فضائل حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ احادیث کی روشنی میں(8)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(فرمان صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اﷲ عنہما : علی رضی اللہ عنہ میرے اور تمام مومنین کے مولا ہیں)
65. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه، قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا بِغَدِيْرِ خُمٍّ فَنُوْدِيَ فِيْنَا الصَّلَاةَ جَامِعَةً وَ کُسِحَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ فَصَليَ الظُّهْرَ وَ أخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ : ألَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أنِّيْ أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : ألَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أنِّيْ أوْليَ بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِّنْ نَفْسِهِ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : فَأخَذَ بَيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ. قَالَ : فَلَقِيَهُ عمر رضی الله عنه بَعْدَ ذٰلِکَ، فَقَالَ لَهُ : هَنِيْئاً يَا ابْنَ أبِيْ طَالِبٍ! أصْبَحْتَ وَ أمْسَيْتَ مَوْليَ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، (راستے میں) ہم نے وادی غدیر خم میں قیام کیا۔ وہاں نماز کے لیے اذان دی گئی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کل مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اُسے تو دوست رکھ جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور اُن سے کہا : ’’اے ابن ابی طالب! مبارک ہو، آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 65 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 281، وابن أبی شيبة فی المصنف، 12 / 78، الحديث رقم : 12167.
66. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ : مَنْ صَامَ يَوْمَ ثَمَانِ عَشَرَةَ مِنْ ذِي الْحَجَّةِ کُتِبَ لَهُ صِيَامُ سِتِّيْنَ شَهْرًا، وَ هُوَ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ لَمَّا أَخَذَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه، فَقَالَ : أَلَسْتَ وَلِيَّ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ قَالُوْا : بَلَی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : بَخْ بَخْ لَکَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ مَوْلَايَ وَ مَوْلَی کُلِّ مُسْلِمٍ، فَأَنْزَلَ اﷲُ (اَلْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ)۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ (60) مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا، اور یہ غدیر خم کا دن تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مؤمنین کا ولی نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مبارک ہو! اے ابنِ ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 66 : أخرجه الطبرانی في المعجم الأوسط، 3 / 324، و خطيب البغدادی في تاريخ بغداد، 8 / 290، و ابن عساکر في تاريخ الدمشق الکبير، 45 / 176، 177، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 464، و رازی في التفسير الکبير، 11 / 139.
67. عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه : وَ قَدْ نَازَعَهُ رَجُلٌ فِي مَسْأَلَةٍ، فَقَالَ : بَيْنِي وَ بَيْنَکَ هَذَا الْجَالِسُ، وَ أَشَارَ إِلَی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طالب رضی الله عنه، فَقَالَ الرَّجُلُ : هَذَا الْأَبْطَنُ! فَنَهَضَ عمر رضی الله عنه عَنْ مَجْلِسِهِ وَ أَخَذَ بِتَلْبِيْبِهِ حَتَّی شَالَهُ مِنَ الْأرْضِ، ثُمَّ قَالَ : أَتَدْرِيْ مَنْ صَغَّرْتَ، مَوْلَايَ وَ مَوْلَی کُلِّ مُسَلِمٍ! رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ کسی معاملہ میں جھگڑا کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور تیرے درمیان یہ بیٹھا ہوا آدمی فیصلہ کرے گا۔ ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا۔ ۔ ۔ تو اس آدمی نے کہا : یہ بڑے پیٹ والا (ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا)! حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی جگہ سے اٹھے، اسے گریبان سے پکڑا یہاں تک کہ اسے زمین سے اوپر اٹھا لیا، پھر فرمایا : کیا تو جانتا ہے کہ تو جسے حقیر گردانتا ہے وہ میرے اور ہر مسلمان کے مولیٰ ہیں۔ اسے محب الدين طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 67 : أخرجه محب الدين الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128.
68. عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه وَ قَدْ جَاءَ هُ أَعْرَابِيَانِ يَخْتَصِمَانِ، فَقَالَ لِعَلِيٍّ رضی الله عنه : إِقْضِ بَيْنَهُمَا يَا أَبَا الْحَسَنِ! فَقَضَی عَلِيٌّ رضی الله عنه بَيْنَهُمَا، فَقَالَ أَحَدُهُمَا : هَذَا يَقْضِي بَيْنَنَا! فَوَثَبَ إِلَيْهَ عمر رضی الله عنه وَ أَخَذَ بِتَلْبِيْبِهِ، وَ قَالَ : وَيْحَکَ! مَا تَدْرِيْ مَنْ هَذَا؟ هَذَا مَوْلَايَ وَ مَوْلَی کُلِّ مُؤْمِنٍ، وَ مَنْ لَمْ يَکُنْ مَوْلَاهُ فَلَيْسَ بِمُؤْمِنٍ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو بدّو جھگڑا کرتے ہوئے آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابوالحسن! ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ (کیا) یہی ہمارے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے رہ گیا ہے؟ (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے اور اس کا گریبان پکڑ کر فرمایا : تو ہلاک ہو! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ یہ میرے اور ہر مؤمن کے مولا ہیں (اور) جو اِن کواپنا مولا نہ مانے وہ مؤمن نہیں۔ اسے محب الدين طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 68 : أخرجه محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128، و محب الدين احمد الطبری في ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، : 126.
69. عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ : عَلِيٌّ مَوْلَی مَنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِا مَوْلَاهُ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے مولا ہیں علی رضی اللہ عنہ اس کے مولا ہیں۔ اسے محب الدين طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 69 : أخرجه محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 178.
70. عَنْ سَالِمٍ قِيْلَ لِعُمَرَ : إِنَّکَ تَصْنَعُ بِعَلِيٍّ شَيْئًا مَا تَصْنَعُهُ بِأَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ : إِنَّهُ مَوْلَايَ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.
’’حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا : ( کیا وجہ ہے کہ ) آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا (امتیازی) برتاؤ کرتے ہیں جو آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے (عموماً) نہیں کرتے؟ (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (جواباً) فرمایا : وہ (علی) تو میرے مولا (آقا) ہیں۔ اسے محب الدين طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 70 : أخرجه محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 178.
71. عَنْ سَعْدٍ قَالَ : لَمَّا سَمِعَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ ذَلِکَ (حَدِيْثَ الْوِلايَةِ) قَالَا : أَمْسَيْتَ يَا بْنَ أَبِي طَالِبٍ؟ مَوْليَ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ. رَوَاهُ المُنَاوِيُّ.
’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں جب حضرت ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہما نے حدیث ولایت سنی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے : اے ابن ابی طالب! آپ ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے ہیں۔ اسے مناوی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 71 : أخرجه المناوی فی فيض القدير، 6 / 218.
(7) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : عَلِيٌّ مِّنِّيْ وَ أنَا مِنْهُ
(فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں)
72. عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيٌّ مِّنِّي وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلا يُؤَدِّيْ عَنِّيْ إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمَذِيُ
وَقَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے اور میں علی رضی اللہ عنہ سے ہوں اور میری طرف سے (عہد و نقض میں) میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ داری) ادا نہیں کرسکتا۔ اس کو امام ترمذي نے روایت کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
الحديث رقم 72 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3719، وابن ماجه فی السنن، مقدمه، باب فضائل أصحاب الرسول، فضل علی بن أبی طالب، 1 / 44، الحديث رقم : 119، و أحمد بن حنبل فی المسند 4 / 165، و ابن أبی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32071، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 16، الحديث رقم : 3511، و الشيباني في الآحاد والمثاني، 3 / 183، الحديث رقم : 1514.
73. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : آخَی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَجَاءَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاهُ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِکَ وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَ بَيْنَ أَحَدٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنْتَ أَخِيْ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
وَ قَالَ هَذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ. وَفِي الْبَابِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أَوْفٰی.
’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو اسے امام ترمذي نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے اور اسی باب میں حضرت زید بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے‘‘
الحديث رقم 73 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3720، و الحاکم فی المستدرک علٰی الصحيحين، 3 / 15، الحديث رقم : 4288.
74. عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جَنَادَةَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : عَلِيٌّ مِّنِّي وَ أَنَا مِنْهُ وَلَا يُؤَدِّيْ عَنِّيْ إِلَّا عَلِيٌّ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میرا قرض میری طرف سے سوائے علی کے کوئی نہیں ادا کرسکتا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 74 : أخرجه ابن ماجه فی السنن، مقدمه، باب فضائل أصحاب رسول اﷲ، 1 / 44، الحديث رقم : 19.
75. عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ وَ کَانَ قَدْ شَهِدَ يَوْمَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيٌّ مِّنِّي وَ أَنَا مِنْهُ. وَلَا يُؤَدِّي عَنِّي إلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ وَ فِيْ رِوَايَةٍ لَا يَقْضِ عَنِّيْ دَيْنِيْ إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ رضی الله عنه رَوَاهُ أحْمَدُ.
’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور آپ حجۃ الوداع والے دن وہاں موجود تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں اور میرا قرض میری طرف سے سوائے میرے اور علی کے کوئی نہیں ادا کرسکتا۔ اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 75 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 164.
76. عَنْ أُسَامَةَ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : اجْتَمَعَ جَعْفَرٌ وَ عَلِيٌّ وَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ. فَقَالَ جَعْفَرٌ : أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ قَالَ عَلِيٌّ. أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ قَالَ زَيْدٌ : أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالُوْا : انْطَلِقُوْا بِنَا إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی نَسْأَلَهُ. فَقَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ : فَجَاءُ وْا يَسْتَأْذِنُوْنَهُ فَقَالَ اخْرُجْ فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلَاءِ فَقُلْتُ : هَذَا جَعْفَرٌ وَ عًلِيٌّ وَ زَيْدٌ مَا أَقُوْلُ : أَبِي‘ قَالَ ائْذَنْ لَهُمْ وَ دَخَلُوْا فَقَالُوْا : مَنْ أَحَبُّ إِلَيْکَ؟ قَالَ : فَاطِمَةُ قَالُوْا : نَسْأَلُکَ عَنِ الرِّجَالِ. قَالَ أَمَّا أَنْتَ، يَا جَعْفَرُ! فَأَشْبَهَ خَلْقُکَ خَلْقِيْ وَ أَشْبَهَ خُلُقِيْ خُلُقَکَ، وَ أَنْتَ مِنِّيْ وَ شَجَرَتِيْ. وَ أَمَّا أَنْتَ يَا عَلِيُّ فَخَتَنِيْ وَ أَبُو وَلَدَيَّ، وَ أَنَا مِنْکَ وَأَنْتَ مِنِّيْ وَ أَمَّا أَنْتَ يَا زَيْدُ! فَمَوْلَايَ، وَ مِنِّيْ وَ إِلَيَّ، وَ أَحَبُّ الْقَوْمِ إِلَيَّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ
وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ.
’’حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جعفر اور حضرت علی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنھم ایک دن اکٹھے ہوئے تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہوں اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیارا ہوں پھر انہوں نے کہا چلو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت اقدس میں چلتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟ اسامہ بن زید کہتے ہیں پس وہ تینوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دیکھو یہ کون ہیں؟ میں نے عرض کیا جعفر علی اور زید بن حارثہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو اجازت دو پھر وہ داخل ہوئے اور کہنے لگے یارسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فاطمہ، انہوں نے کہا یارسول اﷲ! ہم نے مردوں کے بارے عرض کیا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جعفر! تمہاری خلقت میری خلقت سے مشابہ ہے اور میرے خلق تمہارے خلق سے مشابہ ہیں اور تو مجھ سے اور میرے شجرہ نسب سے ہے، اے علی تو میرا داماد اور میرے دو بیٹوں کا باپ ہے اور میں تجھ سے ہوں اور تو مجھ سے ہے اور اے زید تو میرا غلام اور مجھ سے اور میری طرف سے ہے اور تمام قوم سے تو مجھے پسندیدہ ہے۔ اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
الحديث رقم 76 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 5 / 204، الحديث رقم : 21825، و الحاکم في المستدرک، 3 / 239، الحديث رقم : 4957، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 / 151، الحديث رقم : 1369، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 274.
77. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ فِيْهَا عَنْهُ قَالَ : ثُمَّ بَعَثَ فُلَاناً بِسُوْرَةِ التَّوْبَةِ. فَبَعَثَ عَلِيًّا خَلْفَهُ فَأَخَذَهَا مِنْهُ، قَالَ : لَا يَذْهَبُ بِهَا إِلَّا رَجُلٌ مِّنِّيْ وَ أَنَا مِنْهُ. رَوَاهُ أحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو سورۂ توبہ دے کر بھیجا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کے پیچھے بھیجا پس انہوں نے وہ سورۃ اس سے لے لی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس سورۃ کو سوائے اس آدمی کے جو مجھ میں سے ہے اور میں اس میں سے ہوں کوئی اور نہیں لے جاسکتا۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 77 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062
(8) بَابٌ فِي إِخْتِصَاصِهِ رضي الله عنه بِأَنَّهُ مِنَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰي
(علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایسے ہیں جیسے حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے)
78. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ، قَالَ : خَلَّفَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فِيْ غَزْوَةِ تَبُوْکَ. فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ أَ تُخَلِّفُنِيْ فِيْ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ أَمَا تَرْضَي أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هٰرُوْنَ مِنْ مُوْسَي؟ إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں چھوڑ دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘
الحديث رقم 78 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4 / 1602، الحديث رقم : 4154، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1871، 1870، الحديث رقم : 2404، والترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 638، الحديث رقم : 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الحديث رقم : 1608، وابن حبان في الصحيح، 15 / 370، الحديث رقم : 6927، و البيهقي في السنن الکبریٰ، 9 / 40.
79. عَنْ سَعْدٍ قَالَ : سَمِعْتُ إِبْرَاهِيْمَ بْنَ سَعِيْدٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ : أَما تَرْضَي أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوسَي. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 79 : أخرجه البخاري في الصحيح، 3 / 1359، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، الحديث رقم : 3503، و ابن ماجه في السنن، مقدمه، باب فضائل الصحابة، فضل علي بن أبي طالب، 1 / 42، الحديث رقم : 115، وابن حبان في الصحيح، 15 / 369، الحديث رقم : 6926، و أبو يعلي في المسند، 2 / 73، الحديث رقم : 718.
80. عَنْ سَعْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ لِعَلِيٍّ : أَمَا تَرْضٰي أَنْ تَکُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هٰرُوْنَ مِنْ مُوْسٰي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کیلئے ہارون علیہ السلام۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 80 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابه، باب من فضائل علي، 4 / 1871، الحديث رقم : 2404، والنسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 44، الحديث رقم : 8139، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 139، الحديث رقم : 2728.
81. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هٰرُوْنَ مِنْ مُوسَي إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ قَالَ سَعِيْدٌ : فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُشَافِهَ بِهَا سَعْدًا فَلَقِيْتُ سَعْدًا فَحَدَّثْتُهُ بِمَا حَدَّثَنِيْ عَامِرٌ فَقَالَ : أَنا سَمِعْتُهُ فَقُلْتُ : أَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَي أُذُنَيْهِ فَقَالَ : نَعَمْ وَ إِلَّا فَاسْتَکَّتَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تم میرے لئے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے حضرت ہارون علیہ السلام تھے، مگر بلا شبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں چاہتا تھا کہ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بالمشافہ سن لوں۔ پس میری حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان کو عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کی یہ روایت سنائی۔ انہوں نے کہا میں نے اس حدیث کو خود سنا ہے میں نے عرض کیا، کیا آپ نے خود سنا ہے؟ انہوں نے اپنی دونوں انگلیاں کانوں پر رکھیں اور کہا اگر میں نے خود نہ سنا ہو تو میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 81 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1870، الحديث رقم : 2404، والترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 641، الحديث رقم : 3731، و ابن ماجه في السنن، مقدمه، باب في فضائل أصحاب الرسول، فضل علي بن أبي طالب، 1 / 45، الحديث رقم : 121.
82. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لَهُ خَلَّفَهُ فِيْ بَعْضِ مَغَازِيْهِ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ يَا رَسُوْلَ اﷲِ خَلَّفْتَنِيْ مَعَ النِّسَآءِ وَ الصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَمَا تَرْضٰي أنْ تَکُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰي إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبُوَّةَ بَعْدِيْ وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ يَوْمَ خَيْبَرَ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ قَالَ : فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ ادْعُوْا لِيْ عَلِيًّا فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ فَبَصَقَ فِيْ عَيْنِهِ وَ دَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ فَفَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ وَلَمَّا نَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُوْ اَبْنَآئَنَا وَ اَبْنَآءَ کُمْ) (آل عمران، 3 : 61)، دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَّ فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا فَقَالَ : أَللّٰهُمَّ هٰؤُلَآءِ أًهْلِيْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض مغازی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے چھوڑ دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کیلئے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا اور غزوہ خیبر کے دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں، سو ہم سب اس سعادت کے حصول کے انتظار میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کو میرے پاس لائیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لایا گیا، اس وقت آپ رضی اللہ عنہ آشوب چشم میں مبتلا تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور انہیں جھنڈا عطا کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کر دیا اور جب یہ آیت نازل ہوئی۔ (آپ فرما دیجئے آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کو بلایا اور کہا اے اللہ! یہ میرا کنبہ ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 82 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 4 / 1871، الحديث رقم : 2404، و الترمذي في الجامع، الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن ابي طالب رضي الله عنه، 5 / 638، الحديث رقم : 3724.
83. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ لِعَلِيٍّ : أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰي إِلاَّ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ وَهَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تم میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہو جو ہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک تھی۔ (فرق یہ ہے کہ وہ دونوں نبی تھے) مگر بلاشبہ میرے بعدکوئی نبی نہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
الحديث رقم 83 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 640، الحديث رقم : 3730، أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 338، الحديث رقم : 14679، و الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 247، الحديث رقم : 2035.
الحديث رقم 84 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062
84. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ خَرَجَ بِالنَّاسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ. قَالَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : أَخْرُجُ مَعَکَ؟ قَالَ : فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اﷲِ لَا فَبَکَي عَلِيٌّ فَقَالَ لَهُ أَمَا تَرْضٰي أَنْ تَکُونَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هٰرُوْنَ مِنْ مُوسٰي؟ إِلَّا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ. إِنَّهُ لَا يَنْبَغِيْ أَنْ أَذْهَبَ إِلَّا وَ أَنْتَ خَلِيْفَتِيْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے ساتھ غزوہ تبوک کے لئے نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : کیا میں بھی آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے ساتھ چلوں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ رو پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تو میرے لئے ایسے ہے جیسے ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے لئے تھے؟ مگر یہ کہ تو نبی نہیں۔ تجھے اپنا نائب بنائے بغیر میرا کوچ کرنا مناسب نہیں۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
(9) بَابٌ فِيْ قُرْبِهِ وَ مَکَانَتِهِ رضي الله عنه عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم
(علی المرتضیٰ کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں قرب اور مقام و مرتبہ)
85. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمَرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَعْطَانِيْ، وَ إِذَا سَکَتُّ ابْتَدَأَنِيْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَ قَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ .
’’حضرت عبداﷲ بن عمر و بن ہند جملی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز مانگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے عطا فرماتے اور اگر خاموش رہتا تو بھی پہلے مجھے ہی دیتے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا : یہ حدیث حسن ہے‘‘
الحديث رقم 85 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 637، الحديث رقم : 3722، وفيابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 640، الحديث رقم : 3729، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 135، الحديث رقم : 4630، والمقدسي في الأحاديث المختاره، 2 / 235، الحديث رقم : 614، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 142، الحديث رقم : 8504.
86. عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ فَانْتَجَاهُ، فَقَالَ النَّاسُ : لَقَدْ طَالَ نَجْوَاهُ مَعَ ابْنِ عَمِّهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَا انْتَجَيْتُهُ وَلَکِنَّ اﷲَ انْتَجَاهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ طائف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے نہیں کی بلکہ اﷲ نے خود ان سے سرگوشی کی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
’’اس قول کا معنی کہ ’’بلکہ اﷲ نے ان سے سرگوشی کی‘‘ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ ان کے کان میں کچھ کہوں۔‘‘
الحديث رقم 86 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 639، الحديث رقم : 3726، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 598، الحديث رقم : 1321، والطبراني في العمجم الکبير، 2 / 186، الحديث رقم : 1756.
87. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ يَاعَلِيُّ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يُجْنَبُ فِيْ هَذَا المَسْجِدِ غَيْرِيْ وَ غَيْرُکَ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ المُنْذِرِ : قُلْتُ لِضَرَارِ بْنِ صُرَدَ : مَا مَعْنَي هَذَا الحديث؟ قَالَ : لاَ يَحِلُّ لِأَحَدٍ يَسْتَطْرِقُهُ جُنُباً غَيْرِيْ وَغَيْرُکَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ علی بن منذر کہتے ہیں کہ میں نے ضرار بن صرد سے اس کے معنی پوچھے تو انہوں نے فرمایا : اس سے مراد مسجد کو بطور راستہ استعمال کرنا ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
الحديث رقم 87 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 639، الحديث رقم : 3727، والبزار في المسند، 4 / 36، الحديث رقم : 1197، و أبو يعلي في المسند، 2 / 311، الحديث رقم : 1042، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 65، الحديث رقم : 13181.
88. عَنْ أُمِّ عَطِيَةَ قَالَتْ : بَعَثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم جَيْشًا فِيْهِمْ عَلِيٌّ قَالَتْ : فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُوْلُ : اللّٰهُمَّ لَا تُمِتْنِيْ حَتَّي تُرِيَنِيْ عَلِيًّا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت امِ عطیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے تھے کہ یا اﷲ مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں علی کو (واپس بخیرو عافیت) نہ دیکھ لوں، اس حدیث کو امام ترمذی نے بیان کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
الحديث رقم 88 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 643، الحديث رقم : 3737، و الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 68، الحديث رقم : 168، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 48، الحديث رقم : 2432، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 609، الحديث رقم : 1039.
89. عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلي الله عليه وآله وسلم : رَحِمَ اﷲُ أَبَا بَکْرٍ زَوَّجَنِيَ ابْنَتَهُ، وَ حَمَلَنِيْ إِلٰي دَارِ الْهِجْرَةِ، وَ أَعْتَقَ بِلَالًا مِنْ مَالِهِ، رَحِمَ اﷲُ عُمَرَ، يَقُوْلُ الْحَقَّ وَ إِنْ کَانَ مُرًّا، تَرَکَهُ الْحَقُّ وَمَا لَهُ صَدِيْقٌ، رَحِمَ اﷲُ عُثْمَانَ، تَسْتَحِيْهِ الْمَلَائِکَةُ، رَحِمَ اﷲُ عَلِيًّا، اللَّهُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی اور مجھے دار الہجرۃ لے کر آئے اور بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے یہ ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہو اسی لئے وہ اس حال میں ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے۔ اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔ اس حدیث کو امام ترمذي نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 89 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 633، الحديث رقم : 3714، و الحاکم في المستدرک علي الصحييحين، 3 / 134، الحديث رقم : 4629، و الطبراني في المعجم الاوسط، 6 / 95، الحديث رقم : 5906، و البزار في المسند، 3 / 52، الحديث رقم : 806، و أبويعلي في المسند، 1 : 418، الحديث رقم : 550.
90. عَنْ حَنَشٍ قَالَ : رَأَيْتُ عَلِيًّا رضي الله عنه يُضَحِّيْ بِکَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ : مَا هَذَا؟ فَقَالَ : أَوْصَانِيْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّيَ عَنْهُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤْدَ.
’’حضرت حنش رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھوں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں ان کی طرف سے بھی قربانی کروں لہٰذا میں ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 90 : أخرجه أبوداؤد في السنن، کتاب الضحايا، باب الأضحية عن الميت، 3 / 94، الحديث رقم : 2790، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 150، الحديث رقم : 1285.
91. عَنِ ابْنِ نُجَيٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کَانَ لِي مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَدْخَلاَنِ : مَدْخَلٌ بِاللَّيْلِ وَمَدْخَلٌ بِالنَّهَارِ، فَکُنْتُ إِذَا دَخَلْتُ بِاللَّيْلِ تَنَحْنَحَ لِي. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت عبداللہ بن نجی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ میں دن رات میں دو دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتا۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں رات کے وقت حاضر ہوتا (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے ہوتے )تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت عنایت فرمانے کے لئے کھانستے۔ اس حدیث کو نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 91 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب السهو، باب التنحنح في الصلاة، 3 / 12، الحديث رقم : 1212، و ابن ماجة في السنن، کتاب الأدب، باب الإستئذان، 2 / 1222، الحديث رقم : 3708، و النسائي في السنن الکبري، 1 / 360، الحديث رقم : 1136، و ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 242، الحديث رقم : 25676.
92. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ اِذَا غَضِبَ لَمْ يَجْتَرِيئْ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يُکَلِّمَهُ إِلاَّ عَلِيٌّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ وَالْحَاکِمُ.
وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ناراضگی کے عالم میں ہوتے تو ہم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسی کو کلام کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
الحديث رقم 92 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 4 / 318، الحديث رقم : 4314، والحاکم في المستدرک، 3 / 141، الحديث رقم : 4647، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 116.
93. عَنْ أَبِيْ رَافِعٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ لِعَلِيٍّ : أَمَا تَرْضَي إِنَّکَ أَخِيْ وَ أَنَا أَخُوْکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے فرمایا : تم اس پر راضی نہیں کہ تو میرا بھائی اور میں تیرا بھائی ہوں۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 93 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 319، الحديث رقم : 949، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.
94. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ نُجَيٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کَانَتْ لِيْ سَاعَةٌ مِنَ السَّحَرِ أَدْخُلُ فِيْهَا عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَإِنْ کَانَ قَائِمًا يُصَلِّيْ سَبَّحَ بِيْ فَکَانَ ذَاکَ إِذْنُهُ لِيْ. وَ إِنْ لَمْ يَکُنْ يُصَلِّيْ أَذِنَ لِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبداللہ بن نجی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سحری کے وقت ایک ساعت ایسی تھی کہ جس میں مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونا نصیب ہوتا۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو مجھے بتانے کے لیے تسبیح فرماتے پس یہ میرے لئے اجازت ہوتی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو مجھے اجازت عنایت فرما دیتے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 94 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 77، الحديث رقم : 570
95. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ نُجَيِّ الْحَضْرَمِِيِّ عَنْ أَبِيْهِ فِيْ رِوَايةٍ طَوِيْلَةٍ وَ فِيْهَا عَنْهُ قَالَ : قَالَ لِيْ عَلِيٌّ : کَانَتْ لِيْ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَنْزِلَةٌ لَمْ تَکُنْ لِأَحَدٍ مِنَ الخَلَائِقِ، ..... رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبداللہ بن نجی الحضرمی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں میرا ایک خاص مقام و مرتبہ تھا جو مخلوقات میں سے کسی اور کا نہیں تھا۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 95 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 85، الحديث رقم : 647، و البزار في المسند، 3 / 98، الحديث رقم : 879، و المقدسي في الأحاديث المختاره، 2 / 374، الحديث رقم : 757.
96. عَنْ جَابِرٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عِنْدَ امْرَأَةِ مِنَ الأَنْصَارِ، صَنَعَتْ لَهُ طَعَامًا فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : يَدْخُلُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهلِ الْجَنَّةِ فَدَخَلَ أَبُوبَکْرٍ رضي الله عنه فَهَنَّيْنَاهُ ثُمَّ قَالَ : يَدْخُلُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَدَخَلَ عُمَرُ رضي الله عنه فَهَنَّيْنَاهُ ثُمَّ قَالَ : يَدْخُلُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم، يُدْخِلُ رَأْسَهُ تَحْتَ الْوَدِيِّ فَيَقُوْلُ : اللَّهُمَّ! إِنْ شِئْتَ جَعَلْتَهُ عَلِيًّا فَدَخَلَ عَلِيٌّ رضي الله عنه فَهَنَّيْنَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری عورت کے گھر میں تھے جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے کھانا تیار کیا تھا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا پس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر انور چھوٹی کھجور کی شاخوں میں سے نکالے ہوئے فرما رہے تھے اے اللہ اگر تو چاہتا ہے تو اس آنے والے کو علی بنا دے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 96 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 331، الحديث رقم : 14590، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 209، الحديث رقم : 233.
97. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ : وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ إنْ کَانَ عَلِيٌّ لَأَقْرَبَ النَّاسِ عَهْدًا بِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَتْ : عُدْنَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم غَدَاةً بَعْدَ غَدَاةٍ يَقُوْلُ : جَاءَ عَلِيٌّ مِرَارًا. قَالَتْ : وًأَظُنُّهُ کَانَ بَعَثَهُ فِي حَاجَةٍ. قَالَتْ فَجَاءَ بَعْدُ فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ إِلَيْهِ حَاجَةً فَخَرَجْنَا مِنَ الْبَيْتِ فَقَعَدْنَا عِنْدَ الْبَابِ فَکُنْتُ مِنْ أَدْنَاهُمْ إِلَي الْبَابِ، فَأَکَبَّ عَلَيْهِ عَلِيٌّ فَجَعَلَ يُسَارُّهُ وَيُنَاجِيْهِ، ثُمَّ قُبِضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ يَوْمِهِ ذَلِکَ، فَکَانَ أَقْرَبَ النَّاسِ بِهِ عَهْدًا. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں اس ذات کی قسم جس کا میں حلف اٹھاتی ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب تھے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم نے آئے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیادت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ علی (میری عیادت کے لئے) بہت مرتبہ آیا ہے۔ آپ بیان کرتی ہیں : میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی ضروری کام سے بھیجا تھا۔ آپ فرماتی ہیں : اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے سمجھا آپ کو شاید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی کام ہو گا پس ہم باہر آ گئے اور دروازے کے قریب بیٹھ گئے اور میں ان سب سے زیادہ دروازے کے قریب تھی پس حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرگوشی کرنے لگے پھر اس دن کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے پس حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے زیادہ عہد کے اعتبار سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تھے۔اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 97 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 300، الحديث رقم : 26607، و الحاکم في المستدرک، 3 / 149، الحديث رقم : 4671، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 112.
98. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : لَمَّا خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْمَدِيْنَةِ فِي الْهِجْرَةِ، أَمَرَنِي أَنْ أُقِيْمَ بَعْدَه حَتَّي أُؤَدِّيَ وَدَائِعَ کَانَتْ عِنْدَهُ لِلنَّاسِ، وِلِذَا کَانَ يُسَمَّي الأَمِيْنُ. فَأَقَمْتُ ثَلاَ ثًا، فَکُنْتُ أَظْهَرُ، مَا تَغَيَبْتُ يَوْمًا وَاحِدًا ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَعَلْتُ أَتْبَعُ طَرِيْقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَتَّي قَدِمْتُ بَنِيْ عَمَرِو بْنِ عَوْفٍ وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مُقِيْمٌ، فَنَزَلْتُ عَلَي کُلْثُوْمِ بْنِ الْهِدْمِ، وَهُنَالِکَ مَنْزِلُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کی غرض سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو مجھے حکم دیا کہ میں ابھی مکہ میں ہی رکوں تاآنکہ میں لوگوں کی امانتیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں وہ انہیں لوٹا دوں۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا پس میں نے تین دن مکہ میں قیام کیا، میں مکہ میں لوگوں کے سامنے رہا، ایک دن بھی نہیں چھپا۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چلا یہاں تک کہ بنو عمرو بن عوف کے ہاں پہنچا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں مقیم تھے۔ پس میں کلثوم بن ھدم کے ہاں مہمان ٹھہرا اور وہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام تھا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 98 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبري، 3 / 22.
99. عَنْ جَعْفَرٍ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : عَلِيٌّ رضي الله عنه : بِتْنَا لَيْلَةً بِغَيْرِ عَشَاءٍ، فَأَصبَحْتُ فَخَرَجْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَي فَاطِمَةَ عليها السلام. وَهِيَ مَحْزُوْنَةٌ فَقُلْتُ : مَا لَکِ؟ فَقَالَتْ : لَمْ نَتَعَشَّ البَارِحًةَ وَلَمْ نَتَغَدَّ الْيَوْمَ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا عَشَاءٌ، فَخَرَجْتُ فَالْتَمَسْتُ فَأَصَبْتُ مَا اشْتَرَيْتُ طَعَامًا وَلَحْمًا بِدِرْهَمٍ، ثُمَّ أَتَيْتُهَا بِهِ فَخَبَزَتْ وَطَبَخَتْ، فَلَمَّا فَرَغَتْ مِنْ إِنْضَاجِ الْقِدْرِ قَالَتْ : لَوْ أَتَيْتَ أَبِيْ فَدَعَوْتَهُ، فَأَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ مُضْطَجِعٌ فِي الْمَسْجِدِ وَهُوَ يَقُوْلُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الْجُوْعِ ضَجِيْعًا، فَقُلْتُ : بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّيْ يَارَسُوْلَ اﷲِ، عِنْدَنَا طَعَامٌ فَهَلُمَّ، فَتَوَکَّأَ عَلَيَّ حَتَّي دَخَلَ وَالْقِدْرُ تَفُوْرُ فَقَالَ : اغْرِفِيْ لِعَائِشَةَ فَغَرَفَتْ فِي صَحْفَةٍ، ثُمَّ قَالَ : اغْرِفِي لِحَفْصَةَ فَغَرَفَتْ فِي صَحْفَةٍ، حَتَّي غَرَفَتْ لِجَمِيْعِ نِسَائِهِ التِِّسْعِ، ثُمَّ قَالَ : اغْرِفِي لِأَبِيْکِ وَ زَوْجِکِ فَغَرَفَتْ فَقَالَ : اغْرِفِي فَکُلِيْ فَغَرَفَتْ، ثُمَّ رَفَعَتِ الْقِدْرَ وَإِنَّهَا لَتَفِيْضُ، فَأَکَلْنَا مِنْهَا مَاشَاءَ اﷲُ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی.
’’امام جعفر بن محمد الباقر رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ ہم نے ایک رات بغیر شام کے کھانے کے گزاری پس میں صبح کے وقت گھر سے نکل گیا پھر میں فاطمہ کی طرف لوٹا تو وہ بہت زیادہ پریشان تھی میں نے کہا اے فاطمہ کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا کہ ہم نے گذشتہ رات کھانا نہیں کھایا اور آج دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا اور آج پھر رات کے کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے پس میں باہر نکلا اور کھانے کے لئے کوئی چیز تلاش کرنے لگا پس میں نے وہ چیز پالی جس سے میں کچھ طعام اور ایک درہم کے بدلے گوشت خرید سکوں پھر میں یہ چیزیں لے کر فاطمہ کے پاس آیا، اس نے آٹا گوندھا اور کھانا پکایا اور جب ہنڈیا پکانے سے فارغ ہو گئی تو کہنے لگی اگر آپ میرے والد ماجد کو بھی بلا لائیں؟ پس میں گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں لیٹے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ اے اﷲ! میں بھوکے لیٹنے سے پناہ مانگتا ہوں پھر میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ہمارے پاس کھانا موجود ہے آپ تشریف لائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا سہارا لے کر اٹھے اور ہم گھر میں داخل ہو گئے۔اس وقت ہنڈیا ابل رہی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : اے فاطمہ! عائشہ کے لئے کچھ سالن رکھ لو۔ پس فاطمہ نے ایک پلیٹ میں ان کے لئے سالن نکال دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حفصہ کے لئے بھی کچھ سالن نکال لو پس انہوں نے ایک پلیٹ میں ان کے لئے بھی سالن رکھ دیا یہاں تک کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نو ازواج کے لئے سالن رکھ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے والد اور خاوند کے لئے سالن نکالو پس انہوں نے نکالا پھر فرمایا : اپنے لئے سالن نکالو اور کھاؤ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر انہوں نے ہنڈیا کو اٹھا کر دیکھا تو وہ بھری ہوئی تھی پس ہم نے اس میں سے کھایا جتنا اللہ نے چاہا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ (سبحان اﷲ)
الحديث رقم 99 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 1 / 187.
(10) بَابٌ فِي کَوْنِهِ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَي اﷲِوَ رَسُوْلِهِ صلي الله عليه وآله وسلم
(لوگوں میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب)
100. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ : کَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم طَيْرٌ فَقَالَ : اللَّهُمَّ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ هَذَا الطَّيْرَ، فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَکَلَ مَعَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی یااﷲ! اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا۔ اس حدیث کو امام ترمذي نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 100 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3721، و الطبراني في المعجم الاوسط، 9 / 146، الحديث رقم : 9372، وابن حيان في الطبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 454 .
101. عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ : کَانَ أَحَبَّ النِّسَاءِ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَاطِمَةُ وَمِنَ الرِّجَالِ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا تھیں اور مردوں میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
الحديث رقم 101 : أخرجه الترمذي في ابواب المناقب باب فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 698، الحديث رقم : 3868، والطبراني في المعجم الاوسط، 8 / 130، الحديث رقم : 7258، والحاکم في المستدرک، 3 : 168، رقم : 4735.
102. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرِ التَّمِيْمِيِّ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِيْ عَلَي عَائِشَةَ فَسَئَلْتُ أَيُّ النَّاسِ کَانَ أَحَبَّ إِلٰي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَتْ فَاطِمَةُ، فَقِيْلَ مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ زَوْجُهَا، إِنْ کَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّاماً قَوَّاما. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت جمیع بن عمیر تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں حاضر ہوا پھر میں نے ان سے پوچھا لوگوں میں کون حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھے؟ انہوں نے فرمایا : حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا پھر عرض کیا گیا اور مردوں میں سے کون سب سے زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا : اس کا خاوند اگرچہ مجھے ان کا زیادہ روزے رکھنا اور زیادہ قیام کرنا معلوم نہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
الحديث رقم 102 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، أبواب المناقب، باب فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الحديث رقم : 3874، والحاکم في المستدرک، 3 / 171.
103. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ اُمِّيْ عَلَي عَائِشَةَ فَسَمِعْتُهَا مِنْ وَرَائِ الْحِجَابِ وَهِيَ تَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ فَقَالَتْ : تَسْأَلُنِيْ عَنْ رَجُلٍ وَاﷲِ مَا أَعْلَمُ رَجُلًا کَانَ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ عَلِيٍّ وَلَا فِيْ الْأَرْضِ إِمْرأَةٌ کَانَتْ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ إِمْرَأَتِهِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ
وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْأَسْنَادِ.
’’حضرت جمیع ابن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی والدہ کے ہمراہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس حاضر ہوا، میں نے پردہ کے پیچھے سے آواز سنی ام المومنین میری والدہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھ رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا : آپ مجھ سے اس شخص کے بارے میں پوچھ رہی ہیں بخدا میرے علم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کوئی شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ محبوب نہ تھا اور نہ روئے زمین پر ان کی بیوی (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا) سے بڑھ کر کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں محبوب تھی۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
الحديث رقم 103 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 167، الحديث رقم : 4731، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 140، الحديث رقم : 8497.
104. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : کُنْتُ أَخْدِمُ رَسُوْلَ صلي الله عليه وآله وسلم فَقُدِّمَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَرْخٌ مَشْوِيٌ فَقَالَ : اللَّهُمَّ ائْتِنِيْ بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ مِنْ هَذَا الطَّيْرِ قَالَ : فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ رَجُلاً مِنَ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ عَلِيٌّ رضي الله عنه فَقُلْتُ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَليَ حَاجَّةٍ ثُمَّ جَاءَ فَقُلْتُ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي حاجَةٍ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : افْتَحْ فَدَخَلَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَا حَبَسَکَ عَلَيَّ فَقَالَ : إِنَّ هَذِهِ آخِرُ ثَلاَثِ کَرَّاتٍ يَرَدُّنِيْ أَنَسٌ يَزْعَمُ إِنَّکَ عَلَي حَاجَةٍ فَقَالَ : مَا حَمَلَکَ عَلَيَّ مَا صَنَعْتَ؟ فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ سَمِعْتُ دُعَاءَ کَ فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَکُوْنَ رَجُلاً مِنْ قَوْمِيْ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ : إنَّ الرَّجُلَ قَدْ يُحِبُّ قَوْمَهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَي شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنا ہوا پرندہ پیش کیا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! میرے پاس اسے بھیج جو مخلوق میں تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دعا کی یا اﷲ! کسی انصاری کو اس دعا کا مصداق بنا دے، اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشغول ہیں۔ وہ واپس چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر تشریف لائے اور دروازہ کھٹکھٹایا، پھر میں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشغول ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ پھر آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انس! اس کیلئے دروازہ کھول دو، وہ اندر داخل ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : تجھے کس نے میرے پاس آنے سے روکا؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ تین میں سے آخری بار ہے کہ انس مجھے یہ کہہ کر واپس کرتے رہے کہ آپ کسی کام میں مشغول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے میرے اس عمل کی وجہ دریافت کی تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے آپ کو دعا کرتے سن لیا تھا۔ پس میری خواہش تھی کہ یہ (خوش نصیب) شخص انصار میں سے ہو۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر آدمی اپنی قوم سے پیار کرتا ہے۔ اس حدیث کوامام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث شیخین کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
الحديث رقم 104 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 141، الحديث رقم : 4650، و الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 267، الحديث رقم : 7466، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 253، الحديث رقم : 730، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 126.
105. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : إِشْتَکَي عَلِيًّا النَّاسُ، قَالَ : فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْنَا خَطِيْبًا، فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أُيُهَا النَّاسُ! لاَ تَشْکُوْا عَلِيًّا، فَوَاﷲِ! إِنَّهُ لَأَخْشَنُ فِيْ ذَاتِ اﷲِ، أَوْ فِي سَبِيْلِ اﷲِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الْحَاکِمُ.
وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ .
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکایت کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، اللہ کی قسم وہ اللہ کی ذات میں یا اللہ کے راستہ میں بہت سخت ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہایہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
الحديث رقم 105 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 86، الحديث رقم : 11835، و الحاکم في المستدرک، 3 / 144، الحديث رقم : 4654، و ابن هشام في السيرة النبوية، 6 / 8.
106. عَنْ أَبِيْ رَافِعٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ عَلِيًّا مَبْعَثًا فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ وَ جِبْرِيْلُ عَنْکَ رَاضُوْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا، جب وہ واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اللہ تعالیٰ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل آپ سے راضی ہیں۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 106 : أخرجه الطبراني في المجعم الکبير، 1 / 319، الحديث رقم؛ 946، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.
(11) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ أَحَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ أَحَبَّنِيْ وَمَنْ أَبْغَضَ عَلِيًّا رضي الله عنه فَقَدْ أَبْغَضَنِيْ
(حبِ علی رضی اللہ عنہ حبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور بغضِ علی رضی اللہ عنہ بغضِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے)
107. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَ حُسَيْنٍ فَقَالَ : مَنْ أَحَبَّنِيْ وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَ أَبَاهُمَا وَ أُمَّهُمَا کَانَ مَعِيَ فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پکڑے اور فرمایا : جو مجھ سے محبت کرے گا اور ان دونوں سے اور ان دونوں کے والد (یعنی علی رضی اللہ عنہ) اور دونوں کی والدہ (یعنی فاطمہ رضی اﷲ عنہا) سے محبت کرے گا وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہو گا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 107 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي، 5 / 641، الحديث رقم : 3733، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 77، الحديث رقم : 576، و الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 77، الحديث رقم : 576، و ايضاً في 2 / 163، الحديث رقم : 960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 45، الحديث رقم : 421.
108. عَنْ عَمْرِو بْنِ شَأْسِ نالأَسْلَمِيِّ قَالَ (وَ کَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ) قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عَلِيٍّّ إِلَي الْيَمَنِ، فَجَفَانِي فِي سَفَرِي ذَلِکَ، حَتَّي وَجَدْتُ فِي نَفْسِيْ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ أَظْهَرْتُ شَکَايَتَهُ فِي الْمَسْجِدِ حَتّي بَلَغَ ذَلِکَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ ذَاتَ غُدَاةٍ، وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا رَانِي أَبَدَّنِي عَيْنَيْهِ يَقُوْلُ : حَدَّدَ إِلَيَّ النَّظَرَ حَتّي إِذَا جَلَسْتُ قَالَ يَا عَمَرُو! وَاﷲِ! لَقَدْ آذَيْتَنِي قُلْتُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ أَنْ أُؤْذِيَکَ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ بَلَي، مَنْ آذَي عَلِيًّا فَقَدْ آذَانِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن شاس اسلمی رضی اللہ عنہ جو کہ اصحاب حدیبیہ میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ یمن کی طرف روانہ ہوا۔ سفر کے دوران انہوں نے میرے ساتھ سختی کی یہاں تک کہ میں اپنے دل میں ان کے خلاف کچھ محسوس کرنے لگا، پس جب میں (یمن سے) واپس آیا تو میں نے ان کے خلاف مسجد میں شکایت کا اظہار کر دیا یہاں تک کہ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گئی پھر ایک دن میں مسجد میں داخل ہوا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مجمع میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بڑے غور سے دیکھا یہاں تک کہ جب میں بیٹھ گیا توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمرو! خدا کی قسم تونے مجھے اذیت دی ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کو اذیت دینے سے میں اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں جو علی کو اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے۔اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 108 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 483، و الحاکم في المستدرک، 3 / 131، الحديث رقم : 4619، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 129، و أحمد بن حنبل أيضاً في فضائل الصحابة، 2 / 579، الحديث رقم : 981. والبخاري في التاريخ الکبير، 2 / 3060.307.
109. عَنْ عَبْدِ اﷲِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَي أُمِّ سَلَمَةَ رضي اﷲ عنها فَقَالَتْ لِيْ : أَيُسَبُّ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْکُمْ؟ قُلْتُ : مَعَاذَ اﷲِ! أَوْ سُبْحَانَ اﷲِ أَوْ کَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِيْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت عبداﷲ جدلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے کہا : کیا تمہارے اندر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی جاتی ہے؟ میں نے کہا اﷲ کی پناہ یا میں نے کہا اﷲ کی ذات پاک ہے یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا تو انہوں نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو علی کو گالی دیتا ہے وہ مجھے گالی دیتا ہے۔اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 109 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 323، الحديث رقم : 26791، والحاکم في المستدرک، 3 / 130، الحديث رقم : 4615، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 133، الحديث رقم : 8476، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 130.
110. عَنِ ابِْن أَبِيِ مَلِيْکَةَ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ فَسَبََّ عَلِيّاً عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَحَصَبَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ : يَا عَدُوَّاﷲِ آذَيْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : (إِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ اﷲُ فِي الدُّنْيَا وَالْأَخِرَةِ وَأَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا) لَوْکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَيّاً لَآذَيْتَهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَ قَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
’’حضرت ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل شام سے ایک شخص آیا اور اس نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا، حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے اس کو ایسا کہنے سے منع کیا اور فرمایا : اے اﷲ کے دشمن تو نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دی ہے۔ (پھر یہ آیت پڑھی) ’’بے شک وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں اﷲ تبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت میں ان پر لعنت بھیجتا ہے اور اﷲ نے ان کے لئے ایک ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے پھر فرمایا : اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہوتے تو یقیناً (تو اس بات کے ذریعے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت کا باعث بنتا۔ اس حدیث کو امام حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
الحديث رقم 110 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 121، 122، الحديث رقم : 4618.
111. عَنْ أَبِيْ عَبْدِاﷲِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : حَجَجْتُ وَ أَنَا غُلاَمٌ فَمَرَرْتُ بِالْمَدِيْنَةِ وَ إِذَا النَّاسَ عُنُقٌ وَاحِدًٌ فَاتَّبَعْتُهُمْ، فَدَخَلُوْا عَلٰي أُمِّ سَلْمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَسَمِعْتُهَا تَقُوْلُ : يَا شَبِيْبَ بْنَ رَبْعِيٍ، فَأَجَابَهَا رَجُلٌ جَلْفٌ جَافٌ : لَبَّيْکَ يَا أَمَّتَاهُ، قَالَتْ : أَيُسَبُّ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي نَادِيْکُمْ؟ قَالَ : وَ أَنّٰي ذٰلِکَ! قَالَتْ : فَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ قَالَ : إِنَّا لَنَقُوْلْ شَيْئاً نُرِيْدُ عَرَضَ هَذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، قَالَتْ : فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ مَنْ سَبَّ عَلِيّاً فَقَدْ سَبَّنِي، وَمَنْ سَبَّنِي فَقَدْ سَبَّ اﷲ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ.
’’حضرت ابو عبداﷲ جدلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک غلام کے ساتھ حج کیا پس میں مدینہ کے پاس سے گزرا تو میں نے لوگوں کو اکھٹا (کہیں جاتے ہوئے)دیکھا، میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ وہ سارے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے پس میں نے ان کوآواز دیتے ہوئے سنا کہ اے شبیب بن ربعی! ایک روکھے اور سخت مزاج آدمی نے جواب دیا ہاں میری ماں! تو آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : کیا تمہارے قبیلہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دی جاتی ہیں؟ اس آدمی نے عرض کیا : یہ کیسے ہوسکتا ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا حضرت علی بن ابی طالب کو گالی دی جاتی ہے؟ تو اس نے کہا ہم جو بھی کہتے ہیں اس سے ہماری مراد دنیاوی غرض ہوتی ہے۔ پس آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے اﷲ کو گالی دی۔ اس حدیث کو حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 111 : أخرجه الحاکم فيالمستدرک، 3 / 121، الحديث رقم : 4616، وقال الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 130 : رجاله رجال الصحيح، و ابن عساکر في تاريخه، 42 / 533. 42 / 266، 266، 267. 268، 533.
112. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه قَالَ نَظَرَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيّ فَقَالَ : يَا عَلِيُّ أَنْتَ سَيِدٌ فِي الدُّنْيَا سَيِدٌ فِي الْآخِرَةِ حَبِيْبُکَ حَبِيْبِيْ وَ حَبِيْبِيْ حَبِيْبُ اﷲِ وَعَدُوُّکَ عَدُوِّيْ وَ عَدُوِّيْ عَدُوُّ اﷲِ وَ الْوَيْلُ لِمَنْ أَبْغَضَکَ بَعْدِيَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ صَحِيْحٌ عَلٰي شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری (یعنی علی کی) طرف دیکھ کر فرمایا اے علی! تو دنیا و آخرت میں سردار ہے۔ تیرا محبوب میرا محبوب ہے اور میرا محبوب اللہ کا محبوب ہے اور تیرا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے اور اس کیلئے بربادی ہے جو میرے بعد تمہارے ساتھ بغض رکھے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے‘‘
الحديث رقم 112 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 138، الحديث رقم : 4640، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 5 / 325، الحديث رقم : 8325.
113. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لِعَلِيٍّ : طَوْبٰي لِمَنْ أَحَبَّکَ وَصَدَّقَ فِيْکَ، وَوَيْلٌ لَمَنْ أَبْغَضَکَ وَکَذَّبَ فِيْکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ أَبُوْيَعْلَی.
وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْاِسْنَادِ.
’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے فرماتے ہوئے سنا (اے علی) مبارکباد ہو اسے جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور تیری تصدیق کرتا ہے اور ہلاکت ہو اس کے لئے جو تجھ سے بغض رکھتا ہے اور تجھے جھٹلاتا ہے۔ اس حدیث کو حاکم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
الحديث رقم 113 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 145، الحديث رقم : 4657 وأبو يعلي في المسند، 3 / 178.179، الحديث رقم : 1602، و الطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 337، الحديث رقم : 2157.
114. عَنْ سَلْمَانَ أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ لِعَلِيٍّ : مُحِبُّکَ مُحِبِّيْ وَ مُبْغِضُکَ مُبْغِضِيْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تجھ سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 114 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 239، الحديث رقم : 6097، والبزار في المسند، 6 / 488، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 5 / 316، الحديث رقم : 8304.
115. عَنِ الْحُسَيْنِ بَنِ عَلِيٍّ قَالَ : سَمِعْتُ جَدِّي رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا تَسُبُّوْا أَبَا بَکْرٍ وَ عُمَرَ فَإِنَّهُمَا سَيِدَا کَهُوْلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخَرِيْنَ إِلاَّ النَّبِيِيْنَ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَلاَ تَسُبُّوْا الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ، فَإِنَّهُمَّا سَيِدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَلاَ تَسْبُّوْا عَلِيّاً، فَإِنَّهُ مَنْ سَبَّ عَلِيّاً فَقَدْ سَبَّنِي، وَمَنْ سَبَّنِي فَقَدْ سَبَّ اﷲَ، وَمَنْ سَبَّ اﷲَ عَزَّوَجَلَّ عَذَّبَهُ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخِهِ.
’’امام حسین بن علی رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے اپنے نانا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ابوبکر اور عمر کو گالی نہ دو پس بے شک وہ دونوں اولین و آخرین میں سے ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں سوائے نبیوں اور مرسلین کے اور حسن اور حسین کو بھی گالی نہ دو بے شک وہ نوجوان جنتیوں کے سردار ہیں اور علی کو گالی نہ دو پس بے شک جو علی کو گالی دیتا ہے وہ مجھے گالی دیتا ہے اور جو مجھے گالی دیتا ہے وہ اﷲ کو گالی دیتا ہے۔ اسے ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 115 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 14 / 131 / 132، 30 / 178، 179.
116. عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ وَهُوَ آخِذٌ بِشَعْرِهِ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٌ وَهُوَ آخِذٌ بِشَعْرِهِ، قَالَ : حَدَّثَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ آخِذٌ بِشَعْرِهِ قَالَ : مَنْ آذَي شَعْرَةً مِنْکَ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَي اﷲَ، وَمَنْ آذَي اﷲَ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اﷲِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
’’امام حسین بن علی رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں درآنحالیکہ وہ اپنے بال پکڑے ہوئے تھے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا درآنحالیکہ وہ اپنے بال پکڑے ہوئے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا درآنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے موئے مبارک پکڑے ہوئے تھے کہ جس شخص نے تجھے (اے علی) بال برابر بھی اذیت دی تو اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اﷲ کو اذیت دی اور جس نے اﷲ کو اذیت دی پس اس پر اﷲ کی لعنت ہو۔ اسے ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں روایت کی ہے۔‘‘
الحديث رقم 116 : أخرجه ابن عساکر في تاريخه، 54 / 308 : و الهندي في کنز العمال، 12 / 349، الحديث رقم : 25351، و نيشابوري في شرف المصطفي. 5 / 505، الحديث رقم : 2486.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment