Wednesday, 20 May 2015

ماہ شعبان المعظم کے فضائل


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلامی سال کا  آٹھواں مہینہ شعبان ہے ۔اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ شعبان تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنیٰ تفرق کے ہیں ۔چونکہ اس ماہ میں بھی خیر کثیر متفرق ہوتی ہے ۔نیز بندوں کو رزق اس مہینہ میں متفرق اور تقسیم ہوتے ہیں ۔
حدیث شریف میں ہے کہ شعبان کو اس لئے شعبان کہا جاتا ہے کہ اس میں روزہ دار کے لئے خیر کثیر تقسیم ہوتی ہے ۔یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوتا ہے ۔ (ماثبت من السنتہ صفحہ141)
شعبان معظم میں مندرجہ ذیل مشہور واقعات ہوئے ۔
1 اسی مہینہ کی پانچ تاریخ کو سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت مبارک ہوئی ۔
2 اسی مہینہ کی پندرہویں تاریخ کو شب برا ¿ت یعنی لیلہ ¿ مبارکہ ہے جس میں امت مسلمہ کے بہت افراد کی مغفرت ہوتی ہے ۔
3 اسی ماہ کی سولہویں تاریخ کو تحویل قبلہ کا حکم ہوا ۔پہلے ابتداءاسلام میں کچھ عرصہ بیت المقدس قبلہ رہا ۔اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضور سراپا نور شافع یوم النشور ﷺ کی مرضی کے مطابق کعبہ معظمہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیا ۔اس وقت سے ہمیشہ تک مسلمان کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے ہیں ۔(عجائب المخلوقات صفحہ47)
شعبان المعظم کی فضیلت:شعبان کا مہینہ ایک با برکت مہینہ ہے جس کی فضیلت میں کتب احادیث لبریز ہیں ۔چند احادیث مبارکہ لکھی جاتی ہیں ۔
۱۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شعبان رجب اور ماہِ رمضان کے درمیان ایک مہینہ ہے لوگ اس کی شان سے غافل ہیں ۔اس میں بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرے اعمال اس حال میں اٹھیں کہ روزہ دار ہوں ۔ (ماثبت من السنة صفحہ141)
۲۔ شعبان میرا مہینہ اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے ۔(ماثبت من السنة صفحہ141)
۳۔ حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو تمام مہینوں سے زیادہ پیارا مہینہ شعبان تھا ۔(نزہة المجالس جلد1صفحہ131)
۴۔ سیدی و سندی حضرت شیخ عبد القاد ر حسنی حسینی جیلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شعبان میں پانچ حرف ہیں ۔
1۔شین 2۔عین 3۔بائ 4۔الف 5۔نون
پس شین عبارت ہے شرف سے ۔اور عین عبارت ہے علو سے ۔باءعبارت ہے بر(بھلائی ) سے ۔اورالف عبارت ہے الفت(محبت) سے ۔اور نون عبارت ہے نور سے۔لہٰذا اللہ تعالیٰ ماہِ شعبان میں اپنے نیک بندوں کو یہ پانچ چیزیں عطا فرماتا ہے ۔نیز فرماتے ہیں کہ اس مہینہ میں محبوب کبریا ﷺ پر درود شریف کثرت سے پڑھنا چاہےے کیونکہ یہ مہینہ حضور سراپا نور شافع یوم النشور ﷺ کا ہے ۔اس لئے اس مہینہ کے وسیلہ سے بارگاہ الہٰی میں قرب حاصل کرنا چاہےے۔ (غنیة الطالبین جلد1صفحہ188)
پہلی شعبان کے نفل اور روزہ:حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ جو پہلی تاریخ شعبان کی رات بارہ رکعت نفل پڑھے ۔ہر رکعت میں الحمد للہ شریف کے بعد قل ھو اللہ احد 5مرتبہ پڑھے ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو 12ہزار شہیدوں کا ثواب عطا فرماتا ہے ۔اور 12سال کی عبادت کا ثواب اس کے لئے لکھا جاتا ہے ۔گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے کہ گویا ابھی وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے اور 80دن تک اس کے گناہ نہیں لکھے جاتے ہیں ۔
نیز آپ نے فرمایا کہ جو آدمی شعبان کی پہلی جمعرات اور آخری جمعرات کو روزہ رکھے گا تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اس کو جنت میں داخل کرے ۔ (نزہة المجالس جلد1ص131)
شب برا ¿ت کی فضیلت:ماہ شعبان کا تمام مہینہ برکتوں والا سعادتوں کا مجموعہ ہے ۔خصوصاً اس کی 15ویں رات جس کو شب برا ¿ت اور لیلہ ¿ مبارکہ کہتے ہیں ۔باقی شعبان کی راتوں بلکہ تمام سال کی اکثر راتوں سے افضل ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ لیلہ مبارکہ سے مراد شب برا ¿ت ہے اور یہی مفسرین کا مذہب ہے اور اس مبارک رات میں ہر شخص کا رزق لکھ دیا جاتا ہے کہ اس سال اس قدر اس کو ملے گا اور اتنا استعمال کرلے گا۔
اسی طرح اجل بھی لکھ دی جاتی ہے کہ فلاں شخص اتنی مدت تک زندہ رہے گا اور فلاں وقت میں مرے گا۔ اسی طرح جو کام آئندہ سال ہونے والا ہوتا ہے سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے غرضیکہ اس رات میں نئی فہرستیں تیار ہوتی ہےں اور بارگاہ الہٰی میں پیش کی جاتی ہیں ۔
حدیث شریف میں ہے کہ شعبان کی 15ویں رات میں خدائے ذوالجلال اس سمائِ دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے یعنی اس کی رحمت نازل ہوتی ہے اور کارکنان غیبی اللہ تعالیٰ کے سامنے سال بھر کے اعمال نامے پیش کرتے ہیں ۔اس کے بعد احکم الحاکمین اپنی شفقت سے بندوں کو پیارے خطاب فرماتا ہے ۔ ”خبردارہے کوئی مغفرت مانگنے والا کہ میں اس کے گناہوں کو بخش دوں ۔خبردار ہے کوئی روزی مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ۔خبردار ہے کوئی کسی مصیبت میں گرفتار کہ میں اس کو معافی عطا کروں ۔خبردار ہے کوئی ایسا ایسا یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے ۔
وہ لوگ کتنے سعادت مند ہیں جو اس رات کو عبادت کرتے ہیں اور توبہ کر کے اپنے رب کو راضی کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں اور رزق حلال مانگ کر خزانہ ¿ غیب سے مالا مال ہو جاتے ہےں ۔بیماروں اور مصیبتوں سے پناہ مانگ کر ان سے خلاصی حاصل کرتے ہیں ۔اس رات اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کے لئے عام معافی کا اعلان ہوتا ہے اور سب کی مغفرت ہو جاتی ہے سوائے چند لوگوں کے ۔
سیدنا حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور رحمة اللعالمین ﷺ نے فرمایا:” بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی 15ویں رات میںرحمت کی تجلی فرماتا ہے ۔پس تمام مخلوق سوائے مشرک اور کینہ پرور کے بخشش فرماتا ہے ۔“رواہ ابن ماجہ(مشکوٰة صفحہ115)
بعض روایتوں میں ہے کہ مشرک ۔جادو گر ۔کاہن ۔زنا پر اصرار کرنے والا ۔ہمیشہ شراب پینے والا ۔ان کی بخشش نہیں ہوتی ۔اس سے معلوم ہوا کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے غیر شرعی طور پر کینہ اور عداوت رکھتا ہے اس کی مغفرت نہیں ہوتی ۔اس لئے پہلے زمانہ کے لوگ شب برا ¿ت سے پہلے ہی ایک دوسرے سے معافی مانگتے اور ان کو راضی کرتے تھے تاکہ اس رات کی رحمت و مغفرت سے بہرہ ور ہو سکیں ۔
حکایت:کسی شخص نے سیدنا حضرت مالک بن دینار رحمة اللہ علیہ سے توبہ کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ شراب پینے کا عادی تھا اور میری چھوٹی سی بچی تھی ۔جو میرے سامنے ہی شراب کی بوتلوں کو انڈیل دیتی تھی ۔جب وہ دو سال کی ہوئی تو وفات پا گئی ۔جس کی وجہ سے میرے دل پر بڑا صدمہ ہوا ۔
جب شعبان کی 15ویں رات آئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت قائم ہو گئی ہے اور ایک بڑا اژدھا اپنا منہ کھولے ہوئے میرے پیچھے لگ گیا ۔ میں نے بھاگنا شروع کر دیا ۔مجھے ایک نیک بزرگ نظر آیا ۔میں نے اسے کہا کہ مجھے اس سانپ سے بچاﺅ خدا تمہیں بچائے ۔
تو اس نے رو کر کہا کہ میں ضعیف و کمزور ہوں تمہیں نہیں بچا سکتا ۔لیکن تم آگے جاﺅ شاید اللہ تعالیٰ تیری نجات کا کوئی ذریعہ بنا دے ۔
میں بھاگا اور ایک آگ کے پاس گیا تو آواز آئی ۔واپس جاﺅ ۔میں پیچھے واپس ہوا ۔مگر سانپ میرے پیچھے لگا ہوا تھا ۔میں پھر اس بزرگ کے پاس سے گزرا اور اس سے پناہ مانگی ۔اس نے کہا کہ میں کمزور ہوں تیری مدد نہیں کر سکتا ۔البتہ تو اس پہاڑ کی طرف چلا جا اس میں مسلمانوں کی امانتیں ہیں ۔اگر تیری بھی کوئی امانت ہوئی تو وہ تیری مدد کرے گی ۔
جب میں پہاڑ کے قریب پہنچا تو ایک فرشتہ نے آواز دی کہ دروازہ کھول دو شاید اس کی تمہارے پاس کوئی امانت ہو تو وہ اس کو دشمن سے پناہ دے گی ۔جب دروازہ کھل گیا تو اچانک مجھے بچی نظر آئی ۔جس نے اپنے دائیں ہاتھ سے مجھے پکڑا اور بائیں ہاتھ سے ازدھا کو دفع کیا ۔تو وہ سانپ بھاگ گیا ۔پھر بچی نے کہا ابا جان! ”کیا ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ تو توبہ کر ے ۔“میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تو قرآن شریف جانتی ہے ؟ اس نے کہا ہاں! میں نے اس سانپ کے متعلق پوچھا ۔تو بچی نے کہا کہ وہ تیرا عمل بد تھا اور وہ بزرگ تیرا نیک عمل تھا ۔مالک بن دینار رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں گھبرا تے ہوئے بیدار ہوا تو میں نے مکمل طور پر توبہ کی ۔(نزہة المجالس جلد اول 132)
اللہ تعالیٰ ہمیں شب برا ¿ت میں اپنے گناہوں سے سچی توبہ کی توفیق دے ۔آمین

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...