Friday 12 October 2018

سماعتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

0 comments
سماعتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ تعالیٰ نے عام انسانوں سے زیادہ قوت سماعت عطا فرمائی ہے ، اسی لئے بہت سی وہ باتیں جن کو عام انسان نہیں سن سکتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں ان کو سن لیتے ہیں ، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنِّي أَرَی مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُوْنَ، أَطَّتِ السَّمَاءُ وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيْهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَکٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَه سَاجِدًا ِﷲِ، وَاﷲِ، لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِيْـلًا وَلَبَکَيْتُمْ کَثِيْرًا.رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ . وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور میں وہ باتیں سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے ۔ آسمان چرچرایا اور اُس کا چرچرانا حق ہے۔ اِس میں چار انگلی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں فرشتے اپنی پیشانی رکھے اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود نہ ہوں۔ اللہ کی قسم! جو کچھ مجھے معلوم ہے اگر تم جان لیتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ ۔ اِس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزهد، باب في قول النبي صلی الله عليه واله وسلم : لو تعلمون ما أعلم لضحکتم قليلا، 4 /556، الرقم: 2312)(ابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب الحزن والبکاء، 2 /1402، الرقم: 4190)(الحاکم في المستدرک، 4 /587، الرقم: 8633،)(البيهقي في السنن الکبری، 7 /52، الرقم: 13115٭)شعب الإيمان، 1 /484، الرقم: 783)(ديلمي في مسند الفردوس، 1 /77، 78، الرقم: 233)

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُعَاذٍ رضی الله عنه قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِمِنًی، فَفَتَحَ اﷲُ أَسْمَاعَنَا حَتّٰی إِنْ کُنَّا لَنَسْمَعُ مَا يَقُوْلُ وَنَحْنُ فِي مَنَازِلِنَا. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن معاذ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے منٰی میں خطبہ ارشاد فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے کان کھول دیئے، جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہم اپنے اپنے ٹھکانوں پر موجود اُسے سن لیتے ۔ اِس حدیث کو امام نسائی اور ابو داود نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب ما ذکر في مني، 5 /249، الرقم: 2996)(أبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب ما يذکر الإمام في خطبته بمني، 2 /198، الرقم: 1957،چشتی)(والبيهقي في السنن الکبری، 5 /138، الرقم: 9390)(ابن سعد في الطبقات الکبری، 2 /185)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا بارگاہِ نبوت میں حاضر تھیں۔ اسی دوران حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے کسی کے سلام کا جواب دیا پھر حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : هذا جعفر بن أبي طالب مع جبريل و ميکائيل و إسرافيل، سلموا علينا فردي عليهم السلام ۔
ترجمہ : یہ جعفر بن ابی طالب ہیں، جو حضرت جبریل، حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیھم السلام کے ساتھ گزر رہے تھے۔ پس انہوں نے ہمیں سلام کیا، تم بھی ان کے سلام کا جواب دو ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 232، رقم : 4937) (طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 88، رقم : 6936)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 272) (ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 1 : 487)(ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 211)

حضرت انس رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو نجّار کے قبرستان سے گزر رہے تھے : فسمع أصوات قوم يعذبون في قبورهم ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قبور میں) ان مُردوں کی آوازوں کو سماعت فرمایا جن پر عذابِ قبر ہو رہا تھا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 3 : 175) (طبراني، المعجم الکبير، 4 : 120، رقم : 3757،چشتی)(طبراني، المعجم الکبير، 25 : 103، رقم : 268)(عبدالله بن احمد، السنه، 2 : 608، رقم : 1445)(ازدي، مسند الربيع، 1 : 197، رقم : 487)

مسند بزار، جامع الاحاديث والمراسیل، ،جمع الجوامع، مجمع الزوائد، اور كنز العمال میں حدیث مبارک ہے،حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
يا عمار إن لله ملكا أعطاه الله أسماع الخلائق وهو قائم على قبري إذا مت إلى يوم القيامة فليس أحد من أمتي يصلي علي صلاة إلا سمى باسمه واسم أبيه قال: يا محمد صلى فلان عليك كذا وكذا، فيصلي الرب على ذلك الرجل بكل واحدة عشرا" . (طب عن عمار).
ترجمہ : اے عمار رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا فرشتہ پیدا کیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام خلائق کی سماعت عطا فرمائی (بیک وقت ساری مخلوق کی آواز کو سنتا ہے) وہ میرے وصال کے بعد میری مزار (مبارک) پر کھڑا رہے گا اور جب کبھی میرا کوئی امتی مجھ پر نذرانہ درود پیش کرتا ہے تو وہ فرشتہ عرض کرتا ہے کہ فلاں ابن فلاں نے آپ کی خدمت میں یہ درود پیش کیا ہے - اور ہر درود کے بدلے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ (مسند البزار، مسند عمار بن ياسر، حدیث نمبر: 1425)(كنز العمال،حدیث نمبر: 2227)(جامع الأحاديث، حدیث نمبر: 26184)(جمع الجوامع، حدیث نمبر: 1113،چشتی)(مجمع الزوائد، حدیث نمبر: 17291)

اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بعض ایسے فرشتے بھی پیدا فرمائے ہیں جو آن واحد میں ہر شخص کی آواز سنتے ہیں ، دور ونزدیک کی آواز، ان کے لئے یکساں ہے– جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدام کی سماعت کی یہ شان ہے تو پھر امام الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قوت سماعت کا کون اندازہ کرسکتا ہے ۔ اس کی تصریح اس حدیث مبارک سے ہوتی ہے جو دلائل الخیرات میں منقول ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت بابرکت میں عرض کیا گیا ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! ہمیں ان حضرات کے متعلق خبر دیجئے جو آپ کے وصال مبارک کے بعد آپ کی خدمت اقدس میں صلوۃ وسلام پیش کرینگے- حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اسمع صلوۃ اہل محبتی و اعرفہم وتعرض علی صلو‏ۃ غیرہم عرضا- اہل محبت کے درود کو میں خود ہی سنتا ہوں اور انہيں پہچانتا ہوں، اور ان کے علاوہ دیگر افراد کے درود پیش کئے جاتے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم جہاں کہیں سے درود پڑھو تمھاری آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے اللہ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السّلام کے جسموں کو کھائے : (ممدوح علماء دیوبند و علماء اھلحدیث غیر مقلد وھابی حضرات علامہ ابن قیم جوزی جلاء الافہام صفحہ نمبر 71 اردو ترجمہ غیر مقلد اھلحدیث عالم قاضی سلیمان منصور پوری مطبوعہ دارالسلام ۔)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا امتی جہاں کہیں سے درود پڑھتا ھے اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے ، انبیاء کرام کے جسموں کو اللہ زمین پر حرام کر دیا ھے کہ وہ انہیں کھائے ، میری قبر انور پر ایک فرشتہ مکرر ہے جو میرے امتیوں کے درود سن کر اس کا اور اس کے باپ کا نام لے کر پہہچاتا ہے ۔ (الجوہر المنظم صفحہ نمبر 50 محدث کبیر امام اب حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)

حیرت کی بات ہے کچھ لوگ فرشت والی حدیث کو تو مان لیتے ہیں فرشتے کی قوت سماعت کو بھی مان لیتے ھیں مگر اسی کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو نہیں مانتے جس میں فرمایا میرا امتی جہاں کہیں بھی ھو وہ درود پڑھے تو اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ھے ، اور حیرت در حیرت کی بات یہ ھے کہ یہ لوگ فرشتے کی قوت سماعت کو تو مان لیتے ھیں مگر اسی فرشتے کے آقا ہم سب کے کے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت سماعت کا انکار کر کے فرشتے کی شان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان سے بڑھاتے ہیں یہ کیسے مسلمان ہیں ایک حدیث کو مانتے ہیں اور دوسری کا انکار کر دیتے ہیں اے مسلمانو انہیں پہچانو ان کے دلوں میں بغض رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھپا ھوا ھے احادیث مبارکہ پڑھیئے اور فیصلہ کیجیئے جزاکم اللہ خیرا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ خطاب صرف صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے ادوار تک ہی مخصوص و محدود نہ تھا بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے موجودہ ترقی یافتہ دور کے لئے بھی ایک چیلنج ہے ۔ آج ساری کائنات میں سائنس و ٹیکنالوجی پر عبور رکھنے والے ماہرین اپنی تمام تر ترقی اور اپنی بے پناہ ایجادات کے باوجود کائنات کی ان پوشیدہ حقیقتوں اور رازوں کو جان سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں جنہیں چشمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے پردہ دیکھ لیا اور اُن کی حقیقت کو جان لیا تھا۔ حضور علیہ السلام کے دائرہ سماعت سے کوئی آواز باہر نہ تھی ۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے کیا خوب فرمایا

دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر ہر عضو کو اللہ تعالیٰ نے عمومی افعال کی انجام دہی کے علاوہ ایک معجزہ بھی بنایا تھا ۔ عام انسانوں کے کان مخصوص فاصلے تک سننے کی استطاعت رکھتے ہیں ، مگر جدید آلات کی مدد سے دُور کی باتیں بھی سنتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوش مبارک کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قوت سماعت عطا فرمائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے جھرمٹ میں بیٹھے ہوتے،اوپر کسی آسمان کا دروازہ کھلتا تو خبر دیتے کہ فلاں آسمان کا دروازہ کھلا ہے ۔(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔