Wednesday 31 October 2018

گستاخِ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی سزا سر تن سے جدا

0 comments
گستاخِ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی سزا سر تن سے جدا

کتاب اﷲ نے شاتمین رسول اور مخالفین انبیاء کو ذلیل ترین مخلوق قرار دیا۔ ارشاد باری ہے : ان الذین یحادون اﷲ ورسولہ اولٰئک فی الاذلین (المجادلۃ 20/58)
ترجمہ : بے شک وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ سب لوگ انتہائی ذلیل لوگوں میں ہیں ۔

وہ لوگ جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دکھ اور ایذا دیتے ہیں ان کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا : ان الذین یؤدون اﷲ ورسولہ لعنہم اﷲ فی الدنیا والاخرۃ واعدلہم عذاباً مہینا (الاحزاب 58/33)
ترجمہ : بے شک وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں، اﷲ بھی انہیں دنیا اور آخرت میں اپنی رحمت سے دور کردیتا ہے اور اس نے ایسے لوگوںکے لئے رسوا کن عذاب تیار کررکھا ہے ۔
اس آیت کی تشریح میں جمہور مفسرین نے یہ بات نقل کی ہے : مدینہ میں کچھ اوباش آوارہ صفت ، بدمزاج اور منافقین شاتمین حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گھر والوں کے لئے تشبیب بکتے، گھرانہ رسول کی توہین کرتے، افواہیں پھیلاتے، دکھ دینے والی باتیں کرتے۔ قرآن حکیم نے انہیں ملعون کہا اور صاف واشگاف اعلان کردیا۔ یہ دھتکارے ہوئے ملعون لوگ جہاں ملیں گرفتار کرلئے جائیں اور انہیں قتل کردیا جائے۔ اس گینگ کا سرغنہ کعب بن اشرف تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مسجد نبوی میں اعلان فرمایا کہ تم میں سے کوئی ہے جو مجھے کعب بن اشرف کے بارے میں سکون دے (حضرت) محمد بن مسلمہ رضی اﷲ عنہ نے اجازت چاہی کہ اسے آئینہ میں اتارنے کے لئے مجھے کچھ کمزور باتیں کرنے کی اجازت دی جائے۔ بارگاہ نبوت سے اجازت ملی اب اگلا ماجرا ’’بخاری‘‘ کی روایت کردہ حدیث میں تفصیلات ملاحظہ ہو۔ امام بخاری نے اپنی ‘‘جامع’’ کی دوسری جلد میں صفحہ پانچ سو چھہتر پر یہ حدیث بیان کی۔
رسول محتشم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ‘‘کعب بن اشرف کا ذمہ کون لیتا ہے؟ اس نے اﷲ اور اس کے رسول کو ایذا دی ہے ’’ محمد بن مسلمہ کھڑے ہوئے اور عرض کی آپ پسند فرماتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں۔ آپ نے فرمایا ‘‘جی ہاں’’ محمد بن مسلمہ نے کہا پھر آپ مجھے اجازت مرحمت فرمادیں کہ میں اسے کچھ تعریفی کلمات کہہ سکوں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اجازت مرحمت فرمادی، محمد بن مسلمہ، کعب بن اشرف کے پاس گئے اور کہا یہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہم سے صدقہ طلب کررہے ہیں، انہوں نے ہمیں تنگ کررکھا ہے، میں تجھ سے مقرر میعاد پر سودا کرنے آیا ہوں۔کعب بن اشرف نے کہا آپ لوگ محمد سے ضرور کبیدہ ہوں گے۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ہم نے ان کی اطاعت کی ہے لیکن اب چاہتے ہیں کہ چھوڑ دیں، دیکھتے ہیں ان کی دعوت کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تو ایک یا دو وسق (20) پر سودا ادھار دے۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ دے دوں گا لیکن اس شرط پر کہ تم اپنی عورتیں میرے پاس رہن (یعنی، گروی) رکھ دو جواباً کہا گیا کہ عورتیں تمہارے پاس کس طرح رہن رکھی جاسکتی ہیں۔ فتنہ کا ڈر ہے، اس لئے کہ تو عربوں میں حسین شخص ہے۔ پھر کعب بن اشرف نے کہا کہ بیٹے رہن رکھ دو کہا گیا کہ تو اگر انہیں گالی دے گا تو یہ چیز باعث عار ہوگی لیکن اگر تم قبول کرو تو تم ہم اسلحہ رہن رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح سودا مکمل کرنے کے لئے محمد بن مسلمہ نے کعب کو رات کے وقت بلالیا۔ جب وہ قلعہ سے اتر کر ان کے پاس آیا تو محمد بن مسلمہ اور کعب کے رضاعی بھائی ابو نائلہ نے اسے ٹھکانے لگادیا۔ کعب بن اشرف کا قتل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی کی سزا تھی (تلخیص(بخاری، کتاب المغازی، باب قتل کعب بن اشرف، حدیث نمبر 4037،چشتی)
گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سزا پر امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی روایت کردہ ایک دوسری حدیث ملاحظہ ہو۔ اس حدیث کو حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ نے روایت کیا:حضور علیہ السلام نے (کچھ حضرات کو) جو انصار تھے، ابو رافع یہودی کی طرف بھیجا، ان لوگوں کا قائد حضرت عبداﷲ بن عتیک کو بنایا۔ یہ ابو رافع نبی علیہ السلام کو ایذا دیتا تھا اور آپ کے خلاف لوگوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ وہ سرزمین حجاز میں اپنے ایک قلعے میں رہتا تھا، جب وہ گروہ قلعہ کے قریب گیا تو سورج غروب ہوچکا تھا اور لوگ اپنے ٹھکانوں پر واپس آرہے تھے۔ اب عبداﷲ نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم حضرات اپنی جگہ پر بیٹھ جائو میں چلتا ہوں، دربان کو نرم کرنے کی کوشش کروں گا شاید میں اس طرح قلعے میں داخل ہوجائوں، وہ آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ دروازے کے قریب پہنچ گئے پھر انہوں نے چادر لپیٹ لی۔ گویا وہ رفع حاجت کررہے ہیں، لوگ قلعے میں داخل ہوگئے، دربان نے پکارا، اے اﷲ کے بندے! تو اندر داخل ہو کیونکہ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں۔ اب میں (عبداﷲ بن عتیک) اندر چلا گیا، میں چھپ گیا، جب سب لوگ اندر آگئے تو اس (دربان) نے دروازہ بند کردیا پھر اس نے چابیاں اندر ایک میخ پر لٹکادیں اور وہ اپنے ایک بالاخانے میں تھا۔ جب اس کے پاس سے قصہ گو چلے گئے۔ اب میں اوپر چڑھا میں جو دروازہ بھی کھولتا اندر سے اندر بند کرکے آگے بڑھتا تھا تاکہ اگر لوگوں کو پتہ بھی چل جائے تو مجھ تک نہ پہنچ پائیں تاکہ میں اسے قتل کرسکوں، میں اب اس تک پہنچ گیا۔ وہ ایک تاریک گھر (کمرہ) میں اپنے اہل خانہ کے درمیان سورہا تھا، مجھے پتہ چل رہا تھا کہ وہ کس حصے میں ہے۔ میں نے پکارا اے ابو رافع! اس نے کہا یہ کون ہے؟ میں آواز کی طرف لپکا اور اسے تلوار کی ایک ضرب لگائی مجھ پر دہشت طاری تھی۔ یہ ضرب کافی نہیں تھی۔ وہ چلاّیا میں کمرے سے نکل گیا۔ میں کچھ فاصلے پر رک گیا پھر اندر داخل ہوکر کہا اے ابو رافع! یہ آواز کیا تھی وہ بولا تیری ماں مرے (اس نے اب اسے کوئی اپنا محافظ سمجھا ہوگا) ابھی ایک شخص نے کمرے میں مجھے تلوار ماری ہے۔ فرماتے ہیں پھر میں نے اسے شدید زخم بھری تلوار ماری مگر وہ تاحال مرا نہیں تھا پھر میں نے تلوار کا کنارہ اس کے پیٹ میں اتار دیا۔ تلوار پشت کی طرف سے نکل گئی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ وہ مرگیا ہے۔ میں ایک ایک دروازہ کھول کر باہر نکل کر ایک سیڑھی سے اترا۔ میں نے سمجھا کہ میں زمین پر پہنچ گیاہوں مگر میں تو چاندنی رات میں گرچکا تھا۔ میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے پگڑی سے اسے باندھ دیا۔ پھر چل کر میں گیٹ پر آکر بیٹھ گیا اور اپنے طور پر کہا کہ میں رات کو باہر نہیں نکلوں گا جب تک مجھے پتہ نہ چل جائے کہ میں نے اسے قتل کردیا ہے۔ جب (سحری) کو مرغ چلاّیا تو موت کی خبر دینے والا قلعہ کی دیوار پر آیا اور کہا میں اہل حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کی خبر دے رہا ہوں۔ اب میں اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا نجات ہوگئی۔ اﷲ تعالیٰ نے ابو رافع کو مار دیا۔ اب میں سید کُل علیہ السلام کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا، سارا واقعہ آپ کو سنایا۔ آپ نے فرمایا ‘‘پائوں پھیلا دے ’’ میں نے اپنا پائوں پھیلادیا۔ آپ نے اس پر (ہاتھ مبارک) پھیرا۔ ایسا معلوم ہوا کہ اسے کبھی کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔(بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4039،چشتی)
عبداﷲ ابن خطل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہجو کرتا تھا یعنی وہ ایسے اشعار کہتا کہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی برائی بیان کرتا تھا، اس کی دو لونڈیاں بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی کرتی تھیں۔فتح مکہ کے بعد جب وہ غلاف کعبہ میں چھپا ہوا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ‘‘اسے قتل کردو کیوں نہ یہ کعبے کے پردے میں پناہ لئے ہو ۔ (صحیح بخاری)
ایک شخص بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرا باپ آپ کی گستاخی کیا کرتا تھا۔ میں نے اسے قتل کردیا۔ یہ بات آپ پر گراں نہ گزری اور اس طرح آپ کا خون ‘‘ھدر’’ رہا۔ یہ روایت ابن قانع کی ہے ۔ (کتاب الشفائ، قاضی عیاض)
ہارون الرشید نے حضرت امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ سے مسئلہ پوچھا گستاخ رسول کی سزا کیا کوڑے سے مارنا کافی نہیں، اس پر حضرت امام نے فرمایا:
’’اے امیر المومنین! گستاخ رسول گستاخی کے بعد بھی زندہ رہے تو پھر امت کو زندہ رہنے کا حق نہیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گستاخ کو فی الفور گرفتار کرکے قتل کردیا جائے ۔
ردالمحتار میں امام محمد بن سحنون کی روایت ہے : تمام علماء کا اس پر اجماع ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دینے والا آپ کی شان میں کمی کرنے والا کافر ہے اور تمام امت کے نزدیک وہ واجب القتل ہے ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے صاحبزادے حضرت محمد رضی اﷲ عنہ کے دور میں ایک امام جس کا نام عبداﷲ بن نواحہ تھا۔ قرآن کی آیات کا مذاق اڑایا اور مفاہیم کے ردوبدل سے یہ الفاظ کہے :’’قسم ہے آٹا پیسنے والی عورتوں کی جو اچھی طرح گوندھتی ہیں پھر روٹی پکاتی ہیں پھر ثرید بناتی ہیں پھر خوب لقمے لیتی ہیں’’ اس پر حضرت نے اسے قتل کا حکم سنایا اور لمحہ بھر بھی تاخیر نہیں فرمائی ۔ (مصنف ابن ابی شبہ، کتاب الجہاد،چشتی)
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے تاریخی الفاظ ملاحظہ ہوں۔’’جو شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں گستاخی کرے، اس کا خون حلال اور مباح ہے ‘‘(کتاب الشفائ) ، اس جملے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے عدالتی کارروائی ہو تو فبہا ورنہ پورا معاشرہ سستی اور کوتاہی پر مجرم ہوگا ۔
اب سنئے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں آپ نے ایک موقع پر شاتمین دین و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو قتل کرنے کے بعد جلا دینے کا حکم صادر فرمایا۔ یہ روایت بھی ‘‘بخاری ’’ کی ہے ۔
حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں میرے والد گرامی کہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ’’جو کسی نبی کو سب کرے اسے قتل کردو اور جو کسی صحابی کو برا بھلا کہے اسے کوڑے مارو ۔ (المعجم الصغیر للطبرانی، باب العین)
’’الاشباہ والنظائر’’ میں ہے کافر اگر توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے لیکن اس کافر کی توبہ قبول نہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حضور گستاخیاں کرتا ہے ۔
’’نسائی شریف’’ کی حدیث ہے کہ ایک شخص نے ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو سب کیا۔ آپ کے ایک عقیدت مند نے اجازت چاہی کہ اسے قتل کردیا جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’یہ حق صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہے کہ انہیں (بکواس کرنے والے کو) قتل کردیا جائے ۔ (سنن نسائی، کتاب تحریم الدم، حدیث 4077،چشتی)
’’ابن ماجہ’’ نے روایت کیا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ نے ایک مرتد کو قتل کی سزا دی۔ اس پر ’’فتح القدیر’’ کا مولف لکھتا ہے کہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرے اس کی گردن اڑا دی جائے ۔ (فتح القدیر، کتاب السیر)
محدث عبدالرزاق روایت فرماتے ہیں : خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ نے کچھ مرتدوں کو آگ میں جلادیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے عرض کی اے ابوبکر! آپ نے خالد کو کھلا چھوڑ دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میں اﷲ کی تلوار کو نیام میں نہیں ڈال سکتا ۔ (مصنف عبدالرزاق، کتاب الجہاد، حدیث 9470)
’’سنن ابی دائود’’ کی حدیث ہے: حضرت عکرمہ روایت کرتے ہیں کہ یہ بات ہمیں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہا نے بتائی۔ ایک اندھے کی ام ولد تھی ۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں بکتی تھی اور اسلام کے خلاف اعتراض کرتی تھی۔ وہ نابینا شخص اس کو روکتا لیکن وہ باز نہ آتی ۔ ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود وہ اپنے ہفوات سے باز نہ آئی۔ ایک رات وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سب و شتم کرنے لگی تو نابینا صحابی اٹھا اور خنجر لیا اور اس کے پیٹ میں اتار دیا اور اس عورت کو قتل کردیا۔ صبح صبح یہ واقعہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سنایا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرمانے لگے ’’جس آدمی نے ایسا کیا ہے اس پر میرا حق ہے وہ کھڑا ہوجائے‘‘ وہ شخص لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے بیٹھ گیا اور تسلیم کیا کہ یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں اس عورت کا قاتل ہوں۔ یہ آپ کو گالیاں دیا کرتی تھی اور اسلام پر اعتراض کیا کرتی تھی۔ پس میں نے گزشتہ رات خنجر سے اسے قتل کردیا۔ حالانکہ میرے اس سے موتیوں جیسے دو بیٹے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ‘‘سنو! سنو! تم سب گواہ ہو کہ اس کا خون ‘‘ھدر’’ ہے ۔ (ابو دائود، کتاب الحدود، حدیث نمبر 4351،چشتی)
اس حدیث میں غوروفکر کے لئے کافی مواد موجود ہے کہ اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ماورائے عدالت اس عورت کو قتل کیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کے خون کو ‘‘ھدر’’ قرار دیا ۔
حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو شہرنور میں ایک بوڑھا جس کی عمر ایک سو بیس سال تھی اور نام اس کا ابو عفک تھا۔ اس نے انتہائی دشمنی کا اظہار کیا۔ لوگوں کووہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلاف بھڑکاتا، نظمیں لکھتا جن میں اپنی بدباطنی کا اظہار کرتا۔ جب حارث بن سوید کو موت کی سزا سنائی گئی تو اس ملعون نے ایک نظم لکھی جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں بکیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جب اس کی گستاخیاں سنیں تو فرمایا:’’تم میں سے کون ہے جو اس غلیظ اور بدکردار آدمی کو ختم کردے‘‘سالم بن عمیر نے اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ ابو عفک کے پاس گئے دراں حالیکہ وہ سورہا تھا۔ سالم نے اس کے جگر میں تلوار زور سے کھبو دی۔ ابو عفک چیخا اور آنجہانی ہوگیا ۔ (کتاب المغازی، للواقدی، سریۃ قتل ابی عفک ، 163/1)
حویرث بن نقیذ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں دیا کرتا۔ ایک بار حضرت عباس مکہ سے مدینہ جارہے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور حضرت ام مکتوم رضی اﷲ عنہا مدینہ جانے کے لئے ان کے ساتھ نکلیں۔ ظالم حویرث نے سواری کو اس طرح ایڑھ لگائی کہ دونوں شہزادیاں سواری سے گرگئیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسے موت کی سزا سنائی۔ فتح مکہ کے موقع پر حویرث نے خود کو ایک مکان میں بند کردیا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اسے تلاش کرلیا اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حکم پر اسے قتل کردیا ۔ (کتاب المغازی للواقدی،281/2،چشتی)
’’بخاری شریف’’ کی روایت ہے۔ معاویہ بن مغیرہ نامی ایک گستاخ کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے گرفتار کروالیا اور فرمایا ‘‘ایک سچا مسلمان ایک ہی سانپ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا، اے معاویہ بن مغیرہ! تم اب کسی صورت میں بھی واپس نہیں جاسکتے‘پھر فرمایا ’’اے زبیر! اے عاصم! اس کا سر قلم کردو‘‘
’’فتاویٰ بزازیہ ‘‘میں ہے اور یہ حنفی فقہ کی معروف کتاب ہے۔جب کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یا انبیاء میں سے کسی بھی نبی کی توہین کرے اس کی شرعی سزا قتل ہے اور اس کی توبہ یقینا قبول نہیں ہوگی۔
’’فتاویٰ قاضی خان‘‘ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ منسوب کسی چیز میں عیب نکالنے والا شخص کافر ہے۔ جبکہ ‘‘الاشباہ’’ کے مصنف نے فرمایا اور وہ واجب القتل ہوگا۔ جیسے کسی شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بال مبارک کے بارے میں (بطور اہانت) تصغیر کا صیغہ استعمال کرکے تنقیص کی۔ (فتاوی قاضی خان، کتاب السیر، 574/3)
علامہ حصاص رازی لکھتے ہیں‘‘ مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا جو شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات پاک کے خلاف بے ادبی کی جسارت کرے وہ مرتد ہے اور قتل کا مستحق ہے۔’’ (احکام القرآن للرازی، سورۂ توبہ، 128/3،چشتی)
’’عالمگیری ’’ میں ہے کہ جو شخص کہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چادر یا بٹن میلا کچیلا ہے اور اس قول سے مقصود عیب لگانا ہو، اس شخص کو قتل کردیا جائے گا۔
علامہ خفاجی ‘‘نسیم الریاض’’ میں فرماتے ہیں۔ اگر کسی شخص نے کسی شخص کے علم کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم سے زیادہ جانا اس نے توہین کی۔ اس لئے وہ واجب القتل ٹھہرا۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں ‘‘ یمن کے گورنر مہاجر بن امیہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اطلاع دی وہاں ایک عورت مرتد ہوگئی۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی والا گیت گایا۔ گورنر نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا اور سامنے والے دو دانت توڑ دیئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا۔ اگر تو فیصلہ کرکے عمل نہ کراچکا ہوتا تو میں اس عورت کے قتل کرنے کا حکم صادر کرتا۔ اس لئے کہ نبیوں کے گستاخ قابل معافی نہیں ہوتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گستاخ کی سزا یہی ہے کہ وہ واجب القتل ہے ۔ اس کی توبہ قبول نہیں ، چاروں مسالک یہی ہیں ۔
علامہ زین الدین ابن نجیم ‘‘البحر الرائق ’’ میں ارشاد فرماتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سب و شتم کرنے والے کی سزا قتل ہے۔ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔
پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، اسی سرزمین پر غازی عبدالقیوم ، غازی علم دین ، عامر چیمہ شہید اور غازی ممتاز قادری شہید علیہم الرّحمہ جیسے پاسبان ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آرام گاہیں ہیں جنہوں نے تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے اپنی جانیں بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں پیش کردیں ۔ الغرض کہ ہمارا مطالبہ صرف ایک ہی ہے کہ جب گستاخ رسول ملعونہ آسیہ کا جرم ثابت ہوچکا ہے ، تو پھر حکومت پاکستان اس کی سزا میں پس و پیش سے کام کیوں لے رہی ہے ؟ جب اسے عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی ہے تو پھر اس ملعونہ کی پھانسی پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا ؟ ہم حکومت کی اس خاموشی کو کیا سمجھیں ؟ (اب سپریم کورٹ سے رہائی کے آرڈر کے بعد قوم کو سمجھ جانا چاہیئے) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اکتیس (31) اکتوبر یومِ شھادت غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ

0 comments
اکتیس (31) اکتوبر یومِ شھادت غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ

جناب غازی علم دین شہید رحمتہ اللہ علیہ کی حیات و کارنامہ تاریخ‌ اسلامی کا وہ تابندہ ، روشن اور قابل فخر راہ عمل ہے جس پر جہاں‌ ہر مسلمان کو فخر ہے تو وہیں‌ اس راستے کی وجہ سے گستاخانِ‌ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ہیبت طاری رہتی ہے ۔

ہندو آریہ سماج تنظیم جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے دل آزار کتابیں شائع کرواتی رہتی تھی، 1923ء کے اواخر میں اس تنظیم کے سرگرم رکن راجپال نے ایک ایسی دل آزار کتاب شائع کی، جس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اقدس میں بے پناہ گستاخیاں کی گئی تھیں ۔ کتاب کی اشاعت سے پورے ملک میں کہرام مچ گیا ۔ مسلمانوں نے احتجاجی جلسے اور جلوس نکالنے شروع کر دیے ۔ ملزم راجپال کے خلاف مقدمہ درج ہوا ۔ پھر راجپال کو 6 ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہوا ۔ بعدازاں ہائی کورٹ نے نہ صرف ملزم کو بری کر دیا ، بلکہ اس کا جرمانہ بھی معاف کر دیا ۔ اس دل آزار کتاب کی اشاعت جا ری رہی ۔

پڑا فلک کو ابھی دل جلوں سے کام نہیں
جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں

چھ اپریل 1929ء کو غازی علم الدین ٹھیک ایک بجے راجپال کی دکان پر پہنچ گئے اور دریافت کیا کہ راجپال کہاں ہے ؟ راجپال نے خود ہی کہا۔ میں ہوں کیا کام ہے؟ غازی صاحب نے چھری نکال کر اس پر بھرپور حملہ کیا۔ پھر پے در پے وار کر کے اسے واصل جہنم کر دیا اور کہا ” یہی کام تھا“ غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ 10 اپریل 1929ء کو سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ 22 مئی 1929ء کو غازی صاحب کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔ 30 مئی کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ 15 جولائی کو قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ اس مقدمہ کی وکالت کے لیے ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، مگر ہائی کورٹ نے اپیل خارج کر دی ۔

اکتیس اکتوبر 1929ء کو علم الدین رحمۃ اللہ علیہ نے حسب معمول تہجد کی نماز پڑھی اور بارگاہِ الٰہی میں دعاگو ہی تھے کہ انھیں کسی کے بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی اور پھر کمرے کے بند دروازے کے سامنے ہی کسی کے رکنے کی آواز کے کھٹکے پر غازی صاحب نے جو ادھر دیکھا تو پھانسی دینے والے عملہ کو اپنا منتظر پایا۔ اس موقع پر داروغہ جیل کی آنکھوں سے شدت جذبات سے آنسو بہہ نکلے… آپ نے اس کی طرف دیکھا اور کہا تم گواہ رہنا کہ میری آخری آرزو کیا تھی۔ آپ نے معمول سے بھی کم وقت میں نماز ادا کی… اتنی جلدی آخر کس لیے تھی؟ ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کہیں مجسٹریٹ یہ تصور نہ کرے کہ محض زندگی کی آخری گھڑیوں کو طول دینے کے لیے دیر کر رہا ہوں۔ داروغہ جیل نے بند دروازہ کھولا… آپ اٹھے اور مسکراتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھے۔ دایاں پاؤں کمرے سے باہر رکھتے ہوئے انھوں نے مجسٹریٹ سے کہا ۔ چلیے ! دیر نہ کریں ۔ اس کے ساتھ ہی آپ تیز تیز قدم اٹھاتے تختہٴ دار کی جانب چل پڑے۔ ایک کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے آپ نے ہاتھ اٹھا کر ایک قیدی کو خدا حافظ کہا… جواباً اس نے نعرہٴ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بلند کیا ۔ تب جیل حکام اور مجسٹریٹ کو معلوم ہوا کہ جیل میں سبھی قیدی علم الدین کو مبارک باد دینے کے لیے ساری رات سے جاگ رہے ہیں ۔ کلمہ شہادت کے ورد سے فضا گونج رہی تھی ۔ علم الدین لمحہ بھر کے لیے رکے … مجسٹریٹ اور پولیس کے دستے کی طرف دیکھا ، ان کے لب ہلے اور پھر چل دیے ۔

تختہٴ دار کے قریب متعلقہ حکام کے علاوہ مسلح پولیس کے جوان بھی کھڑے تھے ۔ سب کی نظریں آپ پر جمی ہوئی تھیں ۔ ان کی نظروں نے اس سے پہلے بھی کئی لوگوں کو تختہٴ دار تک پہنچتے دیکھا تھا ، لیکن جس شان اور قوتِ ارادی سے انھوں نے علم الدین کو تختہٴ دار کی جانب بڑھتے دیکھا ، وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ جو ”حیات“ علم ا لدین کو نصیب ہونے والی تھی، اس کا تو ہر مسلمان آرزو مند رہتا ہے۔اس وقت آپ کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہوئی تھی اور آپکو سیاہ رنگ کا لباس پہنا دیا گیا ۔ جب مجسٹریٹ نے آپ سے آپ کی آخری خواہش پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ ”میں پھانسی کا پھندہ چوم کر خود اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں ۔

بعد ازاں غازی علم الدین رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے ۔ اس دوران میں آپ نے اردگرد کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”تم گواہ رہو کہ میں نے حرمت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لیے راجپال کو قتل کیا ہے۔ اور گواہ رہنا کہ میں عشق رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے جان دے رہا ہوں ۔ آپ نے کلمہ شہادت با آوازِ بلند پڑھا اور پھر رسنِ دار کو بوسہ دیا۔ علم الدین حقیقت میں ہر اس شے کو مبارک سمجھتے تھے جو ان کو بارگاہِ حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں پہنچانے کا ذریعہ بن رہی تھی ۔ آپ کے گلے میں رسہ ڈال دیا گیا ۔

مجسٹریٹ کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور ایک خفیف اشارے کے ساتھ ہی آپ کے پاؤں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا گیا … چند لمحوں میں ہی آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی … اس نے جسم کو تڑپنے پھڑکنے کی بھی زحمت نہ ہونے دی ۔ گویا حضرت عزرائیل علیہ السّلام نے عاشق رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جان ان کے جسم سے رسہ لٹکنے سے پہلے ہی قبض کر لی ہو اور پھانسی کی زحمت سے بچا لیا ہو ۔ ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کی اور آپ کے لاشہ کو پھانسی کے تختہ سے اتارا گیا ۔

زینتِ دار بنانا تو کوئی بات نہیں
نعرہٴ حق کی کوئی اور سزا دی جائے

ادھر جیل کے باہر غازی علم الدین رحمۃ اللہ علیہ کے والد طالع مند کے علاوہ سینکڑوں مسلمان اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ حکام لاش ان کے حوالے کریں۔ لیکن اعلیٰ حکام نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ علم الدین کی میت مسلمانوں کے حوالے نہ کی جائے۔ انھیں خطرہ تھا کہ مسلمان جلسے اور جلوس نکالیں گے، جن سے حالات خراب ہوں گے۔غازی علم الدین شہید کی شہادت پر میانوالی میں فرنگی حکومت کے خلاف زبردست احتجاجی جلوس نکلے، ہڑتالیں ہوئیں، شہید کا سوگ منایا گیا، غم و غصہ کا اظہار ہوا۔ شہیدکے جنازہ میں قیدیوں کے علاوہ کچھ مقامی مسلمانوں نے بھی شرکت کی۔ حکومت وقت نے میانوالی کے کئی افراد کو گرفتار کیا، ان پر مقدمہ چلایا، جس میں ان کو چھ چھ ماہ قید اور جرمانے کی سزا دی گئی۔ غازی علم الدین شہید کی شہادت کے بعد ناعاقبت اندیش گورنر کی ہدایت کے مطابق غازی شہید کو بے یار و مددگار ایک مردہ اور بے بس قوم کا فرد سمجھ کر اس کی پاک میت کو میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔

جب یہ خبر لاہور اور ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچی تو ہر طرف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ 4 نومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد جیفری ڈی مونٹ مورنسی گورنر پنجاب سے ملا اور اپنا مطالبہ پیش کیا۔ بالآخر چند شرائط کے تحت مسلمانوں کا مطالبہ منظور کر لیا گیا۔ مسلمانوں کا ایک وفد ”سید مراتب علی شاہ“ اور ”مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن“ کی قیادت میں 13 نومبر 1929ء کو میانوالی آیا۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر میانوالی راجہ مہدی زمان نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔ میانوالی کے ایک معمار نے بکس تیار کیا اور ضلعی حکام اور معمار نور دین دوسرے روز علی الصباح غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ کا جسد خاکی بصد احترام میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان سے نکال کر ڈپٹی کمشنر میانوالی کے بنگلے پر لائے ۔

معمار نور دین نے بتایا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی نعش میں ذرا برابر تعفن نہیں تھا اور نعش سے مسحور کن خوش بو آ رہی تھی ۔ انھوں نے ڈی سی میانوالی کی کوٹھی پر شہیدکی نعش کو بکس میں محفوظ کیا ۔ یہاں سے نعش کو اسٹیشن میانوالی لایا گیا ۔ اور ایک اسپیشل گاڑی کے ذریعے لاہور لایا گیا اور پھر لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ کو سپردِ خاک کر دیا گیا ۔

یاد رہے کہ غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ کے جنازہ میں مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی ۔ نمازِ جنازہ 4 بار پڑھائی گئی ۔ پہلی بار نمازِ جنازہ مولانا محمد شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی ، دوسری بار نمازِ جنازہ حضرت علامہ سید دیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے ، تیسری بار سید احمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور چوتھی بار حضرت پیر جماعت علی شاہ صاحب امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھائی ۔ اس وقت انھوں نے اپنی داڑھی مبارک پکڑ کر روتے ہوئے اپنے آپ سے کہا کہ ”تو سید زادہ ہے اورتمہارے ہزاروں مرید ہیں ، لیکن ایک ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا ۔“ بعدازاں انھوں نے مزار مبارک کی تعمیر کروائی ۔ جنازے کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا ۔ میت کو ”مولانا سید دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ“ اور حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے غازی علم الدین شہید کا ماتھا چوما اور کہا : اَسی تے گلاں کر دے رہ گئے، تے ترکھاناں دا مُنڈا بازی لے گیا ۔(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سَچا عاشق غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ

0 comments

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سَچا عاشق غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ

مسلمانوں کی سب سے گراں قدر ہستی اور تمام مسلمانوں کی متاع حیات محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے. الله تبارک تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ "مومن وہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان و مال، اولاد اور والدین سے زیادہ عزیز سمجھتا ہو. اسی لیے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ناموس رسالت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دینے کی خوہش تو ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے مگر اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پھنچانا کسی سعادت مند کے نصیب میں ہوتا ہے. ایسے ہی ایک سعادت مند لاہور سے تعلق رکھنے والے علم دین ہیں جنہوں نے 1929میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے ایک ہندو راجپال کو جہنم واصل کرکے شہید کا درجہ حاصل کیا.
جس وقت لاہور میں راجپال نے حضرت محمد رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک گستاخانہ مواد شائع کرکے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کئے اس وقت برصغیر کے مسلمانوں نے عدالت سے رجوع کیا تاہم عدالتوں نے کوئی خاطر خواہ فیصلہ نہ کیا اور راجپال ان فیصلوں کے خلاف اپیلیں کر کے بلآخر بری ہوگیا. جس کے بعد عاشقان رسول رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی اور پورے برصغیر میں جلسے، جلوس اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا. اسی سلسلے کا ایک مظاہرہ لاہور میں دلی دروازے کے پاس ہو رہا تھا . علم دین کام سے واپسی پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے مسلمان مقررین راجپال کے خلاف اردو میں تقاریر کر رہے تھے. علم دین پڑھے لکھے نہ ہونے کے باعث کچھ سمجھ نا سکے تاہم ایک مقرر کی جانب سے جب پنجابی میں تقریر کی گئی تو انھے سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ایک ہندو راجپال کی جانب سے حضور پاک محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی ہے اور مسلمان مقرر کی جانب سے کی گئی تقریر کے ان الفاظ "راجپال واجب القتل ہے " نے علم دین کے دل و دماغ میں طلاطم برپا کر دیا.
دوسرے دن ایک بزرگ نے خواب میں علم دین کو کہا کہ علم دین سو رہے ہو تمھارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں دشمن اسلام گستاخی کر رہے ہیں اٹھو جلدی کرو . علم دین نے اپنے خواب کا ذکر جب اپنے قریبی دوست شیدے سے کیا توو جواب میں اس نے کہا کہ اس نے بھی یہی خواب دیکھا ہے اور پھر دونوں دوستوں کے درمیان بحث چھڑ گئی کے راجپال کا قتل کون کرے گا بلآخر اس بحث کا خاتمہ دونوں عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قرعہ اندازی کے ذریعے کیا اور قرعہ فال علم دین کے نام نکلا تاہم دوست کے اسرار پر دوبارہ اور تیسری بار قرعہ اندازی کی گئی مگر ہر بار نتیجہ ایک ہی تھا . علم دین کے دوست نے ان سے بغلگیر ہو کر کہا کہ " علم دین تم خوش نصیب ہو جو اس کام کے لئے منتخب کر لیے گئے ہوکاش یہ کام میرے نصیب میں ہوتا علم دین نے دوست کو جواب دیا کہ " دعا کرنا میں اس کام میں کامیاب ہو جاؤں ۔
2 اپریل 1929 کو انار کلی میں واقع راج پال کے آفس میں داخل ہو کر علم دین نے گستاخ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم راجپال کو چھری کا وار کر کے جہنم واصل کر کے سچے عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہونے کا ثبوت دے دیا. وقوع کے بعد لوگوں نے علم دین کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا . راجپال کے قتل کے بعد علاقے میں حالات کشیدہ ھوگئے . مسلمانوں کی جانب سے علم دین کے حق میں اور ہندوں کی جانب سے ان کی مخالفت میں جلسے اور جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا. علم دین کے گھر کو پولیس نے گھیرے میں لے لیا . اس مشکل وقت میں علم دین کے قریبی دوست شیدے نے ان کے گھر والوں کا ساتھ نا چھوڑا اور پولیس کی موجودگی کے باوجود علم دین کے گھر والوں کی خبر گیری کرتے رہے.
عدالتی کاروائی کے دوران خواجہ فیروز الد ین ایڈووکیٹ ، فرخ حسین اور دیگر مسلمانوں نے علم دین کا بھرپور ساتھ دیا تاہم سیشن کورٹ نے علم دین کو پھانسی کی سزا سنا دی. اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی اور علم دین کی جانب سے بانی پاکستان قائد اعظم نے عدالت میں دلائل دئیے مگر ہائی کورٹ نے سزا کو برقرار رکھا . غرض یہ کہ ہر متعلقہ ادارے کو اپیل کی گئی مگر نتیجہ بے سود ہی رہا. اور بلآخر برمنگھم پیلس کی جانب سے بھی سزا کو برقرار ہی رکھا گیا . سزا کے بعد لاہور کے خراب حالات کے پیش نظر 4 اکتوبر 1929 کو علم دین کو میانوالی کی جیل منتقل کر دیا گیا . جیل اہلکاروں اور قیدیوں کے مطابق جیل میں موجود قیدی علم دین کی بہت عزت کرتے تھے اور جب کوئی قیدی بیمار ہو جاتا تھا تو علم دین کےہاتھ سے پانی پی کر صحت یاب ہو جاتا تھا. ایک سپاہی جو ان کی نگرانی پر مامور تھا اس نے دیکھا کے علم دین جیل میں موجود نہیں ہیں اس نے اعلی حکام کو فوری اطلاع دی جب انہوں نے آکر دیکھا تو علم دین جیل میں موجود تھے. اپنے دوست شیدے سے جیل میں ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ راجپال کا قاتل میں ہوں لوگ کہتے ہیں کہ میں نے موت کے ڈر سے عدالت میں صحتِ جرم سے انکار کیا لیکن میں نے موت کے ڈر سے نہیں اپنے بزرگوں کے کہنے پر عدالت میں انکار کیا تھا. اپنے عزیز و اقارب سے آخری ملاقات میں خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ ان لوگوں کو بتایا کہ میں نے دعا مانگی تھی کے حضرت موسی علیہ السلام کا دیدار نصیب ہو اور آج وہ مجھے خواب میں ملے اور پوچھا علم دین کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا حضرت اپ کلیم اللہ ہیں خدا سے کہیں کہ عدالت میں اپنے والد کی وجہ سے جو جھوٹ بولا ہے کہ راجپال کا قتل میں نہیں کیا . اللہ تعالیٰ میرا وہ گناہ معاف کردے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے خوشخبری دی کے میرا وہ گناہ معاف کر دیا گیا ہے. اسی وجہ سے میں آج اتنا خوش ہوں.
میانوالی جیل میں 31 اکتوبر 1929 کو عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تختہ دار پر لٹکا کر فانی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف روانہ کر دیا گیا . تختہ دار پر پوچھی گئی آخری خواہش کے جواب میں شہید علم دین نے کہا کو میں چاہتا ہوں کہ پھانسی کا پھندا خود اپنا گلے میں ڈالوں اورمیرے ہاتھ پاؤں نا باندھے جائیں تاکہ شدید اذیت سے دوچار ہو کر اگلے جہاں میں محبوب خدا کا قرب حاصل کر سکوں تاہم دونوں خواہشات کو رد کر دیا گیا.
پھانسی کے وقت وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا کہ میں حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لیے راج پال کو قتل کیا تم گواہ رہوں کہ میں عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں کلمہ شہادت پڑھ کر جا ن آفریں کے سپرد کر رہا ہوں. اور پھر کلمہ شہادت پڑھا اور اپنی جان کو ناموس رسالت صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا.
اعلیٰ حکام نے حالات خراب ہونے کے ڈر سے شہید کی تدفین غسل کے بناہ ہی قیدیوں کے قبرستان میں کردی . حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خاطر جان قربان کرنے والے کی اس طرح تدفین کی خبر جب مسلمانوں کی ہوئی تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا . جلسوں میں مسلمان مقررین نے مسلمانوں کے قلوب کو ایسا گرما یا کہ وہ شہید علم دین کا لاشہ حاصل کرنے کے خاطر مر مٹنے کو تیار ہوگئے . اسی دوران مسلمانوں کے وفد نے جو کہ علامہ اقبال، سر شفیع، میاں عبدالعزیز ، مولانا غلام محی الدین قصوری پر مشتمل تھا نے ڈپٹی کمشنر ، کمشنر اور گورنر پنجاب سے ملاقات کی . اور کچھ شرائط کے بعد لاش کی حوالگی کا معاملہ طے پاگیا. حکام کی جانب سے پھانسی کے 13 دن بعد علم دین شہید کی لاش کو میانوالی سے لاہور لاکر مسلمان معززین کے حوالے کر دی. چوبرجی کے میدان میں لاکھوں فرزاندن اسلام نے شہید کی نماز جنازہ میں شرکت کی . جنازے کے راستے میں خواتین اسلام گھروں کی چھتوں پر کلام اللہ کی تلاوت کر رہی تھی اور مرد حضرات جنازے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوۓ کلمہ طیبہ کا ورد ، نعرہ تکبیر اور علم دین شہید زندہ آباد کے نعرے بلند کر رہے تھے. جنازہ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی تھی. تدفین سے قبل ہی قبر کو پھولوں سے بھر کر پھولوں کا بستر بنا دیا گیا اور تدفین کے بعد قبر کو پھولوں سے لاد دیا گیا تھا . بلاشبہ یہ مقام ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہی مل سکتا تھا، جس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوۓ خود کو حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا. وہ علم دین جس کو کچھ عرصہ قبل تک چند لوگ ہی جانتے تھے اس واقعہ کے بعد آج مسلم امہ اسے علم دین شہید اور سچے عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے نام سے جانتی ہے. اور رہتی دنیا تک غازی علم دین شہید کا نام عاشق رسول اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جان قربان کرنے والوں کی فہرست میں چمکتا دمکتا رہے گا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

غازی علم شہید رحمۃ اللہ علیہ کی عظمتوں کو فقیر فیض احمد چشتی کا سلام

0 comments
غازی علم شہید رحمۃ اللہ علیہ کی عظمتوں کو فقیر فیض احمد چشتی کا سلام

غازی علم الدین شہید:شھداء ناموس رسالت کے خوش قسمت افراد میں ایک نام ’’غازی علم دین شہید ‘‘ کا بھی ہے جنہوں نے گستاخِ رسول کو جہنم رسید کرکے وہ کارنامہ انجام دیا جس پر رہتی دنیا کے مسلمان اْن پر نازکرتے رہیں گے۔ علامہ اقبال کو جب معلوم ہوا کہ ایک اکیس سالہ اَن پڑھ‘ مزدور پیشہ نوجوان نے گستاخِ رسول راجپال کو جرت وبہادری کے ساتھ قتل کردیا ہے تو انہوں نے کہا تھا: ’’اَسی گَلاں اِی کردے رہ گئے تے تَرکھاناں دَا مْنڈا بازی لے گیا ۔ (ہم باتیں ہی بناتے رہے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا۔)

علم الدین کو جب معلوم پڑا کہ راجپال نے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے تو انہیں رہا نہیں گیااپنے والد سے اس کمینے کا ذکر کیااور بے چینی کے عالم میں سوگئے۔اْس رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے، انہوں نے کہا: ’’تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی ہورہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اٹھو جلدی کرو۔‘‘ علم دین ہڑبڑا کر اٹھے اور سیدھے شیدے(انکے دوست) کے گھر پہنچے۔ پتا چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے راجپال کا صفایا کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے، کیونکہ دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے دونوں نے فیصلہ کیا۔ تین مرتبہ علم دین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔ علم دین ہی شاتمِ رسول کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے۔اور پھر موقع پاکر پلک جھپکتے میں چھری نکالی، ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور راجپال کے جگر پر جالگا۔ چھری کا پھل سینے میں اترچکا تھا۔ ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راجپال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جاپڑا۔ علم دین الٹے قدموں باہر دوڑے۔ راجپال کے ملازمین نے باہر نکل کر شور مچایا: پکڑو پکڑو۔ مارگیا مارگیا۔ علم دین کے گھر والوں کو علم ہوا تو وہ حیران ضرور ہوئے لیکن انہیں پتا چل گیا کہ ان کے نورِچشم نے کیا زبردست کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ان کا سر فخرسے بلندکردیا ہے۔ اس قتل کی سزا کے طور پر 7 جولائی 1929ء4 کو غازی علم دین کو سزائے موت سنادی گئی جس پر 31 اکتوبر1929 ء 4 کو عمل درآمد ہوا ۔ ان کے جسدِ خاکی کو مثالی اور غیرمعمولی اعزاز واکرام کے ساتھ میانی صاحب قبرستان لاہور میں سپردِ خاک کردیا گیا، لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں ان کا نام ناموس رسالت پرکٹ مرنے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔

عشق رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سچے اور پکے مومن اور مسلمان کی معراج ،پہچان اور نشانی ہے۔ غازی علم دین شہید کا شمار بھی ان ہی عاشقان رسول میں ہوتا ہے۔غازی علم دین شہید نے ناموس رسالت پر اپنی جان قربان کرکے خود کو ہمیشہ کے لیے امرکردیا۔اس عظیم عاشق رسول غازی علم دین شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے امت مسلمہ ہرسال ان کی یاد میںشمعیں روشن کرتی ہے۔ غازی علم الدین شہید ؒ کا جرات مندانہ کردار آج تک مسلمانوں میں زندہ ہے۔ملک بھر میں مختلف تنظیموں کی جانب سے قرآن خوانی ،سیمینارز اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عزت و حرمت کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گستاخ کی سزا سر تن سے جدا اسلام کا بنیادی دستور وقانون ہے۔جس پر تمام مسلمان ہر لحاظ سے متفق اور اس کوتسلیم بھی کرتے ہیں ۔

علم دین 4 دسمبر 1908 ء میںکوچہ چابک سوارں لاہور میںطالع مند کے گھر پیدا ہونے والا ایک عاشق رسول تھا۔ طالع مند لکڑی کے بہت اچھے کاریگر تھے ۔علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسہ سے حاصل کی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے آبائی پیشہ کو ہی اختیار کیا اور اپنے والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کے ساتھ ہی کام کرنا شروع کر دیا۔علم دین کے والد فرنیچر بنانے کے ہنرمند کاریگر تھے وہ اکثرشہر سے باہر جب بھی کام کے سلسلہ میں جاتے توعلم دین ان کے ساتھ جاتا تھا۔علم دین کا ایک بھائی پڑھ لکھ کر ایک سرکاری نوکری کرنے لگاجبکہ ایک بھائی محمد امین والد اور بھائی علم دین کے ساتھ کام کرتا رہا۔تقسیم ہند سے پہلے ہونے والے ایک واقعہ نے پورے برصغیر کے مسلمانوں میں ہلچل مچاکر رکھ دی تھی ۔

1923 ء میںلاہور کے ایک ناشر راج پال انتہا پسند ہند و نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں ایک گستاخانہ کتاب ایک فرضی نام سے لکھی ۔ کتاب میں انتہائی نازیبا باتیںلکھی تھیں جنہیں کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ کتاب کے شائع ہونے سے پورے برصغیر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب پر فوری پابندی لگانے اور ناشر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ جس پر اس ناشر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ۔ سیشن کورٹ کے مجسٹریٹ نے راج پال کو مجرم قرار دیتے ہوئے صرف چھ ماہ قید کی سزا سنادی جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں اس سزا کے خلاف اپیل کی گئی ۔ کیس کی سماعت میں مجرم راجپال کو جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے رہا کردیا کہ اس وقت مذہب کے خلاف گستاخی کا کوئی قانون موجود نہ تھا۔جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہوگیا۔ انگریز حکومت کی عدم توجہی پر مایوس ہوکر مسلمانوں نے احتجاجی جلسے جلوس نکالنے شروع کر دئیے۔مسلمانوں نے ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف پورے ملک میں ایک احتجاجی تحریک شروع کردی۔مگر انگریز حکومت نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان رہنماؤں کو ہی گرفتار کرنا شروع کردیا۔ مسلمانوں میں یہ احساس بیدار ہونے لگا کہ حکومت وقت ملعون ناشر کو بچانے کی کوشش میںہے اور یہ کہ اس ملعون کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ان کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا ۔ سب سے پہلے لاہور کے ایک غازی خدابخش نے 24 ستمبر 1928ء کو اس گستاخ راج پال کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم یہ بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگیا ۔ غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی۔اس کے بعد افغانستان کے ایک غازی عبدالعزیز نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا، اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔ غازی عبدالعزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی۔ راج پال ان حملوں کے بعد بہت خوفزدہ ہوگیا ۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا۔ راج پال کچھ عرصے کے لئے لاہور چھوڑ کر کاشی، ہردوار اور متھرا چلا گیا مگر چند ماہ بعد ہی واپس آگیا اور دوبارہ اپنا کاروبار شروع کردیا۔ علم دین کی غیرت ایمانی نے یہ گوارا نا کیا کہ یہ ملعون اتنی آسانی سے بچ نکلے بالاآخر اس کو اس کے آخری انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کرلیا ۔ علم دین اپنے ایک قریبی دوست رشید کے ساتھ لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان کے سامنے احتجاج میں شامل تھا جو ہندو راجپال کے خلاف نعرے لگارہا تھا۔ جذبات کا ایک سمندر اس ہجوم کے نعروں کی گونج میں امنڈ رہا تھا۔ امام مسجد نے انتہائی درد بھری آواز میں کہا۔ ’’مسلمانوں شیطان راج پال نے اپنی کتاب میں ہمارے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے اور عدالتوں نے اسے رہا کردیا ہے جس سے اسلام دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔ امام مسجد کے یہ الفاظ غازی علم دین کے دل میں اتر گئے اور اس نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ گستاخ رسول کو واصل جہنم کرکے ہی دم لے گا ۔ اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے دوست رشید سے کیاوہ بھی گستاخ راج پال کو مزا چکھانا چاہتا تھا۔ دونوں نے اس مسئلے پر تین بار قرعہ اندازی کی اور تینوں بار علم دین کا نام آیا، آخرکار رشیدعلم دین کے حق میں دستبردار ہوگیا۔ اللہ پاک نے یہ سعادت شائد علم دین کے ہی نصیب میں لکھ رکھی تھی ۔

6 اپریل 1929ء کو علم دین بازار سے ایک چھری لے کر راجپال کی دکان کی طرف چل پڑا۔ راج پا ل ابھی دکان پر نہیں آیا تھا۔ علم دین نے اس کا انتظار کیا اور جیسے ہی راجپال اپنی دکان میں داخل ہوا علم دین نے چھری سے اس پر زوردر وار کیا جو اس کے دل میں پیوست ہوگیا۔راج پال موقع پر ہی ڈھیر ہوگیا۔ پولیس نے اسے گرفتار کرکے اس پر قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔ علامہ اقبال کی درخواست پر قائداعظم محمد علی جناح نے علم دین کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ قائداعظم نے ایک موقع پر علم دین سے کہا کہ وہ جرم کا اقرار نہ کرے۔ غازی علم دین نے کہاکہ میں یہ کیسے کہہ دوں کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا،مجھے اس قتل پر ندامت نہیں بلکہ فخر ہے، عدالت نے علم دین کو سزائے موت سنادی۔ قائداعظم محمد علی جناح لبرل تصور کئے جاتے تھے اور اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے، ہندو اخبارات نے ان پر کڑی تنقید کی لیکن قائداعظم نے اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا ’’مسلمانوں کیلئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات مبارکہ ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔‘‘31 اکتوبر 1929ء غازی علم دین شہید کی سزائے موت پر عملدرآمد کا دن تھا ۔

سزائے موت سے قبل علم دین سے آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ غازی علم دین کو جب پھانسی گھاٹ پر لایا گیا اور جب پھندا ان کی گردن میں ڈالا گیا تو اس نے وہاں موجود لوگوں سے کہا ’’اے لوگو! گواہ رہنا میں نے راج پال کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی کرنے پر جہنم واصل کیا ہے، آج میں آپ سب کے سامنے کلمہ طیبہ کا ورد کرکے حرمت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اپنی جان نچھاور کررہا ہوں۔‘‘غازی علم دین نے اپنے رشتہ داروں کو جو وصیت فرمائی وہ قابل غور ہے۔ میرے تختہ دار پر چڑھ جانے سے وہ بخشے نہیں جائیں گے‘ بلکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا حق دار ہوگا اور انہیں تاکید کی کہ وہ نماز نہ چھوڑیں اور زکوٰت برابر ادا کریں اور شرعِ محمدی پر قائم رہیں ۔

غازی علم دین شہید کو پھانسی کے بعد برطانوی حکومت نے ان کی میت بغیر نماز جنازہ جیل کے قبرستان میں دفنادی جس پر مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور 4 نومبر 1929 ء کو مسلمان رہنماؤں کے ایک وفد(جن میں سر فہرست شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ، سر محمد شفیع، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع،میاں امیر الدین،مولانا غلام محی الدین قصوری صاحبان شامل تھے) نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ گورنر نے شرط عائد کی کہ اگر مذکورہ رہنما پرامن تدفین کی ذمہ داری اور کسی گڑبڑ کے نہ ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو جسد خاکی مسلمانوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے ۔ مذکورہ وفد نے یہ شرط منظور کرلی ۔

13 نومبر 1929 ء کومسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن کی قیادت میں میانوالی روانہ ہوا اور دوسرے روز جسد خاکی وصول کر لیا گیا۔15 دن بعد جب غازی علم دین شہید کی میت کو قبرسے نکالا گیا تو ان کا جسد خاکی پہلے دن کی طرح تروتازہ تھا۔ جسد خاکی بالکل صحیح وسالم اور اس میں سے خوشبو آرہی تھیں، چہرہ حسن و جمال کا حسین امتزاج تھا، اور ہونٹوں پر مسکراہٹ جھلک رہی تھی ۔

علم دین شہید کے والد طالع مند نے علامہ اقبال سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی جس پر علامہ اقبال نے کہا کہ وہ بہت گناہ گار انسان ہیں، اس لئے اتنے بڑے شہید کی نماز جنازہ وہ نہیں پڑھاسکتے۔نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی۔‘‘غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ لاہور کی تاریخ کی سب سے بڑی نماز جنازہ تھی جس میں6 لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ سچے عاشق رسول غازی علم دین شہیدکے جنازے کو کندھا دے پائے ۔ لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے ۔ بغیر چھت مزار کے چہار وں اطراف برآمدہ ہے، مزار کے ساتھ ہی غازی علم دین شہیدکے والد محترم اور والدہ محترمہ کی بھی آخری آرام گاہیں موجود ہیں ۔ لوح مزار پر پنجابی اور اردو کے کئی اشعار کندہ ہیں ۔

علامہ اقبال نے غازی علم دین شہید کی میت کو کندھا دیا اور اپنے ہاتھوں سے انہیں قبر میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبال کی آنکھیںنم ہوگئیں انہوں نے کہا۔ کہ ’’ایک ترکھان کا بیٹا آج ہم پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔‘‘ علم دین شہید کی پھانسی کے بعد ایسے حالات پیدا ہوگئے جس کی وجہ سے انگریزوں کو اپنے قوانین میں تبدیلی کرنا پڑی اور کسی بھی مذہب کی توہین کو جرم قرار دیا گیا اور اس طرح ایک علم دین کی شہادت قانون میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔آزادی پاکستان کے بعد توہین رسالت کے قانون کو ’’پاکستان پینل کوڈ‘‘ کا حصہ بنایا گیا اور 1982ء میں اس وقت پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق نے اس قانون میں ترمیم کرتے ہوئے قرآن کریم کی توہین کی سزا عمر قید جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کی سزا کم از کم سزا موت قراردے دی ۔

غازی علم دین شہید نے ناموس رسالت پراپنی جان کو قربان کرکے رہتی دنیا تک ایک لازوال مثال قائم کردی ، شہید کا کردار اسلام اور حق و سچ کی سربلندی کے لئے مسلمانوں کے لئے تا قیامت مشعل راہ رہے گا۔گستاخ رسول راجپال کو جہنم رسید کرنے والے سچے عاشق رسول غازی علم دین شہید کے 31 اکتوبر2016ء کو 87 ویںیوم شہادت کے موقع پر ملک بھر میں سیمینارز،قرآن خوانی اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جارہا ہے جس میں غازی علم دین شہید کو خوبصورت الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday 30 October 2018

وہابی کون لوگ ہیں اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کا کیا عقیدہ تھا

0 comments
وہابی کون لوگ ہیں اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کا کیا عقیدہ تھا

علماء دیوبند کے نزدیک محمد بن عبدالوہاب اور اس کے مقتدی وہابیوں کے عقائد عمدہ تھے ۔ (پڑھیئے دیوبندی منافقت انہی کی زبانی)

سوال : وہابی کون لوگ ہیں اور عبدالوہاب نجدی کا کیا عقیدہ تھا اور کون مذہب تھا اور وہ کیسا شخص تھا اور اہلِ نجد کے عقائد میں اور سنی حنفیوں کے عقائد میں کیا فرق ہے ؟
الجواب : محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں ۔ ان کے عقائد عمدہ تھے اور مذہب ان کا حنبلی تھا البتہ ان کے مزاج میں شدت تھی مگر وہ اور ان کے مقتدی اچھے ہیں مگر ہاں جو حد سے بڑھ گئے ان میں فساد آگیا اور عقائد سب کے متحد ہیں ۔ اعمال میں فرق حنفی، شافعی، مالکی ، حنبلی کا ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ نمبر 292 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی رشید احمد گنگوہی دیوبندی)

شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد مدنی دیوبندی لکھتے ہیں : محمد بن عبدالوھاب نجدی ابتدا تیرھویں صدی نجد عرب سے ظاھر ہوا اور چونکہ یہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا اس لئے اس نے اھل سنت والجماعت سے قتل و قتال کی ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا رہا ان کے اموال کہ غنیمت کا مال اور حلال سمجھا گیا ان کے قتل کرنے کو باعث ثواب و رحمت شمار کرتا رہا اھل حرمین کو خصوصا اور اھل حجاز کو عموما اس نے تکلیف شاقہ پہنچائیں سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کے الفاظ استعمال کئے بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑا اور ہزاروں آدمی اس کے اور اس کی فوج کے ہاتھوں شھید ہو گئے-الحاصل وہ ایک ظالم و باغی خونخوار فاسق شخص تھا اس وفہ سے اھل عرب کو خصوصا اس کے اتباع سے دلی بغض تھا اور ہے اور اس قدر ہے لہ اتنا قوم یہود سے ہے نہ نصاری سے نہ مجوس سے نہ ہنود سے ۔ (اشہاب اثاقب ص221 دارالکتاب غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور،چشتی)

شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد مدنی دیوبندی لکھے ہیں : محمدبن عبد الوہاب نجدی کا عقیدہ تھا جملہ اہلِ عالم و مسلمانانِ دیار کافر ہیں انہیں قتل کرنا اور اُن کے مال لوٹنا حلال بلکہ واجب ہیں ۔ (الشہاب الثاقب صفحہ نمبر 222 شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد مدنی دیوبندی) ۔

کثیر علمائے دیوبند کی تصدیق شُدہ کتاب المہند میں علاّمہ خلیل احمد اینٹھوی دیوبندی (۱۸۵۲ء۔ ۱۹۲۷ء) لکھتے ہیں : محمد بن عبد الوہاب نجدی کے متعلق ہمارا وہی عقیدہ ہے جو علاّمہ ابن عابدین شامی حنفی رحمۃ اللہ کا ہےہے اور ان کا (یعنی محمد بن عبدالوہاب نجدی) او ر اس کے تابعین عقیدہ یہ ہے کہ بس وہ ہی مسلمان ہیں اور جو ان کے عقیدہ کے خلاف ہو وہ مشرک ہے اوراس بناء پر انہوں نے اہل سنت کا قتل مباح سمجھ رکھا تھا ۔ (المھند علی المفند صفحہ نمبر 46 مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور،چشتی)

اہل سنت کا مذہب

اہل سنت کے نزدیک محمد بن عبدالوہاب باغی خارجی بے دین و گمراہ تھا اس کے عقائد کو عمدہ کہنے والے اسی جیسے دشمنانِ دین ، ضال ومضل (خود بھی گمراہ اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والے) ہیں ۔ امام ابن عابد شامی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جیسا کہ ہمارے زمانہ میں فتنہ خارجیت برپا ہوا ۔ (محمد ابن عبدالوہاب نجدی) کے متبعین نجد سے نکلے اور حرمین شریفین پر زبردستی غلبہ پالیا ۔ وہ خود کو حنبلی مذہب سے منسوب کرتے تھے جبکہ ان کا عقیدہ تھا کہ صرف وہی مسلمان ہیں ۔ اور ان کے عقیدے کے برخلاف اعتقاد رکھنے والے مشرک ہیں ۔ اسی وجہ سے انہوں نے اہلسنت اور ان کے علماء کو قتل کرنا مباح قرار دیا حتی کہ اللہ تعالی نے ان کی شان و شوکت کو توڑ دیا ۔ ان کے شہروں کو برباد فرما دیا اور مسلمانوں کے لشکر کی مدد فرمائی ۔ یہ 1233 ہجری کا واقعہ ہے ۔ (فتاوی شامی شریف، ص 413/ج3) ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ۔




Saturday 27 October 2018

نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خیال اور تھانوی دیوبندی کا خیال

0 comments
نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خیال اور تھانوی دیوبندی کا خیال

عبد الماجد دریاآبادی دیوبندی لکھتے ہیں : حکیم الامّت دیوبند کا مرید کہتا ہے نماز میں دل نہیں لگتا آپ کا تصوّر کر لیتا ہوں تو اتنی دیر دل لگا رہتا یہ کیسا ہے جواب ملا اچھا ہے ۔ (حکیم الامت صفحہ 56 مکتبہ مدنیہ لاہور)

امام الوہابیہ و دیابنہ مولوی اسمٰعیل دہلوی لکھتا ہے : نماز میں آنے والے وسوسوں کا بیان کرتے ہوئے شان رسالت میں گستاخی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ " زنا کے وسوسے سے اپنی بیوی کی مجامعت کا خیال بہتر ہے اور شیخ یا انہی جیسے بزرگوں کی طرف خواہ رسالت مآب ہی ہوں اپنی ہمت یعنی اپنے خیال کو لگا دینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق یعنی ڈوب جانے سے برا ہے ۔ (صراط مستقیم صفحہ نمبر 170-169مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور)


اس باطل و گستاخانہ عقیدے کا رد

دیوبندی وہابی حضرات کا لوگوں کو اپنے باطل مذہب میں لانے کیلئے اور اپنے کفریہ عقائد چھپانے کے لئے عوام الناس کو کے سامنے فروعی مسائل پیش کرتے ہیں کہ ہمارا تو اہلسنت کے ساتھ فاتحہ، نور و بشر، علم غیب، میلاد النبی اور گیارہویں وغیرہ کا اختلاف ہے ۔۔۔ یہ اختلافات اپنی جگہ لیکن یہ فروعی مسائل ہیں اہلسنت و جماعت کا وہابی دیوبندی مذہب کے ساتھ اصل اختلاف یہ ہے کہ وہابیوں دیوبندیوں کے عقائد کفریہ ہیں اور ان لوگوں نے اللہ عزوجل کی شان میں بھی بے شمار گستاخیاں کیں ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی بے شمار گستاخیاں کی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اولیاء اللہ کی شان میں بھی بے شمار گستاخیاں کی ہیں اور ہم اہلسنت کا ان لوگوں کے ساتھ یہی بنیادی اختلاف ہے کہ یہ لوگ اللہ کے بھی گستاخ ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی گستاخ ۔۔۔ انبیاء ، صحابہ اور اولیاء کے بھی گستاخ ہیں ۔۔۔ ذیل میں ان لوگوں کے بے شمار کفریہ عقائد میں سے صرف ایک عقیدہ پیش کیا جا رہا ہے اصل سکین پیج کے ساتھ ۔۔۔ اور یہ کسی ایسے ویسے مولوی کی کتاب نہیں بلکہ وہابیہ دیوبندیہ کے امام الاول مولوی اسمٰعیل دہلوی کی بدنام زمانہ کتاب صراط مستقیم ۔۔۔ جس کتاب پر وہابی دیوبندی مذہب کا دارومدار ہے اور مولوی اسمٰعیل دہلوی غیر مقلد وہابیہ کا بھی امام ہے اور مقلد وہابیہ یعنی دیوبندیوں کا بھی امام ہے ۔۔۔ اے مسلمان اپنے دل پر ہاتھ رکھ اور سن کہ شان رسالت میں کس قدر گستاخی کی جا رہی ہے اور جس مذہب یعنی وہابیہ دیوبندیہ کی بنیاد ہے ایسے کفریہ عقائد پر ہو وہ مذہب کیسے حق پر ہو سکتا ہے ۔

امام الوہابیہ دیوبندیہ مولوی اسمٰعیل دہلوی (صراط مستقیم صفحہ نمبر 170- 169مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور) پر نماز میں آنے والے وسوسوں کا بیان کرتے ہوئے شان رسالت میں گستاخی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : زنا کے وسوسے سے اپنی بیوی کی مجامعت کا خیال بہتر ہے اور شیخ یا انہی جیسے بزرگوں کی طرف خواہ رسالت مآب ہی ہوں اپنی ہمت یعنی اپنے خیال کو لگا دینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق یعنی ڈوب جانے سے برا ہے ۔

معاذ اللہ ثم معاذ اللہ اگر مجھے ان گستاخوں کے اس کفریہ عقیدہ کے بارے میں لوگوں کو بتانا مقصود نہ ہوتا تو میں اس عبارت کو لکھنا تو دور پڑھنا بھی گوارہ نہ کرتا ۔۔۔ اے مسلمان آ میں اب تجھ سے پوچھتا ہوں کیا نماز میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال نہیں آتا ۔۔۔ جب تو ہر نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سلام اور درود عرض کرتا ہے تو کیا تیرا خیال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں جاتا ۔۔۔ ارے نماز کا طریقہ ہی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا اور وہ نماز نماز ہی کیسی جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال نہ آئے ۔۔۔ آئیے آپ کو صحابہ کرام علیہم الرضوان کی نماز کے بارے میں دکھائیں کہ وہ تو نماز میں بھی پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کیا کرتے تھے۔۔۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرضِ وصال میں جب تین دن تک حجرۂ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے تو وہ نگاہیں جو روزانہ دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرفِ دلنوازسے مشرف ہوا کرتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئیں۔ جان نثاران مصطفیٰ سراپا انتظار تھے کہ کب ہمیں محبوب کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ بالآخر وہ مبارک و مسعود لمحہ ایک دن حالتِ نماز میں انہیں نصیب ہوگیا ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایامِ وصال میں جب نماز کی امامت کے فرائض سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سپرد تھے، پیر کے روز تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں حسب معمول باجماعت نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدرے افاقہ محسوس کیا۔ آگے روایت کے الفاظ ہیں : فکشف النبی صلي الله عليه وآله وسلم ستر الحجرة، ينظرإلينا و هو قائمٌ، کأن وجهه ورقة مصحف، ثم تبسم . بخاری، الصحيح، 1 : 240، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 2648 مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلوة، رقم : 3419 ابن ماجه، السنن، 1 : 519، کتاب الجنائز، رقم : 41664 احمد بن حنبل، 3 : 5163 بيهقی، السنن الکبریٰ، 3 : 75، رقم : 64825 ابن حبان، الصحيح، 15 : 296، رقم : 76875 ابوعوانه، المسند، 1 : 446، رقم : 81650 نسائی، السنن الکبریٰ، 4 : 2261 رقم : 97107 عبدالرزاق، المصنف، 5 : 433، رقم حميدی، المسند، 2 : 501، رقم : 111188 عبد بن حمید، المسند، 1 : 352، رقم : 121163 ابويعلی، المسند، 6 : 250، رقم : 3548 آپ نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اٹھا کر کھڑے کھڑے ہمیں دیکھنا شروع فرمایا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہو، پھر مسکرائے۔˜ حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبی صلي الله عليه وآله وسلم، فنکص أبوبکر علی عقبيه ليصل الصف، وظن أن النبی صلي الله عليه وآله وسلم خارج إلی الصلوٰة. بخاری، الصحيح، 1 : 240، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 2468 بيهقی، السنن الکبریٰ، 3 : 75، رقم : 34825 عبدالرزاق، المصنف، 5 : 4433 احمد بن حنبل، المسند، 3 : 5194 عبد بن حمید، المسند، 1 : 302، رقم : 1163 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم لوگ نماز چھوڑ بیٹھتے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں پر پیچھے پلٹے تاکہ صف میں شامل ہوجائیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لانے والے ہیں۔ ان پر کیف لمحات کی منظر کشی روایت میں یوں کی گئی ہے : فلما وضح وجه النبی صلي الله عليه وآله وسلم ما نظرنا منظرا کان أعجب إلينا من وجه النبی صلي الله عليه وآله وسلم حين وضح لنا. (بخاری، الصحيح، 1 : 241، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 2649 مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلاة، رقم : 3419 ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 372، رقم : 41488 ابوعوانه، المسند، 1 : 446، رقم : 51652 بيهقی، سنن الکبریٰ، 3 : 74، رقم : 64824 احمد بن حنبل، المسند، 3 : 7211 ابو يعلی، المسند، 7 : 25، رقم : 2439،چشتی)

جب (پردہ ہٹا اور) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سامنے آیا تو یہ اتنا حسین اور دلکش منظر تھا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔˜ مسلم شریف میں فھممنا ان نفتتن کی جگہ یہ الفاظ منقول ہیں : فبهتنا و نحن فی الصلوة، من فرح بخروج النبی صلي الله عليه وآله وسلم. مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلوة، رقم : 419 ہم دورانِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر تشریف لانے کی خوشی میں حیرت زدہ ہو گئے (یعنی نماز کی طرف توجہ نہ رہی)۔˜ علامہ اقبال نے حالتِ نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقِ زار حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے دیدارِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منظر کی کیا خوبصورت لفظی تصویر کشی کی ہے : ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری کم و بیش یہی حالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی تھی۔ شارحینِ حدیث نے فھممنا ان نفتتن من الفرح برؤیۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی اپنے اپنے ذوق کے مطابق کیا ہے۔ 1۔ امام قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں : فهممنا أی قصدنا أن نفتتن بأن نخرج من الصلوة. قسطلانی، ارشاد الساری، 2 : 44 پس قریب تھا یعنی ہم نے ارادہ کر لیا کہ (دیدار کی خاطر) نماز چھوڑ دیں۔˜ 2۔ لامع الدراری میں ہے : و کانوا مترصدين إلی حجرته، فلما أحسوا برفع الستر التفتوا إليه بوجوههم. گنگوهي، لامع الدراری علی الجامع البخاری، 3 : 150 تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی توجہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارک کی طرف مرکوز تھی، جب انہوں نے پردے کا سرکنا محسوس کیا تو تمام نے اپنے چہرے حجرۂ انور کی طرف کر لئے۔ 3۔ مولانا وحید الزماں حیدر آبادی ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبی صلي الله عليه وآله وسلم. وحيد الزمان، ترجمة البخاری، 1 : 349 آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے ہم کو اتنی خوشی ہوئی کہ ہم خوشی کے مارے نماز توڑنے ہی کو تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ نیچے ڈال دیا۔˜ امام ترمذی رحمۃ اﷲ علیہ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں : فکاد الناس ان يضطربوا فأشار الناس ان اثبتوا. ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 327، رقم : 386 قریب تھا کہ لوگوں میں اضطراب پیدا ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو۔ شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اﷲ علیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اضطراب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فقرب الناس أن يتحرکوا من کمال فرحهم لظنهم شفاءه صلی الله عليه وآله وسلم حتی أرادوا أن يقطعوا الصلوة لإعتقادهم خروجه صلی الله عليه وآله وسلم ليصلی بهم، و أرادوا أن يخلوا له الطريق إلی المحراب و هاج بعضهم فی بعض من شدة الفرح. بيجوری، المواهب اللدنيه علی الشمائل المحمديه : 194 صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شفایاب ہونے کی خوشی کے خیال سے متحرک ہونے کے قریب تھے حتیٰ کہ انہوں نے نماز توڑنے کا ارادہ کر لیا اور سمجھے کہ شاید ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف لا رہے ہیں، لہٰذا انہوں نے محراب تک کا راستہ خالی کرنے کا ارادہ کیا جبکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خوشی کی وجہ سے کودنے لگے۔ امام بخاری نے باب الالتفات فی الصلوۃ کے تحت اور دیگر محدثین کرام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یہ والہانہ کیفیت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں بیان کی ہے : و هَمَّ المسلمون أن يفتتنوا فی صلوٰتهم، فأشار إليهم : أتموا صلاتکم. بخاری، الصحيح، 1 : 262، کتاب صفة الصلاة، رقم : 2721 ابن حبان، الصحيح، 14 : 587، رقم : 36620 ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 75، رقم : 41650 ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 5217 طبری، التاريخ، 2 : 231 مسلمانوں نے نماز ترک کرنے کا ارادہ کر لیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز کو پورا کرنے کا حکم دیا ۔ تو اے مسلمان بچ ان گستاخوں سے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عقیدہ اپنا جو کہ الحمد اللہ آج اہلسنت وجماعت کا عقیدہ ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فرقہ ورایت پھیلانے والے کون ؟ الزام اہلسنت پر لگاتے تھے قصور اپنا نکل آیا

0 comments
فرقہ ورایت پھیلانے والے کون ؟ الزام اہلسنت پر لگاتے تھے قصور اپنا نکل آیا

بر صغیر کے پر امن مسلمانان اہلسنت میں شورش و فتنہ کس نے برپا کیا ، کس نے مسلمانوں کو آپس میں لڑایا فسادی کون ہے ؟ پڑھیئے حکیم الامت دیوبند اپنی کتاب ارواح ثلاثہ صفحہ نمبر 67 ، 68 ۔ پر لکھتے ہیں کہ : مولوی اسماعیل دہلوی نے کتاب تقویۃ الایمان لکھی اور خود اقرار کیا کہ اس میں سخت الفاظ لکھے گئے ہیں شرک خفی کو شرک جلی لکھ دیا ہے ( گویا شریعت ان کے گھر کی ہے جو مرضی آئے کریں) اس طرح مسلمانوں میں شورش ہوگی اور مجھے امید ہے کہ آپس میں لڑ بھڑ کر چپ ہو جائیں گے ۔ (ارواح ثلاثہ صفحہ نمبر 67 ، 68 مطبوعہ مکتبہ عمر فاروق کراچی)۔۔۔۔(اسی کتاب کا پھیلایا ہوا شر آج تک ختم نہ ہو سکا سوچیئے)

اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویۃ الایمان کے انداز و لہجہ گستاخانہ ہونے کا خود حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی کو بھی اقرار ہے پڑھیئے سوال و جواب

سوال : وہابی کی کتاب تقویۃ الایمان میں لکھا ہے کہ کل مومن اخوۃ یعنی آپس میں سب مسلمان بھائی بھائی ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ خدا کے آگے پیغمبر ایسے ہیں جیسے چماڑ چوڑھے تو آپ اس میں کیا فرماتے ہیں کہ (انبیاء کو )بھائی کہنا درست ہے کہ نہیں ؟ اور چمار چوڑھے کے بارے میں بھی لکھنا ضرور بالضرور تاکیدا لکھا جاتا ہے کیونکہ یہاں سب مسلمان مومن بھائی ہیں نفاق پڑا ہے ۔ کیونکہ وہابی لوگ کہتے ہیں کہ کہنا درست ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بڑا بھائی کہتے ہیں اور سب جماعت کہتی ہیں کہ کہنا درست نہیں لہذا براہ مہربانی اس خط کا جواب بہت جلد لکھئے ۔
الجواب : تقویۃ الایمان میں بعض الفاظ جو سخت واقع ہوگئے ہیں تو اس زمانے کی جہالت کا علاج تھا ۔۔۔ لیکن اب جو بعضوں کی عادت ہے کہ ان الفاظ کو بلا ضرورت بھی استعمال کرتے ہیں یہ بے شک بے ادبی و گستاخی ہے ۔۔۔ تقویۃ الایمان والوں کو بھی برا نہ کہا جائے اور تقویۃ الایمان کے ان الفاظ کا استعمال بھی نہ کیا جاوے گا ۔ (امدادُالفتاویٰ جلد 5 صفحہ 389 تھانوی)

محترم قارئین غور کیجئے کہ تھانوی صاحب کی تقویۃ الایمان کے انداز کے گستاخانہ ہونے کا اقرار ہے مگر پھر اسے اس دور کی جہالت کا علاج قرار دے کر اپنے گرو اسمعیل کو بچانے کی فکر میں ہیں ذرا انصاف کیجئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی بارگاہ اقدس میں تو راعنا کرنا بھی منع قرار دے دیا گیا مگر دیوبندی مذہب میں جہالت کا علاج گستاخی رسول ( صلی اللہ علیہ وسلّم ) سے کیا جاتا ہے فیا للعجب بحمدا للہ علمائے اہل سنت نے تقویۃ الایمان کے رد میں بقول سید محمد فاروق القادری اڑھائی سو کتب تحریر فرمائیں بلکہ خود حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان سے ہی متعدد کتب اس کے رد میں لکھی گئیں جن میں مولانا مخصوص اللہ بن شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ کی معید الایمان وغیرہ ۔

افسوس صد افسوس یہ پھیلائی ھوئی شورش و فتنہ آج تک ختم نہ ہو سکا کیا اب بھی فیصلہ کرنے میں کوئی اور ثبوت چاھیئے کہ مسلمانوں میں فتنہ فساد اور شورش پھیلانے والے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے والے شرک خفی کو شرک جلی لکھنے والے کون لوگ ھیں ؟ فیصلہ خود کیجیئے اپنے ایمان و ضمیر سے تعصب کی عینک اتار کر ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

وہابیوں کا گستاخانہ عقیدہ شیطان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی صورت میں

0 comments
وہابیوں کا گستاخانہ عقیدہ شیطان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی صورت میں

وہابیوں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شانِ اقدس میں بدترین گستاخی وہابی لکھتے ہیں شیطان کہتا ہے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہوں یعنی شیطان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صورت میں آتا ہے ۔ (کتاب الوسیلہ مترجم وہابی صفحہ نمبر 50 ، 51 ابن تیمیہ)

جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے واضح طور پر فرما دیا

صحیح بخاری میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جس نے مجھے نیند میں دیکھا، اس نے یقیناً مجھے دیکھا کیونکہ شیطان میری شکل نہیں بنا سکتا ۔ (بخاري، كتاب الجنائز : باب الدخول على الميت بعد الموت 1244،چشتی)

صحیح بخاری بَابُ مَنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ:
باب: جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ۔
حدثنا عبدان، ‏‏‏‏‏‏اخبرنا عبد الله، ‏‏‏‏‏‏عن يونس، ‏‏‏‏‏‏عن الزهري، ‏‏‏‏‏‏حدثني ابو سلمة، ‏‏‏‏‏‏ان ابا هريرة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ "من رآني في المنام فسيراني في اليقظة، ‏‏‏‏‏‏ولا يتمثل الشيطان بي"، ‏‏‏‏‏‏قال ابو عبد الله، ‏‏‏‏‏‏قال ابن سيرين:‏‏‏‏ إذا رآه في صورته ۔
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جس نے مجھے خواب میں دیکھا، وہ مجھے بیداری میں دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بن سکتا ۔ (بخاري، كتاب التعبير : باب من رئي النبى فى المنام : 6993،چشتٰ)

سنن ابن ماجہ بَابُ: رُؤْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ
باب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے کا بیان ۔
حدیث نمبر : 3900
حدثنا علي بن محمد ،‏‏‏‏ حدثنا وكيع ،‏‏‏‏ عن سفيان ،‏‏‏‏ عن ابي إسحاق ،‏‏‏‏ عن ابي الاحوص ،‏‏‏‏ عن عبد الله ،‏‏‏‏ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ "من رآني في المنام،‏‏‏‏ فقد رآني في اليقظة،‏‏‏‏ فإن الشيطان لا يتمثل على صورتي ۔
ترجمہ : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مجھے خواب میں دیکھا، تو اس نے مجھے بیداری میں دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت نہیں اپنا سکتا ۔ (سنن الترمذی/الرؤیا ۴ (۲۲۷۶)،(تحفة الأشراف: ۹۵۰۹)، وقد أخرجہ : مسند احمد (۱/۳۷۵، ۴۰۰، ۴۴۰، ۴۵۰)،(سنن الدارمی/الرؤیا ۴ (۱۲۸۵)(حدیث صحیح)۔(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)