Sunday, 7 October 2018

درس قرآن موضوع آیت : فَاذْکُرُوۡنِیۡۤ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوۡا لِیۡ وَلَا تَکْفُرُوۡنِ


درس قرآن موضوع آیت : فَاذْکُرُوۡنِیۡۤ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوۡا لِیۡ وَلَا تَکْفُرُوۡنِ

فَاذْکُرُوۡنِیۡۤ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوۡا لِیۡ وَلَا تَکْفُرُوۡنِ ۔ ﴿سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۵۲﴾
ترجمہ : تو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو ۔

فَاذْکُرُوۡنِیۡۤ: تو تم میری یاد کرو ۔ کائنات کی سب سے بڑی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر کرنے کے بعد اب ذکر الٰہی اور نعمت الٰہی پر شکر کرنے کا فرمایا جارہا ہے ۔

ذکر کی ا قسام

ذکر تین طرح کا ہوتا ہے

(۱) زبانی ۔

(۲) قلبی ۔

(۳) اعضاء ِبدن کے ساتھ ۔ زبانی ذکر میں تسبیح و تقدیس ، حمد و ثناء،توبہ واستغفار، خطبہ و دعا اور نیکی کی دعوت وغیرہ شامل ہیں ۔

قلبی ذکر میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا، اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی عظیم قدرت کے دلائل میں غور کرناداخل ہے نیز علماء کاشرعی مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہے۔ اعضاء ِبدن کے ذکر سے مراد ہے کہ اپنے اعضاء سے اللہتعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے بلکہ اعضاء کو اطاعتِ الٰہی کے کاموں میں استعمال کیا جائے ۔ (تفسیر صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۱/۱۲۸)

ذکر کے فضائل

بکثر ت احادیث میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے چند احادیث مبارکہ کا خلاصہ درج ذیل ہے ۔

(1)…اللہ کا ذکرایمانِ کامل کی نشانی ہے ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث معاذ بن جبل، ۸/۲۶۶، الحدیث: ۲۲۱۹۱)
(2)…ذکراللہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی پانے کا ذریعہ ہے ۔ ( مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب القصد فی العمل، الفصل الثانی، ۱/ ۲۴۵، الحدیث: ۱۲۵۰)
(3)…ذکرِ الٰہی عذاب الٰہی سے نجات دلانے والا ہے۔
(مؤطا امام مالک، کتاب القرآن، باب ما جاء فی ذکر اللہ تبارک وتعالی، ۱/۲۰۰، الحدیث: ۵۰۱)
(4)…ذکر کرنے والے قیامت کے دن بلند درجے میں ہوں گے ۔ (شرح السنّہ، کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجلّ ومجالس الذکر، ۳/۶۷، الحدیث: ۱۲۳۹)
(5)…ذکر کے حلقے جنت کی کیاریاں ہیں ۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۸۲-باب، ۵/۳۰۴، الحدیث: ۳۵۲۱)
(6)…ذکر کرنے والوں کوفرشتے گھیر لیتے اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے۔
(ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی القوم یجلسون۔۔۔ الخ، ۵/۲۴۶، الحدیث: ۳۳۸۹)
(7)… شب قدر میں اللہکا ذکر کرنے والے کو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام دعائیں دیتے ہیں ۔ ( شعب الایمان، الباب الثالث والعشرون، فی لیلۃ العید ویومہما، ۳/۳۴۳، الحدیث: ۳۷۱۷)
(8)…ذکر کرنے والوں کی صحبت میں بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔
(مسند امام احمد، مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند ابی ہریرۃ، ۳/۵۶، الحدیث: ۷۴۲۸)
(9)… اللہکا ذکر کرنے سے شیطان دل سے ہٹ جاتا ہے۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ قل اعوذ برب الناس، ۳/۳۹۵،چشتی)
(10)…اللہ کے ذکر سے دل کی صفائی ہوتی ہے ۔ ( مشکاۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب ذکر اللہ عزوجل والقرب الیہ، الفصل الثالث، ۱/ ۴۲۷، الحدیث: ۲۲۸۶)

اَذْکُرْکُمْ : میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اللہ تعالیٰ اطاعت سے یاد کرنے والوں کو اپنی مغفرت کے ساتھ، شکر کے ساتھ یاد کرنے والوں کو اپنی نعمت کے ساتھ، محبت کے ساتھ یاد کرنے والوں کواپنے قرب کے ساتھ یاد فرماتا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے گمان کے نزدیک ہوتا ہوں جو مجھ سے رکھے اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ، اگر بندہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اکیلا ہی یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں ا سے بہتر مجمع میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں گز بھراس سے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں دونوں ہاتھو ں کے پھیلاؤ کے برابر اس سے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں (یعنی جیسے اللہ کی شایانِ شان ہے یا مراد یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس کی طرف زیادہ تیزی سے متوجہ ہوتی ہے۔)
(بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: ویحذرکم اللہ نفسہ، ۴/۵۴۱، الحدیث: ۷۴۰۵)

وَاشْکُرُوۡا لِیۡ : اور میرا شکر کرو ۔ جب کفرکا لفظ شکر کے مقابلے میں آئے تو اس کا معنی نا شکری اور جب اسلام یا ایمان کے مقابل ہو تو اس کا معنی بے ایمانی ہوتا ہے۔ یہاں آیت میں کفرسے مراد ناشکری ہے ۔

شکر کی تعریف

شکر کا مطلب ہے کہ کسی کے احسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کی جائے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :یااللہ! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں کہ میرا شکر کرنا بھی تو تیری ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جب تو نے یہ جان لیا کہ ہرنعمت میری طرف سے ہے اور اس پر راضی رہا تو یہ شکر ادا کرنا ہے ۔ (احیاء العلوم، کتاب الصبر والشکر، الشطر الثانی، بیان طریق کشف الغطاء ۔۔۔ الخ، ۴/۱۰۵،چشتی)

شکر کے فضائل اور ناشکری کی مذمت

قرآن و حدیث میں شکر کے کثیر فضائل بیان کئے گئے اور ناشکری کی مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : لَئِنۡ شَکَرْتُمْ لَاَزِیۡدَنَّکُمْ وَلَئِنۡ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ ۔ (سورہ ابراہیم : ۷)
ترجمہ : اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے ۔

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ، پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا ۔ (رسائل ابن ابی الدنیا ، التواضع والخمول، ۳/۵۵۵، رقم: ۹۳)

دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ ۔ (سورہ ابراہیم)
ترجمہ : بیشک اس میں ہر بڑے صبرکرنے والے ،شکر گزار کیلئے نشانیاں ہیں ۔ یعنی بیشک ان اَیَّامُ اللّٰہ میں ہر اس شخص کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور مصیبتوں پر بڑا صبرکرنے والا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں پر بڑا شکر گزار ہے ۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۴/۳۹۸،چشتی)

مسلمانوں کو صبر و شکر کی نصیحت

امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ۃ اس آیت میں اس بات پر تنبیہ کی گئی ہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ زندگی میں اگر اس پر ایساوقت آئے جو اس کی طبیعت کے مطابق اور اس کے ارادے کے موافق ہو تو وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر کرے اور اگر ایساوقت آئے جو اس کی طبیعت کے مطابق نہ ہو تو صبر کرے۔ (1) اور حضرت صہیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’مسلمان مرد پر تعجب ہے کہ اس کے سارے کام خیر ہیں ، یہ بات مومن مرد کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی کہ اگر اسے راحت پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے لہٰذا اس کے لیے راحت خیر ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے لہٰذا صبر اس کے لیے بہتر ہے ۔

(2) اللّٰہ تعالیٰ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور اگر کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرنے اور جب راحت ملے تو شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنۡ شَکَرْتُمْ لَاَزِیۡدَنَّکُمْ وَلَئِنۡ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ ﴿۷﴾ وَ قَالَ مُوۡسٰۤی اِنۡ تَکْفُرُوۡۤا اَنۡتُمْ وَ مَنۡ فِی الۡاَرْضِ جَمِیۡعًا ۙ فَاِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۸﴾(سورہ ابراہیم)
ترجمہ : اور یاد کرو جب تمہارے رب نے سنادیا کہ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے ۔ اور موسیٰ نے کہا اگر تم اور زمین میں جتنے ہیں سب کا فر ہوجاؤ تو بیشک اللّٰہ بے پرواہ سب خوبیوں والا ہے ۔

شکر کی حقیقت

اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے۔ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اِس چیز کا عادی بنائے۔ یہاں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ بندہ جب اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم اور احسان کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول ہوتا ہے ،اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی چلی جاتی ہے یہ مقام بہت برتر ہے اور اس سے اعلیٰ مقام یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی محبت یہاں تک غالب ہو جائے کہ دل کا نعمتوں کی طرف میلان باقی نہ رہے، یہ مقام صدیقوں کا ہے ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷، ۳/۷۵-۷۶۔)

شکر کی فضیلت اور ناشکری کی مذمت

(1)… حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ لَئِنۡ شَکَرْتُمْ لَاَزِیۡدَنَّکُمْ‘‘ یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے’’وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ‘‘ یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے ۔ (در منثور، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷، ۵/۹۔)
(2)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللّٰہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے ۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ۶/۵۱۶، الحدیث: ۹۱۱۹،چشتی)
(3)…حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے ۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، ۱/۴۸۴، الحدیث: ۶۰۔)
(4)…سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ یعنی اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، ۲/۱۲۳، الحدیث: ۱۵۲۲۔)

اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ، اٰمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...