اس رات فضائل بیان کریں۔ ، اشغال روحانی میں درود شریف کا ورد، قرآن کریم کی تلاوت، نوافل کی ادائیگی، رات کو زیارت قبور کہ سنت رسول اﷲ ﷺ ہے، استغفار، چوتھا کلمہ استغفار کا آتا ہو تو پڑھیں وگرنہ استغفراﷲ ربی من کل ذنب پڑھیں۔ کچھ یاد نہ ہوتو کلمہ طیبہ تو ہر مسلمان کو یاد ہے اسی کا ورد جاری رکھیں۔ اگر آنکھ لگ جائے تو جاگنے پر وضو کر لیں ۔ بارگاہ رب العزت میں سجدہ ریز ہو کر رو رو کر اپنے لیئے ، والدین، اعزا و اقارب ،اساتذہ کرام و تمام مسلمین کے لیئے دعا کریں۔ فرعون وقت امریکہ خبیث کی ذلت و خواری کی دعا کریں کہ اﷲ تعالی افغانستان، مقدس عراق، کشمیراور فلسطین سے یہودو نصاری اور ہنودکے مظالم اور انکی انسانیت سوز کاروائیوں سے مسلمانوں کو نجات دے آمین۔ اﷲ مسلمانوں کو خلافت برپا کرنے اور دستور اسلام کے نفاذ کی توفیق دے۔آمین
تنبیہ: آتش بازی پٹاخے، مشعلیں وغیرہ دو طرح حرام ہیں یہ آتش پرستوں اور ہندؤں کا طریقہ ہے دوسرا یہ کہ اسراف ہے اور رزق حلال کو دیدہ دانستہ نظر آتش کرنا گناہ کبیرہ ہے۔والدین اپنے بچوں کو اس قبیح حرکت سے دور رکھیں۔

فضائل شب براءت احادیث مبارکہ کی روشنی مکمّل 16 حصّے پڑھیئے اور اس فقیر ناکارہ کےلیئے دعا ضرور فرمائیئے گا اپنی عبادتوں کے لمحات میں

0 comments
فضائل شب براءت احادیث مبارکہ کی روشنی مکمّل 16 حصّے پڑھیئے اور اس فقیر ناکارہ کےلیئے دعا ضرور فرمائیئے گا اپنی عبادتوں کے لمحات میں
01 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449472028682767&id=1435363340093636
02 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449472538682716&id=1435363340093636
03 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449473188682651&id=1435363340093636
04 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449473625349274&id=1435363340093636
05 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449474042015899&id=1435363340093636
06 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449474605349176&id=1435363340093636
07 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449475072015796&id=1435363340093636
08 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449475495349087&id=1435363340093636
09 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449476028682367&id=1435363340093636
10 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449476638682306&id=1435363340093636
11 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449476962015607&id=1435363340093636
12 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449477718682198&id=1435363340093636
13 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449478562015447&id=1435363340093636
14 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449479082015395&id=1435363340093636
15 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449479575348679&id=1435363340093636
16 . https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1449479872015316&id=1435363340093636

Friday 29 May 2015

فرض نمازوں کے بعد دعا کے فضائل احادیث کی روشنی میں ( 5 )

0 comments
فرض نمازوں کے بعد دعا کے فضائل احادیث کی روشنی میں ( 5 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج رات میرا رب میرے پاس نہایت احسن صورت میں آیا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا : اے محمد! جب آپ نماز ادا کر چکیں تو یہ دعا مانگیں : اے اﷲ! میں تجھ سے اچھے اعمال کے اپنانے، برے اعمال کو چھوڑنے اور مساکین کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور جب تو اپنے بندوں کو آزمانے کا ارادہ کرے تو مجھے اس سے پہلے ہی بغیر آزمائے اپنے پاس بلا لے۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
الحديث رقم 16 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة رضي الله عنه، 5 / 366، 368، الرقم : 3233، 3235، ومالک في الموطأ، کتاب : القرآن، باب : العمل في الدعاء، 1 / 218، الرقم : 508، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 368، الرقم : 3484، 5 / 243، الرقم : 22162، والحاکم في المستدرک، 1 / 708، الرقم : 1932، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 109، الرقم : 216، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 228، الرقم : 682، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 159، الرقم : 591، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 177.

فرض نمازوں کے بعد دعا کے فضائل احادیث کی روشنی میں ( 4 )

0 comments
فرض نمازوں کے بعد دعا کے فضائل احادیث کی روشنی میں ( 4 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : اے معاذ! میں تم سے محبت کرتا ہوں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے معاذ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنا ہرگز نہ چھوڑنا : اے اﷲ! اپنے ذکر، شکر اور اچھی طرح عبادت کی ادائیگی میں میری مدد فرما۔ پھر حضرت معاذ نے صنابحی کو اس دعا کی نصیحت کی اور انہوں نے ابوعبدالرحمن کو نصیحت کی (کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا ضرور مانگنا)۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
الحديث الرقم 15 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : في الاستغفار، 2 / 86، الرقم : 1522، والنسائي في السنن الکبري، باب : ما يستحب من الدعاء دبر الصلوات المکتوبات، 6 / 32، الرقم : 9937، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 244، الرقم : 22172، وابن حبان في الصحيح، 5 / 365، الرقم : 2021، والحاکم في المستدرک، 1 / 407، الرقم : 1010، والبزار في المسند، 7 / 104، الرقم : 2661، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 27، الرقم : 17، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 60، الرقم : 110، والنسائي في عمل اليوم والليلة، 1 / 187، الرقم : 109، وابن السني في عمل اليوم والليلة، 1 / 45، الرقم : 119، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 300، الرقم : 2475.

فرض نمازوں کے بعد دعا کے فضائل احادیث کی روشنی میں ( 3 )

0 comments
فرض نمازوں کے بعد دعا کے فضائل احادیث کی روشنی میں ( 3 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عمرو بن میمون الاودی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے صاحبزادوں کو ان کلمات کی ایسے تعلیم دیتے جیسے استاد بچوں کو لکھنا سکھاتا ہے اور فرماتے : بیشک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر نماز کے بعد ان کلمات کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی پناہ طلب کیا کرتے تھے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے :) اے اﷲ! میں بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور میں ذلت کی زندگی کی طرف لوٹائے جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دنیا کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور عذابِ قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (حضرت عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں) جب میں نے یہ حدیث حضرت مصعب (بن سعد) کے سامنے بیان کی تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
الحديث الرقم 14 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : مايتعوذ من الجبن، 3 / 1038، الرقم : 2667، وفي کتاب : الدعوات، باب : التعوذ من عذاب القبر، 5 / 2341، الرقم : 6004، والترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في دعاء النبي وتعوذه في دبر کل صلاة، 5 / 562، الرقم : 3567، والنسائي في السنن، کتاب : الاستعاذة، باب : الاستعاذة من العجل، 8 / 267، الرقم : 5447، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 186، الرقم : 1621، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 367، الرقم : 746، وابن حبان في الصحيح، 5 / 371، الرقم : 2024، والبزار في المسند، 3 / 343، الرقم : 1144، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 18، الرقم : 29130، وأبويعلي في المسند، 2 / 110، الرقم : 771، والنسائي في عمل اليوم والليلة، 1 / 198، الرقم : 131.

فرض نمازوں کے بعد دعا کے فضائل احادیث کی روشنی میں ( 2 )

0 comments
فرض نمازوں کے بعد دعا کے فضائل احادیث کی روشنی میں ( 2 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یوں کہا کرتے تھے اور بخاری کی روایت میں ہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو یوں کہا کرتے تھے اور مسلم کی روایت میں ہے : جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوتے اور سلام پھیرتے تو اس کے بعد یوں فرماتے : نہیں ہے کوئی معبود مگر اﷲ تعالیٰ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے اﷲ! جسے تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی دولت مند کو تیرے مقابلے میں دولت نفع نہیں دے گی۔
"""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""
الحديث رقم 13 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : صفة الصلاة، باب : الذکر بعد الصلاة، 1 / 289، الرقم : 808، وفي کتاب : الدعوات، باب : الدعاء بعد الصلاة، 5 / 2332، الرقم : 5971، وفي کتاب : القدر، باب : لا مانع لما أعطي اﷲ، 6 / 2439، الرقم : 6341، وفي کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنة، باب : مايکره من کثرة السؤال وتکلف مالا يعنيه، 6 / 2659، الرقم : 6862، ومسلم في الصحيح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاة، باب : استحباب الذکر بعد الصلاة وبيان صفة، 1 / 414، الرقم : 593، والترمذي نحوه في السنن، کتاب : الصلاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : مايقول إذا أسلم من الصلاة، 2 / 96، الرقم : 299، وأبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : ما يقول الرجل إذا سلم، 2 / 82، الرقم : 1505، والنسائي في السنن، کتاب : السهو، باب : نوع آخر من الدعاء عند الانحراف من الصلاة، 3 / 70، الرقم : 1341 - 1342، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 97، 245 - 247، 250، 254 - 255، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 365، الرقم : 742، وابن حبان في الصحيح، 5 / 345، الرقم : 2005، 2007، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 269، الرقم : 3096، 6 / 32، الرقم : 29260، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 244، الرقم : 3224، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 185، الرقم : 2840، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 388، الرقم : 914.

فرض نمازوں کے بعد دعا کے فضائل احادیث کی روشنی میں ( 1 )

1 comments
فرض نمازوں کے بعد دعا کے فضائل احادیث کی روشنی میں ( 1 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا گیا : کس وقت کی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رات کے آخری حصے میں (کی گئی دعا) اور فرض نمازوں کے بعد (کی گئی دعا جلد مقبول ہوتی ہے ۔
""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""
الحديث رقم 12 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (79)، 5 / 526، الرقم : 3499، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 32، الرقم : 9936، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 424، الرقم : 3944، والنسائي في عمل اليوم والليلة، 1 / 186، الرقم : 108، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 370، الرقم : 3428، وفي مسند الشاميين، 1 / 454، الرقم : 803، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 477، الرقم : 839 - 840، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 273، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 321، الرقم : 2550، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 134.

فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 11 )

0 comments
فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 11 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تین (قسم کے لوگوں کی) دعائیں بلاشک و شبہ مقبول ہیں، مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد کی اپنی اولاد کے لئے کی گئی بد دعا۔
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 11 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : البر والصلة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في دعوةِ الوالدين، 4 / 314، الرقم : 1905، وفي کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما ذکر في دعوة المسافر، 5 / 502

فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 10 )

0 comments
فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 10 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دعاؤں میں سب سے جلدی قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو ایک غائب شخص (اخلاص کے ساتھ) دوسرے غائب شخص کے لئے کرے۔
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 10 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : البر والصلة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في دعوة الأخ لأخيه بظهر الغيب، 4 / 352، الرقم : 1980، وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : الدعاء بظهر الغيب، 2 / 89، الرقم : 1535، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 21، الرقم : 29159، والديلمي في الفردوس بما ثور الخطاب، 1 / 369، الرقم : 1490، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 1331، الرقم : 327، 331، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 265، الرقم : 1328 - 1330، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 43، الرقم : 4734.

فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 9 )

0 comments
فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 9 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ام درداء رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے : مسلمان کی اپنے بھائی کے لئے اس کی عدم موجودگی میں کی جانے والی دعا مقبول ہوتی ہے۔ اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے جب بھی وہ اپنے اس بھائی کے لئے نیک دعا کرتا ہے، تو فرشتہ کہتا ہے آمین اور تجھے بھی ایسے ہی نصیب ہو (جیسے کہ تو نے اپنے بھائی کے لئے دعا کی ہے ۔
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 9 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب : فضل الدعاء للمسلمين بظهر الغيب، 4 / 2094، الرقم : 2733، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 452، الرقم : 27599، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 353، وابن غزوان في کتاب الدعاء، 1 / 234، الرقم : 63.

فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 8 )

0 comments
فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 8 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لئے اس کی عدم موجودگی میں دعا کرتا ہے تو (مقرر کردہ) فرشتہ کہتا ہے تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو (جو تو نے اپنے بھائی کے لئے دعا کی ہے ۔
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 8 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب : فضل الدعاء للمسلمين بظهر الغيب، 4 / 2094، الرقم : 2732، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 452، الرقم : 37598، وابن حبان في الصحيح، 3 / 268، الرقم : 989، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 21، الرقم : 29158 - 29161.

فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 7 )

0 comments
فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 7 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : اے ابن آدم! جب تک تو مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور امید رکھے گا جو کچھ بھی تو کرتا رہے میں تجھے بخشتا رہوں گا اور مجھے کوئی پروا نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کے بادلوں تک پہنچ جائیں پھر بھی تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر کے برابر گناہ بھی لے کر میرے پاس آئے پھر مجھے اس حالت میں ملے کہ تو نے میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو یقینا میں زمین بھر کے برابر تجھے بخشش عطا کروں گا۔
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل التوبة والاستغفار وَ مَا ذُکِرَ مِن رحمة اﷲِ لِعِبَادِه، 5 / 548، الرقم : 3540، والدارمي في السنن، 2 / 414، الرقم : 2788، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 167، الرقم : 21510 - 21544، والطبراني عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما في المعجم الکبير، 12 / 19، الرقم : 12346، وفي المعجم الأوسط، 5 / 337، الرقم : 5483، وفي المعجم الصغير، 2 / 82، الرقم : 820، والبيهقي عن أبي ذرٍ رضي الله عنه في شعب الإيمان، 2 / 17، الرقم : 1042، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 216.

فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 6 )

0 comments
فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 6 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اذان اور اقامت کے درمیان مانگی جانے والی دعا ردّ نہیں ہوتی۔
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصلاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في أَنَّ الدُّعَاءَ لَا يُرَدُّ بينَ الأَذَانِ وَالإقامَةِ، 1 / 415، الرقم : 212، وفي کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في العَفْوِ وَالْعافِيةِ، 5 / 576، الرقم : 3594 - 3595، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 22، الرقم : 9895 - 9897، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 119، الرقم : 12221، 12606، 13693، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 31، الرقم : 29247، وأبويعلي في المسند، 6 / 363، الرقم : 3679، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 / 392، الرقم : 1562، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 138، الرقم : 5139، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 334، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 102.

فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 5 )

0 comments
فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 5 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دعا کے علاوہ کوئی چیز تقدیر کو ردّ نہیں کر سکتی اور نیکی کے علاوہ کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کر سکتی۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
الحديث رقم 5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : القدر عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، 4 / 448، الرقم : 2139، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 277، 280، 282، الرقم : 22440، 22466، 22491، والحاکم في المستدرک، 1 / 670، الرقم : 1814، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 109، الرقم : 29867، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 100، الرقم : 1442، أخرجه أحمد والطبراني عن ثوبان رضي الله عنه والبزار في المسند، 6 / 501 الرقم : 2540.

فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 4 )

0 comments
فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 4 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دعا عبادت کا بھی مغز (یعنی خلاصہ اور جوہر) ہے۔
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل الدعاء، 5 / 456، الرقم : 3371، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 224، الرقم : 3087، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 2 / 113، وابن رجب في جامع العلوم والحاکم، 1 / 191، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 317، الرقم : 2534.

فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 3 )

0 comments
فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 3 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جسے پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ مشکلات اور تکالیف کے وقت اس کی دعا قبول کرے، وہ خوشحالی کے اوقات میں زیادہ سے زیادہ دعا کیا کرے۔‘‘
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 3 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء أن دعوة المسلم مستجاب، 5 / 462، الرقم : 3382، وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : الدعاء، 2 / 76، الرقم : 1479، وابن ماجه في السنن، کتاب : الدعاء، باب : فضل الدعاء، 2 / 1258، الرقم : 3828، والنسائي في السنن الکبري، باب : سورة غافر، 6 / 450، الرقم : 11464، وابن حبان في الصحيح، 3 / 172، الرقم : 890، والحاکم في المستدرک، 1 / 667، الرقم : 1802، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 267، 271، 276، وأبو يعلي في المعجم، 1 / 262، الرقم : 328، والطيالسي في المسند، 1 / 108، الرقم : 801.

فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 2 )

0 comments
فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 2 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا سے زیادہ کوئی چیز محترم و مکرّم نہیں ہے۔‘‘
ۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤ""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""
الحديث رقم 2 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل الدعاء، 5 / 455، الرقم : 3370، وابن ماجه في السنن، کتاب : الدعاء، باب : فضل الدعاء 2 / 1258، الرقم : 3829، وابن حبان في الصحيح، 3 / 151، الرقم : 870، والحاکم في المستدرک، 1 / 666، الرقم : 1801، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 362، 2523، والبيقهي في شعب الإيمان، 2 / 38، الرقم : 1106، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 249، الحدث رقم : 712.

فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 1 )

0 comments
فضائل دعا احادیث کی روشنی میں ( 1 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دعا عین عبادت ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (بطور دلیل) یہ آیت تلاوت فرمائی : ’’اور تمہارے رب نے فرمایا ہے تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا، بیشک جو لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب دوزخ میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 1 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : التفسير عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة المؤمن، 5 / 374، الرقم : 3247، وفي باب : ومن سورة البقرة، 5 / 211، الرقم : 2969، وفي کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل الدعاء، 5 / 456، الرقم : 3372، وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : الدعاء، 2 / 76، الرقم : 1479، وابن ماجه في السنن، کتاب : الدعاء، باب : فضل الدعاء، 2 / 1258، الرقم : 3828، والنسائي في السنن الکبري، سورة غافر، 6 / 450، الرقم : 11464، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 267، 271، 276، وابن حبان في الصحيح، 3 / 172، الرقم : 890، والحاکم في المستدرک، 1 / 667، الرقم : 1802، وأبو يعلي في المعجم، 1 / 262، الرقم : 328، والطيالسي في المسند، 1 / 108، الرقم : 801.

فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 10 )

0 comments
فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 10 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اﷲتعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (رحمت) بھیجتا ہے۔‘‘

اور امام ترمذی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا : ’’اوراﷲتعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں بھی اس (درود پڑھنے) کے بدلے میں لکھ دیتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
--------------------------------------------------------------------------
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصلاة، باب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم بھذا التشھد، 1 / 306، الرقم : 408، والترمذي في السنن، أبواب الوتر، باب ما جاء في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 2 / 353، 354، الرقم : 484. 485، والنسائي في السنن، کتاب السھو، باب الفضل في الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 50، الرقم : 1296، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 384، الرقم : 1219، والدارمي في السنن، 2 / 408، الرقم : 2772، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 375، الرقم : 8869. 10292.

فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 9 )

0 comments
فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 9 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبید اﷲ بن بریدہ اپنے والد حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بریدہ! جب تم اپنی نماز پڑھنے بیٹھو تو تشہد اور مجھ پر درود بھیجنا کبھی ترک نہ کرنا، وہ نماز کی زکاۃ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء اور رسولوں پر اور اُس کے صالح بندوں پر بھی سلام بھیجا کرو۔‘‘

اِس حدیث کو امام دار قطنی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
--------------------------------------------------------------------------
أخرجه الدار قطني في السنن، 1 / 355، الرقم : 3، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 392، الرقم : 8527، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 132.

فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 8 )

0 comments
فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 8 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجاکرو، بے شک میری اُمت کا درود ہر جمعہ کے روز مجھے پیش کیا جاتا ہے اور میری اُمت میں سے جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا وہ مقام و منزلت کے اعتبار سے بھی میرے سب سے زیادہ قریب ہو گا.‘‘

اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام عسقلانی نے فرمایا : اِس کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے اور امام منذری اور عجلونی نے فرمایا : اِسے امام بیہقی نے سندِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
=========================================
أخرجه البيهقي في السنن الکبری، کتاب الجمعة، باب ما يؤمر به ليلة الجمعة ويومها، 3 / 249، الرقم : 5791، وأيضًا في شعب الإيمان، 3 / 110، الرقم : 3032، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 328، الرقم : 2583، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 167، والشوکاني في نيل الأوطار، 3 / 304.

فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 7 )

0 comments
فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 7 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو، بے شک جو بھی مجھ پر جمعہ کے دن درود بھیجتا ہے اُس کا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
--------------------------------------------------------------------------
أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب التفسير، باب تفسير سورة الأحزاب، 2 / 457، الرقم : 3577، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 110، الرقم، 3030، والشوکاني في نيل الأوطار، 3 / 305.

فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 6 )

0 comments
فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 6 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کے سامنے بھی میرا ذکر ہو اسے چاہیے کہ مجھ پر درود بھیجے اور جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ (بصورتِ رحمت) اس پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے۔‘‘

اسے امام نسائی، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
--------------------------------------------------------------------------
أخرجه النسائي في السنن الکبری، کتاب عمل اليوم والليلة، باب ثواب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 6 / 21، الرقم : 9889، وأبو يعلی في المسند، 7 / 75، الرقم : 4002، وأيضًا في المعجم، 1 / 203، الرقم : 240، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 162، الرقم : 4948، والطيالسي في المسند، 1 / 283، الرقم : 6122، وأبو نعيم في حلية الأولياء ، 4 / 347، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 323، الرقم : 2559، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 163.

فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 5 )

0 comments
فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 5 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو (یعنی اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو انہیں قبرستان کی طرح ویران نہ رکھو) اور نہ ہی میری قبر کو عید گاہ بناؤ (کہ جس طرح عید سال میں دو مرتبہ آتی ہے اس طرح تم سال میں صرف ایک یا دو دفعہ میری قبر کی زیارت کرو بلکہ میری قبر کی جس قدر ممکن ہو کثرت سے زیارت کیاکرو) اور مجھ پر (کثرت سے) درود بھیجا کرو۔ سو تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابو داود، احمد اور ابن ابی شیبہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور طبرانی و بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام نووی نے فرمایا : اِسے امام ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام ابن کثير نے بھی اِن کی تائید کی ہے۔
--------------------------------------------------------------------------
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، 2 / 218، الرقم : 2042، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 367، الرقم : 8790، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 150، الرقم : 7542، وأيضًا، 3 / 30، الرقم : 11818، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 81، الرقم : 8030، والبزار عن علي رضی الله عنه في المسند، 2 / 147، الرقم : 509، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 491، الرقم : 4162، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 15، الرقم : 7307، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعائ، 1 / 44، الرقم : 27، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 13 / 516، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 316.

فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 4 )

0 comments
فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 4 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابو حمید الساعدی یا ابو اُسید الانصاری رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجے پھر کہے : ’’اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اور جب مسجد سے باہر نکلے تو کہے : ’’اے اﷲ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن ماجہ و دارمی نے روایت کیا ہے۔

امام ابو حاتم رازی نے بیان کیا کہ امام ابو زُرعہ نے فرمایا : حضرت ابو حمید اور ابو اُسید رضی اﷲ عنہما دونوں سے مروی روایات صحیح تر ہوتی ہیں۔ اور امام مناوی نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام کو محبوب، ضروری اور لازم سمجھتے ہوئے عرض کرنا چاہیے کیوں کہ مساجد ذکر کرنے کی جگہ ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنا بھی ذکر الٰہی ہی ہے۔
--------------------------------------------------------------------------
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب فيما يقوله الرجل عند دخوله المسجد، 1 / 126، الرقم : 465، وابن ماجه في السنن، کتاب المساجد والجماعات، باب الدعاء عند دخول المسجد، 1 / 254، الرقم : 772، والدارمي في السنن، 1 / 377، الرقم : 1394، وابن حبان في الصحيح، 5 / 397، الرقم : 2048، والرازي في علل الحديث، 1 / 178، الرقم : 509  .

فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 3 )

0 comments
فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 3 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
’حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اور اس نے نماز ادا کی اور یہ دعا مانگی : ’’اے اﷲ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما.‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے نمازی! تو نے جلدی کی جب نماز پڑھ چکو تو پھر سکون سے بیٹھ جاؤ، پھر اللہ تعالیٰ کے شایان شان اس کی حمد و ثنا کرو، اور پھر مجھ پر درود و سلام بھیجو اور پھر دعا مانگو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر ایک اور شخص نے نماز ادا کی، تو اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے نمازی! (اپنے رب) سے مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا.‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام منذری نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا : اس کی سند میں رشدین بن سعد ہیں جن کی روایات رقاق میں مقبول ہیں اور بقیہ تمام رجال بھی ثقہ ہیں۔
--------------------------------------------------------------------------
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب ما جاء في جامع الدعوات عن النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 516، الرقم : 3476، والنسائي في السنن، کتاب السهو، باب التمجيد والصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم في الصلاة، 3 / 44، الرقم : 1284، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 380، الرقم : 1207، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 351، الرقم : 709، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 307، الرقم : 792، 794. 795، وأيضًا في الدعائ / 46، الرقم : 89. 90، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 319، الرقم : 2544، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 155.

فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 2 )

0 comments
فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 2 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی حاضری کا خصوصی دن) ہے۔ اِس دن فرشتے (کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں، جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اُس کے فارغ ہونے تک اُس کا درود میرے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) اور آپ کے وصال کے بعد (کیا ہو گا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں (میری ظاہری) وفات کے بعد بھی (میرے سامنے اسی طرح پیش کیا جائے گا کیوں کہ) اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاءِ کرام علیھم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ سو اﷲ تعالیٰ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اُسے رزق بھی عطا کیا جاتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا : اِسے امام ابن ماجہ نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام مناوی نے بیان کیا کہ امام دمیری نے فرمایا : اِس کے رجال ثقات ہیں۔ امام عجلونی نے بھی اسے حدیثِ حسن کہا ہے۔
--------------------------------------------------------------------------
أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 / 524، الرقم : 1637، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 328، الرقم : 2582، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 515، 4 / 493، والمناوي في فيض القدير، 2 / 87، والعجلوني في کشف الخفائ، 1 / 190، الرقم : 501.

فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 1 )

0 comments
فضائل درود و سلام احادیث کی روشنی میں ( 1 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔ اِس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ سو اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیوں کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ کیا آپ کا جسدِ مبارک خاک میں نہیں مل چکا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (نہیں ایسا نہیں ہے) اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَنبیاءِ کرام (علیھم السلام) کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام فرما دیا ہے۔‘‘

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ برزگ و برتر نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ ہمارے جسموں کو کھائے۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابو داود، نسائی، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث امام بخاری کی شرائط پر صحیح ہے اور امام وادیاشی نے بھی فرمایا : اِسے امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور امام عسقلانی نے فرمایا : اِسے امام ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے اور امام عجلونی نے فرمایا : اِسے امام بیہقی نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ علامہ ابن کثير نے فرمایا : اِسے امام ابن خزیمہ، ابن حبان، دار قطنی اور نووی نے الاَذکار میں صحیح قرار دیا ہے۔
--------------------------------------------------------------------------
أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الصلاة، باب فضل یوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 / 275، الرقم : 1047، وأيضًا في کتاب الصلاة، باب في الاستغفار، 2 / 88، الرقم : 1531، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب بإکثار الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 / 91، الرقم : 1374، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 519، الرقم : 1666، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة، باب في فضل الجمعة، 1 / 345، الرقم : 1085، والدارمي في السنن، 1 / 445، الرقم : 1572، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 8، الرقم : 16207، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8697، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 118، الرقم : 1733.1734، وابن حبان في الصحيح، 3 / 190، الرقم : 910، والحاکم في المستدرک، 1 / 413، الرقم : 1029، والبزار في المسند، 8 / 411، الرقم : 3485، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 97، الرقم : 4780، وأيضًا في المعجم الکبير، 1 / 261، الرقم : 589، والبيهقي في السنن الصغری، 1 / 371، الرقم : 634، وأيضًا في السنن الکبری، 3 / 248، الرقم : 5789، وأيضًا في شعب الإيمان، 3 / 109، الرقم : 3029، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم  / 37، الرقم : 22، والوادياشي في تحفة المحتاج، 1 / 524، الرقم : 661، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 370، والعجلوني في کشف الخفائ، 1 / 190، الرقم : 501، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 515.

فضایل دردو سلام قرآن کی روشنی میں

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاo

(الأحزاب، 33 : 56)

’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو o‘‘

2. هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًاo

(الأحزاب، 33 : 43)

’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہےo‘‘

Wednesday 27 May 2015

مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 10 )

0 comments
مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 10 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اﷲ عنہما دونوں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 11 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب : قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2540، الرقم : 6532، وفي کتاب : فضائل القرآن، باب : إثم من رائي بقرائة القرآن أو تاکل به أو فخر به، 4 / 1928، الرقم : 4771، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 743، الرقم : 1064، ومالک في الموطأ، کتاب : القرآن، باب : ماجاء في القرآن، 1 / 204، الرقم : 478، والنسائي في السنن الکبري، 3 / 31، الرقم : 8089، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 60، الرقم : 11596، وابن حبان في الصحيح، 15 / 132، الرقم : 6737، والبخاري في خلق أفعال العباد، 1 / 53 وا بن أبي شيبة في المصنف، 7 / 560، الرقم : 37920، وأبويعلي في المسند، 2 / 430، الرقم : 1233.

مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 9 )

0 comments
مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 9 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قوم کا ذکر کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں پیدا ہو گی، اس کا ظہور اس وقت ہوگا جب لوگوں میں فرقہ بندی ہو جائے گی۔ ان کی علامت سر منڈانا ہوگی اور وہ مخلوق میں سب سے بدتر (یا بدترین) ہوں گے اور انہیں دوجماعتوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کی ایک مثال بیان فرمائی کہ جب آدمی کسی شکار یا نشانہ کو تیر مارتا ہے تو پر کو دیکھتا ہے اس میں کچھ اثر نہیں ہوتا اور تیر کی لکڑی کو دیکھتا ہے اور وہاں بھی اثر نہیں ہوتا، پھر اس حصہ کو دیکھتا ہے جو تیر انداز کی چٹکی میں ہوتا ہے تو وہاں بھی کچھ اثر نہیں پاتا۔‘‘
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 10 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 745، الرقم : 1065، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 5، الرقم : 11031، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 622، الرقم : 1482، وقال : إسناده صحيح.

مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 8 )

0 comments
مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 8 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو! میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی وہ ایسا (خوبصورت) قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی اور نہ ہی ان کے روزوں کے سامنے تمہارے روزوں کی کوئی حیثیت ہو گی اور نہ ہی ان کے روزوں کے سامنے تمھارے روزوں کی کوئی حیثیت ہو گی۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 9 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 748، الرقم : 1066، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 244، الرقم : 4768، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 163، الرقم : 8571، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 91، الرقم : 706، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 147؛ والبزار في المسند، 2 / 197، الرقم : 581، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 445. 446، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 170.

مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 7 )

0 comments
مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 7 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر واپس نہ لوٹ آئے۔ دریافت کیا گیا کہ ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا ہے یا فرمایا : سر منڈائے رکھنا ہے۔

اور مسلم کی روایت میں ہے : يُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوارج کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : ہاں! میں نے سنا ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہا : وہ (وہاں سے نکلیں گے اور) اپنی زبانوں سے قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔‘‘
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قراءة الفاجر والمنافق وأصواتهم وتلاوتهم لا تجاوز حنا جرهم، 6 / 2748، الرقم : 7123، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : الخوارج شر الخلق والخليفة، 2 / 750، الرقم : 1068، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 64، الرقم : 11632، 3 / 486، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 563، الرقم : 37397، وأبويعلي في المسند، 2 / 408، الرقم : 1193، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 91، الرقم : 5609، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 490، الرقم : 909، وقال : إسناده صحيح، وأبونعيم في المسند المستخرج، 3 / 135، الرقم : 2390.

مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 6 )

0 comments
مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 6 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا : جعرانہ کے مقام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما رہے ہیں تو ایک شخص نے کہا : عدل کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو۔ اگر میں بھی عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے اجازت عطا فرمائیں کہ میں اس خبیث منافق کو قتل کردوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں لوگوں کے اس قول سے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہوں اﷲ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بے شک یہ اور اس کے ساتھی (نہایت شیریں انداز میں) قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ دین کے دائرے سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 354، الرقم : 1461، وأبونعيم في المسند المستخرج، 3 / 127، الرقم : 2372.

مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 5 )

0 comments
مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 5 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث منافق) کی گردن اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہوگا اور تیر (جانور کے) گو بر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق نہ ہو گا)۔‘‘
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استابة المرتدين والمعاندين، باب : مَن ترک قتال الخوارجِ لِلتَّألُّفِ، وَ لِئَلَّا يَنْفِرَ النَّاسُ عَنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، 6532، وفي کتاب : المناقب، باب : علاماتِ النُّبُوّةِ في الإِسلامِ، 3 / 1321، الرقم : 3414، وفي کتاب : فضائل القرآن، باب : البکاء عند قراء ة القرآن، 4 / 1928، الرقم : 4771، وفي کتاب : الأدب، باب : ما جاء في قول الرَّجلِ ويْلَکَ، 5 / 2281، الرقم : 5811، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064، ونحوه النسائي عن أبي برزة رضي الله عنه في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4103، وفي السنن الکبري، 6 / 355، الرقم : 11220، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 61، الرقم : 172، وابن الجارود في المنتقي، 1 / 272، الرقم : 1083، وابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم : 6741، والحاکم عن أبي برزة رضي الله عنه في المستدرک، 2 / 160، الرقم : 2647، وقال : هَذَا حَدِيثٌ صَحِيْحٌ، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 56، الرقم : 11554، 14861، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 562، الرقم : 37932، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 146، ونحوه البزار عن أبي برزة رضي الله عنه في المسند، 9 / 305، الرقم : 3846، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 35، الرقم : 9060، وأبويعلي في المسند، 2 / 298، الرقم : 1022، والبخاري عن جابر رضي الله عنه في الأدب المفرد، 1 / 270، الرقم : 774.

مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 4 )

0 comments
مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 4 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔‘‘

’’امام ابو عیسیٰ ترمذی نے اپنی سنن میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : یہ روایت حضرت علی، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنھم سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کے علاوہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبکہ ایک ایسی قوم ظاہر ہو گی جس میں یہ اوصاف ہوں گے جو قرآن مجید کو تلاوت کرتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلقوں سے نہیں اترے گا وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ بیشک وہ خوارج حروریہ ہوں گے اور اس کے علاوہ خوارج میں سے (دیگر فرقوں پر مشتمل) لوگ ہوں گے۔‘‘
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب : قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، الرقم : 6531، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 746، الرقم : 1066، والترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في صفة المارقة، 4 / 481، الرقم : 2188، والنسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4102، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 59، الرقم : 168، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 81، 113، 131، الرقم : 616، 912، 1086، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 553، الرقم : 37883، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 157، والبزار في المسند، 2 / 188، الرقم : 568، وأبويعلي في المسند، 1 / 273، الرقم : 324، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 170، والطبراني في المعجم الصغير، 2 / 213، الرقم : 1049، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 443، الرقم : 914، والطيالسي في المسند، 1 / 24، الرقم : 168.

مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 3 )

0 comments
مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 3 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے مٹی میں ملا ہوا تھوڑا سا سونا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس جو بنی مجاشع کا ایک فرد تھا اور عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری، جو بنی کلاب سے تھا اور زید الخیل طائی، جو بنی نبہان سے تھا ان چاروں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو ناراضگی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اہلِ نجد کے سرداروں کو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تو ان کی تالیفِ قلب کے لئے کرتا ہوں. اسی اثناء میں ایک شخص آیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی، گال پھولے ہوئے اور سرمنڈا ہوا تھا اور اس نے کہا : اے محمد! اﷲ سے ڈرو، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا کون ہے؟ اگر میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں حالانکہ اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں مانتے۔ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا (اور ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ ’’اس شخص نے کہا : اے محمد اﷲ سے ڈرو اور عدل کرو، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان والوں کے ہاں میں امانتدار ہوں اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ فرمایا : ہاں، سو وہ گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو (واپس پلٹ آئے اور) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : میں نے اسے نماز پڑھتے پایا (اس لئے قتل نہیں کیا) تو کسی دوسرے صحابی نے عرض کیا : میں اس کی گردن کاٹ دوں؟) جب وہ چلا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔‘‘
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 4 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قول اﷲ تعالي : تعرج الملائکة والروح إليه، 6 / 2702، الرقم : 6995، وفي کتاب : الأنبياء، باب : قول اﷲ عزوجل : وأما عاد فأهلکوا بريح صرصر شديدة عاتية، 3 / 1219، الرقم : 3166، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 741، الرقم : 1064، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4764، والنسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 118، الرقم : 4101، وفي کتاب : الزکاة، باب : المؤلفة قلوبهم، 5 / 87، الرقم : 2578، وفي السنن الکبري، 6 / 356، الرقم : 11221، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، 73، الرقم : 11666، 11713، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 156، وأبونعيم في المسند المستخرج، 3 / 127، الرقم : 2373.

مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 2 )

0 comments
مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 2 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ بنی تمیم سے تھا کہا : یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، کیونکہ اس کے (ایسے) ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے، پھر اس کے پیکان پر کچھ نظر نہیں آتا، اس کے پٹھے پر بھی کچھ نظر نہیں آتا، اس کی لکڑی پر بھی کچھ نظر نہیں آتا اور نہ اس کے پروں پر کچھ نظر آتا ہے، وہ گوبر اور خون کو بھی چھوڑ کر نکل جاتا ہے۔ وہ لوگوں میں فرقہ بندی کے وقت (اسے ہوا دینے کے لئے) نکلیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہلتا ہو گا۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث پاک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب ان (خارجی) لوگوں سے جنگ کی گئی، اس شخص کو مقتولین میں تلاش کیا گیا تو اس وصف کا ایک آدمی مل گیا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا تھا۔‘‘
--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأدب، باب : ماجاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2281، الرقم : 5811، وفي کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب : من ترک قتال الخوارج للتألف وأن لا ينفر الناس عنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 159، الرقم : 8560 - 8561، 6 / 355، الرقم : 11220، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 65، الرقم : 11639، وابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم : 6741، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 146.

مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 1 )

0 comments
مرتدوں ، خوارجیوں اور نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کو پہچانیئے ( 1 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا تھا اور وہ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہلِ زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ--------------------------------------------------------------------------
الحديث رقم 1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : بعث علي بن أبي طالب وخالد بن الوليد رضي اﷲ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 742، الرقم : 1064، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم : 11021، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم : 2373، وابن حبان في الصحيح، 1 / 205، الرقم : 25، وأبويعلي في المسند، 2 / 390، الرقم : 1163، وأبونعيم في المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم : 2375، وفي حلية الأولياء، 5 / 71، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم : 4094، وفي حاشية ابن القيم، 13 / 16، والسيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم : 1064، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188، 192.

Monday 25 May 2015

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی نبی کریم ﷺ والہانہ محبت و وارفتگی

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کس طرح چہرہ نبوت کے دیدارِ فرحت آثار سے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کیا کرتے تھے اور ان کے نزدیک پسند و دلبستگی کا کیا معیار تھا، اس کا اندازہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یارِ غار سے متعلق درج ذیل روایت سے بخوبی ہو جائے گا :

ایک مرتبہ حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے تمہاری دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں : خوشبو، نیک خاتون اور نماز جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے سنتے ہی عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے بھی تین ہی چیزیں پسند ہیں :

النظر إلی وجه رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، و إنفاق مالی علی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، وأن يکون ابنتی تحت رسول اﷲ.

ابن حجر، منبهات : 21، 22

’’آپ صلی اﷲ عليک وسلم کے چہرۂ اقدس کو تکتے رہنا، اللہ کا عطا کردہ مال آپ صلی اﷲ عليک وسلم کے قدموں پر نچھاور کرنا اور میری بیٹی کا آپ صلی اﷲ عليک وسلم کے عقد میں آنا۔‘‘

جب انسان خلوصِ نیت سے اللہ تعالیٰ سے نیک خواہش کا اظہار کرتا ہے تو وہ ذات اپنی شانِ کریمانہ کے مطابق اُسے ضرور نوازتی ہے۔ اس اصول کے تحت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی تینوں خواہشیں اللہ تعالیٰ نے پوری فرما دیں۔

آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نکاح میں قبول فرما لیا۔ آپ کو سفر و حضر میں رفاقتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب رہی یہاں تک کہ غارِ ثور کی تنہائی میں آپ کے سوا کوئی اور زیارت سے مشرف ہونے والا نہ تھا، اور مزار میں بھی أوصلوا الحبيب إلی الحبيب کے ذریعے اپنی دائمی رفاقت عطا فرما دی۔ اسی طرح مالی قربانی اس طرح فراوانی کے ساتھ نصیب ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ما نفعنی مال أحد قط ما نفعنی مال أبی بکر.

ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم : 23661
ابن ماجه، السنن، 1 : 36، مقدمه، باب فضائل الصحابه، رقم : 394
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 4253
ابن حبان، الصحيح، 15 : 273، رقم : 56858
ابن ابی شيبه، المصنف، 6 : 348، رقم : 631927
طحاوی، شرح معانی الآثار، 4 : 7158
هيثمی، موارد الظمان، 1 : 532، رقم : 86621
قرطبی، تفسيرالجامع لاحکام القرآن، 3 : 9418
خطيب بغدادی، تاریخ بغداد، 10 : 363، رقم : 105525
طبری، الرياض النضره، 2 : 16، رقم : 11116412
احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 65، رقم : 1225
سيوطی، تاريخ الخلفاء : 30

’’مجھے جس قدر نفع ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے اتنا کسی اور کے مال نے نہیں دیا۔‘‘

دوسرے مقام پر مال کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحبت کا ذکر بھی فرمایا :

إن (مِن) أَمَّن الناس علیّ فی صحبته و ماله أبو بکر.

بخاری، الصحيح، 1 : 177، کتاب المساجد، رقم : 2454
ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 608، ابواب المناقب، رقم : 33660
نسائی، السنن الکبریٰ، 5 : 35، رقم : 48102
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 518
ابن حبان، الصحيح، 14 : 558، رقم : 66594
ابن ابی شيبه، المصنف، 6 : 348، رقم : 731926
نسائی، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 82
احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 61، رقم : 921
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 10227
طبری، الرياض النضره، 2 : 12، رقم : 109405

’’لوگوں میں سے مجھے اپنی رفاقت دینے اور اپنا مال خرچ کرنے کے لحاظ سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی والہانہ محبت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے والد گرامی سارا دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر رہتے، جب عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر گھر آتے تو جدائی کے یہ چند لمحے کاٹنا بھی اُن کے لئے دشوار ہو جاتا۔ وہ ساری ساری رات ماہی بے آب کی طرح بیتاب رہتے، ہجر و فراق کی وجہ سے ان کے جگرِ سوختہ سے اس طرح آہ نکلتی جیسے کوئی چیز جل رہی ہو اور یہ کیفیت اس وقت تک رہتی جب تک وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو دیکھ نہ لیتے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے وصال کا سبب بھی ہجر و فراقِ رسول ہی بنا۔ آپ کا جسم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے صدمے سے نہایت ہی لاغر ہو گیا تھا، حتی کہ اسی صدمے سے آپ رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا۔

علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوبیت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہجر کے سوز و گداز کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

قوتِ قلب و جگر گردد نبی
از خدا محبوب تر گردد نبی

ذرۂ عشقِ نبی اَز حق طلب
سوزِ صدیق و علی اَز حق طلب

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی دل و جگر کی تقویت کا باعث بنتی ہے اور شدت اختیار کرکے خدا سے بھی زیادہ محبوب بن جاتی ہے۔ تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کا ذرہ حق تعالیٰ سے طلب کر اور وہ تڑپ مانگ جو حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ اور مولا علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ میں تھی۔)

سیّدُنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور شوق دیدار مصطفیٰ ﷺ

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 مکہ معظمہ میں اسلام کا پہلا تعلیمی اور تبلیغی مرکز کوہِ صفا کے دامن میں واقع دارِارقم تھا، اسی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس فرماتے۔ ابھی مسلمانوں کی تعداد 39 تک پہنچی تھی کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ کفار کے سامنے دعوتِ اسلام اعلانیہ پیش کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منع فرمانے کے باوجود انہوں نے اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت مرحمت فرما دی۔

و قام أبو بکر فی الناس خطيباً و رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم جالس، فکان أول خطيب دعا إلی اﷲ عزوجل وإلی رسوله صلی الله عليه وآله وسلم.

ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 3 : 230
حلبی، السيرة الحلبيه، 1 : 3475
ديار بکری، تاريخ الخميس، 1 : 4294
طبری، الرياض النضره، 1 : 397

’’سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر خطبہ دینا شروع کیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ پس آپ ہی وہ پہلے خطیب (داعی) تھے جنہوں نے (سب سے پہلے) اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوگوں کو بلایا۔‘‘

اسی بنا پر آپ کو اسلام کا ’’خطیب اوّل‘‘ کہا جاتا ہے۔ نتیجتاً کفار نے آپ رضی اللہ عنہ پر حملہ کر دیا اور آپ کو اس قدر زد و کوب کیا کہ آپ خون میں لت پت ہو گئے، انہوں نے اپنی طرف سے آپ کو جان سے مار دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، جب انہوں نے محسوس کیا کہ شاید آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی ہے تو اسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ کے خاندان کے لوگوں کو پتہ چلا تو وہ آپ کو اٹھا کر گھر لے گئے اور آپس میں مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ ہم اس ظلم و تعدی کا ضرور بدلہ لیں گے لیکن ابھی آپ کے سانس اور جسم کا رشتہ برقرار تھا۔

آپ کے والدِ گرامی ابو قحافہ، والدہ اور آپ کا خاندان آپ کے ہوش میں آنے کے انتظار میں تھا، مگر جب ہوش آیا اور آنکھ کھولی تو آپ رضی اللہ عنہ کی زبانِ اقدس پر جاری ہونے والا پہلا جملہ یہ تھا :

ما فعل برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘

تمام خاندان اس بات پر ناراض ہو کر چلا گیا کہ ہم تو اس کی فکر میں ہیں اور اسے کسی اور کی فکر لگی ہوئی ہے۔ آپ کی والدہ آپ کو کوئی شے کھانے یا پینے کے لئے اصرار سے کہتیں، لیکن اس عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر مرتبہ یہی جواب ہوتا، کہ اس وقت تک کچھ کھاؤں گا نہ پیوں گا جب تک مجھے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر نہیں مل جاتی کہ وہ کس حال میں ہیں۔ لختِ جگر کی یہ حالتِ زار دیکھ کر آپ کی والدہ کہنے لگیں :

واﷲ! ما لی علم بصاحبک.

’’خدا کی قسم! مجھے آپ کے دوست کی خبر نہیں کہ وہ کیسے ہیں؟‘‘

آپ رضی اللہ عنہ نے والدہ سے کہا کہ حضرت اُمِ جمیل رضی اللہ عنہا بنت خطاب سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے پوچھ کر آؤ۔ آپ کی والدہ امِ جمیل رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ماجرا بیان کیا۔ چونکہ انہیں ابھی اپنا اسلام خفیہ رکھنے کا حکم تھا اس لئے انہوں نے کہا کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے دوست محمد بن عبداللہ کو نہیں جانتی۔ ہاں اگر تو چاہتی ہے تو میں تیرے ساتھ تیرے بیٹے کے پاس چلتی ہوں۔ حضرت اُمِ جمیل رضی اللہ عنہا آپ کی والدہ کے ہمراہ جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں تو ان کی حالت دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور کہنے لگیں :

إنی لأرجو أن ينتقم اﷲ لک.

’’مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور اُن سے تمہارا بدلہ لے گا۔‘‘

آپ نے فرمایا! ان باتوں کو چھوڑو مجھے صرف یہ بتاؤ :

ما فعل برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘

انہوں نے اشارہ کیا کہ آپ کی والدہ سن رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا : فکر نہ کرو بلکہ بیان کرو۔ انہوں نے عرض کیا :

سالم صالح.

’’(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محفوظ اور خیریت سے ہیں۔‘‘

پوچھا :

فأين هو؟

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس وقت) کہاں ہیں؟‘‘

انہوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دارِ ارقم میں ہی تشریف فرما ہیں۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا :

ان لا أذوق طعاما أو شرابا أو آتی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم.

ابن کثير، البدايه والنهايه، (السيرة)، 3 : 230
حلبی، السيرة الحلبيه، 1 : 3476
طبری، الرياض النضره، 1 : 4398
ديار بکری، تاريخ الخميس، 1 : 294

’’میں اس وقت تک کھاؤں گا نہ کچھ پیوں گا جب تک کہ میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان آنکھوں سے بخیریت نہ دیکھ لوں۔‘‘

شمعِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پروانے کو سہارا دے کر دارِ ارقم لایا گیا، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عاشقِ زار کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا تو آگے بڑھ کر تھام لیا اور اپنے عاشقِ زار پر جھک کر اس کے بوسے لینا شروع کر دیئے۔ تمام مسلمان بھی آپ کی طرف لپکے۔ اپنے یارِ غمگسار کو زخمی حالت میں دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عجیب رقت طاری ہو گئی۔

اُنہوں نے عرض کیا کہ میری والدہ حاضر خدمت ہیں، ان کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دولتِ ایمان سے نوازے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور وہ دولتِ ایمان سے شرف یاب ہوگئیں۔

آقا کریم ﷺ کے دیدار سے بھوک کو مٹانا سبحان اللہ سبحان اللہ

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر میں قحط سالی کے دور میں حکومت کے جمع شدہ ذخیرے سے قحط زدہ عوام میں غلے کی تقسیم کا نظام قائم فرمایا۔ ابھی آئندہ فصل کے آنے میں تین ماہ باقی تھے کہ غلے کا سٹاک ختم ہو گیا۔ اس پر حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ افلاس زدہ لوگوں کو غلے کی فراہمی کیسے ہو گی۔ وہ اس فکر میں غلطاں تھے کہ اللہ رب العزت نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بذریعہ جبرئیل علیہ السلام یہ پیغام دیا کہ اپنے چہرے کو بے نقاب کر دیجئے، اس طرح بھوکے لوگوں کی بھوک کا مداوا ہو جائے گا۔ روایات میں ہے کہ جو بھوکا شخص حضرت یوسف علیہ السلام کا دیدار کر لیتا اس کی بھوک مٹ جاتی۔

شمائل الترمذی : 27، حاشيه : 3

قرآنِ حکیم نے زنانِ مصر کا ذکر کیا ہے کہ وہ کس طرح حسنِ یوسف علیہ السلام کی دید میں اتنا محو اور بے خود ہو گئیں کہ انہیں اپنے ہاتھوں کی انگلیاں کٹ جانے کا احساس بھی نہ رہا ۔

یہ تو حسنِ یوسفی کی بات ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تمام انبیاء علیہم السلام کی صفات و کمالات کے جامع ہیں۔ اس لئے حسن و جمال کی بے خود کر دینے والی کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس میں اس درجہ موجود تھی کہ اسے حیطۂ بیان میں نہیں لایا جاسکتا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت بھوکوں کی بھوک رفع کرنے کا ذریعہ بنتی تھی، چہرۂ اقدس کے دیدار کے بعد بھوک اور پیاس کا احساس کہاں رہتا؟

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت کا شانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے کہ :

لا يخرج فيها و لا يلقاه فيها أحد.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے کبھی اس وقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی کوئی آپ سے ملاقات کرتا۔‘‘

پھر یوں ہوا کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی بھوک سے مغلوب باہر تشریف لے آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیقِ غار سے پوچھا :

ما جاء بک يا أبا بکر؟

اے ابوبکر! تم اس وقت کیسے آئے ہو؟

اس وفا شعار عجزو نیاز کے پیکر نے ازراہِ مروّت عرض کیا :

خرجت ألقی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وأنظر فی وجهه و التسليم عليه.

’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف آپ کی ملاقات، چہرہ انور کی زیارت اور سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘

تھوڑی دیر بعد ہی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوگئے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا :

ما جاء بک يا عمر؟

’’اے عمر! تمہیں کون سی ضرورت اس وقت یہاں لائی؟‘‘

شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے نے عرض کی :

الجوع، یا رسول اﷲ!

’’یا رسول اللہ! بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘

والی کون و مکان رحمتِ کل جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

و أنا قد وجدت بعض ذلک.

ترمذی، الجامع الصحيح، 4 : 583، ابواب الزهد، رقم : 22369
ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 312، رقم : 3373
حاکم، المستدرک، 4 : 145، 47178
طبری، الرياض النضره، 1 : 340

’’اور مجھے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘

تو ہادیء برحق نبی مکرم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دونوں جاں نثاروں کے ہمراہ اپنے ایک صحابی حضرت ابو الہیثم بن تیہان انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ ابو الہیثم رضی اللہ عنہ کا شمار متمول انصار میں ہوتا تھا۔ آپ کھجوروں کے ایک باغ کے مالک تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے وقت صاحبِ خانہ گھر پر موجود نہ تھے، اُن کی اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گئے ہوئے ہیں۔ اتنے میں ابوالہیثم رضی اللہ عنہ بھی آ گئے۔ جب دیکھا کہ آج سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے غریب خانے کو اعزاز بخشا ہے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی، وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دو صحابہ رضی اللہ عنھم کے ساتھ اپنے گھر میں دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی خوشی کا اظہار کیسے کریں، کیسے بارگاہِ خداوندی میں سجدۂ شکر بجا لائیں؟ ایک عجیب سی کیف و سرور اور انبساط کی لہر نے اہلِ خانہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور گھر کے در و دیوار بھی خوشی سے جھوم اٹھے تھے۔ حضرت ابوالہیثم رضی اللہ عنہ پر جو کیفیت طاری ہوئی اس کے بارے میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

يلتزم النبی صلی الله عليه وآله وسلم و يفديه بأبيه و أمه.

ترمذی، الجامع الصحيح، 4 : 583، ابواب الزهد، رقم : 22369
ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 312، رقم : 3373
حاکم، المستدرک، 4 : 145، رقم : 47178
طبری، الرياض النضره، 1 : 340

’’(حضرت ابوالہیثم رضی اللہ عنہ آتے ہی) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لپٹ گئے اور کہتے جاتے میرے ماں باپ آپ صلی اﷲ عليک وسلم پر قرباں ہوں۔‘‘

بعد ازاں حضرت ابو الہیشم رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ان دو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو اپنے باغ میں لے گئے، تازہ کھجوریں پیش کیں اور کھانا کھلایا۔

شمائلِ ترمذی کے حاشیہ پر مذکورہ حدیث کے حوالے سے یہ عبارت درج ہے :

لعل عمر رضی الله عنه جاء ليتسلي بالنظر في وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کما کان يصنع أهل مصر في زمن يوسف عليه السلام، و لعل هذا المعني کان مقصود أبي بکر رضی الله عنه و قد أدي بالطف وجه کأنه خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لما ظهر عليه بنور النبوة أن أبابکر طالب ملاقاته، و خرج أبوبکر لما ظهر عليه بنور الولاية أنه صلي الله عليه وآله وسلم خرج في هذا الوقت لانجاح مطلوبه.

شمائل الترمذي : 27، حاشيه : 3

’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس لئے تشریف لائے تھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے اپنی بھوک مٹانا چاہتے تھے، جس طرح مصر والے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن سے اپنی بھوک کو مٹا لیا کرتے تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عمل میں بھی یہی راز مضمر تھا۔ مگر رفیقِ سفر نے اپنا مدعا نہایت ہی لطیف انداز میں بیان کیا اور یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پُر نورِ نبوت کی وجہ سے آشکار ہو چکا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ طالبِ ملاقات ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر نورِ ولایت کی وجہ سے واضح ہو چکا تھا کہ اس گھڑی آقائے مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار انہیں ضرور نصیب ہو گا۔‘‘

صحابہ کرام کی نماز اور زیارت و خیال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسین منظر : ۔ پیشکش ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرضِ وصال میں جب تین دن تک حجرۂ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے تو وہ نگاہیں جو روزانہ دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرفِ دلنوازسے مشرف ہوا کرتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئیں۔ جان نثاران مصطفیٰ سراپا انتظار تھے کہ کب ہمیں محبوب کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ بالآخر وہ مبارک و مسعود لمحہ ایک دن حالتِ نماز میں انہیں نصیب ہوگیا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایامِ وصال میں جب نماز کی امامت کے فرائض سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سپرد تھے، پیر کے روز تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں حسب معمول باجماعت نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدرے افاقہ محسوس کیا۔ آگے روایت کے الفاظ ہیں :

فکشف النبی صلي الله عليه وآله وسلم ستر الحجرة، ينظرإلينا و هو قائمٌ، کأن وجهه ورقة مصحف، ثم تبسم.

بخاری، الصحيح، 1 : 240، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 2648
مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلوة، رقم : 3419
ابن ماجه، السنن، 1 : 519، کتاب الجنائز، رقم : 41664
احمد بن حنبل، 3 : 5163
بيهقی، السنن الکبریٰ، 3 : 75، رقم : 64825
ابن حبان، الصحيح، 15 : 296، رقم : 76875
ابوعوانه، المسند، 1 : 446، رقم : 81650
نسائی، السنن الکبریٰ، 4 : 2261 رقم : 97107
عبدالرزاق، المصنف، 5 : 433، رقم
حميدی، المسند، 2 : 501، رقم : 111188
عبد بن حمید، المسند، 1 : 352، رقم : 121163
ابويعلی، المسند، 6 : 250، رقم : 3548

’’آپ نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اٹھا کر کھڑے کھڑے ہمیں دیکھنا شروع فرمایا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہو، پھر مسکرائے۔‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبی صلي الله عليه وآله وسلم، فنکص أبوبکر علی عقبيه ليصل الصف، وظن أن النبی صلي الله عليه وآله وسلم خارج إلی الصلوٰة.

بخاری، الصحيح، 1 : 240، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 2468
بيهقی، السنن الکبریٰ، 3 : 75، رقم : 34825
عبدالرزاق، المصنف، 5 : 4433
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 5194
عبد بن حمید، المسند، 1 : 302، رقم : 1163

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم لوگ نماز چھوڑ بیٹھتے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں پر پیچھے پلٹے تاکہ صف میں شامل ہوجائیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لانے والے ہیں۔‘‘

ان پر کیف لمحات کی منظر کشی روایت میں یوں کی گئی ہے :

فلما وضح وجه النبی صلي الله عليه وآله وسلم ما نظرنا منظرا کان أعجب إلينا من وجه النبی صلي الله عليه وآله وسلم حين وضح لنا.

بخاری، الصحيح، 1 : 241، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 2649
مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلاة، رقم : 3419
ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 372، رقم : 41488
ابوعوانه، المسند، 1 : 446، رقم : 51652
بيهقی، سنن الکبریٰ، 3 : 74، رقم : 64824
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 7211
ابو يعلی، المسند، 7 : 25، رقم : 2439

’’جب (پردہ ہٹا اور) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سامنے آیا تو یہ اتنا حسین اور دلکش منظر تھا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔‘‘

مسلم شریف میں فھممنا ان نفتتن کی جگہ یہ الفاظ منقول ہیں :

فبهتنا و نحن فی الصلوة، من فرح بخروج النبی صلي الله عليه وآله وسلم.

مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلوة، رقم : 419

’’ہم دورانِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر تشریف لانے کی خوشی میں حیرت زدہ ہو گئے (یعنی نماز کی طرف توجہ نہ رہی)۔‘‘

علامہ اقبال نے حالتِ نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقِ زار حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے دیدارِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منظر کی کیا خوبصورت لفظی تصویر کشی کی ہے :

ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

کم و بیش یہی حالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی تھی۔ شارحینِ حدیث نے فھممنا ان نفتتن من الفرح برؤیۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی اپنے اپنے ذوق کے مطابق کیا ہے۔

1۔ امام قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :

فهممنا أی قصدنا أن نفتتن بأن نخرج من الصلوة.

قسطلانی، ارشاد الساری، 2 : 44

’’پس قریب تھا یعنی ہم نے ارادہ کر لیا کہ (دیدار کی خاطر) نماز چھوڑ دیں۔‘‘

2۔ لامع الدراری میں ہے :

و کانوا مترصدين إلی حجرته، فلما أحسوا برفع الستر التفتوا إليه بوجوههم.

گنگوهي، لامع الدراری علی الجامع البخاری، 3 : 150

’’تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی توجہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارک کی طرف مرکوز تھی، جب انہوں نے پردے کا سرکنا محسوس کیا تو تمام نے اپنے چہرے حجرۂ انور کی طرف کر لئے۔‘‘

3۔ مولانا وحید الزماں حیدر آبادی ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبی صلي الله عليه وآله وسلم.

وحيد الزمان، ترجمة البخاری، 1 : 349

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے ہم کو اتنی خوشی ہوئی کہ ہم خوشی کے مارے نماز توڑنے ہی کو تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ نیچے ڈال دیا۔‘‘

امام ترمذی رحمۃ اﷲ علیہ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں :

فکاد الناس ان يضطربوا فأشار الناس ان اثبتوا.

ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 327، رقم : 386

’’قریب تھا کہ لوگوں میں اضطراب پیدا ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو۔‘‘

شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اﷲ علیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اضطراب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

فقرب الناس أن يتحرکوا من کمال فرحهم لظنهم شفاءه صلی الله عليه وآله وسلم حتی أرادوا أن يقطعوا الصلوة لإعتقادهم خروجه صلی الله عليه وآله وسلم ليصلی بهم، و أرادوا أن يخلوا له الطريق إلی المحراب و هاج بعضهم فی بعض من شدة الفرح.

بيجوری، المواهب اللدنيه علی الشمائل المحمديه : 194

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شفایاب ہونے کی خوشی کے خیال سے متحرک ہونے کے قریب تھے حتیٰ کہ انہوں نے نماز توڑنے کا ارادہ کر لیا اور سمجھے کہ شاید ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف لا رہے ہیں، لہٰذا انہوں نے محراب تک کا راستہ خالی کرنے کا ارادہ کیا جبکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خوشی کی وجہ سے کودنے لگے۔

امام بخاری نے باب الالتفات فی الصلوۃ کے تحت اور دیگر محدثین کرام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یہ والہانہ کیفیت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں بیان کی ہے :

و هَمَّ المسلمون أن يفتتنوا فی صلوٰتهم، فأشار إليهم : أتموا صلاتکم.

بخاری، الصحيح، 1 : 262، کتاب صفة الصلاة، رقم : 2721
ابن حبان، الصحيح، 14 : 587، رقم : 36620
ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 75، رقم : 41650
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 5217
طبری، التاريخ، 2 : 231

’’مسلمانوں نے نماز ترک کرنے کا ارادہ کر لیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز کو پورا کرنے کا حکم دیا۔‘‘

ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حُسین خواھش سبحان اللہ

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے : ۔
ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ یارسول اﷲ! آپ مجھے میری جان اور میرے والدین سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو خدشہ ہے کہ کہیں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کے جواب میں سکوت فرمایا، اس اثناء میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی : ’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
.سيوطي، الدر المنثور، 2 : 2182
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 3523
هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 47
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 5153
سيوطي، المعجم الصغير، 1 : 653
ابو نعيم، حلية الاولياء، 4 : 7240
ابو نعيم، حلية الاولياء، 8 : 125

Sunday 24 May 2015

کرامات حضرت سیّدُنا امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نہ مدرسہ، نہ مساجد، نہ فلسفہ نہ اصول!
ثبوت حق (وحدانیت) کے لئے بس حسین ّ کافی ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ولادتِ با کرامت:
راکبِ دوشِ مصطفیٰ ﷺ، جگر گوشہ مرتضیٰ، دلبندِ فاطمہ، سلطانِ کربلا، سید الشھداء، امام عالی مقام، امام عرش مقام، امام ہمام، امام تشنہ کام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہم اجمعین سراپا کرامت تھے حتی کہ آپ کی ولاد با سعادت بھی با کرامت ہے۔ حضرت سیدی عارف باللہ نورُ الدّین جامی قدس سرہ السامی "شواہد النبوۃ" میں فرماتے ہیں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت چار شعبان المعظم ۴؁ ھ کو مدینۃ المنورۃ زادھا اللہ شرفا و تعظیما میں منگل کے دن ہوئی۔ منقول ہے کہ امامِ پاک رضی اللہ عنہ کی مدت حمل چھے ماہ ہے۔ حضرت سیدنا یحیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا جس کی مدت حمل چھے ماہ ہوئی ہو۔
و اللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل و ﷺ
(شواہد النبوۃ، ۲۲۸، مکتبۃ الحقیقۃ ترکی)

رُخسار سے انوار کا اظہار

حضرت علامہ جامی قدس سرہ السامی مزید فرماتے ہیں حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو اآپ رضی اللہ عنہ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رخسار سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضیا بار (یعنی روشن) ہو جاتے۔ (شواھد النبوۃ ص ۲۲۸)

کنویں کا پانی اُبل پڑا!
حضرتِ سیدنا امامِ عالی مقام امامِ حُسین رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ (زادھما اللہ شرفا و تعظیما) کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت سیدنا ابنِ مُطیع علیہ رحمۃ اللہ البدیع سے ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے عرض کی میرے کنویں میں پانی بہت ہی کم ہے، برائے کرم! دُعائے بَرَکت سے نواز دیجئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُس کنویں کا پانی طلب فرمایا۔ جب پانی کا ڈول حاضر کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے منہ لگا کر اُس میں سے پانی نوش کیا اور کُلّی کی۔ پھر ڈول کو واپَس کنویں میں ڈال دیا تو کنویں کا پانی کافی بڑھ بھی گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ بھی ہو گیا۔ (الطبقات الکبریٰ ج۵ ص۱۱۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

گھوڑے نے بد لگام کو آگ میں ڈال دیا
امامِ عالی مقام، امامِ عرش مقام، امامِ ہُمام ، امامِ تِشنہ کام، حضرتِ سیدُنا امامِ حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یومِ عاشُورا یعنی بروز جُمُعَۃُ المبارَک ۱۰ مُحَرَّمُ الحرام ۶۱؁ھ کو یزیدیوں پر اِتمامِ حُجّت کرنے کیلئے جس وَقت میدانِ کربلا میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اُس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے مظلوم قافلے کے خیموں کی حفاظت کے لئے خندق میں روشن کردہ آگ کی طرف دیکھ کر ایک بد زبان یزیدی (مالک بن عُروہ) اِس طرح بکواس کرنے لگا، ’’ اے حسین! تم نے وہاں کی آگ سے پہلے یہیں آگ لگا دی!‘‘ حضرت سیدنا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کَذَبتَ یا عَدُوَّ اللہ یعنی اے دشمنِ خدا! تو جھوٹا ہے، کیا تجھے یہ گمان ہے کہ معاذ اللہ عزوجل میں دوزخ میں جاؤں گا!‘‘ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے قافلے کے ایک جاں نثار جوان حضرت سیدنا مسلم بن عوسجہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ سے اُس منہ پھٹ بدلگام کے منہ پر تیر مارنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت امام علی مقام رضی اللہ عنہ نے یہ فرما کر اجازت دینے سے انکار کیا کہ ہماری طرف سے حملے کا آغاز نہیں ہونا چاہئے۔ پھر امامِ تِشنہ کام رضی اللہ عنہ نے دستِ دُعا بلند کر کے عرض کی: اے ربِ قہار! عزوجل اس نابَکار کو عذابِ نار سے قبل بھی اس دنیائے ناپائیدار میں آگے کے عذاب میں مبتلا فرما۔‘‘ فوراً دعا مستجاب (قبول) ہوئی اور اُس کے گھوڑے کا پاؤۢں زمین کے ایک سوراخ پر پڑا جس سے گھوڑے کو جھٹکا لگا اور بے ادب و گستاخ یزیدی گھوڑے سے گرا، اُس کا پاؤۢں رَکاب میں اُلجھا، گھوڑا اُسے گھسیٹتا ہوا دوڑا اور آگ کی خندق میں ڈال دیا۔ اور بد نصیب آگ میں جل کر بھسم ہو گیا۔ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ نے سجدہ شکر ادا کیا، حمد الٰہی بجا لائے اور عرض کی: یا اللہ عزوجل تیرا شکر ہے کہ تُو نے آلِ رسول کے گستاخ کو سزا دی۔‘‘ (سوانحِ کربلا ص۸۸)
اہلبیتِ پاک سے بے باکیاں گستاخیاں
لَعنَۃُ اللہِ علیکم دشمنانِ اہلبیت

سیاہ بچھو نے ڈنک مارا
گستاخ و بدلگام یزیدی کا ہاتھوں ہاتھ بھیانک انجام دیکھ کر بھی بجائے عبرت حاصل کرنے کے اِس کو ایک اتفاقی امر سمجھتے ہوئے ایک بے باک یزیدی نے بکا: آپ کو اللہ کے رسول ﷺ سے کیا نسبت؟ یہ سن کر قلبِ امام کو سخت ایذا پہنچی اور تڑپ کر دُعاء مانگی: "اے ربِ جبار عزوجل اِس بدگفتار کو اپنے عذاب میں گرفتار فرما۔" دعا کا اثر ہاتھوں ہاتھ ظاہر ہوا اُس بکواسی کو ایک دم قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی فوراً گھوڑےس اُتر کو ایک طرف کو بھاگا اور برہنہ ہو کر بیٹھا، ناگاہ ایک سیاہ بچھو نے ڈنک مارا نجاست آلودہ تڑپتا پھرتا تھا، نہایت ہی ذلت کے ساتھ اپنے لشکریوں کے سامنے اِس بدزبان کی جان نکلی۔ مگر ان سنگ دلوں اور بے شرموں کو عبرت نہ ہوئی اِس واقِعہ کو بھی ان لوگوںنے اتفاقی امر سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ (سوانحِ کربلا ص۸۹)

۔گستاخِ حُسین پیاسا مرا
یزیدی فوج کا ایک سخت دل مُزنی شخص امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے سامنے آ کر یوں بکنے لگا: " دیکھو تو سہی دریائے فُرات کیسا موجیں مار رہا ہے، خدا کی قسم تمہیں اس کا ایک قطرہ بھی نہ ملے گا اور تم یوں ہی پیاسے ہلاک ہو جاؤ گے۔" امامِ تشنہ کام رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رب الانام عزوجل میں عرض کی، اللہم امتہ عطشانا۔ یعنی یا اللہ عزوجل اس کو پیاسا مار۔ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دعا مانگتے ہی اس بے حیا مزنی کا گھوڑا بدک کر دوڑا مزنی پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگا، پیاس کا غلبہ ہوا اس شدت کی پیاس لگی کہ العطش! العطش! یعنی ہائے پیاس ہائے پیاس! پکارتا تھا مگر جب پانی اس کے منہ سے لگاتے تھے تو ایک قطرہ بھی نہ پی سکتا تھا یہاں تک کہ اسی شدت پیاس میں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ (سوانح کربلا ص۹۰)

نور کا ستون اور سفید پرندے
امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ کے سرِ منورسے متعدد کرامات کا ظہور ہوا۔ اہلِ بیت علیہم الرضوان کے قافلے کے بقیہ افراد 11 محرم الحرام کو کوفہ پہنچے جب کہ شہدائے کربلا علیہم الرضوان کے مبارک سر اُن سے ہپلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ انور رُسوائے زمانہ یزیدی بدبخت خولی بن یزید کے پاس تھا یہ مردود رات کے وقت کوفہ پہنچا۔ قصرِ امارت (یعنی گورنر ہاؤس) کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ یہ سرِ انور کو لے کر اپنے گھر آ گیا۔ ظالم نے سرِ انور کو بے ادبی کے ساتھ زمین پر رکھ کر ایک بڑا برتن اس پر اُلٹ کر اس کو ڈھانپ دیا اور اپنی بیوی نوار کے پاس جا کر کہا میں تمہارے لئے زمانے بھر کی دولت لایا ہوں وہ دیکھ حسین بن علی کا سر تیرے گھر پڑا ہے۔ وہ بگڑ کر بولی: تجھ پر خدا کی مار! لوگ تو سیم و زر لائیں اور تو فرزندِ رسول کا مبارک سر لایا ہے۔ خدا کی قسم! اب میں تیرے ساتھ کبھی نہ رہوں گی۔ نوار یہ کہ کر اپنے بچھونے سے اُٹھی اور جدھر سرِ انور تشریف فرما تھا اُدھر آ کر بیٹھ گئی۔ اُس کا بیان ہے: خدا کی قسم! میں نے دیکھا کہ ایک نور برابر آسمان سے اس برتن تک مثل ستون چمک رہا تھا۔ اور سفید پرندے اس کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔ جب صبح ہوئی تو خولی بن یزید سرِ انورکو ابنِ زیاد بدنہاد کےپاس لے گیا۔ (الکامل فی التاریخ ج۳ ص۴۳۴)

خولی بن یزید کا دردناک انجام
دنیا کی محبت اور مال و زر کی وہس انسان کو اندھا اور انجام سے بے خبر کر دیتی ہے بد بخت خولی بن یزید نےدنیا ہی کی محبت کی وجہ سے مظلومِ کربلا کا سرِ انور تنسے جدا کیا تھا۔ مگر چند ہی برس کے بعد اس دنیا ہی میں اس کا ایسا خوفناک انجام ہوا کہ کلیجہ کانپ جاتا ہے چنانچہ چند ہی برس کے بعد مختار ثقفی نے قاتلینِ امامِ حسین کے خلاف جو انتقامی کاروائی کی اس ضمن میں صدر الافاضل حضرت علامہ مولیٰنا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں: مختار نے ایک حکم دیا کہ کربلا میں جو شخص لشکرِ یزید کے سپہ سالار عمرو بن سعد کا شریک تھا وہ جہاں پایا جائے مار ڈالا جائے۔ یہ حکم سن کر کوفہ کے جفا شعار سورما بصرہ بھاگنا شروع ہوئے۔ مختار کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا جس کو جہاں پایا ختم کر دیا۔ لاشیں جلا ڈالیں، گھر لوٹ لیے۔ خولی بن یزید وہ خبیث ہے جس نے حضرت امامِ عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک تنِ اقدس سے جدا کیا تھا۔ یہ رُوسیاہ بھی گرفتار کر کے مختار کےپاس لایا گیا، مختار نے پہلےاس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے پھر سُولی چڑھایا، آخر آگ میں جھونک دیا۔ اس طرح لشکر ابنِ سعد کے تمام اشرار کو طرح طرحکے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا۔ چھے ہزار کوفی جو حضرت امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک تھے ان کو مختار نے طرح طرح کے عذابوں کےساتھ ہلاک کردیا۔ (سوانحِ کربلا ص۱۲۲)

نیزہ پر سرِ اقدس کی تِلاوت
حضرتِ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: جب یزیدیوں نے حضرت امامِ عالی مقام سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کےسرِ انور کو نیزے پر چڑھا کر کُوفہ کی گلیوں میں گشت کیا اُس وقت میں اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا۔ جب سرِ مبارک میرے سامنے سے گزرا تو میں نے سنا کہ سرِ پاک نے (پارہ ۱۵ سورۃ الکہف کی آیت نمبر ۹) تلاوت فرمائی:
اَم حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَ الرَّقِیمِ کَانُوْا مِن اٰیٰتِنَا عَجَباً ﴿۹﴾ (پ۱۵ الکہف ۹)
ترجمۂ کنز الایمان: کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ (غار) اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔
(شواہد النبوۃ)
اِسی طرح ایک دوسرے بُزُرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سرِ مبارک کو نیزہ سے اُتار کر ابنِ زیادِ بد نہاد کے محل میں داخل کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اور زبانِ اقدس پر پارہ ۱۳ سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر ۴۲ کی تلاوت جاری تھی:
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَC۵ط (پ۱۳ ابراھیم۴۲)
ترجمۂ کنز الایمان: اور ہر گز اللہ کو ب خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔
(روضۃ الشہدا مترجم ج۲ ص۳۸۵)

منہال بن عمرو کہتے ہیں: واللہ میں نے بجشمِ خود دیکھا کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ انور کو لوگ نیزے پر لیے جاتے تھے اُس وقت میں دِمِشق میں تھا ۔ سرِ مبارک کے سامنے ایک شخص سورۃُ الکہف پڑھ رہا تھا جب وہ آیت نمبر ۱۵ پر پہنچا:
اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَ الرَّقِیمِ کَانُوْا مِن اٰیٰتِنَا عَجَباً ﴿۹﴾ (پ۱۵ الکہف ۹)
ترجمۂ کنز الایمان: پہاڑ کی کھوہ (غار) اور جنگل کےکنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ نے قوتِ گویائی بخشی تو سرِ انور نے بزبانِ فصیح فرمایا: اعجبُ من اصحابِ الکہفِ قتلی و حملی "اصحابِ کہف کے واقعہ سے میرا قتل اور میرے سر کو لیے پھرنا عجیب تر ہے"۔ (شرح الصدور ص۲۱۲)

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولیٰنا سید محمد نعیم الدین مراداؔٓبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی اپنی کتاب سوانح کربلا میں یہ حکایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: درحقیقت بات یہی ہے کہ کیونکہ اصحابِ کہف پر کافروں نے ظلم کیا تھا اور حضرتِ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کو ان کے نانا جان ﷺ کی امت نے مہمان بنا کر بلایا ، پھر بیوفائی سے پانی تک بند کر دیا! ال و اصحاب علیہم الرضوان کو حضرتِ امامِ پاک رضی اللہ عنہ کے سامنے شہید کیا۔ پھر خود حضرتِ امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا، اہلبیت کرام علیہم الرضوان کو اسیر بنایا، سرِ مبارک کو شہر شہر پھرایا۔ اصحابِ کہف سالہاسال کی طویل نیند کے بعد بولے یہ ضرور عجیب ہے مگر سرِ انور کا تنِ مبارک سے جدا ہونے کے بعد کلام فرمانا عجیب تر ہے۔ (سوانحِ کربلا ص۱۱۸)

خون سے لکھا ہوا شعر
یزید پلید کے ناپاک لشکری شہدائے کربلا علیہم الرضوان کے پاکیزہ سروں کے لے کر جا رہے تھے دریں اثنا ایک منزل پر ٹھہرے۔ حضرت سیدنا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں، وہ نبیذ یعنی کھجور کا شیرہ پینے لگے۔ ایک اور روایت میں ہے، و ھم یشربون الخمر یعنی وہ شراب پینے لگے۔ اتنے میں ایک لوہے کا قلم نمودار ہوا اور اس نے خون سے یہ شعر لکھا ؎
اترجو امۃ قتلت حسینا
شفاعۃ جدہ یوم الحساب
(یعنی کیا حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ روز قیامت ان کے نانا جان ﷺ کی شفاعت پائیں گے؟)
بعض روایات میں ہے کہ حضور سرورِ عالم ﷺ کی بِعثتِ شریفہ سےتین سو برس پیش تر یہ شعر ایک پتھر پر لکھا ہوا ملا۔
(الصواعق المحرقہ ۱۹۴)
سرِانور کی کرامت سے راھِب کا قبول اسلام
ایک راہب نصرانی نے دَیر (یعنی گرجا گھر) سے سرِ انور دیکھا تو پوچھا، بتایا، کہا: "تم بُرے لوگ ہو، کیا دس ہزار اشرفیاں لے کر اس پر راضی ہو سکتے ہو کہ ایک رات یہ سر میرے پاس رہے۔" ان لالچیوں نے قبول کر لیا۔ راہب نے سرِ مبارک دھویا، خوشبو لگائی، رات بھر اپنی ران پر رکھے دیکھتا رہا ایک نور بلند ہوتا پایا، راہب نے وہ رات رو کر کاٹی، صبح اسلام لایا اور گرجا گھر، اس کا مال ومتاع چھوڑ کر اپنی زندگی اہلِ بیت کی خدمت میں گزار دی۔ (الصواعق المحرقہ ۱۹۹)

درہم و دینار ٹھیکریاں بن گئے
یزیدیوں نے لشکرِ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اور ان کے خیموں سے جو درہم و دینار لوٹے تھے اور جو راہب سے لئے تھے اُن کو تقسیم کرنے کیلئے جب تھیلیوں کے منہ کھولے تو کیا دیکھا کہ وہ سب درہم و دینار ٹھیکریاں بنے ہوئے تھے اور اُن کے ایک طرف پارہ ۱۳ سورۂ ابراہیم کی آیت (نمبر ۴۲)
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ۵ط
(ترجمہ کنزالایمان: اور ہر گز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے)
اور دوسری طرف پارہ ۱۹ سورۃ الشعراء کی آیت (نمبر ۲۲۷) تحریر تھی:
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْآ اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ﴿۲۲۷﴾ع
ترجَمہ کنز الایمان: اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔
(ایضا ص۱۹۹)

تم نے اُجاڑا حضرتِ زہرا کا بوستاں
تم خود اُجڑ گئے تمہیں یہ بددعا ملی
رُسوائے خلق ہو گئے برباد ہو گئے
مردودو! تم کو ذِلتِ ہر دَو سَرا ملی
یہ قدرت کی طرف سے ایک درسِ عبرت تھا کہ بدبختو! تم نے اِس فانی دنیا کی خاطِر دین سے مُنہ موڑا اور اٰلِ رسول ﷺ پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑا۔ یاد رکھو! دین سے تم نے سخت لاپرواہی برتی اور جس فانی و بے وفا دنیا کے حصول کے لئے ایسا کیا وہ بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئے گی اور تم خَسِرَ الدُّنیا وَ الاٰخِرۃ (یعنی دنیا میں بھی نقصان اور آخرت میں بھی نقصان) کا مصداق ہو گئے ؎

دنیا پرستو دین سے منہ موڑ کر تمہیں
دنیا ملی نہ عیش و طرب کی ہوا ملی

تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جب کبھی عملاً دین کے مقابلے میں اس فانی دنیا کو ترجیح دی تو اس بے وفا دنیا سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور جنہوں نے اس فانی دنیا کو لات مار دی اور قراٰن و سنت کے احکامات پر مضبوطی سے قائم رہے اور دین و ایمان سے منہ نہیں موڑا بلکہ اپنے کردار و عمل سے یہ ثابت کیا ؎
سر کٹے، کنبہ مرے سب کچھ لُٹے
دامنِ احمد ﷺ نہ ہاتھو سے چھُٹےتو دنیا ہاتھ باندھ کر ان کے پیچھے پیچھے ہو گئی اور وہ دارَین میں سرخرو ہوئے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
وہ کہ اِس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی
وہ کہ اِس در سے پھرا اللہ اُس سے پھر گیا

سرِ انور کہاں مدفون ہوا؟
امامِ عالی مقام حضرتِ سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ انور کے مدفن کے بارے میں اختلاف ہے۔علامہ قرطبِی اور حضرتِ سیدنا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ یزید نے اسیرانِ کربلا اور سرِ انور کو مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما روانہ کر دیا اور مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما میں سرِ انور کو تجہیز و تکفین کے بعد جنتُ البقیع شریف میں حضرتِ سیدتنا فاطمہ زہرا یا حضرتِ سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہما کے پہلو میں دَفْن کر دیا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ اسیرانِ کربلا نے چالیس روز کے بعد کربلا میں آکر سرِ انور کو جَسدِ مبارَک سے ملا کر دفن کیا۔ بعض کا کہنا ہے، یزید نے حکم دیا تھا کہ امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرِ انور کو شہروں میں پھراؤ۔ پھِرانے والے جب عسقلان پہنچے تو وہاں کے امیرنے اُن سے لے کر دفن کر دیا۔ جب عسقلان پر فرنگیوں کا غلبہ ہوا تو طلائع بن رزّیک جس کو صالح کہتے ہیں نے تیس ہزار دینار دے کر فرنگیوں سے سرِ انور لینے کیی اجازت حاصل کی اور مع فوج و خُدام ننگے پاؤں وہاں سے ۸ جمادی الآخر ۵۴۸؁ھ بروز اتوار مصر میں لایا۔ اُس وقت بھی سرِ انور کا خون تازہ تھا اور اُس سے مُشک کی سی خوشبو آتی تھی۔ پھر اس نے سبز حَریر (ریشم) کی تھیلی میں آبنوسی کُرسی پر رکھ کر اس کے ہم وزن مُشک و عنبر اور خوشبو اس کے نیچے اور اردگرد رکھوا کر اس پر مشہدِ حُسینی بنوایا چنانچہ قریبِ خان خلیلی کے مشہدِ حُسینی مشہور ہے۔ (شامِ کربلا ص۲۴۶)

تُربتِ سرِ انور کی زیارت
حضرتِ سیدنا شیخ عبدُ الفَتّاح بن ابی بکر بن احمد شافِعی خلوتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ "نور العین" میں نقل فرماتے ہیں: شیخ الاسلام شمس الدین لقانی قدس سرہ الربانی جو کہ اپنے وقت کے شیخ الشیوخِ مالکیہ تھے ہمیشہ مشہد مبارک میں سر انور کی زیارت کو حاضر ہوتے اور فرماتے کہ حضرت امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ انور اِسی مقام پر ہے۔ حضرت سیدنا شیخ شہابُ الدین حنفی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: میں نے مشہدِ حسینی کی زیارت کی مگر مجھے شبہ ہر رہا تھا کہ سرِ مبارک اِس مقام پر ہے یا نہیں؟ اچانک مجھ کو نیند آ گئی، میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص بہ صورتِ نقیب سرِ مبارَک کے پاس سے نکلا اور حضورِ پُرنور، شافِعِ یومُ النُّشُور ﷺ کے حجرۂ مبارَکہ میں حاضر ہوا اور عرض کی، "یا رسول اللہ! ﷺ احمد بن حلبی اور عبد الوہاب نے آپ کے شہزادے امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ مبارَک کے مدفن کی زیارت کی ہے" آپ ﷺ نے فرمایا: اللہم تقبل منھما و اغفرلھما۔ اے اللہ ان دونوں کی زیارت کو قبول فرما اور دونوں کو بخش دے۔ حضرت سیدنا شیخ شہاب الدین حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اُس دن سے مجھے یقین ہو گیا کہ حضرتِ سیدنا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ انور یہیں تشریف فرما ہے پھر میں نے مرنے تک سرِ مُکرَّم کی زیارت نہیں چھوڑی۔ (شامِ کربلا ص۲۴۷)

سرِ انور سے سلام کا جواب
حضرتِ سیدنا شیخ خلیل ابی الحسن تمارسی رحمۃ اللہ علیہ سرِ انور کی زیارت کے لئے جب مشہد مبارَک کے پاس حاضر ہوتے تو عرض کرتے: السلام علیکم یا ابنَ رسول اللہ اور فوراً جواب سنتے: و علیک السلام یا ابا الحسن۔ ایک دن سلام کا جواب نہ پایا، حیران ہوئے اور زیارت کر کے واپس آ گئے دوسرے روز پھر حاضر ہو کر سلام کیا تو جواب پایا۔ عرض کی، یا سیدی! کل جواب سے مشرف نہ ہوا کیا وجہ تھی؟ فرمایا: اے ابو الحسن! کل اِس وقت میں اپنے نانا جان، رحمتِ عالمیان ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھا اور باتوں میں مشغول تھا۔ (شامِ کربلا ص۲۴۷)

جدا ہوتی ہیں جانیں جسم سے جاناں سے ملتے ہیں
ہوئی ہے کربلا میں گرم مجلس وصل و فرقت کی

حضرت سیدنا امام عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی فرماتے ہیں اہلِ کشف صوفیا اِسی کے قائل ہیں کہ حضرتِ سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کا سرِ انور اِسی مقام پر ہے۔ شیخ کریم الدین خلوتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے اس مقام کی زیارت کی ہے۔ (ایضاً ص۲۴۸)

اِسی منظر پہ ہر جانب سے لاکھوں نگاہیں ہیں
اِسی عالم کو آنکھیں تک رہی ہیں ساری خلقت کی

سرِ انور کی عجیب بَرَکت
منقول ہے،مصر کے سلطان ملک ناصر کو ایک شخص کے متعلق اطلاع دی گئی کہ یہ شخص جانتا ہے کہ اس محل میں خزانہ کہاں دفن ہے مگر بتاتا نہیں۔ سلطان نے اُگلوانے کیلئے اس کی تعذیب کی یعنی اذیت دینے کا حکم دیا۔متولیِ تعذیب نے اس کو پکڑا اور اس کے سر پر خنافس (گبریلے) لگائے اور اس پر قرمز (یعنی ایک قسم کے کیڑے) ڈال کر کپڑا باندھ دیا۔ یہ وہ خوفناک اذیت و عقوبت ہے کہ اس کو ایک منٹ بھی انسان برداشت نہیں کر سکتا اس کا دماغ پھٹنے لگتا ہے اور وہ فوراً راز اُگل دیتا ہے۔ اگر نہ بتائے تو کچھ ہی دیر کے بعد تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے۔ یہ سزا اُس شخص کو کئی مرتبہ دی گئی مگر اس کو کچھ بھی اثر نہ ہوا بلکہ ہر مرتبہ خنافس مر جاتے تھے۔ لوگوں نے اِس کا سبب پوچھا تو اس شخص نے بتایا کہ جب حضرتِ امام عالی مقام سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک یہاںمصر میں تشریف لایا تھا الحمدللہ میں نے اس کو عقیدت سے اپنے سر پر اُٹھایا تھا یہ اُسی کی برکت اور کرامت ہے۔ (شامِ کربلا ص۲۴۸)

پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہوائے دوست نے
خون سے سینچا گیا ہے گُل ْ سِتانِ اہلبیت رضوان اللہ علیہم اجمعین

سرِ مبارک کی چمک

ایک رِوایت یہ بھی ہے کہ سرِ انور یزید پلید کے خزانہ ہی میں رہا۔ جب بنو اُمیہ کے بادشاہ سلیمان بن عبد الملک کا دورِ حکومت (۹۶ تا ۹۹ ھ) آیا اور ان کو معلوم ہوا تو انہوں نے سرِ انور کی زیارت کی سعادت حاصل کی اس وقت سرِ انور کی مبارک ہڈیاں سفید چاندی کی طرح چمک رہی تھیں، انہوں نے خوشبو لگائی اور کفن دے کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کروا دیا۔ (تھذیب التھذیب ج۲ ص۳۲۶ دارالفکر بیروت)

ایک روایت یہ ہے، ایک وہ ہے، ایک سے منقول ہے، دوسرے مجہول ہے، تیسرے کا کہنا کچھ اور ہے، چوتھا کچھ اور کہتا ہے، ساٹھ ستر ہزار لوگوں نے سن سنا کر لکھ دی۔ سوانح کربلا، شام کربلا اور نہ جانے کتنی ہی کتب۔ اور ہم ساری کی ساری نقل کرتے جارہے ہیں۔ خود کو بھی یہ نہین معلوم کہ کس کی بات سچی ہے، اور کس کو مانیں۔ ایک یہ بھی ہے ایک یہ بھی، اب چاہو اس پر یقین کرو چاہو دوسری پر کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی حال نہیں۔

تین کرامات ظاہر ہوئیں۔ ایک کو گھوڑے نے آگ میں گرا دیا، دوسرے کو بچھو نے ڈس لیا،تیسرے کو پانی نہ ملا اس پر بھی اتنے بڑے لشکر یزید(جیسا کہ بتایا جاتا ہے) میں سے کوئی ایسا نہیں نکلا جو ان نشانیوں سے سیکھتا اور حق کی طرف آتا۔ واقعی بہت ہی سیاہ بخت اور مردہ دل تھے وہ ہزاروں یزیدی، چلو یہ ہوا لیکن پھر سر نیزے پر لے کر چلے، عام لوگ اپنے گھروں سے نکلے، دیکھا، جگہ جگہ پھرایا گیا، دیکھنے والوں نے دیکھا اور سننے والوں نے سنا کہ سرمبارک تلاوت کر رہا ہے، جنبش ہو رہی ہے لب حسین کو، خوشبو آرہی ہے، خود پھرانے والوں نے اور یزید کے ملازموں نے جو یہ سب کر رہے تھے وہ بھی یہ سب دیکھ رہے ہوں گے مگر پھر بھی وہ حق کی طرف نہیں لوٹے، ایسی بد بختی طاری تھی ان پر، کوئی تو ہوتا، جو سر پھرانے کے دوران یہ سب کرامات دیکھ کر یزید کے لشکر اور یزید کے خلاف میدان میں اتر جاتا۔ اتنا کچا ایمان تھا ان کا کہ جان کی پروا تھی، مصلحت کے تحت نواسہ رسول کے سر کو نیزے پر دیکھتے رہے لیکن کچھ نہ کر سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت ایمان کی کمزوری کا یہ عالم تھا تو آج تو کوئی بھی ایمان والا نہ ہو گا۔ نقل کیے جائو جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر

رضائے مصطفےٰ کا راز
حضرتِ علامہ ابنِ حَجَر ھَیتمی مَکِّی علیہ رحمۃ اللہ القوی رِوایت فرماتے ہیں کہ سُلیمان بن عبدُالملِک جنابِ رسالتِ مَآب ﷺ کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے دیکھا کہ شہنشاہِ رسالت ﷺ ان کے ساتھ مُلاطَفَت (یعنی لُطف و کرم) فرما رہے ہیں۔ صبح انہوںنے حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ سے اِس خواب کی تعبیر پوچھی، اُنہوں نے فرمایا: شاید تُو نے آلِ رسول کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہے۔ عرض کی، جی ہاں! میں نے حضرتِ سیدنا امامِ عالی مقام امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے مبارک سر کو خزانۂ یزید میں پایا تو اُس کو پانچ کپڑوں کا کفن دے کر اپنے رُفقا کے ساتھ اس پر نماز پڑھ کر اس کو دفن کیا ہے حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ کا یہی عمل رِضائے محبوبِ ربِّ لم یَزَل عزوجل و ﷺ کا سبب ہوا ہے۔ (الصواعق المحرقہ ص۱۹۹)

مصطفےٰ ﷺ عزت بڑھانے کے لئے تعظیم دیں
ہے بلند اقبال تیرا دُود مانِ ۱؎ اہلبیت