Monday, 1 October 2018

مسئلہ حدیثِ قرطاس و فدک اہلسنت اور شی۔عہ کتب کی روشنی میں

مسئلہ حدیثِ قرطاس و فدک اہلسنت اور شی۔عہ کتب کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : کچھ احباب نے بار بار فرمایا کہ واقعہ قرطاس کے متعلق لکھیں تو جواباً عرض ہے اس موضوع پر ہم کئی بار تفصیل سے لکھ چکے اب شیعہ و سنی کتابوں کی روشنی میں واقعہ قرطاس کے متعلق حقائق پڑھتے ہیں ، جس کے متعلق بخاری شریف میں دو احادیث نقل ہیں ۔ پہلی قدرے مبہم ہے ، جبکہ دوسری نسبتاً مفصل طور اس واقعے کو بیان کرتی ہے ۔ بغض صحابہ رضی اللہ عنہم رکھنے والوں نے جو حدیث پکڑی ہے ، پہلے وہ ملاحظہ ہو : ⏬

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ نے فرمایا کہ میرے پاس لکھنے کی چیزیں لاؤ ، تاکہ میں تمہارے لیے ایک نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد پھر تم گمراہ نہ ہو گے ، عمر فاروق نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مرض غالب ہے اور ہمارے پاس اللہ تعالی کی کتاب ہے ، وہ ہمیں کافی ہے ، پھر صحابہ نے اختلاف کیا ، یہاں تک کہ شور بہت ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ اور میرے پاس تمہیں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے ، یہاں تک بیان کر کے ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی جگہ سے یہ کہتے ہوئے باہر آگئے کہ بے شک مصیبت ہے اور بڑی (سخت) مصیبت ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریر کے درمیان یہ چیز حائل ہو گئی ۔ (صحیح بخاری کتاب العلم باب کتاب العلم حدیث نمبر 114)

حدیث پاک میں یقیناً کہیں واضح نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا "لکھوانا" چاہتے تھے ۔ شیعہ استدلال کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصیت ، اور وصیت میں شیر خدا کو خلیفہ لکھنا چاہتے تھے ، جبکہ بخاری شریف کی ہی دوسری حدیث میں اس کی نسبتاً مختلف نشاندہی موجود ہے ۔ ملاحظہ ہو : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ جمعرات کا دن ! اور آہ جمعرات کا دن ! پھر انہوں نے ایسی گریہ وزاری کی کہ جس سے سنگریزے بھیگ گئے تو میں (ابن جبیر) نے پوچھا کہ اے ابوالعباس جمعرات کا دن کیسا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض میں شدت ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شانہ کی کوئی ہڈی لاؤ تو میں تم کو ایک تحریر لکھ دوں تاکہ تم لوگ میرے بعد گمراہ نہ ہو سکو لیکن لوگوں نے اختلاف کیا در آنحالیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جھگڑا نہیں کرنا چاہیے تھا پھر ان لوگوں نے کچھ سمجھ کر پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کو چھوڑ رہے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا تم مجھے چھوڑ دو میں جس حال میں ہوں وہ اس کیفیت و حالت سے اچھا ہے جس کی طرف تم مجھے بلاتے ہو ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین باتوں کے کرنے کا حکم دیا ۔ فرمایا کہ تم جزیزہ عرب سے مشرکوں کو نکال باہر کرو اور وفد کو اس طرح انعام دیتے رہنا جس طرح میں انعام و اکرام دیتا ہوں اور تیسری بات بھلی سی تھی جس کو کہ میں بھول گیا سفیان کا بیان ہے کہ یہ قول سلیمان رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الجزیہ باب إخراج الیہود من جزیرۃ العرب حدیث نمبر 3168،چشتی)

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَوْمُ الْخَمِیسِ وَمَا یَوْمُ الْخَمِیسِ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللہ وَجَعُه فَقَالَ ائْتُونِي أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَه أَبَدًا فَتَنَازَعُوا وَلَا یَنْبَغِي عِنْدَ نَبِیٍّ تَنَازُعٌ فَقَالُوا مَا شَأنُه أَهجَرَ اسْتَفْهمُوه فَذَهبُوا یَرُدُّونَ عَلَیْه فَقَالَ دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِیه خَیْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَیْه وَأَوْصَهمْ بِثَلَاثٍ قَالَ أَخْرِجُوا الْمُشْرِکِینَ مِنْ جَزِیرَة الْعَرَبِ وَأَجِیزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا کُنْتُ أُجِیزُهمْ وَسَکَتَ عَنِ الثَّالِثَة أَوْ قَالَ فَنَسِیتُها ۔
ترجمہ : حضرت سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ جمعرات! اور جمعرات کا روز کیا ہے ؟ اس روز رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کرگئی تھی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے لکھنے کی چیزیں لاکر دو تاکہ میں تمہیں ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوسکو۔ کچھ لوگ جھگڑنے لگے ، حالانکہ نبی کی بارگاہ میں جھگڑنا مناسب نہ تھا۔ بعض حضرات کہنے لگے کہ شاید آپ بیماری کے باعث ایسا فرما رہے ہیں ۔ پس انہوں نے دوبارہ جاکر دریافت کیا ، تو فرمایا اس بات کو جانے دو ۔ جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی جانب تم بلا رہے ہو، اور آپ نے انہیں تین باتوں کی وصیت فرمائی ۔ (1) مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دینا ۔ (2) سفیروں کے ساتھ اسی طرح حسن سلوک کرنا جیسے میں کرتا تھا۔ تیسری وصیت سے وہ خاموش ہوگئے یا فرمایا کہ میں بھول گیا ۔ (صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 1612 الرقم : 4168 دار ابن کثیر الیمامة بیروت،چشتی)

دوسری روایت میں ہے : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہ عَنْهمَا قَالَ لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللہ وَفِي الْبَیْتِ رِجَالٌ فَقَالَ النَّبِيُّ هلُمُّوا أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَه فَقَالَ بَعْضُهمْ إِنَّ رَسُولَ اللہ قَدْ غَلَبَه الْوَجَعُ وَعِنْدَکُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا کِتَابُ اللہ فَاخْتَلَفَ أَهلُ الْبَیْتِ وَاخْتَصَمُوا فَمِنْهمْ مَنْ یَقُولُ قَرِّبُوا یَکْتُبُ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَه وَمِنْهمْ مَنْ یَقُولُ غَیْرَ ذَلِکَ فَلَمَّا أَکْثَرُوا اللَّغْوَ وَالِاخْتِلَافَ قَالَ رَسُولُ اللہ قُومُوا قَالَ عُبَیْدُ اللہ فَکَانَ یَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّ الرَّزِیَّة کُلَّ الرَّزِیَّة مَا حَالَ بَیْنَ رَسُولِ اللہ وَبَیْنَ أَنْ یَکْتُبَ لَهمْ ذَلِکَ الْکِتَابَ لِاخْتِلَافِهمْ وَلَغَطِهمْ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کا وقت قریب آیا تو کاشانہ رسالت میں کافی لوگ جمع تھے ۔ اس وقت نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری نزدیک آجاؤ ۔ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دیتا ہوں تاکہ میرے بعد تم گمراہی سے بچے رہو ۔ بعض حضرات کہنے لگے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شدتِ مرض کے باعث ایسا فرما رہے ہیں ۔ جبکہ قرآن کریم تمہارے پاس موجود ہے ، تو ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ پس اہل بیت نے اس خیال سے اختلاف کیا اور جھگڑنے لگے ۔ بعض حضرات کہنے لگے کہ نزدیک جاکر تحریر لکھوالی جائے تاکہ ہم بعد میں گمراہی سے بچے رہیں ، اور بعض حضرات نے کچھ اور رائے پیش کی۔ جب یہ بیکار اختلاف بڑھ گیا تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے اُٹھ جاؤ ۔ عبیداللہ کا بیان ہے کہ حضرت ابن عباس فرمایا کرتے کہ یہ کتنی بڑی مصیبت آ پڑی تھی کہ بعض حضرات اختلاف اور بیکار گفتگو کر کے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جس تحریر کو لکھنے کے لئے آپ فرماتے تھے، اس کے درمیان حائل ہوگئے ۔ (صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 1612 الرقم : 4169،چشتی)

یہاں چند باتیں قابل غور ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرضِ وصال میں جمعرات کے دن کاغذ و قلم مانگا اس کے بعد پانچویں دن یعنی بروز سوموار آپ کا وصال ہوا اگر یہ تحریر لکھنا ضروری ہوتا تو اتنے وقفہ میں کسی بھی وقت لکھ سکتے تھے ، مگر ایسا نہیں ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کاغذ قلم اہل بیت سے مانگا تھا تو وہ لاتے ، اس میں شور و غل کی کیا ضرورت تھی ؟ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پیش کرتیں ، ازواج مطہرات پیش کرتیں ، حضرت علی یا حضرت عباس رضی اللہ عنہم لاتے ۔ ان میں سے بعض حضرات نے قلم کاغذ لانے کی بجائے اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا ، جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناراض ہو کر فرمایا ’’اٹھ کر چلے جاؤ‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دینا مناسب نہیں ۔ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر برستے ہیں کہ انہوں نے رکاوٹ کیوں ڈالی ؟ جواب یہ ہے کہ گھر والے یعنی حضرت علی ، حضرت عباس ، سیدہ فاطمہ یا امہات المؤمنین میں سے کوئی قلم کاغذ لے آتا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہم یا کوئی اور مزاحمت کرتا تو اس کے خلاف فرد جرم عائد کرتے ۔ نہ اہل خانہ قلم کاغذ لائے ، نہ کسی نے رکاوٹ ڈالی پھر الزام کیسا ؟ کسی بھی گھر کا بزرگ ترین یا عام فرد شدید بیمار ہو مرض موت میں کسی چیز کا مطالبہ کرے مثلاً پانی پلاؤ ۔ دوائی لاؤ ، فلاں کو بلاؤ ، کھانا کھلاؤ ، ہسپتال لے جاؤ ، ڈاکٹر کو بلاؤ وغیرہ تو یہ مطالبہ بیمار پرسی کرنیوالوں سے نہیں اہل خانہ سے ہوتا ہے گھر والے عمل کریں ، یا نہ کریں ان پر منحصر ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا لکھوانا چاہتے تھے ؟ ۔ : ⏬

عَنْ سُلَیْمَانَ الْأَحْوَلِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَوْمُ الْخَمِیسِ وَمَا یَوْمُ الْخَمِیسِ ثُمَّ بَکَی حَتَّی بَلَّ دَمْعُه الْحَصَی فَقُلْتُ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ وَمَا یَوْمُ الْخَمِیسِ قَالَ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللہ وَجَعُه فَقَالَ ائْتُونِي أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدِي فَتَنَازَعُوا وَمَا یَنْبَغِي عِنْدَ نَبِیٍّ تَنَازُعٌ وَقَالُوا مَا شَأْنُه أَهجَرَ اسْتَفْهمُوه قَالَ دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِیه خَیْرٌ أُوصِیکُمْ بِثَلَاثٍ أَخْرِجُوا الْمُشْرِکِینَ مِنْ جَزِیرَة الْعَرَبِ وَأَجِیزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا کُنْتُ أُجِیزُهمْ قَالَ وَسَکَتَ عَنْ الثَّالِثَة أَوْ قَالَها فَأُنْسِیتُها ۔
ترجمہ : سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جمعرات کا دن بھی کس قدر ہولناک دن تھا ، جمعرات کا دن ! پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس قدر روئے کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں تر ہوگئیں ۔ میں نے کہا اے ابن عباس ! جمعرات کے دن کیا واقعہ ہوا تھا ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درد زیادہ ہو گیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قلم اور کاغذ لاؤ ، میں تم کو ایسی چیز لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے (قلم اور کاغذ کے متعلق) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں اختلاف کرنے لگے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اختلاف مناسب نہیں تھا ۔ صحابہ نے کہا کیا سبب ہے ؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الوداع ہو رہے ہیں ؟ آپ سے پوچھو ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے چھوڑ دو ، میں جس حال میں ہوں وہ بہتر ہے ۔ میں تم کو تین چیزوں کی وصیت کر رہا ہوں ، مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو ، وفود کی اس طرح عزت کیا کرو جس طرح میں عزت کرتا ہوں ، تیسری بات سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما خاموش ہو گئے یا انہوں نے بیان کی تھی اور میں بھول گیا ۔ (صحیح مسلم جلد 3 صفحہ 1257 الرقم : 1637 دار احیاء التراث العربی بیروت،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کیا لکھوانا چاہتے تھے ؟ : ⏬

عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ قَالَ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَة وَا رَأْسَه فَقَالَ رَسُولُ اللہ ذَاکِ لَوْ کَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَکِ وَأَدْعُوَ لَکِ فَقَالَتْ عَائِشَة وَا ثُکْلِیَه وَاللہ إِنِّي لَأَظُنُّکَ تُحِبُّ مَوْتِي وَلَوْ کَانَ ذَاکَ لَظَلِلْتَ آخِرَ یَوْمِکَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِکَ فَقَالَ النَّبِيُّ بَلْ أَنَا وَا رَأْسَه لَقَدْ همَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ وَابْنِه وَأَعْهدَ أَنْ یَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ یَتَمَنَّی الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ یَأْبَی اللہ وَیَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ یَدْفَعُ اللہ وَیَأْبَی الْمُؤْمِنُونَ ۔
ترجمہ : قاسم بن محمد کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے کہا: ہائے سر پھٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کاش ! میری زندگی میں ایسا ہوجاتا تو میں تمہارے لیے استغفار کرتا اور دعا مانگتا ۔ حضرت عائشہ عرض گزار ہوئیں : ہائے مصیبت ! خدا کی قسم ! کیا میں گمان کروں کہ آپ میری موت چاہتے ہیں ، اور اگر ایسا ہوگیا تو آپ دوسرا دن اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس گزاریں گے ۔ اسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بلکہ میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے ۔ لہٰذا میرا فیصلہ ہوا یا میں نے ارادہ کیا کہ ابو بکر اور ان کے صاحبزادے کو بلا بھیجوں اور ان سے عہدِ خلافت لوں ورنہ کہنے والے جو چاہیں کہیں گے اور خواہش کرنے والے خواہش کریں گے ۔ پھر میں نے کہا (کہ اس کی ضرورت نہیں کیونکہ) اللہ تعالیٰ اس کے خلاف نہیں چاہتا اور مسلمان اس کی مخالفت کو ہٹا دیں گے یا اللہ مخالف کو ہٹا دے گا اور مسلمان کسی دوسرے کو قبول نہیں کریں گے ۔ (صحیح بخاری جلد 5 صفحہ 2145 الرقم : 5342،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری بیماری میں قلم کاغذ منگوائے ۔ حاضرین میں سے بعض نے لانے کو کہا بعض نے اس وقت لانا مناسب نہ سمجھا اس بحث مباحثہ میں آوازیں بلند ہوئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیکر سب کو خاموش کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہمیں کتاب اللہ (القرآن) کافی ہے ، بعض صحابہ مثلاً حضرت عباس رضی اللہ عنہم پر یہ طرز عمل بہت ناگوار گزرا مگر قلم کاغذ کسی نے پیش نہیں کیا ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت آپ کو تکلیف دینے کو مناسب نہ سمجھا گیا اس کے بعد پانچ دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات رہے مگر دوبارہ قلم کاغذ نہ مانگا جس کا مطلب ہے کہ تحریر ضروری نہ تھی جو فرمانا تھا آخر وقت تک فرماتے رہے ۔ امت نے اس کو سنا سمجھا اور اس پر عمل کیا ۔ اگر یہ تحریر لازمی ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے نبی ہیں کسی کے ماننے یا انکار کی پرواہ کیے بغیر لکھوا سکتے تھے ۔ کسی کی مجال تھی کہ رکاوٹ ڈالتا ؟ جب ساری دنیا مخالف اور دشمن تھی ، اس وقت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کی مخالفت کی پرواہ نہ کی اب تو سارے جان قربان کرنے والے فدائی تھے ، کس کی جرات تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارادے میں حائل ہوتا ؟ ۔ یہ ہے حدیث قرطاس کا پس منظر اور مفہوم ۔

حدیثِ قرطاس سے متعلق ایک سوال کا جواب از استاذی المکرّم غزالی زماں حضرت علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ۔ ترتیب و پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی : ⏬

حضرات محترم :  ابھی ابھی ایک رقعہ موصول ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ آج ظہر کے بعد کی نشست میں آپ نے حدیث قرطاس کا ذکر کرتے ہوئے آیت کریمہ’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی ۔ ( النجم آیت ۳) پڑھی تھی اور اس آیت کو بنیاد قرار دیتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہر قول وحی خدا ہے اگر یہ امر اپنے حقیقی معنی میں ہے تو پھر ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہر امر پر عمل کرنا لازم ہے اور حدیث قرطاس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ایسا نہیں ہوا ۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی حیات دینوی کے آخری ایام میں فرمایا کہ لاٶ میرے پاس کاغذ‘ قلم اور دوات تاکہ میں تمہیں ایک نوشتہ لکھ دوں جو تم کو گمراہی سے بچالے اس میں کسی کی تخصیص نہیں ہے کہ فلاں یہ چیز یں لائے جملہ صحابہ کرام کو حکم تھا اور وہ سب کے سب خاموش رہے‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شاید سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو (بوجہ بشریت) تکلیف کے احساس کا غلبہ ہے ۔
وَعِنْدَنَا کِتَابُ اللّٰہِ وَھُوَ حَسْنُبَا ۔
ترجمہ : اور ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب موجود ہے اور وہ ہمیں کافی ہے۔
امام العادلین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس جواب کو بعض لوگ سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حکم کے خلاف ورزی قرار دیتے ہیں اور اس کو نافرمانی اور سرکشی پر محمول کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں سرکشی اختیار کرے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فرمان کی تعمیل نہ کرے اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حکم کو بجا نہ لائے اس کا مقام کیا ہوگا ؟
یہ ایک سوال ہے اور اس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ ارشاد بصیغہ امر‘ بلا تخصیص نام اور زندگی (ظاہری زندگی)کے آخری ایام میں اس بات کا غماض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنے ماننے والوں کا امتحان لے رہے تھے حقیقتاً لکھنا ، لکھوانا مقصود نہ تھا ۔
حدیث قرطاس کے تحت یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ امر دین کے معاملہ سے تھا یا نہیں؟ حالانکہ جس بات کا تعلق دین کے معاملہ سے ہواس کا انکار گمراہی کے بغیر کچھ نہیں کیونکہ دین کا خلاصہ یہ ہے کہ ضلالت سے بچا جائے اور ہدایت پر عمل کیاجائے اس حقیقت کا اعتراف نماز میں بھی موجود ہے ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ اور میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  جو بات امر دین سے فرمائیں وہ یقینا وحی الہی ہوگی جس کا ذکر ک کی آیت مذکورہ میں ہے سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ ارشاد’’من حیث الرسول‘‘ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگا اور حدیث قرطاس میں جو یہ ہے کہ لائو کاغذ‘ قلم دوات تاکہ تمہیں نوشتہ لکھدوں کہ تم گمراہی سے بچ جائو اور ہدایت پر قائم رہو‘ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ ارشاد جمعرات کے دن فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال مبارک پیر کے دن ہوا‘ اس عرصہ میں نہ تو سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کوئی نوشتہ لکھوایا اور نہ ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حسبنا کتاب اللہ فرمانے پر کوئی ضلالت و گمراہی کا فتوی دیا تو کیا معاذ اللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم امر دین اور حکم الہی کی بجا آوری سے پہلو تہی کرگئے؟ اور یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ قرآن مجید نے کہا : یَا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ۔
ترجمہ : اے رسول پہنچادیجئے جو اتارا گیا آپ پر آپ کے رب کی طرف سے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اپنے رب کا پیغام آپ نے نہ پہنچایا ۔

اکابر صحابہ کرام نے بھی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے حسبنا کتاب اللہ کہنے پر کوئی احتجاج نہیں کیا‘ صحابہ کرام میں سے بعض کے اختلاف کی جو روایات ہیں اصولاً یہ اختلاف کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی بات سے اختلاف نہیں فرمایا اور اکابر صحابہ کرام نے اختلاف نہیں کیا تو پھر کسی اور کے اختلاف کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ اختلاف کرنیوالے عظیم المرتبت صحابی تو ضرور تھے مگر یہ حضرات ابھی اس مقام پر نہ پہنچے تھے جو درجہ کمال اکابر صحابہ کرام کو حاصل ہوچکا تھا‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اکابر صحابہ کرام سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ اختلاف کی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اکابر صحابہ کرام کو تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دین کے کمالات کے منتہیٰ پر پہنچا دیا تھا اور وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بات کو سمجھ گئے تھے۔
جن حضرت نے اختلاف کیا تو انکا اختلاف بھی نیک نیتی پر مبنی تھا وہ یہ چاہتے تھے کہ فرمان رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تکمیل بہر حال ہونی چاہیے۔ ان کی اس بات اور اختلاف کو رائے اور مشورہ پر محمول کیاجائے گا اور اختلاف امتی رحمتہ کا مصداق کہاجائے گا ور نہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ انکے اختلاف کے ہوتے ہوئے سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی فرما دیتے کہ اے عمر فاروق رضی اللہ عنہ تم کو حسبنا کتاب اللہ کہنے کا حق کس نے دیا ہے؟ تو معلوم یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  کا وہ ارشاد وحی الہی بھی تھا اور امردین بھی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ضرورنوشتہ لکھا جائے اور اسی پر عمل کیاجائے اگر اس مطلب کو صحیح سمجھ لیاجائے تو پھر ماننا پڑے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس مطلب کو پورا نہیں فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے وحی الہی کے مقصد کو نہیں سمجھا اور دین کے معاملہ کو نافذ نہیں کیا۔ ایسی باتوں کوماننا بربادی ایمان کا سبب نہیں تو اورکیا ہے ۔
بالفرض ان باتوں کو ممکن مان لیاجائے تو لوگ کہیں گے کہ تمہارے نبی نے آخری مرحلہ میں نہ تو وحی الہی کے مقصد کو سمجھا اور نہ ہی اسکو پورا کیا بلکہ حکم الہی پر عمل کرانے سے عاجز رہے کیا ایسی باتیں سید المعصومین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں برداشت کرنے کی کسی مسلمان میں ہمت ہے؟
جوبات سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ وحی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی مگر اس وحی سے مقصود لکھوانا نہیں تھا تو پھر کیا مقصود تھا ؟ میں نے اس کا جواب یہ دیا تھا کہ اس کا مقصد محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبان مبارک سے ان کلمات کو ادا کرانا تھا اور بس! کیونکہ عنقریب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا سے رخصت ہوکر آخرت کا سفر فرمانے والے تھے اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ جب بھی صحابہ کرام کوکوئی مشکل پیش آتی تو وہ فوراً بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں چلے آتے اور اپنی مشکل حل کرالیتے ان کا مسئلہ حل ہوجاتا تھا لیکن اب ایسا وقت آنے والا تھا کہ وحی کا نزول بند ہونے والا تھااور سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عالم برزخ میں تشریف لیجانے والے تھے۔ تو اب پیش آمدہ مسائل کے حل کی صورت کیا ہوگی اگر پیش آمدہ مسائل حل نہ ہوں تو دین کی گاڑی آگے نہ چل سکے گی ۔
اس معمہ کو حل کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  ان کو حکم دیں کہ وہ کاغذ‘ قلم دوات لے آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کے لئے نوشتہ تحریر کریں اس وقت صحابہ کرام میں وہ لوگ بھی موجود تھے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نیابت و خلافت پرفائز ہونے والے تھے اور دین کے مسائل کو سمجھنے اور مشکل مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت اور انوار نبوت نے ان کے سینوں کو چمکا دیا تھا اور وہ دین کے کمالات کے منتہیٰ پر پہنچ چکے تھے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس وقت ایسے لوگ چھوڑ کر نہیں جارہے تھے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دین کو ختم کرکے جارہے تھے۔
ایسے تمام اعتراضات کو ختم کرنے کےلیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا! اے محبوب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ایسا فرمانے سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فیض یافتہ اکابر صحابہ کرام میں سے کوئی بول اٹھے گا اور عرض کردے گا‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ ہمیں راستہ پر چھوڑ کرنہیں جارہے کہ ہر مسئلہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نئے ارشاد کی ضرورت ہو۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمیں اس مقام پر پہنچا کر اور ایسا نور عطا فرما کرجارہے ہیں کہ سنت و احادیث کی روشنی میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی کتاب کافی ہے۔ مقصد وحی الہی اور منشائے نبوت یہی تھا ۔ جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حسبنا کتاب اللہ کہنے سے پورا ہوگیا اگر یہ مقصد و منشا نہ ہوتا تو پھر اکابرصحابہ کرام یا حضور پرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور خود اللہ تعالیٰ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی اس بات کو سرکشی اور مخالفت کہتے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ باطل چیز ھادی برحق کے سامنے آئے اور وہ خاموش رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ‘حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  کا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘ عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اس بات پر انکار نہ کرنا اس حقیقت کو اور زیادہ واضح کررہا ہے‘ خلفائے ثلاثہ کے سکوت سے معلوم ہوا کہ وہ حضرات بھی اس مقام پر فائز ہوچکے تھے جس مقام پرحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔ میں تو کہتا ہوں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان سب کے ترجمان تھے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ ان کی زبان پراللہ تعالیٰ بولتا ہے تو وہ حضرات سمجھ گئے تھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی طرف سے ایسا نہیں کہہ رہے بلکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہہ رہے ہیں اور جو بات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے ہو اس کو ماننے کا نام ایمان ہے اور اس کا انکار کفر ہے ۔ اللہ ہم سب کو راہ ہدایت عطا کرے آمین ۔

آپ نے ملاحظہ کیا ۔ مطلب کافی حد تک واضح ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا "لکھوانا" چاہتے تھے ۔ "تیسری بات جو یاد نہیں" کا ایک مطلب ضرور بہ ضرور یہی ہو سکتا ہے کہ میرے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنالینا ، لیکن تب یہ بھی ضرور بہ ضرور ہو سکتا ہے کہ جسے میں نے اپنی جگہ امامت سونپی ، اسے خلیفہ بنا لینا ۔ ثبوت پیش خدمت ہے شیعہ کتب سے : ⏬

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان درج ہے : ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ظاہرہ میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی جلد اول صفحہ 332)

ایک اور جگہ ہے کہ حضرت علی شیر خدا نے ارشاد فرمایا : ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر ۔
یعنی : اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی جلد دوم صفحہ 428)

ایک اور مقام پر ابوبکر و عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا : انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اللہ ومن اقتدی بہما عصم ۔
ترجمہ : یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مقتدی ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی ، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی جلد 2 صفحہ 428،چشتی)

ایک اور جگہ حضرت مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر ۔
ترجمہ : بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ (عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی جلد اول صفحہ 313،چشتی)(معانی الاخبار قمی صفحہ 110)(تفسیر حسن عسکری)

اور کوفہ کے منبر پر شیر خدا کیا فرما رہے ہیں ملاحظہ ہو : لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری ۔
ترجمہ : اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیا جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہو گا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم : 257)(معجم الخونی صفحہ 153)

سفیان ثوری علیہ الرحمہ حضرت محمد بن سکندر سے روایت کرتے ہیں کہ : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ۔
ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگائوں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ۔ (رجال کشی صفحہ 338 سطر 4 تا 6 مطبوعہ کربلا)

مزید فضائل صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اللہ عنہما درکار ہوں تو خواجمہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "شیعہ مذہب" ملاحظہ فرما لیجیے گا ۔ اصول کافی کی احادیث بھی مل جائیں گی ۔

مزید ملاحظہ ہو کہ اس ضمن میں شیعہ مفسرین قرآن کیا فرماتے ہیں : والذی جآء بالصدق وصدق بہ اولٰئک ہم المتقون ۔ (سورۂ زمر، آیت 33 ، پارہ 24)
ترجمہ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی متقی اور پرہیز گار ہیں ۔

شیعہ حضرات کی مستند تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر بیان کرتے لکھا ہے : الذی جاء بالصدق رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و صدق بہ ابوبکر ۔
یعنی : جو صدق لے کر آئے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور جس نے ان کی تصدیق کی ، وہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ہیں۔ (تفسیر مجمع البیان جلد 8 صفحہ 498 سطر 19 - 18 مطبوعہ بیروت،چشتی)

ولایاتل اولو الفضل منکم والسعۃ ان یؤتو اولی القربیٰ والمساکین والمہاجرین فی سبیل ﷲ (سورۂ نور آیت 22 پارہ 18)
ترجمہ : اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں۔ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی ۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے شیعہ حضرات کے مستند مفسر شیخ ابوعلی الفضل بن الحسن الطبرسی لکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) اور مسطح بن اثاثہ (رضی اللہ عنہ) کی شان میں نازل ہوئی ۔ عبارت یہ ہے : ان قولہ لایاتل اولوا الفضل منکم الایۃ نزلت فی ابی بکر و مسطح بن اثاثۃ ۔ (تفسیر مجمع البیان جلد 7 صفحہ 133 مطبوعہ بیروت)

والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوہم باحسان رضی ﷲ عنہم و رضوا عنہ واعد لہم جنٰت تجری تحتہا الانہٰر خٰلدین فیہا ابداً ۔ ذلک الفوز العظیم ۔ (سورۂ توبہ آیت 100 پارہ 11)
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں، باغ جن کے نیچے نہریں ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں، یہی بڑی کامیابی ہے ۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے شیعہ مفسر شیخ ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی لکھتے ہیں کہ : ان اول من اسلم بعد خدیجۃ ابوبکر ۔
ترجمہ : تحقیق حضرت خدیجہ کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابوبکر ہیں ۔ (تفسیر مجمع البیان جلد 5 صفحہ 65 سطر 21 مطبوعہ بیروت)

اب تک صرف شیعہ کتب کے حوالے پیش کیے گئے تو کہیں یہ مت سمجھ بیٹھیے گا کہ خلافتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہلسنت کی کتب خاموش ہیں ۔ ملاحظہ ہوں صحاح ستہ سے اس ضمن میں واشگاف شہادتیں : ⏬

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی علالت کے دوران مجھے ہدایت کی کہ اپنے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ اور اپنے بھائی کو میری پاس بلواٶ تاکہ میں انہیں کوئی تحریر "لکھ" دوں کیونکہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کوئی اور شخص (خلافت کا) آرزو مند ہو سکتا ہے اور یہ کہہ سکتا ہے کہ میں (خلافت کا) زیادہ حق دار ہوں۔ حالانکہ اللہ اور اہل ایمان صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ کو (خلیفہ کے طور) پر قبول کریں گے ۔ (صحیح مسلم جلد سوم کتاب فضائل الصحابہ حدیث نمبر 6057،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک عورت آئی اور اس عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی چیز کے متعلق کلام کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ وہ دوبارہ آئے ۔ اس عورت نے عرض کیا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے خبر دیں اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آٶں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پاٶں گویا کہ اس عورت کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ظاہری تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تو آئے اور مجھے نہ پائے تو پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آجانا ۔ (صحیح بخاری جلد سوم کتاب الاحکام حدیث نمبر 2084)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ظاہری ہوا تو انصار نے کہا کہ ہم میں سے ایک صاحب کو امام ہونا چاہیے اور مہاجرین میں سے ایک امیر ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے دریافت کیا ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا تھا۔ تم میں کون ایسا شخص ہے کہ جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مقدم ہونے پر راضی ہو۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے فرمایا کہ ہم اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مقدم ہوں ۔ (سنن نسائی کتاب الامۃ)

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آیات قرآنیہ ، احادیث نبویہ اور اقوال شیر خدا و دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان کی بناء پر انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد افضل الناس ہیں ۔ اہلسنت کا انہی تمام نصوص کے سبب اجماع ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام بنی نوع انسان میں افضل ہیں ۔ جنہیں شیر خدا نے خلیفہ مان لیا انہیں ہم نہ ماننے والے کون ہوتے ہیں ۔ اور آئیں اب یہ بھی سمجھ لیں کہ واقعہ فدک میں حصہ حقیقتاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے باعث نہ دیا ہوگا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ۔ حدیث ملاحظہ ہو : ⏬

حضرت عروہ بن زبیر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کےلیے پیغام بھیجا ۔ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کرتے ہوئے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ منورہ اور فدک میں عطا فرمایا تھا اور جو خیبر کے خمس سے باقی تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑیں ، وہ صدقہ ہے ، جس مال سے آل محمد کھاتے ہیں ۔ اور خدا کی قسم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں ذرا سی تبدیلی بھی نہیں کروں گا اور اسی حال میں رکھوں گا جس حال میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں تھا اور میں اس میں عمل نہیں کروں گا مگر اسی طرح جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے ۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ دینے سے انکار کر دیا ۔ (سنن ابو داٶد جلد دوم کتاب الخراج حدیث نمبر 1194،چشتی)

حالانکہ حدیث مذکورہ میں کہیں بھی حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے خفا ہونے کی شہادت موجود نہ شیعہ کتب کی روایت میں تاعمر خفا رہنے کی ، لیکن بغض صحابہ رکھنے والوں کا اجماع ہے کہ اس بات کو لے کر فاطمة الزہرہ رضی اللہ عنہا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے تمام عمر ناراض رہیں۔ یہاں میں نے اپنی طرف سے کوئی شرح کر بھی دی تو کس نے ماننی ہے ، لہٰذا آئیں شیعہ کتب سے ہی تفصیل ملاحظہ فرما لیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کیا واقعی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے خفا رہیں : ⏬

شیعوں کی معتبر اور مشہور ترین کتاب شرح نہج البلاغہ ابن مسیم بحرانی جز 35 ص 543 میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب سیدہ کا کلام سنا تو حمد کی، درود پڑھا اور پھر حضرت فاطمہ کو مخاطب کرکے کہا کہ اے افضل عورتوں میں اور بیٹی اس ذات مقدس کی جو سب سے افضل ہے۔ میں نے رسول کی رائے سے تجاوز نہیں کیا۔ اور نہیں عمل کیا میں نے، مگر رسول کے حکم پر۔ بے شک تم نے گفتگو کی اور بات بڑھا دی اور سختی اور ناراضگی کی۔ اب ﷲ معاف کرے ہمارے لیے اور تمہارے لیے۔ اور میں نے رسول کے ہتھیار اور سواری کے جانور علی کو دے دیئے لیکن جو کچھ اس کے سوا ہے اس میں، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : انا معاشر الانبیاء لا نورث ذہباً ولا فضۃ ولا ارضاً ولا عقاراً ولا داراً ولکنا نورث الایمان والحکمۃ والعلم والسنۃ وعملت بما امرنی ونصحت ۔
ترجمہ : ہم جماعت انبیاء نہ سونے کی میراث دیتے ہیں نہ چاندنی کی، نہ زمین کی، نہ کھیتی کی اور نہ مکان کی میراث دیتے ہیں ، لیکن ہم میراث دیتے ہیں ایمان اور حکمت اور علم اور سنت کی۔ اور عمل کیا میں نے اس پر جو مجھے حکم کیا تھا (رسول نے) اور میں نے نیک نیتی کی ۔

اس کے بعد یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایا کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک کو ہبہ کردیا تھا جس پر انہوں نے علی اور ام ایمن کو گواہ پیش کیا۔ جنہوں نے گواہی دی پھر عمر آئے۔ انہوں نے اور عبدالرحمن بن عوف نے یہ گواہی دی کہ حضور فدک کی آمدنی تقسیم فرما دیتے تھے۔ اس پر حضرت صدیق اکبر نے فرمایا : کان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم یاخذ من فدک قوتکم ویقسم الباقی ویحمل فیہ فی سبیل ﷲ ولک علی ﷲ ان اصنع بہاکما کان یصنع فرضیت بذلک واخذت العہد علیہ بہ وکان یاخذ غلتھا فیدفع الیہم منھاما یکفیہمم ثم فعلت الخلفاء بعدہ ذلک ۔ (شرح مسیم مطبوعہ ایران جلد 35)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فدک کی آمدنی سے تمہارے گزارے کےلیے رکھ لیتے تھے، اور باقی جو بچتا تھا اس کو تقسیم فرما دیتے تھے اور اللہ کی راہ میں اس میں سے اٹھا لیتے تھے اور میں تمہارے لیے اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ فدک میں وہی کروں گا جو رسول کرتے تھے تو اس پر فاطمہ راضی ہوگئیں اور فدک میں اسی پر عمل کرنے کو ابوبکر سے عہد لے لیا اور ابوبکر فدک کی پیداوار کرلیتے تھے اور جتنا اہل بیت کا خرچ ہوتا تھا ان کے پاس بھیج دیتے تھے اور پھر ابوبکر کے بعد اور خلفاء نے بھی اسی طرح کیا ۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کی رضا مندی والی یہ روایت صرف ابن میثم ہی نے نہیں بلکہ متعدد علمائے شیعہ نے اپنی کتابوں میں ذکر کی ہے جن کے نام یہ ہیں ۔ (درنجیفہ شرح نہج البلاغہ مطبوعہ طہران صفحہ 332)(حدیدی شرح نہج البلاغۃ جلد دوم جز 16 صفحہ 296،چشتی)(سید علی نقی فیض الاسلام کی تصنیف فارسی شرح نہج البلاغہ جز 5 صفحہ 960)

رضامندی کی اس روایت سے مندرجہ ذیل امور معلوم ہوئے : ⏬

1- فدک کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرز عمل اور صدیق اکبر کے طرز عمل میں کوئی تفاوت نہیں تھا ۔
2- حضرت فاطمہ صدیق اکبر سے راضی تھیں اور صدیقی طرز عمل آپ کو پسند تھا ۔

یہی نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی سیدہ راضی تھیں ۔ ثبوت شیعوں کی مشہور مذہبی کتاب حق الیقین مطبوعہ ایران کے صفحہ 71 پر ہے : کہ چوں علی وزبیر بیعت کرد ونداویںفتنہ فرد نشست، ابوبکر آمدہ شفاعت از برائے عمر ف فاطمہ از وراضی شد ۔
ترجمہ : پھر جب حضرت علی و زبیر نے بیعت کرلی تو حضرت ابوبکر آئے اور حضرت عمر کے متعلق سفارش کی تو حضرت فاطمہ عمر سے بھی راضی ہو گئیں ۔

رہا اعتراض حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نماز جنازے میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عدم شرکت کا ، (جو صرف شیعوں کا ماننا ہے) تو شیعہ روایت کے مطابق سیدہ کے جنازے میں صرف سات لوگ شامل ہوئے ۔ ان میں تو امام حسن اور حسین ، عبد اللہ بن عباس، عقیل بن ابی طالب برادر حقیقی حضرت علی ، ابو ایوب انصاری ، ابو سعید خدری ، سہل بن حنیف ، بلال ، صہیب ، براء بن عاذب ، ابو رافع بھی شامل نہ تھے جن کی جلالت قدر کے شیعہ قائل ہیں ۔ ملاحظہ ہوں شیعوں کی معتبر کتاب جلاء العیون میں کلینی سے روایت میں جنازے کے سات شرکاء کے نام ۔

از حضرت امیر المومنین صلوات اللہ علیہ روایت کردہ است کہ ہفت کس بر جنازۂ حضرت فاطمہ نماز کردند، ابوذر سلمان ، حذیفہ ، عبد اللہ بن مسعود و مقداد ومن امام ایشاں بودم ۔ (جلاء العیون)
ترجمہ : حضرت امیر المومنین علی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ۔ صرف سات آدمیوں نے فاطمہ کی نماز جنازہ پڑھی جن کے نام یہ ہیں۔ ابوذر، سلمان ، حذیفہ ، عبد اللہ بن مسعود، مقداد اور میں ان کا امام تھا ۔ لہٰذا اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ واقعہ قرطاس و فدک اس طرح ہرگز نہیں ہوا جس طرح شیعوں سے سیکھ کر ملحد اور تفضیلی نیم رافضی حضرات بیان کرتے ہیں ، بلکہ اس کی اصل وہی ہے جو مسلمانوں کا عقیدہ اور نصوص سے ثابت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...