Monday 25 May 2015

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی نبی کریم ﷺ والہانہ محبت و وارفتگی

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کس طرح چہرہ نبوت کے دیدارِ فرحت آثار سے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کیا کرتے تھے اور ان کے نزدیک پسند و دلبستگی کا کیا معیار تھا، اس کا اندازہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یارِ غار سے متعلق درج ذیل روایت سے بخوبی ہو جائے گا :

ایک مرتبہ حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے تمہاری دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں : خوشبو، نیک خاتون اور نماز جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے سنتے ہی عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے بھی تین ہی چیزیں پسند ہیں :

النظر إلی وجه رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، و إنفاق مالی علی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، وأن يکون ابنتی تحت رسول اﷲ.

ابن حجر، منبهات : 21، 22

’’آپ صلی اﷲ عليک وسلم کے چہرۂ اقدس کو تکتے رہنا، اللہ کا عطا کردہ مال آپ صلی اﷲ عليک وسلم کے قدموں پر نچھاور کرنا اور میری بیٹی کا آپ صلی اﷲ عليک وسلم کے عقد میں آنا۔‘‘

جب انسان خلوصِ نیت سے اللہ تعالیٰ سے نیک خواہش کا اظہار کرتا ہے تو وہ ذات اپنی شانِ کریمانہ کے مطابق اُسے ضرور نوازتی ہے۔ اس اصول کے تحت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی تینوں خواہشیں اللہ تعالیٰ نے پوری فرما دیں۔

آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نکاح میں قبول فرما لیا۔ آپ کو سفر و حضر میں رفاقتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب رہی یہاں تک کہ غارِ ثور کی تنہائی میں آپ کے سوا کوئی اور زیارت سے مشرف ہونے والا نہ تھا، اور مزار میں بھی أوصلوا الحبيب إلی الحبيب کے ذریعے اپنی دائمی رفاقت عطا فرما دی۔ اسی طرح مالی قربانی اس طرح فراوانی کے ساتھ نصیب ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ما نفعنی مال أحد قط ما نفعنی مال أبی بکر.

ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم : 23661
ابن ماجه، السنن، 1 : 36، مقدمه، باب فضائل الصحابه، رقم : 394
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 4253
ابن حبان، الصحيح، 15 : 273، رقم : 56858
ابن ابی شيبه، المصنف، 6 : 348، رقم : 631927
طحاوی، شرح معانی الآثار، 4 : 7158
هيثمی، موارد الظمان، 1 : 532، رقم : 86621
قرطبی، تفسيرالجامع لاحکام القرآن، 3 : 9418
خطيب بغدادی، تاریخ بغداد، 10 : 363، رقم : 105525
طبری، الرياض النضره، 2 : 16، رقم : 11116412
احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 65، رقم : 1225
سيوطی، تاريخ الخلفاء : 30

’’مجھے جس قدر نفع ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے اتنا کسی اور کے مال نے نہیں دیا۔‘‘

دوسرے مقام پر مال کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحبت کا ذکر بھی فرمایا :

إن (مِن) أَمَّن الناس علیّ فی صحبته و ماله أبو بکر.

بخاری، الصحيح، 1 : 177، کتاب المساجد، رقم : 2454
ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 608، ابواب المناقب، رقم : 33660
نسائی، السنن الکبریٰ، 5 : 35، رقم : 48102
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 518
ابن حبان، الصحيح، 14 : 558، رقم : 66594
ابن ابی شيبه، المصنف، 6 : 348، رقم : 731926
نسائی، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 82
احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 61، رقم : 921
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 10227
طبری، الرياض النضره، 2 : 12، رقم : 109405

’’لوگوں میں سے مجھے اپنی رفاقت دینے اور اپنا مال خرچ کرنے کے لحاظ سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی والہانہ محبت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے والد گرامی سارا دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر رہتے، جب عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر گھر آتے تو جدائی کے یہ چند لمحے کاٹنا بھی اُن کے لئے دشوار ہو جاتا۔ وہ ساری ساری رات ماہی بے آب کی طرح بیتاب رہتے، ہجر و فراق کی وجہ سے ان کے جگرِ سوختہ سے اس طرح آہ نکلتی جیسے کوئی چیز جل رہی ہو اور یہ کیفیت اس وقت تک رہتی جب تک وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو دیکھ نہ لیتے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے وصال کا سبب بھی ہجر و فراقِ رسول ہی بنا۔ آپ کا جسم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے صدمے سے نہایت ہی لاغر ہو گیا تھا، حتی کہ اسی صدمے سے آپ رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا۔

علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوبیت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہجر کے سوز و گداز کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

قوتِ قلب و جگر گردد نبی
از خدا محبوب تر گردد نبی

ذرۂ عشقِ نبی اَز حق طلب
سوزِ صدیق و علی اَز حق طلب

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی دل و جگر کی تقویت کا باعث بنتی ہے اور شدت اختیار کرکے خدا سے بھی زیادہ محبوب بن جاتی ہے۔ تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کا ذرہ حق تعالیٰ سے طلب کر اور وہ تڑپ مانگ جو حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ اور مولا علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ میں تھی۔)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔