Thursday 25 October 2018

درسِ قرآن موضوع آیت اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًاً

0 comments
درسِ قرآن موضوع آیت اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًاً


اِذْہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلْقُوۡہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا ۚ وَاۡتُوۡنِیۡ بِاَہۡلِکُمْ اَجْمَعِیۡنَ ۔ ﴿سورۂ یوسف آیت نمبر 93﴾
ترجمہ : میرا یہ کُرتا لے جاؤ اسے میرے باپ کے منہ پر ڈالو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی اور اپنے سب گھر بھر کو میرے پاس لے آؤ ۔

اِذْہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا : میرا یہ کرتا لے جاؤ ۔ جب تعارف ہو گیا تو حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے بھائیوں سے اپنے والد ماجد کا حال دریافت کیا ۔ اُنہوں نے کہا آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی جدائی کے غم میں روتے روتے اُن کی بینائی بحال نہیں رہی ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا ’’میرا یہ کرتا لے جاؤ جو میرے والد ماجد نے تعویذ بنا کر میرے گلے میں ڈال دیا تھا اوراسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دینا وہ دیکھنے والے ہوجائیں گے اور اپنے سب گھر بھر کو میرے پاس لے آؤ تاکہ جس طرح وہ میری موت کی خبر سن کر غمزدہ ہوئے اسی طرح میری بادشاہت کا نظارہ کر کے خوش ہو جائیں ۔ (تفسیر مدارک، یوسف، تحت الآیۃ : 93، صفحہ نمبر 544) ۔ (تفسیر ابنِ کثیر مترجم جلد دوم صفحہ 845 مطبوعہ ضیاء القرآن)

بزرگوں کے تبرکات بھی دافعِ بلا ، مشکل کُشا ہوتے ہیں

اس آیت سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے تبرکات اور ان کے مبارک جسموں سے چھوئی ہوئی چیزیں بیماریوں کی شفا، دافع بلا اور مشکل کشا ہوتی ہیں۔ قرآن و حدیث اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی مبارک زندگی کا مطالعہ کریں تو ایسے واقعات بکثر ت مل جائیں گے جن میں بزرگانِ دین کے مبارک جسموں سے مَس ہونے والی چیزوں میں شفا کا بیان ہو ۔

حضرت اُمِّ جند ب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : میں نے حضو صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قربانی کے دن بطنِ وادی کی جانب سے جمرۂ عقبہ کی رَمی فرمائی ، جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رمی سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو خَثْعَمْ قبیلے کی ایک خاتون گود میں بچہ اٹھائے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے گھرانے میں ایک ہی بچہ باقی رہ گیا ہے اور اس پر بھی کچھ اثر ہے جس کی وجہ سے یہ بولتا نہیں ۔ یہ سن کر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تھوڑا سا پانی لاؤ ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے پانی پیش کر دیا ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پانی سے دونوں ہاتھوں کو دھویا ، منہ میں پانی لے کر کلی کی اور اس عورت سے فرمایا ’’یہ پانی اس بچے کو پلا دیا کرو اور کچھ اس کے اوپر چھڑک دیا کرو اور اللّٰہ تعالیٰ سے ا س کے لئے شفا طلب کرو ۔ حضرت اُمِّ جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں’’میں نے اس عورت سے ملاقات کی اور اس سے کہا ’’تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دو ۔ اس عورت نے جواب دیا ’’یہ پانی بچے کے صحت کے لئے ہے اس لئے میں نہیں دے سکتی ۔ حضرت ام جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں ’’ دوسرے سال جب اس عورت سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے بچے کا حال پوچھا۔ اس نے جواب دیا ’’وہ بچہ بہت تندرست، ذہین اور عقل مند ہو گیا ہے ۔ (ابن ماجہ، کتاب الطب ، باب النشرۃ، 4/129، الحدیث: 3532،چشتی)

اُمّ المومنین حضرت امِّ سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے پاس حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چند موئے مبارک تھے جنہیں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے چاندی کی ایک ڈبیہ میں رکھا ہو اتھا ۔ لوگ جب بیمار ہوتے تو وہ ان گیسوؤں سے برکت حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا طلب کرتے ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گیسوؤں کو پانی کے پیالے میں رکھ کر وہ پانی پی جاتے تو انہیں شفا مل جایا کرتی ۔ (عمدۃ القاری، کتاب اللباس، باب ما یذکر فی الشیب، ۱۵/۹۴، تحت الحدیث: ۵۸۹۶)

حضرت یعقوب نے قمیص یوسف کو جس کی بافت و ساخت غیر معمولی نہ تھی (ایک عام کپڑا تھا ) اپنی آنکھوں سے مس کیا اور اسی وقت ان کی بینائی پلٹ آئی ارشاد ہوتا ہے : فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الْبَشِیۡرُ اَلْقٰىہُ عَلٰی وَجْہِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیۡرًا ۔ ( سورۂ یوسف آیت نمبر 96)
ترجمہ : پھر جب خوشی سنانے والا آیا اس نے وہ کُرتا یعقوب کے منہ پر ڈالا اسی وقت اس کی آنکھیں پھر آئیں ۔

فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الْبَشِیۡرُ : پھر جب خوشخبری سنانے والا آیا ۔ جمہور مفسرین فرماتے ہیں کہ خوشخبری سنانے والے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے بھائی یہودا تھے ۔ یہودا نے کہا کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس خون آلودہ قمیص بھی میں ہی لے کر گیا تھا ، میں نے ہی کہا تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو بھیڑیا کھا گیا ، میں نے ہی اُنہیں غمگین کیا تھا اس لئے آج کُرتا بھی میں ہی لے کر جاؤں گا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی زندگانی کی فرحت انگیز خبر بھی میں ہی سناؤں گا ۔ چنانچہ یہود ابرہنہ سر اور برہنہ پا کُرتا لے کر 80 فرسنگ (یعنی240میل) دوڑتے آئے ، راستے میں کھانے کے لئے سات روٹیاں ساتھ لائے تھے ، فَرطِ شوق کا یہ عالَم تھا کہ اُن کو بھی راستہ میں کھا کر تمام نہ کرسکے ۔ الغرض یہودا نے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی قمیص حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کے چہرے پر ڈالی تو اسی وقت ان کی آنکھیں درست ہوگئیں اور کمزوری کے بعد قوت اور غم کے بعد خوشی لوٹ آئی، پھر حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام زندہ ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ ہمیں آپس میں ملا دے گا ۔ (تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۶/۵۰۸، جمل مع جلالین، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۴/۸۰)۔(تفسیر ابنِ کثیر مترجم جلد دوم صفحہ 846 مطبوعہ ضیاء القرآن)

سیدہ مریم سلام اللہ علیہا اللہ تعالیٰ کی نیک بندی تھیں‘ اور سیدنا زکریا علیہ السلام نے ان کے حجرہ مبارک کی برکات کو دیکھ کر وہاں دعا کی ۔ قرآنِ مجید اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے : ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗۚ قَالَ رَبِّ ہَبْ لِیۡ مِنۡ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃًۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ۔ (سورہ آل عِمْرَان آیت نمبر 38)
ترجمہ : یہاں پکارا زکریا اپنے رب کو بولا اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بیشک تو ہی ہے دعا سننے والا ۔

ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ : وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگی ۔ حضرت زکریا عَلَیْہِ السَّلَام نے جب اس جگہ پر اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی دیکھی تو وہیں یعنی بیت المقدس کی محراب میں دروازے بند کرکے پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی ۔

اس آیت سے معلوم ہوا

(1) ۔ جس جگہ رحمت ِ الٰہی کا نزول ہوا ہو وہاں دعا مانگنی چاہیئے جیسے جس مقام پر حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو غیب سے رزق ملتا تھا وہیں حضرت زکریا عَلَیْہِ السَّلَام نے دعا مانگی ۔ اسی وجہ سے خانہ کعبہ اور تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضہ اقدس اور مزاراتِ اولیاء پر دعا مانگنے میں زیادہ فائدہ ہے کہ یہ مقامات رحمت ِ الٰہی کی بارش برسنے کے ہیں ۔

(2) ۔علماءِ کرام نے اس جگہ کو مقبولیت کے مقامات سے شمار کیا جہاں کسی کی دعا قبول ہوئی ہو ۔ لہٰذا جہاں اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا وجود ہو یا جہاں وہ رہے ہوں وہاں دعا کرنی چاہیے کیونکہ اولیاء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بکثرت دعا کرتے ہیں اور ان کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں تو جہاں وہ رہے ہوں گے وہاں دعائیں ضرور قبول ہوئی ہوں گی ۔

(3) ۔ حضرت زکریا عَلَیْہِ السَّلَام نے پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی ۔ معلوم ہوا کہ صرف اولاد کی دعا نہیں کرنی چاہیے کہ اولاد تو زبردست آزمائش بھی بن سکتی ہے۔ لہٰذا پاکیزہ کرداروعمل والی اولاد کی دعا کرنی چاہیے تاکہ اس سے دنیا و آخرت کا سکھ ملے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ۔
ترجمہ : جب وہ لوگ ان کے معاملہ میں باہم جھگڑنے لگے تو بولے ان کے غار پر کوئی عمارت بناؤ ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے تھے قسم ہے کہ ہم تو ان پر مسجد بنائیں گے ۔ (سورہ الْكَهْف آیت نمبر 21)

وَکَذٰلِکَ : اور اسی طرح۔} ارشاد فرمایا کہ جیسے ہم نے اصحاب ِ کہف کو جگایا تھا اسی طرح ہم نے لوگوںکو دقیانوس کے مرنے اور مدت گزر جانے کے بعداصحاب ِ کہف کے بارے میں مطلع کردیا تاکہ تمام لوگ اور بالخصوص بیدروس بادشاہ کی قوم کے منکرین ِقیامت جان لیں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت میں کچھ شبہ نہیں ۔ پھر اصحاب ِ کہف کی وفات کے بعد ان کے اردگرد عمارت بنانے میں لوگ باہم جھگڑنے لگے تو کہنے لگے : ان کے غار پر کوئی عمارت بنادو۔ ان کا رب عَزَّوَجَلَّ انہیں خوب جانتا ہے جو لوگ اپنے اس کام میں غالب رہے تھے یعنی بیدروس بادشاہ اور اس کے ساتھی، انہوں نے کہا : ہم ضرور ان کے قریب ایک مسجد بنائیں گے جس میں مسلمان نماز پڑھیں اور ان کے قرب سے برکت حاصل کریں ۔ (تفسیر خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳/۲۰۶)۔(تفسیرمدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۶۴۶،چشتی)

قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : هٰذِهِ الْآیَةُ تَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ لِیُصَلّٰی فِیْهِ عِنْدَ مَقَابِرِ أَوْلِیَاءِ اﷲِ قَصْدًا لِلتَّبَرُّکِ بِهِمْ .
یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اَولیاء کرام کے مزارات کے قریب ان سے برکت حاصل کرنے کے لئے مسجد بنانا اور اس میں اس مقصد کے لئے نماز پڑھنا جائز اُمور ہیں ۔ (التفسیر المظهری، 6: 23، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربی،چشتی)

بزرگوں کے مزارات کے قریب مسجدیں بنانا جائز ہے

اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے مزارات کے قریب مسجدیں بنانا اہلِ ایمان کا قدیم طریقہ ہے اور قرآنِ کریم میں اس کا ذکر فرمانا اور اس کو منع نہ کرنا اس فعل کے درست ہونے کی قوی ترین دلیل ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بزرگوں کے قرب میں برکت حاصل ہوتی ہے اسی لئے اہلُ اللّٰہ کے مزارات پر لوگ حصولِ برکت کے لئے جایا کرتے ہیں ۔قبروں کی زیارت سنت اور مُوجِب ِثواب ہے ۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَیُقَالُ: هَلْ فِیکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُولَ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم؟ فَیَقُولُونَ نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَهُمْ ثُمَّ یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ؟ فَیُقَالُ: هَلْ فِیکُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَهُمْ ثُمَّ یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَیُقَالُ: هَلْ فِیکُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَهُمْ .
ترجمہ : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہا ہو؟ تو وہ لوگ کہیں گے: ہاں (ایسا شخص ہمارے درمیان موجود ہے)۔ تو انہیں (اس صحابی رسول کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پائی ہو؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر انہیں (اس تابعی کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کثیر جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پانے والوں کی صحبت پائی ہو؟ وہ کہیں گے: ہاں، تو انہیں (تبع تابعی کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی ۔ (بخاري، الصحیح، 3: 1335، رقم: 3449، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة)۔(مسلم، الصحیح، 4: 1962، رقم: 2532، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي)

محترم قارئین : ان آیات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ صلحاء کے آثار سے برکت حاصل کرنا جائز ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔