Sunday, 17 May 2015

سفر معراج بیداری میں ھوا اور دیدار باری تعالیٰ


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 سفرِ معراج عالمِ بیداری میں طے ہوا

آج کے سائنسی دور کے اِرتقاء اور کائناتی انکشافات کے اس دور میں بھی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں نے خواب میں زمینوں اور آسمانوں کی سیر کی اور جب میں واپس آیا تو میرا بستر گرم تھا تو اسے مِن و عن تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ خواب کی بات ہے اور خواب میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ دعویٰ خواب کے حوالے سے کرتے تو ابولہب کو اس کی حقانیت سے انکار ہوتا اور نہ ابوجہل کو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ عالمِ بیداری میں کیا گیا کہ آسمانوں اور زمینوں کی سیر میں نے عالمِ بیداری میں کی، اس لئے عقلِ عیار اسے تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوئی۔ اب چونکہ جاگتے ہوئے یہ سب کچھ ہونا انسانی فہم و اِدراک سے بالاتر تھا لہٰذا اس معجزہ کو اہلِ ایمان کے لئے ان کے ایمانوں کی آزمائش قرار دیا گیا۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ.

(بنی اسرائيل، 17 : 60)

اور ہم نے تو (شبِ معراج کے) اس نظارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کے لئے صرف ایک آزمائش بنایا ہے (ایمان والے مان گئے اور ظاہر بین اُلجھ گئے۔)

بعض لوگ یہ سمجھتے کہ رویا چونکہ عام طور پر خواب کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سفرِ معراج خواب میں عطا ہوا۔ درحقیقت یہ مفہوم غلط ہے۔ عربی زبان میں رؤیاء رات کے وقت کھلی آنکھوں سے دیکھنے کو بھی کہتے ہیں اور دورِ جاہلیت کے کئی عرب شعراء کا کلام بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے۔ یہاں رویاء سے مراد مطلق مشاہدہ ہے۔ اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے کہا :

لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا.

(بنی اسرائيل، 17 : 1)

تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔

چونکہ یہ چیز کسی بھی شخص کے لئے عملاً ناممکن تھی لہٰذا اللہ رب العزت نے اسے اپنی قدرتوں کی طرف منسوب کیا اور فرمایا :

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً.

(بنی اسرائيل، 17 : 1)

(کہ ہر نقص، عیب اور ناممکن کے لفظ سے) پاک ہے وہ قادرِ مطلق جو لے گیا اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرانے۔

کفار و مشرکینِ مکہ کا ردِّ عمل ہی ظاہر کرتا ہے کہ معجزۂ معراج کوئی معمولی واقعہ تھا اور نہ یہ کوئی خواب ہی بیان ہو رہا تھا۔ اگر یہ خواب ہوتا تو کفار و مشرکین کا ایسا منکرانہ ردِّ شعمل سامنے آتا اور نہ قرآن میں اس کا ذکر اس اہتمام سے ہوتا۔ الشفاء بتعریف حقوقِ المصطفیٰ میں قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحقیق کے مطابق ان صحابہ رضی اللہ عنہ و ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہ کو جسمانی معراج پر ایمان رکھنے والا کہا ہے :

و ذهب معظم السلف و المسلمين إلی أنه إسراء بالجسد و فی اليقظة و هذا هو الحق وهو قول إبن عباس و جابر و أنس و حذيفة و عمر و أبی هريرة و مالک بن صعصعة و أبی حبة البدری و ابن مسعود و الضحاک و سعيد بن جبير و قتاده و ابن المسيب و ابن شهاب و ابن زيد و الحسن و إبراهيم و مسروق و مجاهد و عکرمة و ابن جريج و هو دليل قول عائشة وهو قول الطبری و ابن حنبل و جماعة عظيمة من المسلمين وهو قول أکثر المتأخرين من الفقهاء و المحدثين و المتکلمين و المفسرين.

(الشفاء، 1 : 188)

اسلاف اور مسلمانوں کی اکثریت اسراء کو جسم کے ساتھ بیداری میں ہونے پر ایمان رکھتی ہے اور یہی سچا قول ہے۔ اس قول میں ابن عباس رضی اللہ عنہ، جابر رضی اللہ عنہ، انس رضی اللہ عنہ، حذیفہ رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ، ابوحبہ البدری رضی اللہ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ، ضحاک رضی اللہ عنہ، سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ، قتادہ ابن المسیب رضی اللہ عنہ، ابن شہاب رضی اللہ عنہ، ابن زید رضی اللہ عنہ، حسن رضی اللہ عنہ، ابراہیم رضی اللہ عنہ، مسروق، مجاہد رضی اللہ عنہ، عکرمہ رضی اللہ عنہ، ابن جریح رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ شریک ہیں اور یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے قول پر دلیل ہے اور یہ قول طبری رحمۃ اللہ علیہ ، ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ مسلمانوں کی غالب اکثریت کا بھی ہے اور متاخرین فقھاء محدثین اور متکلمین و مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔

انسان ظاہر و باطن کا پیکرِ دلنشیں ہے۔ داخل سے خارج تک اور خارج سے داخل تک کا سفر اَن گِنَت مراحل کا امین ہوتا ہے۔ باطن ایک شفاف آئینہ ہے جس میں ظاہر کی دنیا کا ہر عکس جلوہ گر ہوتا ہے۔ اس طرح ظاہر بھی من کی دنیا کا عکاس ہے۔ باطن کے پانچ لطائف ہوتے ہیں۔ قلب، روح، سرّ، خفی اور اخفی۔ سفرِ معراج عالمِ بیداری میں طے ہوا۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ معراج یک جہتی نہ تھی بلکہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہونے والی معراج تمام لطائف کی بھی معراج تھی۔ وہ ایسے کہ ہر لطیفے کا مقام اپنی جگہ سے اٹھ کر اوپر کے مقام پر چلا گیا یعنی جسمِ اطہر جو نفس کا مظہر تھا جب مقامِ قاب قوسین پر پہنچا تو وہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اطہر تھا لیکن جسم کے مقام سے اٹھ مرتبۂ قلب پر پہنچ گیا تھا۔ یہ بات اگر سمجھ میں آ جائے تو یہ خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ شبِ معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ پاک کا دیدار سر کی آنکھوں سے کیسے کیا۔ اصل بات یوں ہے کہ اس سلسلے میں دو روایات ملتی ہیں :

1۔ اُمُ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے کہ جس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت اللہ جل شانہ کو سر کی آنکھوں سے دیکھنے کا دعویٰ کیا، اس نے کفر کیا۔ اسکو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

عن مسروق، قال : سالت عائشة رضی الله عنه عن هذه الآية التي فيها الروية فقالت : انا اعلم هذه الامة بهذه، وانا سالت رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم عن ذالک قال : رأيت جبرئيل ثم قالت : من زعم ان محمداً رای ربه فقد اعظم الکذب علی الله.

مسروق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے آیت رؤیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں اس کے بارے میں اس امت سے بہتر جانتی ہوں۔ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا میں نے جبرئیل کو دیکھا ہے۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس نے یہ دعویٰ کیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ہے۔

1. صحيح لمسلم، کتاب الايمان، رقم : 287
2. صحيح البخاری، کتاب بدأ الخلق، رقم : 3062
3. جامع الترمذی، کتاب التفسير، رقم : 3068، 3278
4. مسند احمد بن حنبل، 6 : 49، 50
5. مسند ابی يعلی، 8 : 304، رقم : 4900

امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ المعجم الکبیر والاوسط میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں :

عن ابن عباس رضي الله عنه قال : راي محمد صلي الله عليه وآله وسلم ربه عزوجل مرتين مرة ببصره و مرة بفواده.

1. المعجم الکبير، 12 : 71، رقم : 12564
2. المعجم الاوسط، 6 : 356، رقم : 5757
3. المواهب اللدنيه، 2 : 37
4. نشر الطيب، 55

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ایک مرتبہ سرکی آنکھوں سے اور دوسری مرتبہ دل کی آنکھوں سے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید اور اسکی تفصیل باب رؤیت باری تعالی میں بیان کی جائے گی۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ انہیں مان لیا جائے کیونکہ سر کی آنکھیں جب تک مرتبۂ جسم پر رہیں، اللہ تعالیٰ کے حسن اور اس کے نورِ ذات کو نہیں دیکھا جا سکتا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دیکھا تو سر کی آنکھیں مرتبۂ قلب پر فائز ہو چکی تھیں اور جسم رتبے میں دل سے بدل چکا تھا یعنی کھلی ہوئی تو سر کی آنکھیں تھیں مگر ان کا دیکھنا ایسا تھا کہ دل دیکھ رہا ہو۔ اس لئے قرآن مجید نے کہا :

مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىO

(النجم، 53 : 11)

دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔

یہ دل وہی تو دیکھ رہا تھا جو آنکھیں دیکھ رہی تھیں۔ اسی طرح قلبِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج حاصل ہوئی تو وہ مرتبۂ روح پر پہنچ گیا یعنی دل تو پہلے ہی اللہ رب العزت کی محویت میں غرق تھا جب وہ روح کے مرتبے تک پہنچا تو فنا ہو گیا۔ پھر روح کو سرّ کا درجہ ملا تو وہ فنائے تام کے درجے تک پہنچی۔ پھر سر ّخفی اور اَخفیٰ کے مرتبے تک پہنچا تو کبھی ’’دَنٰی‘‘ کے ذریعے مولا کو دیکھا تو کبھی ’’فَتَدَلّٰی‘‘ کے ذریعے قرب کی انتہائیں نصیب ہوئیں، آخرکار مشاہدہ اپنے کمال کو پہنچ گیا، جسے قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے :

وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىO

(النجم، 53 : 13)

اور (اب) انہوں نے وہ جلوہ دوسری بار دیکھا۔

سفرِ معراج میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر لطیفے کو قربِ الٰہی نصیب ہوا اور وہ دیدارِ الٰہی کی لذتِ دوام سے ہمکنار ہوا۔ جب سب مراحل طے پا گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں کرۂ ارضی کی طرف لوٹے کہ ہر ہر لطیفے میں مولا کے قرب اور اس کے دیدار کی لذتیں سما چکی تھیں۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...