درس قرآن موضوع سورہ یونس آیت اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾
ترجمہ : سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم ۔ وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں ۔
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ : سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں ۔ لفظِ ’’ولی‘‘ وِلَاء سے بناہے جس کا معنی قرب ا ور نصرت ہے۔ وَلِیُّ اللہ وہ ہے جو فرائض کی ادائیگی سے اللہ عَزَّوَجَلَّکا قرب حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول رہے اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے نورِ جلال کی معرفت میں مستغرق ہو ،جب دیکھے قدرتِ الٰہی کے دلائل کو دیکھے اور جب سنے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی ثناہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے، اطاعتِ الٰہی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے تو اسی کام میں کوشش کرے جو قربِ الٰہی کاذریعہ ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے۔ یہ صفت اَولیاء کی ہے، بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا ولی و ناصر اور معین و مددگار ہوتا ہے۔
وَلِیُّ اللہ کی علامات
علماء نے ’’ ولی اللہ‘‘ کی کثیر علامات بیان فرمائی ہیں ، جیسے متکلمین یعنی علمِ کلام کے ماہر علماء کہتے ہیں ’’ولی وہ ہے جو صحیح اور دلیل پر مبنی اعتقاد رکھتا ہو اور شریعت کے مطابق نیک اعمال بجالاتا ہو ۔
بعض عارفین نے فرمایا کہ ولایت قربِ الٰہی اور ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ مشغول رہنے کا نام ہے،جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتااور نہ کسی شے کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آئے، یہی طبری کی حدیث میں بھی ہے۔
ابنِ زید نے کہا کہ ولی وہی ہے جس میں وہ صفت ہو جو اس سے اگلی آیت میں مذکور ہے۔ ’’ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ‘‘ یعنی ایمان و تقویٰ دونوں کا جامع ہو۔
بعض علماء نے فرمایا کہ ولی وہ ہیں جو خالص اللہ کے لئے محبت کریں۔ اَولیاء کی یہ صفت بکثرت اَحادیث میں ذکر ہوئی ہے۔
بعض بزرگانِ دین نے فرمایا: ولی وہ ہیں جو طاعت یعنی فرمانبرداری سے قربِ الٰہی کی طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کرامت سے ان کی کار سازی فرماتا ہے یا وہ جن کی ہدایت کا دلیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کفیل ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کا حقِ بندگی ادا کرنے اور اس کی مخلوق پر رحم کرنے کے لئے وقف ہوگئے ۔ (تفسیر خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ۲/۳۲۲-۳۲۳ ، چشتی)
یہ معانی اور عبارات اگرچہ جداگانہ ہیں لیکن ان میں اختلاف کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک عبارت میں ولی کی ایک ایک صفت بیان کردی گئی ہے جسے قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے یہ تمام صفات اس میں ہوتے ہیں ، ولایت کے درجے اور مَراتب میں ہر ایک اپنے درجے کے بقدر فضل و شرف رکھتا ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۴۰۵)
لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ : اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔} مفسرین نے اس آیت کے بہت سے معنی بیان کئے ہیں ، ان میں سے 3معنی درج ذیل ہیں :
(1) مستقبل میں انہیں عذاب کا خوف نہ ہو گا اور نہ موت کے وقت وہ غمگین ہوں گے۔
(2) مستقبل میں کسی ناپسندیدہ چیز میں مبتلاہونے کا خوف ہوگا اور نہ ماضی اور حال میں کسی پسندیدہ چیز کے چھوٹنے پر غمگین ہوں گے۔ (تفسیر البحرا لمحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ : ۳۸، ۱/۳۲۳، چشتی)
(3) قیامت کے دن ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ اس دن یہ غمگین ہوں گے کیونکہ اللہتعالیٰ نے اپنے ولیوں کو دنیا میں ان چیزوں سے محفوظ فرما دیا ہے کہ جو آخرت میں خوف اور غم کا باعث بنتی ہیں۔ (تفسیر جلالین مع صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳/۸۸۰) ان تین کے علاوہ مزید اَقوال بھی تَفاسیر میں مذکور ہیں ۔
اولیاءِ کرام کی اَقسام
اولیاءِ کرام کی کثیر اَقسام ہیں جیساکہ حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ،بے شک انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زمین کے اَوتاد تھے ، جب نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اُمتِ احمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں سے ایک قوم کو اُن کا نائب بنایا جنہیں اَبدال کہتے ہیں ، وہ حضرات (فقط) روزہ و نماز اور تسبیح وتقدیس میں کثرت کی وجہ سے لوگوں سے افضل نہیں ہوئے بلکہ اپنے حسنِ اَخلاق، وَرع و تقویٰ کی سچائی، نیت کی اچھائی، تمام مسلمانوں سے اپنے سینے کی سلامتی، اللہ عَزَّوَجَلَّکی رضا کے لیے حلم ، صبر اور دانشمندی ، بغیر کمزوری کے عاجزی اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کی وجہ سے افضل ہو ئے ہیں۔ پس وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے نائب ہیں۔ وہ ایسی قوم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ذات پاک کے لئے منتخب اور اپنے علم اور رضا کے لئے خاص کر لیا ہے ۔ وہ 40 صدیق ہیں ، جن میں سے 30 رحمن عَزَّوَجَلَّ کے خلیل حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے یقین کی مثل ہیں۔ ان کے ذریعے سے اہلِ زمین سے بلائیں اور لوگوں سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں ، ان کے ذریعے سے ہی بارش ہوتی اور رزق دیا جاتا ہے، ان میں سے کوئی اُسی وقت فوت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کی جانشینی کیلئے کسی کو پروانہ دے چکا ہوتا ہے۔ وہ کسی پر لعنت نہیں بھیجتے، اپنے ماتحتوں کو اَذیت نہیں دیتے ، اُن پر دست درازی نہیں کرتے ،اُنہیں حقیر نہیں جانتے ، خود پر فَوقیت رکھنے والوں سے حسد نہیں کرتے ، دنیا کی حرص نہیں کرتے ، دکھاوے کی خاموشی اختیار نہیں کرتے ، تکبرنہیں کرتے اور دکھاوے کی عاجزی بھی نہیں کرتے ۔ وہ بات کرنے میں تمام لوگوں سے اچھے اور نفس کے اعتبار سے زیادہ پرہیزگار ہیں ، سخاوت ان کی فطرت میں شامل ہے، اَسلاف نے جن (نامناسب ) چیزوں کو چھوڑا اُن سے محفوظ رہنا ان کی صفت ہے ، اُن کی یہ صفت جدا نہیں ہوتی کہ آج خشیت کی حالت میں ہوں اور کل غفلت میں پڑے ہوں بلکہ وہ اپنے حال پر ہمیشگی اختیا ر کرتے ہیں ، وہ اپنے اور اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے درمیان ایک خاص تعلق رکھتے ہیں ، جہاں تک دوسرے کسی کی رسائی نہیں۔ اُن کے دل اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور شوق میں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں ،(پھر یہ آیت تِلاوت فرمائی)’’ اُولٰٓئِکَ حِزْبُ اللہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ ‘‘(سورہ المجادلۃ:۲۲)
ترجمہ : یہ اللہ کی جماعت ہے، سن لو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے۔ (نوادرُ الاصول، الاصل الحادی والخمسون، ۱/۲۰۹، الحدیث: ۳۰۱، چشتی)
حضرت شریح بن عبید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے پاس شام والوں کا ذکر ہوا تو ان سے عرض کی گئی کہ ان پر لعنت کیجئے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’نہیں ، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اَبدال شام میں ہوں گے، وہ حضرات چالیس مرد ہیں ، جب ان میں ایک وفات پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو بدل دیتا ہے، ان کی برکت سے بارشیں برستی ہیں ، ان کے ذریعے دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور ان کی برکت سے شام والوں سے عذاب دور ہوتا ہے۔ (مسند امام احمد، ومن مسند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ۱/۲۳۸، الحدیث: ۸۹۶، چشتی)
اولیاءِ کرام کی اَقسام کے بارے میں اَکابر علماء و محدثین نے بڑا تفصیلی کلام فرمایا ہے ۔ علامہ سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قطب، اَبدال وغیرھما کے وجود پر ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے۔ علامہ نبہانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اس موضوع پر مشہور کتاب ’’جامع کراماتِ اولیاء‘‘ ضخیم ترین کتاب ہے۔ علامہ نبہانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کی روشنی میں یہاں چند مشہور اَقسام بیان کی جاتی ہیں :
(1) اَقطاب۔ یہ قُطب کی جمع ہے۔ قطب اسے کہتے ہیں کہ جو خود یا کسی کے نائب کے طور پر حال اور مقام دونوں کا جامع ہو۔
(2) اَئمہ ۔ یہ وہ حضرات ہیں کہ جو قطب کے انتقال کے بعد اس کے خلیفہ بنتے ہیں اور وہ قطب کیلئے وزیر کی طرح ہوتے ہیں۔ہر زمانے میں ان کی تعداد دو ہوتی ہے۔
(3) اَوتاد۔ہر زمانے میں ان کی تعداد چار ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے۔ ان میں سے ایک کے ذریعے اللہ تعالیٰ مشرق کی حفاظت فرماتا ہے ، دوسرے کے ذریعے مغرب کی ، تیسرے کے ذریعے شمال کی اور چوتھے کے ذریعے جنوب کی حفاظت فرماتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنے حصے میں ولایت ہوتی ہے۔
(4) اَبدال۔ ان کی تعداد سات ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے ساتوں برِّ اَعظم کی حفاظت فرماتا ہے، انہیں ابدال ا س لئے کہتے ہیں کہ جب یہ کسی جگہ سے کوچ کرتے ہیں اور کسی مَصلحت اور قربت کی وجہ سے اس جگہ اپنا قائم مقام چھوڑنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں ایسے آدمی کو نامزد کرتے ہیں کہ جو ان کا ہم شکل ہواور جو کوئی بھی اس ہم شکل کو دیکھے تو وہ اسے اصلی شخص ہی سمجھے حالانکہ وہ ایک روحانی شخصیت ہوتا ہے جسے ابدال میں سے کوئی بدل قصداً وہاں ٹھہرا تا ہے۔ جن اَولیاء میں یہ قوت ہوتی ہے ، انہیں ا بدال کہتے ہیں۔
(5) رِجال ا لغیب ۔ اَہلُ اللہ کی اِصطلاح میں یہ وہ لوگ ہیں جو رب کی بارگاہ میں انتہائی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور تجلیات ِ رحمن کے غلبے کے سبب آہستہ آواز کے سوا کچھ کلام نہیں کرتے، ہمیشہ اسی حال میں رہتے ہیں ، چھپے ہوئے ہوتے ہیں پہچانے نہیں جاتے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مُناجات نہیں کرتے اور اس کے سوا کسی کے مشاہدے میں مشغول نہیں ہوتے۔ بعض اوقات اس سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو انسانی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں اور کبھی اس کا اِطلاق نیک اور مومن جنات پر ہوتا ہے ۔ بعض اوقات ان سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو ظاہری حواس سے علم اور رزق وغیرہ نہیں لیتے انہیں غیب سے یہ چیزیں عطا ہوتی ہیں۔ (جامع کرامات اولیاء، القسم الاول فی ذکر مراتب الولایۃ۔۔۔ الخ، ۱/۶۹، ۷۴، چشتی)
الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا:وہ جو ایمان لائے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ولی کی دو صِفات بیان فرمائی ہیں :
(1) ولی وہ ہے جو ایمان کے ساتھ مُتَّصِف ہو۔ ایمان کا معنی ہے وہ صحیح اعتقاد جو قَطعی دلائل پر مبنی ہو۔
(2) ولی کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ متقی ہو۔ تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ جن کاموں کو کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا انہیں کرنا اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے اِجتناب کرنا ۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳/۸۸۰) اوراس کے ساتھ ساتھ ہر اس کام کیلئے کوشش کرنا جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا ہو اور ہر اُس کام سے بچنا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دور کرنے والا ہو۔
شان اولیاء احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، حدیث نمبر: 6021 روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جو شخص میرے کسی ولی (بندہ مقرب) سے عداوت رکھے تو میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں ، اور میرا بندہ کسی اور میری پسندیدہ چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جتنا کہ فرائض کے ذریعے (میرا قرب پاتا ہے) اور میرا بندہ نفل (زائد) عبادات کے ذریعے ہمیشہ میرا قرب پاتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت فرماتا ہوں جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پائوں ہوجاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگروہ مجھ سے مانگے تو اسے ضرور عطاء کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو اسے ضرور پناہ عطاء فرماتا ہوں۔
حدیث بالا میں لفظ ''عادلی'' عدو سے بنا ہے۔ جس کا معنی ہے ظلم کرنا، دور رہنا، دشمنی رکھنا اور لڑائی کرنا۔ جبکہ لفظ ''ولی'' ولی یا ولایة سے بنا ہے۔ اور ولایة کا معنی ہے: محبت کرنا، قریب ہونا، حاکم ہونا، تصرف کرنا، مدد کرنا، دوستی کرنا اور کوئی کام ذمہ لینا۔ لہٰذا ''ولی'' کا لغوی معنی ہے: قریب، محب، حاکم، مددگار، دوست، متولی امر۔ اور شریعت میں ولی اسے کہتے ہیں جو مومن اور متقی وپرہیزگار ہو اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب محبت سے نواز دے۔ اور اس بات پر متکلمین کا اتفاق ہے کہ کافر اور فاسق و فاجر کو اللہ تعالیٰ اپنی ولایت (اپنے قرب محبت) سے نہیں نوازتے ۔
حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ تفسیر مظہری میں مرتبہ ولایت پر فائز ہونے کے اسباب ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''مرتبہ ولایت کے حصول کی یہی صورت ہے کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ آئینہ دل پر آفتاب رسالت کے انوار کا انعکاس ہونے لگے اور پرتو جمال محمدی(علی صاحبہ اجمل الصلوات و اطیب التسلیمات) قلب و روح کو منور کردے اور یہ نعمت انہیں بخشی جاتی ہے جو بارگاہ رسالت میں یا حضورۖ کے نائبین یعنی اولیاء امت کی صحبت میں بکثرت حاضررہیں۔
لفظ ولی کے تمام لغوی معانی مبالغہ کے ساتھ اللہ کے محبوب و مقرب بندوں میں پائے جاتے ہیں۔ اور اس کے دلائل کتاب و سنت اور سیرت بزرگان دین میں بکثرت موجود ہیں اور اس حدیث پاک میں بھی اس پر مضبوط استدلال موجود ہے۔
حدیث بالامیں لفظ ''بالحرب'' سے اللہ تعالیٰ کا ولی کے دشمن کے خلاف اعلان جنگ ہے یا پھر دشمن ولی کا اللہ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی کے خلاف اعلان جنگ سے مراد یہ ہے کہ اللہ اسے دنیا میں ہدایت کی توفیق مرحمت نہ فرمائے یا اسے ایمان پر خاتمہ نصیب نہ فرمائے۔ اور آخرت میں اسے عذاب الیم میں مبتلا کردے۔
بزرگان دین فرماتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ نے دو گناہوں پر وعید جنگ فرمائی ہے: 1. سود۔ 2. اللہ کے محبوب بندوں سے عداوت۔''
حضرت علامہ علی قاری مکی حنفی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ''اللہ کے محبوب بندوں کے ساتھ عداوت رکھنا انتہائی خطرناک ہے، اس کی وجہ سے ایمان کے خلاف خاتمہ ہونے کا خطرہ ہے اور اسی قسم کا مضمون حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے کشف المحجوب میں لکھا ہے ۔ (اعاذنا اللہ من ذالک)
حدیث بالامیں قرب محبت پانے والے شخص کے متعلق لفظ ''عبدی (میرابندہ)'' فرمانے میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالیہ میں بلند مراتب حاصل کرنے کا اصل سبب خدا تعالیٰ کی بندگی ہے۔ جیسا سورہ اسراء میں آیت اسراء میں حضور سید المرسلینۖ کے لئے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اور ''مما افرضت علیہ'' فرض سے مراد وہ دینی احکام ہیں جنہیں دلیل قطعی کے ذریعے جن و انس پر لازم کردیا جائے۔ فرض کا انکار کفرہے، اور فرض کو ادا نہ کرنے والا فاسق و فاجر ہے۔ بعض مقامات پر فرض کا اطلاق نواہی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ نواہی میں بھی کام کو نہ کرنا فرض کر دیا جاتا ہے بلکہ نواہی سے احتراز کرنا، اوامرکی ادائیگی سے زیادہ ضرور ی ہے۔
حدیث بالامیں ''وما یزال العبد یتقرب الی بالنوافل'' میں نوافل سے مراد وہ عبادات ہیں جو فرض وواجب نہیں۔ جیسے نفلی نماز، نفلی روزہ، تلاوت قرآن، محافل میلاد، محافل ایصال ثواب، درود شریف وغیرہ۔ اور ''فاذا احبببتہ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ تا ورجلہ التی یمشی'' میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ محبوب کے کان ہاتھ اور پائوں بن جانے سے مراد یہ ہے کہ جب بندہ مومن فرائض پر پابندی کے بعد نوافل کی کثرت اختیار کرتا ہے اور مجاہدات و ریاضات کے ذریعے وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے انوار و تجلیات اس پر وارد ہوں تو وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔ اب اس کا سننا، دیکھنا، پڑھنا اور چلنا عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے دوریاں اور فاصلے ختم کردیئے جاتے ہیں اور وہ جہاں چاہے تصرف کرسکتا ہے۔
جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کا واقعہ موجود ہے کہ ملکہ یمن بلقیس مسلمان ہونے کی غرض سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کے قریب پہنچ چکی تھی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
''تم میں کون ہے جو بلقیس کا تخت (سینکڑوں میل دور صنعاء یمن سے )اس کے میرے پاس پہنچنے سے پہلے میرے پاس لائے؟ '' تو قرآن مجید، پارہ نمبر 19، سورہ نمل، آیت نمبر 40 میں ہے :
ترجمہ: ''اس شخص نے جسکے پاس کتاب کا علم تھا کہا: میں آپکے پاس وہ تحت آپکی آنکھ جھپکنے سے پہلے لاتا ہوں۔''
یہ تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی امت کے ولی تھے، لیکن حضور سید الانبیاء حضرت محمدمصطفیۖ کی امت کے اولیاء کی شان پہلی امتوں کے اولیاء کرام سے کہیں زیادہ ہے۔
اس حدیث میں اولیاء کیلئے جن مافوق الاسباب اختیارات کا ذکر ہے وہ اختیارات روحانی ہیں، لہٰذا اولیاء کرام کو یہ اختیار وفات کے بعد بھی حاصل رہتے ہیں کیونکہ اجماع امت ہے کہ وفات سے روح فنا نہیں ہوتی، بلکہ علامہ ابن خلدون مقدمہ ابن خلدون میں فرماتے ہیں کہ وفات کے بعد روح جسم سے آزاد ہونے کی وجہ سے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے۔
روح کا وفات کے بعد دنیاوی زندگی کی نسبت زیادہ مضبوط ہونا دلائل شرعیہ سے ثابت ہے۔ چنانچہ نبی علیہ الصلوٰة و السلام کا ارشاد ہے، جوکہ صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، حدیث نمبر 1252 میں ہے کہ : ترجمہ: ''بیشک میت دفن کرکے لوٹنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے ۔
حالانکہ اگر زندہ آدمی کو قبر میں دفن کر دیا جائے تو وہ باہر سے لائوڈ سپیکر کی آواز بھی نہیں سن سکتا، لیکن میت جوتوں کی آواز سنتی ہے۔
چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہمعات نمبر 11میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: ''حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی اپنی قبر انور میں زندہ اولیاء کی طرح تصرف فرمارہے ہیں ۔
علاوہ ازیں تمام سلاسل روحانیہ قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ اور سہروردیہ و غیرہا کے مسلمہ مشائخ کا اہل قبور سے فیض حاصل کرنے اور ان کے روحانی تصرفات پر اجماع ہے۔
حدیث بالا میں لفظ ''ولان سالنی لاعطینہ یعنی اگر وہ مجھ سے مانگے تو ضرور اسے عطاء کرتا ہوں۔'' سے اولیاء کرام کی دعائوں کا قبول ہونا ثابت ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اولیاء کرام سے دعا کروانا ہمیشہ سے مسلمانوں میں مروج ہے۔ حضور نبی اکرمۖ نے صحابہ کرام کو حضرت اویس قرنی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں فرمایا، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل اویس قرنی، حدیث: 4612 میں ہے:
ترجمہ : ''تم میں سے جس کی بھی ان (اویس قرنی) سے ملاقات ہو ا تو وہ تمہارے لئے استغفار کریں۔
اور امام بخاری و مسلم کے استاذ شیخ ابوبکر ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قحط پیدا ہوا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روضہ نبوی پر حاضر ہوئے اور عرض کیا:
ترجمہ: ''یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ اپنی امت کے لئے بارش کی دعاء فرمائیں کیوں کہ وہ ہلاک ہونے والی ہے۔''
چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6صفحہ 356طبع ریاض اور فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خواب میں فرمایا : عمر کے پاس جاؤ انہیں سلام کہو اور بشارت دو کہ بارش ہوگی ۔
حدیث بالا میں لفظ ''ولان استعاذنی لاعیذنہ یعنی اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور بالضرور پناہ دیتا ہوں'' سے مراد نفس شیطان کے شر سے یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کی طرف سے سختی یا اس کی بارگاہ سے دوری وغیرہ سے پناہ مانگنا مراد ہے ۔
یہی وجہ ہے جو ہم کہتے ہیں کہ اولیاء کرام گناہوں سے محفوظ ہیں ۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اولیاء کرام کو اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اور کسی حکمت کے تحت ان سے کوئی لغزش ہوجائے تو فوراً رجوع الی اللہ کی توفیق مرحمت فرماتا ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment