دسِ قرآن موضوع آیت : وَلَاۤ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ وَلَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمْ ۔ سورہ انعام،آیت نمبر 50 ۔
قُلۡ لَّاۤ اَقُوۡلُ لَکُمْ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللہِ وَلَاۤ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ وَلَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمْ اِنِّیۡ مَلَکٌ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ؕ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الۡاَعْمٰی وَ الْبَصِیۡرُ ؕ اَفَلَا تَتَفَکَّرُوۡنَ ۔
تر جمہ : آپ فرمادیجیئے میں تم سے نہیں کہتا میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہوں کہ میں آپ غیب جان لیتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو اسی کا تا بع ہوں جو مجھے وحی آتی ہے تم فرماؤ کیا برابر ہو جائیں گے اندھے اور انکھیارے تو کیا تم غور نہیں کرتے۔ترجمۂکنزُالعِرفان: (اے حبیب!) تم فرمادو :میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں خود غیب جان لیتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا پیروکار ہوں جو میری طرف آتی ہے۔ تم فر ماؤ ،کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوسکتے ہیں ؟ تو کیا تم غور نہیں کرتے؟ ۔ (سورہ انعام ، آیت نمبر 50)
اِس آیت کی غلط تفسیر : اِس آیت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ” َلَاۤ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ”میں غیب نہیں جانتا ہوں۔لہذا معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو غیب کا علم نہیں تھا۔اِس لئے آپ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غیب کی باتیں جانتے تھے قرآن کے خلاف ہے ۔
اِس آیت کی صحیح تفسیر : علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے فر مایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ” میں غیب نہیں جانتا ہوں”یعنی کہ آپ یہ کہئے کہ بے شک غیب تو اللہ کے علم میں سے ہے اُسے میں خود سے نہیں جانتا ہوں ، ہاں میں صرف غیب کی بات اُتناہی جانتا ہوں جتنا میرے رب نے مجھے اطلاع دیا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیرمترجم اردو صفحہ نمبر 226 جلد دوم مطبوعہ ضیاء القرآن)
اِس تفسیر سے معلوم ہوا کہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ نے حضور کو جتنا عطا فر مایا اُتنا غیب حضور بے شک جانتے ہیں ۔ یہ تفسیر قرآن کی اِن آیتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فر مایا : وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیۡبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۔ (سورہ آل عمران،آیت:۱۷۹)
ترجمہ : اللہ کی یہ شان نہیں ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو اپنے غیب پر مطلع کر دے لیکن اپنے رسولوں میں سے غیب کا علم عطا فر مانے کے لئے چُن لیتا ہے ۔
اور فر مایا کہ : عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ ۔
(سورہ جن،آیت:۲۶)
ترجمہ : اللہ عالم الغیب ہے تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوا اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔
ان دونوں آیت کر یمہ سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو علم غیب عطا فر ماتا ہے۔اور اُس کی عطا سے رسول غیب کا علم رکھتے ہیں۔ اور حضور کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں یہ ارشاد فر مایا کہ : وَ مَا ہُوَ عَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ۔ (سورہ تکویر،آیت نمبر:۲۴،چشتی)
تر جمہ : اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) غیب کی بات بتانے پر بخیل (کنجوس) نہیں ۔ یعنی غیب کی بات بتاتے ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ غیب کی باتیں وہی بتا ئے گا جس کے پاس غیب کا علم ہوگا ۔
قُلۡ : آپ فرما دیجیئے ۔ کفار کا طریقہ تھاکہ وہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے طرح طرح کے سوال کیا کرتے تھے ، کبھی کہتے کہ آپ رسول ہیں تو ہمیں بہت سی دولت اور مال دے دیجئے تاکہ ہم کبھی محتاج نہ ہوں اور ہمارے لئے پہاڑوں کو سونا کردیجئے ۔ کبھی کہتے کہ گزشتہ اور آئندہ کی خبریں سنائیے اور ہمیں ہمارے مستقبل کی خبر دیجئے کہ کیا کیا پیش آئے گا ؟ تاکہ ہم منافع حاصل کرلیں اور نقصانوں سے بچنے کیلئے پہلے سے انتظام کرلیں ۔ کبھی کہتے ہمیں قیامت کا وقت بتادیں کہ کب آئے گی ؟ کبھی کہتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیسے رسول ہیں جو کھاتے پیتے بھی ہیں اور نکاح بھی کرتے ہیں ۔ اُن کی اِن تمام باتوں کا اِس آیت میں جواب دیا گیا کہ تمہارا یہ کلام نہایت بے محل اور جاہلانہ ہے کیونکہ جو شخص کسی چیز کا دعویٰ کرتا ہو اُس سے وہی باتیں دریافت کی جاسکتی ہیں جو اُس کے دعوے سے تعلق رکھتی ہوں ، غیر متعلق باتوں کا دریافت کرنا اور اُن کو اُس کے دعوے کے خلاف دلیل وحجت بنانا انتہا درجے کی جہالت ہے ۔ اس لئے ارشاد ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرما دیجئے کہ میرا دعویٰ یہ تو نہیں کہ میرے پاس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خزانے ہیں جو تم مجھ سے مال و ودلت کا سوال کرو اور اگرمیں تمہاری مرضی کے مطابق تمہارا دعویٰ پورا نہ کروں تو تم رسالت کے منکر ہوجاؤ اورنہ میرا دعویٰ ذاتی غیب دانی کا ہے کہ اگر میں تمہیں گزشۃ یا آئندہ کی خبریں نہ بتاؤں تو میری نبوت ماننے میں بہانہ کرسکو ۔ نیز نہ میں نے فرشتہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے کہ کھانا پینا اورنکاح کرنا قابلِ اعتراض ہو تو جن چیزوں کا دعویٰ ہی نہیں کیا، اُن کا سوال کرنا ہی بے موقع محل ہے اور ایسے سوال کو پورا کرنا بھی مجھ پر لازم نہیں ۔ میرا دعویٰ تونبوت و رسالت کا ہے اور جب اس پر زبردست دلیلیں اور قوی بُرہانیں قائم ہوچکیں تو غیر متعلق باتیں پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علمِ غیب کا انکار کرنے والوں کا رد
اس سے صاف واضح ہوگیا کہ اس آیتِ کریمہ کو تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے غیب پر مطلع کئے جانے کی نفی کے لئے سند بنانا ایسا ہی بے محل ہے جیسا کفار کا ان سوالات کو انکارِ نبوت کی دستاویز بنانا بے محل تھا ۔ مذکورہ بالاکلام کو پڑھنے کے بعد اب دوبارہ آیت کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے ، اسے پڑھیں اور غور کریں کہ کیا واقعی آیت میں یہی بیان نہیں کیا گیا ، فرمایا : (اے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) آپ فرما دیجیئے : میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں خود غیب جان لیتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کا پیروکار ہوں جو میری طرف آتی ہے اور یہی نبی کا کام ہے لہٰذا میں تمہیں وہی دوں گا جس کی مجھے اجازت ہوگی اور وہی بتاؤں گا جس کی اجازت ہوگی اوروہی کروں گا جس کا مجھے حکم ملا ہو ۔ اس آیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علمِ عطائی کی نفی کسی طرح مراد ہی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس صورت میں آیتوں میں تَعارُض کا قائل ہونا پڑے گا اور وہ بالکل باطل ہے ۔ (تفسیر خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲/۱۷،چشتی)(تفسیر مدارک، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۳۲۲، جمل ، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲/۳۵۳)
علامہ نظامُ الدین حسن بن محمد نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ ارشاد ہوا کہ’’ اے نبی !فرمادو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں ‘‘یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے میرے پاس نہیں ( بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں ) تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس ہیں مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لوگوں سے ان کی سمجھ کے قابل باتیں فرماتے ہیں (اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان سے ایسا فرمایا) اور وہ خزانے ’’تمام اشیاء کی حقیقت و ماہیت کا علم‘‘ ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسی کے ملنے کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ۔ پھر فرمایا ’’میں نہیں جانتا یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تو خود فرماتے ہیں ’’مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب کاعلم مجھے عطا کیا گیا ۔ (تفسیر نیشاپوری، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳/۸۳)
اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہیں ؟ اس سے مراد یہ ہے کہ کیا مؤمن و کافر اور عالم و جاہل برابر ہیں یعنی ہرگز برابر نہیں ہیں ۔
محترم قارئین : اِس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ کی عطا سے غیب جانتے تھے اور جو حضور کے لئے غیب کا علم نہیں مانے وہ قرآن کو جھٹلانے والا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment