نام نھاد اھلحدیث غیر مقلد وھابی در اصل شیعہ ھیں ( پارٹ 5 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اجماع امت اور قیاس کی حجیت کے غیر مقلد اور شیعہ دونوں منکر ہیں ۔
قارئین کو معلوم ہونا چائیے کہ اصول شریعت اسلام بالاتفاق علماء امت چار ہیں۔
نمبر1
کتاب اللہ
نمبر2
سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نمبر3
اجماع امت
نمبر4
قیاس شرعی
انہیں چاروں پر اصول و فروع کا مدار ہے، تمام اہل سنت خواہ وہ حنفی ہوں یا شافعی، مالکی ہوں یا حنبلی، ان چاروں کی حجیت تسلیم کرتے ہیں، اور جو ان چاروں کو حجت نہ مانے اس کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے۔
لیکن غیر مقلد ٹولہ ان میں سے پہلے دو کے ماننے کا دعوٰی کرتا ہے مگر دوسرے دونوں کا انکار کرتا ہے ، یہ اجماع امت اور قیاس شرعی کو نہیں مانتے محض اس وجہ سے ان کا آدھا اسلام تو رخصت ہوا۔ باقی آدھا جس کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مدار ہے اس کو اپنی مرضی سے مانتے ہیں۔ یعنی آیت کی تفسیر اور حدیث کی تشریح میں یہ علماء سلف کے پابند نہیں۔ ان کے ہاں اس کے وہ معنی و مفہوم معتبر ہیں جو ان کی اپنی سمجھ میں آجائے۔ خواہ وہ اجماع امت کے خلاف ہو، فقہا و محدثین کے خلاف ہو ان کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ لہٰزہ کتاب و سنت کو ماننا بھی ان کا برائے نام ہے، یہ بھی کوئی ماننا ہے جو تفسیر بالرائے کے زمرے میں آتا ہو ۔ ساری امت کہتی ہے آیت “واذاقری القرآن فاستمعوا لہ و انصتو لعلکم ترحمون“ نماز کے متعلق نازل ہوئی مگر یہ بضد ہیں کہ خطبہ کے متعلق ہے۔
ساری امت متفق ہے کہ اک مجلس کی دی ہوئی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور بیوی اس سے مغلظ ہوجاتی ہے، اسکے بعد “ فلا تحل لہ من بعدہ حتٰی تنکح زوجا غیرہ“ کا حکم اس پر لازم آتا ہے ، مگر یہ کہتے ہیں کہ اک مجلس کی دی ہوئی طلاقیں خواہ سو ہو ، وہ ایک ہی بنتی ہے اس سے بیوی مغلظہ نہیں ہوتی بلکہ خاوند کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے ۔ اور خدا نا ترس لوگ ایسے کیس میں بیوی کو واپس کرادیتے ہیں۔ وہ ساری زندگی زنا کراتی اور ولد الزنا جنم دیتی ہے۔ جسکا وبال اس پر کم اور ان غلط کار مفتریوں پر زیادہ ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے غلیظ فتوے کی آڑ میں اس کو زنا کا موقع فراہم کیا ہے۔ تو یہ قرآن و حدیث کو ماننا نہیں ، اسکو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنا ہے ۔ جس کو اسلام نہیں کہہ سکتے ، بلکہ یہ تو اسلام کے ساتھ مزاق ہے۔
اب اجماع و قیاس کو نہ ماننے کا شیعہ وغیر مقلد توافق ملاحظہ فرمائیں۔
خلفائے ثلاثہ حضرات
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
عمر فاروق رضٰ اللہ عنہ
عثمان غنی رضی اللہ عنہ
کی خلافتیں امت کے اجماع سے ثابت ہیں ، مگر شیعہ ان کو نہیں مانتے تو وہ اجماع کے منکر ہوئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب بیس تراویح رائج کیں، مجلس واحد میں تین طلاقوں کو تین قرار دیا ، نکاح متعہ کی حرمت کا اعلان کیا تو کسی صحابی نے اس سے اختلاف نہیں کیا ، یہ تینوں مسئلے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اجماع سے ثابت ہوئے، پھر ان مسئلوں کو نہ شیعوں نے مانا اور ناہی غیر مقلدوں نے، تو اسطرح یہ دونوں فریق اجماع امت کے منکر ہوئے ۔ اور اجماع امت تیسرا اصول اسلام ہے تو اس کے انکار کی وجہ سے ہم شیعوں کو تو کافر کہتے ہیں ، مگر ابھی غیر مقلدوں کو نہیں ، کیونکہ ان کا انکار ابھی کھل کر علماء کے سامنے نہیں آیا، اور ناں ہی یہ عوام کے علم میں ہے، اسلئے فی الحال ان کے کفر کا فتوٰی نہ دینا ایک احتیاط ہے۔
قیاس شرعی کے انکار میں غیر مقلد اور شیعہ دونوں متفق ہیں
ابن تیمیہ اپنی کتاب “منہاج السنۃ“ میں روافض کا درج ذیل اعتراض نقل کرتے ہیں ، جس کو غیر مقلدین بڑے فخر سے اچھالتے ہیں کہ
“قال الرافضی و ذھب الجمیع منھم الی القول
بالقیاس و الا خلد بالرای فادخلو فی دین اللہ
ما لیس منہ و حرفو ا احکام الشریعۃ و اتخزوا
مذھب اربعۃ لم تکم فی ذمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔قالوا ان اول من قاس ابلیس۔“
(منھاج السنۃ،صفحہ89،جلد1)
یعنی رافضی کہتا ہے کہ سارے اہل سنت و جماعت قیاس اور عمل بالرائے کے قائل ہیں اور اس کے عامل ہیں، انہوں نے خدا تعالٰی کے دین میں ایسی چیز داخل کردی ہے جو اس میں سے نہیں ہے۔ اور انہوں نے احکام شریعت کو بدل دیا ہے اور چار مذاھب بنارکھے ہیں، جو نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھے اور ناں ہی صحابہ کرام کے دور میں۔ حالانکہ صحابہ کرام نے ترک قیاس کی تاکید کی ہے اور یہ کہا ہے کہ جس نے سب سے پہلے قیاس کیا وہ ابلیس ہے۔
بعینہ یہی اعتراض غیر مقلد احناف پر کرتے ہیں ، حتٰی کہ اگر “قالو“ کا فاعل الروافض کی بجائے غیر مقلدین کو فرض کرلیا جائے تو ہوبہو درست ہے۔ غیر مقلدوں کو قیاس کی حجت سے بھی انکار ہے۔ جو اصول اسلام میں سے اور چار مزاہب پر بھی اعتراض ہے کہ یہ مزاہب بدعت ہیں، غیر مقلدوں کو تقلید ائمہ پر بھی اعتراض ہے کہ یہ شرک و کفر ہے۔ دیکھئے بڑے چھوٹے بھائی آپس میں کتنے مشابہہ ہیں۔
شیعہ کے اعتراض کی تفصیل
حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دھللوی رحمہ اللہ شیعوں کے اس اعتراض کو نقل کرکے اس کا دندان شکن جواب بھی دیتے ہیں ۔ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ “شیعوں کا پچاسواں مکر و فریب یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مزاہب پر کیوں عمل کرتے ہیں؟“ (تحفہ اثناعشریہ،صفحہ 109)
یہی اعتراض بعینہ غیر مقلدوں کا ہے۔ انکا اک شعر ہے ۔
دین حق را چار مذاہب ساختند
رخنہ در دین نبی اند اختند
اس سے قارئین کو معلوم ہونا چاہیئے کہ غیر مقلدوں نے یہ اعتراض شیعوں سے لئے ہیں جو اپنی طرف سے پیش کرکے بڑے تیس مارخان بنتے ہیں، لیکن یہ جراءت نہیں کہ اپنے بڑوں کا نام لیتے جن سے یہ اعتراض لے کر اہل سنت و جماعت باالخصوص احناف کو کافر و مشرک بناتے ہیں۔
شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ محدث دہلوی کا جواب
“(مذہب اور شریعت کی تمیز)
جواب ایں کیدایں کہ نبی صاحب شریعت است نہ صاحب مزہب زیرا کہ مزہب نام راہے است
کہ بعض امتیاں رادرفہم شریعت کشادہ شود و بعض خود چند قواعد مقرر کنند کہ موافق آں قواعد استنباط مسائل شریعیہ از ماخزآں نمایند ولھزا محتمل صواب و خطا مے باشد و لھزا مزہب را بسوئے خدا و جبرائیل و دیگر ملائکہ نسبت کردن کمال بے خروے است۔“ (تحفہ اثناعشریہ،صفحہ109)
“یعنی اس مکر کا جواب یہ ہے کہ نبی صاحب شریعت ہوتا ہے نہ کہ صاحب مزہب کیونکہ مزہب تو راہ کا نام ہے جو فہم شریعت کے سلسلے میں بعض امتیوں پر کھولی جاتی ہے۔ اور پھر وہ اپنی عقل و خرد سے چند قواعد مقرر کرتے ہیں ان قواعد کے مطابق شرعی مسائل انکے ماخز (کتاب و سنت و اجماع و قیاس) سے نکالے جاتے ہیں۔ اسی لئے مسائل نکالنے میں خطا و ثواب دونوں کا احتمال ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ خدا تعالٰی ، جبرائیل و ملائکہ ، و انبیاء علیھم السلام کی طرف مزہب کی نسبت کرنا بے وقوفی ہے (اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دین کہا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزہب نہیں کہا کرتے، یوں کہنا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مزہب یہ ہے ، صریح حماقت اور سخت جہالت ہے)
یہی حماقت غیر مقلدین کر رہے ہیں کہ دین اور مذہب کو ایک چیز سمجھ کر لوگوں کو ورغلاتے ہیں کہ خدا کا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب تو ایک تھا ، مگر ان مقلدوں نے چار مذہب بنالئے ہیں، ہم پھر اسکو ایک کرنا چاہتے ہیں۔عوام بے چارے دین اور مذہب کا فرق کیا سمجھیں ، وہ ان کے چکر میں آجاتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ دین تو سب مقلدین کا اب بھی اک ہے ، لیکن مزہب مختلف ہیں، جیسے چار شخصوں کی منزل تو ایک ہو لیکن وہ چاروں مختلف راستوں سے اس منزل تک پہنچیں ۔ کوئی مشرق سے، کوئی مغرب سے، کوئی شمال سے، کوئی جنوب سے۔ جیسے خانہ کعبہ اور مسجد حرام میں آنے کے لئے کوئی باب السلام سے آئے یا باب عبدالعزیز سے ، کوئی باب صفا سے آئے یا باب عمرہ سے، وہ بہرحال مسجد حرام میں پہنچ جائے گا۔
مزہب کا معنی راستہ ہے اور راستے کئی ہوسکتے ہیں ، مگر منزل ایک ہی ہوتی ہے۔ اب دین و شریعت کے معروف راستے یہی چار ہیں۔ حنفی،شافعی، مالکی، اور حنبلی ، ان کو تو موٹر وے کہنا چاھئے۔ ان کے علاوہ جو اور لوگوں نے راستے بنائے ہیں یا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ غیر معروف برانچیں ہیں، انکے ذریعے منزل تک پہنچنا یقینی نہیں۔ وہ راہیں خطرناک اور پر صعوبت ہیں اور دانش مندوں نے کہا ہے۔ برو راہ راست گرچہ دور است
اسی لئے سلامتی اور منزل تک یقینی رسائی کا تقاضا یہی ہے کہ انہی معروف شاہراہوں پر چلاجائے جن پر چل کے اکابر ملت منزل پر پہنچے ہیں اور غیر مقلدین کی بنائی ہوئی برانچوں اور پگڈنڈیوں میں اپنی عمر عزیز ضائع نہ کی جائے۔ ( جاری ہے )
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment