Saturday, 20 October 2018

دیوبندیوں سے ہمارا چوتھا بنیادی اختلاف بانی دیوبند لکھتے ہیں : بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے

دیوبندیوں سے ہمارا چوتھا بنیادی اختلاف بانی دیوبند لکھتے ہیں : بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے

بانی دیوبند جناب قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں : غرض اختتام اگر بایں معنیٰ تجویز کیا جاوے جو میں نے عرض کیا تو آپ کا خاتم ہونا انبیاء گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے ۔ (تحذیر الناس صفحہ نمبر 13 مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ دیوبند)۔(تحذیر النّاس ،صفحہ نمبر 34دارالاشاعت مقابل مولوی مسافر خانہ کراچی ، مصنف بانی دیوبند قاسم نانوتوی)

سمجھ میں نہیں آتا کہ ختم ذاتی کے لئے جب نانوتوی صاحب ختم زمانی کو لازمی مانتے ہیں تو پھر کسی اور نبی کے ہوتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خاتم ہونا کس طرح باقی رہ سکتا ہے ۔ اس تشریح سے واضح ہوگیا کہ اس فقرہ میں بھی کسی قسم کی تحریف یا خیانت سے کام نہیں لیا ہے ۔ (اصل اسکن بھی پیش کیئے جا رہے ہیں)

نانوتوی صاحب مزید لکھتے ہیں : ہاں اگر خاتمیت بمعنیٰ اتصاف ذاتی بوصف نبوۃ لیجئے جیسا کہ اس ہیچمدان نے عرض کیا تو پھر سو ائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور کسی کو افراد مقصودہ بالخلق میں سے مماثل نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیاء کے افراد خارجی ہی پر آپ کی فضیلت ثابت نہ ہوگی اور افراد مقدرہ پر بھی آپ کی فضیلت ثابت ہوجائی گی بلکہ بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔ (تحذیر الناس صفحہ نمبر 24 کتب خانہ امدادیہ دیوبند)



قرآن کریم میں ’’و خاتم النبیین‘‘ میں لفظ خاتم کے معنیٰ ’’آخر‘‘ منقول متواتر ہیں اور اس آیت کریمہ میں اس لفظ خاتم کے معنیٰ ’’آخر‘‘ ہونے پر اجماع امت منعقد ہوچکا ہے اس کے بعد نانوتوی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’خاتمیت بمعنیٰ اتصاف ذاتی بوصف نبوۃ‘‘ ہے تو یقینا قرآن کے معنیٰ متواتر اور اجماعِ امت کا انکار ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ نانوتوی صاحب نے ساری امت کے خلاف آیت قرآنیہ کے ایک من گھڑت معنیٰ اپنی طرف سے بیان کرکے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے افرادِ خارجی کے علاوہ افرادِ مقدرہ کو بھی تسلیم کیا ہے اور بزعم خویش سب پر حضور کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’بلکہ اگر بالفرض حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانہ کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا ۔
پرستارانِ تحذیرالنّاس اس کے جواب میں صرف یہی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خاتمیت ذاتیہ میں فرق نہیں آیا حالانکہ نانوتوی صاحب نے خاتمیت ذاتیہ کی بجائے لفظ ’’کچھ‘‘ استعمال کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’حضور کے زمانے کے بعد بھی کسی نبی کے پیدا ہونے سے حضور کی خاتمیت میں کچھ فرق نہیں آئے گا ۔‘‘ ا ھ بلفظہٖ
میں عرض کروں گا کہ اوّل تو نانوتوی صاحب نے اس عبارت میں خاتمیت ذاتیہ کا لفظ نہیں بولا ۔ دوسرے یہ کہ اگر اس کو خاتمیت ذاتیہ ہی محمول کردیا جائے تب بھی نانوتوی صاحب الزام سے بری نہیں ہوسکتے کیوں کہ وہ ختم ذاتی کے لئے ختم زمانی کو لازم مانتے ہیں اگر بعد زمانہ نبوی کوئی نبی پیدا ہو تو یہ لازم کہاں جائے گا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بقول نانوتوی صاحب خاتم ذاتی ہونے کے باوجود خاتم زمانی کس طرح ہوسکیں گے؟ یقینا ختم زمانی میں فرق آئے گا اور جو الزام اعلیٰحضرت نے نانوتوی صاحب پر قائم کیا ہے وہ برقرار رہے گا ۔
اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی کہے کہ میں خدا کو وحدہٗ لاشریک مانتا ہوں لیکن میرے نزدیک خدا کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ جو چاہے کرسکے یہاں تک کہ اگر وہ ایک اور خدا بھی پیداکرنا چاہے تو وہ بھی پیدا کرسکے۔ اگرچہ یقینا کوئی دوسرا خدا پیدا نہیں کرے گا لیکن بالفرض اگر خدا کے لئے کوئی دوسرا خدا پیدا ہوجائے تو خدا کی وحدانیت میں کوئی فرق نہ آئے گا۔
اگر یہ بات صحیح ہے تو نانوتوی صاحب کی عبارت منقولہ بالا بھی صحیح ہوسکتی ہے ۔ کیا پرستاران تحذیر میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ صحیح ہے ؟ اذلیس فلیس ۔
جس ختم کے وہ قائل ہیں یعنی ختم ذاتی قرآن مجید کی اس نص قطعی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ ہاں تاخر زمانی کو نانوتوی صاحب نے ختم ذاتی کے لئے لازم مانا ہے لیکن تحذیر الناس کی اوپر دی گئی عبارت کی تشریح میں ہم نے ثابت کردیا ہے کہ نانوتوی صاحب تاخر زمانی کے لزوم کو مان کر بھی اس کے منکر ہوگئے کیونکہ انہوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔‘‘
اگر نانوتوی صاحب ختم زمانی کے قائل ہوتے تو یوں کہتے ختم ذاتی کیلئے ختم زمانی لازم ہے ۔ اس لئے بعد زمانہ نبوی اگر کوئی نبی پیدا ہو تو حضور کی خاتمیت میں ضرور فرق آئے گا ۔
علاوہ ازیں نانوتوی صاحب دس لاکھ مرتبہ یہ کہیں کہ میں خاتمیتِ زمانی کا معتقد ہوں بیکار ہے تاوقتیکہ وہ آیۃ کریمہ ’’وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ‘‘ میں لفظ خاتم کے معنیٰ آخری نبی ہونے کو عوام کا خیال قرار دینے سے توبہ نہ کریں ۔
رہا یہ امر کہ نانوتوی صاحب نے جدید نبی کا لفظ کہیں نہیں لکھا حالانکہ تحذیر الناس کے ص 24 سے عبارت میں ’’پیدا ہو‘‘ کے الفاظ اوپر نقل کرچکے ہیں ۔ حیرت ہے پیدا ہونے والا نبی جدید نہ ہوگا تو کیا آپ اسے قدیم کہیں گے ؟

بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی است

قبلیت، بعدیت اور معیت تینوں لفظوں میں تقابل بدیہی ہے ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کا سہارا لیکر آپ معیت کو بعدیت کے منافی قرار دینا باطل فرمارہے ہیں ۔
حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام انبیاء سابقین میں ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی معیت میں یعنی عہد نبوت محمدیہ میں ان کو نبوت نہیں ملی ۔
جو شخص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی معیت میں یعنی آپ کے عہد رسالت اور زمانہ نبوت میں کسی قسم کی نبوت دئیے جانے کا قائل ہے وہ امت مسلمہ کے نزدیک کافر ہے ۔ مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی ’’شرح شفاء‘‘ سے عبارت نقل کرتے ہیں۔فانہ لا نبی ولا رسول بعدہ ولا فی عہدہ ۔
بے شک کوئی نبی اور رسول نہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد ہے اور نہ آپ کے عہد مبارک میں ۔ (ختم النبوۃ فی الآثار ص ۲۸، ص ۱۹)
اسی طرح صفحہ ۲۰ پر مفتی شفیع صاحب نے شرح شفاء سے ایک اور عبارت نقل کی وکذالک نکفر من ادعی نبوۃ احد مع نبینا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم الخ یعنی اسی طرح ہم اس شخص کو بھی کافر سمجھتے ہیں جس نے کسی کی نبوۃ کا دعویٰ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی معیت میں کیا اور صفحہ ۲۴ پر ’’تحفہ شرح منہاج‘‘ سے کلمات کفر نقل کرتے ہوئے ان ہی مفتی محمد شفیع صاحب نے ارقام فرمایا
اوجوز نبوۃ احد بعد وجودہ وعیسی علیہ السلام نبی قبلہ فلا یرد (از اکفار ص ۴۲)
ان تمام عبارات سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا ہے کہ معیت بعدیت کے منافی ہے یاد رکھئے کہ مسیلمہ کذاب ، اسود عنسی سب کو اسی عقیدہ کی بنیاد پر واجب القتل قرار دیا گیا۔ آپ نے اپنے مضمون کے ص ۵ پر لکھا ’’لہٰذا جناب کا چھ خاتم کی رٹ لگانا غلط و باطل ہے‘‘ چھ خاتم کی رٹ ہم نے نہیں لگائی بلکہ نانوتوی صاحب نے لگائی ہے ۔
نانوتوی صاحب نے اسی اثر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی بنیاد پر جس کی صحت میں علماء امت کا اختلاف ہے جسے ہم تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔
’’تحذیر الناس‘‘ میں فرمایا : ’’ایسے ہی اور زمینوں کے خاتموں کے فیوض خواہ ارواح انبیاء ہوں یا ارواح امت اُن کے کمال ہوں یا ان کے سب آپ ہی کی طرف منسوب ہیں۔‘‘ ا ھ (تحذیر الناس ص ۲۹)
پھر ص ۳۰ پر لکھتے ہیں : ہر زمین میں اس زمین کے انبیاء کا خاتم ہے پر ہمارے رسول مقبول عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان سب کے خاتم ہیں۔‘‘ ا ھ
آگے چل کر پھر ص ۳۱ پر رقمطراز ہوتے ہیں۔’’ہرزمین کا خاتم اگرچہ خاتم ہے پر ہمارے خاتم النبیین کا تابع ہے‘‘ ا ھ (تحذیر الناس ص ۳۱)
اب تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ نانوتوی صاحب نے چھ خاتموں کی رٹ لگائی اور ان کا یہ رٹ لگانا غلط و باطل اور ختم نبوۃ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خصوصی وصف ہونے سے انکار کرنا اور احداث فی الدین ہے۔

ختم نبوۃ کا مسئلہ عقائد قطعیہ میں سے ہے اس لئے نبوۃ کی تقسیم بالذات وبالعرض کی طرف قطعی دلائل سے ثابت کرنی چاہیے ۔ حالانکہ ایک پرکاہ کے برابر بھی اس دعوے پر آپ کوئی دلیل قائم نہیں کرسکے ۔ نبوۃ بالذات اور نبوۃ بالعرض کی تقسیم کے دعوے کی دلیل میں ’’تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘‘ الآیۃ اور آیت میثاق ’’لَتُؤْ مِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ‘‘ الآیۃ اور اس کے تحت منقول حدیث ’’لوکان موسیٰ حیاً‘‘ الحدیث اور ’’انما انا قاسم‘‘ الحدیث کو نا سمجھی یا مغالطہ دہی کی بناء پر نقل کرڈالا ان آیات اور احادیث میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی فضیلت کا بیان ہے ۔ نبوۃ کی تقسیم کا قطعاً کوئی ذِکر نہیں ۔ قرآن و حدیث کے ایسے معنیٰ بیان کرنا جو آج تک کسی مسلمان نے نہ کئے ہوں ۔ تحریف معنوی ہے العیاذ باللہ الکریم۔ آیت کریمہ ’’لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ‘‘ کے معنیٰ ’’نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ‘‘ کا فقیر نے ہر گز انکار نہیں کیا نہ اسے عوام کا خیال قرار دیا۔ البتہ اسی آیت کریمہ کے تحت مفسرین کی عبارات حوالہ جات کے ساتھ نقل کیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ تفریق فی النبوۃ کا قول باطل ہے جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے کیا کہ کسی نبی کی نبوۃ کو ایمان لانے کے قابل سمجھا اس پر ایمان لے آئے اور کسی نبی کی نبوۃ کو ایمان لانے کے لائق نہ سمجھا تو اس کے ساتھ کفر کیا۔
یہی تفریق فی النبوۃ ہے جو لاتفضیل فی النبوۃ کے ہم معنیٰ ہے کیونکہ نفس نبوۃ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام میں امر مشترک ہے اس صورت میں ایک کا اقرار اور دوسرے کا انکارنفسِ نبوۃ میں تفضیل کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا نفسِ نبوۃ میں تفضیل اور تفریق میں فرق نہیں۔ بنا بریں آپ کا مجھ پر الزام لگانا کہ تونے آیت کریمہ ’’لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ‘‘ کے معنیٰ متواتر کا انکار کیا محض افتراء اور بہتان ہے‘‘ آپ کی لاعلمی پر حیرت ہے کہ تفضیل فی نفس النبوۃ اور تفضیل فی ذوات الانبیاء علیہم الصلوٰۃ السلام میں فرق نہیں کرسکتے۔ آپ نے جس قدر آیات اور ان کی تشریحات متعلقہ عبارات اپنے مضمون میں لکھی ہیں سب کا مفاد تفضیل فی ذوات الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ہے۔ نفس نبوۃ میں تفضیل کا قول نہ قرآن میں ہے نہ کسی حدیث میں، نہ آج تک امت مسلمہ میں کسی عالمِ دین نے یہ قول کیا۔
اگر آپ سچے ہیں تو نفس نبوۃ میں تفضیل ثابت کیجئے۔ انشاء اللہ قیامت تک آپ ثابت نہ کرسکیں گے۔ جن آیات و احادیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ تمام کمالات علمی و عملی اور ظاہری و باطنی جسمانی و روحانی دنیوی و اخروی سے متصف ہیں اور کمالات کے آپ جامع ہیں او رآپ کی ذاتِ مقدسہ ساری کائنات کل موجودات حتیٰ کہ جمیع انبیاء و رسل کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے افضل و اعلیٰ اور برتر و بالا ہے۔
آیت میثاق میں بھی حضورﷺ کی اس فضیلت کو بیان کیا گیا ہے آپ کا یہ سمجھنا کہ تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے حضورﷺ پر ایمان لانے اور حضورﷺ کی نصرت کا عہد اس لئے لیا گیا کہ حضورﷺ کی نبوۃ بالذات اور دوسرے انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کی نبوت بالعرض ہے۔ قطعاً باطل محض ہے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تشریف لانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ ﷺ کے دین متین کی نصرت کے عہد لینے کی حکمت یہ تھی کہ ہر نبی کی امت اپنے نبی کے تابع ہوتی ہے اور نبی اپنی امت کا متبوع ہوتا ہے چونکہ متبوع کے عہد میں اس کے تابعین شامل ہیں لہٰذا جس نبی کے بھی ماننے والے حضورﷺ کے زمانے میں موجود ہوں ان سب پر فرض ہے کہ وہ نبی کریمﷺ پر ضرور ضرور ایمان لائیں اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دین متین کی ضرور ضرور نصرت کریں اس معنی کا نبوۃ بالذات اور بالعرض سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ البتہ حضورﷺ کی کمالِ فضیلت ضرور اس سے ثابت ہوتی ہے جو ہمارا ایمان ہے۔
اگر آپ یہ کہیں کہ تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر یہ فرض کیا جانا کہ وہ حضور نبی کریمﷺ پر ایمان لائیں حضور نبی کریمﷺ کی نبوت بالذات کی دلیل ہے تو میں عرض کروں گا کہ ہمارے آقائے نامدار حضرت نبی کریمﷺ پر بھی تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانا فرض ہے بلکہ ہر نبی پر فرض ہے کہ وہ خدا کے ہر نبی پر ایمان لائے اور نبوۃ کو بالذات اور بالعرض کی طرف تقسیم کرنے کی یہی دلیل ہے تو ہر نبی کی نبوۃ بالذات بھی ہوگی اور بالعرض بھی اور یہی قول حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نبوۃ کے بارے میں کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ’’وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَہُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوْحٍ‘‘ (سورۃ احزاب)
روح المعانی میں اس کے تحت فرمایا
وفی روایۃ اخری عن قتادۃ اخذ اللّٰہ میثاقہم بتصدیق بعضہم بعضا، والاعلان بان محمدا رسول اللّٰہ واعلان رسول اللہﷺ ان لا نبی بعدہ (روح المعانی پارہ ۲۱ ص ۱۵۴)
دیکھئے اس عہد میں حضرت محمد رسول اللہﷺ بھی شامل ہیں۔ یعنی حضور علیہ السلام سے بھی دیگر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے اور ان کی تصدیق کرنے کا میثاق لیا گیا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآاُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ
ان دونوں آیتوں سے ثابت ہوا کہ ہمارے نبی کریمﷺ بھی ہر نبی پر ایمان لائے اور کل مومنین کی یہ شان ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر نبی پر ایمان لائے یہود و نصاریٰ کی طرح انہو ں نے تفریق نہیں کی کہ کسی نبی پر ایمان لائے اور کسی پر ایمان نہ لائے۔
ثابت ہوا کہ آیت میثاق سے نبوۃ بالذات اور بالعرض کی تقسیم ہر گز ثابت نہیں ہوتی میں اس تقسیم کو قطعاً باطل سمجھتا ہوں۔ صاحب تحذیر کا رد کرتے ہوئے اگر کہیں میں نے بالذات اور بالعرض کا لفظ لکھا ہے تو آپ یہ سمجھیں کہ میں نے اسے تسلیم کرلیا ہے آپ کی اس سمجھ پر یہی کہنا پڑتا ہے

بریں عقل و دانش بباید گریست

آپ کے سب سے بڑے محدث انور شاہ صاحب کشمیری بالذات اور بالعرض کے متعلق فرماتے ہیں کہ وارادۂ مابالذات و مابالعرض عرف فلسفہ است نہ عرف قرآن حکیم و حوار عرب و نہ نظم راہیچ گونا ایماں و دلالت برآں پس اضافہ استفادہ نبوۃ زیادہ است بر قرآن محض اتباع ہواء۔ (رسالہ خاتم النبیین تالیف مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری ص ۷۳)
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ مابالذات اور ما بالعرض فلسفے کا عرف ہے۔ قرآنِ حکیم اور محاورات عرب سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور نہ الفاظ قرآن میں اس کی طرف کوئی اشارہ پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اس پر کوئی دلالت موجود نہیں۔ پس مراد قرآنی پر استفادہ نبوۃ کا اضافہ کرنا قرآن پر زیادتی ہے اور خالصتاً خواہش نفسانی کی اتباع ہے۔
آپ کے کشمیری صاحب نے نانوتوی صاحب کے سب کارنامے پر پانی پھیر دیا ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں

بالجملہ تعبیر باخاتمیت از کمالات عرف قرآن اصلاً نیست عرف قرآن دریں باب یعنی درمفاضلہ مانند آیت
تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ مِنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجَاتٍ و مانند ایں طریق مستقیم است ۔ (انتہیٰ۔ خاتم النبیین ص ۶۸)

کشمیری صاحب نے اس عبارت میں اس حقیقت کو واضح کردیا کہ ختم کمالات کو خاتمیت سے تعبیر کرنا عرف قرآن کے قطعاً خلاف ہے قرآن کا عرف اس باب میں یعنی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا ایک دوسرے سے افضل ہونے میں آیت کریمہ ’’تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘‘ ہے۔ اس عبارت سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ آیت کریمہ ’’تِلْکَ الرُّسُلُ‘‘ الآیۃ میں تفاضل مراد ہے۔ یعنی بعض انبیاء کی ذواتِ قدسیہ کا بعض انبیاء سے افضل ہونا مراد ہے۔ نفس نبوۃ میں تفضیل مراد نہیں ’’وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجَاتٍ‘‘ سے رسول اللہﷺ کی ذات مقدسہ مراد ہے جن کے درجات کو اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ بلند فرمایا۔ خلاصہ یہ ہے کہ آیت کریمہ میں خاتم النبیین تو آخری النبیین ہی کے معنیٰ میں ہے اس آیت خاتم النبیین میں خاتم کمالات ہر گز مراد نہیں بلکہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا آخری نبی ہونا مراد ہے۔
البتہ صاحب کمالات اور موصوف برفع درجات ہونا قرآن مجید کی دوسری آیتوں سے ثابت ہے جن میں ایک آیت ’’تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘‘ الآیۃ بھی ہے اور اس میں شک نہیں کہ رسول اللہﷺ کا جامع کمالات ہونا قرآن کریم و احادیث کی بے شمار نصوص سے ثابت ہے لیکن قرآن حکیم میں لفظ خاتم النبیین سے مراد صرف آخر النبیین ہے لاغیر کیا ضروری ہے ایک ہی لفظ سے شرع کے تمام احکام و مسائل ثابت ہوجائیں۔ ’’اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘‘ کے الفاظ سے ادائے صلوٰۃ کے ساتھ ایتاء زکوٰۃ، صوم رمضان، حج بیت اللہ و دیگر احکام و مسائل شرعیہ کو ثابت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ’’اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘‘ سے صرف نظامِ صلوٰۃ کا برپا کرنا مراد ہے، بقیہ احکام و مسائل کے لئے دیگر آیات و احادیث نصوص شرعیہ موجود ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ قرآن مجید کے ایک لفظ خاتم سے حضورﷺ کے تمام کمالات کو ثابت ماننے کے لئے اجماع امت کا خرق اور معنیٰ منقول متواتر کا انکار کرنا صاحب تحذیر نے کیوں ضروری سمجھا۔ کیا رسول اللہﷺ کے جامع کمالات ہونے کے لئے انہیں یہی ایک لفظ خاتم نظرآیا ہے جس کے قطعی معنیٰ صرف آخر ہونے کے ہیں۔ وہ بے شمار آیات و احادیث جن سے حضورﷺ کا رحمۃ للعالمین سید المرسلین و الآخرین ہونا ثابت ہے نانوتوی صاحب کو نظر نہیں آئیں۔

بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی است

نانوتوی صاحب نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تحذیر میں صاف کہہ دیا ہے کہ اس صورت میں فقط انبیاء کے افراد خارجی ہی پر آپ کی فضیلت ثابت نہ ہوگی افراد مقدرہ پر بھی آپ کی فضیلت ثابت ہوجائے گی بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبویﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہ آئے گا۔ (تحذیر ص ۲۴)
اس عبارت میں نانوتوی صاحب نے رسول اللہﷺ کو معدومین کا بھی خاتم قرار دیا ہے اس کے متعلق انور شاہ صاحب کشمیر اپنے رسالہ خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ
’’ہشتم ایں کہ مدلول کلمہ ختم این است کہ حکم و تعلق خاتم برماقبل وے جاری شود وزیر سیادت و قیادتِ وے باشند مانند بادشاہ کہ قائد موجودین باش نہ معدومین و ظہور سیادت و آغاز عمل وے بعد اجتماع باشد نہ قبل آں گویا انتظارِ قومے بعد اجتماع بسوئے کسے اظہار توقف بروے است بر خلاف عکس ایں کہ محض معنوی و ذہنی است و لہٰذا عاقب وحاشر و مقفّٰی ہمہ در اسمائے گرامی آمدہ اند نہ ہر لحاظ مابعد ا ھ‘‘(رسالہ خاتم النبیین ص ۷۲)
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ختم اور خاتم کا حکم اور تعلق ہمیشہ اس کے ماقبل پر حاوی ہوتا ہے اور جو اس سے پہلے ہوں وہ انہیں کا خاتم قرار پائے گا خاتم کا مفہوم یہ ہے کہ وہ موجودین کا قائد ہو نہ کہ معدومین کا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے اسمائے گرامی میں عاقب، حاشر اور مقفّٰی آئے ہیں اور حضور کا عاقب ہونا بلحاظ ماقبل ہے مابعد کے لحاظ سے نہیں۔ اس عبارت میں کشمیری صاحب نے نانوتوی صاحب کا ردِ بلیغ فرمادیا۔ توضیح مزید کے لئے کشمیری صاحب کی ایک اور عبارت ملاحظہ فرمایئے۔
لکھتے ہیں ’’پس چوں حق تعالیٰ یکبار نص فرمود کہ : مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ ۔
پس شیوۂ ایمان این است کہ ہمگی تعلل وتمحل را گزاشتہ آنحضرت ﷺ را خاتم ہمہ نبیین یقین کنیم وبایں ایمان آوریم کہ در ہمیں عقیدہ ایں آیت آمدہ، وچوں حضرت حق در ہیچ جا تقسیم وتقیید نہ فرمود مارا حق نیست کہ بہ شبہات زیغ والحاد از عموم واطلاقِ آیت بدر رویئم کہ مقابلۂ نص باقیاس اولاً ابلیس کردہ، سپس اجماع بلا فصل بریں عقیدہ منعقدہ شد، واز عصر نبوۃ ما ایں وقت ہمیں استمرار و استقرار ماند پس ایں عقیدہ قطعی الثبوت، وایں آیت در اثبات قطعی الدلالۃ ماند ا ھ بلفظہٖ (خاتم النبیین ص ۱۰۰، ۱۰۱)
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بطور نص قرآن مجید میں فرمادیا ’’وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ‘‘ تو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہر قسم کے حیلہ و حجت کو چھوڑ کر ہمیں آنحضرت ﷺ کو سب نبیوں کا خاتم یقین کرنا چاہیے اور ہمیں اس بات پر ایمان لانا چاہیے کہ اسی عقیدہ میں یہ آیت نازل ہوئی ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم کجروی کے شبہات اور الحاد میں مبتلا ہوکر آیت کے عموم و اطلاق سے باہر چلے جائیں کیونکہ نص کے مقابلہ میں سب سے پہلے قیاس کرنے والا شیطان ہے پھر یہ کہ اس عقیدہ پر بلا فصل اجماعِ امت منعقد ہوچکا ہے اور عہد نبوت سے لیکر اس وقت تک ساری امت اسی عقیدہ پر مستمر اور برقرار رہی پس یہ عقیدہ قطعی الثبوت ہے اور یہ آیت اس کے اثبات میں قطعی الدلالۃ ہے۔
نانوتوی صاحب نے تحذیر الناس میں خاتم کا مضاف الیہ لفظ النبیین کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ’’النبیین‘‘ کی بجائے انہوں نے وصف نبوۃ کو مضاف الیہ قرار دیا گویا ان کے نزدیک ’’النبیین‘‘ کی جماعت وصف نبوۃ ہے۔ کشمیری صاحب نے واضح طور پر لکھ دیا کہ ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنے آقائے نامدار ا کو تمام نبیین کا خاتم یقین کریں اور اس بات پر بھی ایمان لائیں کہ آیت ’’خاتم النبیین‘‘ اسی عقیدہ میں نازل ہوئی ہے ہمیں اس بات کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ غلط قسم کے شبہات اور الحاد کی بناء پر آیت کریمہ میں النبیین کے عموم و اطلاق سے باہر جائیں۔ پھر ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اسی عقیدہ پر بلا فصل اجماعِ امت منعقد ہو چکا ہے اور عہد نبوت سے لے کر اس وقت تک ساری امت اسی عقیدہ پر قائم و مستمر ہے لہٰذا یہی عقیدہ قطعی الثبوت ہے اور یہ آیت عقیدہ ختم نبوۃ پر قطعی الدلالۃ ہے آیۂ کریمہ ’’وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ‘‘ میں مختلف قسم کے حیلے بہانے تلاش کرکے غلط تاویلیں کرنے میں پرستارانِ تحذیر اور مرزائی برابر کے شریک ہیں۔ صاحب تحذیر نے لفظِ خاتم میں غلط تاویلیں کیں اور ساتھ ہی ’’النبیین‘‘ کو مضاف الیہ ماننے سے انکار کردیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ’’النبیین‘‘ کو وصف نبوۃ کے ساتھ بالعرض موصوف مان کر ان کی شان میں منقصت کا ارتکاب کیا بایں طور کہ ان کی نبوۃ کو ظلی اور عکسی قرار دیا۔ مرزائی حضورﷺ کے بعد ظلی نبوت کے قائل ہوئے اور صاحب تحذیر نے آدم ں سے لیکر عیسیٰ علیہ السلام تک ہر نبی کی نبوۃ کو ظلی و عکسی قرار دیدیا۔
ملاحظہ فرمایئے ’’تحذیر الناس‘‘ نانوتوی صاحب لکھتے ہیں۔
’’غرض اور انبیاء میں جو کچھ ہے وہ ظل اور عکس محمدی ہے کوئی کمال ذاتی نہیں۔‘‘ (تحذیر الناس ص ۲۸)
ان شاء اللہ تعالیٰ ہم آگے چل کر ثابت کریں گے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی نبوۃ کو ظلی اور عکسی قرار دینا اور انہیں وصف نبوۃ سے بالعرض موصوف ماننا دراصل ان کی نبوت کا انکار کرنا ہے۔ اس حقیقت کو ہم بارہا واضح کرچکے ہیں کہ تمام کائنات کو جو فیض ملا وہ حضورﷺ ہی کے طفیل ملا ہے حتیٰ کہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو نبوت بھی حضور ہی کے وسیلے سے ملی لیکن اس کے باوجود ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ہر نبی اپنے وصف نبوۃ میں کامل ہے اور ہر نبی کی نبوۃ محض عرضی اور مجازی نہیں بلکہ تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام حقیقۃً نبی ہیں اور ہر نبی کا وصفِ نبوت حقیقی ہے ورنہ ایسی صورت میں حضورﷺ کے سوا باقی تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام درحقیقت نبی نہ رہیں گے بلکہ سب کی نبوۃ مجازی ہوجائیگی۔

راکب سفینہ کی حرکت کی طرح کسی نبی کی نبوۃ کو محض عرضی و مجازی قرار دینا ہم قرآن و حدیث کے خلاف سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ آپ کے مولوی حسین احمد صاحب مدنی نے کہا ہے۔
’’کشتی کو حرکت اولاً عارض ہوتی ہے اور اُس کے ذریعہ بیٹھنے والے کو حصہ پہنچتا ہے بس سلسلہ حرکت کشتی پر ختم ہوجاتا ہے اس صورت میں کشتی کو موصوف بالحرکت اولاً وبالذات کہیں گے اور جانشین کشتی کو ثانیاً وبالعرض‘‘ ۱ ھ دیکھئے الشہاب الثاقب ص ۷۷
میں عرض کروں گا کہ کشتی کی حرکت حقیقۃً وبالذات ہے اور کشتی میں بیٹھے ہوئے کو حقیقۃً حرکت نہیں اس کی طرف حرکت کی نسبت مجازاً کی جاتی ہے۔
مولانا ابوالحسنات عبدالحی لکھنوی کے والد گرامی مولانا عبدالحلیم علیہ الرحمۃ ملا حسن شرح سلم العلوم کے حاشیہ میں فرماتے ہیں۔
ان الواسطۃ فی العروض عبارۃ عن ان یکون الواسطۃ متصفۃ حقیقۃ وذوالواسطۃ یوصف مجازاً کالسفینۃ فان التحرک لہا حقیقۃ ولجالسہا مجازاً ھ (حاشیہ ملا حسن ص ۵۱)
اس مقام پر یہ شبہ پیدا کرنا کہ اگر جالسِ سفینہ متصف بالحرکۃ نہیں تو اس کے محاذات کیسے بدلے اور وہ مغرب سے مشرق کس طرح پہنچا تو اس کا ازالہ یہ ہے کہ وہ بہ تبعیت سفینہ مغرب سے مشرق پہنچا اور تبعیت سفینہ کی وجہ سے اس کے محاذات بدلے۔ جالس سفینہ بہ تبعیت سفینہ مجازاً وصف حرکت سے متصف ہے حقیقتاً نہیں۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص ایک بچے کو گود میں اٹھا کر چلتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتا ہے ظاہر ہے کہ چلنے والا، گود میں اٹھائے ہوئے بچے کے لئے واسطہ فی العروض ہے اور بچہ ذوالواسطہ ہے لیکن اس کے باوجود چلنے کی صفت اس بچے کے لئے حقیقی نہیں بلکہ محض مجازی ہے وہ بچہ واسطہ فی العروض کے تابع ہونے کی وجہ سے مغرب سے مشرق پہنچا اور اس کے محاذات بدلے۔
وصف مشی یعنی چلنے کی صفت اس بچے کے لئے حقیقۃً ثابت نہیں محض بطور مجاز ہے۔
خلاصہ یہ کہ نانوتوی صاحب کا رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ کو تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے حق میں واسطہ فی العروض قرار دینا دراصل تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے لئے وصف نبوۃ سے حقیقۃً متصف ہونے کا انکار ہے اور سب کی نبوۃ کو مجازی قرار دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ مجازی نبوت کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی لہٰذا تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوۃ نانوتوی صاحب کے نزدیک محض بے حقیقت قرار پائی۔ العیاذ باللّٰہ الکریم
نیز حضرت محمد رسول اللہ ﷺ و دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی نبوت میں ذاتی اور عرضی کی تفریق قرآن مجید کی متعدد آیات کے خلاف ہے۔ ملاحظہ ہو۔
اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَا اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیِّیْنَ مِنْ م بَعْدِہٖ
نبوۃ کی حقیقت وحی نبوۃ ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے جس طرح نوح علیہ السلام اور ان کے بعد تمام نبیوں کی طرف وحی نبوت فرمائی بالکل اسی طرح ہمارے آقائے نامدار ا کی طرف بھی وحی نبوت فرمائی۔
جب کہ ہر نبی کی وحی نبوت یکساں ہے تو ایسی صورت میں حضور ﷺ کی نبوۃ کو وصف ذاتی اور باقی سب نبیوں کی نبوۃ کو عرضی کہنا قرآن کے قطعاً خلاف ہے۔
اسی لئے حضور ﷺ کے متعلق فرمایا
’’قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ‘‘ اے حبیب پاک آپ فرمادیجئے کہ میں کوئی نرالا اور انوکھا نبی نہیں ہوں (جس کی مثال پہلے نہ پائی جاتی ہو۔) ان کے علاوہ اور بکثرت آیات سے واضح ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کی نبوۃ کی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو حقیقی نبوۃ عطا فرمائی اگرچہ یہ عطا حضور ﷺ ہی کے طفیل ہوئی لیکن یہ کہنا قطعاً غلط ہوگا کہ حضور ﷺ نے کسی کو نبوۃ عطا فرمائی۔
نبوۃ و رسالت عطا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا
اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ
اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے۔
ثابت ہوا کہ اعطائے رسالت اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔
اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا
اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ
سورئہ انعام آیت نمبر ۸۹ یعنی یہ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوۃ عطا فرمائی۔
ایک اور جگہ فرمایا
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ الْکِتَابَ وَالحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ
یعنی بے شک ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکم اور نبوۃ عطا فرمائی
ان تمام آیات سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہوا کہ اعطائے نبوۃ اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے اس کے باوجود اپنے مضمون کے ص ۱۹ پر آپ نے لکھا کہ
’’نبوۃ بھی انہیں حضور کے دستِ مبارک سے عطا ہوئی۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ میں رسول اللہ ﷺ کو شریک ٹھہرانا شرک نہیں تو اور کیا ہے۔
یہ بات ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت حضور ہی کے وسیلہ سے ملتی ہے اور یقینا نبوت و رسالت بھی انبیاء کرام و رسل عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو حضور ہی کے طفیل ملی مگر اس بناء پر حضور ﷺ کی نبوت بالذات اور دیگر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی نبوۃ و رسالت کو محض بالعرض اور مجازی نبوت و رسالت قرار دینا قرآنِ مجید میں تحریف معنوی اور انبیاء کی نبوت کا انکار صریح ہے۔
جب لفظ خاتم کے حقیقی اور لغوی معنیٰ ہی ’’آخر‘‘ ہیں تو ایسی صورت میں نانوتوی صاحب کا اطلاق یا عوام کا قول باطل محض ہے اور آیۃ کریمہ ’’وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ‘‘ کا حضور ﷺ کے آخری نبی ہونے میں نص قطعی ہونے کا صاف انکار ہے۔ دلالۃ النص یا اشارۃ النص کے طورپر حضور ﷺ کے آخری نبی ہونے پر بے شمار آیاتِ قرآنیہ سے استدلال کیا جاسکتا ہے لیکن حضور ﷺ کے آخری نبی ہونے پر یہی ایک آیت قرآنیہ ’’وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ‘‘ عبارت النص ہے جس کا نانوتوی صاحب نے نہایت بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ انکار کرکے اسے اثر عبداللہ بن عباس پر قربان کردیا۔ جس کی صحت بھی مختلف فیہ ہے اور بالفرض اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو وہ ظنی ہے اور کسی دلیل ظنی سے عقیدہ کا ثبوت ہر گز نہیں ہوتا۔ میری بات اگر آپ کی سمجھ میں نہیں آتی تو اپنے گنگوہی صاحب سے سمجھ لیجئے وہ فرماتے ہیں۔
’’خوب سمجھ لو کہ باب عقائد میں محض نص قطعی واجب ہے احادو ظنیات پر عقیدہ کا ثبوت ہر گز نہیں ہوتا۔ ا ھ (براہین قاطعہ ص ۱۶۸)
اثر عبداللہ بن عباس کو خود نانوتوی صاحب ظنی مان رہے ہیں ملاحظہ فرمایئے تحذیر الناس ص ۲۲ پر لفظ خاتم مرتبی ہونے کے متعلق رقمطراز ہیں۔
’’ہاں بوجہ عدم ثبوت قطعی نہ کسی کو تکلیف عقیدہ دے سکتے ہیں اور نہ کسی کو بوجہ انکار کافر کہہ سکتے ہیں چونکہ اس قسم کے استنباط امت کے حق میں مفید یقین نہیں ہوسکتے احتمالِ خطا باقی رہتا ہے البتہ تصریحات قطعی الثبوت تو پھر تکلیف مذکور اور تکفیر مسطور دونوں بجا تو یہاں ایسی تصریحات درجہ قطعیت کو نہیں پہنچیں یعنی نہ کلام اللہ میں ایسی تصریح ہے نہ کسی حدیث متواتر میں البتہ عبداللہ بن عباس سے ایک اثر منقول ہے جو درجہ تواتر تک نہیں پہنچا نہ اس کے مضمون پر اجماع امت منعقد ہوا‘‘ ا ھ تحذیر ص ۲۲
اس عبارت میں نانوتوی صاحب نے وہ ساری عمارت منہدم کرکے رکھدی جسے تحذیر الناس میں پاپڑ بیل کر تیار کیا تھا اور فرمایا تھا کہ بنائے خاتمیت اور بات پر ہے خاتم کے معنیٰ خاتم مرتبی اور نبوۃ کی تقسیم بالذات اور بالعرض اور لفظ خاتم میں عموم و اطلاق سب تاویلات میں احتمالِ خطا تسلیم کرلیا اور اس حقیقت کو مان لیا کہ اثر عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا متواتر ہونا تو درکنار اس کے مضمون پر بھی اجماع امت منعقد نہیں ہوا لہٰذا اس سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوسکتا اور آخر میں اس حقیقت کو بھی تسلیم کر گئے کہ آیت کریمہ ’’وخاتم النبیین‘‘ کے جو معنیٰ میں نے بیان کئے ہیں مجھ سے پہلے لوگوں کا اس کی طر ف ذہن تک منتقل نہیں ہوا۔ اپنے متعلق خود فرماتے ہیں۔

گاہ باشد کہ کودک ناداں
بہ غلط بر ہدف نہد تیرے

(ملخصاً تحذیر الناس ص ۲۵)مگر افسوس کہ ان کے تیر کا ہدف پر لگنا ہی محتمل خطا ہوگیا۔(از افادات حضور غزالی زماں رحمۃ اللہ علیہ ۔(طالب دعا ڈاکٹڑ فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...