Sunday, 21 October 2018

مردہ قدموں کی آہٹ سنتا ہے پہچانتا ہے اور سلام کا جواب بھی دیتا

مردہ قدموں کی آہٹ سنتا ہے پہچانتا ہے اور سلام کا جواب بھی دیتا

صحیح مسلم، کتاب الجنائز:و حدثنا ‏ ‏محمد بن منهال الضرير ‏ ‏حدثنا ‏ ‏يزيد بن زريع ‏ ‏حدثنا ‏ ‏سعيد بن أبي عروبة ‏ ‏عن ‏ ‏قتادة ‏ ‏عن ‏ ‏أنس بن مالك ‏ ‏قال ‏۔ قال رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إن الميت إذا وضع في قبره إنه ليسمع ‏ ‏خفق ‏ ‏نعالهم إذا انصرفوا ۔
ترجمہ : حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: جب مردہ جسم کو قبر میں دفنایا دیا جاتا ہے، تو وہ ان لوگوں کے قدموں کی آہٹیں سنتا ہے (جو اسے دفنا کر واپس جا رہے ہوتے ہیں)

اور صحیح بخاری میں انس ابن مالک سے یہ روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : جب مردے کو قبر میں دفنایا جاتا ہے اور اُس کے اصحاب واپس پلٹتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے ۔ اور دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھا دیتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں : تم اس آدمی (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے متعلق کیا کہتے ہو ؟ وہ کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کو وہ اللہ کے عبد ہیں اور رسول ہیں ۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے : دوزخ میں ذرا اپنی جگہ دیکھو، مگر اللہ نے اسکی بجائے تمہیں جنت دی ہے ۔" پھر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مزید فرمایا : مردہ اپنی دونوں جگہیں دیکھتا ہے ، مگر کافر یا منافق فرشتوں سے کہتا ہے : میں نہیں جانتا، مگر میں وہی کہا کرتا تھا جو کہ دوسرے لوگ کہتے تھے ۔ اس پر اُس سے کہا جائے گا : نہ تم نے یہ جانا اور نہ تم نے (قرآن) سے ہدایت حاصل کی ۔ پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کی سلاخ سے چوٹ ماری جائے گی اور وہ چیخے گا ۔ اور اِس کی یہ چیخ ہر مخلوق سنے گی سوائے جنات اور انسانوں کے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز،چشتی)

بتائیے کہ اگر آپ کو زندہ قبر میں اتار دیا جائے تو کیا آپ بھی قدموں کی چاپ سنیں گے ؟ ۔ اور دوسرا غور کریں کہ جب یہ مردہ چیخ مارتا ہے تو تمام مخلوقات اس چیخ کو سن سکتے ہیں سوائے جنات اور انسانوں کے ۔ (اگلی حدیث میں آپ کو واضح ہو گا کہ انسان یہ چیخ کیوں نہیں سن سکتا) ۔ مردہ لوگوں کو شعور ہوتا ہے اور وہ زندہ لوگوں کو دیکھتے ہیں جو انہیں قبرستان لیجا رہے ہوتے ہیں اور ان کو پکارتے ہیں : صحیح بخاری، کتاب الجنائز:حدثنا ‏ ‏قتيبة ‏ ‏حدثنا ‏ ‏الليث ‏ ‏عن ‏ ‏سعيد بن أبي سعيد ‏ ‏عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏أنه سمع ‏ ‏أبا سعيد الخدري ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏يقول ‏قال رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان ولو سمعها الإنسان ‏ ‏لصعق ‏۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے اور لوگ اسے اپنے کندھوں پر بلند کرتے ہیں ، تو اگر مرنے والا نیک شخص ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے : "مجھے آگے لے کر چلو"۔ اور اگر مرنے والا نیک شخص نہیں ہوتا تو وہ کہتا ہے : "وائے ہو تم پر، کہ تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو ؟" اور اس کی یہ آواز ہر مخلوق سنتی ہے سوائے انسانوں کے۔ اور اگر انسانوں کو ان کی یہ آواز سنا دی جائے تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑیں ۔

غور فرمائیں

(1) مردوں کو یہ شعور ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔

(2) وہ زندوں کی آوازیں سن رہے ہیں اور ان کے حرکات سے آگاہی رکھتے ہیں ۔

کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مردے نہیں سنتے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی وہ تمام احادیث جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا ہے کہ مردوں کو کیسے مخاطب کر کے سلام کرنا ہے جب مسلمانوں کا گذر قبرستان سے ہو ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے بہت سی احادیث مروی ہیں کہ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جب ان کا گذر قبرستان سے ہو تو وہ "االسلام علیکم یا اھل القبور" کہہ کر مردوں کو سلام کیا کریں۔ ذیل میں چند احادیث درج ہیں : سنن الترمذي، کتاب الجنائز ، باب ما یقول الرجل اذا دخل المقابر:حدثنا ‏ ‏أبو كريب ‏ ‏حدثنا ‏ ‏محمد بن الصلت ‏ ‏عن ‏ ‏أبي كدينة ‏ ‏عن ‏ ‏قابوس بن أبي ظبيان ‏ ‏عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏عن ‏ ‏ابن عباس ‏ ‏قال ‏مر رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏بقبور ‏ ‏المدينة ‏ ‏فأقبل عليهم بوجهه فقال ‏ ‏السلام عليكم يا أهل القبور يغفر الله لنا ولكم أنتم ‏ ‏سلفنا ‏ ‏ونحن ‏ ‏بالأثر۔
صحیح مسلم ، کتاب الجنائز:حدثنا ‏ ‏يحيى بن يحيى التميمي ‏ ‏ويحيى بن أيوب ‏ ‏وقتيبة بن سعيد ‏ ‏قال ‏ ‏يحيى بن يحيى ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏و قال ‏ ‏الآخران ‏ ‏حدثنا ‏ ‏إسمعيل بن جعفر ‏ ‏عن ‏ ‏شريك وهو ابن أبي نمر ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏عائشة ‏ ‏أنها قالت ‏كان رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏كلما كان ليلتها من رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يخرج من آخر الليل إلى ‏ ‏البقيع ‏ ‏فيقول ‏ ‏السلام عليكم دار قوم مؤمنين وأتاكم ما توعدون غدا مؤجلون وإنا إن شاء الله بكم لاحقون اللهم اغفر لأهل ‏ ‏بقيع الغرقد ‏ولم يقم ‏ ‏قتيبة ‏ ‏قوله وأتاكم ‏۔
مسلم بشرح النووی:یقوله صلى الله عليه وسلم : ( السلام عليكم دار قوم مؤمنين )دار منصوب على النداء , أي يا أهل دار فحذف المضاف وأقام المضاف إليه مقامه , وقيل : منصوب على الاختصاص , قال صاحب المطالع : ويجوز جره على البدل من الضمير في عليكم . قال الخطابي : وفيه أن اسم الدار يقع على المقابر قال : وهو صحيح فإن الدار في اللغة يقع على الربع المسكون وعلى الخراب غير المأهول , وأنشد فيه .
مسند احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرہ، باقی مسند المکثرین:حدثنا ‏ ‏محمد بن جعفر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏شعبة ‏ ‏قال سمعت ‏ ‏العلاء بن عبد الرحمن ‏ ‏يحدث عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏عن ‏ ‏أبي هريرة ‏رضی اللہ عنہ عن النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏أنه أتى إلى المقبرة فسلم على أهل المقبرة فقال ‏‏ سلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون ثم قال وددت أنا قد رأينا إخواننا قال فقالوا يا رسول الله ألسنا بإخوانك قال بل أنتم أصحابي وإخواني الذين لم يأتوا بعد وأنا ‏ ‏فرطهم ‏ ‏على الحوض فقالوا يا رسول الله كيف تعرف من لم يأت من أمتك بعد قال أرأيت لو أن رجلا كان له خيل ‏ ‏غر ‏ ‏محجلة ‏ ‏بين ظهراني خيل بهم ‏ ‏دهم ‏ ‏ألم يكن يعرفها قالوا بلى قال فإنهم يأتون يوم القيامة ‏ ‏غرا ‏ ‏محجلين ‏ ‏من أثر الوضوء وأنا ‏ ‏فرطهم ‏ ‏على الحوض ثم قال ألا ‏ ‏ليذادن ‏ ‏رجال منكم عن حوضي كما ‏ ‏يذاد ‏ ‏البعير الضال ‏ ‏أناديهم ألا هلم فيقال إنهم بدلوا بعدك فأقول ‏ ‏سحقا ‏ ‏سحقا ۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے بہت سی دعائیں منقول ہیں کہ قبرستان میں مردوں کو کیسے سلام کرنا ہے اور کیسے انہیں مخاطب کر کے دعا کرنی ہے ۔ مثلاً :

صحیح مسلم کتاب الطہارہ میں ابو ہریرہ سے یہ دعا مروی ہے : " اے قبر کے باسیو ! تم پر سلام ہو ۔ اور اللہ نے چاہا تو ہم جلد تم سے ملنے والے ہیں ۔
صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ میں حضرت زہیر سے یہ الفاظ مروی ہیں: "سلام ہو تم پر اس شہر (قبرستان) کے رہنے والو جو کہ مومنوں اور مسلمانوں میں سے ہیں۔ اور اللہ نے چاہا تو ہم جلد تم سے ملنے والے ہیں۔ اور ہم اللہ سے تمہارے لیے دعا کرتے ہیں ۔
صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ میں حضرت عائشہ سے یہ الفاظ مروی ہیں: "سلام ہو تم پر اے قبر کے باسیو، جو تم میں ایمان والے ہیں۔ جو تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ تمہیں کل تک مل جائے گا اور اس میں تھوڑا وقت لگے گا۔ اور اللہ نے چاہا تو ہم جلد تم سے ملنے والے ہیں ۔
غور فرمائیں کہ نہ صرف قبر کے مردوں کو خطاب کر کے "یا اہل قبور" کہا جا رہا ہے ، بلکہ ان سے پورا خطاب ہے کہ تمہیں وہ کچھ مل رہا ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا تھا اور ان شاء اللہ ہم جلد تم سے ملنے والے ہیں ۔
یہ وہ عمل ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی پوری زندگی کیا اور وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر جنت البقیع تشریف لیجایا کرتے تھے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد تمام صحابہ رضی اللہ عنہم مردوں سے خطاب کرتے رہے ۔ اور پھر تمام آئمہ ، فقہا علیہم الرّحمہ حتیٰ کہ ہر ہر مسلمان نے مردوں سے یہ خطاب کیا اور آج کے دن تک کرتے آ رہے ہیں ۔

تو کیا یہ عقیدہ رکھا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی پوری زندگی ایک مشرکانہ اور بیکار عمل کرتے ہوئے گذار دی اس صورت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مردوں سے مخاطب ہوتے رہے ؟ اور کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے پوری امت کو بھی اس مشرکانہ فعل میں قیامت کے دن تک مبتلا کر دیا ؟ (معاذ اللہ) ۔

دوسرا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جنتِ البقیع میں داخل ہو کر صرف ایک مرتبہ سلام کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کبھی یہ نہیں کیا کہ ہر ہر قبر کے پاس جا کر ہر ہر مردے کو قبر سے نکالا ہو اور پھر سلام کیا ہو تا کہ یہ یقین ہو سکے کہ ہر مردے نے اِن کا سلام سن لیا ہے ۔ اور جب ہم بھی قبرستان جاتے ہیں تو تمام مردوں کو ایک مرتبہ ہی سلام کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ سب نے ہمارا سلام سنا ہے ۔ اس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے ارواح کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ قریب یا دور کی پکار کو سن سکیں جبکہ یہ طاقت زندہ انسانوں کو نہیں دی گئی ہے ۔

اور جو لوگ آجکل یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو شرک سمجھتے ہیں ، وہ جان لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنی تمام زندگی مردوں کو "یا اہل القبور" کہہ کر مخاطب فرماتے رہے ہیں ۔ صحابی رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو وصیت کرنا کہ دفنانے کے بعد وہاں کچھ دیر ٹہریں تاکہ وہ انکی صحبت سے نفع اٹھا سکیں صحیح مسلم ، کتاب الایمان میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے : عبدالرحمن بن شماسہ المہری کہتے ہیں کہ ہم عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور وہ اس وقت قریب المرگ تھے (عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کو فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی وصال مبارک کے بعد میں) چند ایسے کاموں کا ذمہ دار ہوں کہ جن کی وجہ سے میں نہیں جانتا کہ میرا کیا حال ہو گا ۔ تو جب میں مر جاؤں تو میرے جنازے کیساتھ کوئی رونے چلانے والی نہ ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنا تو مجھ پر اچھی طرح مٹی ڈال دینا اور میری قبر کے ارد گرد اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کاٹا جاتا ہے اور اس کا گوشت بانٹا جاتا ہے تاکہ تم سے میرا دل بہلے(اور میں تنہائی میں گھبرا نہ جاؤں) اور دیکھ لوں کہ میں پروردگار کے وکیلوں (فرشتوں ) کو کیا جواب دیتا ہوں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...