Saturday, 9 May 2015

نام نھاد اھلحدیث غیر مقلد وھابی در اصل شیعہ ھیں ( پارٹ 8 )

نام نھاد اھلحدیث غیر مقلد وھابی در اصل شیعہ ھیں ( پارٹ 8 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عورتوں کے ساتھ وطی فی الدبر میں شیعوں اور غیر مقلدوں میں موافقت

شیعہ لکھتے ہیں،

عن حماد بن عثمان قال سالت ابا عبداللہ علیہ السلام عن الرجل یاتی المراۃ فی ذالک الموحع وفی البیت جماعۃ وقال لی ورفع صوتہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من کلف مملو کہ مالا یطیق فلیبہ ثم نظر فی وجوہ اھل البیت ثم اصغی الی فقال لا باس بہ۔“
    (الاستبصار،جلد2،صفحہ130)

“یعنی حماد بن عثمان روایت کرتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ اپنی عورت کی دبر میں دخول کر سکتا ہے؟ آپ نے بلند آواز سے یہ فرمایا کہ اپنے غلام سے اس کی طاقت سے بڑھ کر کام لینا جائز نہیں بلکہ اسے فروخت کردینا چاھئے، پھر اپنے اہل بیت کے چہروں کو دیکھ کر میری طرف سرجھکایا اور فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔“

غیر مقلد مجتہد وحید الزمان بخاری شریف جلد6 صفحہ 37اور38 پر آیت “نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم“ کی تفسیر کے حاشیہ میں لکھتا ہے،

“روایت میں اس کی صراحت موجود ہے کہ (یہ آیت) عورتوں سے دبر میں جماع کرنے کے باب میں اتری۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی اباحت منقول ہے۔ اور امام مالک اور امام شافعی بھی پہلے اسکے قائل تھے۔--------یہ آیت “وطی فی الدبر“ کی اجازت میں اتری -----ایک جماعت اھل حدیث جیسے بخاری،زیلعی،بزاز،نسائی اور بوعلی نیشاپوری اسی طرف گئی ہے کہ وطی فی الدبر کی ممانعت میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔----- مطلب یہ کہ آیت سے وطی فی الدبر کا جواز نکلتا ہے۔“

  یہی غیر مقلد مصنف “نزل الابرار،صفحہ123 پر رقم طراز ہے۔

“و وطی الازواج و الاماء فی الدبر“
   
یعنی اہل حدیث عورتوں اور باندیوں کی دبر میں عطی کرنے کے جواز کا انکار نہیں کرتے۔

 گویا یہ فرقہ اہل حدیث کی خصوصیتوں میں سے ہے کہ وہ اس خلاف وضع فطری فعل کو جائز سمجھتے ہیں۔


 کتے کے پاک ہونے میں شیعوں اور غیر مقلدوں میں موافقت۔

 قارئین جانتے ہیں کہ کتا نجس ہے ،وہ اگر کنویں میں گرجائے تو کنواں ناپاک ہوجاتا ہے اور اس کا سارا پانی نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر شیعون کے ہاں صرف پانچ ڈول نکالنے سے کنواں پاک ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ فروع کافی کی جلد 1 اور صفحہ 4 پر لکھا ہے کہ،

“بکیف خمس ولاء “
   
“تجھے پانچ ڈول کافی ہیں“

لیکن غیر مقلدوں کے ہاں پانچ ڈولوں کی بھی ضرورت نہیں جیسا کہ وحید الزمان نے نزل الابرار میں لکھا ہے،

“ولو سقط فی الماء ولم یتغیر لا یفسد الماء وان اصاب فمہ الماء۔“
    (نزل الابرار،جلد1،صفحہ30)

“یعنی اگر کتا پانی میں گرجائے اور پانی کے اوصاف تبدیل نہ ہوں تو پانی پلید نہیں ہوگا۔ اگرچہ اس کا منہ پانی میں ڈوب جائے۔“

اس سے دوسطر پہلے اس نے کہا ، “ودم السمک طاہر وکذالک الکلب وریقہ عند المحققین۔“ نزل الابرار،جلد1،صفحہ30
   
“اور مچھلی کا خون پاک ہے اور ایسے ہی کتا اور اس کا تھوک بھی پاک ہے۔“

لیجئے شیعوں نے تو پانچ ڈول نکالنے کا تکلف کیا تھا مگر ٍغیر مقلدوں نے اسے بھی اٹھادیا اور کتے کو مطلق پاک کہہ دیا اور تین سطر بعد لکھا ہے کہ جوشخص کتے کو گود میں اٹھا کر نماز پڑھے اس کی نماز بلکل ٹھیک ہے، اور اس میں کوئی فساد نہیں۔
   
اس کے الفاظ یوں ہیں،

 “ولا تفسد صلوٰۃ حاملہ“
   
یعنی اس کو اٹھانے والے کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔

گویا کتے کے مسئلے میں غیر مقلدوں نے شیعوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ خود بھی پاک ہے اور اس کا لعاب بھی پاک ہے اور اس کو اٹھا کر نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔

حفظ قرآن سے محرومی میں شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت۔

شیعہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہیں رکھتے، اسلئے ان کا حفظ کی دولت سے محروم ہونا تو سمجھ میں آسکتا ہے، مگر حیرت کی بات ہے کہ غیر مقلدوں میں بھی نسبتاً حافظ بہت کم ہیں، وجہ یہ ہے کہ حدیث حدیث کی رٹ میں قرآن کی اصل عظمت اور حفظ قرآن کی اہمیت ان کے دلوں سے نکال دی ہے۔ ان کے نزدیک اصل چیز حدیث ہی ہے لہٰزز اس کے ساتھ قرآن کو بھی دیکھنے کے روادار نہیں، جیسا کہ فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ میں یہ صریح قرآن کے خلاف چلتے ہیں، شوافع اور حنابلہ اگر خلف الامام فاتحہ پڑھتے ہیں تو وہ آیت قرآنی میں جہراً کی تاویل کرلیتے ہیں، یعنی مقتدی کو فاتحہ پڑھنا اس وقت منع ہے جب امام جہراً قراءت کررہا ہو لیکن سراً میں منع نہیں ۔ لیکن یہ لوگ مطلقاً قراءت کے قائل ہیں خواہ جہراً ہو یا سراً ہو۔ اور کہتے ہیں کہ “واذا قری القرآن “ کا نماز سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ تو خطبہ سے متعلق ہے۔ احمق لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ جب خطبہ میں سامعین کی خاموشی مطلوب ہے تو جو نام ہی خشوع اور خضوع کا ہے اور “وقومو للہ قانیتین“ کا مصداق ہے، اس میں خاموشی کیوں مطلوب نہیں؟ جبکہ اس آیت کے نماز کے متعلق ہونے پر امت کا اجماع بھی ہے۔

حضرت امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

:اجمع الناس علی ان ھٰذہ الآیۃ فی الصلوٰۃ“
  
 “آیت کا نماز سے تعلق اک اجماعی مسئلہ ہے۔“

مگر یہ لوگ خودرائی اور ذہنی آوارگی کی تسکین کے لئے اجماع امت کو بھی رد کردیتے ہیں۔

وقت واحد کی طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پر شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت۔

طلاق ثلاثہ تمام اہل سنت والجماعت حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی وغیرہ کے ہاں تین ہی قرار دی جاتی ہیں، اور سب کے نزدیک مطلقہ ثلاثہ مغلظ ہوجاتی ہے، اور بغیر حلالہ صحیحہ کے، پہلے خاوند کے پاس بنکاح جدید بھی واپس نہیں آسکتی۔

مگر شیعوں کی ریس میں غیر مقلد کہتے ہیں کہ ایک وقت کی دی تین طلاقیں تین ہوتی ہی نہیں۔ اور وہ صرف ایک واقع ہوتی ہے، اور وہ بھی رجعی کہ بغیر نکاح جدید کے سابق خاوند اس سے رجوع کرسکتا ہے۔

امت کے اس اجماعی موقف میں سات آٹھ سو سال کے بعد سب سے پہلے ابن تیمیہ نے رخنہ ڈالا اور تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوٰی دیا۔ غیر مقلدین نے ابن تیمیہ کے اس تفرد کی تقلید کی،، عجیب بات ہے کہ یہ لوگ ائمہ اربعہ کی تقلید کو حرام کہتے نہیں تھکتے لیکن ابن تیمیہ کی تقلید کو انہوں نے صرف شیعوں کے ساتھ موافقت کی وجہ سے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔ حالانکہ جب ابن تیمیہ نے یہ موقف اختیار کیا تھا تو جمہور علماء امت نے اس کی سخت مخالفت کی تھی اور ابن تیمیہ کو اس فتوٰی کی وجہ سے بڑے مصائب کا شکار ہونا پڑا تھا۔ دیکھئے کہ مشہور غیر مقلد عالم “ابوسعید شرف الدین دہلوی“ نے اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔
    وہ لکھتے ہیں،

“یہ (تین طلاق کو ایک ماننے کا مسلک) صحابہ ،تابعین تبع تابعین وغیرہ آئمہ محدثین و متقدمین کا نہیں ہے ،یہ مسلک سات سو سال بعد کے محدثین کا ہے، جو فتوٰی شیخ الاسلام نے ساتویں صدی کے آخر یا اوائل آٹھویں میں دیا تھا ۔ تو اس وقت کے علماء نے ان کی سخت مخالفت کی تھی۔“

نواب صدیق حسن خان صاحب نے “اتحاف النبلاء“ میں جہاں شیخ الاسلام کے تفردات لکھے ہیں اس فہرست میں طلاق ثلاثہ کا مسئلہ بھی لکھا ہے۔ “جناب شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تین طلاق کے ایک مجلس میں ایک ہونے کا فتوٰی دیا تو بہت شور شرابہ ہوا۔ شیخ الاسلام اور ان کے شاگرد ابن قیم پر مصائب برپا ہوئے، ان کو اونٹ پر سوار کراکے درے مار مار کر شہر میں پھرا کر توہین کی گئی، قید کئے گئے۔ اس لئے کہ اس وقت یہ مسئلہ علامت روافض کی تھی“
    (اتحاف،صفحہ318،بحوالہ عمدہ الاثار،صفحہ103)

انکار تراویح میں غیر مقلدین اور شیعوں کی موافقت

عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اہل سنت اور غیر مقلدین کا تراویح میں اختلاف تعداد رکعت کے متعلق ہے کہ اہل سنت بیس رکعت سمجھتے ہیں اور غیر مقلد آٹھ رکعت۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں، اصل اختلاف یہ ہے کہ تراویح کا وجود ہے کہ نہیں، کیونکہ باتفاق اہل سنت والجماعت تراویح بیس رکعت سے کم نہیں ہیں۔ آٹھ رکعت جس کے یہ مدعی ہیں وہ تراویح ہیں ہی نہیں ، وہ تو تہجد کی رکعت ہیں۔ اسلئے اکثر محدثین نے آٹھ رکعت والی روایات کو باب تہجد میں نقل کیا ہے قیام رمضان میں نہیں۔ پھر امام ترمزی رحمہ اللہ نے جہاں تراویح کے متعلقہ مزاہب نقل کئے ہیں وہاں بیس تراویح یا چھتیس تراویح کا زکر کیا ہے مگر آٹھ تراویح کا کوئی زکر نہیں ہے۔ گویا امام ترمزی رحمہ اللہ کے زمانے تک تراویح بیس رکعات ہی پڑھی جاتی تھیں۔ یہ تو انگریز کے منحوس دور میں غیر مقلدوں کو آٹھ رکعات کی سوچھی ہے تاکہ اس سے امت حنفیہ میں اختلاف پیدہ کیا جائے۔ اور اس مسئلے پر ہر ہر مسجد میں فتنہ و فساد برپا کیا جاسکے۔
    تو گویا جن آٹھ رکعات کو یہ تراویح کہتے ہیں وہ تراویح نہیں تہجد کی رکعات ہیں اور جو بیس رکعت تراویح کی ہیں ان کو یہ پڑھتے ہی نہیں اور نا ہی مانتے ہیں۔

اس لحاظ سے ان کا اور شیعوں کا مزہب ایک ہی ہے کہ بیس رکعت جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رائج کی تھیں، ہم اس کو نہیں مانتے۔ لہٰزہ دونوں فریق یکساں منکرین تراویح ٹھہرے۔

مسئلہ رجعت میں شیعوں اور غیر مقلدوں کی موافقت

ملا باقر مجلسی نے ایک مستقل رسالہ اس مسئلہ میں لکھا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام مدینہ منورہ جاکر دریافت کریں گے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ و عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے تابعین اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا و حفصہ رحی اللہ عنہا کہاں مدفون ہیں۔ جب لوگ ان کی قبروں کا نشان دیں گے تو وہ ان کو کھینچ کر زندہ کریں گے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و حسنین اور ان کی ذریت اور شیعوں کو بھی زندہ کریں گے اور ان کے روبرو اصحاب رضی اللہ عنہما و ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اتباع کو طرح طرح کی اذیت پہنچا کر ماریں گے اور ان کی لاشوں کو درختوں سے لٹکادیں گے۔ حضرت علی و حسن اور حسین ان کی ذریت اور شیعہ یہ انتقامی منظر دیکھ کر باغ باغ ہوجائیں گے۔(معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)

غیر مقلد عالم ملا معین اپنی کتاب دراسات اللبیت کے صفحہ 219 پر لکھتا ہے،

“من مات علی الحب الصادق الامام العصر المھدی علیہ السلام ولم یدرک زمانہ اذن اللہ سبحانہ ان یحیہ فیفوز فوزا عظیما فی حضورہ و ھذہ رجعتہ فی عھدہ۔“

یعنی جو شخص امام مہدی علیہ السلام کی سچی محبت میں مرگیا اگر ان کا زمانہ نہ پاسکا تو اللہ تبارک و تعالٰی امام مہدی کو اجازت دیں گے کہ وہ اسے زندہ کرکے اپنے دیدار سے شادکام کریں اور یہ ان کے زمانہ میں اس کی رجعت ہوگی۔

تو گویا شیعوں نے سنیوں اور ان کے پیشواوں سے انتقام لینے کے لئے رجعت کا عقیدہ گھڑا ، اور غیر مقلدوں نے امام مہدی کی زیارت پانے کے لئے اس جھوٹ سے اتفاق کیا، تو دونوں ہی من گھڑت عقیدے میں باہم متفق ہیں۔ حالانکہ اہل سنت والجماعت کے ہاں یہ عقیدہ بالکل مردود ہے۔ چنانچہ امام نوی رحمہ اللہ شارح مسلم لکھتے ہیں کہ رفعت باطل ہے اور معتقد اس کے رافضی ہیں ۔ لیکن پتہ نہیں تھا کہ ایک قوم غیر مقلد نامی بھی آئے گی جو اسی عقیدے کی حامل ہوگی۔

عقیدہ عصمت آئمہ میں شیعوں اور غیر مقلدوں کو موافقت

 حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ محدث دہلوی “تحفہ اثنا عشریہ“ (مطبوعہ استنبول،صفحہ358) پر شیعوں کا عقیدہ نقل کرتے ہیں،

“وشیعہ خصوصاً امامیہ و اسماعیلیہ گویند کہ عصمت از خطا در علم و از گناہ در عمل یعنی امتناع صدور کہ خاصہ انبیاء است شرط امام است ۔“
   
کچھ شیعہ خصوصاً امامیہ و اسماعیلیہ کہتے ہیں کہ علم و عمل میں خطاء و گناہ سے عصمت انبیاء ہی کی طرح امامت کی شرط ہے۔

حالانکہ یہ عقیدہ قرآن پاک کے خلاف ہے ۔ اسی طرح ٍغیر مقلد عالم ملا معین دراسات اللبیت کے صفحہ 213 پر لکھتا ہے۔

“بارہ اماموں اور حضرت فاطمۃ الزھرا معصوم ہیں، یعنی ان سے خطا کا ھونا محال ہے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور جو صحابہ کہ مخالف ہوئے حضرت علی رضٰ اللہ عنہ کی بیعت خلافت میں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ارث دینے میں، وہ سب کے سب خطا وار ہیں۔ اور نیز عصمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عقلی ہے اور عصمت امام مھدی نقلی۔“

دیکھئیے ! غیر مقلدین شیعوں کے اس خلاف کتاب و سنت عقیدے میں کس طرح اشتراک و اتفاق کرکے اہل سنت سے خارج ہوئے ہیں۔(کیونکہ اہل سنت کے ہاں تو صرف انبیاء ہی معصوم ہیں)
   
آخری گذارشات : ۔

مزکورہ بالا گزارشات سے آپ نے یقیناً جان لیا ہوگا کہ تحریک اہل حدیث یا دعوت غیر مقلدیت افراد ملت کو حدیث کی طرف لے جانے کی تحریک نہیں بلکہ اس نام سے لوگوں کو اہل سنت سے دور کرنے کی تحریک ہے یا اہل سنت سے نکال کر اہل تشیع کے قریب لانے کی تحریک ہے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھ لیا کہ ان “فرقہ اہل حدیث یا غیر مقلدوں“ کے اکثر مسائل و اعتقادات اہل سنت کی بجائے اہل تشیع اور روافض سے زیادہ ملتے جلتے ہیں : ۔


مثلاً

انکار اجماع
انکار قیاس
انکار تقلید
ظلاق ثلاثہ کو ظلاق واحد کہنا
انکار تراویح
جواز متعہ
جمع بین الصلوٰتین
توہین سلف
اکابر پر بدزبانی
آئمہ پر بدگمانی
ارسال یسین
نماز کی دعا میں رفع یدین
پاؤں کا مسح
حی علی خیر العمل
انکار افضلیت شیخین و فضائل صحابہ
انکار مزاہب اربعہ
اذان عثمانی
وغیرہ وغیرہ وغیرہ

ان تمام مسائل میں غیر مقلدین شیعوں کے ساتھ ہیں تو اب یہ افراد ملت کے سوچنے کا مقام ہے کہ ہم اہل سنت کی عظیم برادری سے نکل کر اہل تشیع یا نام نہاد اہل حدیث بن کر کیا لیں گے ؟؟

پیچھے کو نظر اٹھا کر دیکھیں

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ
امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ
امام ابن ھمام رحمۃ اللہ علیہ
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ
امام ترمزی رحمۃ اللہ علیہ
امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ

اور دیگر محدثین

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ
معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ
شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ
خواجہ بہاؤالحق نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ
جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ
ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ
نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ
قطب الدین بختیار کا کی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ
مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سلطان باھو رحمۃ اللۃ علیہ
حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
امام احمد رضا محدّث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ علما اور فقہاء اور محدثین و صوفیاء یہ سب ہم اہل سنت کا سرمایہ ہیں ، کسی غیر مقلد یا شیعہ کا نہیں۔

غیر مقلد بن کر ان تمام اساطین امت اور اولیائے امت کو چھوڑنا پڑے گا اور ملے گا کیا ؟؟

عبدالقادر روپڑی،پروفیسر سعید،عبداللہ بہاولپوری،وحید الزمان، ساجد میر،ساجد نقوی،طالب کرپالوی،طالب الرحمان،عبدالعلیم یزدانی،اور مرید عباس یزدانی۔؟

میں سمجھتا ہوں اس سے زیادہ خسارے کا سودہ کوئی نہیں ہوسکتا ۔

فماربحت تجارتھم وما کانوا مھتدین

اسلئے اپنے اکابر و اسلاف سے منسلک رہنا آئمہ و فقہ و اجتہاد کی تقلید میں سفر زندگی طے کرنا ہی احوط و اسلم ہے،اس میں کسی قسم کی خودرائی اور اجماع امت کے خلاف ورزی کا کوئی امکان نہیں، بصورت دیگر اپنی من مانی، خودرائی اور نفس پرستی کے سوا کچھ نہیں ہوگا جس میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے ، بربادی ہی بربادی ہے۔


(اللہ تعالٰی ہمیں فتنہ غیر مقلدیت یا فرقہ اہل حدیثیت سے محفوظ فرمائے) آمین بجاہ نبی الکریم الآمین

اللھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا و ارزقنا اجتنابہ۔

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...